اؒﷲُ (۱) بعض کا قول ہے کہ اﷲ کا لفظ اصل میں اِلٰہٌ ہے ہمزہ (تخفیفًا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام (تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بنا پر فرمایا : (ہَلۡ تَعۡلَمُ لَہٗ سَمِیًّا ) (۱۹:۶۵) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے۔ اِلٰہٌ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے (خواہ وہ معبود برحق ہو یا معبود باطل) اور وہ سورج کو اِلَاھَۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنارکھا تھا۔ اِلٰہٌ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ اَلَہَ (ف) یَألَہُ فُلَانٌ وَتَاَلَّہَ سے مشتق ہے جس کے معنی پرستش کرنا کے ہیں اس بنا پر اِلٰہَ کے معنی ہوں گے : معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ اَلِہَ (س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات و صفات کے ادراک سے چونکہ عقول، متیحیر اور درماندہ ہیں اس لیے اسے اﷲ کہا جاتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا ہے : (1) (کَلَّ دُوْنَ صِفَاتِہٖ تحبیرُ الصِّفاتِ وَضَلَّ ھُنَاکَ تَصَارِیْف اللّغاتِ۔) اے بروں از وھم وقال وقیل من خاک بر فرق من وتمثیل من اس لیے کہ انسان جس قدر صفات الٰہیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے : (2) (۱۱) تَفَکَّرُوْا فِی آلَائِ اﷲِ وَلَا تَفَکَّروا فِی اﷲِ کہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں میں غوروفکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو۔ (۲) بعض نے کہا ہے کہ اِلٰہ اصل میں وِلَاہٌ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر اِلاہ بنالیا ہے اور وَلِہَ (س) کے معنی عشق و محبت میں وارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں(3) اور ذاتِ باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لیے اسے اﷲ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان۔ اسی لیے بعض حکماء نے کہا ہے کہ ذات باری تعالٰؑ تمام اشیاء کو محبوب ہے او رآیت کریمہ : (وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ وَ لٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ ) (۱۷:۴۴) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے۔ (۳) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لَاہَ یَلُوْہٌ لِیَاھًا سے ہے جس کے معنی پردہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذاتِ باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لیے اسے اﷲ کہا جاتا ہے۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: (لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ ۫ وَ ہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ ) (۶:۱۰۳) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے۔ نیز آیت کریمہ : (وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ) (۵۷:۳) میں "الباطن"کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اِلٰہ : یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لیے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنارکھا تھا، اس لیے اٰلِھَۃٌ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے۔ قرآن پاک میں ہے : (اَمۡ لَہُمۡ اٰلِہَۃٌ تَمۡنَعُہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِنَا ) (۲۱:۴۳) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچائیں۔ (وَ یَذَرَکَ وَ اٰلِہَتَکَ ) (۷:۱۲۷) او رآپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں۔ ایک قرأت میں وَاِلَاھَتَکَ ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں لَاہِ اَنْتَ۔ یہ اصل میں لِلّٰہِ اَنْتَ سے ایک لام کو تخفیف کے لیے حذف کردیا گیا ہے۔ اللّٰھُمَّ : بعض نے کہا ہے کہاس کے معنی یَااَﷲُ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یاء حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعص کا قول ہے کہ یہ اصل میں یَااﷲُ اُمَّنَا بِخَیْرٍ (اے اﷲ! تو خیر کے ساتھ ہماری طرف توجہ فرما) ہے (کثرتِ استعمال کی بنا پر) حَیْھَلًا کی طرح مرکب کرکے اَللّٰھُمَّ بنالیا گیا ہے۔ (4) (جیسے ھَلُمَّ) اِلٰی : حرف (جر) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایۃ حد بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
وَلِلّٰهِ | سورة الفتح(48) | 7 |
وَلِلّٰهِ | سورة الفتح(48) | 14 |
وَلِلّٰهِ | سورة النجم(53) | 31 |
وَلِلّٰهِ | سورة الحديد(57) | 10 |
وَلِلّٰهِ | سورة المنافقون(63) | 7 |
وَلِلّٰهِ | سورة المنافقون(63) | 8 |
وَّاللّٰهُ | سورة البروج(85) | 20 |
وَّاللّٰهُ | سورة النحل(16) | 101 |
يَـقْبِضُ | سورة البقرة(2) | 245 |
ۂاَللّٰهُ | سورة الأنعام(6) | 124 |