عرف میں نُطْقٌ ان اَصوات مقَطِّعَہٗ: کو کہا جاتا ہے۔ جو زبان سے نکلتی ہیں۔ اور کان انہیں سن کر محفوظ کرلیتے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (مَا لَکُمۡ لَا تَنۡطِقُوۡنَ) (۳۷:۹۲) تمہیں کیا ہوا کہ تم بولتے نہیں۔ یہ لفظ بالذات صرف انسان کے متعلق بولا جاتا ہے دوسرے حیوانات کے لیے بالتبع استعمال ہوتا ہے۔ جیسے اَلْمَالُ النَّاطِقُ وَالصَّامِتُ کا محاورہ ہے جس میں ناطق سے حیوان اور صامت سے سونا چاندی مراد ہے۔ ان کے علاوہ دیگر حیوانات پر ناطق کا لفظ مقید یا بطور تشبیہ استعمال ہوتا ہے۔ جیساکہ شاعر نے کہا ہے(1) (۴۳۰) عَجِبْتُ لَھَا اَنّٰی یَکُوْنُ غِنَاؤُھَا فَصِیْحًا وَلَمْ تَفْخَرْ لِمَنْطِقِھَا فَمًا۔ مجھے تعجب ہوا کہ وہ کتنا فصیح گانا گاتی ہے حالانکہ اس نے گویائی کے لیے منہ نہیں کھولا۔ اہل منطق قوتِ گویائی کو نطق کہتے ہیں۔ جب وہ انسان کی تعریف کرتے ہوئے اَلْحَیُّ النَّاطِقُ … کہتے ہیں تو ناطق سے ان کی یہی مراد ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ نطق کا لفظ مشترک ہے جو قوت نطقیہ اور کلام ملفوظ دونوں پر بولا جاتا ہے۔ کبھی نَاطِقٌ کے معنی اَلدَّالُ عَلَی الشَّیْئِ کے بھی آتے ہیں اسی بنا پر ایک حکیم سے پوچھا گیا کہ اَلنَّاطِقُ الصَّامِتُ کسے کہتے ہیں؟ تو اس نے جواب دیا: اَلدلائل الْمُخْبِرَۃُ وَالْعِبَرُ الْوَاعِظَۃُ۔ اور آیت کریمہ: (لَقَدْعَلِمْتَ مَا ھٰئُولَآئِ یَنْطِقُوْنَ) (۲۱۔۶۵) کہ تم جانتے ہو یہ بولتے نہیں۔میں اس بات کہ طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ وہ ذوی النطق اور ذوی العقول کی جنس سے نہیں ہیں اور آیت کریمہ: (اَنۡطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡطَقَ کُلَّ شَیۡءٍ) (۴۱۔۲۱) جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اس نے ہم کو بھی گویائی دی۔کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نطق اعتباری مراد ہے کیونکہ یہ بات بالکل بد یہی ہے کہ تمام چیزیں حقیقتاً ناطق نہیں ہیں۔اور آیت کریمہ: (عُلِّمۡنَا مَنۡطِقَ الطَّیۡرِ) (۲۷۔۱۶) ہمیں (خدا کی طرف سے) جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے میں پرندوں کی آواز کو محض حضرت سلیمان علیہ السلام کے لحاظ سے نطق کہا ہے کیونکہ وہ ان کی آوازوں کو سمجھتے تھے اور جو شخص کسی چیز سے کوئی معنی سمجھتا ہو تو وہ چیز خواہ صامت ہی کیوں نہ ہو۔اس کے لحاظ سے تو ناطق کا حکم رکھتی ہے اور آیت کریمہ: (ہٰذَا کِتٰبُنَا یَنۡطِقُ عَلَیۡکُمۡ بِالۡحَقِّ) (۴۵۔۲۹) یہ ہماری کتاب تمہارے بارے میں سچ سچ بیان کردے گی۔میں کتاب کو ناطق کہا ہے لیکن اس کے نطق کا ادراک صرف آنکھ ہی کرسکتی ہے جیسا کہ کلام بھی ایک کتاب ہے۔لیکن اس کا ادراک حاسئہ سماعت سے ہوتا ہے اور آیت کریمہ: (وَ قَالُوۡا لِجُلُوۡدِہِمۡ لِمَ شَہِدۡتُّمۡ عَلَیۡنَا ؕ قَالُوۡۤا اَنۡطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡطَقَ کُلَّ شَیۡءٍ ) (۴۱۔۲۱) اور وہ اپنے چمڑوں یعنی اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی؟وہ کہیں گے:جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اسی نے ہم کو بھی گویائی دی۔کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نطق صوتی مراد ہے اور بعض نے نطق اعتباری مراد لیا ہے۔اور عالم آخرت کی اصل حقیقت تو خدا ہی جانتا ہے۔بعض نے کہا ہے کہ نطق درحقیقت لفظ کو کہتے ہیں کیونکہ وہ معنی کو لپٹینے اور محصور کرنے میں بمنزلہ نطاق کے ہوتا ہے۔ اَلْمِنْطَقُ وَالْمِنْطَقَۃُـکمر بند کو کہتے ہیں اور شاعر کے قول (2) (۴۳۱) (وَاَبْرَحُ مَاادُامَ اﷲُ قَوْمِیْ بِحَمْدِاﷲِ مُنْتَطِقًا مُجِیْدًا) جب تک میری قوم زندہ ہے میں بحمد اﷲ عمدہ گو شاعر رہوں گا میں بعض نے کہا ہے مُنْتَطِقًا کے معنی جانبا کے ہیں یعنی گھوڑے کو آگے سے پکڑ کر کھینچتا رہوں گا اور اس پر سوار نہیں ہوں گا۔ہاں اگر اس معنی میں کوئی دوسرا شعر نہ آیا ہو تو یہاں منتطق سے مراد وہ شخص بھی ہوسکتا ہے جس نے کمر پر نطاق باندھا ہوا ہو۔جیسا کہ مقولہ مشہور ہے۔ (3) (وَمَنْ یَطُلْ ذَیْلُ اَبِیْہِ یَنْتَطِقُ بِہ) یعنی جس کے باپ کے فرزند زیادہ ہوں گے۔تو وہ ان کی وجہ سے طاقت ور اور توانا ہوجائے گا۔اور بعض نے کہا ہے کہ مُنْتَطِقٌ کے معنی عمدہ گو کے ہیں۔
Words | Surah_No | Verse_No |
اَنْطَقَنَا | سورة حم السجدہ(41) | 21 |
اَنْــطَقَ | سورة حم السجدہ(41) | 21 |
تَنْطِقُوْنَ | سورة الصافات(37) | 92 |
تَنْطِقُوْنَ | سورة الذاريات(51) | 23 |
مَنْطِقَ | سورة النمل(27) | 16 |
يَنْطِقُ | سورة الجاثية(45) | 29 |
يَنْطِقُ | سورة النجم(53) | 3 |
يَنْطِقُوْنَ | سورة الأنبياء(21) | 63 |
يَنْطِقُوْنَ | سورة الأنبياء(21) | 65 |
يَنْطِقُوْنَ | سورة النمل(27) | 85 |
يَنْطِقُوْنَ | سورة المرسلات(77) | 35 |
يَّنْطِقُ | سورة المؤمنون(23) | 62 |