اَلْاِتَصَالُ کے معنی اشیاء کے باہم اس طرح متحد ہوجانے کے ہیں جس طرح کہ قطر دائرہ کی دونون طرفیں ملی ہوئی ہوتی ہیں اس کی ضد انفصال آتی ہے اور وَصْلٌ کے معنی ملانے کے ہیں اور یہ اسم عین اور معنی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے۔چنانچہ وَصَلْتُ فُلَانًا صلہ رحمی کے معنی میں آتا ہے۔قرآن پاک میں ہے:۔ (وَ یَقۡطَعُوۡنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖۤ اَنۡ یُّوۡصَلَ ) (۲۔۲۷) اور جس چیز (یعنی رشتہ قرابت) کے جوڑے رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے اسی کو قطع کیے ڈالتے ہیں اور آیت کریمہ:۔ (اِلَّا الَّذِیۡنَ یَصِلُوۡنَ اِلٰی قَوۡمٍۭ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ مِّیۡثَاقٌ) (۴۔۹۰) مگر جو لوگ ایسے لوگوں سے تعلق رکھتے ہوں جن میں اور تم میں (صلح کا) عہد ہو۔میں یَصِلُوْنَ کے معنی منتسب ہونے کے ہیں۔چنانچہ اسی سے محاورہ ہے۔ (فُلَانٌ مُتَّصِلٌ بِفُلَانِ:یعنی فلاں اس کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔اور آیت کریمہ:۔ (وَ لَقَدۡ وَصَّلۡنَا لَہُمُ الۡقَوۡلَ) (۲۸۔۵۱) اور ہم پے درپے ان لوگوں کے پاس (ہدایت کی) باتیں بھیجتے رہے ہیں۔میں وَصَّلْنَا الْقَوْلَ کے معنی متواتر بات کہنے کے ہیں یعنی ہم ان کے پاس لگاتار اپنا کلام بھیجتے رہے ہیں۔ مُوْصِلُ الْبَعِیْرِ:اونٹ کا مفصل،جوڑ جود واعضا کے درمیان ہوتا ہے مثلاً ران اور عجز کے درمیان کا جوڑ اور آیت۔ (وَّ لَا وَصِیۡلَۃٍ) (۵۔۱۰۳) اور نہ وصیلہ ہے۔میں وصیلہ سے مراد وہ بکری ہے جو (دو دو مادینہ بچے دینے کے بعد ساتویں بطن میں ایک نر اور ایک مادہ بچہ دے) ۔ (جاہلیت میں ) اس مادہ کی وجہ سے نر بچہ کو بھی ذبحہ نہ کرتے اور کہتے کہ وَصَلَتْ اَخَاھَا کہ یہ اپنے بھائی سے مل گئی۔اور بعض نے کہا ہے کہ اَلْوَصِیْلَۃُ کے معنی آبادی اور زرخیزی کے ہیں اور وسیع زمین کو بھی اَلْوَصِیْلَۃٌ کہا جاتا ہے۔محاورہ ہے:ھٰذَا وَصَلُ ھٰذَا۔یعنی (یہ اس کی مثل ہے) یہ اس کا صلہ ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
تَصِلُ | سورة هود(11) | 70 |
وَصِيْلَةٍ | سورة المائدة(5) | 103 |
وَصَّلْنَا | سورة القصص(28) | 51 |
يَصِلُ | سورة الأنعام(6) | 136 |
يَصِلُ | سورة الأنعام(6) | 136 |
يَصِلُوْنَ | سورة النساء(4) | 90 |
يَصِلُوْنَ | سورة الرعد(13) | 21 |
يَصِلُوْنَ | سورة القصص(28) | 35 |
يُّوْصَلَ | سورة الرعد(13) | 25 |
يَّصِلُوْٓا | سورة هود(11) | 81 |
يُّوْصَلَ | سورة البقرة(2) | 27 |
يُّوْصَلَ | سورة الرعد(13) | 21 |