Blog
Books
Search Hadith

تین تین امور کا بیان

173 Hadiths Found
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ آدمی کھڑے ہو کر پانی پئے، مشکیزے کے منہ سے پانی پئے اور اس سے کہ آدمی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار پر لکڑی رکھنے سے منع کرے۔

Haidth Number: 9971
۔ سیدنا واثلہ بن اسقع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ آدمی غیر باپ کی طرف منسوب ہو یا اپنی آنکھوں کو وہ کچھ دکھائے، جو انھوں نے نہ دیکھا ہو(یعنی جھوٹے خواب بیان کرے)، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف ایسی بات منسوب کرے، جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نہ فرمائی ہو۔

Haidth Number: 9972
Haidth Number: 9973
۔ سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اجازت لیے بغیر کسی آدمی کے گھرکے اندر دیکھے، اگر وہ وہ دیکھتا ہے تو اس کا معنییہ ہو گا کہ وہ داخل ہو گیا ہے، نیز کوئی آدمی لوگوں کو اس طرح امامت نہ کروائے کہ دعا صرف اپنے نفس کے لیے کرتا رہے، پس اگر وہ اس طرح کرے گا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے ان سے خیانت کی ہے اور کوئی آدمی اس حال میں نماز نہ پڑھے کہ وہ پیشاب پائخانہ کو روک رہا ہو، اسے چاہیے کہ پہلے قضائے حاجت سے فارغ ہو جائے۔

Haidth Number: 9974
۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عثمان بن عفان علیہ السلام کے فتنے کے دوران کہا: میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک عنقریب فتنے ہوں گے، اس میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے ، کھڑے ہونے والا چلنے والے سے اور اس میں چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا۔ ایک آدمی نے کہا: اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ قاتل مجھ پر میرے گھر میں گھس آئے اور مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھا دے تو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام کے بیٹے کی طرح ہو جانا۔‘

Haidth Number: 10313
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نفس کو بھی ظلماً قتل کیا جاتا ہے، آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے کو اس خون میں سے گناہ ملتا ہے، کیونکہ وہ پہلا آدمی ہے، جس نے قتل شروع کیا تھا۔

Haidth Number: 10314
۔ سیدنا سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب سیدہ حوائ ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کو حمل ٹھہرا تو ابلیس نے ان کا چکر لگایا، جبکہ ان کا بچہ زندہ نہیں رہتا تھا، اور اس نے کہا: اس کا نام عبد الحارث رکھو، تب یہ زندہ رہے گا، جب انھوں نے اس کا نام عبد الحارث رکھا تو وہ زندہ رہا، یہ دراصل شیطان کے اشارے اور اس کے حکم سے تھا۔

Haidth Number: 10315

۔ (۱۰۳۶۵)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: اِسْتَبَّ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ رَجُلٌ مِنَ الْیَھُوْدِ، فَقَالَ الْمُسْلِمُ: وَالَّذِیْ اصْطَفَی مُحَمَّدًا عَلَی الْعَالَمِیْنَ، وَ قَالَ الْیَھُوْدِیُّ: وَ الَّذِی اصْطَفَی مُوْسٰی عَلَی الْعَالَمِیْنَ، فَغَضِبَ الْمُسْلِمُ فَلَطَمَ عَیْنَ الْیَھُوْدِیِّ، فَاَتَی الْیَھُوْدِیُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاَخْبَرَ بِذٰلِکَ، فَدَعَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَاَلَہُ فَاعْتَرَفَ بِذٰلِکَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا تُخَیِّرُوْنِیْ عَلٰی مُوْسٰی فَاِنَّ النَّاسَ یَصْعَقُوْنَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَاَکُوْنُ اَوَّلَ مَنْ یُفِیْقُ فَاَجِدُ مُوْسٰی مُمْسِکًا بِجَانِبِ الْعَرْشِ، فَمَا اَدْرِیْ اَکَانَ فِیْمَنْ صَعِقَ فَاَفَاقَ قَبْلِیْ اَمْ کَانَ مِمَّنِ اسْتَثْنَاہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ۔)) (مسند احمد: ۷۵۷۶)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مسلمان اور ایکیہودی نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا، مسلمان نے کہا: اس ذات کی قسم! جس نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جہانوں پر منتخب کیا،یہودی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو جہانوں پرمنتخب کیا،یہ بات سن کر مسلمان کو غصہ آیا اور اس نے یہودی کی آنکھ پر تھپڑ دے مارا، یہودی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس جھگڑے کی تفصیل بتائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس مسلمان سے پوچھا، اس نے اعتراف کیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے موسی پر ترجیح نہ دو، پس بیشک لوگ قیامت کے دن بیہوش ہوں گے، سب سے پہلے مجھے افاقہ ہو گا، پس میں موسی علیہ السلام کو اس حال میں پاؤں گا کہ وہ عرش کے پہلو کے ساتھ کھڑے ہوں گے، پس میں نہیں جانتا کہ کیا وہ بھی بیہوش ہوئے تھے اور مجھ سے پہلے ان کو افاقہ ہو گیایا اللہ تعالیٰ نے ان کو مستثنی رکھا۔

Haidth Number: 10365
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم انبیائے کرام کے ما بین ترجیح نہ دیا کرو۔

Haidth Number: 10366
۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دن مال تقسیم کیا، ایک انصاری نے کہا: اس تقسیم سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضامندی نہیں ہے، میںنے کہا: اے اللہ کے دشمن! میں ضرور ضرور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس بات کی خبر دوں گا، پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات بتلائی گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: موسی علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، ان کو اس سے زیادہ تکلیف دی گئی تھی، لیکن انھوں نے پھر بھی صبر کیا۔

Haidth Number: 10367

۔ (۱۰۳۶۸)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، مِنْ حَدِیْثِ الْاِسْرَائِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((ثُمَّ عُرِجَ بِنَا اِلَی السَّمَائِ السَّادِسَۃِ، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِیْلُ، فَقِیْلَ: مَنْ اَنْتَ؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ، قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقِیْلَ: وَقَدْ بُعِثَ اِلَیْہ؟ قَالَ: قَدْ بُعِثَ اِلَیْہِ، فَفَتَحَ لَنَا فَاِذَا اَنَا بِمُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ، فَرَحَّبَ وَدَعَا بِخَیْرٍ (وَفِیْہِ اَیْضًا) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَاَوْحَی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِلَیَّ مَا اَوْحٰی، وَفَرَضَ عَلَیَّ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ خَمْسِیْنَ صَلاۃً، قَالَ: فَنَزَلْتُ حَتّٰی انْتَھَیْتُ اِلٰی مُوْسٰی فَقَالَ مَا فَرَضَ رَبُّکَ عَلٰی اُمَّتِکَ قَالَ قُلْتُ خَمْسِیْنَ صَلٰوۃً فِیْ کِلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ قَالَ ارْجِعْ اِلَی رَبِّکَ فَاسْاَلْہُ التَّخْفِیْفَ، فَاِنَّ اُمَّتَکَ لَا تُطِیْقُ ذٰلِکَ فَاِنِّیْقَدْ بَلَوْتُ بَنِیْ اِسْرَئِیْلَ وَخَبَرْتُھُمْ، قَالَ: فَرَجَعْتُ اِلٰی رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ فَقُلْتُ: اَیْ رَبِّ! خَفِّفْ عَنْ اُمَّتِیْ فَحَطَّ عَنِّیْ خَمْسًا، فَرَجَعْتُ اِلٰی مُوْسٰی، فَقَالَ: مَافَعَلْتَ؟ قُلْتُ: حَطَّ عَنِّیْ خَمْسًا، قَالَ: اِنَّ اُمَّتَکَ لَا تُطِیْقُ ذٰلِکَ فَارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَاسْاَلْہُ التَّخْفِیْفَ لِاُمَّتِکَ، قَالَ: فَلَمْ اَزَلْ اَرْجِعُ بَیْنَ رَبِّیْ وَبَیْنَ مُوْسٰی وَ یَحُطَّ عَنِّیْ خَمْسًا، حَتّٰی قَالَ: یَا مُحَمَّدُ! ھِیَ خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ بِکُلِّ صَلَاۃٍ عَشْرٌ فَتِلْکَ خَمْسُوْنَ صَلَاۃً، وَمَنْ ھَمَّ بِحَسَنَۃٍ فَلَمْ یَفْعَلْھَا کُتِبَتْ لَہُ حَسَنَۃً، فَاِنْ عَمِلَھَا کُتِبَتْ عَشْرًا، وَ مَنْ ھَمَّ بِسَیِّئَۃٍ فَلَمْ یَعْمََلْھَا لَمْ تُکْتَبْ شَیْئًا، فَاِنْ عَمِلَھَا کُتِبَتْ سَیِّئَۃً وَاحِدَۃً، فَنَزَلْتُ حَتَّی انْتَھَیْتُ اِلٰی مُوْسٰی فَاَخْبَرْتُہُ فَقَالَ: ارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَاسْاَلْہُ التَّخْفِیْفَ لِاُمَّتِکَ فَاِنَّ اُمَّتِکَ لَا تُطِیْقُ ذٰلِکَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : لَقَدْ رَجَعْتُ اِلٰی رَبِّیْ حَتّٰی لَقَدْ اسْتَحْیَیْتُ۔)) (مسند احمد: ۱۲۵۳۳)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اسراء والی حدیث بیان کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر مجھے چھٹے آسمان کی طرف چڑھایا گیا، جبریل علیہ السلام نے کھولنے کا مطالبہ کیا، پس کہا گیا: تم کون ہو؟ انھوں نے کہا: جبریل ہوں، پھر پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ انھوں نے کہا: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، پھر کہا گیا: کیا ان کی طرف پیغام بھیجا جا چکا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ان کی طرف طرف پیغام بھیجا گیا ہے، پس اس نے ہمارے لیے دروازہ کھول دیا، اچانک میں نے حضرت موسی علیہ السلام کو دیکھا، انھوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لیے خیر و بھلائی کی دعا کی، ……، پس اللہ تعالیٰ نے میری طرف جو وحی کرنی تھی، وہ اس نے کی اور مجھ پر ایک دن میں پچاس نمازیں فرض کیں، واپسی پر جب میں حضرت موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انھوں نے مجھے کہا: آپ اپنے ربّ کی طرف لوٹ جائیں اور تخفیف کا سوال کریں، آپ کی امت اتنینمازیں ادا نہیں کر سکتی، جبکہ میں بنو اسرائیل کو آزما چکا ہو، پس میں اپنے ربّ کی طرف لوٹا اور کہا: اے میرے ربّ! میری امت پر تخفیف کیجئے، پس اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں کم کر دیں، لیکن پھر جب میں موسی علیہ السلام کے پاس واپس آیا تو انھوں نے پوچھا: کیا کر کے آئے ہیں؟ میں نے کہا: جی پانچ نمازیں کم کر دی ہیں، انھوں نے کہا: آپ کی امت (۴۵) نمازوں کے عمل کی طاقت نہیں رکھتی، لہٰذا لوٹ جائیں اور اپنے رب سے امت کے لیے تخفیف کا سوال کریں، پس میں اپنے ربّ اور موسی علیہ السلام کے درمیان آتا جاتا رہا اور اللہ تعالیٰ پانچ پانچ نمازیں کم کرتے رہے، یہاں تک کہ اس نے کہا: اے محمد! ایک دن رات میں پانچ نمازیں ہیں، ہر نماز کا ثواب دس گنا ملے گا، اس لیے گویایہ پچاس نمازیں ہیں، کیونکہ جس نے نیکی کا ارادہ کیا اور اس کو عملاً سر انجام نہیں دیا تو یہ بھی اس کے لیے نیکی ہے، اور جس نے برائی کا ارادہ کیا، لیکن عملاً اس کا ارتکاب نہیں کیا تو اس کے لیے کوئی برائی نہیں لکھی جائے گی، اور جس نے اس کا ارتکاب کر لیا تو اس کے لیے ایک برائی لکھی جائے گی، پس میں نیچے اترا اور موسی علیہ السلام کے پاس پہنچا اور ان کو ساری تفصیل بتائی، انھوں نے کہا: آپ اپنے ربّ کی طرف پھر لوٹ جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کریں، کیونکہ تیری امت اس عمل کی بھی طاقت نہیں رکھتی، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اتنی بار اپنے ربّ کے پاس جا چکا ہوں کہ اب مجھے شرم آتی ہے۔

Haidth Number: 10368

۔ (۱۰۳۶۹)۔ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما ، عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((عُرِضَتْ عَلَیَّ الْاُمَمُ فَرَاَیْتُ النَّبِیَّ وَ مَعَہُ الرَّھْطُ وَالنَّبِیَّ وَ مَعَہُ الرَّجُلُ وَ الرَّجُلَیْنِ، وَ النَّبِیَّ لَیْسَ مَعَہُ اَحَدٌ، اِذْ رُفِعَ لِیْ سَوَادٌ عَظِیْمٌ، فَقُلْتُ: ھٰذِہِ اُمَّتِیْ؟ فَقِیْلَ: ھٰذَا مُوْسٰی وَ قَوْمُہُ، وَ لٰکِنِ انْظُرْ اِلَی الْاُفُقِ، فَاِذَا سَوَادٌ عَظِیْمٌ، ثُمَّ قِیْلَ: انْظُرْ اِلٰی ھٰذَا الْجَانِبِ الْآخَرِ، فَاِذَا سَوَادٌ عَظِیْمٌ، فَقِیْلَ: ھٰذِہِ اُمَّتُکَ وَ مَعَھُمْ سَبْعُوْنَ اَلْفًا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ وَ لَا عَذَابٍ۔)) فَقَالَ بَعْضُھُمُ: لَعَلَّھُمُ الَّذِیْنَ صَحِبُوْا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَ قَالَ بَعْضُھُمْ: لَعَلَّھُمُ الَّذِیْنَ وُلِدُوْا فِیْ الْاِسْلَامِ وَ لَمْ یُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ شَیْئًا قَطُّ، وَ ذَکَرُوْا اَشْیَائً، فَخَرَجَ اِلَیْھِمُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَا ھٰذَا الَّذِیْ کُنْتُمْ تَخُوْضُوْنِ فِیْہِ؟)) فَاَخْبَرُوْہُ بِمَقَالَتِھِمْ،فَقَالَ: ((ھُمُ الَّذِیْنَ لَا یَکْتَوُوْنَ، وَ لَا یَسْتَرْقُوْنَ، و لَا یَتَطَیَّرُوْنَ، وَ عَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ۔)) فَقَامَ عُکَاشَۃُ بْنُ مِحْصَنٍ الْاَشْعَرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فَقَالَ: اَنَا مِنْھُمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَقَالَ: ((اَنْتَ مِنْھُمْ۔)) ثُمَّ قَامَ الْآخَرُ فَقَالَ: اَنَا مِنْھُمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَقَالَ: رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((سَبَقَکَ بِھَا عُکَاشَۃُ۔)) (مسند احمد: ۲۴۴۸)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھ پر امتیں پیش کی گئیں، پس میں نے کسی نبی کے ساتھ ایک جماعت، کسی کے ساتھ ایک فرد، کسی کے ساتھ دو افراد اور کسی کے ساتھ کوئی آدمی نہیں دیکھا، اچانک مجھے ایک بڑا لشکر دکھایا گیا، میں نے کہا: یہمیری امت ہے؟ جواب دیا گیا: یہ موسی علیہ السلام اور ان کی قوم ہے، اب آپ افق کی طرف دیکھیں، اُدھر ایک بڑا لشکر موجود تھا، پھر مجھ سے کہا گیا: اب آپ اس طرف دیکھیں، اُدھر بھی بڑا لشکر موجود تھا، پھر مجھے کہا گیا: یہ آپ کی امت ہے اور اس کے ساتھ ستر ہزار افراد ایسے ہیں، جو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ صحابہ نے آپس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: ممکن ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں، جو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رہے، کسی نے کہا: ایسے لگتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے، جو اسلام میں پیدا ہوئے اور انھوں نے کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کیا، دوسرے صحابہ نے مزید آراء کا ذکر بھی کیا، اتنے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس تشریف لے آئے اور فرمایا: تم کس چیز کے بارے میں غور و خوض کر رہے تھے؟ انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنی باتوں کی خبر دی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہونے والے لوگ وہ ہیں جو نہ داغ لگواتے ہیں، نہ دم کرواتے ہیں، نہ برا شگون لیتے ہیں اور وہ صرف اپنے ربّ پر توکل کرتے ہیں۔ سیدنا عکاشہ بن محصن اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں ان میں سے ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو ان میں سے ہے۔ پھر ایک دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں بھی ان میں سے ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عکاشہ تجھ سے سبقت لے گیا ہے۔

Haidth Number: 10369
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ اہل مکہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک نشانی کا سوال کیا، جواباً چاند پھٹ گیا،یہ واقعہ مکہ میں دو بار پیش آیا، پس اللہ تعالیٰ نے کہا: قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا،یہ اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ پہلے سے چلا آ رہا جادو ہے۔ (سورۂ قمر: ۱ ، ۲)

Haidth Number: 10532
۔ سیدنا جبیر بن مطعم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ عہد نبوی میں چاند دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا، ایک ٹکڑا اس پہاڑ پر اور ایک ٹکڑا اس پہاڑ پر نظر آ رہا تھا، کافروں نے کہا: محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) نے ہم پر جادو کر دیا، لیکن بعض لوگوں نے کہا: اگر ہم پر جادو کر دیا ہے تو اس کو اتنی طاقت تو نہیں ہے کہ سب لوگوں پر جادو کر دے۔

Haidth Number: 10533
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ قریشیوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: آپ اپنے ربّ سے دعا کریں کہ وہ ہمارے لیے صفا پہاڑی کو سونا بنا دے، ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم واقعی ایسے کرو گے؟ انھوں نے کہا: ہاں، پس جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دعا کی تو جبریل علیہ السلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور کہا: بیشک آپ کے ربّ نے آپ کو سلام کہا اور فرمایا: اگر تم چاہتے ہو تو صفا پہاڑی ان کے لیے سونا بن جائے گی، لیکن جس نے اس علامت کے بعد کفر کیا، اس کو ایسا عذاب دوں گا کہ ویسا عذاب جہانوں میں کسی کو نہیں دیا اور اگر تم چاہتے ہو تو ان کے لیے توبہ اور رحمت کے دروازے کھلے رکھتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: توبہ اور رحمت کا دروازہ ٹھیک ہے۔

Haidth Number: 10534

۔ (۱۰۵۳۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ الْمَلَأَ مِنْ قُرَیْشٍ اجْتَمَعُوْا فِی الْحِجْرِ فَتَعَاقَدُوْا بِاللَّاتِ وَالْعُزّٰی وَمَنَاۃَ الثَّالِثَۃِ الْأُخْرٰی وَنَائِلَۃَ وَاِسَافٍ، لَوْ قَدْ رَأَیْنَا مُحَمَّدًا لَقَدْ قُمْنَا اِلَیْہِ قِیَامَ رَجُلٍ وَاحِدٍ فَلَمْ نُفَارِقْہُ حَتّٰی نَقْتُلَہُ، فَاَقْبَلَتِ ابْنَتُہُ فَاطِمَۃُ تَبْکِیْ حَتّٰی دَخَلَتْ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: ھٰؤُلَائِ الْمَلَأُ مِنْ قُرَیْشٍ قَدْ تَعَاقَدُوْا عَلَیْکَ لَوْ قَدْ رَأَوْکَ لَقَدْ قَامُوْا اِلَیْکَ فَقَتَلُوْکَ فَلَیْسَ مِنْھُمْ رَجُلٌ اِلَّا قَدْ عَرَفَ نَصِیْبَہُ مِنْ دَمِکَ، فَقَالَ: ((یَا بُنَیَّۃُ! أَرِیْنِیْ وَضُوْئً)) فَتَوَضَّأَ ثُمَّّ دَخَلَ عَلَیْھِمُ الْمَسْجِدَ، فَلَمَّا رَأَوْہُ قَالُوْا: ھَا ھُوَ ذَا، وَخَفَضُوْا أَبْصَارَھُمْ وَسَقَطَتْ أَذْقَانُھُمْ فِیْ صُدُوْرِھِمْ، وَعَقَرُوْا فِیْ مَجَالِسِھِمْ فَلَمْ یَرْفَعُوْا اِلَیْہِ بَصَرًا، وَلَمْ یَقُمْ اِلَیْہِ رَجُلٌ، فَأَقْبَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی قَامَ عَلٰی رُئُ وْسِھِمْ فَأَخَذَ قَبْضَۃً مِنَ التُّرَابِ، فَقَالَ: ((شَاھَتِ الْوُجُوْہُ۔)) ثُمَّّ حَصَبَھُمْ بِھَا فَمَا أَصَابَ رَجُلًا مِنْھُمْ مِنْ ذٰلِکَ الْحَصٰی حَصَاۃٌ اِلَّا قُتِلَ یَوْمَ بَدْرٍ کَافِرًا۔ (مسند احمد: ۲۷۶۲)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ قریشی سردار حطیم میں جمع ہوئے اور اپنے بتوں لات، عزی، مناۃ، نائلہ اور اساف کی قسمیں اٹھا کر آپس میں معاہدہ کیا کہ اگر انھوں نے محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کو دیکھا تو وہ آپ پر یکبارگی حملہ کر دیں گے اور آپ کو قتل کیے بغیر آپ سے جدا نہیں ہوں گے، جب سیدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو اس چیز کا علم ہوا تو وہ روتی ہوئی آئیں اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جا کر کہا: یہ سردارانِ قریشیہ معاہدہ کر چکے ہیں کہ اگر انھوں نے آپ کو دیکھا تو آپ پر حملہ کر دیں گے اور آپ کو قتل کر دیں گے، ان میں سے ہر آدمی آپ کے خون میں سے اپنے حصے کو پہچان چکا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری پیاری بیٹی! وضو کا پانی لاؤ۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وضو کیا، پھر مسجد ِ حرام میں ان کے پاس گئے، جب انھوں نے آپ کو دیکھا تو کہا: اوہ، یہ وہ آ گیا ہے، پھر انھوں نے اپنی نگاہیں پست کر لیں، ان کی ٹھوڑیاں ان کے سینوں سے جا لگیں اور وہ دہشت زدہ ہوکر بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے، نہ ان کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف دیکھنے کی جرأت ہوئی اور نہ کوئی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف اٹھ سکا، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی طرف آئے، یہاں تک کہ ان کے سروں پر کھڑے ہو گئے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مٹی کی مٹھی بھری اور فرمایا: چہرے قبیح ہو گئے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ مٹھی ان کی طرف پھینک دی، پس جس آدمی کو ان کنکریوں میں سے کوئی کنکری لگی، وہ بدر کے دن کفر کی حالت میں قتل ہو گیا۔

Haidth Number: 10535

۔ (۱۰۷۰۴)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ أَنَّہُ قَالَ: إِنِّی لَوَاقِفٌ یَوْمَ بَدْرٍ فِی الصَّفِّ، نَظَرْتُ عَنْ یَمِینِی وَعَنْ شِمَالِی، فَإِذَا أَنَا بَیْنَ غُلَامَیْنِ مِنَ الْأَنْصَارِ حَدِیثَۃٍ أَسْنَانُہُمَا، تَمَنَّیْتُ لَوْ کُنْتُ بَیْنَ أَضْلَعَ مِنْہُمَا فَغَمَزَنِی أَحَدُہُمَا، فَقَالَ: یَا عَمِّ! ہَلْ تَعْرِفُ أَبَا جَہْلٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، وَمَا حَاجَتُکَ؟ یَا ابْنَ أَخِی؟ قَالَ: بَلَغَنِی أَنَّہُ سَبَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ رَأَیْتُہُ لَمْ یُفَارِقْ سَوَادِی سَوَادَہُ حَتَّییَمُوتَ الْأَعْجَلُ مِنَّا، قَالَ: فَغَمَزَنِی الْآخَرُ، فَقَالَ لِی مِثْلَہَا، قَالَ: فَتَعَجَّبْتُ لِذٰلِکَ، قَالَ: فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ إِلٰی أَبِی جَہْلٍ یَجُولُ فِی النَّاسِ، فَقُلْتُ لَہُمَا: أَلَا تَرَیَانِ ہٰذَا صَاحِبُکُمَا الَّذِی تَسْأَلَانِ عَنْہُ، فَابْتَدَرَاہُ فَاسْتَقْبَلَہُمَا فَضَرَبَاہُ حَتّٰی قَتَلَاہُ، ثُمَّ انْصَرَفَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرَاہُ، فَقَالَ: ((أَیُّکُمَا قَتَلَہُ؟)) فَقَالَ: کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا أَنَا قَتَلْتُہُ، قَالَ: ((ہَلْ مَسَحْتُمَا سَیْفَیْکُمَا؟)) قَالَا: لَا فَنَظَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی السَّیْفَیْنِ، فَقَالَ: ((کِلَاکُمَا قَتَلَہُ۔)) وَقَضٰی بِسَلَبِہِ لِمُعَاذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، وَہُمَا مُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ وَمُعَاذُ بْنُ عَفْرَائَ۔ (مسند احمد: ۱۶۷۳)

سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بدر کے دن میں صف میں کھڑا تھا، میں نے دائیں بائیں دیکھا تو میں نے اپنے آپ کو دو نو عمر انصاری بچوں کے درمیان کھڑا ہوا پایا، میں نے سو چا کہ کاش میرے قریب ان نو عمر بچوں کی بجائے کوئی طاقت ور آدمی ہوتا، اتنے میں ان میں سے ایک نے مجھے متوجہ کر کے پوچھا چچا جان!کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں! لیکن بھتیجے! یہ تو بتلاؤ تمہیں اس سے کیا غرض ہے؟ وہ بولا: میں نے سنا ہے کہ اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گالیاں دی ہوئی ہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میںمیری جان ہے! اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میں اس سے اس وقت تک جدانہ ہوں گا، جب تک کہ ہم میں سے جس نے پہلے مرنا ہے وہ مرنہ جائے، اس کے ساتھ ہی دوسرے نوجوان لڑکے نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا، اس نے بھی مجھ سے ویسی ہی بات کی، مجھے ان دونوں کی باتوں پر تعجب ہوا۔ اتنے میں میں نے ابوجہل کو دیکھا، وہ کافر لوگوں کے درمیان چکر لگا رہا تھا، میں نے ان دونوں سے کہا: کیا تم اس آدمی کو دیکھ رہے ہو؟ یہیوہ آدمی ہے جس کی بابت تم دریافت کر رہے ہو، وہ یہ سنتے ہی اس کی طرف لپکے، ابوجہل کا ان دونوں سے سامنا ہوا تو انہوں نے وار کر کے اسے قتل کر ڈالا، اور اس کے بعد وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، اور سارا واقعہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گوش گزار کیا۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے دریافت فرمایا: تم میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے؟ دونوں میں سے ہر ایک نے کہا کہ اسی نے قتل کیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کیا تم نے اپنی تلواروں کو صاف کر لیا ہے؟ انہوں نے کہا: جی نہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دونوں تلواروں کو دیکھا تو فرمایا: تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابوجہل کا حاصل شدہ سامان کا فیصلہ سیدنا معاذ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں کیا، ان دونوں نوجوانوں کے نام سیدنا معاذ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا معاذ بن عفراء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔

Haidth Number: 10704
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بدر کے دن فرمایا: کون ہے جو جا کر دیکھے کہ ابوجہل کیا کر رہا ہے؟ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گئے، انہوں نے دیکھا کہ عفراء کے دو بیٹوں نے ابوجہل کو مار گرایا ہوا ہے تاآنکہ وہ ٹھنڈا ہونے یعنی مرنے کے قریب تھا، تو ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسے اس کی ڈاڑھی سے پکڑ کر کہا: تو ہی ابوجہل ہے؟ ابوجہل نے کہا: تم نے جن جن لوگوں کو قتل کیا، کیا مجھ سے بڑھ کر بھی ان میں سے کوئی ہے؟ یایوں کہا: کیا مجھ سے بڑھ کر بھی کوئی آدمی ایسا ہے، جسے اس کے خاندان والوں نے قتل کیا ہو؟

Haidth Number: 10705

۔ (۱۰۷۰۶)۔ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: انْتَہَیْتُ إِلَی أَبِی جَہْلٍ یَوْمَ بَدْرٍ، وَقَدْ ضُرِبَتْ رِجْلُہُ، وَہُوَ صَرِیعٌ وَہُوَ یَذُبُّ النَّاسَ عَنْہُ بِسَیْفٍ لَہُ، فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَخْزَاکَ،یَا عَدُوَّ اللّٰہِ! فَقَالَ: ہَلْ ہُوَ إِلَّا رَجُلٌ قَتَلَہُ قَوْمُہُ، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَتَنَاوَلُہُ بِسَیْفٍ لِی غَیْرِ طَائِلٍ، فَأَصَبْتُ یَدَہُ فَنَدَرَ سَیْفُہُ فَأَخَذْتُہُ فَضَرَبْتُہُ بِہِ حَتّٰی قَتَلْتُہُ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ حَتّٰی أَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَأَنَّمَا أُقَلُّ مِنَ الْأَرْضِ فَأَخْبَرْتُہُ، فَقَالَ: ((آللَّہِ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ۔)) قَالَ: فَرَدَّدَہَا ثَلَاثًا قَالَ: قُلْتُ: آللَّہِ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ، قَالَ فَخَرَجَ یَمْشِی مَعِی حَتّٰی قَامَ عَلَیْہِ، فَقَالَ: ((الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِیأَخْزَاکَ، یَا عَدُوَّ اللّٰہِ! ہٰذَا کَانَ فِرْعَوْنَ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ۔)) قَالَ: وَزَادَ فِیہِ أَبِی عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ: فَنَفَّلَنِی سَیْفَہُ۔ (مسند احمد: ۴۲۴۶)

سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بدر کے دن میں ابوجہل کے پاس پہنچا، اس کی ٹانگ پر ضرب آئی ہوئی تھی اور وہ گرا پڑا تھا اور اس حال میں بھی اپنی تلوار سے لوگوں کو اپنے آپ سے دور بھگا رہا تھا، میں نے کہا: اے اللہ کے دشمن! اُس اللہ کا شکر ہے جس نے تجھے رسوا کیا، وہ بولا: میں وہی ہوں جسے اس کی اپنی قوم نے قتل کیا ہے۔سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ اس کی اس بات پر میں نے بلاتا خیر اپنی تلوار چلا کر اس کے ہاتھ پر ماری اور اس کی تلوار گر گئی۔ پھر میں نے اسے اچھی طرح پکڑ کر اسے مارا اور قتل کر ڈالا۔ پھر میں گرمی میں، خوشی خوشی چلتا ہوا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچا، خوشی کے مارے میرے پاؤں زمین پر نہیں لگ رہے تھے، میں نے آپ کو ساری بات بتلائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، کیا واقعی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی بات کو تین بار دہرایا، میں نے عرض کیا: واقعی، اُس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ساتھ چلتے ہوئے گئے یہاں تک کہ اس کی میت پر جا کھڑے ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کے دشمن! اللہ کا شکر ہے جس نے تجھے ذلیل ورسوا کیا،یہ اس امت کا فرعون تھا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابوجہل کی تلوار مجھے عنایت فرمائی۔

Haidth Number: 10706
۔(دوسری سند) سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے ابوجہل کو ہلاک کر دیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب تعریف اس اللہ کے لیے ہیں، جس نے اپنے بندے کی مدد کی اور اپنے دین کو عزت دی۔ امیہ بن خالد راوی کے الفاظ یہ ہیں: سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے، جس نے اپنے بندے کے ساتھ کیے ہوئے وعدہ کو پورا کیا اور اپنے دین کو عزت دی۔ ایک اور روایت کے الفاظ یوں ہیں: سب تعریف اس اللہ کے لیے ہیں، جس نے اپنا وعدہ پوراکیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اس اکیلے نے کفار کے تمام لشکروں کو شکست دی۔

Haidth Number: 10707

۔ (۱۱۶۳۴)۔ عَنْ حُمَیْدٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی أُمِّ سُلَیْمٍ فَأَتَتْہُ بِتَمْرٍ وَسَمْنٍ وَکَانَ صَائِمًا، فَقَالَ: ((أَعِیدُوْا تَمْرَکُمْ فِی وِعَائِہِ وَسَمْنَکُمْ فِی سِقَائِہِ۔)) ثُمَّ قَامَ إِلٰی نَاحِیَۃِ الْبَیْتِ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ وَصَلَّیْنَا مَعَہُ، ثُمَّ دَعَا لِأُمِّ سُلَیْمٍ وَلِأَہْلِہَا بِخَیْرٍ، فَقَالَتْ: أُمُّ سُلَیْمٍ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ لِی خُوَیْصَّۃً، قَالَ: ((وَمَا ہِیَ۔)) قَالَتْ: خَادِمُکَ أَنَسٌ، قَالَ: فَمَا تَرَکَ خَیْرَ آخِرَۃٍ وَلَا دُنْیَا إِلَّا دَعَا لِی بِہِ، وَقَالَ: ((اَللّٰہُمَّ ارْزُقْہُ مَالًا وَوَلَدًا، وَبَارِکْ لَہُ فِیہِ۔)) قَالَ: فَمَا مِنَ الْأَنْصَارِ إِنْسَانٌ أَکْثَرُ مِنِّی مَالًا، وَذَکَرَ أَنَّہُ لَا یَمْلِکُ ذَہَبًا وَلَا فِضَّۃً غَیْرَ خَاتَمِہِ، قَالَ: وَذَکَرَ أَنَّ ابْنَتَہُ الْکُبْرٰی أُمَیْنَۃَ أَخْبَرَتْہُ أَنَّہُ دُفِنَ مِنْ صُلْبِہِ إِلٰی مَقْدَمِ الْحَجَّاجِ نَیِّفًا عَلٰی عِشْرِینَ وَمِائَۃٍ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۷۶)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں تشریف لے گئے، انہوںنے آپ کی خدمت میں کھجوریں اور گھی پیش کیا،لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس دن روزے سے تھے، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کھجوریں ان کے تھیلے میں اور گھی اس کے ڈبے میں واپس رکھ دو۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے گھر کے ایک کونے میں کھڑے ہو کر دو رکعتیں ادا کیں، ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر آپ نے سیدنا ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے اہل خانہ کے حق میں برکت کی دعا کی۔ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میری ایک خصوصی درخواست ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: وہ کیا؟ انہوںنے کہا: یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا خادم سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہے، اس کے حق میں خصوصی دعا کر دیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دنیا و آخرت کی ہر خیر کی میرے حق میں دعا کر دی اور فرمایا: یا اللہ! اسے بہت سا مال اور اولاد عنایت فرما اور اس کے لیے ان میں برکت فرما۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ تمام انصار میں سے کسی کے پاس مجھ سے زیادہ دولت نہیں، جبکہ اس سے پہلے ان کے پاس صرف ایک انگوٹھی تھی اور ان کی بڑی بیٹی امینہ نے بتلایا کہ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے حجاج بن یوسف کے آنے سے پہلے تک اپنی اولاد میں سے تقریباً ایک سو پچیس چھبیس افراد کو اپنے ہاتھوں سے دفن کیا۔1

Haidth Number: 11634
سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، انہوںنے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ انس آپ کا خادم ہے، آپ اس کے حق میں اللہ سے دعا کر دیں،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں دعا کی: یا اللہ! اس کے مال اور اولاد میں اضافہ کر اور تو اسے جو کچھ عطا کرے، اس میں برکت فرما۔ راویٔ حدیث حجاج نے اپنی حدیث میں ذکر کیا کہ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بتلایا کہ میری اولاد میں سے بعض نے مجھے بتلایا کہ میری اولاد اور اولاد کی اولاد میں سے ایک سو سے زائد لوگ دفن کیے جا چکے ہیں۔

Haidth Number: 11635
سیدنا انس بن سیرین کا بیان کا ہے کہ سفر و حضرمیں سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سب سے زیادہ خوبصورت نماز ادا کرنے والے تھے۔

Haidth Number: 11636
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (ہجرت کے بعد) مدینہ منورہ تشریف لائے تو سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میرا ہاتھ پکڑکر مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لے گئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک سمجھداراور ہوشیار بچہ ہے، یہ آپ کی خدمت کیا کرے گا۔ چنانچہ میں (انس) نے سفر و حفر میں دس سال تک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت سر انجام دی ۔ اللہ کی قسم! میں نے کوئی کام کر لیا تو آپ نے کبھی بھی مجھ سے یہ نہ فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا؟یا اگر میں نے کوئی کام نہیں کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کبھی بھی مجھ سے یہ نہ فرمایا کہ تو نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا۔

Haidth Number: 11637
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری ہوئی تو میری والدہ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا میرا ہاتھ پکڑے مجھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لے گئیں اور کہا: اللہ کے رسول! میرایہ بیٹا لکھنا پڑھنا جانتا ہے۔ (اسے اپنی خدمت کے لیے قبول فرمائیں) چنانچہ میں نے آپ کی نو برس تک خدمت کی، میں نے کوئیکام کیا ہو تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کبھی بھی مجھ سے یوں نہ فرمایا کہ تونے برا کام کیا ہے، یا تو نے غلط کام کیا ہے۔

Haidth Number: 11638
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اپنے اس پیالے سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو شہد، پانی اور دودھ، بلکہ ہر قسم کا مشروب پلایا ہے۔

Haidth Number: 11639

۔ (۱۱۶۴۰)۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: خَرَجْتُ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُتَوَجِّہًا إِلَی أَہْلِی، فَمَرَرْتُ بِغِلْمَانٍ یَلْعَبُونَ فَأَعْجَبَنِی لَعِبُہُمْ، فَقُمْتُ عَلَی الْغِلْمَانِ فَانْتَہٰی إِلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا قَائِمٌ عَلَی الْغِلْمَانِ، فَسَلَّمَ عَلَی الْغِلْمَانِ، ثُمَّ أَرْسَلَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی حَاجَۃٍ لَہُ فَرَجَعْتُ، فَخَرَجْتُ إِلٰی أَہْلِی بَعْدَ السَّاعَۃِ الَّتِی کُنْتُ أَرْجِعُ إِلَیْہِمْ فِیہَا، فَقَالَتْ لِی أُمِّی: مَا حَبَسَکَ الْیَوْمَ یَا بُنَیَّ؟ فَقُلْتُ: أَرْسَلَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی حَاجَۃٍ لَہُ، فَقَالَتْ: أَیُّ حَاجَۃٍ یَا بُنَیَّ؟ فَقُلْتُ: یَا أُمَّاہُ إِنَّہَا سِرٌّ، فَقَالَتْ: یَا بُنَیَّ احْفَظْ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سِرَّہُ، قَالَ ثَابِتٌ: فَقُلْتُ: یَا أَبَا حَمْزَۃَ أَتَحْفَظُ تِلْکَ الْحَاجَۃَ الْیَوْمَ أَوْ تَذْکُرُہَا، قَالَ: إِی وَاللّٰہِ! وَإِنِّی لَا أَذْکُرُہَا، وَلَوْ کُنْتُ مُحَدِّثًا بِہَا أَحَدًا مِنَ النَّاسِ لَحَدَّثْتُکَ بِہَا یَا ثَابِتُ! (مسند احمد: ۱۳۴۱۳)

ثابت بنانی سے روایت ہے کہ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کابیان ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے روانہ ہو کر اپنے اہل کی طرف چلا اورراستے میں کھیلتے ہوئے بچوں کے پاس سے گزرا، مجھے ان کا کھیل اچھا لگاتو میں وہاں رک کر انہیںدیکھنے لگا، میں ابھی وہیں کھڑاتھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں تشریف لے آئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آکر بچوں کو سلام کہا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایک کام کے لیے روانہ فرمایا، میں کام کرکے واپس آیا تو اپنے سابقہ معمول سے ہٹ کر ذرا لیٹ گھر پہنچا، تو میری والدہ نے مجھ سے دریافت کیا: بیٹے! کہاں دیر ہوگئی تھی؟ میں نے عرض کیا: امی جان! یہ ایک راز کی بات ہے۔ انہوںنے کہا: بیٹے! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے راز کی حفاظت کرنا۔ ثابت کہتے ہیں، میں نے عرض کیا: ابو حمزہ! کیا آج بھی آپ کو وہ کام یاد ہے؟ انہوںنے کہا: جی ہاں اللہ کی قسم یاد رہے، لیکن میں بتائوں گا نہیں۔ ثابت! اگر لوگوں میں سے کسی کو میں نے وہ بتانا ہوتا تو تمہیں ضرور بتلا دیتا۔

Haidth Number: 11640
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت میری عمر دس سال تھی اور جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا تو اس وقت میری عمر بیس برس تھی۔

Haidth Number: 11641
حمید سے روایت ہے کہ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی عمر ننانوے سال تھی۔

Haidth Number: 11642
سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میرے بعد ان دو حضرات کی اقتدا کرنا، ابوبکر اور عمر۔

Haidth Number: 12153