Blog
Books
Search Hadith

فصل اول: حکمرانوں کی اطاعت کے وجوب اور ان کی بغاوت نہ کرنے کا بیان

294 Hadiths Found
سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اللہ کی عبادت کرے، ا س کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، نماز قائم کرے، زکوٰۃ ادا کرے، حاکم کی بات سنے اور اس کی اطاعت کرے، جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس دروازے سے چاہے گا، اللہ اسے اسی دروازے سے جنت میں داخل کرے گااو ر جو آدمی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرے، نماز قائم کرے، زکوٰۃ ادا کرے، حاکم کی بات سنے اور اس کی اطاعت نہ کرے، تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے، اگر وہ چاہے تو اسے معاف کر دے اور اگر چاہے تو اسے عذاب سے دوچار کرے۔

Haidth Number: 12114
سیدناعامر بن شہر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے, رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم قریش کی بات کو سامنے رکھو اور ان کے اعمال کو نذر انداز کرو۔

Haidth Number: 12541
مولائے رسول سیدناثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم قریش کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، جب تک وہ بھی تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرتے رہیں۔

Haidth Number: 12542
سیدنا علی بن طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ بات میرے کانوں نے سنی اور میرے دل نے یاد کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگ قریش کے پیرو کار ہیں، نیک لوگ قریش کے نیک لوگوں کی پیروی کرتے ہیں اور برے لوگ قریش کے برے لوگوں کے پیچھے چلتے ہیں۔

Haidth Number: 12543
سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تک دنیا میں دو آدمی باقی رہیں گے، یہ اقتدار ہمیشہ قریش میں رہے گا۔ ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی دو انگلیوں کو حرکت دے کر دو کا اشارہ کیا۔

Haidth Number: 12544
عبداللہ بن ہذیل سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمارا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے، بکر بن وائل کے قبیلہ میں سے کسی نے کہا: اگر قریش اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو یہ اقتدار ان سے نکل کر عربوں کے دوسرے قبائل میں چلا جائے گا، یہ سن کر سیدنا عمر و بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم غلط کہتے ہو، میں نے خود رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ بھلائی کا کوئی کام ہو یا برائی کا، قیامت تک ہر کام میں قریش ہی لوگوں کے سربراہ رہیں گے۔

Haidth Number: 12545
سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے کچھ حقوق قریش کے ذـمہ ہیں اور قریش کے لیے کچھ حقوق تمہارے ذمے ہیں، جب تک وہ عدل و انصاف سے فیصلے کرتے رہیں، جب ان کے پاس امانتیں رکھی جائیں تو وہ امانتیں ادا کرتے رہیں اور جب ان سے رحم کا مطالبہ کیا جائے تو وہ شفقت کرتے رہیں۔

Haidth Number: 12546
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک کہ زمانہ اس قدرمختصر نہیں ہوجائے گا کہ ایک سال ایک مہینے کے برابر، ایک مہینہ ایک ہفتے کے برابر، ایک ہفتہ ایک دن کے برابر،ایک دن ایک گھڑی کے برابراور ایک گھڑی اس لمحے کے برابر ہو جائے گی، جس میں کھجور کا خشک پتہ جل جاتا ہے۔

Haidth Number: 12885
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (قیامت کے قریب) وقت مختصر ہوجائے گا، کنجوسی عام ہوجائے گی، فتنے عام ہو جائیں گے اور ھَرْج عام ہوجائے گا۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! مؤخر الذکر سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: قتل ہو گا، قتل۔

Haidth Number: 12886
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت قائم ہوگی جب تمہارے اندر مال و دولت اس قدر عام ہوجائے گا کہ مال دار آدمی اس وجہ سے پریشان ہوجائے گا کہ اس کا صدقہ کون قبول کرے گا اور علم چھین لیا جائے گا، وقت مختصر ہوجائے گا، فتنے برپا ہوں گے اور ھَرْج عام ہوگا۔ صحابہ نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! ھرج سے کیا مراد ہے؟آپ نے فرمایا: قتل ہے، قتل۔

Haidth Number: 12887
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابوالقاسم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم ہوگی جب علم چھین لیا جائے گا، فتنے نمودار ہوں گے اور ھرج عام ہوجائے گا۔ صحابہ کرام نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! ھرج سے کیا مراد ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قتل۔

Haidth Number: 12888
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک اس قسم کے حالات پیدا نہ ہوجائیں گے کہ ایک آدمی کسی قبر کے پاس سے گزرتے ہوئے کہے گا: کاش میں اس کی جگہ پر ہوتا، یہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے شوق کی وجہ سے نہیں ہو گا (بلکہ حالات کی سنگینی کی بنا پر ہو گا)۔

Haidth Number: 12889
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک دوس قبیلے کی عورتیں کے چوتڑ ذُوْالْخَلَصَۃ نامی بت کے گرد چکر لگاتے ہوئے حرکت نہیں کریں گے، یہ (یمن کے علاقے میں) تَبَالَہ کے مقام پر ایک بت تھا،دوس قبیلے کے لوگ اسلام سے قبل اس کی عبادت کیا کرتا تھا۔

Haidth Number: 12890
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک میری امت ہو بہو پہلی امتوں اور لوگوں والے کام نہیں کرے گی؟ ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا جس طرح فارسی اور رومی لوگوں کے کام تھے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں سے مراد ہی یہی لوگ ہیں۔

Haidth Number: 12891
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہو گی, جب تک عربوں کی سر زمین سبزہ زاروں اور نہروں کی صورت اختیار نہیں کر لے گی اور جب تک ایسا نہیں ہو گا کہ عراق سے مکہ تک سفر کرنے والے کو صرف راستہ بھول جانے کا ڈر ہو گا اور ھرج عام ہوجائے گا۔ صحابہ کرام نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! ھرج سے کیا مراد ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قتل۔

Haidth Number: 12892
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک کہ تمہارے اندر مال و دولت کی اس قدرفراوانی نہ ہوجائے گی کہ مال دار آدمی صدقہ کرتے وقت پریشان ہوگا کہ وہ کسے دے، اور وہ جسے دے گا، وہ کہے گا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔

Haidth Number: 12893
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ دو بڑے گرہوں کے درمیان بڑی جنگ نہ ہو جائے اور دونوں کا دعوی بھی ایک ہوگا۔

Haidth Number: 12894
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایاـ: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک تم دو عجمی قوموں خوز اور کرمان سے قتال نہیں کرو گے، جن کے چہرے سرخ اور ناک چپٹے ہوں گے، اور ان کے چہرے ڈھالوں کی طرح چوڑے چپٹے ہوں گے۔

Haidth Number: 12895
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک تم ایسی قوم سے قتال نہیں کرو گے جن کے جوتے بال دار ہوں گے۔

Haidth Number: 12896
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک تم ترکوں سے قتال نہیں کرو گے، جن کی آنکھیں چھوٹی، چہرے سرخ اور ناک چپٹے ہوں گے اور گویا ان کے چہرے ڈھالوں کی طرح چوڑے چوڑے ہوں گے۔

Haidth Number: 12897
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک ایسا نہ ہو جائے کہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہو، اور اس علامت کو دیکھ کر سب لوگ ایمان لے آئیں گے، مگر جو لوگ اس سے پہلے ایمان نہیں لا چکے ہوں گے یا جنھوں نے اچھے عمل نہیں کیے ہوں گے، ان کو ان کا ایمان فائدہ نہیں دے گا اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک تم یہودیوں سے قتال نہیں کر لو گے، یہودی بچنے کے لیے دوڑ کر پتھر کے پیچھے پناہ لے گا، لیکن وہ پتھر یوں بولے گا: اے اللہ کے بندے! اے مسلم! یہ یہودی میرے پیچھے ہے، اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک تم ایسی قوم سے قتال نہیں کر لو گے جن کے جوتے بال دار ہوں گے۔

Haidth Number: 12898
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک تیس کے قریب جھوٹے دجال پیدا نہیں ہوں گے، ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ یہ ہوگا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔

Haidth Number: 12899

۔ (۱۳۱۰۴)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ قَالَ: حَدَّثَنِیْ اَبِیْ، قَالَ: ثَنَا اِبْرَاہِیْمُ بْنُ اِسْحٰقَ الطَّالقَانِیُّ قَالَ: حَدَّثَنِیْ النَّضْرُ بْنُ شُمَیْلِ نِ الْمَازِنِیُّ قَالَ: حَدَّثَنِیْ اَبُوْ نَعَامَۃَ قَالَ: حَدَّثَنِیْ اَبُوْ ھُنَیْدَۃَ الْبَرَائُ بْنُ نَوْفَلٍ عَنْ وَالَانَ الْعَدَوِیِّ عَنْ حُذَیْفَۃَ عَنْ اَبِی بَکْرِ نِ الصِّدِّیْقِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: اَصْبَحَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ یَوْمٍ فَصَلّٰی الْغَدَاۃَ، ثُمَّ جَلَسَ حَتّٰی اِذَا کَانَ مِنَ الضُّحٰی ضَحِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، ثُمَّ جَلَسَ مَکَانَہُ حَتّٰی صَلّٰی الْاُوْلٰی وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ، کُلَّ ذٰلِکَ لاَیَتَکَلَّمُ حَتّٰی صَلّٰی الْعِشَائَ الْآخِرَۃَ، ثُمَّ قَامَ اِلٰی اَھْلِہِ فَقَالَ النَّاسُ لِاَبِیْ بَکْرِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: اَلَا تَسْاَلُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا شَاْنُہُ، صَنَعَ الْیَوْمَ شَیْئًا لَمْ یَصْنَعْہُ قَطُّ، قَالَ: فَسَاَلَہُ فَقَالَ: ((نَعَمْ عُرِضَ عَلَیَّ مَا ھُوَکَائِنٌ مِنْ اَمْرِ الدُّنْیَا وَاَمْرِالْآخِرَۃِ فَجُمِعَ الْاَوَّلُوْنَ وَالْآخَرُوْنَ بِصَعِیْدٍ وَاحِدٍ، فَزِعَ النَّاسُ بِذٰلِکَ حَتّٰی انْطَلَقُوْا اِلٰی آدَمَ علیہ السلام وَالْعَرَقُ یَکَادُیُلْجِمُہُمْ فَقَالُوْا: یَاآدَمُ! اَنْتَ اَبُو الْبَشَرِ وَاَنْتَ اصْطَفَاکَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ، اِشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّکَ، قَالَ: لَقَدْ لَقِیْتُ مِثْلَ الَّذِیْ لَقِیْتُمْ، اِنْطَلِقُوْا اِلٰی اَبِیْکُمْ بَعْدَ اَبِیْکُمْ اِلٰی نُوْحٍ {اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی آدَمَ وَنُوْحًا وَآلَ اِبْرَاہِیْمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلٰی الْعَالَمِیْن} قَالَ: فَیَنْطَلِقُوْنَ اِلٰی نُوْحٍ علیہ السلام فَیَقُوْلُوْنَ: اِشْفَعْ لَنَا اِلٰی رَبِّکَ, فَاَنْتَ اصْطَفَاکَ اللّٰہُ وَاسْتَجَابَ لَکَ فِیْ دُعَائِکَ وَلَمْ یَدَعْ عَلٰی الْاَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا, فَیَقُوْلُ: لَیْسَ ذَاکُمْ عِنْدِیْ, اِنْطَلِقُوْا اِلٰی اِبْرَاہِیْمَ علیہ السلام فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اِتَّخَذَہُ خَلِیْلاً، فَیَنْطَلِقُوْنَ اِلٰی اِبْرَاہِیْمَ فَیَقُوْلُ: لَیْسَ ذَاکُمْ عِنْدِیْ، وَلٰکِنْ اِنْطَلِقُوْا اِلٰی مُوْسٰی علیہ السلام فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ کَلَّمَہُ تَکْلِیْمًا فَیَقُوْلُ مُوْسٰی علیہ السلام : لَیْسَ ذَاکُمْ عِنْدِیْ وَلٰکِنِ انْطَلِقُوْا اِلٰی عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ فَاِنَّہُ یُبْرِیئُ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَیُحْیِی الْمَوْتٰی فَیَقُوْلُ عِیْسٰی: لَیْسَ ذَاکُمْ عِنْدِیْ، وَلٰکِنِ انْطَلِقُوْا اِلٰی سَیِّدِ وُلْدِ آدَمَ فَاِنَّہ اَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الْاَرْضُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِنْطَلِقُوْا اِلٰی مَحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَیَشْفَعُ لَکُمْ اِلٰی رَبِّکُمْ عَزَّوَجَلَّ، قَالَ: فَیَنْطَلِقُ فَیَاْتِیْ جِبْرِیْلُ علیہ السلام رَبَّہُ، فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اِئْذَنْ لَہُ وَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ، قَالَ: فَیَنْطَلِقُ بِہٖجِبْرِیْلُ فَیَخِرُّ سَاجِدًا قَدْرَ جُمُعَۃٍ وَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اِرْفَعْ رَاْسَکَ یَا مُحَمَّدُ! وَقُلْ یُسْمَعْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعُ قَالَ: فَیَرْفَعُ رَاْسَہُ فَاِذَا نَظَرَ اِلٰی رَبِّہٖعَزَّوَجَلَّخَرَّسَاجِدًا قَدْرَ جُمُعَۃٍ اُخْرٰی، فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اِرْفَعْ رَاْسَکَ وَقُلْ یُسْمَعْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، قَالَ: فَیَذْھَبُ لِیَقَعَ سَاجِدًا فَیَاْخُذُ جِبْرِیْلُ علیہ السلام بِضَبْعَیْہِ فَیَفْتَحُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَلَیْہِ مِنَ الدُّعَائِ شَیْئًالَمْیَفْتَحْہُ عَلٰی بَشَرٍ قَطُّ فَیَقُوْلُ: اَیْ رَبِّ خَلَقْتَنِیْ سَیِّدَ وُلْدِ آدَمَ وَلَافَخْرَ وَاَوَّلَ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الْاَرْضُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَافَخْرَ، حَتّٰی اِنَّہُ لَیَرِدُ عَلَیَّ الْحَوْضَ اَکْثَرُ مِمَّا بَیْنَ صَنْعَائَ وَاَیْلَۃَ ، ثُمَّ یُقَالُ: اُدْعُوا الصِّدِّیْقِیْنَ فَیَشْفَعُوْنَ، ثُمَّ یُقَالُ: اُدْعُوالْاَنْبِیَائَ قَالَ: فَیَجِیْئُ النَّبِیُّ وَمَعَہُ الْعِصَابَۃُ وَالنَّبِیُّ وَمَعَہُ الْخَمْسَۃُ وَالسِّتَّۃُ وَالنَّبِیُّ وَلَیْسَ مَعَہُ اَحَدٌ، ثُمَّ یُقَالُ: اُدْعُو الشُّہَدَائَ فَیَشْفَعُوْنَ لِمَنْ اَرَادُوْا، وَقَالَ: فَاِذَا فَعَلَتِ الشُّہَدَائُ ذٰلِکَ قَالَ: یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اَنَا اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ اَدْخِلُوْا جَنَّتِیْ مَنْ کَانَ لَا یُشْرِکُ بِیْ شَیْئًا، قَالَ: فَیَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ قَالَ: ثُمَّ یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اُنْظُرُوْا فِی النَّارِ ھَلْ تَلْقَوْنَ مِنْ اَحَدٍ عَمِلَ خَیْرًا قَطُّ؟ قَالَ: فَیَجِدُوْنَ فِی النَّارِ رَجُلًا فَیَقُوْلُ لَہُ: ھَلْ عَمِلْتَ خَیْرًا قَطُّ؟ فَیَقُوْلُ: لَاغَیْرَ اَنِّیْ کُنْتُ اُسَامِحُ النَّاسَ فِی الْبَیْعِ وَالشِّرَائِ فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اِسْمَحُوْا لِعَبْدِیْ کَاِسْمَاحِہٖاِلٰی عَبِیْدِیْ، ثُمَّ یُخْرِجُوْنَ مِنَ النَّارِ رَجُلًا فَیَقُوْلُ لَہُ: ھَلْ عَمِلْتَ خَیْرًا قَطُّ، فَیَقُوْلُ: لَا غَیْرَ اَنِّیْ قَدْ اَمَرْتُ وَلَدِیْ اِذَا مِتُّ فَاَحْرِقُوْنِیْ بِالنَّارِ ثُمَّ اطْحَنُوْنِیْ حَتّٰی اِذَا کُنْتُ مِثْلَ الْکُحْلِ، فَاذْھَبُوْا بِیْ اِلَی الْبَحْرِ، فَاذْرُوْنِیْ فِی الرِّیْحِ، فَوَ اللّٰہِ لَایَقْدِرُ عَلَیَّ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ اَبَدًا، فَقَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: لِمَ فَعَلْتَ ذٰلِکَ؟ قَالَ: مِنْ مَّخَافَتِکَ، قَالَ: فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: اُنْظُرْ اِلٰی مُلْکِ اَعْظَمِ مَلِکٍ، فَلَکَ مِثْلُہُ وَعَشْرَۃُ اَمْثَالِہٖ،فَیَقُوْلُ: لِم تَسْخَرُ بِیْ وَاَنْتَ الْمَلِکُ؟ قَالَ: وَذٰلِکَ الَّذِیْ ضَحِکْتُ مِنْہُ مِنَ الضُّحٰی۔)) (مسند احمد: ۱۵)

سیدناابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فجر کی نماز ادا کر کے بیٹھ گئے، یہاں تک کہ چاشت کا وقت ہوگیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرائے اور اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہیں بیٹھے رہے، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ظہر، عصر اور مغرب کی نمازیں بھی وہیں ادا کیں اور کسی سے کوئی بات نہیں کی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عشاء کی نماز ادا کی اور اٹھ کر اپنے اہل ِ خانہ کی طرف چلے گئے تو لوگوں نے سیدنا ابوبکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: کیا آپ اللہ کے رسول سے دریافت نہیں کرتے کہ کیا وجہ ہے کہ آج آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایسا عمل کیا ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں کیا، چنانچہ ابوبکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، دنیا اور آخرت میں جو کچھ ہونے والا ہے، آج میرے سامنے پیش کیا گیا، پہلے والے اور بعد والے لوگوں کو ایک چٹیل میدان میں جمع کیا جائے گا، وہاں وہ شدید کر ب و اذیت میں مبتلا ہوں گے کہ وہ آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے، لوگوں کو منہوں تک پسینہ آیا ہوگا، وہ کہیں گے: اے آدم ! آپ ابو البشر ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخلوق میں سے منتخب کیا، آپ اپنے ربّ کے ہاں ہمارے حق میں سفارش کریں۔ وہ کہیں گے:میں بھی اسی قسم کی بے چینی میں مبتلا ہوں، جس میں تم پھنسے ہوئے ہو، تم اس طرح کرو کہ میرے بعد اپنے دوسرے باپ نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرَھِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلٰی الْعٰلَمِیْنَ} ( بے شک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام ، نوح علیہ السلام ، آلِ ابراہیم اور آل عمران کو سارے جہان والوں میں سے منتخب فرمایا ہے۔) چنانچہ لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں جا کر ان سے گزارش کریں گے کہ وہ ان کے حق میں ربّ سے سفارش کریں، آخر اللہ تعالیٰ نے ان کولوگوں میں سے منتخب کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی، جس کے نتیجے میں اس نے زمین پر بسنے والے ایک کافر کو بھی نہیں چھوڑا، لیکن نوح علیہ السلام معذرت کرتے ہوئے کہیں گے:میں یہ کام نہیں کر سکتا، تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنا خلیل بنایا تھا، پس وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس جا کر ان سے اپنی بات ذکر کریں گے، لیکن وہ بھی معذرت کرتے ہوئے کہیں گے:میں یہ کام نہیں کر سکتا، تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ اعزاز عطا کیا ہے کہ ان سے براہ راست کلام کیا۔لیکن موسی علیہ السلام بھی یہ کہیں گے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا، تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ خصوصیت دی تھی کہ وہ مادر زا اندھوں کو بینا کر دیتے تھے، برص کے مریضوں کو ٹھیک کر دیتے اور مردوں کو زندہ کر دیتے تھے، لیکن عیسیٰ علیہ السلام بھی کہیں گے کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا، البتہ تم اولادِ آدم کے سردار محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں چلے جاؤ۔ قیامت کے دن سب سے پہلے زمین ان سے پھٹی ہے اور وہ سب سے پہلے اٹھے ہیں، بس تم لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ہی چلے جاؤ، وہ تمہارے ربّ کے ہاں تمہارے حق میں سفارش کر سکتے ہیں۔ اُدھر جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچے گے اور اللہ تعالیٰ ان کو حکم دیتے ہوئے کہیں گے: تم حضرت محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی دے دو، حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ساتھ لے کر جائیں گے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک ہفتے کے برابر طویل سجدہ کریں گے،بالآخر اللہ تعالیٰ فرمائے گا:اے محمد! اپنا سر اٹھاؤ، کہو آپ کی بات سنی جائے گی، سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنا سر اٹھائیں گے، لیکن جونہی اپنے ربّ کو دیکھیں گے تو دوبارہ سجدہ ریز ہوجائیں گے اور ایک ہفتہ بھر سجدہ کریں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا:سر اٹھاؤ، کہو آپ کی بات سنی جائے گی، سفارش کرو آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی، آپ پھر سجدہ ریز ہونے لگیں گے کہ جبرائیل علیہ السلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بازوؤں سے پکڑ لیں گے، تب اللہ تعالیٰ آپ کو ایسی ایسی دعائیں سکھا دے گا کہ اس نے ایسی دعائیں آج تک کسی فرد کو نہیں سکھائی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کہیں گے: اے میرے رب! تو نے مجھے اولادِ آدم کا سردار بنایا، میں اس پر فخر نہیں کرتا، قیامت کے دن سب سے پہلے زمین سے میں اٹھا، میں اس پر بھی فخر نہیںکرتا اور صنعاء اور ایلہ کے درمیان میں سما جانے والے لوگوں سے زیادہ لوگ پانی پینے کے لیے میرے حوض پر آئیں گے۔ پھر اعلان کیا جائے گا کہ صدّیقوں کو بلاؤ، وہ آکر گنہگاروں کے حق میں سفارش کریںگے، پھر اعلان کیا جائے گا کہ انبیاء کو بلاؤ،چنانچہ کوئی نبی آئے گا اوراس کے ساتھ امتیوں کی چھوٹی سی جماعت ہوگی، کسی نبی کے ساتھ پانچ،کسی کے ساتھ چھ افراد ہوں گے اور بعض نبی ایسے بھی ہوں گے کہ جن کے ساتھ کوئی آدمی نہیں ہوگا، پھر اعلان کیا جائے گا کہ شہداء کو بلاؤ، وہ بھی جن جن کے حق میں چاہیں گے سفارشیں کر یں گے، جب شہداء سفارش سے فارغ ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میںارحم الرحمین (سب سے زیادہ رحم کرنے والا) ہوں، تم ہر اس آدمی کو جنت میں لے جاؤ، جو میرے ساتھ شرک نہیں کرتا تھا، چنانچہ ایسے لوگ جنت میں چلے جائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جہنم میں دیکھو، کیا تمہیں کوئی ایسا آدمی نظر آ رہا ہو، جس نے کبھی کوئی نیکی کی ہو؟ چنانچہ جہنم میں ایک آدمی سے کہا جائے گا: تو نے بھی کبھی کوئی نیکی کی تھی؟ وہ کہے گا: جی نہیں، کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی، البتہ خرید و فروخت کرتے وقت میں لوگوں سے نرمی کیا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ جس طرح میرے بندوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرتا تھا، تم بھی میرے اس بندے کے ساتھ اسی طرح نرمی کرو۔اس کے بعد پھر وہ جہنم سے ایک آدمی کو نکال کر لائیں گے، اس سے پوچھا جائے گا کہ کیا اس نے کبھی کوئی نیکی کی ہے؟ وہ کہے گا: جی نہیں، میں نے تو اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ جب میں مر جاؤں تو تم مجھے آگ سے جلا ڈالنا، پھر میری راکھ کو پیسنا، جب میں سرمہ کی مانند باریک ہوجاؤں تو میری راکھ کو سمندر کی طرف لے جاکر ہواؤں میں اڑاد ینا، اللہ کی قسم، ایسا کرنے سے اللہ ربّ العالمین کو مجھ پر کوئی قدرت نہیں رہے گی، تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: تو نے یہ کام کیوں کیا تھا؟ وہ کہے گا: اے اللہ! تیرے خوف کی وجہ سے۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تم کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کی بادشاہت کو تصور کرو، تمہیں جنت میں وہ اور اس کا دس گنا دیا جائے گا۔ یہ سن کر وہ کہے گا: اے اللہ! تو تو بادشاہ ہے، تو میرے ساتھ مذاق کیوں کرتا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ وہ بات تھی، جس کی وجہ سے میں چاشت کے وقت مسکرایا تھا۔

Haidth Number: 13104

۔ (۱۳۲۳۷)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ وَعَفَّانُ قَالَا: ثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَوَّلُ مَنْ یُّکْسٰی حُلَّۃً مِنَ النَّارِ اِبْلِیْسُ فَیَضَعُہَا عَلٰی حَاجِبِہٖوَیَسْحَبُہَا مِنْ خَلْفِہِ وَذُرِّیُّتُہُ مِنْ بَعْدِہٖوَھُوَیُنَادِیْ: وَا ثُبُوْرَاہ وَیُنَادُوْنَ: یَاثُبُوْرَھُمْ۔)) قَالَ عَبْدُ الصَّمَدُ: قَالَھَا: مَرَّتَیْنِ ((حَتّٰییَقِفُوْا عَلٰی النَّارِ فَیَقُوْلُ: یَاثُبُوْرَاہ وَیَقُوْلُوْنَ: یَا ثُبُوْرَھُمْ، فَیُقَالُ لَھُمْ: { لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا کَثِیْرًا}۔)) قَالَ عَفَّانٌ: وَذُرِّیَّتُہُ خَلْفَہُ وَھُمْ یَقُوْلُوْنَیَا ثُبُوْرَھُمْ قَالَ عَفَّانٌٌ: حَاجِبَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۵۶۴)

سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب سے پہلے ابلیس کو آگ کا لباس پہنایا جائے گا، وہ اسے اپنی پلکوں پر رکھ کر پیچھے کو کھینچے گا، اس کے بعد اس کی اولاد کو بھی ایسا ہی لباس پہنایا جائے گا، ابلیس کہے گا: ہائے میری ہلاکت، اور اس کی اولاد کہے گی: ہائے ہماری ہلاکت۔ دو دفعہ یہ بات ارشاد فرمائی، یہاں تک کہ وہ آگ پر کھڑے ہو جائیں گے، پھر ابلیس کہے گا: ہائے میری ہلاکت، اور اس کی اولاد کہے گی: ہائے ہماری ہلاکت، اس وقت ان سے کہا جائے گا: { لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُبُوْرًا کَثِیْرًا} (آج تم ایک ہلاکت کو مت پکارو، بلکہ بہت ساری ہلاکتوں کو پکارو)(سورۂ فرقان: ۱۴)۔

Haidth Number: 13237