Blog
Books
Search Hadith

ولیمہ کے حکم، بکرییا اس سے زائد چیز کے ساتھ اس کے مستحب ہونے اور اس سے کم کسی چیز کے ولیمہ کے جائز ہونے کا بیان

1247 Hadiths Found
۔ سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو پیغام نکاح بھیجا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شادی کے بعد ولیمہ ضروری ہے۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ایک دنبہ میں دوں گا، ایک نے کہا: اتنی اتنی مکئی میں دوں گا۔

Haidth Number: 7031
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیویوں میں سے دو بیویوں کے ولیموں میں حاضر ہوا، آپ نے ہمیں نہ روٹی کھلائی اور نہ گوشت،میں (علی بن زید) نے کہا: پھر کیا تھا؟ انھوں نے کہا: حَیْسیعنی ایک حلوہ سا تھا، جو کھجور، پنیر اور گھی سے تیار کیا گیا تھا۔

Haidth Number: 7032
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا صفیہ بنت حی کا ولیمہ کھجور، پنیر اور گھی سے کیا تھا، زمین کو کھود کر ہموار کیا گیا، پھر دسترخوان بچھائے گئے اور ان پر پنیر، کھجور اور گھی رکھا گیا، لوگوں نے سیر ہو کر کھایا۔

Haidth Number: 7033
۔ سیدنا سہل بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا ابو اسید ساعدی آئے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو شادی میں آنے کی دعوت دی، اس دن ان کی بیوی ان کی خادمہ تھی، اسی کی شادی ہوئی تھی، اچھا کیا تم جانتے ہو کہ اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کیا پلایا تھا، اس نے رات کو ایک برتن میں کھجوریں بھگو رکھی تھیں، (وہ نبیذ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پلایا تھا)۔

Haidth Number: 7034
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک ولیمہ میں شمولیت فرمائی، اس میں نہ روٹی تھی اور نہ گوشت تھا۔

Haidth Number: 7035
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسو ل اکرم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی ایک بیوی کے ولیمہ کے موقع پر دو مُدّ جو کھلائے تھے۔

Haidth Number: 7036

۔ (۷۱۰۰)۔ عَنْ اَبِیْ حُرَّۃَ الرَّقَاشِیِّ عَنْ عَمِّہِ قَالَ: کُنْتُ آخِذًا بِزَمَامِ نَاقَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ فِیْ أَوْسَطِ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ (فَذَکَرَ حَدِیْثًا طَوِیْلًا) وَفِیْہِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((فَاتْقُوْا اللّٰہَ فِیْ النِّسَائِ فَاِنَّہُنَّ عِنْدَکُمْ عَوَانٌ لَایَمْلِکْنَ لِاَنْفُسِہِنَّ شَیْئًا، وَإِنَّ لَھُنَّ عَلَیْکُمْ وَلَکُمْ عَلَیْہِنَّ حَقَّانِ، لَایُوْطِئْنَ فُرُشَکُمْ اَحَدًا غَیْرَکُمْ، وَلَا یَأْذَنَّ فِیْ بُیُوْتِکُمْ لِأَحَدٍ تَکْرَھُوْنَہُ، فَاِنْ خِفْتُمْ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ (قَالَ حُمَیْدٌ: قُلْتُ لِلْحَسَنِ: مَا الْمُبَرِّحُ؟ قَالَ: الْمُؤَثِّرُ) وَلَھُنَّ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَاِنَّمَا اَخَذْتُمُوْھُنَّ بِاَمَانَۃِ اللّٰہِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوْجَہُنَّ بِکَلِمَۃِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۲۰۹۷۱)

۔ ابو حرہ رقاشی اپنے چچا سیدنا حذیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اونٹنی کی لگام پکڑی ہوئی تھی،یہ ایام تشریق کے درمیان والے دن کی بات ہے، … پھر راوی نے طویل حدیث بیان کی، …۔ اس میں تھا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ماتحت کر دیا ہے، یہ اپنی جانوں پر بھی اختیار نہیں رکھتیں، ان عورتوں کے تمہارے اوپر اور تمہارے ان پر دو حق ہیں،تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر کسی اور کو نہ آنے دیں اور تمہارے گھروں میں اس شخص کو آنے کی اجازت نہ دیں، جس کو تم ناپسند کرتے ہو، اگر تم کو ان کیشرارت کا ڈر ہو تو انہیں نصیحت کرو اور ان سے بستر الگ کر لو،اور ان کو مارو، لیکن وہ مارنا واضح نہ ہو۔ حمید راوی کہتے ہیں: میں نے امام حسن سے کہا: مُبَرّح سے کیا مراد ہے؟ انھوں نے کہا: جسم میں نشان چھوڑنے والی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید فرمایا: تمہاری ذمہ دارییہ ہے کہ تم معروف طریقے سے ان کے رزق اور لباس کا بندوبست کرو، تم نے ان کو اللہ تعالی کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ تعالی کے کلمے کے ساتھ ان کی شرم گاہوں کو حلال کیا ہے۔

Haidth Number: 7100
۔ سیدنا عاصم بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ حفصہ بنت عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو طلاق دی اور پھر ان سے رجوع کر لیا۔

Haidth Number: 7147
۔ سیدنا لقیط بن صبرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری ایک بیوی ہے، پھر انھوں نے اس کی زبان درازی اور تکلیف دینے کی شکایت کی،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو طلاق دے دو۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ پرانی رفیقہ حیات ہے اور اس سے میری اولاد بھی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر اس کو اپنے پاس رکھو، البتہ تلقین کرتے رہو، اگر اس میں کوئی خیر و بھلائی ہوئی تو وہ اسے قبول کرے گی، لیکن تم نے اپنی بیوی کو اس طرح نہیں مارنا جس طرح لونڈی کو مارا جاتا ہے۔

Haidth Number: 7148
۔ مولائے رسول سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جوعورت بغیر کسی مجبوری کے اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے، اس پر جنت کی خوشبو حرام ہو گی۔

Haidth Number: 7149
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدمی اپنے بھائی کی منگنی پر منگنی نہ کرے، کسی خاتون سے اس کی پھوپھی اور خالہ کی موجودگی میں نکاح نہ کیا جائے، کوئی عوررت اپنی بہن کی طلاق کا سوال نہ کرے، تاکہ وہ اس کے پیالے میں جو کچھ ہے، اس کو انڈیل دے، اس کو چاہیے کہ وہ نکاح کر لے، کیونکہ اس کو وہ کچھ مل جائے گا، جو اللہ تعالی نے اس کے مقدر میں لکھا ہو گا۔

Haidth Number: 7150
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میرے عقد نکاح میں ایک عورت تھی، مجھے اس سے بہت محبت تھی، لیکن میرے باپ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کو ناپسند کرتے تھے، پس انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کو طلاق دے دوں،لیکن میں نے انکار کر دیا، وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! عبد اللہ بن عمر کی ایک بیوی ہے، مجھے وہ ناپسند ہے، میں نے اس سے کہا کہ وہ اس کو طلاق دے دے، لیکن اس نے انکار کر دیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عبد اللہ! اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔ سو میں نے اسے طلاق دے دی۔

Haidth Number: 7151
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خلع لینے والی اور خاوند سے علیحدگی کا مطالبہ کرنے والی عورتیں منافق ہیں۔

Haidth Number: 7172
۔ سیدنا سہل بن ابی حثمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ حبیبہ بنت سہل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا ثابت بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے نکاح میں تھیں، سیدنا ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خوش شکل نہ تھے، اس لیے سیدہ حبیبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول! اگر میرے سامنے اللہ تعالیٰ کا ڈر آڑے نہ آتا ہو تو میں ثابت کودیکھ کر اس کے چہرے پر تھوک دوں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حبیبہ! کیا تو وہ باغ، جو ثابت نے حق مہر کے طور پر دیا تھا، وہ اسے واپس کر دو گی؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ثابت کے ہاں پیغام بھیجا، وہ آئے، سیدہ حبیبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان کو وہ باغ لوٹا دیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے درمیان جدائی کروا دی، یہ اسلام میں سب سے پہلا پیش آنے والا خلع تھا۔

Haidth Number: 7173

۔ (۷۱۷۴)۔عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ عَنْ عَمْرَۃَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَۃَ الْأَنْصَارِیَّۃِ أَنَّہَا أَخْبَرَتْہُ عَنْ حَبِیبَۃَ بِنْتِ سَہْلٍ الْأَنْصَارِیَّۃِ قَالَتْ إِنَّہَا کَانَتْ تَحْتَ ثَابِتِ بْنِ قَیْسِ بْنِ شَمَّاسٍ وَأَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَی الصُّبْحِ فَوَجَدَ حَبِیبَۃَ بِنْتَ سَہْلٍ عَلٰی بَابِہِ بِالْغَلَسِ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ ہٰذِہِ؟)) قَالَتْ: أَنَا حَبِیبَۃُ بِنْتُ سَہْلٍ فَقَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((مَا لَکِ؟)) قَالَتْ: لَا أَنَا وَلَا ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ لِزَوْجِہَا، فَلَمَّا جَائَ ثَابِتٌ قَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((ہٰذِہِ حَبِیبَۃُ بِنْتُ سَہْلٍ قَدْ ذَکَرَتْ مَا شَائَ اللّٰہُ أَنْ تَذْکُرَ۔)) قَالَتْ حَبِیبَۃُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! کُلُّ مَا أَعْطَانِی عِنْدِی، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِثَابِتٍ: ((خُذْ مِنْہَا۔)) فَأَخَذَ مِنْہَا وَجَلَسَتْ فِی أَہْلِہَا۔ (مسند احمد: ۲۷۹۹۰)

۔ سیدہ حبیبہ بنت سہل انصاریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ ثابت بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے نکاح میں تھیں، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نمازِ فجر کے لیے باہر تشریف لائے تو حبیبہ کو اپنے دروازے پر پایا، جبکہ ابھی تک اندھیرا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ کون ہے؟ انھوں نے کہا: جی میں حبیبہ بنت سہل ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا ہو گیا ہے، خیر تو ہے؟ انھوں نے کہا:میں اور میرا خاوند ثابت، بس اب اکٹھے نہیں رہ سکتے، یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ثابت کو بلایا، وہ آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: یہ حبیبہ بنت سہل ہے، اس نے مجھے اپنی دلی کیفیت بتائی ہے، یہ تمہارے پاس نہیں رہنا چاہتی۔ اتنے میں سیدہ حبیبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! ثابت نے جو کچھ مجھے دیا ہے، وہ میرے پاس موجود ہے،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: یہ اپنا مال لے لو۔ پس انھوں نے اس سے مال لے لیا اور وہ اپنے گھر والوں کے پاس چلی گئیں۔

Haidth Number: 7174
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قسم اٹھائی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک ماہ تک اپنی بیویوں کے پاس نہیں جائیں گے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انتیس دن تک رکے رہے، پھر میں وہ پہلی بیوی تھی، جس کے پاس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سب سے پہلے تشریف لائے، میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کیا: کیا آپ نے ایک ماہ تک نہ آنے کی قسم نہیں اٹھائی تھی؟میں نے تو ابھی انتیس دن شمار کئے ہیں۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ارشا د فرمایا: (یہ) مہینہ انتیس دن کا ہے۔

Haidth Number: 7184

۔ (۷۱۸۵)۔عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَیْلَۃً دَخَلَ عَلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ بَدَأَ بِی فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّکَ أَقْسَمْتَ أَنْ لَا تَدْخُلَ عَلَیْنَا شَہْرًا وَإِنَّکَ قَدْ دَخَلْتَ مِنْ تِسْعٍ وَعِشْرِینَ أَعُدُّہُنَّ؟ فَقَالَ: ((إِنَّ الشَّہْرَ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((یَا عَائِشَۃُ! إِنِّی ذَاکِرٌ لَکِ أَمْرًا فَلَا عَلَیْکِ أَنْ لَا تَعْجَلِی فِیہِ حَتّٰی تَسْتَأْمِرِی أَبَوَیْکِ۔)) ثُمَّ قَرَأَ عَلَیَّ الْآیَۃَ {یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ حَتّٰی بَلَغَ أَجْرًا عَظِیمًا۔} قَالَتْ عَائِشَۃُ: قَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَیَّ لَمْ یَکُونَا یَأْمُرَانِی بِفِرَاقِہِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: أَفِی ہٰذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَیَّ فَإِنِّی أُرِیدُ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ وَالدَّارَ الْآخِرَۃَ۔ (مسند احمد: ۲۵۸۱۵)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے (یہ بھی) روایت ہے کہ جب انتیس دن گزر گئے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس داخل ہوئے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو قسم اٹھائی تھی کہ آپ ایک ماہ تک ہمارے پاس نہیں آئیں گے، میں دن شمارکرتی رہی ہوں، آپ تو ہمارے پاس انتیس دن کے بعد آ گئے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک (یہ) مہینہ انتیس دنوں کا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! میں ایک بات ذکر کرنے لگا ہوں، اس کا جواب دینے میں جلد بازی سے کام نہ لینا، پہلے اپنے والدین سے مشورہ کر لینا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ حَتّٰی بَلَغَ أَجْرًا عَظِیمًا۔} سیدہ نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جانتے تھے کہ میرے ماں باپ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جدائی کا کبھی نہیں کہہ سکتے۔ پس میں نے کہا: کیا میں اس بارے میں اپنے ماں باپ سے مشورہ طلب کروں؟ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو چاہتی ہوں۔

Haidth Number: 7185
۔ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بیویوں سے ایک ماہ تک قطع تعلقی کر لی، جب انتیس دن گزر گئے تو جبریل علیہ السلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور کہا: مہینہ پورا ہو چکا ہے لہٰذا آپ کی قسم بھی پوری گئی۔

Haidth Number: 7186
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قدم مبارک میں موچ آ گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے ایک بالا خانے میں تشریف فرما ہوئے، جس کی سیڑھی درخت کے تنوں سے بنائی گئی تھی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بیویوں سے ایک ماہ کے لیے قسم بھی اٹھا لی، صحابۂ کرام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تیمارداری کے لیے آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں بیٹھ کر نمازپڑھائی اور وہ کھڑے تھے، جب دوسری نماز کا وقت آیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: اپنے امام کی اقتداء کیا کرو، پس جب وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھائے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اگروہ بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انتیس تاریخ کو بالا خانے سے نیچے تشریف لے آئے تو لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے تو ایک ماہ کے لیے قسم اٹھا رکھی تھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ مہینہ انتیس دنوں کا ہے۔

Haidth Number: 7187
۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک ماہ تک اپنی بعض بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھا لی، جب انتیس دن گزر گئے تو صبح یا شام کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس تشریف لے آئے۔کسی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کیا: اے اللہ کے نبی ! آپ نے تو ایک ماہ تک ان کے پاس داخل نہ ہونے کی قسم کھائی تھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جواب دیا: یہ بلا شبہ مہینہ انتیس دن کا تا ہے۔

Haidth Number: 7188
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بیویوں کو ایک ماہ تک چھوڑ دیا، آپ کے پاس سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے، جبکہ اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بالا خانے میں چٹائی پر تشریف فرما تھے، چٹائی کے نشانات آپ کی کمر مبارک پر نمایاں نظر آ رہے تھے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایران کے بادشاہ تو سونے اور چاندی کے برتنوں میں پئیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس طرح فقر و فاقہ میں ہوں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کی نیکیاں ان کو دنیا میں ہی چکوائی جا رہی ہیں۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مہینہ انتیس دن کا ہے، اس طرح، اس طرح اور اس طرح۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تیسری مرتبہ انگوٹھے کو بند کر لیا۔

Haidth Number: 7189
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بیویوں سے ایک مہینہ تک علیحدگی اختیار کر لی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بالا خانے میں رہائش اختیار کر لی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ازواج مطہرات نیچے تھیں، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انتیس دنوں کے بعد بیویوں کے پاس اتر آئے تو ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ انتیس دن ٹھہرے ہیں (جبکہ قسم تو مہینے کی تھی)؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ مہینہ اس طرح ہے اور اس طرح ہے اور اس طرح ہے۔ ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تیسری بار انگوٹھا بند کر لیا۔

Haidth Number: 7190
۔ سیدہ خولہ بنت ثعلبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتی ہیں: اللہ کی قسم! سورۂ مجادلہ کی شروع والی آیات میرے اور میرے خاوند سیدنا اوس بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، تفصیل یہ ہے کہ میں ان کے نکاح میں تھی، وہ بہت بوڑھے تھے، ان میں سختی اور چڑچڑا پن بھی پیدا ہو چکا تھا، ایک دن وہ میرے پاس آئے، میں نے ان سے کسی چیز کے بارے تکرار کیا، وہ غضب ناک ہوئے اور کہہ دیا: تو مجھ پر میری ماں کی پشت کی مانند ہے، یہ کہہ کر وہ باہر چلے گئے اور کچھ دیر اپنی قوم کی مجلس میں بیٹھ کر آئے اور مجھ سے جماع کی خواہش کی، میں نے کہا: ایسا ہر گز نہیں ہو گا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں خولہ کی جان ہے! آپ میرے تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے، کیونکہ آپ نے جو کہنا تھا وہ کہہ دیا ہے، آپ نے ظہار کر لیا ہے، اب تب ہی میرے پاس آ سکتے ہو، جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے حکم کے مطابق فیصلہ کریں گے تو۔ یہ سن کر وہ مجھ پر کود پڑے، مگر میں خود کو محفوظ رکھنے میں ان پر غالب آ گئی وہ بہت ضعیف اوربوڑھے تھے، میں نے انہیں خود سے دور کر دیا اور میں ایک پڑوسن کے گھر گئی اور اس سے چادر ادھار مانگ کر اپنے اوپر لی اور میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئی، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیٹھ کر اپنے خاوند سے پیش آنے والا سارا معاملہ بیان کیا، میں جو اپنے خاوند کی بداخلاقی کا شکار ہوئی تھی، اس کی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے شکایت کی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمانے لگے: اے خولہ! یہ تیرے چچے کا بیٹا ہے اور نہایت بوڑھا ہو چکا ہے، اب اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا خوف کر۔ لیکن میں بھی ڈٹی رہی اور اللہ کی قسم ہے کہ ابھی میں اپنی جگہ سے ہٹی نہیں تھی کہ میرے بارے میں قرآن پاک نازل ہوا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی کی کیفیت طاری ہو گئی، جو وحی کے نزول کے وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ڈھانپ لیتی تھی، پھر جب وہ کیفیت دور ہوئی توآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے خولہ! تیرے اور تیرے خاوند کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کر دیا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیات تلاوت کیں: {قَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا وَ تَشْتَکِیْ اِلَی اللّٰہِ، وَاللّٰہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ … … وَلِلْکَافِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ}۔ سیدہ خولہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خاوند سے کہو کہ وہ ایک غلام یا لونڈی بطور کفارہ ادا کرے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کے پاس گردن آزاد کرنے کی گنجائش نہیں ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر وہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ تو بہت بوڑھا ہے، وہ روزے کی طاقت نہیں رکھتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر وہ ساٹھ مسکینوں میں ایک وسق کھجور یں تقسیم کر دے۔ خولہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کے پاس یہ بھی نہیں ہیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اس کے ساتھ ایک ٹوکرا کھجوروں کا تعاون کرتا ہوں (جس کی مقدار تقریباً پندر ہ صاع ہے)۔ سیدہ خولہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں بھی اس قسم کا ایک ٹوکرا اس کا تعاون کر دیتی ہوں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تونے درست فیصلہ کیا ہے اور بہت ہی اچھا کیا، اب چلی جا اور اس کی جانب سے صدقہ کر اور اب اپنے چچا کے بیٹے سے اچھا معاملہ کرنا۔ پس میں نے ایسا ہی کیا۔ سعد راوی نے کہا: عرق سے مراد ڈبہ یا ٹوکرا ہے۔

Haidth Number: 7191
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی اجنبی مرد کو دیکھ لوں، تو کیا اس کو اس وقت تک مہلت دے دوں، جب تک چار گواہ پیش نہ کر سکوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں۔

Haidth Number: 7194
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ (جب ہلال بن امیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنی بیوی پرزنا کی تہمت لگائی تو ان سے کسی نے کہا تمہیں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یقینا اسی کوڑے لگائیں گے جو کہ تہمت کی حد ہے) تو انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ انصاف کرنے والا ہے کہ وہ مجھے اسی کوڑے لگنے دے، کیونکہ اللہ جانتا ہے کہ میں نے ایسے ہوتے ہوئے دیکھا ہے اور مجھے یقین ہے، اور میں نے ایسی باتیں سنی ہیں کہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ (میری بیوی سے برائی ہوئی ہے)، اللہ کی قسم! مجھے وہ کبھی بھی کوڑے نہیں لگنے دے گا، پس لعان والی آیت نازل ہوئی۔

Haidth Number: 7195
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم جمعہ کی شام کو مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انصار میں سے ایک آدمی نے کہا:بتائو اگر ہم میں سے ایک آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھتا ہے، اب اگر وہ اسے قتل کرے تو تم اسے قتل کردو گے، اگر وہ بات کرے تو تم اس پر تہمت کی حد لگائو گے اور اگر وہ خاموش رہتا ہے تو بہت زیادہ غصہ اس کی خاموشی میں دبا ہو گا، اللہ کی قسم! اگر میں صبح تک صحیح سلامت رہا تو میں اس بارے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ضرور دریافت کروں گا، پس وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئے اور دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھ لیتا ہے، اب اگر وہ اس کو قتل کر دے تو تم لوگ اس کو قتل کر دو گے، اگر وہ یہ بات کرے تو تم اس کو تہمت کی حد لگا دو گے، اور اگر وہ خاموش رہتاہے تو اس کی خاموشی کے نیچے غضب دبا ہوا ہو گا، اے میرے اللہ! اس چیز کا فیصلہ کر دے، پس لعان کی آیات نازل ہوئیں۔ سیدنا عبد اللہ کہتے ہیں: سب سے پہلے وہی آدمی، جو یہ سوال کر رہا تھا، لعان کی آزمائش سے گزرا، اسی سے آغاز ہوا تھا۔

Haidth Number: 7196
۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس اور سیدنا ابوہریرہ سے اس عورت کی عدت کے بارے میں سوال کیا گیا جس کا خاوند فوت ہو چکا ہو اوروہ حاملہ ہو، سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: دو عدتوں میں سے دور والی عدت ہو گی، جبکہ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جب وہ بچے کوجنم دے گی تو اس کی عدت ختم ہو جاتی ہے۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن، سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئے اور ان سے اس مسئلہ کے بارے میں سوال کیا، انہوں نے کہا: جب سیدہ سبیعہ اسلمیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے خاوند کی وفات کے نصف ماہ بعد بچے کو جنم دیا تو اسے دو آدمیوں نے پیغام نکاح بھیجا، ان میں سے ایک نوجوان تھا اور دوسرا ذرا ادھیڑ عمر تھا، اس خاتون کا میلان یہ تھا کہ وہ نوجوان سے نکاح کرے، یہ صورت حال دیکھ کر ادھیڑعمر کہنے لگا کہ یہ تو ابھی عدت سے ہی باہر نہیں ہوئی، دراصل اس عورت کے گھروالے وہاں موجود نہ تھے اور اس بوڑھے کو امید تھی کہ جب اس کے گھروالے آ جائیں گے تو وہ اس ادھیڑ عمر کو ترجیح دیں گے، اس کی بات سن کر وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اور فتویٰ پوچھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیری عدت ختم ہو چکی ہے،تو جس سے چاہتی ہے، نکاح کر سکتی ہے۔

Haidth Number: 7232
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں سیدہ سبیعہ بنت حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنے خاوند کی وفات کے پندرہ دن بعد بچے کوجنم دیا، ان کے پاس سیدنا ابو سنابل آئے اور کہا: معلوم ہوتا ہے تمہارے دل میں نکاح کرنے کا خیال گردش کر رہا ہے، تمہیں اس کی اجازت نہیں ہو گی حتیٰ کہ دو عدتوں میں سے دور والی عدت نہ گزار لو، یہ سن کر وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر ہوئیں اور ابوسنابل کی بات کے بارے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کوبتایا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو سنابل غلط کہہ رہا ہے، تمہاری عدت پوری ہو چکی ہے، جب تمہارے لیے مناسب یا تمہاری پسند کا رشتہ آئے تو میرے پاس آنا اور مجھے اس کی اطلاع دینا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو خبر دی کہ اس کی عدت پوری ہو چکی ہے۔

Haidth Number: 7233
۔ سیدنا ابو سنابل بن بعکک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ سبیعہ بنت حارث نے اپنے شوہر کی وفات سے تئیس یا پچیس دن بعد بچے کو جنم دیا، جب مدت نفاس گزر چکی تو اس نے نئی شادی میں رغبت کا اظہار کیا، لیکن اس پر اعتراض کیا گیا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں اس چیز کا تذکرہ کیا گیا،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر وہ عورت ایسا کرنا چاہے تو وہ کر سکتی ہے کیونکہ اس کی عدت وضع حمل کی وجہ سے پوری ہو چکی ہے۔

Haidth Number: 7234
۔ سیدنا ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدہ سبیعہ بنت ابی برزہ اسلمیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس گیا اور ان سے ان کے معاملہ کے متعلق سوال کیا، انہوں نے کہا: میں سعد بن خولہ کے نکاح میں تھی، وہ فوت ہو گئے اوران کی وفات کے صرف دو ماہ بعد میں نے بچہ جنم دیا، اُدھر بنو عبد داروالے ابو سنابل بن بعکک نے مجھے پیغام نکاح بھیجا، میں نکاح کرنے کے لیے تیار تھی کہ میرا دیور میرے پاس آیا، میں نے مہندی بھی لگا لی اور مکمل تیاری کر لی، اس نے کہا: اے سبیعہ کیا کرنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا: میں شادی کرنا چاہتی ہوں، اس نے کہا: اللہ کی قسم! تو ابھی شادی نہیں کر سکتی، جب تک کہ چار ماہ دس دن عدت نہ گزار لے، سبیعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اور اس کا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو حلال ہو چکی ہے اور شادی کر سکتی ہے۔

Haidth Number: 7235