Blog
Books
Search Hadith

منیٰ سے واپسی پر وادیٔ محصّب میں ٹھہرنے کا بیان

35 Hadiths Found
۔ سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دس ذوالحجہ کو دن کے شروع میں فرمایا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منیٰ میں تھے : ہم کل خیف ِ بنی کنانہ میں ٹھہریں گے، جہاں کفار نے مسلمانوں کے خلاف آپس میں قسمیں اٹھائی تھیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد وادیٔ محصّب تھی،اس کی تفصیلیہ ہے کہ قریش اور بنو کنانہ نے اس مقام پر بنو ہاشم اور بنو مطلب کے خلاف معاہدہ کیا تھا کہ وہ ان کے ساتھ اس وقت تک نہ نکاح کریں گے اور نہ خریدو فروخت، جب تک وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ان کے حوالے نہیں کر دیں گے۔

Haidth Number: 4571
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا حج کے والے بعد اپنے عمرے کا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبد الرحمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تم اپنی بہن (عائشہ) کے ہمراہ جائو اور ان کو بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کراؤ، تاکہ یہ اپنا عمرہ ادا کر لے،پھر اس کو میرے پاس واپس لے آنا، لیکن اس سے پہلے کہ میں حصبہ والی رات گزار لوں، (یعنی راتوں رات واپس آ جانا)۔ سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں صرف میری وجہ سے قیام کیا تھا۔ دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں: سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتی ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منیٰ سے روانہ ہوکر وادی محصّب میں جاکر ٹھہرے، اللہ کی قسم ! آپ نے صرف میری وجہ سے وہاں قیام کیا تھا۔

Haidth Number: 4572
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ وادیٔ ابطح میں ٹھہرنا سنت نہیں ہے ،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو صرف اس لئے وہاں ٹھہرے تھے کہ اس میں (مدینہ کی طرف روانگی کے لیے) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سہول ت تھی۔

Haidth Number: 4573
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ وادیٔ محصّب میں قیام کرنے کی شرعی حیثیت کوئی نہیں ہے،یہ تو محض ایک مقام ہے، جہاں اللہ کے رسول نے قیام کیا تھا۔

Haidth Number: 4574
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ وادیٔ ابطح (یعنی وادیٔ محصّب) میں قیام کو کوئی شرعی حیثیت نہیں دیتے تھے، بلکہ وہ تواس کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی وجہ سے وہاں (اتفاقی طور پر) قیام کیا تھا۔

Haidth Number: 4575
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں وادیٔ محصّب میں ادا کیں اور اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لیٹ گئے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کا طوافِ وداع کیا۔

Haidth Number: 4576
۔ بکر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما وادیٔ بطحاء میں کچھ دیر سوتے تھے اور بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی ایسے ہی کیا تھا۔

Haidth Number: 4577
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یہ سب حضرات وادی محصّب میں ٹھہرا کرتے تھے۔

Haidth Number: 4578
۔ سیدنا حبیب بن مسلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے (غزوے کے سفر کی) ابتداء میں خمس نکالنے کے بعد ایک چوتھائی حصہ اور واپسی پر خمس نکالنے کے بعد ایک تہائی حصہ زائد دیا۔

Haidth Number: 5057
۔ سیدنا حبیب بن مسلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں خود رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس موجود تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے شروع میں ایک چوتھائی اور واپسی پر ایک تہائی حصہ زائد دیا۔ ابو عبد الرحمن نے کہا: میں نے اپنے باپ کو یہ کہتے ہوئے سنا: میں نے شام میں کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھا جو سعید بن عبد العزیز تنوخی سے زیادہ صحیح احادیث والا ہو۔

Haidth Number: 5058
۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ابتدا میں ایک چوتھائی حصہ اور واپسی پر ایک تہائی حصہ زائد دیا۔

Haidth Number: 5059
۔ سیدنا عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ہی مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دشمن کی زمین میں حملے کے لیے جا رہے ہوتے تھے تو ایک چوتھائی حصہ زائد دیتے اور جب لوٹ رہے ہوتے تھے، اور لوگ تھکے ہوئے ہوتے تو ایک تہائی حصہ زائد دیتے، دراصل آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زائد حصوں کو ناپسند کرتے اور فرماتے: چاہیے کہ قوی مؤمن، کمزوروں پر لوٹا دے۔

Haidth Number: 5060
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ایک لشکر میں بھیجا، ہمارے حصوں میں بارہ بارہ اونٹ آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک ایک اونٹ ہمیں زائد بھی دیا۔

Haidth Number: 5061
۔ سیدنا ابو موسی اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے غزووں میں زائد حصہ دیا کرتے تھے۔

Haidth Number: 5062
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ عہد ِ نبوی میں چیزوں کے نرخ بڑھ گئے، لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ بھائو مقرر فرمادیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالی ہی ہے، جو پیدا کرنے والا، کمی کرنے والا، کشادگی کرنے والا، رزق دینے والا اور بھاؤ بڑھانے والاہے، میں اللہ تعالی سے یہ امید رکھتا ہوں کہ جب میں اس کو ملوں تو کوئی بھی خون اور مال کے بارے میں مجھ سے کسی قسم کی حق تلفی کامطالبہ کرنے والا نہ ہو۔

Haidth Number: 5945
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ روایت ہے کہ ایک مرتبہ عہد ِ نبوی میں چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا، لوگوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: آپ ہمارے لئے قیمتیا بھائو مقرر کردیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ـیہ تو اللہ تعالیٰ ہی ہے جو قیمت مقرر کرتا ہے یا بھاؤ بڑھاتا ہے، میں تو یہ امید رکھتاہوں کہ جب تم سے جدا ہوں تو تم میں سے کوئی بھی اپنے مال اور جان کے بارے میں مجھ سے کسی قسم کی زیادتی کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔

Haidth Number: 5946
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! بھائو تو مقرر کر دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تو صرف اللہ تعالی ہی ہے، جو بھاؤ کو چڑھا دیتا ہے اور کم کر دیتا ہے، میں تو یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالی سے اس حال میں ملوں کہ میں نے کسی کا نقصان نہ کیا ہوا ہو۔ جب ایک دوسرے شخص نے بھییہی بات کی کہ آپ نرخ کا تعین کر دیں، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی کو پکارو (اور اس سے دعا کرو)۔

Haidth Number: 5947

۔ (۵۹۴۸)۔ عَنِ الْحَسَنِ یَعْنِی الْبَصَرِیَّ قَالَ: ثَقُلَ مَعْقِلُ بْنُ یَسَارٍ فَدَخَلَ إِلَیْہِ عُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ زَیَادٍیَعُوْدُہُ فَقَالَ: ھَلْ تَعْلَمُ یَا مَعْقِلُ! أَنِّی سَفَکْتُ دَمًا؟ قَالَ: مَاعَلِمْتُ قَالَ: ھَلْ تَعْلَمُ اَنِّیْ دَخَلْتُ فِیْ شَیْئٍ مِنْ أَسْعَارِ الْمُسْلِمِیْنَ؟ قَالَ: مَا عَلِمْتُ، قَالَ: أَجْلِسُوْنِیْ، ثُمَّ قَالَ: اسْمَعْ یَا عُبَیْدَ اللّٰہِ! حَتّٰی أُحَدِّثَکَ شَیْئًا لَمْ أَسْمَعْہُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَرَّۃً وَلَا مَرَّتَیْنِ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَنْ دَخَلَ فِیْ شَیْئٍ مِنْ أَسْعَارِ الْمُسْلِمِیْنَ لِیُغْلِیَہُ عَلَیْہِمْ فَاِنَّ حَقًّا عَلَیاللّٰہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ أَنْ یُقْعِدَہُ بِعُظْمٍ مِنَ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) قَالَ: أَنْتَ سَمِعْتَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: نَعَمْ غَیْرَ مَرَّۃٍ وَلَا مَرَّتَیْنِ۔ (مسند احمد: ۲۰۵۷۹)

۔ حسن بصری سے روایت ہے کہ جب سیدنا معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیماری کی وجہ سے بوجھل ہوگئے تو ان کے پاس عبید اللہ بن زیاد تیمارداری کے لئے آیا اور کہا: اے معقل! کیا میں نے خون ریزی کی ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے تو معلوم نہیں ہے، اس نے پھر کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں نے مسلمانوں کے بھائو میںکسی قسم کی مداخلت کی ہو؟ انہوں نے کہا: جی مجھے تو معلوم نہیں ہے۔ پھر سیدنا معقل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مجھے اٹھا کر بٹھاؤ، پھر انھوں نے عبیداللہ سے مخاطب ہوکر کہا: میں تجھے ایسی حدیث بیان کرتا ہوں، جو میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک دو بار نہیںسنی، (بلکہ کئی دفعہ سنی ہے)، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ـجس نے مسلمانوں کے بھائو میں مداخلت کی اور اس کو اُن پر مہنگا کردیا تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ روزِ قیامت اسے آگ کے وسیع مقام پر بٹھائے۔ عبیداللہ نے کہا: کیا آپ نے یہ بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: جی کئی دفعہ، ایک دو مرتبہ نہیں۔

Haidth Number: 5948
۔ سیدنا ابو رمثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطاب کر رہے تھے اور فرما رہے تھے: دینے والے کا ہاتھ اوپر والا ہاتھ ہوتا ہے۔ اپنی ماں، باپ، بہن، بھائی اور زیادہ سے زیادہ نزدیکی رشتہ داروں پر صرف کرو۔ اتنی دیر میں بنو ثعلبہ بن یربوع کے کچھ افراد آگئے، انصار میں سے ایک آدمی نے ان کے بارے میں کہا: اے اللہ کے رسول! یہ بنو یریوع کے افراد آگئے ہیں، انہوں نے فلاں کو قتل کیا تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! کوئی جان دوسرے کے جرم کی ذمہ دار نہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بات دو بار ارشاد فرمائی۔

Haidth Number: 6617

۔ (۶۶۱۸)۔ وَعَنْہُ اَیُضًا قَالَ: اِنْطَلَقْتُ مَعَ اَبِیْ نَحْوَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا رَأَیْتُہُ قَالَ اَبِیْ: ھَلْ تَدْرِیْ مَنْ ھٰذَا؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: ھٰذَا مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَاقْشَعْرَرْتُ حِیْنَ قَالَ ذٰلِکَ، وَکُنْتُ أَظُنُّ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَیْئًا لَا یُشْبِہُ النَّاسَ فَاِذَا بَشَرٌ ذُوْ وَفْرَۃٍ وَبِہَا رَدْعٌ مِنْ حِنَّائٍ وَعَلَیْہِ بُرْدَانِ أَخْضَرَانِ فَسَلَّمَ عَلَیْہِ اَبِیْ، ثُمَّ جَلَسْنَا فَتَحَدَّثَنَا سَاعَۃً، ثُمَّ انَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِأَبِیْ: ((اِبْنُکَ ھٰذَا؟))قَالَ: اِیْ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ! قَالَ: حَقًّا، قَالَ: لَأَشْھَدُ بِہِ، فَتَبَسَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ضَاحِکًا فِیْ تَثْبِیْتِ شَبَہِیْ بِأَبِیْ وَمِنْ حَلْفِ اَبِیْ عَلَیَّ، ثُمَّ قَالَ: ((اَمَا إِنَّہُ لَا یَجْنِیْ عَلَیْکَ وَلَا تَجْنِیْ عَلَیْہِ۔)) وَقَرَأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرٰی} [الاسرائ: ۱۵] الحدیث۔ (مسند احمد: ۷۱۱۶)

۔ سیدنا ابو رمثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اس طرح بھی روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں اپنے ابو جان کے ساتھ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر ہوا، جب میں نے آپ کو دیکھا تو میرے ابا جان نے کہا: ابو رمثہ ! تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جانتا ہے؟ میں نے کہا: جی نہیں، انھوں نے کہا: یہ محمد رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، پس میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، میرا خیال تھا کہ آپ کی ذات گرامی کی عام انسانوں سے الگ تھلگ حیثیت ہوگی، مگر آپ ایک انسان تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بال کانوں تک آ رہے تھے، بالوں پر مہندی کے نشان تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سبز رنگ کی دو چادریں پہن رکھی تھیں، میرے ابونے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر سلام کیا اور ہم بیٹھ گئے، آپ نے کچھ دیر تک ہم سے باتیںکیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تمہارا بیٹا ہے؟ میرے ابا جان نے کہا: جی ہاں،کعبہ کے رب کی قسم! یہی بات درست ہے کہ یہ میرا بیٹا ہے، میں اس پر گواہی دیتا ہوں۔ یہ ساری باتیں سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھل کر مسکرا پڑے، کیونکہ میری اپنے باپ کے ساتھ مشابہت بالکل واضح تھی، لیکن اس کے باوجود وہ قسم اٹھا رہے تھے، پھرآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! یہ تیرے حق میں جرم نہیں کرے گا اور تو اس کے حق میں جرم نہیں کرے گا۔ ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی: کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ … الحدیث۔

Haidth Number: 6618
۔ سیدنا خشخاس عنبری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور میرے ساتھ میرا بیٹا بھی تھا، آپ نے فرمایا: کیایہ تیرا بیٹا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، یہ میرا بیٹا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تیرے حق میں جرم نہیں کرے گا اور تو اس کے حق میں جرم نہیں کرے گا (بلکہ ہر کوئی اپنے جرم کا خود ذمہ دار ہو گا)۔

Haidth Number: 6619
۔ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے عہد ِ خلافت میں ایک آدمی نے اپنے باپ سے روایت کی کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ملے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے لئے ایک تحریر لکھوادیں کہ مجھے غیر کے جرم میں نہ پکڑا جائے گا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تیرا حق بھی ہے اور ہر مسلمان کا بھی ہے (کہ کسی کو کسی کے جرم میں نہیں پکڑا جائے گا)۔

Haidth Number: 6620
۔ سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ احد والے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پچاس تیر اندازوں پر سیدنا عبداللہ بن جبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو امیر مقرر فرمایا اور ان سے فرمایا: اگر تم دیکھو کہ دشمن نے ہمیں ماردیا ہے اور پرندے ہمارا گوشت نوچ رہے ہیں، پھر بھی تم نے اس مقام کو نہیںچھوڑنا۔ لیکن جب انہوں نے مالِ غنیمت کو دیکھا توکہنے لگے: تم بھی غنیمتیں جمع کرو، سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: کیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ تم لوگوں نے اسی درے پر رہنا ہے۔ ؟ (لیکن وہ نہ مانے) اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: {وَعَصَیْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا أَ رَاکُمْ مَا تُحِبُّونَ}… اور جونہی کہ وہ چیز اللہ نے تمہیں دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مالِ غنیمت اور دشمن کی شکست)تم اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے راوی کہتا ہے: تم غنمتوں اور دشمنوں کی شکست دیکھنے کے بعد اپنے رسول کی نافرمانی کردی۔

Haidth Number: 8547
۔ سیدنا ربیعہ بن عباد دیلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حج کے موسم میں مِنٰی میں لوگوں کی رہائش گاہوں میں ان کے پاس جاتے اور فرماتے: لوگو! بیشک اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے ایک آدمی ہوتا، وہ کہتا: یہ شخص تم کو حکم دے رہا ہے کہ تم اپنے آباء کا دین چھوڑ دو، میں نے پوچھا کہ پیچھے والا آدمی کون ہے؟ جواب دیا گیا کہ یہ ابو لہب ہے۔

Haidth Number: 10596

۔ (۱۰۵۹۷)۔ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنَ عَبَّادٍ اَیْضًا قَالَ: وَاللّٰہِ! اِنِّیْ لَأَذْکُرُہُ (یَعْنِیْ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) یَطُوْفُ عَلَی الْمَنَازِلِ بِمِنًی، وَأَنَا مَعَ أَبِیْ غَلَامٌ شَابٌّ، وَوَرَائَ ہٗرَجُلٌحَسَنُالْوَجْہِأَحْوَلُذُوْغَدِیْرَتَیْنِ، فَلَمَّا وَقَفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی قَوْمٍ قَالَ: ((أَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تَعْبدُوْہُ، وَلَاتُشْرِکُوْا بِہٖشَیْئًا۔)) وَیَقُوْلُ الَّذِیْ خَلْفَہُ: اِنَّ ھٰذَا یَدْعُوْکُمْ اِلٰی أَنْ تُفَارِقُوْا دِیْنَ آبَائِکُمْ وَأَنْ تَسْلُخُوْا اللَّاتَ وَالْعُزّٰی وَحُلَفَائَکُمْ مِنْ بَنِیْ مَالِکِ بْنِ اُقَیْشٍ اِلَی مَا جَائَ بِہٖمِنَالْبِدْعَۃِ وَالضَّلَالِ قَالَ: فَقُلْتُ لِاَبِیْ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالَ: عَمُّہُ أَبُوْلَھَبٍ عَبْدُ الْعُزَّی بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ۔ (مسند احمد: ۱۶۱۲۳)

۔ (دوسری سند) سیدنا ربیعہ بن عباد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم مجھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اچھی طرح یاد ہیں کہ آپ مِنٰی میں لوگوں کے پاس جاتے، جبکہ میں اس وقت جوان تھا اور اپنے باپ کے ساتھ ہوتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے پیچھے ایک آدمی تھا، وہ خوبصورت چہرے والا، بھینگی آنکھ والا اور دو چٹیوں والا تھا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی قوم کے پاس کھڑے ہو کر فرماتے: میں اللہ کا رسول ہوں، وہ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ اور پیچھے والا آدمی کہتا: یہ تمہیں اس چیز کی دعوت دیتا ہے کہ تم اپنے آباء کے دین سے باز آ جاؤ، لات و عزی کو اور بنو مالک بن اُقیش میں سے اپنے حلیفوں کو چھوڑ دو اور اس کی لائی ہوئی بدعت و ضلالت کو اختیار کر لو۔ میں نے اپنے باپ سے کہا: یہ شخص کون ہے؟ انھوں نے کہا: یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چچا ابو لہب عبد العزی بن عبد المطلب ہے ۔

Haidth Number: 10597

۔ (۱۰۵۹۸)۔ عَنْ أَشْعَثَ قَالَ: حَدَّثَنِیْ شَیْخٌ مِنْ بَنِیْ مَالِکِ بْنِ کِنَانَۃَ قَالَ: رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِسُوْقِ ذِی الْمَجَازِ یَتَخَلَّلُھَایَقُوْلُ: ((یَا أَیُّھَا النَّاسُ! قُوْلُوْا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تُفْلِحُوْا)) قَالَ: وَأَبُوْجَھْلٍیَحْثِیْ عَلَیْہِ التُّرَابَ وَیَقُوْلُ: یَا أَیُّھَا النَّاسُ! لَا یَغُرَّنَّکُمْ ھٰذَا عَنْ دِیْنِکُمْ، فَاِنَّمَا یُرِیْدُ لِتَتْرُکُوْا اٰلِھَتَکُمْ وَتَتْرُکُوْا اللَّاتَ وَالْعُزّٰی، قَالَ: وَمَا یَلْتَفِتُ اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قُلْنَا: انْعَتْ لَنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: بَیْنَ بُرْدَیْنِ اَحْمَرَیْنِ مَرْبُوْعٌ کَثِیْرُ اللَّحْمِ حَسَنُ الْوَجْہِ شَدِیْدُ سَوَادِ الشَّعْرِ اَبْیَضُ شَدِیْدُ الْبَیَاضِ سَابِغُ الشَّعْرِ۔ (مسند احمد: ۱۶۷۲۰)

۔ اشعث کہتے ہیں: بنو مالک بن کنانہ کے ایک بزرگ نے مجھے بیان کیا کہ اس نے ذو مجاز بازار میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس میں گھستے جا رہے تھے اور فرما رہے تھے: اے لوگو! لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہہ دو، کامیاب ہو جاؤ گے۔ اُدھر ابوجہل اپنے آپ پر مٹی ڈالتے ہوئے کہہ رہا تھا، لوگو! یہ تم کو تمہارے دین کے بارے میں دھوکے میں نہ ڈال دے، یہ چاہتا ہے کہ تم اپنے معبودوں اور لات و عزی کو چھوڑ دو، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے تھے، ہم نے اس بزرگ سے کہا: تم ہمارے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا حلیہ مبارک بیان کرو، اس نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سرخ رنگ کی دو چادریں زیب ِ تن کر رکھی تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا قد معتدل تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر گوشت تھے، خوبصورت چہرے والے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بال سخت سیاہ تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا رنگ بہت سفید تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بال بھرپور تھے۔

Haidth Number: 10598

۔ (۱۰۷۷۰)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ الْقُرَظِیِّ قَالَ: قَالَ فَتًی مِنَّا مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ لِحُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ: یَا أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ! رَأَیْتُمْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَصَحِبْتُمُوہُ؟ قَالَ: نَعَمْ، یَا ابْنَ أَخِی، قَالَ: فَکَیْفَ کُنْتُمْ تَصْنَعُونَ؟ قَالَ: وَاللّٰہِ! لَقَدْ کُنَّا نَجْہَدُ، قَالَ: وَاللّٰہِ! لَوْ أَدْرَکْنَاہُ مَا تَرَکْنَاہُ یَمْشِی عَلَی الْأَرْضِ وَلَجَعَلْنَاہُ عَلَی أَعْنَاقِنَا، قَالَ: فَقَالَ حُذَیْفَۃُ: یَا ابْنَ أَخِی! وَاللّٰہِ، لَقَدْ رَأَیْتُنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْخَنْدَقِ، وَصَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ اللَّیْلِ ہَوِیًّا، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیْنَا، فَقَالَ: ((مَنْ رَجُلٌ یَقُومُ فَیَنْظُرَ لَنَا مَا فَعَلَ الْقَوْمُ، یَشْتَرِطُ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ یَرْجِعُ أَدْخَلَہُ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ۔)) فَمَا قَامَ رَجُلٌ، ثُمَّ صَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہَوِیًّا مِنَ اللَّیْلِ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیْنَا، فَقَالَ: ((مَنْ رَجُلٌ یَقُومُ، فَیَنْظُرَ لَنَا مَا فَعَلَ الْقَوْمُ، ثُمَّ یَرْجِعُیَشْرِطُ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الرَّجْعَۃَ، أَسْأَلُ اللّٰہَ أَنْ یَکُونَ رَفِیقِی فِی الْجَنَّۃِ۔)) فَمَا قَامَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ مَعَ شِدَّۃِ الْخَوْفِ وَشِدَّۃِالْجُوعِ وَشِدَّۃِ الْبَرْدِ، فَلَمَّا لَمْ یَقُمْ أَحَدٌ دَعَانِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمْ یَکُنْ لِی بُدٌّ مِنَ الْقِیَامِ حِینَ دَعَانِی، فَقَالَ: ((یَا حُذَیْفَۃُ! فَاذْہَبْ فَادْخُلْ فِیْ الْقَوْمِ فَانْظُرْ مَا یَفْعَلُونَ، وَلَا تُحْدِثَنَّ شَیْئًاحَتّٰی تَأْتِیَنَا۔)) قَالَ: فَذَہَبْتُ فَدَخَلْتُ فِی الْقَوْمِ، وَالرِّیحُ وَجُنُودُ اللّٰہِ تَفْعَلُ مَا تَفْعَلُ، لَا تَقِرُّ لَہُمْ قِدْرٌ وَلَا نَارٌ وَلَا بِنَائٌ، فَقَامَ أَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! لِیَنْظُرْ امْرُؤٌ مَنْ جَلِیسُہُ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ: فَأَخَذْتُ بِیَدِ الرَّجُلِ الَّذِی إِلٰی جَنْبِی، فَقُلْتُ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، ثُمَّ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! إِنَّکُمْ وَاللّٰہِ! مَا أَصْبَحْتُمْ بِدَارِ مُقَامٍ، لَقَدْ ہَلَکَ الْکُرَاعُ وَأَخْلَفَتْنَا بَنُو قُرَیْظَۃَ، بَلَغَنَا مِنْہُمْ الَّذِی نَکْرَہُ، وَلَقِینَا مِنْ ہٰذِہِ الرِّیحِ مَا تَرَوْنَ، وَاللّٰہِ! مَا تَطْمَئِنُّ لَنَا قِدْرٌ وَلَا تَقُومُ لَنَا نَارٌ وَلَا یَسْتَمْسِکُ لَنَا بِنَائٌ، فَارْتَحِلُوا فَإِنِّی مُرْتَحِلٌ، ثُمَّ قَامَ إِلٰی جَمَلِہِ وَہُوَ مَعْقُولٌ فَجَلَسَ عَلَیْہِ، ثُمَّ ضَرَبَہُ فَوَثَبَ عَلٰی ثَلَاثٍ فَمَا أَطْلَقَ عِقَالَہُ إِلَّا وَہُوَ قَائِمٌ، وَلَوْلَا عَہْدُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا تُحْدِثْ شَیْئًا حَتّٰی تَأْتِیَنِی وَلَوْ شِئْتُ لَقَتَلْتُہُ بِسَہْمٍ، قَالَ حُذَیْفَۃُ: ثُمَّ رَجَعْتُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ قَائِمٌ یُصَلِّی فِی مِرْطٍ لِبَعْضِ نِسَائِہِ مُرَحَّلٍ، فَلَمَّا رَآنِی أَدْخَلَنِی إِلٰی رَحْلِہِ وَطَرَحَ عَلَیَّ طَرَفَ الْمِرْطِ، ثُمَّ رَکَعَ وَسَجَدَ وَإِنَّہُ لَفِیہِ، فَلَمَّا سَلَّمَ أَخْبَرْتُہُ الْخَبَرَ، وَسَمِعَتْ غَطَفَانُ بِمَا فَعَلَتْ قُرَیْشٌ، وَانْشَمَرُوا إِلٰی بِلَادِہِمْ۔ (مسند احمد: ۲۳۷۲۳)

محمد بن کعب قرظی سے مروی ہے کہ کوفہ کے ہمارے ایک جوان نے سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے ابو عبداللہ! آپ لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا اور ان کی صحبت میں رہے؟ انہوں نے کہا: ہاں بھتیجے، اس نے پوچھا: تمہارا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کیا رویہ اور برتاؤ ہوتا تھا؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم ان دنون سخت مشقت میں تھے، تو اس جوان نے کہا: اللہ کی قسم! اگر ہم آپ کے زمانہ کو پالیتے تو ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو زمین پر نہ چلنے دیتے اور ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنے کندھوں پر اُٹھاتے تو حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا اے بھتیجے میں نے ہم صحابہ کو خندق کے موقعہ پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ دیکھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رات کو کافی دیر تک نماز پڑھی، بعدازاں ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کون ہے جو اُٹھ کر جا کر دیکھ کر آئے کہ اب دشمن کیا کر رہا ہے؟ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بطور شرط (ضمانت) فرمایا کہ وہ واپس آئے تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا، کوئی آدمی بھی کھڑا نہ ہوا۔ پھر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کافی دیر تک نماز پڑھی، بعدازاں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کون ہے جو جا کر دشمن کو دیکھ کر آئے کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بطور شرط، ضمانت فرمایا کہ وہ واپس آئے گا۔ میں اللہ سے دعا کروں گا کہ وہ جنت میں میرا ساتھی ہو۔ لیکن دشمن کے خوف کی شدت، بھوک کی شدت اور سردی کی شدت کی وجہ سے کوئی بھی نہ اُٹھا، جب کوئی بھی نہ اُٹھا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلایا چوں کہ آپ نے مجھے ہی خاص طور پر بلایا تھا اس لیے میرے لیے اُٹھے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حذیفہ! تم جا کر دشمن کے افراد کے اندر گھس جاؤ۔ اور دیکھو کہ وہ کیا کرتے ہیں؟ اور تم ہمارے پاس واپس آنے تک کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرنا، حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں میں جا کر ان میں شامل ہو گیا، تیز آندھی اور اللہ کے لشکران کی تباہی مچا رہے تھے، تیز آندھی کی وجہ سے نہ ان کی دیگیں ٹھہرتی تھیں نہ آگ نہ خیمے۔ اسی دوران ابو سفیان بن حرب نے کھڑے ہو کر کہا اے قریش! ہر آدمی دیکھے کہ اس کے ساتھ کون بیٹھا ہوا ہے؟ حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں میں نے جلدی سے اپنے قریب والے آدمی کا ہاتھ پکڑ لیا اور پوچھا تم کون ہو؟ اس نے بتایا کہ میں فلاں بن فلاں ہوں، پھر ابو سفیان نے کہا اے جماعت ِ قریش! اب تم اس مقام پر قرار نہیں کر سکتے۔ سارے گھوڑے ہلاک ہو گئے ہیں۔اور بنو قریظہ نے ہمارے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے انہوں نے ہمارے ساتھ جو سلوک کیا وہ ہمیں انتہائی ناگوار گزرا اور تیز آندھی کی صورت حال بھی تم دیکھ رہے ہو۔ اللہ کی قسم! ہماری دیگیں کہیں ٹھہر نہیں رہیں۔ آگ جلتی نہیں اور خیمے بھی نہیں ٹھہر رہے۔ تم کوچ کی تیاری کرو۔ میں تو جا رہا ہوں۔ پھر وہ اپنے اونٹ کی طرف اُٹھ گیا جس کے پاؤں کو رسی سے باندھا ہوا تھا۔ وہ اس پر بیٹھا، اسے مارا اس نے اس کی رسی کو کھولا نہیں تھا، اس لیے اونٹ نے تین بار کود کر اُٹھنے کی کوشس کی، تاہم وہ اُٹھ کھڑا ہوا، اگر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ واپس آنے تک وہاں کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرنے کا عہد نہ ہوتا تو میں چاہتا تو اسے ایک ہی تیر سے قتل کر سکتا تھا۔ حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں پھر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں واپس آیا، آپ اس وقت اپنی کسی اہلیہ کی منقش اونی چادر اوڑھے نماز پڑھ رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھا تو مجھے اپنے خیمے میںداخل کر کے چادر کا ایک پہلو میرے اوپر دے دیا۔ آپ چادر ہی میں تھے۔ آپ نے اسی حالت میں رکوع اور سجدہ کیا۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز سے سلام پھیرا تو میں نے ساری بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گوش گزار کی اور جب بنو غطفان نے قریش کی ساری کار گزاری سنی تو انہوں نے اپنے اونٹوں کو اپنے وطن کی طرف موڑ لیا۔

Haidth Number: 10770

۔ (۱۱۶۹۱)۔ عَنْ قَیْسِ بْنِ بِشْرِ نِ التَّغْلَبِیِّ قَالَ: أَخْبَرَنِیْ أَبِیْ، وَکَانَ جَلِیْسًا لِأَبِی الدَّرْدَائِ، قَالَ: کَانَ بِدَمِشْقَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُقَالُ لَہُ: ابْنُ الْحَنْظَلِیَّۃِ، وَکَانَ رَجُلًا مُتَوَحِّدًا قَلَّمَا یُجَالِسُ النَّاسَ، إِنَّمَا ہُوَ فِی صَلَاۃٍ، فَإِذَا فَرَغَ فَإِنَّمَا یُسَبِّحُ وَیُکَبِّرُ حَتّٰی یَأْتِیَ أَہْلَہُ، فَمَرَّ بِنَا یَوْمًا وَنَحْنُ عِنْدَ أَبِی الدَّرْدَائِ فَقَالَ لَہُ أَبُو الدَّرْدَائِ: کَلِمَۃً تَنْفَعُنَا وَلَا تَضُرُّکَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((نِعْمَ الرَّجُلُ خُرَیْمٌ الْأَسَدِیُّ لَوْلَا طُولُ جُمَّتِہِ وَإِسْبَالُ إِزَارِہِ۔)) فَبَلَغَ ذٰلِکَ خُرَیْمًا فَجَعَلَ یَأْخُذُ شَفْرَۃً یَقْطَعُ بِہَا شَعَرَہُ إِلٰی أَنْصَافِ أُذُنَیْہِ، وَرَفَعَ إِزَارَہُ إِلٰی أَنْصَافِ سَاقَیْہِ قَالَ: فَأَخْبَرَنِی أَبِی قَالَ: دَخَلْتُ بَعْدَ ذٰلِکَ عَلٰی مُعَاوِیَۃَ فَإِذَا عِنْدَہُ شَیْخٌ جُمَّتُہُ فَوْقَ أُذُنَیْہِ وَرِدَاؤُہُ إِلٰی سَاقَیْہِ، فَسَأَلْتُ عَنْہُ، فَقَالُوْا: ہَذَا خُرَیْمٌ الْأَسَدِیََََُّ۔ (مسند احمد: ۱۷۷۶۹)

بشر تغلبی سے مروی ہے کہ وہ سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھا کرتے تھے، انہوںنے بتلایا کہ دمشق میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ایک صحابی تھے، ان کو ابن حنظلیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہا جاتا تھا،وہ گوشتہ نشین قسم کے آدمی تھے، وہ لوگوں سے بہت کم ملتے جلتے تھے، بس نماز میں مصروف رہتے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد گھر آنے تک اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تکبیر میں مشغول رہتے۔ ہم ایک دن سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ ہمارے پاس سے گزرے۔ سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا کہ کوئی بات ہی ارشاد فرما دیں، ہمیں اس سے فائدہ ہو جائے گا اور آپ کا کچھ نہ جائے گا۔ انہوںنے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خریماسدی میں دو باتیں نہ ہوں تو وہ بہت ہی اچھا آدمی ہے، ایک تو اس کے بال کاندھوں تک لمبے ہیں اور دوسرے اس کی چادر ٹخنوں سے نیچے رہتی ہے۔ دوسری روایت کے الفاظ ہیں اگر وہ اپنے بال چھوٹے اور چادر بھی چھوٹی کر لے۔ جب یہ بات سیدنا خریم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تک جا پہنچی تو انہوںنے چھری لے کر فوراً اپنے بال نصف کا نوں تک کاٹ دیئے اور اپنی چادر نصف پنڈلی تک اوپر اٹھا لی۔ قیس کہتے ہیں: اس واقعہ کے بعد میں ایک دفعہ سیدنا امیر معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں گیا، ان کے ہاں ایک بزرگ تشریف فرما تھے،ان کے سر کے بال کانوں سے اوپر اور چادر نصف پنڈلی تک تھی، میں نے ان کے متعلق دریافت کیا تو کہنے والوں نے بتایا کہ یہ سیدنا خریم اسدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔

Haidth Number: 11691
سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جابیہ کے مقام پر خطاب کیا اور اس میں کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے درمیان اسی طرح کھڑے ہوئے تھے، جیسے میں تمہارے درمیان کھڑ اہوں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیںاپنے صحابہ سے اچھا سلوک کرنے کی تاکید کرتا ہوں، اور ان کے بعد آنے والے لوگوں اور پھر اُن لوگوں کے بعد آنے والوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنے کی تمہیں وصیت کرتا ہوں، ان زمانوں کے بعد جھوٹ عام ہو جائے گا، یہاں تک کہ آدمی گواہی کا مطالبہ کیے جانے سے پہلے گواہی دینا شروع کر دے گا، پس تم میں سے جو آدمی جنت کے وسط میں مقام بنانا چاہے، وہ جماعت کے ساتھ مل کر رہے، کیونکہ اکیلے آدمی کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور اگر دو آدمی اکٹھے ہوں تو وہ ان سے زیادہ دور رہتا ہے اور تم میں سے کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ علیحدہ نہ ہو، کیونکہ ان میں تیسرا شیطان ہو گا، نیز جب کسی آدمی کو اس کی نیکی اچھی لگے اور برائی بری لگے تو وہ مؤمن ہو گا۔

Haidth Number: 12221

۔ (۱۲۲۲۲)۔ عَنْ نَاشِرَۃَ بْنِ سُمَیٍّ الْیَزَنِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالَی عَنْہُ یَقُولُ فِییَوْمِ الْجَابِیَۃِ وَہُوَ یَخْطُبُ النَّاسَ: إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَنِی خَازِنًا لِہٰذَا الْمَالِ وَقَاسِمَہُ لَہُ، ثُمَّ قَالَ: بَلِ اللّٰہُ یَقْسِمُہُ وَأَنَا بَادِئٌ بِأَہْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَشْرَفِہِمْ فَفَرَضَ لِأَزْوَاجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَشْرَۃَ آلَافٍ إِلَّا جُوَیْرِیَۃَ وَصَفِیَّۃَ ومَیْمُونَۃَ، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَعْدِلُ بَیْنَنَا فَعَدَلَ بَیْنَہُنَّ عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّی بَادِئٌ بِأَصْحَابِی الْمُہَاجِرِینَ الْأَوَّلِینَ، فَإِنَّا أُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا ظُلْمًا وَعُدْوَانًا ثُمَّ أَشْرَفِہِمْ، فَفَرَضَ لِأَصْحَابِ بَدْرٍ مِنْہُمْ خَمْسَۃَ آلَافٍ، وَلِمَنْ کَانَ شَہِدَ بَدْرًا مِنَ الْأَنْصَارِ أَرْبَعَۃَ آلَافٍ، وَلِمَنْ شَہِدَ أُحُدًا ثَلَاثَۃَ آلَافٍ، قَالَ: وَمَنْ أَسْرَعَ فِی الْہِجْرَۃِ أَسْرَعَ بِہِ الْعَطَائُ، وَمَنْ أَبْطَأَ فِی الْہِجْرَۃِ أَبْطَأَ بِہِ الْعَطَائُ، فَلَا یَلُومَنَّ رَجُلٌ إِلَّا مُنَاخَ رَاحِلَتِہِ، وَإِنِّی أَعْتَذِرُ إِلَیْکُمْ مِنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ، إِنِّی أَمَرْتُہُ أَنْ یَحْبِسَ ہٰذَا الْمَالَ عَلٰی ضَعَفَۃِ الْمُہَاجِرِینَ، فَأَعْطٰی ذَا الْبَأْسِ وَذَا الشَّرَفِ وَذَا اللَّسَانَۃِ، فَنَزَعْتُہُ وَأَمَّرْتُ أَبَا عُبَیْدَۃَ بْنَ الْجَرَّاحِ فَقَالَ أَبُو عَمْرِو بْنُ حَفْصِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ: وَاللّٰہِ! مَا أَعْذَرْتَ یَا عُمَرُ بْنَ الْخَطَّابِ! لَقَدْ نَزَعْتَ عَامِلًا اسْتَعْمَلَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَغَمَدْتَ سَیْفًا سَلَّہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَوَضَعْتَ لِوَائً نَصَبَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَقَدْ قَطَعْتَ الرَّحِمَ، وَحَسَدْتَ ابْنَ الْعَمِّ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّکَ قَرِیبُ الْقَرَابَۃِ، حَدِیثُ السِّنِّ، مُغْضَبٌ مِنْ ابْنِ عَمِّکَ۔ (مسند احمد: ۱۶۰۰۰)

ناشرہ بن سمی یزنی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جابیہ کے مقام پر سنا، وہ لوگوں سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مال کا خازن او رتقسیم کنند ہ بنایا ہے۔ پھر کہا: دراصل اللہ تعالیٰ ہی تقسیم کرنے والا ہے، اب میں تقسیم کرتے وقت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اہل خانہ سے ابتداء کرتا ہوں، پھر ان کے بعد جو افضل ہو گا، اسے دوں گا، چنانچہ انہوں نے امہات المومنین میں سیدہ جو یریہ، سیدہ صفیہ اور سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہن کے سوا باقی تمام ازواج مطہرات کے لیے دس دس ہزار مقرر کیے، لیکن جب سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو ہمارے درمیان عدل اور برابری فرمایا کرتے تھے، پس سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سب کو برابر برابر حصہ دیا ہے اورپھر کہا: اب میں سب سے پہلے ان حضرات کو دیتا ہوں جو اولین مہاجرین میں سے ہیں، کیونکہ ان لوگوں پر ظلم اورزیادتی کرتے ہوئے ان کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا تھا، ان کے بعد جو لوگ فضل و شرف والے ہوں گے، ان کو دوں گا، پس انہوں نے اصحاب بدر کے لیے پانچ پانچ ہزار مقرر فرمائے اور انصاری بدری صحابہ کے لیے چار چار ہزار اور شرکائے احد کے لیے تین تین ہزار مقرر کیے۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا: جس نے ہجرت کرنے میں جلدی کی، اس کو زیادہ دیا جائے گا اور جس نے ہجرت کرنے میںدیر کی، میں بھی اس کو کم حصہ دوں گا، ہر آدمی اپنے اونٹ کے بٹھانے کی جگہ کو ملامت کرے (یعنی اگر کسی کو حصہ کم دیا جا رہا ہے تو وہ اس کی اپنی تاخیر کی وجہ سے ہے، وہ ہم پر طعن نہ کرے) اورمیں تمہارے سامنے خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں معذرت پیش کرتا ہوں،ـ میں نے انہیں حکم دیا تھا کہ یہ مال کمزور مہاجرین میں تقسیم کریں، لیکن انہوں نے یہ مال تندرست، اصحاب مرتبہ اور چالاک لوگوں میں تقسیم کر دیا، اس لیے میں یہ ذمہ داری ان سے لے کر سیدنا ابو عبیدہ بن جراح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سونپتا ہوں،یہ سن کر ابو عمر بن حفص بن مغیرہ نے کہا: اللہ کی قسم! اے عمر بن خطاب! آپ کا عذر معقول نہیں، آپ نے اس عامل کو معزدل کیا ہے جسے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مقرر فرمایا تھا، آپ نے اس تلوار کو نیام میں بند کیا ہے، جسے اللہ کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لہرایا تھا اور آپ نے اس جھنڈے کو لپیٹ دیا ہے، جس کو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نصب کیا تھا اور آپ نے یہ کام کر کے اپنے چچا زاد سے قطع رحمی کی ار اس سے حسد کا ثبوت دیا ہے۔ یہ باتیں سن کر سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم اپنے اس چچازاد کے قریبی رشتہ دار ہو اور نو عمر ہو، سو تم اس کے حق میں طرف داری کر رہے ہو۔

Haidth Number: 12222