Blog
Books
Search Hadith

باب اول: ان احادیث کا بیان جن میں ان کی خلافت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے

173 Hadiths Found
سیدنا ابو جحیفہ سے مروی ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا میںتمہیں نہ بتلاؤں کہ اس امت میں نبی کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ وہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں، کیا میں تمہیں یہ بھی بتلا دوں کہ اس امت میں سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ وہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔

Haidth Number: 12154
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کابیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مرض الموت کے ایام میں اپنے سر پر پٹی باندھے ہوئے باہر تشریف لائے اور ممبر پر جلوہ افروز ہوئے، آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی اورپھر فرمایا: اپنی جان اور مال کے بارے میں ابو بکر بن ابی قحافہ سے بڑھ کر میرا کون محسن نہیں ہے،اگر میں نے لوگوں میں سے کسی کو اپنا خلیل بنانا ہوتا تو میں نے ابو بکر کو اپنا خلیل بناتا، البتہ اسلامی دوستی اور تعلق سب سے زیادہ فضیلت والا ہے، اس مسجد کی طرف کھلنے والے ہر دروازے اور راستے کو بند کر دو، ما سوائے ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے راستے کے، وہ کھلا رہے۔

Haidth Number: 12155
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اسی قسم کی حدیث بیان کی ہے۔

Haidth Number: 12156
سیدنا جبیر بن مطعم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک خاتو ن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کسی معاملہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بات کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے حق میں کوئی حکم فرمایا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر میں آؤںاور آپ کو نہ پاؤں تو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر کے پاس چلی جانا۔

Haidth Number: 12157
۔ (دوسری سند) ایک خاتون، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اوراس نے آپ سے کسی چیز کا مطالبہ کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے فرمایا: تو میرے پاس دوبارہ آنا۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میںآؤں اور آ پ کو نہ پاؤں تو؟ وہ اشارۃً آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کی بات کر رہی تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: جب تم دوبارہ آؤ اور مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مل لینا۔

Haidth Number: 12158

۔ (۱۲۱۵۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَمْعَۃَ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَسَدٍ قَالَ: لَمَّا اسْتُعِزَّ بِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا عِنْدَہُ فِی نَفَرٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، قَالَ: دَعَا بِلَالٌ لِلصَّلَاۃِ، فَقَالَ: ((مُرُوْا مَنْ یُصَلِّی بِالنَّاسِ۔)) قَالَ: فَخَرَجْتُ فَإِذَا عُمَرُ فِی النَّاسِ وَکَانَ أَبُو بَکْرٍ غَائِبًا، فَقَالَ: قُمْ یَا عُمَرُ! فَصَلِّ بِالنَّاسِ، قَالَ: فَقَامَ فَلَمَّا کَبَّرَ عُمَرُ سَمِعَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَوْتَہُ، وَکَانَ عُمَرُ رَجُلًا مُجْہِرًا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((فَأَیْنَ أَبُو بَکْرٍ؟ یَأْبَی اللّٰہُ ذٰلِکَ وَالْمُسْلِمُونَ، یَأْبَی اللّٰہُ ذٰلِکَ وَالْمُسْلِمُونَ۔)) قَالَ: فَبَعَثَ إِلٰی أَبِی بَکْرٍ فَجَائَ بَعْدَ أَنْ صَلّٰی عُمَرُ تِلْکَ الصَّلَاۃَ فَصَلّٰی بِالنَّاسِ، قَالَ: وَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ زَمْعَۃَ: قَالَ لِی عُمَرُ: وَیْحَکَ مَاذَا صَنَعْتَ بِییَا ابْنَ زَمْعَۃَ! وَاللّٰہِ، مَا ظَنَنْتُ حِینَ أَمَرْتَنِی إِلَّا أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَکَ بِذٰلِکَ، وَلَوْلَا ذٰلِکَ مَا صَلَّیْتُ بِالنَّاسِ، قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ، مَا أَمَرَنِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلٰکِنْ حِینَ لَمْ أَرَ أَبَا بَکْرٍ رَأَیْتُکَ أَحَقَّ مَنْ حَضَرَ بِالصَّلَاۃِ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۱۳)

سیدنا عبداللہ بن زمعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر بیماری کا غلبہ تھا تو میں چند مسلمانوں کے ساتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں تھا، سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے نماز پڑھانے کی درخواست کی،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کسی سے کہہ دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دے۔ سیدنا ابن زمعہ کہتے ہیں: میں گیا اور دیکھا کہ وہاں سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ موجود نہ تھے، البتہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ موجود تھے، میں نے جا کر کہا: اے عمر! آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں، سو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اٹھ کھڑے ہوئے، چونکہ وہ بلند آواز والے آدمی تھے، اس لیے انہوں نے جب تکبیر کہی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی آواز سن لی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو بکر کہاں ہیں؟ اللہ اور مسلمان اس کو نہیں مانیںگے، اللہ اور مسلمان تو اس کا انکار کریں گے۔ بہرحال وہ نماز تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پڑھا دی۔ اس کے بعد سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس پیغام بھیجا گیا، بعد میں انہوں نے لوگوں کو نماز یں پڑھائیں۔ سیدنا عبداللہ بن زمعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھ سے کہا: ابن زمعہ! تجھ پر بڑا افسوس ہے، تو نے میرے ساتھ کیا کیا؟ جب تم نے مجھے آکر نماز پڑھانے کا کہا تو میں یہی سمجھا تھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تمہیں اسی چیز کا حکم دیا ہے، اگر میرے خیال میں یہ بات نہ ہوتی تو میں لوگوں کو نماز نہ پڑھاتا۔ سیدنا ابن زمعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو مجھے اس بات کا حکم نہیں دیا تھا (کہ میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو کہوں اور آپ کو نہ کہوں)۔ لیکن جب مجھے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نظر نہ آئے تو میں نے موجودہ لوگوں میں سے آپ کو سب سے زیادہ مستحق سمجھاکہ آپ نماز پڑھائیں۔

Haidth Number: 12159
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شدید بیمار ہوئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تم میرے پاس کندھے کی چوڑی ہڈی یا ایک تختی لے کر آؤ تاکہ میں ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ اس پر اختلاف ہی واقع نہ ہو۔ جب عبدالرحمن اٹھ کر جانے لگے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابو بکر! اللہ ! مسند میں مذکور ایک راوی عبدالرحمن بن ابی بکر ضعیف ہیں ایک آدمی اس نام (عبدالرحمن بن ابی بکر) سے حدیث میں مذکور ہے یہ صحابی اور ابوبکر صدیق کے بیٹے ہیں۔ (عبداللہ رفیق) اور اہل ایمان نے اس بات سے انکار کر دیا ہے کہ تجھ پر اختلاف کیا جائے۔

Haidth Number: 12160
۔ (دوسری سند) سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مرض الموت میں مبتلا تھے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ابو بکر اور ان کے بیٹے کو میرے پاس بلا کر لاؤ، تاکہ ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے معاملے میں کوئی لالچی لالچ نہ کرے اور اس امر کی خواہش رکھنے والا اس چیز کی خواہش نہ کرے۔ آپ نے یہ کلمہ دو مرتبہ ارشاد فرمایا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اور مسلمانوں نے اس چیز کا انکار کر دیا ہے (ما سوائے ابو بکر کے)۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اللہ نے اور مسلمانوں نے اس چیز کے لیے لوگوںکا انکار کر دیا ہے، ما سوائے میرے باپ کے اور پھر میرے باپ ہی خلیفہ بنے۔

Haidth Number: 12161
سیدنا طارق بن شہاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بجیلہ کا ایک وفد، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا: تم بنو بجیلہ کے افراد کے نام درج کر لو اور بنو احمس کے نا پہلے م لکھنا۔ یہ سن کر بنو قیس کا ایک آدمی پیچھے ہٹ گیا، تاکہ وہ یہ دیکھے کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے بارے میں کیا فرماتے ہیں، وہ بیان کرتا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے حق میں پانچ مرتبہ فرمایا: اے اللہ! تو ان پر رحمت فرما۔ یا اے اللہ! تو ان پر برکت نازل فرما۔ ان الفاظ میں مخارق راوی کو شک ہوا ہے۔

Haidth Number: 12571
۔ (دوسری سند) طارق بن شہاب سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بنو احمس اور بنو قیس کے افراد کا ایک وفد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم بنو قیس سے پہلے بنو احمس سے ابتدا کرو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو احمس ے حق میں سات مرتبہ یہ دعا فرمائی، اَللّٰہُمَّ بَارِکْ فِی أَحْمَسَ وَخَیْلِہَا وَرِجَالِہا (یااللہ! تو بنو احمس، ان کے سواروں اور پیادوں میں برکت فرما۔

Haidth Number: 12572
سیدناعبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں سب سے پہلے بنو احمس کی ایک عورت مجھے آکر ملے گی۔

Haidth Number: 12573

۔ (۱۲۹۳۲)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰہِ حَدَّثَنِیْ اَبِیْ ثَنَا مُعَاوِیَۃُ بْنُ عَمْرٍو ثَنَا اَبُوْ اِسْحٰقَ یَعْنِی الْفَزَارِیَّ عَنْ عَبْدِالْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرِ بْنِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ عَنْ نَافِعِ بْنِ عُتْبَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ غَزَاۃٍ فَاَتَاہُ قَوْمٌ مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ عَلَیْہِمْ ثِیَابُ الصُّوْفِ فَوَافَقُوْہُ عِنْدَ اَکَمَۃٍ وَھُمْ قِیَامٌ وَھُوَ قَاعِدٌ، فَاَتَیْتُہُ فَقُمْتُ بَیْنَھُمْ وَبَیْنَہُ فَحَفِظْتُ مِنْہُ اَرْبَعَ کَلِمَاتٍ اَعُدُّھُنَّ فِیْیَدِیْ، قَالَ: ((تَغْزُوْنَ جَزِیْرَۃَ الْعَرَبِ فَیَفْتَحُہَا اللّٰہُ، ثُمَّ تَغْزُوْنَ فَارِسَ فَیَفْتَحُہَا اللّٰہُ، ثُمَّ تَغْزُوْنَ الرُّوْمَ فَیَفْتَحُہَا اللّٰہُ، ثُمَّ تَغْزُوْنَ الدَّجَّالَ فَیَفْتَحُہُ اللّٰہُ۔)) قَالَ: نَافِعٌ: یَاجَابِرُ! اَلاَ تَرٰی اَنَّ الدَّجَّالَ لَا یَخْرُجُ حَتّٰی تُفْتَحَ الرُّوْمُ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۸۲)

سیدنا نافع بن عتبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں شریک تھا،مغرب کے علاقے سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس کچھ لوگ آئے، انھوں نے اونی لباس کے کپڑے پہنے ہوئے تھے، ایک ٹیلے کے پاس ان کی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملاقات ہوئی، وہ کھڑے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھے ہوئے تھے، میں بھی آکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اور ان کے درمیان کھڑا ہوگیا اور میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چار باتیں یاد کر لیں، اب میں ان کو اپنے ہاتھ پر شمار کر سکتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا:: تم جزیرۂ عرب کے باسیوں سے لڑائی کرو گے‘ اللہ تعالیٰ فتح نصیب فرمائے گا‘ پھر فارس سے لڑائی ہو گی‘ وہ بھی فتح ہو جائے گا‘ پھر روم سے لڑائی ہو گی، اللہ تعالیٰ فتح دے گا اور پھر تم دجال سے لڑائی کرو گے‘ اس پر بھی اللہ تعالیٰ تم کو فتح سے ہمکنار کرے گا۔

Haidth Number: 12932
Haidth Number: 12933
Haidth Number: 12934
سیدنا سمرہ بن جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں کو عجمیوں سے بھر دے گا، لیکن اس کے بعد پھر ایک وقت ایسا آئے گا کہ وہ شیر بن جائیں گے، تمہارے جنگجوؤں کو قتل کریں گے اورتمہارے چھوڑے ہوئے مال کو کھائیں گے۔

Haidth Number: 12935
ایک صحابی ٔ رسول سیدنا ذی مِخمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قریب ہے کہ اہل روم تم سے امن والی صلح کر لیں گے، پھر تم اور وہ مل کر ایک مشترکہ دشمن سے لڑائی کرو گے،تمہاری مدد کی جائے گی، پس تم سالم رہو گے اور مالِ غنیمت حاصل کرو گے، لیکن جب تم سرسبز وشاب ٹیلوں والے مقام میں قیام کرو گے تواس وقت ایک عیسائی آدمی صلیب کو بلند کر کے کہے گا کہ صلیب غالب آگئی ہے۔ یہ سن کر ایک مسلمان غیرت کرے گا اور اٹھ کر اس صلیب کو توڑ ڈالے گا، اس موقع پر رومی تمہارے ساتھ بدعہدی کریں گے اور وہ گھمسان کی جنگ کے لیے جمع ہو جائیں گے۔

Haidth Number: 12936
۔ (دوسری سند) سیدنا ذی مخمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، یہ حبشی آدمی تھا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت کرتا تھا، سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم لوگ رومیوں کے ساتھ واقعی امن والی صلح کرو گے، پھر تم ان کے ساتھ مل کر کسی اور دشمن سے لڑائی کرو گے اور تم سالم بھی رہو گے اور مالِ غنیمت بھی حاصل کروگے۔ سابقہ حدیث کی طرح ہی ذکر کیا، البتہ اس میں ہے: ایک مسلمان اٹھے گا اور اس کی طرف جا کر اسے قتل کر دے گا، اس موقع پر رومی بد عہدی کر جائیں گے اور پھر گھمسان کی جنگیں لڑی جائیں گی، وہ جمع ہو کر (۸۰) جھنڈوں پر مشتمل لشکر کی صورت میں تمہاری طرف آئیں گے اور ہر جھنڈے کے نیچے دس ہزار افراد ہوں گے۔

Haidth Number: 12937
سیدنا مستورد فہری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا:قیامت قائم ہوتے وقت رومیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی، سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: ذرا غور کرو، کیا کہہ رہے ہو؟ انہوںنے کہا: میں نے جوبات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے، وہی تم سے کہہ رہا ہوں۔ یہ سن کر سیدنا عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر تم یہی بات کہتے ہو تو پھر اس کی وجہ یہ ہے کہ رومیوں میں یہ چار اوصاف ہیں: (۱) اگر وہ میدانِ جنگ سے فرار ہوجائیں، تو (انتقامی) حملہ کرنے کے لیے بہت جلد واپس آتے ہیں، (۲)وہ غریبوں، فقیروں اور ضعیفوں کے حق میں دوسرے لوگوں کی بہ نسبت بہت بہتر ہیں، (۳) وہ لڑائی کے وقت سب سے زیادہ حوصلہ مند ثابت ہوتے ہیں اور (۴) یہ لوگ بادشاہوں کے مظالم کو سب سے بڑھ کر روکنے والے ہوتے ہیں۔

Haidth Number: 12938
سیدنا مستورد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں سیدنا عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس تھا، میںنے ان سے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے سب سے بڑے مخالف رومی ہیں، ان کا خاتمہ قیامت کے ساتھ ہوگا۔ سیدنا عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس سے کہا: کیا میں نے تجھے ایسی احادیث بیان کرنے سے منع نہیں کیا تھا؟

Haidth Number: 12939

۔ (۱۲۹۴۰)۔ وَعَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ عَنْ اَسِیْرِ بْنِ جَابِرٍ قَالَ: ھَاجَتْ رِیْحٌ حَمْرَائُ بِالْکُوْفَۃِ فَجَائَ رَجُلٌ لَیْسَ لَہٗھِجِّیْرٌ اَلَا یَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ! جَائَ تِ السَّاعَۃُ قَالَ: وَکَانَ مُتَّکِئًا فَجَلَسَ، فَقَالَ: اِنَّ السَّاعَۃَ لَاتَقُوْمُ حَتّٰی لَا یُقْسَمَ مِیْرَاثٌ وَلَایُفْرَحَ بِغَنِیْمَۃٍ ، قَالَ: عَدُوًّا یَجْمَعُوْنَ لِاَھْلِ الْاِسْلَامِ وَیَجْمَعُ لَھُمْ اَھْلُ الْاِسْلَامِ وَنَحّٰی بَیَدِہِ نَحْوَ الشَّامِ، قُلْتُ: اَلرُّوْمَ تَعْنِیْ؟ قَالَ: نَعَمْ: قَالَ: وَیَکُوْنُ عِنْدَ ذَاکُمُ الْقِتَالِ رِدَّۃٌ شَدِیْدَۃٌ قَالَ: فَیَشْتَرِطُ الْمُسْلِمُوْنَ شَرْطَۃً لِلْمَوْتِ، لَاتَرْجِعُ اِلَّاغَالِبَۃً، فَیَقْتَتِلُوْنَ حَتّٰییَحْجُرَ بَیْنَہُمُ اللَّیْلُ فَیَفِیْئُ ھٰؤُلَائِ وَھٰؤُلَائِ، کُلٌّ غَیْرُغَالِبٍ وَتَفْنَی الشَّرْطَۃُ، ثُمَّ یَشْتَرِطُ الْمُسْلِمُوْنَ شَرْطَۃً لِلْمَوْتِ، لَاتَرْجِعُ اِلَّا غَالِبَۃً، فَیَقْتَتِلُوْنَ حَتّٰییَحْجُرَ بَیْنَہُمُ اللَّیْلُ، فَیَفِیْئُ ھٰؤُلَائِ وَھٰؤُلَائِ، کُلٌّ غَیْرُ غَالِبٍ وَتَفْنَی الشَّرْطَۃُ، ثُمَّ یَشْتَرِطُالْمُسْلِمُوْنَ شَرْطَۃً لِلْمَوْتِ، لَا تَرْجِعُ اِلَّا غَالِبَۃً، فَیَقْتَتِلُوْنَ حَتّٰییُمْسُوا فَیَفِیْئُ ھٰؤُلَائِ وَھٰؤُلاَئِ کُلٌّ غَیْرُ غَالِبٍ وَتَفْنَی الشَّرْطَۃُ فَاِذَا کَانَ الْیَوْمُ الرَّابِعُ نَہَدَ اِلَیْہِمْ بَقِیَّۃُ اَھْلِ الْاِسْلَامِ، فَیَجْعَلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ الدَّبْرَۃَ عَلَیْہِمْ، فَیَقْتُلُوْنَ مَقْتَلَۃً اِمَّا قَالَ: لاَ یُرٰی مِثْلُہَا واِمَّا قَالَ: لَمْ نَرَ مِثْلَہَا حَتّٰی اَنَّ الطَّائِرَ لَیَمُرُّ بِجَنَبَاتِہِمْ فَمَا یُخْلِفُہُمْ حَتّٰییَخِرَّ مَیِّتًا قَالَ: فَیَتَعَادُّ بَنُو الْاَبِ کَانُوْا مِائَۃً وَلَایَجِدُوْنَہٗ بَقِیَ مِنْہُمْ اِلَّا الرَّجُلُ الْوَاحِدُ، فَبِاَیِّ غَنِیْمَۃٍیُفْرَحُ اَوْ اَیُّ مِیْرَاثٍیُقَاسَمُ، قَالَ: بَیْنَاھُمْ کَذٰلِکَ اِذَا سَمِعُوا بِبَأسٍ ھُوَ اَکْبَرُ مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ جَائَھُمُ الصَّرِیْخُ: اِنَّ الدَّجَّالَ قَدْ خَلَفَ فِیْ ذَرَارِیِّہِمْ فَیَرْفُضُوْنَ مَا فِیْ اَیْدِیْہِمْ وَیَقْبَلُوْنَ فَیَبْعَثُوْنَ عَشَرَۃَ فَوَارِسَ طَلِیْعَۃً، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنِّیْ لَاَعْلَمُ اَسْمَائَھُمْ وَاَسْمَائَ آبَائِہِمْ وَاَلْوَانَ خُیُوْلِھِمْ، ھُمْ خَیْرُ فَوَارِسَ عَلٰی ظَہْرِ الْاَرْضِ یَوْمَئِذٍ۔)) (مسند احمد: ۴۱۴۶)

اسیر بن جابر سے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں: کوفہ میں ایک دفعہ سرخ رنگ کی آندھی چلی، ایک عام آدمی، جس کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی، نے سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا کہ قیامت آگئی ہے۔ سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو پہلے ٹیک لگائے ہوئے تھے، یہ سن کر بیٹھ گئے اور کہا: جب تک میراث تقسیم نہیں ہو جاتی اور غنیمت کی وجہ سے خوش نہیں ہوا جاتا، اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی۔ دشمنان ِ اسلام، اہل ِ اسلام کے مقابلہ کے لیے اور اہل ِ اسلام ان کے مقابلہ کے لیے جمع ہوں گے، یہ بات کہتے ہوئے انہوںنے شام کی طرف اشارہ کیا، میں نے کہا: کیاآپ کی مراد رومی لوگ ہیں؟ انہوںنے کہا: جی ہاں، اس وقت شدید قسم کی لڑائی ہوگی،مسلمان بھی اس پر موت کی شرط لگا دیں گے کہ فاتح ہی لوٹنا ہے، پس وہ لڑیں گے، یہاں تک کہ ان کے اور دشمنوں کے درمیان رات حائل ہو جائے گی اور مسلمان اور رومی دونوں لوٹ آئیں گے اور ان میں سے کوئی بھی فاتح اور غالب نہیں ہوگا، اس طرح شرط بھی ختم ہو جائے گی، پھر مسلمان موت کی شرط لگا دیں گے کہ فاتح ہی لوٹنا ہے، پس وہ لڑیں گے، یہاں تک کہ ان کے اور دشمنوں کے درمیان رات حائل ہو جائے گی اوردونوں اس حال میں واپس ہوں گے کہ ان میں سے کوئی بھی فاتح نہیں ہوگا اور اس طرح یہ شرط بھی ختم ہو جائے گی، اس بار بھی مسلمان موت کی شرط لگا دیں گے کہ فتح کے ساتھ ہی واپس آنا ہے، پس وہ لڑیں گے، یہاں تک کہ شام ہو جائے گی اور دونوں کی واپسی غیر فاتحانہ ہو گی اور شرط ختم ہو جائے گی، جب چوتھا دن ہوگا تو باقی اہل اسلام بھی دشمن کے مقابلہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے، اللہ تعالیٰ ان پر شکست کو مسلط کر دے گا، وہ ایسی لڑائی لڑیں گے کہ جس کی کوئی مثال نہیں ہو گی، (اس قدر لاشوںکے پشتے لگ جائیں گے کہ) ایک پرندہ ایک طرف سے اڑے گا اور ابھی تک وہ ختم نہیں ہونے پائیں گے کہ وہ اڑتے اڑتے مر جائے گا، صورتحال یہ ہوگی کہ ایک باپ کے سو بیٹوں کو جب شمار کیا جائے گا تو بچنے والا صرف ایک ہو گا، ان حالات میں کس غنیمت کی خوشی ہو گی اور کون سی میراث تقسیم ہوگی؟ لوگ اس قسم کے حالات میں ہوں گے کہ اس سے بڑی ایک خبرسنائی دے گی اور وہ یہ کہ ایک چلّانے والا یوں چلّا رہا ہو گا کہ پیچھے لوگوں کے بچوں میں دجال پہنچ چکا ہے، یہ سن کر وہ تمام چیزوں کو پھینک دیں گے اور اُدھر متوجہ ہو کر دس گھڑ سواروں کا ایک دستہ بھیجیں گے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں ان گھڑ سواروں کے اور ان کے آباء واجداد کے ناموں اور ان کے گھوڑوں کے رنگوں تک کو جانتا ہوں، وہ ان دنوں روئے زمین پر موجود تمام گھڑ سواروں سے افضل لوگ ہوں گے۔

Haidth Number: 12940

۔ (۱۳۱۲۷)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: جَائَ اِبْنَا مُلَیْکَۃَ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَا: اِنَّ اُمَّنَا کَانَتْ تُکْرِمُ الزَّوْجَ وَتَعْطِفُ عَلَی الْوَلَدِ قَالَ: وَذَکَرَ الضَّیْفَ غَیْرَ اَنَّہَا کَانَتْ وَأَدَتْ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ قَالَ: ((اُمُّکُمَا فِی النَّارِ، فَاَدْبَرَا وَالشَّرُّ یُرٰی فِیْ وُجُوْھِہِمَا فَاَمَرَ بِہِمَا فَرُدَّا فَرَجَعَا وَالسَّرُوْرُ یُرٰی فِیْ وُجُوْھِہِمَا رَجِیَا اَنْ یَّکُوْنَ قَدْ حَدَثَ شَیْئٌ فَقَالَ: ((اُمِّیْ مَعَ اُمِّکُمَا۔)) فَقَالَ: رَجُلٌ مِنَ الْمُنَافِقِیْنَ :وَمَا یُغْنِیْ ہٰذَا عَنْ اُمِّہِ شَیْئًا وَنَحْنُ نَطَاُ عَقِبَیْہِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْاَنْصَارِ: وَلَمْ اَرَ رَجُلًا قَطُّ اَکْثَرَ سُوَالًا مِنْہُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَلْ وَعَدَکَ رَبُّکَ فِیْہَا اَوْ فِیْہِمَا قَالَ: فَظَنَّ اَنَّہُ مِنْ شَیْئٍ قَدْ سَمِعَہُ، فَقَالَ: ((مَا سَاَلْتُہُ رَبِّیْ وَمَا اَطْمَعَنِیْ فِیْہِ، وَاِنِّیْ لَاَقُوْمُ الْمَقَامَ الْمَحْمُوْدَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) فَقَالَ الْاَنْصَارِیُّ: وَمَا ذَاکَ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ ، قَالَ: ((ذَاکَ اِذَا جِیْئَ بِکُمْ عُرَاۃً حُفَاۃً غُرْلًا فَیَکُوْنُ اَوَّلَ مَنْ یُّکْسٰی اِبْرَاہِیْمُ علیہ السلام یَقُوْلُ: اُکْسُوْا خَلِیْلِیْ فَیُوْتٰی بِرَیْطَتَیْنِ بَیْضَاوَیْنِ فَیُلْبِسُہُمَا ثُمَّ یَقْعُدُ فَیَسْتَقْبِلُ الْعَرْشَ، ثُمَّ اُوْتِیَ بِکِسْوَتِیْ فَاَلْبِسُہَا، فَاَقُوْمُ عَنْ یَمِیْنِہِ مَقَامًا لَایَقُوْمُہُ اَحَدٌ غَیْرِیْیَغْبِطُنِیْ بِہِ الْاَوَّلُوْنَ وَالْآخَرُوْنَ، قَالَ: وَیُفْتَحُ نَہْرٌ مِّنَ الْکَوْثَرِ اِلَی الْحَوْضِ۔)) فَقَالَ الْمُنَافِقُوْنَ: فَاِنَّہُ مَا جَرٰی مَائٌ قَطُّ اِلَّا عَلٰی حَالٍ اَوْ رَضْرَاضٍ، قَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! عَلٰی حَالٍ اَوْ رَضْرَاضٍ؟ قَالَ: ((حَالُہُ الْمِسْکُ وَرَضْرَاضُہُ التُّوْمُ۔)) قَالَ الْمُنَافِقُ: لَمْ اَسْمَعْ کَالْیَوْمِ، قَلَّمَا جَرٰی مَائٌ قَطُّ عَلٰی حَالٍ اَوْ رَضْرَاضٍ اِلَّا کَانَ لَہُ نَبْتٌ، فَقَالَ الْاَنْصَارِیُّ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَلْ لَہُ نَبَتٌ؟ قَالَ: ((نَعَمْ قُضْبَانُ الذَّھَبِ۔)) قَالَ الْمُنَافِقُ: لَمْ اَسْمَعْ کَالْیَوْمِ فَاِنَّہُ قُلَّمَا نَبَتَ قَضِیْبٌ اِلاَّ اَوْرَقَ وَاِلَّا کَانَ لَہُ ثَمَرٌ، قَالَ الْاَنْصَارِیُّ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَلْ مِنْ ثَمَرٍ؟ قَالَ: ((نَعَمْ اَلْوَانُ الْجَوْھَرِ وَمَاوُہُ اَشَدُّ بَیَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَاَحْلٰی مِنَ الْعَسَلِ اِنَّ مَنْ شَرِبَ مِنْہُ مَشْرَبًا لَمْ یَظْمَاْ بَعْدَہُ وَاِنْ حُرِمَہُ لَمْ یُرْوَ بَعْدَہُ۔)) (مسند احمد: ۳۷۸۷)

سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ملیکہ کے دو بیٹے، نبی کر یم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا: ہماری والدہ اپنے شوہرکی بڑی عزت کرتی تھی،اپنی اولاد پر بھی بڑی شفیق تھی اور مہمانوں کی ضیافت بھی خوب کرتی تھی، البتہ اس سے ایک خطا سرزد ہوئی تھی کہ اس نے دورِ جاہلیت میںاپنی اولاد کو زندہ درگور کیا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں جہنم میں ہے۔ یہ سن کر وہ واپس چلے گئے اور ان کے چہروں پر مایوسی اور غم نمایاں تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دونوں کو واپس بلوایا، جب وہ واپس ہوئے تو ان کے چہروں پر خوشی کے آثار تھے، انہیں امید تھی کہ کوئی نئی بات واقع ہو چکی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: میری ماں بھی تمہاری ماں کے ساتھ ہی ہے۔ ایک منافق بولا:ہم اس رسول کے پیچھے چلتے ہیں اور یہ اپنی والدہ کو بھی جہنم سے نہیں بچا سکا،ایک انصاری، جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بہت زیادہ سوالات کرتا تھا، اس نے کہا: کیا آپ کے ربّ نے آپ سے آپ کی اور ان کی والدہ کے بارے میں کچھ کہا ہے؟ اس نے سمجھا کہ یہ بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اللہ تعالیٰ سے سنی ہوئی باتوں میں سے کوئی بات ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اس بارے میں اپنے ربّ سے تو کوئی بات دریافت نہیں کی اور نہ مجھے اس کی ضرورت ہے، میں قیامت کے دن ـمقام ِ محمود پر کھڑا ہوںگا۔ وہ انصاری بولا: مقامِ محمود سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن جب تم لوگوں کو برہنہ جسم، ننگے پاؤں اور غیر مختون حالت میں لایا جائے گا، تو سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو لباس مہیا کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے خلیل کو لباس پہناؤ ، پھر دو سفید چادریں لا کر ان کو دی جائیں گی اور وہ ان کو زیب تن کر لیں گے، وہ اس کے بعد عرش کی طرف رخ کر کے بیٹھ جائیں گے، پھر میرے پاس میرا لباس لایا جائے گا، میں بھی اسے زیب تن کر کے عرش کی داہنی جانب اس جگہ پر کھڑا ہو جاؤں گا، جہاں میرے سوا کوئی کھڑا نہیں ہو سکے گا، اگلے پچھلے سب لوگ اس اعزاز پر مجھ سے رشک کریں گے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ نہر کوثر سے حوض کی طرف ایک نہر چلائی جائے گی۔ یہ سن کر منافقوں نے کہا: نہروں کا پانی تومٹی اور کنکریوں پر بہتا ہے۔ اس انصاری نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا کوثر کا پانی مٹی اور کنکروں پر بہے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کی مٹی کستوری اور اس کے کنکر موتی ہوں گے۔ منافق بولا: ہم نے تو آج تک یہی سنا ہے کہ نہروں کا پانی جس مٹی اور کنکر پر بہتا ہے،اس سے فصل اگتی ہے۔ اس انصاری نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اس پانی سے کچھ اُگے گا بھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں ہاں، سونے کی کونپلیں نکلیں گی۔ منافق بولا: ہم نے تو ایسی بات کبھی نہیں سنی، کم ہی کوئی کونپل اُگتی ہے مگر اس پر پتے بھی آتے ہیںیا پھر ان پر پھل بھی لگتے ہیں، انصاری نے کہا: اللہ کے رسو ل! کیا اس اُگنے والی چیز کا پھل بھی ہوگا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں ہاں، اس پر جواہرات کے رنگ ہوں گے، ا س کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہوگا، جس نے ایک دفعہ وہ پانی پی لیا، اس کے بعد اسے کبھی پیاس محسوس نہیں ہوگی اور جو کوئی اس سے محروم رہا وہ بعد میں کبھی سیراب نہیں ہو سکے گا۔

Haidth Number: 13127

۔ (۱۳۲۵۹)۔ وَعَنِ الْاَسْوَدِ بْنِ سَرِیْعٍ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَرْبَعَۃٌیَوْمَ الْقِیَامَۃِ رَجُلٌ اَصَمُّ لَا یَسْمَعُ شَیْئًا وَرَجُلٌ اَحْمَقُ وَرَجُلٌ ھَرِمٌ وَرَجُلٌ مَاتَ فِیْ فَتْرَۃٍ، فَاَمَّا الْاَصَمُّ فَیَقُوْلَُ: رَبِّ لَقَدْ جَائَ الْاِسْلَامُ وَمَا اَسْمَعُ شَیْئًا، وَاَمَّا الْاَحْمَقُ فَیَقُوْلُ: رَبِّ لَقَدْ جَائَ الْاِسْلَامُ وَالصِّبْیَانُیَخْذِفُوْنِّیْ بِالْبَعْرِ، وَاَمَّاالْھَرِمُ فَیَقُوْلُ: رَبِّ لَقَدْ جَائَ الْاِسْلَامُ وَمَا اَعْقِلُ شَیْئًا، وَاَمَّا الَّذِیْ مَاتَ فِی الْفَتْرِۃِ، فَیَقُوْلُ: رَبِّ مَا اَتَانِیْ لَکَ رَسُوْلٌ، فَیَاْخُذُ مَوَاثِیْقَہُمْ لَیُطِیْعَنَّہُ فَیُرْسِلُ اِلَیْہِمْ اَنِ ادْخُلُوْا النَّارَ قَالََ: فَوَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ! لَوْ دَخَلُوْھَا لَکَانَتْ عَلَیْہِمْ بَرْدًا وَسَلاَمًا۔)) (مسند احمد: ۱۶۴۱۰)

سیدنا اسود بن سریع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن چار قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے، ایک بہرہ ہو گا، جو بالکل نہیں سنتا تھا، دوسرا احمق یعنی بے شعور ہو گا، تیسرا انتہائی بوڑھا اور چوتھا فترہ میں مر جانے والا۔ بہرہ آدمی کہے گا: اے میرے رب! میرے پاس دین اسلام اس وقت آیا تھا، جب میں کچھ بھی نہیں سنتا تھا،احمق کہے گا: اے میرے رب! اسلام تو آیا تھا، لیکن میں اس قدر بے شعور تھا کہ بچے مجھے مینگنیاں مارا کرتے تھے، بوڑھا کہے گا: اے میرے ربّ! جب اسلام آیا تھا تو میری حالت یہ تھی کہ مجھے کوئی چیز سمجھ نہیں آتی تھی اور فترہ میں مرنے والا کہے گا: اے میرے رب! میرے پاس تو تیرا کوئی رسول ہی نہیں آیا تھا۔ یہ سن کر اللہ تعالیٰ ان سے پختہ عہد لے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ضرور بالضرور اطاعت کریں گے، پھر اللہ تعالیٰ ان کی طرف پیغام بھیجے گا کہ تم اس آگ میں داخل ہوجاؤ۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اگر وہ اس آگ میں داخل ہو جائیں گے تو وہ ان کے لیے ٹھنڈک اور سلامتی والی ہو گی۔

Haidth Number: 13259
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بھی گزشتہ حدیث کی مانند ایک حدیث مروی ہے، البتہ اس کے آخر میں یہ الفاظ ہیں: جو شخص اس آگ میں داخل ہو جائے گا، وہ اس کے لیے ٹھنڈک اور سلامتی والی ہو گی اور جو اس میں داخل نہیں ہو گا، اسے گھسیٹ کر اس کی طرف لے جایا جائے گا۔

Haidth Number: 13260