اَلْکَفَالَۃُ:ضمانت کو کہتے ہیں اور تَکَفَّلْتُ بِکَذَا کے معنی کسی چیز کا ضامن بننے کے ہیں۔اور کَفَّلْتُہٗ فُلَاناَ کے معنی ہیں:میں نے اسے فلاں کی کفالت میں دے دیا۔قرآن پاک میں ہے: (وَّکَفَّلَھَا زَکَرِیَّا) (۳۔۳۷) اور زکریاؑ کو اس کا متکفل بنایا۔بعض نے کَفَل تخفیف فاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ (1) ۔اس صورت میں اس کا فاعل زکریا علیہ السلام ہوں گے یعنی حضرت زکریا علیہ السلام نے ان کو اپنی کفالت میں لے لیا۔ (اَکْفَلَھَا زَیْدَا۔اسے زید کی کفالت میں دے دیا) قرآن پاک میں ہے: (اَکْفِلْنِیْھَا) (۳۸۔۲۳) یہ بھی میری کفالت میں دے دو (میرے سپرد کردو) اَلْکَفِیْلُ:اصل میں بقدر ضرورت حصہ کو کہتے ہیں گویا وہ انسان کی ضروریات کا ضامن ہوتا ہے۔قرآن پاک میں ہے: (وَ قَدۡ جَعَلۡتُمُ اللّٰہَ عَلَیۡکُمۡ کَفِیۡلًا) (۱۶۔۹۱) اور تم خدا کو اپنا کفیل بناچکے ہو۔اور اَلْکِفْل کے معنی بھی اَلْکَفِیْل یعنی حصہ کے آتے ہیں۔چنانچہ فرمایا: (یُؤۡتِکُمۡ کِفۡلَیۡنِ مِنۡ رَّحۡمَتِہٖ) (۵۷۔۲۸) وہ تمہیں اپنی رحمت سے اجر کے دو حصے عطا فرمائے گا یعنی دنیا اور عقبی دونوں جہانوں میں تمہیں اپنے انعامات سے نوازے گا اور یہی دو قسم کی نعمتیں ہیں جن کے لئے آیت (رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً ) (۲۔۲۰۱) کہ پروردگار ہم کو دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت بخشیو،میں اﷲ تعالیٰ سے دعا کی جاتی ہے بعض نے کہا ہے کہ یہاں کِفْلَیْنِٗٗ سے دو نعمتیں مراد نہیں ہیں بلکہ اس سے پیہم اور کفایت کرنے والی نعمت مراد ہے اور تثنیہ کا لفظ لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ کی طرح تاکید معنوی کے لئے ہے اور آیت کریمہ: (مَنۡ یَّشۡفَعۡ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنۡ لَّہٗ نَصِیۡبٌ مِّنۡہَا) (۴۔۸۵) جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس (کے ثواب) میں حصہ ملے گا۔اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس (کے عذاب) میں حصہ ملے گا۔میں کِفْلٌ کا معنی کافی حصہ کے نہیں ہے بلکہ استعارۃ اس سے حقیر چیز مراد لی ہے اور یہ اس کفل سے مشتق ہے جس کے معنی کولہے کے پچھلے حصہ کے ہوتے ہیںچونکہ اس حصہ پر سواری تکلیف دہ ہوتی ہے اس لئے عرف میں کِفْل بمعنی شدت استعمال ہونے لگا جیسا کہ سِیْسَائَ کا لفظ ہے کہ اصل میں اس کے معنی گدھے کی پشت پر کی ابھری ہوئی ہڈی ہیں۔چنانچہ محاورہ ہے۔ (لَاحْمِلَنَّکَ عَلَی الْکِفْلِ اَوْ عَلٰی السِیْسَائِ اَوْلَاُرْکِبَنَّکَ الْحَسْرٰی) یعنی میں تمہیں سخت تکلیف پہنچاؤں گا۔اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے (2) ۔ (۳۷۷) (وَحَمَلْنَا ہُمْ عَلٰی صَعْبَۃٍ زَوْ رَائَ یَعْلُوْنَھَا بِغَیْرِ وِطَائٍ) اور ہم نے ان کو نہایت تند اور ٹیڑھی حالت کی ننگی پشت پر سوار ہونے پر مجبور کردیا۔پس آیت (۴۔۵۸) کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی اچھے کام میں دوسرے کا شریک کار ہوگا۔تو اسے بھی اس سے حصہ ملے گا۔اور اگر کوئی شخص برے کام میں دوسرے کی مدد کرے گاتو اسے بھی اس کے انجام بد سے دوچار ہونا پڑے گا۔بعض کے نزدیک اس آیت میں بھی کفل بمعنی کفیل ہی ہے اور اس میں متنبہ کیا ہے کہ جو شخص شر یعنی برائی کا جویا ہوگا تو وہ برائی اس پر کفیل ہوگی جو اس سے بازبرس کرے گی۔ جیسا کہ محاورہ ہے۔ (مَنْ ظَلَمَ فِقَدْاَقَامَ کَفِیْلا بِظُلْمِہ) کہ جس نے ظلم کیا تو اس نے اپنے اوپر ظلم سے کفیل کھڑا کردیا چنانچہ آیت مذکورہ میں تنبیہ کی ہے کہ برائی میں دوسرے کی مدد کرنے والا کبھی بھی اس کی سزا سے نہیں بچ سکتا۔
Words | Surah_No | Verse_No |
الْكِفْلِ | سورة الأنبياء(21) | 85 |
الْكِفْلِ | سورة ص(38) | 48 |
اَكْفِلْنِيْهَا | سورة ص(38) | 23 |
كَفِيْلًا | سورة النحل(16) | 91 |
كِفْلٌ | سورة النساء(4) | 85 |
كِفْلَيْنِ | سورة الحديد(57) | 28 |
وَّكَفَّلَهَا | سورة آل عمران(3) | 37 |
يَكْفُلُ | سورة آل عمران(3) | 44 |
يَّكْفُلُوْنَهٗ | سورة القصص(28) | 12 |
يَّكْفُلُهٗ | سورة طه(20) | 40 |