Blog
Books
Search Hadith

غسل اور وضو کے پانی کی مقدار کا بیان

173 Hadiths Found
سیدنا عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے کہا: مجھے وضو کے لیے کتنا پانی کفایت کرے گا؟ انھوں نے کہا: ایک مُدّ، اس نے کہا: غسل کے لیے مجھے کتنا پانی کفایت کرے گا؟ انھوں نے کہا: ایک صاع، یہ سن کر اس نے کہا: یہ مقدار تو مجھے کفایت نہیں کرے گی، انھوں نے کہا: تیری ماں ہی نہ ہو، یہ مقدار اس ہستی کو تو کفایت کرتی تھی، جو تجھ سے بہتر ہے، یعنی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌۔

Haidth Number: 867
سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ دو رطل کے بقدربرتن سے وضو کرتے تھے اور ایک صاع پانی سے غسل کرتے تھے۔

Haidth Number: 868
سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ایک صاع پانی سے غسل کرتے تھے اورایک مُدّ سے وضو کرتے تھے۔

Haidth Number: 869
مولائے رسول سیدنا سفینہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مُدّ سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کا وضو اور ایک صاع سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کا غسل جنابت ہو جاتا تھا۔

Haidth Number: 870
سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ایک مُدّ پانی سے وضو کرتے تھے اور ایک صاع کے بقدر پانی سے غسل کرتے تھے۔

Haidth Number: 871
موسی جہنی کہتے ہیں: لوگ رمضان میں ایک بڑا پیالہ لے کر آئے، میں نے اندازہ لگایا کہ وہ آٹھ یا نو یا دس رطل ہو گا، مجاہد نے کہا: مجھے سیدہ عائشہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اس قسم کے برتن سے غسل کرتے تھے۔

Haidth Number: 872
سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جو آدمی نماز کو بھول گیا یا اس سے سو گیا، اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب اس کو یاد آئے وہ اس کو ادا کرے۔

Haidth Number: 1222
سیدنا انس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جب کوئی آدمی نماز سے سو جائے یا اس سے غافل ہو جائے تو جب اس کو یاد آئے، وہ اس کو ادا کرے، کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔ (سورۂ طٰہٰ:۱۴)

Haidth Number: 1223
Haidth Number: 1224
سیدناابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں نماز پڑھاتے اور ظہر و عصر میں پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اور مزید دو سورتوں کی تلاوت کرتے اور بسا اوقات ہمیں کوئی آیت بھی سنا دیتے تھے، ایک روایت میں ہے: دوسری دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ پڑھتے اور ظہر کی پہلی رکعت میں (قراء ت کو) لمبا کرتے اور دوسری میں مختصر کرتے اور نماز فجر میں بھی ایسے ہی کرتے۔

Haidth Number: 1598
سیدناابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سے ہر رکعت میں تیس تیس آیتوں کے اور دوسری دو رکعتوں میں پندرہ پندرہ آیتوں کے بقدر تلاوت کرتے اور نماز عصر کی پہلی دو رکعتوںمیں سے ہر رکعت میں پندرہ پندرہ آیتوں کے بقدر اور دوسری دو رکعتوں میں اس سے نصف کے بقدر تلاوت کرتے تھے۔

Haidth Number: 1599
سیدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے، وہ کہتے ہیں:ہمارے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں سورۂ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا اور مزید جو آسان لگے۔

Haidth Number: 1600
سیدناجابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ اہل کوفہ نے سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس شکایت کی،انھوں نے کہا:یہ اچھے انداز میں نماز نہیں پڑھاتا۔ جب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا: میں تو انہیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز کی طرح کی نماز پڑھاتا ہوں، پہلی دو رکعات میں لمبا قیام کرتا ہو اور دوسری دو میں مختصر کرتا ہوں۔سیدناعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فرمایا: أبو اسحاق! تیرے بارے میرایہی خیال تھا۔

Haidth Number: 1601
۔ (دوسری سند)سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھا: لوگوں نے ہر چیز کے متعلق تیری شکایت کی ہے،حتی کہ نماز کے متعلق بھی، (حقیقت کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں تو پہلی دو رکعتوں کو لمبا کرتاہوں اور دوسری دو کو مختصر اور میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نماز کی اقتدا کرنے میں کوئیکمی نہیں کرتا، یہ سن کر انھوں نے کہا: تیرے بارے میں میرایہی گمان تھا۔

Haidth Number: 1602

۔ (۳۲۳۷) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: مَرُّوْا بِجَنَازَۃٍ فَأَثْنَوْا عَلَیْہَا خَیْرًا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَجَبَتْ، وَجَبَتْ، وَجَبَتْ۔)) وَمَرُّوْا بِجَنَازَۃٍ فَأَثْنَوْا عَلَیْہَا شَرًّا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَجَبَتْ، وَجَبَتْ، وَجَبَتْ۔)) فَقَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: فِدَاکَ أَبِی وَأُمِّی مُرَّ بِجَنَازَۃٍ فَاُثْنِیَ عَلَیْہَا خَیْرًا، فَقُلْتُ: ((وَجَبَتْ، وَجَبَتْ، وَجَبَتْ۔)) وَمُرَّ بِجَنَازَۃٍ فَاُثْنِیَ عَلَیْہَا شَرًّا فَقُلْتَ: ((وَجَبَتْ وَجَبَتِْ وَجَبْ)) فَقَالَ: ((مَنْ أَثْنَیْتُمْ عَلَیْہِ خَیْرًا، وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ، وَمَنْ أَثْنَیْتُمْ عَلَیْہِ شَرًّا وَجَبَتْ لَہُ النَّارُ، أَنْتُمْ شُہَدَائُ اللّٰہِ فِی الْأَرْضِ، أَنْتُمْ شُہَدَائُ اللّٰہِ فِی الْأَرْضِ، أَنْتُمْ شُہَدَائُ اللّٰہِ فِی الْأَرْضِ۔)) (مسند احمد: ۱۲۹۶۹)

سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے تو لوگوں نے اس کے حق میں کلمۂ خیر کہا، یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: واجب ہو گئی، واجب ہو گئی، واجب ہو گئی۔ اور لوگ ایک اور جنازہ لے کر گزرے اور لوگوں نے اس کے حق میں برا تذکرہ کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: واجب ہو گئی، واجب ہو گئی، واجب ہو گئی۔ سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، جب ایک جنازہ گزارا گیا اور اس کے حق میں تعریفی کلمات کہے گئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: واجب ہو گئی، واجب ہو گئی، واجب ہو گئی۔ اور جب دوسرا جنازہ گزارا گیا اور اس کے حق میں برا تذکرہ کیا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: واجب ہو گئی، واجب ہو گئی، واجب ہو گئی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے (وضاحت کرتے ہوئے) فرمایا: جس کے حق میں تم لوگوں نے اچھے کلمات کہے، اس کے لیے جنت واجب ہو گئی اور جس کے حق میں تم نے برے کلمات کہے، اس کے لیے جہنم واجب ہو گئی۔ دراصل تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو، تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو، تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو۔

Haidth Number: 3237
سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اسی قسم کی حدیث بیان کی ہے، البتہ اس میں ہے: لوگوں نے اس کے خیر والے اوصاف بیان کیے، (اور دوسرے جنازے کے) برے اوصاف بیان کیے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: واجب ہو گئی ہے۔ پھر فرمایا: بیشک تم زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔

Haidth Number: 3238

۔ (۳۲۳۹) عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ قَالَ جَلَسَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌مَجْلِسًا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَجْلِسُہُ، تَمُرُّ عَلَیْہِ الْجَنَازَۃ، قَالَ: فَمَرُّوْا فَأَثْنَوْا خَیْرًا، فَقَالَ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مَرُّوْا بِجَنَازَۃٍ فَاتْنَوْا خَیْرًا فَقَالَ وَجَبَتْ ثُمَّ مَرُّوْا بِجَنَازَۃٍ فَقَالُوْا خَیْرًا فَقَالَ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مَرَّوْا بِجَنَازَۃٍ فَقَالُوْا: ہٰذَا کَانَ أَکْذَبَ النَّاسِ، فَقَالَ: إِنَّ أَکْذَبَ النَّاسِ أَکْذَبُہُمْ عَلَی اللّٰہِ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ مَنْ کَذَبَ عَلی رُوْحِہِ فِی جَسَدِہِ۔ قَالَ: قَالُوْا: أَرَأَیْتَ إِذَا شَہِدَ أَرْبَعَۃٌ؟ قَالَ: وَجَبَتْ۔ قَالُوْا: وَثَـلَاثَۃٌ؟ قَالَ: وَجَبَتْ، قَالُوْا: وَاِثْنَانِ؟ قَالَ: وَجَبَتْ۔ وَلَأَنْ أَکُوْنَ قُلْتُ وَاحِدًا أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، قَالَ: فَقِیْلَ لِعُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: ہٰذَا شَیْئٌ تَقُوْلُہُ بِرَأْیِکَ أَمْ شَیْئٌ سَمِعْتَہُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: لَا، بَلْ سَمِعْتُہُ مِنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۳۸۹)

عبداللہ بن بریدہ کہتے ہیں: سیّدناعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایسی جگہ بیٹھے، جہاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھا کرتے تھے اور لوگ وہاں سے جنازے لے کر گزرتے تھے، (اس بار بھی) لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے اور لوگوں نے اس کے حق میں تعریفی کلمات کہے، سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: واجب ہوگئی۔ اس کے بعد لوگ ایک اور جنازہ لے کر گزرے، اس کے حق میں بھی لوگوں نے کلمۂ خیر کہا، انہوں نے کہا: واجب ہو گئی، اس کے بعد لوگ ایک اور جنازہ لے کر گزرے، اس کی بھی مدح سرائی کی گئی، تو انھوں نے کہا: واجب ہو گئی۔ اس کے بعد لوگ پھر ایک جنازہ لے کر گزرے تو لوگوں نے کہا: یہ سب سے جھوٹا آدمی تھا، یہ سن کر سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:جو آدمی لوگوں میں سب سے زیادہ جھوٹا ہو گا، وہ اللہ پر بھی سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والا ہوتا ہے، اس سے کم درجہ جھوٹا وہ ہوتا ہے، جو اپنے جسم میں روح پر جھوٹ بولتا ہے۔ لوگوں نے پوچھا: آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر چار آدمی گواہی دیں تو؟ انھوں نے کہا: واجب ہو جائے گی، لوگوں نے کہا: اگر تین آدمی گواہی دیں تو؟ انھوں نے کہا: تب بھی واجب ہو جائے گی، لوگوں نے کہا: اگر دو آدمی گواہی دیں تو؟ انھوں نے کہا: پھر بھی واجب ہو جائے گی۔اور اگر میں نے ایک آدمی کی گواہی کے بارے میں بھی پوچھ لیا ہوتا تو یہ بات مجھے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہوتی۔ کسی نے سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھا: یہ سارا کچھ آپ اپنی رائے سے کہہ رہے ہیں یارسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا ہے؟ انھوں نے کہا: جی نہیں، میں نے یہ ساری باتیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہیں۔

Haidth Number: 3239

۔ (۳۲۴۰) عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِی الأَسْوَدِ أَنَّہُ قَالَ: أَتَیْتُ الْمَدِیْنَۃَ فَوَافَیْتُہَا وَقَدْ وَقَعَ فِیْہَا مَرَضٌ فَہُمْ یَمُوْتُوْنَ مَوْتًا ذَرِیْعًا فجَلَسْتُ إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَمَرَّتْ بِہِ جَنَازَۃٌ فَأُثْنِیَ عَلٰی صَاحِبِھَا خَیْرٌ، فَقَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: وَجَبَتْ، ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرٰی فَأُثْنِیَ عَلٰی صَاحِبِہَا خَیْرٌ، فَقَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: وَجَبَتْ، ثُمَ مُرَّ بِالثَّالِثَۃِ فَأُثْنِیَ عَلَیْہَا شَرٌّ،فَقَالَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: وَجَبَتْ، فَقَالَ أَبُوْ الْأَسْوَدِ: مَا وَجَبَتْ یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! قَالَ: قُلْتُ کَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَیُّمَا مُسْلِمٍ شَہِدَ لَہُ أَرْبَعَۃٌ بِخَیْرٍ أَدْخَلَہُ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ۔)) قَالَ: فَقُلْنَا: وَثَـلَاثَۃٌ؟ قَالَ: فَقَالَ: ((وَثَـلَاثَۃٌ۔)) قَالَ: قُلْنَا: وَاثْنَانِ؟ قَالَ: (وَاثْنَانِ۔)) قَالَ: ثُمَّ لَمْ نَسْأَلْہُ عَنِ الْوَاحِدِ۔ (مسند احمد: ۱۳۹)

ابوالاسود کہتے ہیں: میں مدینہ منورہ آیا،ان دنوں وہاں ایک وبا پھیلی ہوئی تھی اور لوگ بڑی تیزی سے مر رہے تھے۔ میں سیّدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے ایک جنازہ گزرا، اس کے حق میں دوسرے لوگوں کی طرف سے کلمۂ خیر کہا گیا، تو انھوں نے کہا: واجب ہو گئی۔ اس کے بعد ایک اور جنازہ گزرا، اس کے حق میں بھی تعریفی کلمات کہے گئے، تو انھوں نے کہا: واجب ہو گئی، اس کے بعد ایک تیسرا جنازہ گزرا، اس کی مذمت کی گئی، لیکن تب بھی انہوں نے کہا: واجب ہو گئی۔ابوالاسود نے کہا: امیر المومنین! کیا چیز واجب ہو گئی؟ سیّدناعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے تو اسی طرح بات کی، جس طرح رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمائی تھی کہ جس مسلمان کے حق میں چار آدمی خیر کی گواہی دے دیں، اللہ اسے جنت میں داخل کر دیتا ہے۔ ہم نے پوچھا: تین آدمی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین بھی۔ ہم نے پوچھا: اور دو آدمی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دو بھی۔ پھر ہم ایک آدمی کی گواہی کے بارے میں سوال نہ کر سکے۔

Haidth Number: 3240
سیّدنا ابوزہیر ثقفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو طائف کے قریب نَبَائَ ۃ یا نَبَاوَۃ مقام پر یہ فرماتے ہوئے سنا: لوگو! تم جہنمیوں میں سے جنتیوں یا بروں میں سے نیکوں کو پہنچان سکتے ہو۔ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کیسے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بری یا اچھی تعریف کے ساتھ، دراصل تم لوگ زمین میں ایک دوسرے کے حق میں اللہ کے گواہ ہو۔

Haidth Number: 3241
سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ تعالیٰ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جو مسلمان آدمی فوت ہو جائے اور اس کے قریبی ہمسایوں میں سے تین گھر والے لوگ اس کے حق میں خیر کی گواہی دے دیں تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے: میرے بندوں نے اپنے علم کے مطابق جو گواہی دی ہے، میں نے اسے قبول کر لیا ہے اور وہ (گناہ) معاف کر دیئے ہیں، جو میں جانتا ہوں۔

Haidth Number: 3242
سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو مسلمان بھی فوت ہو جائے اور اس کے حق میں قریبی ہمسایوں میں سے چار گھر والے اس کے حق میں گواہی دیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:میں اس کے حق میں تمہارے علم کو قبول کرتا ہوں اور اس کے جن (گناہوں) کا تمہیں علم نہیں ہے، ان کو معاف کرتا ہوں۔

Haidth Number: 3243
سیّدنا ابوقتادہ بن ربعی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: یہ راحت پا گیا ہے یا دوسروں نے اس سے راحت پائی ہے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کا کیا مطلب ہے کہ یہ راحت پا گیا ہے یا دوسروں نے اس سے راحت پائی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مومن دنیا کے مصائب اور تکلیفوں سے راحت پا کر اللہ کی رحمت میں چلا جاتا ہے اور فاجر آدمی سے دوسرے انسان، شہر، درخت اور چوپائے راحت پا جاتے ہیں۔

Haidth Number: 3244
۔ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے اس بات پر پانچ دفعہ بیعت لی، سات مرتبہ پختہ عہد لیا اور نو بار اللہ تعالیٰ کو مجھ پر گواہ بنایا کہ میں اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈروں۔ ابو مثنّٰی کہتے ہیں کہ سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلا کر فرمایا: کیا تم ایک ایسی میری بیعت کرنے پر تیار ہو جاؤ گے، جس کے عوض تم کو جنت ملے گی؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، پھر میں نے اپنا ہاتھ آگے کر دیا،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ پر اس شرط کا تعین کرتے ہوئے فرمایا: تم نے لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرنا۔ میں نے کہا: جی ٹھیک ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر کوڑا بھی گر جائے تو اس کا سوال بھی نہیں کرنا، بلکہ خود اتر کر اٹھانا ہے۔

Haidth Number: 3537
۔ سیدنا عوف بن مالک اشجعی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم چھ یا سات یا آٹھ افراد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے فرمایا: تم میری بیعت کرو۔ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! ہم تو آپ کی بیعت کر چکے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: تم میری بیعت کرو۔ پس ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے ان ہی امور کی بیعت لی، جو دوسروں سے لی تھی، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مخفی سے انداز میں ایک کلمہ ارشاد فرمایا اور وہ یہ تھا کہ: تم لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا۔

Haidth Number: 3538
۔ مولائے رسول سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کون ہے جو مجھے ایک چیز کی ضمانت دے، اور میں اسے جنت کی ضمانت دوں گا؟ میں نے کہا: جی میں (حاضر ہوں)۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: توپھر تم نے لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرنا۔ جب سیدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سواری پر سوار ہوتے اور ان کی لاٹھی گر جاتی تو وہ کسی سے نہیں کہتے تھے کہ وہ ان کو اٹھا کر دے دے، بلکہ خود سواری سے اتر کر اس کو اٹھاتے تھے۔

Haidth Number: 3539

۔ (۴۰۰۶) عَنْ عَمْرَۃَ بِنْتِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَکَرَ اَنْ یَعْتَکِفَ الْعَشْرَ الْاَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ، فَاسْتَأْذَنَتْہُ عَائِشَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فَاَذِنَ لَہَا، فَاَمَرَتْ بِبِنَائِہَا فَضُرِبَ وَسَاَلَتْ حَفْصَۃُ عَائِشَۃَ اَنْ تَسْتَأْذِنَ لَہَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَفَعَلََتْ، فَاَمَرَتْ بِبِنَائِہَا، فَضُرِبَ، فَلَمَّا رَاَتْ ذَالِکَ زَیْنَبُ اَمَرَتْ بِبِنَائِہَا فَضُرِبَ، قَالَتْ: وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا صَلّٰی اِنْصَرَفَ، فَبَصُرَ بِالْاَبْنِیَۃِ، فَقَالَ: ((ھٰذِہِ؟)) قَالُوْا: بِنَائُ عَائِشَۃَ، وَحَفْصَۃَ، وَزَیْنَبَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہِ وَصَحْبِہِ وَسَلَّمَ: ((آلبِرَّ اَرَدتُّنَّ بِھٰذَا؟ مَا اَناَ بِمُعْتَکِفٍ۔)) فَرَجَعَ فَلَمَّا اَفْطَرَ اِعْتَکَفَ عَشْرَ شَوَّالٍ۔ (مسند احمد: ۲۵۰۵۱)

۔ زوجۂ رسول سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ماہِ رمضان کے آخری عشرہ کے اعتکاف کا ذکر کیا،یہ سن کر سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اعتکاف کی اجازت لی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں اجازت دے دی،پھر انہوں نے اپنے لیے ایک خیمے کا حکم دیا،جو نصب کر دیا گیا، اس کے بعد سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے کہا کہ وہ اس کے لیے بھی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اعتکاف کی اجازت طلب کریں۔ انہوں نے اجازت لی لے، چنانچہ انہوں نے بھی اپنے لیے خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا، جو نصب کر دیا گیا۔ جب سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے یہ کچھ دیکھا تو انہوں نے بھی اپنا خیمہ لگوا لیا۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز سے فارغ ہو کر پھرے تو یہ خیمے دیکھ کر پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ سیدہ عائشہ، سیدہ حفصہ اور سیدہ زینب کے اعتکاف کیلئے خیمے لگائے گئے ہیں،یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا اس سے تمہارا مقصود نیکی کا ہے؟ میں نے اب اعتکاف نہیں کرنا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس آگئے اور جب ماہِ رمضان سے فارغ ہوئے تو شوال کے دس دنوں کا اعتکاف کیا۔

Haidth Number: 4006
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک اہلیہ نے اعتکاف کیا، حالانکہ وہ مستحاضہ تھیں، ان کو زردی اور سرخی مائل خون آتا تھا، بسا اوقات تو ہم ان کے نیچے تھال رکھتیں، جبکہ وہ نماز ادا کر رہی ہوتی تھیں۔

Haidth Number: 4007
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ماہِ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیویوں نے اعتکاف کیا۔

Haidth Number: 4008
۔ سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہ محرم اپنا نکاح کر سکتا ہے، نہ کسی کا کروا سکتا ہے اور نہ نکاح کا پیغام بھیج سکتا ہے۔

Haidth Number: 4280
۔ نُبَیہ بن وہب کہتے ہیں: عمر بن عبید اللہ اپنے بیٹے (طلحہ) کے لیے شیبہ بن عثمان کی بیٹی کا رشتہ لینا چاہتے تھے، پس انھوں نے ابان بن عثمان کی طرف پیغام بھیجا، جبکہ وہ اس وقت امیرِ حج تھے، انھوں نے کہا: میرا خیال ہے کہ یہ شخص بھی بدّو ہی ہے، (جو شرعی احکام سے جاہل ہے)، بات یہ ہے کہ محرم نہ نکاح کر سکتا ہے اور نہ کروا سکتا ہے، مجھے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیان کی تھی۔

Haidth Number: 4281