Blog
Books
Search Hadith

تلبیہ اور اس کی کیفیت اور احکام کا بیان تلبیہ کے الفاظ اور اس کی فضیلت کا بیان

337 Hadiths Found
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے تلبیہ میں یہ الفاظ بھی تھے: ((لَبَّیْکَ إِلٰہَ الْحَقِّ))

Haidth Number: 4225
۔ بکر بن عبد اللہ مزنی کہتے ہیں: میں نے سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سناکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حج اور عمرہ کا اکٹھا تلبیہ پکارا تھا، پھر جب میں نے یہ بات سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ بات بتلائی تو انہوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو صرف حج کا تلبیہ پکارا تھا، بعد میں جب سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بات کا ذکر کیا، انھوں نے کہا: دراصل تم لوگ ہمیں صرف بچے ہی سمجھتے ہو، جب کہ حقیقتیہ ہے کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو خود اس طرح تلبیہ کہتے ہوئے سنا تھا: ((لَبَّیْکَ عُمْرَۃً وَحَجًّا))(میں حاضر ہوں عمرہ کے لیے اور حج کے لیے)۔

Haidth Number: 4226
۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک آدمی کو یوں تلبیہ پکارتے ہوئے سنا: لَبَّیْکَ ذَا الْمَعَارِجِ‘ ‘(اے بلندیوں والے! میں حاضر ہوں)،یہ سن کر سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: واقعی اللہ تعالیٰ بلندیوں والا ہے، لیکن بات یہ ہے کہ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ اس قسم کے الفاظ نہیں کہتے تھے۔

Haidth Number: 4227
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی ایک دن احرام کی حالت میں تلبیہ پکارتا رہے، یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے، تو وہ اپنے گناہوں سے یوں پاک ہو گا جیسے وہ اس دن تھا، جس دن کو اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔

Haidth Number: 4228
Haidth Number: 4367
۔ ابو زبیر کہتے ہیں: میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کعبہ کے طواف کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا:ہم طواف کرتے تھے اور رکنِ یمانی اور حجر اسود کو چھوتے تھے اور ہم نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک اور عصر کے بعد غروب آفتاب تک طواف نہیں کیاکرتے تھے، کیونکہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھاکہ: سورج شیطان کے دو سینگوں پر طلوع ہوتاہے۔

Haidth Number: 4368
۔ ابو زبیر کہتے ہیں: میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کعبہ کے طواف کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا:ہم طواف کرتے تھے اور رکنِ یمانی اور حجر اسود کو چھوتے تھے اور ہم نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک اور عصر کے بعد غروب آفتاب تک طواف نہیں کیاکرتے تھے، کیونکہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھاکہ: سورج شیطان کے دو سینگوں پر طلوع ہوتاہے۔

Haidth Number: 4369

۔ (۴۴۱۱)عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: قَدِمْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صُبْحَ أَرْبَعٍ مَضَیْنَ مِنْ ذِی الْحِجَّۃِ مُہَلِّیْنَ بِالْحَجِّ کُلُّنا، فَأَمَرَنَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَطُفْنَا بِالْبَیْتِ وَصَلَّیْنَا الرَّکْعَتَیْنِ وَسَعَیْنَا بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ، ثُمَّ أَمَرَنَا فَقَصَّرْنَا ثُمَّ قَالَ: ((أَحِلُّوْا۔)) قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! حِلُّ مَاذَا؟ قَالَ: ((حِلُّ مَا یَحِلُّ لِلْحَلَالِ مِنَ النِّسَائِ وَالطِّیْبِ۔)) قَالَ: فَغُشِیَتِ النِّسَائُ وَسَطَعَتِ الْمَجَامِرُ، قَالَ خَلَفٌ: وَبَلَغَہُ أَنَّ بَعْضَہُمْ یَقُوْلُ: یَنْطَلِقُ اَحَدُنَا اِلٰی مِنًی وَذَکَرُہٗیَقْطُرُ مَنِیًّا، قَالَ: فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ (وَفِیْ لَفْظٍ: فَقَالَ: فَقَدْ بَلَغَنِی الَّذِیْ قُلْتُمْ وَإِنِّی لَأَتْقَاکُمْ وَأَبَرُّکُمْ)۔)) ثُمَّ قَالَ: ((إِنِّی لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِی مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا سُقْتُ الْہَدْیَ، وَلَوْ لَمْ أَسُقِ الْھَدْیَ لَأَحْلَلْتُ۔)) قَالَ: ((فَخُذُوْا عَنِّی مَنَاسِکَکُمْ۔)) قَالَ: فَاَقَامَ الْقَوْمُ بِحِلِّہِمْ حَتّٰی إِذَا کَانَ یَوْمُ التَّرْوِیَۃِ، وَأَرَادُوْا التَّوَجُّہَ إِلٰی مِنًی أَھَلُّوْا بِالْحَجِّ، قَالَ: فَکَانَ الْھَدْیُ عَلٰی مَنْ وَجَدَ، وَالصِّیَامُ عَلٰی مَنْ لَمْ یَجِدْ وَأَشْرَکَ بَیْنَہُمْ فِیْ ھَدْیِہِمْ، اَلْجَزُوْرُ بَیْنَ سَبْعَۃٍ، وَالْبَقْرَۃُ بَیْنَ سَبْعَۃٍ وَکَانَ طَوَافُہُمْ بِالْبَیْتِ وَسَعْیُہُمْ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ لِحَجِّہِمْ وَعُمْرَتِہِمْ طَوَافًا وَاحِدًا وَسَعْیًا وَاحِدًا۔ (مسند احمد: ۱۵۰۰۶)

۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:ہم سارے کے سارے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ حج کا تلبیہ پکارتے ہوئے چار ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے، ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا، اس کے بعد دودورکعت نماز پڑھی، پھر ہم نے صفا مروہ کی سعی کی، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں بال کٹوانے کاحکم دیا اور پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حلال ہوجائو یعنی احرام کھول دو۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! کس چیز کے لیے حلال ہونا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر وہ چیز حلال سمجھو جو احرام کے بغیر حلال ہوتی ہے، مثلاً خوشبو اور بیوی وغیرہ۔ پس عورتوں سے مجامعت کی گئی اور خوشبوئیں مہک اٹھیں۔خلف کہتے ہیں:جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات موصول ہوئی کہ بعض لوگوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اس حکم کے بارے میں کہا: اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب ہم منیٰ کی طرف جارہے ہوں گے تو ہماری شرم گاہیں منی ٹپکا رہی ہوں گی، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں خطبہ دیا اور اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: تمہاری باتیں مجھ تک پہنچ چکی ہیں، میں تم سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور سب سے زیادہ نیک ہوں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس بات کا مجھے بعد میں پتہ چلا، اگر پہلے معلوم ہو جاتی تو میں سرے سے قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا اور اگر میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لایاہوتا تو میں بھی حلال ہوجاتا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم مجھ سے حج کے احکام ومسائل سیکھ لو۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: پس لوگ حلال ہوگئے اور اسی حالت پر برقرار رہے، یہاں تک کہ جب آٹھ ذوالحجہ کا دن آ گیا اور وہ منیٰ کو جانے لگے تو انہوں نے حج کا احرام باندھا، جو لوگ صاحبِ استطاعت تھے انہوں نے قربانیکی اور جو لوگ صاحب استطاعت نہ تھے انہوں نے قربانی کے عوض دس روزے رکھے اور آپ نے صحابہ کو اونٹ اور گائے کی قربانی میں سات سات آدمیوں کو شریک کیا اور حج قران والوں کے لئے بیت اللہ کے طواف اور صفا مروہ کی سعی کے لئے ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی تھی۔

Haidth Number: 4411
۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابہ حج کیلئے روانہ ہوئے، ہم نے حج کا احرام باندھا ہوا تھا، جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنے حج کے احرام کو عمرہ کا احرام قرار دو۔ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم نے تو حج کا احرام باندھا تھا، اب ہم اسے عمرہ کا احرام کیسے قراردیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیں جو حکم دے رہاہوں، اس پر غور کرو اور اسے سر انجام دو۔ لیکن لوگوں نے پھر وہی بات دوہرائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غضب ناک ہوگئے اور غصہ کی حالت میں سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس تشریف لے گئے، جب انہوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرہ پر غضب کے آثاردیکھے تو کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کس نے ناراض کر دیا،اللہ اس پر ناراض ہو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں ناراض کیوں نہ ہوں، بات یہ ہے کہ میں کوئی حکم دیتا ہوںاور میری پیروی نہیں کی جاتی۔

Haidth Number: 4412
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چار ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ تشریف لائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ہاں تشریف لائے جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غصہ کی حالت میں تھے، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! کس نے آپ کو غصہ دلایا، اللہ اسے جہنم رسید کرے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میں نے لوگوں کو ایک حکم دیاہے، لیکن وہ اس پر عمل کرنے میں متردد ہیں، جو خیال مجھے بعد میں آیا ہے، اگر یہ پہلے آ جاتا تو میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا، بلکہ یہیں سے خریدلیتا اور میں بھی ان لوگوں کی طرح احرام کھول دیتا۔

Haidth Number: 4413
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کہتے ہیں کہ لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو روئے زمین پر سب سے بڑا گناہ سمجھتے تھے، اس لئے وہ لوگ مہینوں میں تقدیم وتاخیر کرتے اور محرم کو صفرقراردیتے اور وہ کہا کرتے تھے:جب سفر کی وجہ سے اونٹوں کو آئے ہوئے زخم درست ہوجائیں، راستوں سے قافلوں کی آمدورفت کے نشانات مٹ جائیں اور صفر کامہینہ گزر جائے تو عمرہ کرنے والوں کے لئے عمرہ کرنا حلال ہو گا۔ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابہ چارذوالحجہ کو حج کا تلبیہ پکارتے ہوئے پہنچے توآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں حکم فرمایا کہ وہ اسے حج کی بجائے عمرہ کا احرام قراردیں اور عمرہ کرکے احرام کھول دیں۔ لیکن انھوں نے تو اس بات کو بہت بڑا خیال کیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کون سا حلال ہونا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مکمل طور پرحلال ہونا۔

Haidth Number: 4414
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چارذوالحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے، لوگ حج کا تلبیہ پکاررہے تھے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اسے عمرہ قراردیں اور جن لوگوں کے پاس قربانی کے جانور ہیں، وہ اپنے احرام ہی میں رہیں۔ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کہتے ہیں: چنانچہ قمیصیں پہن لی گئیں، خوشبوئیں مہک اٹھیں اور بیویوں سے مجامعت کی گئی۔

Haidth Number: 4415
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم اس عمرہ کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، جن لوگوں کے ہمراہ قربانی کا جانور نہیں ہے، وہ مکمل طور پر حلال ہوجائیں، قیامت تک عمرہ حج میں داخل ہو گیا ہے، (یعنی قیامت تک حج کے مہینوں میں عمرہ کیاجاسکتا ہے)۔

Haidth Number: 4416
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ جو لوگ حج کے ارادہ سے آئے ہیں اور وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کرچکے ہیں، ان کا حج پورا ہوگیا اور ان کا یہ عمل عمرہ بن گیا ہے، یہی اللہ تعالی اور رسول اللہ کی سنت ہے۔

Haidth Number: 4417

۔ (۴۴۱۸) عَنْ کُرَیْبٍ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما قَالَ: قُلْتُ لَہٗ: یَا أَبَا الْعَبَّاسِ! أَرَأَیْتَ قَوْلَکَ مَاحَجَّ رَجُلٌ لَمْ یَسُقِ الْھَدْیَ مَعَہُ، ثُمَّ طَافَ بِالْبَیْتِ إِلَّا حَلَّ بِعُمْرَۃٍ، وَمَا طَافَ بِہَا حَاجٌّ قَدْ سَاقَ مَعَہُ الْھَدْیَ إِلَّا اجْتَمَعَتْ لَہُ عُمْرَۃٌ وَحَجَّۃٌ، وَالنَّاسُ لَا یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا؟ فَقَالَ: وَیْحَکَ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ وَمَنْ مَعَہُ مِنْ أَصْحَابِہِ لَا یَذْکُرُوْنَ إِلَّا الْحَجَّ، فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَنْ لَمْ یَکُنْ مَعَہُ الْھَدْیُ أَنْ یَطُوْفَ بِالْبَیْتِ وَیَحِلَّ بِعُمْرَۃٍ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ مِنْہُمْ یَقُوْلُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّمَا ھُوَ الْحَجُّ، فَیَقُوْلُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّہُ لَیْسَ بِالْحَجِّ وَلٰکِنَّھَا عُمْرَۃٌ۔)) (مسند احمد: ۲۳۶۰)

۔ مولائے ابن عباس جناب کریب سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے ابو العباس!آپ کے اس قول کا کیا مطلب ہے کہ جو آدمی حج کی نیت سے آئے اور قربانی کا جانور اس کے ہمراہ نہ ہو، تو وہ بیت اللہ کا طواف کرکے عمرہ مکمل کر کے حلال ہوجائے اور جس کے ہمراہ قربانی کا جانور ہو اس کا حج اور عمرہ جمع ہوجائے گا، جبکہ دوسرے لوگوں کی رائے اس طرح نہیں ہے؟ انھوں نے کہا: تجھ پر افسوس! بات یہ ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابہ تشریف لائے اورصحابہ حج کا تلبیہ پکاررہے تھے، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے بارے میں یہ حکم دیا کہ جن لوگوں کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں ہیں، وہ بیت اللہ کا طواف کرکے عمرہ کے بعد حلال ہوجائیں،بعض لوگ کہنے لگے: اللہ کے رسول!ہم نے تو حج کا ارادہ کیاتھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ حج نہیں ہے، بلکہ یہ تو عمرہ ہے۔

Haidth Number: 4418
۔ بنوہجیم کے ایک آدمی نے سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے کہا: ابوالعباس! یہ آپ کا کیسا فتویٰ لوگوں میں مشہورہوا ہے کہ جو آدمی بیت اللہ کاطواف کرتا ہے، وہ حلال ہوجاتا ہے؟ انھوں نے کہا: تمہارے نبی کییہی سنت ہے، خواہ تم لوگ اسے پسند نہ کرو۔ہمام نے کہا: اس کا مطلب ہے کہ جس کے ہمراہ قربانی کا جانور نہ ہو تو وہ (عمرہ کر کے) حلال ہوجائے۔

Haidth Number: 4419
۔ مجاہد سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: لوگو! حج افراد کیاکرو اور سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کی بات کو چھوڑ دو۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے جواباً کہا: آپ اس بارے میں اپنی والدہ سے کیوں نہیں پوچھ لیتے؟ پس انھوں نے ان کی خدمت میں ایک آدمی کو بھیج کر مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے کہا: سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کی بات صحیح ہے، کیونکہ جب ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ حج کے ارادہ سے چلے تھے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں حکم دیا اور ہم نے اسے عمرہ میں تبدیل کرلیاتھا، اس کے بعد ہمارے لئے (احرام کی وجہ سے ممنوع ہو جانے والی) ہر حلال چیز حلال ہوگئی،یہاں تک کہ عورتوں اور مردوں کے درمیان سے خوشبوئیں مہک اٹھیں۔

Haidth Number: 4420
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم حج کا تلبیہ پکارتے ہوئے روانہ ہوئے،لیکن جب مکہ مکرمہ پہنچے تورسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اسے عمرہ قراردیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو خیال مجھے بعد میں آیا ہے، اگر پہلے آ جاتا تو میں بھی اس کو عمرہ بنا دیتا، لیکن میں اپنے ہمراہ قربانی کا جانور لایا ہوں اور میں نے حج و عمرہ کو جمع کر رکھا ہے۔

Haidth Number: 4421
۔ سیدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ حج کا تلبیہ پکارتے ہوئے روانہ ہوئے، لیکن جب ہم نے بیت اللہ کا طواف کرلیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اسے عمرہ قرار دو، البتہ جن لوگوں کے ہمراہ قربانی کے جانور ہیں،وہ احرام نہیںکھول سکتے۔ چنانچہ ہم نے اسے عمرہ بنالیا اور ہم حلال ہوگئے، جب آٹھ ذوالحجہ ہوئی تو ہم نے (از سرِ نو) حج کا تلبیہ پکارا اور منیٰ کی طرف روانہ ہوگئے۔

Haidth Number: 4422
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ حج کے ارادہ سے آئے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کو حکم دیا تو انھوں نے اسے عمرہ بنالیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو خیال مجھے بعد میں آیا ہے، اگر یہ پہلے آ جاتا تو میں بھی اسی طرح کرتا جیسے ان لوگوں نے کیا ہے، لیکن اب بات یہ ہے کہ قیامت تک عمرہ حج میں داخل ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا، (یعنی اب حج کے دنوں میں عمرہ کیا جاسکتا ہے)، چنانچہ جن لوگوں کے ہمراہ قربانی کے جانور تھے، ان کے علاوہ باقی سب لوگ حلال ہوگئے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یمن سے آئے تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے پوچھا: تم نے تلبیہ کیسے پکارا؟ انہوں نے کہا: میں نے وہی احرام باندھا ہے، جو آپ نے باندھا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیاتمہارے ساتھ قربانی کا جانور ہے؟ انہوں نے کہا: جی نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم احرام کی حالت میں ہی رہو اور میرے قربانیوں کا ایک تہائی حصہ تمہارے لیے ہے۔ اس وقت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ ایک سواونٹ تھے۔

Haidth Number: 4423
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے، ہمارا خیال صرف یہ تھا کہ ہم حج کرنے کے لیے جا رہے ہیں، لیکن جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تو یہ اعلان کیاگیا: تم میں سے جن لوگوں کے ہمراہ قربانی کے جانور نہیں ہیں، وہ عمرہ کے بعد حلال ہوجائیں اور جن کے ہمراہ قربانی کے جانور ہیں، وہ احرام کی حالت میں رہیں۔ پس جن لوگوں کے ہمراہ قربانی کے جانور تھے، ان کے علاوہ باقی سب لوگ عمرہ کرکے حلال ہوگئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ سو اونٹ تھے اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یمن سے آئے تھے، …۔

Haidth Number: 4424
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس قسم کی حدیث بیان کی ہے۔

Haidth Number: 4425

۔ (۴۴۲۶) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَھَلَّ وَأَصْحَابُہٗبِالْحَجِّوَلَیْسَ مَعَ أَحَدٍ مِنْہُمْ یَوْمَئِذٍ ھَدْیٌ إِلَّا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَطَلْحَۃَ، وَکَانَ عَلِیٌّ قَدِمَ مِنَ الْیَمَنِ وَمَعَہُ الْھَدْیُ، فَقَالَ: أَھْلَلْتُ بِمَا أَھَلَّ بِہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَمَرَ أَصْحَابَہُ أَنْ یَجْعَلُوْھَا عُمْرَۃً وَیَطُوْفُوْا ثُمَّ یُقَصِّرُوْا وَیَحِلُّوْا إِلَّا مَنْ کَانَ مَعَہُ الْھَدْیُ۔ فَقَالُوْا: نَنْطَلِقُ إِلٰی مِنًی وَذَکَرُ أَحْدِنَا یَقْطُرُ، فَبَلَغَ ذَالِکَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((لَوْ أَنِّی أَسْتَقْبِلُ مِنْ أَمْرِی مَا أَسْتَدْبِرُ مَا أَھْدَیْتُ، وَلَوْ َلا أَنَّ مَعِیَ الْھَدْیَ لأَحْلَلْتُ۔)) وَأَنَّ عَائِشَۃَ حَاضَتْ فَنَسَکَتِ الْمَنَاسِکَ کُلَّہَا غَیْرَ أَنَّہَا لَمْ تَطُفْ بِالْبَیْتِ، فَلَمَّا طَافَتْ، قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَتَنْطَلِقُوْنَ بِحَجٍّ وَعُمْرَۃٍ وَأَنْطَلِقُ بِالْحَجِّ؟ فَأَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ أَنْ یَخْرُجَ مَعَہَا إِلَی التَّنْعِیْمِ فَاعْتَمَرَتْ بَعْدَ الْحَجِّ فِیْ ذِیْ الْحِجَّۃِ، وَأَنَّ سُرَاقَۃَ بْنَ مَالِکِ بْنِ جُعْشَمٍ لَقِیَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہِ وَصَحْبِہِ وَسَلَّمَ بِالْعَقَبَۃِ، وَھُوَ یَرْمِیْہَا، فَقَالَ: أَلَکُمْ ھٰذِہِ خَاصَّۃًیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((لَا، بَلْ لِلْأَبَدِ۔)) (مسند احمد: ۱۴۳۳۰)

۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابہ نے حج کا احرام باندھا اور اس کا تلبیہ پکارا،صرف نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ قربانی کے جانور تھے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یمن سے آئے تھے، ان کے ہمراہ بھی قربانی کا جانور تھا۔ انہوں نے (احرام باندھتے وقت یوں) کہا تھا: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم والا احرام باندھتا ہوں۔نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ اپنے تلبیہیا احرام کو عمرہ میں تبدیل کردیں اور بیت اللہ کا طواف اور سعی کے بعد بال کٹوا کر حلال ہوجائیں، البتہ جن کے پاس قربانی کے جانور ہیں، وہ حلال نہیں ہوسکتے۔ لیکن لوگ کہنے لگے: کیا ہم منیٰ کی طرف اس حال میں جائیں گے کہ ہماری شرم گاہوں سے منی کے قطرات ٹپکتے ہوں گے؟ جب ان کییہ بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو خیال مجھے اب آیا ہے، اگر یہ پہلے آ یا ہوتا تو میں قربانی کا جانورساتھ نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہوتا تو میں بھی حلال ہوجاتا۔ اسی سفر میں سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حیض شروع ہو گیا تھا، لیکن انہوں نے تمام مناسک ادا کئے تھے، صرف بیت اللہ کا طواف نہیں کیا تھا اور جب وہ حیض سے پاک ہو گئی تھیں تب طواف کیا تھا۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ لوگ، حج اور عمرہ دوعبادتیں کرکے جارہے ہیں اور میں صرف حج کرکے؟ یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کو حکم دیا کہ وہ ان کے ساتھ تنعیم تک جائیں (اور ان کو عمرہ کروا کر لائیں) چنانچہ سیدہ نے حج کے بعد ذوالحجہ میں ہی عمرہ کیا تھا۔ سیدنا سراقہ بن مالک بن جعشم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جمرۃ عقبہ کے قریب ملاقات ہوئی، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس وقت رمی کررہے تھے، انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! (کیا حج کے دنوں میں عمرہ کرنا) صرف آپ کے ساتھ اسی سال کیلئے مخصوص ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی نہیں، بلکہ یہ حکم ہمیشہ کیلئے ہے۔

Haidth Number: 4426

۔ (۴۴۲۷) عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ: کَانَتْ عَائِشَۃُ تَقُوْلُ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَا نَذْکُرُ إِلَّا الْحَجَّ، فَلَمَّا قَدِمْنَا سَرِفَ، طَمِثْتُ، فَدَخَلَ عَلَیَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا أَبْکِیْ، فَقَالَ: ((مَا یُبْکِیْکِ؟)) قُلْتُ: وَدِدْتُّ أَنِّیْ لَمْ أَخْرُجِِ الْعَامَ، قَالَ: ((لَعَلَّکِ نَفِسْتِ؟)) یَعْنِی حِضْتِ۔ قَالَتْ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((إِنَّ ھٰذَا شَیْئٌ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلٰی بَنَاتِ آدَمَ، فَافْعَلِی مَا یَفْعَلُ الْحَاجُّ غَیْرَ أَنْ لَّا تَطُوْفِی بِالْبَیْتِ حَتّٰی تَطْہُرِی۔)) فَلَمَّا قَدِمْنَا مَکَّۃَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِأَصْحَابِہٖ: ((اِجْعَلُوْھَا عُمْرَۃً، فَحَلَّ النَّاسُ إِلَّا مَنْ کَانَ مَعَہٗھَدْیٌ۔)) وَکَانَ الْہَدْیُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَبِی بَکْرٍ وَذَوِی الْیَسَّارَۃِ، قَالَتْ: ثُمَّ رَاحُوْا مُہِلِّیْنَ بِالْحَجِّ فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ النَّحْرِ طَہَرْتُ، فَأَرْسَلَنِی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَفَضْتُ یَعْنِی طُفْتُ، قَالَتْ: فَأُتِیْنَا بِلَحْمِ بَقَرٍ فَقُلْتُ: مَا ھٰذَا؟ قَالُوْا: ھٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَبَحَ عَنْ نِسَائِہِ الْبَقَرَ، قَالَتْ: فَلَمَّا کَانَتْ لَیْلَۃُ الْحَصْبَۃِ، قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! یَرْجِعُ النَّاسُ بِحَجَّۃٍ وَعُمْرَۃٍ وَأَرْجِعُ بِحَجَّۃٍ، فَأَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ أَبِی بَکْرٍفَأَرْدَفَنِی عَلٰی جَمَلِہِ، قَالَتْ: فَإِنِّی لَأَذْکُرُ وَأَنَا جَارِیَۃٌ حَدِیْثَۃُ السِّنِّ أَنِّیْ أَنْعُسُ فَتَضْرِبُ وَجْہِیْ مُؤْخِرَۃُ الرَّحْلِ، حَتّٰی جَائَ بِیَ التَّنْعِیْمَ، فَاَھْلَلْتُ بِعُمْرَۃٍ جَزَائً لِعُمْرَۃِ النَّاسِ الَّتِیْ اِعْتَمَرُوْا۔ (مسند احمد: ۲۶۸۷۵)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے، ہم صرف حج کا تذکرہ کر رہے تھے، جب ہم سرف کے مقام پر پہنچے تو میں حائضہ ہو گئی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ہاں تشریف لائے تو میں رورہی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کیوں رورہی ہو؟ میں نے عرض کیا: کاش! میں اس سال حج کے لئے نہ آتی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لگتا ہے کہ تمہیں حیض آ گیا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے بناتِ آدم پر یہ چیز لکھ دی ہے، تم وہ تمام مناسک اداکرو جو حاجی لوگ ادا کریں، البتہ تم اس وقت تک بیت اللہ کا طواف نہ کروجب تک حیض سے پاک نہ ہوجائو۔ جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ سے فرمایا: تم ان مناسک کوعمرہ بنالو، جن لوگوں کے پاس قربانی کے جانور نہیں تھے، وہ سب حلال ہو گئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ،اور دیگر صاحب ِاستطاعت لوگوں کے ہمراہ قربانی کے جانور تھے۔ سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتی ہیں: یہ لوگ بعد میں حج کا تلبیہ پکارتے ہوئے روانہ ہوئے۔ میں دس ذوالحجہ کو حیض سے پاک ہوئی، اس وقت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بھیجا تاکہ میں طواف افاضہ کرآئوں۔ پھر ہمارے پاس گائے کا گوشت لایاگیا، میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ تو بتانے والوں نے بتایا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے ذبح کی ہے۔ پھر جب حصبہ کی رات تھی (اور لوگ مدینہ منورہ کی طرف واپسی کے موقع پر وادیٔ حصبہ میں ٹھہرے) تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!لوگ حج اور عمرہ کرکے جارہے ہیں اور میں صرف حج کر کے واپس ہو رہی ہوں، یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے بھائی سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو حکم دیا تو وہ مجھے اپنے پیچھے اونٹ پر بٹھا کر (عمرہ کرا کر لائے)، مجھے خوب یا دہے میں نو عمر تھی اور جب مجھے اونگھ آ جاتی تو میرا چہرہ پالان کی پچھلی لکڑی کو جالگتا تھا، بہرحال میرے بھائی مجھے تنعیم لے گئے، اور میں نے وہاں سے عمرے کا احرام باندھ کر عمرہ ادا کیا،یہ اس عمرہ کے عوض تھاجو لوگ کرچکے تھے۔

Haidth Number: 4427
۔ سیدنا بلال بن حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! حج کو فسخ کر کے عمرہ بنا لینا، کیایہ حکم صرف ہمارے لئے خاص ہے یا سب لوگوں کے لیے عام ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : یہ صرف ہمارے لیے خاص ہے۔

Haidth Number: 4428
۔ (دوسری سند) سیدنا بلال بن حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اے اللہ کے رسول!حج کے احرام کو عمرہ میں تبدیل کرکے حج تمتع کر لینے کی اجازت ہمارے لیے خاص ہے یا سب لوگوں کے لیے عام ہے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی نہیں،یہ صرف ہمارے لیے خاص ہے۔

Haidth Number: 4429
۔ سیدنا علی بن ابو طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کان کٹے ہوئے اور سینگ ٹوٹے ہوئے جانور کی قربانی کرنے سے منع فرمایا۔ قتادہ راوی کہتے ہیں: میں نے سعید بن مسیب سے (عَضْبَاء کی مقدار کے بارے میں) سوال کیا، انھوں نے کہا: نصف یا اس سے ٹوٹا ہوا ہو۔

Haidth Number: 4674
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم آنکھ اور کان کو غور سے دیکھیں اور ان جانوروں کی قربانی نہ کریں: بھینگا، سامنے سے کٹے ہوئے کان والا، پیچھے سے کٹے ہوئے کان والا، لمبائی میں پھٹے ہوئے کان والا، جس کے کان میں گول سوراخ ہو اور جس کا ناک کٹا ہوا ہو۔ زہیر کہتے ہیں: میں نے ابو اسحاق سے کہا: کیا انھوں نے عَضْبَائ کاذکر کیاتھا؟ انھوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: مُقَابَلۃ کون سا جانور ہوتا ہے؟ انھوں نے کہا: جس کے کان کا ایک کنارہ کٹا ہوا ہو، میں نے کہا: مُدَابَرۃ کون سا جانور ہوتا ہے؟ انھوں نے کہا: جس کا کان پیچھے سے کٹا ہوا ہو، پھر انھوں نے کہا: علامت کے طور پر جانور کا کان کاٹا جاتا تھا۔

Haidth Number: 4675

۔ (۴۶۷۶)۔ عَنْ یَزِیْدَ ذي مِصْرٍ، قَالَ: أَتَیْتُ عُتْبَۃَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ، فَقُلْتُ: یَا أَبَا الْوَلِیْدِ إِنِّيْ خَرَجْتُ أَلْتَمِسُ الضُّحَایَا فَلَمْ أَجِدْ شَیْئًا یُعْجِبْنُي غَیْرَ ثَرْمَائَ، فَمَا تَقُولُ؟ قَالَ: أَلا جِئْتَنِيْ بِھَا، قُلْتُ: سُبْحَانَ اللّٰہ، تَجُوزُ عَنْکَ وَلا تَجُوزُ عَنِّي؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنَّکَ تَشُکُّ وَلا أَشُکُّ إِنَّمَا نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنِ المُصْفَرْۃِ وَالْمُسْتَأْصَلَۃِ قَرْنُھَا مِنْ أَصْلِھَا وَالْبَخْقَائِ وَالْمُشَیَّعَۃِ، والکَسْرَائ۔ فَالمُصْفَرَۃُ الَّتِي تُسْتَأْصَلُ أُذُنُھَا حَتّٰی یَبْدُوَ صِمَاخُھَا، وَالْمُسْتَأْصَلَۃُ الَّتي استُؤْصِلَ قَرْنُھَا مِنْ أَصْلِہِ، وَ الْبَخْقَائُ الَّتِي تُبْخَقُ عَیْنُھَا، وَ الْمُشَیَّعَۃُ الَّتِيْ لا تَتْبَعُ الْغَنَمَ عَجَفًا وَ ضَعْفًا وَ عَجْزًا، وَالْکَسْرَائُ الَّتِي لا تُنْقِي۔ (مسند احمد: ۱۷۸۰۲)

۔ یزید ذی مصر کہتے ہیں: میں سیدنا عتبہ بن عبد سلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آیا اور کہا: اے ابو الولید! میں قربانی کا جانور خریدنے کے لیے نکلا تھا، لیکن کوئی ایسا نہیں جو مجھے پسند آیا ہو، البتہ سامنے والے دانت ٹوٹا ہوا ایک جانور تھا، اس کے بارے میں تم کیا کہو گے؟ انھوں نے کہا: تو اس کو میرے پاس لے کر کیوں نہیں آیا؟ میں نے کہا: سبحان اللہ، تمہاری طرف سے جائز ہے اور میرے طرف سے جائز نہیں ہے؟ انھوں نے کہا: جی بالکل، کیونکہ تو شک کرتا ہے اور میں شک نہیں کرتا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان جانوروں سے منع کیا ہے:جس کا کان اتنا کاٹ دیا جائے کہ اس کا سوراخ ظاہر ہو جائے، جس کا سارا کان کاٹ دیا جائے،بھینگی آنکھ والا، جس کی آنکھ کانی ہو گئی ہو، وہ جو کمزوری اور عجز کی وجہ سے بکریوں کے پیچھے نہ چل سکتی ہو اور وہ کہ جس کی ہڈیوں میں گودا ہی نہ ہو۔ (آگے ان الفاظ کے معانی بیان کیے گئے ہیں، جو ترجمہ میں واضح کر دیئے گئے ہیں)۔

Haidth Number: 4676
۔ عبید بن فیروز نے سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے قربانیوںکے بارے میں سوال کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کس قسم کے جانوروں سے منع فرمایا اور ان کو ناپسند کیا، انھوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہم میں کھڑے ہوئے اور اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے ہوئے فرمایا، جبکہ میرا ہاتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ سے چھوٹا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چار قسم کے جانور قربانی میں کفایت نہیں کرتے: (۱) بھینگا، جس کا بھینگا پن واضح ہو۔ (۲) بیماری، جس کی بیماری واضح ہو۔ (۳) لنگڑا، جس کا لنگڑا پن واضح ہو اور (۴) ایسا لاغر جانور کہ جس کی ہڈی میں گودانہ ہو۔ میں نے کہا: میں سینگ یا کان یا دانت میںبھی نقص کو ناپسند کرتا ہوں، انھوں نے کہا: جس چیز کو تو ناپسند کرتا ہے، اس کو چھوڑ دے، لیکن اس کو دوسروں کے لیے حرام نہ قرار دے۔

Haidth Number: 4677