الباء: (حرف جار) یہ ہمیشہ فعل ظاہر یا مضمر کے متعلق ہوکر استعمال ہوتی ہے پھر متعلق بفعل ظاہر دو قسم پر ہے۔ (۱) ہمزہ افعال کی طرح تعدیہ فعل کے لیے آتی ہے جیسے ذھبت بہ واذھبتُہٗ۔ قرآن پاک میں ہے(1) (وَ اِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا کِرَامًا ) (۲۵:۷۲) جب ان کو بیہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو بزرگانہ انداز سے گزر جاتے ہیں۔ (۲) آلہ کے لیے ہوتی ہے(2) جیسے قطعتہٗ بالسکین (میں نے اسے چھری سے کاٹا) اور متعلق بمضمر کبھی موضع حال میں ہوتی ہے۔ جیسے خرج بسلاحہ (یعنی وہ نکلا) کے دراں حالیکہ اس پر یا اس کے ساتھ اسلحہ بھی تھا۔ اور کبھی زائدہ ہوتی ہے جیسے فرمایا: (وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُؤۡمِنٍ لَّنَا ) (۱۲:۱۷) اور اب ہماری بات کو باور نہیں کریں گے۔ اس جگہ میں اور مَااَنْتَ مُؤْمِنًا میں فرق ہے۔ کیونکہ منصوب ہونے کی صورت میں متکلم کے ذہن میں ایک ہی ذات کا تصور ہے جیساکہ زَیْدٌ خَارِجٌ میں ہے مگر مجرور ہونے کی صورت میں جیسے مَآاَنْتَ بِمُؤمِنِ لَّنَا ہے وہ ذات کا تصور ہے جیساکہ لَقِیْتُ بِزَیْدٍ رَجُلًا فَاضِلًا میں ہے(3) کہ یہاں فَاضِلًا سے زید ہی مراد ہے مگر اسے ایسی صورت میں پیش کیا گیا ہے کہ اس سے ایک شخص (فَاضِلًا) متصور ہوتا ہے گویا تقدیر کلام یہ ہے رَأَیْتُ بِرُوْیَتِیْ لَک آخر وھو رجل فاضل اسی طرح رأیت بِکَ حَاتِمًا فِی السخاء کا محاورہ ہے، چنانچہ اسی معنی میں فرمایا: (وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ) (۲۶:۱۱۴) اور میں مومنوں کو راندنے والا بھی نہیں ہوں۔ (اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبۡدَہٗ ) (۳۹:۳۶) کیا خدا اپنے بندوں کو کافی نہیں ہے، مگر شیخ فرماتے ہیں کہ یہ کلام محل النظر ہے(4) او رآیت کریمہ : (تَنۡۢبُتُ بِالدُّہۡنِ ) (۲۳:۲۰) میں بعض نے کہا ہے یہ تنبت الدہن کے معنی میں ہے(5) مگر اس آیت سے یہ معنی مقصود نہیں ہے بلکہ تُنْبِتُ البناتَ ومعہ الدھن کے ہم معنی ہے(6) یعنی اس میں بالقوہ روغن موجود ہوتا ہے اور بِالدُّھن کا لفظ لاکر اﷲتعالیٰ کے انعام پر تنبیہ کی ہے نیز اس کے نکالنے کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔ بعض نے کہا ہے اس میں باء حال کے معنی میں ہے یعنی درآنحالیکہ اس میں روغن موجود ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ہمزہ اور باء دونوں برائے تعدیہ آتے ہیں اور یہ دونوں ایک ہی کلمہ میں جمع نہیں ہوسکتے۔ اور آیت کریمہ: (وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ) (۴۸:۲۸) میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں باء زائدہ ہے(7) اور یہ اصل میں وَکَفٰی اﷲُ شَھِیدْدًا ہے جیساکہ آیت : (وَ کَفَی اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الۡقِتَالَ) (۳۳:۲۵) میں ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اس سے تو لازم آتا ہے آیت مقیس علیہ میں بھی (وَ کَفَی اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الۡقِتَالَ) کہنا صحیح ہو حالانکہ درست نہیں ہے کیونکہ باؤ زائدہ اسی مقام پر آتی ہے جہاں اس کے بعد منصوب موضع حال میں مذکور ہو جیساکہ پہلے ذکر ہوچکا ہے لہٰذا صحیح یہ ہے کہ یہاں کفٰی کا لفظ اِکْتَفِ (امر) کی جگہ لایا گیا ہے(8) جیساکہ اَحْسِنْ بزید میں لفظ احسن مااحسن کی جگہ لایا گیا ہے(9) اور آیت کے معنی میں اِکْتَفِ بِاﷲِ شَھِیْدًا اور اسی معنی میں فرمایا: (وَ کَفٰی بِرَبِّکَ ہَادِیًا وَّ نَصِیۡرًا) (۲۵:۳۱) (وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَلِیًّا ) (۴:۴۵) اور خدا ہی کارساز کافی ہے۔ (اَوَ لَمۡ یَکۡفِ بِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ ) (۴۱:۵۳) کیا تم کو کافی نہیں کہ تمہاری پروردگار ہر چیز سے باخبر ہے اور حُبَّ اِلیَّ بِفُلَانٍ کا محاورہ بھی اسی توجیہ پر محمول ہوگا۔ ای اَحْبِبْ اِلَیَّ بِہٖ۔ اور آیت کریمہ : (وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ) (۲:۱۹۵) میں بعض نے دعویٰ کیا ہے کہ یہاں باء زائدہ ہے(10) اور اصل میں لَا تُلْقُوْا اَیْدِیَکُمْ ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہاں بھی باؤ آلہ کی ہے اور اصل میں لَا تُلْقُوْا اَنْفُسَکُمْ بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ ہے مگر مفعول کو عدم ضرورت اور معنوی عموم کے پیش نظر حذف کردیا گیا ہے کیونکہ جس طرح اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ممنوع ہے، اسی طرح دوسروں کو بھی ہلاکت میں ڈالنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ اور آیات: (عَیۡنًا یَّشۡرَبُ بِہَا الۡمُقَرَّبُوۡنَ ) (۸۳:۲۸) وہ ایک چشمہ ہے جس سے (خدا کے) مقرب بندے پئیں گے۔ (عَیۡنًا یَّشۡرَبُ بِہَا عِبَادُ اللّٰہِ ) (۷۶:۶) یہ ایک چشمہ ہے جس میں سے خدا کے بندے پئیں گے۔ میں بعض نے کہا ہے کہ باء بمعنی مِنْ ہے(11) اَی یَشْرَبُ مِنْھَا اور بعض نے زائدہ کہا ہے: اَیْ یَشْرَبُھَا، لیکن صحیح یہ ہے کہ باء کو اس کے معنی پر رہنے دیا جائے اور کہا جائے کہ عَیْنًا سے پانی مراد نہیں ہے، بلکہ چشمہ کا گڑھا ہے، لہٰذا یہ مَکَانًا یَشْرَبُ بِہٖ کی طرح ہوگا۔ (12) اور آیت : (فَلَا تَحۡسَبَنَّہُمۡ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الۡعَذَابِ ) (۳:۱۸۸) میں بھی بِمَفَازَۃٍ کے معنی بِمَوْضِیِ الْفَوْزِ کے ہیں یعنی ان کی نسبت خیال نہ کرنا کہ وہ کسی نجات کی جگہ کے ذریعہ عذاب سے درستگار ہوجائیں گے۔