Blog
Books
Search Hadith

امیر اور عامل کے تحائف

39 Hadiths Found
۔ سیّدنا حمید ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عاملین کا ہدیہ لینا خیانت ہے۔

Haidth Number: 5071

۔ (۵۰۷۲)۔ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ قَالَ: حَدَّثَنِی أَبُو الْجُوَیْرِیَۃِ، قَالَ: أَصَبْتُ جَرَّۃً حَمْرَائَ، فِیہَا دَنَانِیرُ، فِی إِمَارَۃِ مُعَاوِیَۃَ، فِی أَرْضِ الرُّومِ، قَالَ: وَعَلَیْنَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ یُقَالُ لَہُ: مَعْنُ بْنُ یَزِیدَ، قَالَ: فَأَتَیْتُ بِہَا یَقْسِمُہَا بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ، فَأَعْطَانِی مِثْلَ مَا أَعْطٰی رَجُلًا مِنْہُمْ، ثُمَّ قَالَ: لَوْلَا أَنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَأَیْتُہُ یَفْعَلُہُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَا نَفْلَ إِلَّا بَعْدَ الْخُمُسِ)) إِذًا لَأَعْطَیْتُکَ۔ قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ فَعَرَضَ عَلَیَّ مِنْ نَصِیبِہِ، فَأَبَیْتُ عَلَیْہِ، قُلْتُ: مَا أَنَا بِأَحَقَّ بِہِ مِنْکَ۔ (مسند أحمد: ۱۵۹۵۶)

۔ ابو جویریہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے روم کی سرزمین میں سرخ رنگ کا ایک گھڑا ملا، اس میں دینار تھے، یہ سیدنا امیر معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خلافت کی بات ہے، بنو سلیم قبیلے کا معن بن یزید نامی ایک صحابی ہمارا امیر تھا، میں وہ گھڑا لے کر ان کے پاس لے کر آیا، تاکہ وہ اس کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دیں، پھر انھوں نے مجھے اتنا مال دیا، جتنا کہ دوسرے افراد کو دے رہے تھے اور کہا: اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ بات نہ سنی ہوتی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایسا کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے ہی دے دیتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زائد حصہ نہیں ہوتا، مگر خمس کے بعد۔ پھر انھوں نے مجھ پر میرا حصہ پیش کیا، لیکن میں نے انکار کر دیا اور کہا: میں تیری بہ نسبت اس کا زیادہ حقدار نہیں ہوں۔

Haidth Number: 5072
۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سونا چاندی کے عوض فروخت کرناسود ہے، الا یہ کہ وہ نقد و نقد ہوں، اسی طرح گندم، گندم کے عوض بیچنا سو د ہے، الا یہ کہ وہ نقد ونقد ہو، اور جو، جو کے عوض فروخت کرناسود ہے، الا یہ کہ وہ نقد و نقد ہو، اسی طرح کھجور، کھجور کے عوض فروخت کرنا سود ہے، الا یہ کہ وہ نقد و نقد ہو۔

Haidth Number: 5963
۔ سیدنا ابو ہر یرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: گندم کے بدلے گندم، جو کے بدلے جو، کھجور کے بدلے کھجور اور نمک کے بدلے نمک ناپ تول کر اور برابر برابر فروخت کیے جائیں گے، جو زیادہ دے گا یا جو زیادتی کا مطالبہ کرے گا، وہ سود لے گا، ہاں جب اقسام مختلف ہو جائیں (تو پھر زیادہ دینےیا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے)۔

Haidth Number: 5964
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سونے کے بدلے سونا، چاندی کے بدلے چاندی … اوپر والی حدیث کی طرح بیان کیا، البتہ اس کے آخر میںیہ اضافہ ہے: زائد لینے والا اور دینے والا، دونوں برابر ہیں۔

Haidth Number: 5965
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیع کے وقت سونے کے عوض سونا، چاندی کے عوض چاندی اور چاندی کے سکے کے عوض چاندی کا سکہ نقدو نقد اور برابر برابر ہونا چاہیے، جس نے زیادہ دیایا طلب کیا، اس نے سود لیا۔

Haidth Number: 5966
۔ عطاء بن یسار کہتے ہیں: سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے چاندی کاایک پیالہ خریدا، اس کی قیمت میں دی گئی چاندی اس سے کم یا زیادہ تھی، سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس قسم کے سودے سے منع فرمایا ہے، ما سوائے اس کے جو برابر برابر ہو۔

Haidth Number: 5967
۔ ابو اشعث سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: لوگ مالِ غنیمت میں سے چاندی ملنے تک اس کو بیچ دیتے تھے، سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سونے کے بدلے سونے کی، چاندی کے بدلے چاندی کی، کھجور کے بدلے کھجور کی، گندم کے بدلے گندم کی، جو کے بدلے جو کی اور نمک کے بدلے نمک کی بیع کرنے سے منع فرمایا، الا یہ کہ وہ برابر برابر ہوں، جس نے زیادہ دیایا زیادہ کا مطالبہ کیا، اس نے سودی معاملہ کیا۔ ایک روایت میں ہے: جب یہ جنسیں مختلف ہو جائیں تو جیسے چاہو خرید و فروخت کر لو، بشرطیکہ ہاتھوں ہاتھ ہو۔

Haidth Number: 5968

۔ (۵۹۶۹)۔ عَنْ نَافِعٍ قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ: لَاتَبِیْعُوْا الذَّھَبَ بِالذَّھَبِ وَلَا الْوَرَقَ بِالْوَرَقِ اِلَّا مِثْـلًا بِمِثْلٍ، وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَہَا عَلَی بَعْضٍ، وَلَا تَبِیْعُوْا شَیْئًا غَائِبًا مِنْہَا بِنَاجِزٍ، فَاِنِّیْ أَخَافُ عَلَیْکُمُ الرَّمَائَ، وَالرَّمَائُ الرِّبَائُ، قَالَ: فَحَدَّثَ رَجُلٌ اِبْنَ عُمَرَ ھٰذَا الْحَدِیْثَ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّیُحَدِّثُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَمَا تَمَّ مَقَالَتُہُ حَتّٰی دَخَلَ بِہٖعَلٰی اَبِیْ سَعِیْدٍ وَأَنَا مَعَہُ، فَقَالَ: إِنَّ ھٰذَا حَدَّثَنِیْ عَنْکَ حَدِیْثًایَزْعُمُ اَنَّکَ تُحَدِّثُہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَفَسَمِعْتَہُ؟ فَقَالَ: بَصَرَ عَیْنِیْ وسَمِعَ أُذُنِیْ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((لا تَبِیْعُوا الذَّھَبَ بِالذَّھَبِ وَلَا الْوَرَقَ بِالْوَرَقِ اِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَلَا تُشِفُّوْا بَعْضَہَا عَلٰی بَعْضٍ وَلَا تَبِیْعُوْا شَیْئًا مِنْہَا غَائِبًا بِنَاجِزٍ۔)) (مسند احمد: ۱۱۰۱۹)

۔ امام نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا: سونے کو سونے کے بدلے اور چاندی کو چاندی کے بدلے فروخت نہ کرو، مگر برابر برابر، ایک چیز کو دوسری کے مقابلے میں نہ بڑھاؤ اور نہ ادھار کو نقد کے ساتھ فروخت کرو، کیونکہ ایسی صورت میں مجھے سود کا اندیشہہے، اتنے میں ایک آدمی نے سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اس قسم کی ایک حدیث ِ نبوی سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے واسطہ سے بیان کر دی، لیکن ابھی تک اس نے اپنی بات پوری نہیں کی تھی کہ سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس پہنچ گئے اور میں بھی اُن کے ساتھ تھا، وہ داخل ہوئے اور کہا: اس شخص کا خیال ہے کہ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یہ حدیث رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیان کرتے ہیں، کیا واقعتا آپ نے یہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے؟ ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میری آنکھوں نے دیکھا تھا اور میرے کانوں نے سنا تھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سونے کو سونے کے عوض اور چاندی کو چاندی کے عوض فروخت نہ کرو، مگر برابر برابر اور ایک چیز کو دوسرے کے مقابلے میں زیادہ نہ کرو اور نہ نقد کو ادھار کے بدلے بیچو۔

Haidth Number: 5969
۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سونے کے عوض سونا اور چاندی کے عوض چاندی برابر برابر ہیں۔ یہاں تک نمک کا بھی خصوصی ذکر کیا، سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: سیدنا عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اس بات کی کوئی اہمیت نہیں، (یہ حدیث ِ نبوی نہیں ہے)۔ یہ سن کر سیدنا عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے کہ جس مقام پر میں ہوں، وہاں سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی ہوں، میںیہ شہادت دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔

Haidth Number: 5970
۔ سیدنا ابو بکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں چاندی کے عوض چاندی اور سونے کے عوض سونا خریدنے سے منع فرمایا، الا یہ کہ وہ برابربرابر ہوں، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ چاندی کو سونے کے عوض اور سونے کو چاندی کے عوض جس طرح چاہیں سودا کر لیں۔ یہ سن کر سیدنا ثابت بن عبید اللہ نے کہا: کیا پھر نقد و نقد کی قید ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے اسی طرح سنا تھا۔

Haidth Number: 5971
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہ فروخت کرو ایک دینار دودینارکے عوض، اور نہ ہی ایک درہم دودرہم کے عوض اور نہ ہی ایک ایک صاع، دوصاع کے عوض اس طرح مجھے ڈرہے کہ تم سود میں مبتلاہوجائو گے۔ ایک آدمی کھڑا ہوکر کہنے لگے اے اللہ کے رسول!اس بارے میں آپ کا کیا حکم ہے ؟کہ آدمی ایک گھوڑا زیادہ گھوڑوں کے عوض اور اونٹنی اونٹ کے عوض فروخت کرے۔ آپ نے فرمایا جب نقد ونقد ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں۔

Haidth Number: 5972
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا ابو ہر یرہ اور سیدنا ابو سعید سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سونے کے عوض سونا برابر برابر ہو اور چاندی کے بدلے میں چاندی برابر برابر ہو، بالکل ایک دوسرے کے برابر برابر ہوں، جس نے زیادہ دیایا زیادتی کا مطالبہ کیا، اس نے سود والا معاملہ کیا۔ شر حبیل کہتے ہیں: اگر میں نے یہ حدیث نہ سنی ہوتو اللہ تعالی مجھے آگ میں داخل کر دے۔

Haidth Number: 5973
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا سعد بن ربیع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیوی اپنی دو بیٹیاں لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! یہ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی دو بیٹیاں ہیں، ان کا باپ آپ کے ساتھ جنگ احد میں شہید ہو چکا ہے اوران کے چچے نے ان کا سارا مال سمیٹ لیا ہے، ظاہر ہے اگر ان بیٹیوں کے پاس مال نہ ہوا تو ان کی شادی نہیں ہو گی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس بارے میں فیصلہ فرمائے گا۔ پس میراث والی آیت نازل ہوئی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان بچیوں کے چچے کو بلایا اور اس سے فرمایا: سعد کی بیٹیوں کو دوتہائی اور ان کی ماں کو آٹھواں حصے دو، پھر جو کچھ بچ جائے (وہ بطورِ عصبہ) تیرا ہے۔

Haidth Number: 8550

۔ (۱۰۶۰۴)۔ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: مَکَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَشَرَ سِنِیْنَیَتْبَعُ النَّاسَ فِیْ مَنَازِلِھِمْ بِعُکَاظٍ وَمَجَنَّۃَ، وَ فِیْ الْمَوَاسِمِ بِمِنًییَقُوْلُ: ((مَنْ یُؤْوِیْنِیْ؟ مَنْ یَنْصُرُنِیْ؟ حَتّٰی أُبَلِّغَ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَلَہُ الْجَنَّۃُ۔)) حَتّٰی اِنَّ الرَجُلَ لَیَخْرُجُ مِنَ الْیَمَنِ أَوْ مِنْ مُضَرَ فَیَأْتِیْہِ قَوْمُہُ فَیَقُوْلُوْنَ: احْذِرْ مِنْ غُلَامِ قُرَیْشٍ لَا یَفْتِنُکَ، وَیَمْشِیْ بَیْنَ رِحَالِھِمْ وَھُمْ یُشِیْرُوْنَ اِلَیْہِ بِالْأَصَابِعِ حَتّٰی بَعَثَنَا اللّٰہُ اِلَیْہِ مِنْ یَثْرِبَ فَآوَیْنَاہُ وَصَدَّقْنَاہُ، فَیَخْرُجُ الرَّجُلُ مِنَّا فَیُؤْمِنُ بِہٖیُقْرِئُہُ الْقُرْآنَ، فَیَنْقَلِبُ اِلٰی أَھْلِہِ فَیُسْلِمُوْنَ بِاِسْلَامِہِ حَتّٰی لَمْ یَبْقَ دَارٌ مِنْ دُوْرِ الْأَنْصَارِ اِلَّا وَفِیْھَا رَھْطٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَیُظْھِرُوْنَ الْاِسْلَامَ، ثُمَّّ ائْتَمَرُوْا جَمِیْعًا، فَقُلْنَا حَتّٰی مَتٰی نَتْرُکُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُطْرَدُ فِیْ جِبَالِ مَکَّۃَ وَیَخَافُ؟ فَرَحَلَ اِلَیْہِ مِنَّا سَبْعُوْنَ رَجُلًا حَتّٰی قَدِمُوْا عَلَیْہِ فِی الْمَوْسَمِ فَوَاعَدْنَاہُ شِعْبَ الْعَقَبَۃَ فَاجْتَمَعْنَا عَلَیْہِ مِنْ رَجُلٍ ورَجُلَیْنِ حَتّٰی تَوَافَیْنَا، فَقُلْنَا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نُبَایِعُکَ؟ قَالَ: ((تُبَایِعُوْنِیْ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِیْ النَّشَاطِ وَالْکَسْلِ وَالنَّفَقَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ وَعَلَی الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّھْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ، وأَنْ تَقُوْلُوْا فِیْ اللّٰہِ لَاتَخَافُوْنَ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ، وَعَلٰی أَنْ تَنْصُرُوْنِیْ فَتَمْنَعُوْنِیْ اِذَا قَدِمْتُ عَلَیْکُمْ مِمَّا تَمْنَعُوْنَ مِنْہُ أَنْفُسَکُمْ وَأَزْوَاجَکُمْ وَأَبْنَائَ کُمْ وَلَکُمُ الْجَنَّۃَ۔)) قَالَ: فَقُمْنَا اِلَیْہِ فَبَایَعْنَاہُ وَأَخَذَ بِیَدِہِ أَسْعَدُ بْنُ زُرَارَۃَ وَھُوَ مِنْ أَصْغَرِھِمْ، فَقَالَ: رُوَیْدًایَاأھَلَیَثْرِبِ! فَاِنَّا لَمْ نَضْرِبْ أَکْبَادَ الْاِبِلِ اِلَّا وَنَحْنُ نَعْلَمُ أَنَّہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاِنَّ اِخْرَاجَہُ الْیَوْمَ مُفَارِقَۃُ الْعَرْبِ کَافَّۃً وَقَتْلُ خِیَارِکُمْ، وَاَنْ تَعَضَّکُمُ السُّیُوْفُ، فَاِمَّا أَنْتُمْ قَوْمٌ تَصْبِرُوْنَ عَلٰی ذٰلِکَ وَأَجْرُکُمْ عَلَیاللّٰہِ، وَاِمَّا أَنْتُمْ قَوْمٌ تَخَافُوْنَ مِنْ أَنْفُسِکُمْ جَبِنَۃً فَبَیِّنُوْا ذٰلِکَ فَھُوَ عُذْرٌ لَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ، قَالُوْا: أَمِطْ عَنَّا یَااَسْعَدُ، فَوَاللّٰہِ! لَا نَدَعُ ھٰذِہِ الْبَیْعَۃَ أَبَدًا وَلَا نَسْلُبُھَا أَبَدًا، قَالَ: فَقُمْنَا اِلَیْہِ فَبَایَعْنَاہُ فَأَخَذَ عَلَیْنَا وَشَرَطَ یُعْطِیْنَا عَلَی ذٰلِکَ الْجَنَّۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ أَجْمَعِیْنَ۔ (مسند احمد: ۱۴۵۱۰)

۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دس برس تک مکہ میں رہے، عکاظ اور مجنہ میں لوگوں کے ڈیروں پر جاتے اور مواسمِ حج کے موقع پر مِنٰی میں جاتے اور فرماتے: کون مجھے جگہ فراہم کرے گا؟ کون میری مدد کرے گا؟ تاکہ میں اپنے ربّ کا پیغام پہنچاؤں اور اس شخص کو جنت ملے گی۔ حتی کہ ایک آدمییمن سے یا مضر سے مکہ کے لیے نکلتا اور اس کی قوم اس کے پاس آتی اور کہتی: قریشی آدمی سے بچ کر رہنا، کہیں وہ تجھے فتنے میں نہ ڈال دے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے گھروں کے درمیان چلتے اور وہ انگلیوں سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف اشارہ کرتے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیںیثرت سے بھیجا، پس ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جگہ دی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تصدیق کی، پس ہم میں سے آدمی نکلتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ایمان لاتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو قرآن مجید کی تعلیم دیتے، پھر وہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹتا اور وہ بھی اس کے اسلام کی وجہ سے مسلمان ہو جاتے، یہاں تک کہ انصاری محلوں میں سے کوئی محلہ نہ بچا، مگر اس میں مسلمانوں کی ایک جماعت نے وجود پکڑ لیا، جو اسلام کا اظہار کرتے تھے، پھر اِن سب لوگوں نے اکٹھا ہو کر مشورہ کیا اور ہم نے کہا: ہم کب تک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو چھوڑے رکھیں گے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مکہ کے پہاڑوں میں جگہ نہ دی جائے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں ڈرتے رہیں، پس ہم میں سے ستر افراد روانہ ہوئے، یہاں تک کہ حج کے موسم کے موقع پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچے، پہلے ہی ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عقبہ گھاٹی میں ملاقات کرنے کا طے کر لیا تھا، پس ہم ایک دو دو افراد کر کے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچتے گئے، یہاں تک کہ ہم سارے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ جمع ہو گئے، ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کریں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میری بات کرو، اس بات پر کہ سنو گے اور اطاعت کرو گے، مستعدی میں اور سستیمیں (یعنی ہر حال میں)، بدحالی اور خوشحالی میں خرچ کرو گے، نیکی کا حکم کرو گے اور برائی سے منع کرو گے، اللہ تعالیٰ کے حق میں بات کرو گے اور اس کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرو گے اور اس چیز پر بیعت کرو کہ تم میری مدد کرو گے اور جب میں تمہارے پاس آ جاؤں تو مجھے بھی ان (مکروہات سے) بچاؤ گے، جن سے تم اپنے آپ کو، اپنی بیویوں کو اور اپنے بیٹوں کو بچاتے ہو، ان امور کے عوض تم کو جنت ملے گی۔ پس ہم کھڑے ہوئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی اور سیدنا اسعد بن زرارہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جوکہ سب سے کم سن تھے، نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ پکڑا اور کہا: اے یثرب والو! ذرا ٹھیرو، ہم اسی لیے دور دراز کا سفر کرکے آئے ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، لیکنیاد رکھو کہ آج آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہاں سے لے جانا سارے عربوں کی دشمنی مول لینے کے، اپنے پسندیدہ افراد کو قتل کروانے اور تلواروں سے کٹنے کے مترادف ہے، اب یا تو تم ان آزمائشوں پر صبر کرو اور تمہارا اجر اللہ تعالیٰ پر ہو گا اور اگر تمہیں بزدلی کا ڈر ہو تو ابھی وضاحت کر دو، یہ تمہارا اللہ تعالیٰ کے ہاں عذر ہو گا۔ باقی انصاریوں نے سیدنا اسعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے اسعد! ہٹ جاہمارے سامنے سے،اللہ کی قسم ہے، ہم کبھی بھی اس بیعت کو نہیں چھوڑیں گے اور نہ اس کو واپس لیں گے، پھر ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف کھڑے ہوئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے بیعت لی اور ہم پر شرطیں لگائیں اور اس عمل کے عوض اللہ تعالیٰ ہم کو جنت دے گا، اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہو جائے۔

Haidth Number: 10604
۔ سیدنا ابو غادیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی، ابو سعید نے کہا: دائیں ہاتھ سے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عقبہ والے دن ہم سے خطاب کیا اور فرمایا: اے لوگو! بیشک اللہ تعالیٰ سے ملاقات والے دن تک تمہارے خون اور اموال تم پر اس طرح حرام ہیں، جس طرح تمہارے اس شہر میں اور تمہارے اس مہینے میں تمہارے اس دن کی حرمت ہے، کیا میں نے اپنے ربّ کا پیغام پہنچا دیا ہے؟ سب سے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے اللہ گواہ رہنا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنا شروع کر دو۔

Haidth Number: 10605

۔ (۱۰۶۰۶)۔ حَدَّثَنَا یَعْقُوْبُ قَالَ: ثَنَا أبِیْ عَنِ ابْنِ اِسْحَاقَ قَالَ: فَحَدَّثَنِیْ مَعْبَدُ بْنُ کَعْبِ بْنِ مَالِکِ بْنِ أَبِیْ کَعْبِ بْنِ الْقَیْنِ أَخُوْ بَنِیْ سَلِمَۃَ اَنَّ أَخَاہُ عُبَیْدَاللّٰہِ بْنَ کَعْبٍ وَکَانَ مِنْ أَعْلَمِ الْأَنْصَارِ حَدَّثَہُ أَنَّ أَبَاہُ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ وَکَانَ کَعْبٌ مِمَّنْ شَھِدَ الْعَقَبَۃَ وَبَایَعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِھَا ، قَالَ: خَرَجْنَا فِیْ حُجَّاجِ قَوْمِنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَقَدْ صَلَّیْنَا وَفَقِھْنَا وَمَعَنَا الْبَرَائُ بْنُ مَعْرُوْرٍ کَبِیْرُنَا وَسَیِّدُنَا، فَلَمَّا تَوَاجَھْنَا لِسَفَرِنَا وَخَرَجْنَا مِنَ الْمَدَیِنْۃِ قَالَ الْبَرَائُ لَنَا: یَاھٰؤُلَائِ اِنِّیْ قَدْ رَأَیْتُ وَاللّٰہِ! رَأْیًا وَاِنِّیْ وَاللّٰہِ! مَا أَدْرِیْ تُوَافِقُوْنِیْ عَلَیْہِ اَمْ لَا؟ قَالَ: قُلْنَالَہُ: وَمَاذَاکَ؟ قَالَ: قَدْ رَأَیْتُ اَنْ لَا أَدَعَ ھٰذِہِ الْبَنِیَّۃَ مِنِّیْ بِظَھْرٍ، یَعْنِی الْکَعْبَۃَ وَاَنْ أُصَلِّیَ اِلَیْھَا، قَالَ: فَقُلْنَا: وَاللّٰہِ! مَا بَلَغَنَا أَنَّ نَبِیَّنَایُصَلِّیْ اِلَّا اِلَی الشَّامِ وَمَا نُرِیْدُ أَنْ نُخَالِفَہَ، فَقَالَ: اِنِّیْ أُصَلِّیْ اِلَیْھَا، قَالَ: فَقُلْنَا لَہُ: لٰکِنَّا لَانَفْعَلُ، فَکُنَّا اِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ صَلَّیْنَا اِلَی الشَّامِ وَصَلّٰی اِلَی الْکَعْبَۃِ حَتّٰی قَدِمْنَا مَکَّۃَ قَالَ أَخِیْ: وَقَدْ کُنَّا عِبْنَا عَلَیْہِ مَا صَنَعَ وَأبِیْ اِلَّا الْاِقَامَۃَ عَلَیْہِ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَکَّۃَ قَالَ: یَا ابْنَ أَخِیْ! اِنْطَلِقْ اِلٰی رَسُوْل اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاسْأَلْہُ عَمَّا صَنَعْتُ فِیْ سَفَرِیْ ھٰذَا فَاِنَّہُ وَاللّٰہِ! قَدْ وَقَعَ فِیْ نَفْسِیْ مِنْہُ شَیْئٌ لَمَّا رَأَیْتُ مِنْ خِلَافِکُمْ اِیَّایَ فِیْہِ، قَالَ: فَخَرَجْنَا نَسْأَلُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکُنَّا لَا نَعْرِفُہُ لَمْ نَرَہُ قَبْلَ ذٰلِکَ، فَلَقِیَنَا رَجُلٌ مِنْ أھَلِ مَکَّۃَ فَسَأَلْنَاہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ: ھَلْ تَعْرِفَانِہِ؟ قَالَ: قُلْنَا: لَا، قَالَ: فَھَلْ تَعْرِفَانِ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَمَّہُ؟ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: وَکُنَّا نَعْرِفُ الْعَبَّاسَ، کَانَ لَا یَزَالُیَقْدِمُ عَلَیْنَا تَاجِرًا، قَالَ: فَاِذَا دَخَلْتُمَا الْمَسْجِدَ فَھُوَ الرَجُلُ الْجَالِسُ مَعَ الْعَبَّاسِ، قَالَ: فَدَخَلْنَا الْمَسْجِدَ فَاِذَا الْعَبَّاسُ جَالِسٌ وَرَسُوْل اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَہُ جَالِسٌ فَسَلَّمْنَا ثُمَّّ جَلَسْنَا اِلَیْہِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِلْعَبَّاسِ: ((ھَلْ تَعْرِفُ ھٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِیَا أَبَا الْفَضْلِ!)) قَالَ: نَعَمْ، ھٰذَا الْبَرَائُ بْنُ مَعْرُوْرٍ سَیِّدُ قَوْمِہِ وَھٰذَا کَعْبُ بْنُ مَالِکٍ، قَالَ: واللّٰہِ! مَا اَنْسٰی قَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((الشَّاعِرُ؟)) قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَقَالَ الْبَرَائُ بْنُ مَعْرُوْرٍ: یَانَبِیَّاللّٰہِ! اِنِّیْ خَرَجْتُ مِنْ سَفَرِیْ ھٰذَا وَھَدَانِیَ اللّٰہُ لِلْاِسْلَامِ فَرَأَیْتُ أَنْ لَا أَجْعَلَ الْبَنِیَّۃَ مِنِّیْ بِظَھْرٍ فَصَلَّیْتُ اِلَیْھَا وَقَدْ خَالَفَنِیْ أَصْحَابِیْ فِیْ ذٰلِکَ حَتّٰی وَقَعَ فِیْ نَفْسِیْ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئٌ فَمَاذَا تَرٰییَارَسُوْلَ اللہ؟ قَالَ: ((لَقَدْ کَنْتَ عَلٰی قِبْلَۃٍ لَوْ صَبَرْتَ عَلَیْھَا)) فَقَالَ: فَرَجَعَ الْبَرَائُ اِلٰی قِبْلَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَصَلّٰی مَعَنَا اِلَی الشَّامِ، قَالَ: وَأَھْلُہُ یَزْعُمُوْنَ أَنّہُ صَلّٰی اِلَی الْکَعْبَۃِحَتّٰی مَاتَ وَلَیْسَ ذٰلِکَ کَمَا قَالُوْا، نَحْنُ أَعْلَمُ بِہٖمِنْھُمْ،قَالَ: وَخَرَجْنَااِلَی الْحَجِّ فَوَاعَدْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْعَقَبَۃَ مِنْ أَوْسَطِ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ فَلَمَّا فَرَغْنَا مِنْ الْحَجِّ وَکَانَتِ اللَّیْلَۃُ الَّتِیْ وَعَدْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَعَنَا عَبْدُاللّٰہِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ أَبُوْ جَابِرٍ سَیِّدٌ مِنْ سَادَاتِنَا وَکُنَّا نَکْتُمُ مَنْ مَعَنَا مِنْ قَوْمِنَا مِنْ الْمُشْرِکِیْنَ أَمْرَنَا فَکَلَّمْنَاہُ وَقُلْنَا لَہُ: یَا اَبَاجَابِرٍ! اِنَّکَ سَیِّدٌ مِنْ سَادَاتِنَا وَشَرِیْفٌ مِنْ أَشْرَافِنَا، وَاِنَّا نَرْغَبُ بِکَ عَمَّا أَنْتَ فِیْہِ اَنْ تَکُوْنَ حَطَبًا لِلنَّارِ غَدًا، ثُمَّّ دَعَوْتُہُ اِلَی الْاِسْلَامِ وَأَخْبَرْتُہُ بِمِیْعَادِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَسْلَمَ وَشَھِدَ مَعَنَا الْعَقَبَۃَ وَکَانَ نَقِیْبًا، قَالَ: فَنِمْنَا تِلْکَ اللَّیْلَۃَ مَعَ قَوْمِنَا فِیْ رِحَالِنَا حَتّٰی اِذَا مَضٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ خَرَجْنَا مِنْ رِحَالِنَا لِمِیْعَادِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَتَسَلَّلُ مُسْتَخْفِیْنَ تَسَلُّلَ الْقَطَا حَتَّی اجْتَمَعْنَا فِی الشِّعْبِ عِنْدَ الْعَقَبَۃِ وَنَحْنُ سَبْعُوْنَ رَجُلًا وَمَعَنَا امْرَأَتَانِ مِنْ نِسَائِھِمْ، نَسِیْبَۃُ بِنْتُ کَعْبٍ اُمُّ عُمَارَۃَ اِحْدٰی نِسَائِ بَنِیْ مَازِنِ بْنِ النَّجَّارِ، وَ اَسْمَائُ بِنْتُ عَمْرِو بْنِ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ اِحْدٰی نِسَائِ بَنِیْ سَلِمَۃَ وَھِیَ اُمُّ مَنِیْعٍ، قَالَ: فَاجْتَمَعْنَا بِالشعب نَنْتَظِرُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی جَائَ نَا وَمَعَہُ یَوْمَئِذٍ عَمُّہُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ وَھُوَ یَوْمَئِذٍ عَلَی دِیْنِ قَوْمِہِ اِلَّا أَنَّہُ اَحَبَّ اَنْ یَحْضُرَ اَمْرَ ابْنِ أَخِیْہِ وَیَتَوَثَّقَ لَہُ، فَلَمَّا جَلَسْنَا کَانَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَوَّلَ مُتَکَلِّمٍ، فَقَالَ: یَامَعْشَرَ الْخَزْرَجِ! قَالَ: وَکَانَتِ الْعَرَبُ مِمَّا یُسَمُّوْنَ ھٰذَا الْحَیَّ مِنَ الْاَنْصَارِ الْخَزْرَجَ أَوْسَھَا وَخَزْرَجَھَا، اِنَّ مُحَمَّدًا مِنَّا حَیْثُ قَدْ عَلِمْتُمْ وَقَدْ مَنَعْنَاہُ مِنْ قَوْمِنَا مِمَّنْ ھُوَ عَلَی مِثْلِ رَأْیِنَا فِیْہِ وَھُوَ فِیْ عِزٍّ مِنْ قَوْمِہِ وَمَنَعَۃٍ فِیْ بَلَدِہِ، قَالَ: فَقُلْنَا: قَدْ سَمِعْنَا مَا قُلْتَ فَتَکَلَّمْیَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَخُذْ لِنَفْسِکَ وَلِرَبِّکَ مَا أَحْبَبْتَ، قَالَ: فَتَکَلَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَلَا وَدَعَا اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَرَغَّبَ فِی الْاِسْلَامِ، قَالَ: ((أُبَایِعُکُمْ عَلٰی أَنْ تَمْنَعُوْنِیْ مِمَّا تَمْنَعُوْنَ مِنْہُ نِسَائَکُمْ وَأَبْنَائَکُمْ)) قَالَ: فَأَخَذَ الْبَرَائُ بْنُ مَعْرُوْرٍ بِیَدِہِ ثُمَّّ قَالَ: نَعَمْ وَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ! لَنَمْنَعُکَ مِمَّا نَمْنَعُ مِنْہُ أُزُرَنَا فَبَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَحْنُ أَھْلُ الْحُرُوْبِ وَأَھْلُ الْحَلْقَۃِ وَرِثْنَاھَا کَابِرًا عَنْ کَابِرٍ، قَالَ: فَاعْتَرَضَ الْقَوْلَ وَالْبَرَائُ یُکَلِّمُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَبُو الْھَیْثَمِ بْنُ التَّیِّھَانِ حَلِیْفُ بَنِیْ عَبْدِ الْأَشْھَلِ فقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! اِنَّ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الرِّجَالِ حِبَالًا وَاِنَّا قَاطِعُوْھَا یَعْنِی الْعُھُوْدَ، فَھَلْ عَسَیْتَ اِنْ نَحْنُ فَعَلْنَا ذٰلِکَ ثُمَّّ أَظْھَرَکَ اللّٰہُ اَنْ تَرْجِعَ اِلٰی قَوْمِکَ وَتَدَعَنَا؟ قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمّّ قَالَ: ((بَلِ الدَّمَ الدَّمَ وَالْھَدَمَ الْھَدَمَ اَنَا مِنْکُمْ وَأَنْتُمْ مِنِّیْ، أُحَارِبُ مَنْ حَارَبْتُمْ وَأُسَالِمُ مَنْ سَالَمْتُمْ۔)) وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَخْرِجُوْا اِلَیَّ مِنْکُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًایَکُوْنُوْنَ عَلٰی قَوْمِھِمْ۔)) فَأَخْرَجُوْا مِنْھُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا، مِنْھُمْ تِسْعَۃٌ مِنَ الْخَزْرَجِ وَثَلَاثَۃٌمِنَ الْأَوْسِ، وَأَمَّا مَعْبَدُ بْنُ کَعْبٍ فَحَدَّثَنِیْ فِیْ حَدِیْثِہِ عَنْ أَخَیْہِ عَنْ أَبِیْہِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: کَانَ أَوَّلَ مَنْ ضَرَبَ عَلٰییَدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْبَرَائُ بْنُ مَعْرُوْرٍ ثُمّّ تَتَابَعَ الْقَوْمُ، فَلَمَّا بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَرَخَ الشَّیْطَانُ مِنْ رَأْسِ الْعَقَبَۃِ بِأَبْعَدِ صَوْتٍ سَمِعْتُہُ قَطُّ، یَا أَھْلَ الْجُبَاجِبِ! وَالْجُبَاجِبُ الْمَنَازِلُ، ھَلْ لَکُمْ فِیْ مُذَمَّمٍ وَالصُّبَاۃُ مَعَہُ قَدْ أَجْمَعُوْا عَلٰی حَرْبِکُمْ، قَالَ عَلِیٌّیَعْنِیْ ابْنَ اِسْحَاقَ مَا یَقُوْلُ عَدُوُّ اللّٰہِ مُحَمَّدٌ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ھٰذَا أَزَبُّ الْعَقَبَۃِ ھٰذَا ابْنُ اَزْیَبَ اسْمَعْ اَیْ عَدُوَّ اللّٰہِ أَمَا وَاللّٰہِ! لَاَ فْرُغَنَّ لَکَ۔)) ثُمّّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ارْجَعُوْا اِلٰی رِحَالِکُمْ)) قَالَ: فَقَالَ لَہُ الْعَبَّاسُ بْنُ عُبَادَۃَ بْنِ نَضْلَۃَ: وَالَّذِیْ بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَئِنْ شِئْتَ لَنَمِیْلَنَّ عَلٰی أَھْلِ مِنًی غَدًا بِأَسْیَافِنَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُوْل اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَمْ أُوْمَرْ بِذٰلِکَ)) قَالَ: فَرَجَعْنَا فَنِمْنَا حَتّٰی اَصْبَحْنَا فَلَمَّا أَصْبَحْنَا غَدَتْ عَلَیْنَا جُلَّۃُ قُرَیْشٍ حَتّٰی جَائُ وْنَا فِیْ مَنَازِلِنَا فَقَالُوْا: یَا مَعْشَرَ الْخَزْرَجِ! اِنَّہُ قَدْ بَلَغَنَا اَنَّکُمْ قَدْ جِئْتُمْ اِلٰی صَاحِبِنَا ھٰذَا تَسْتَخْرِجُوْنَہُ مِنْ بَیْنِ أَظْھُرِنَا وَتُبَایِعُوْنَہُ عَلٰی حَرْبِنَا، وَاللّٰہِ! اِنَّہُ مَا مِن الْعَرَبِ أَحَدٌ أَبْغَضَ اِلَیْنَا اَنْ تَنْشَبَ الْحَرَبُ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُ مِنْکُمْ، قَالَ فَانْبَعَثَ مِنْ ھُنَالِکَ مِنْ مُشْرِکِیْ قَوْمِنَا یَحْلِفُوْنَ لَھُمْ بِاللّٰہِ مَا کَانَ مِنْ ھٰذَا شَیْئٌ وَمَا عَلِمْنَاہُ، وَقَدْ صَدَقُوْا لَمْ یَعْلَمُوْا مَا کَانَ مِنَّا، قَالَ: فَبَعْضُنَا یَنْظُرُ اِلٰی بَعْضٍ، قَالَ: وَقَامَ الْقَوْمُ فِیْھِمُ الْحَارِثُ بْنُ ھِشَامِ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ الْمَخْزُوْمِیُّ وَعَلَیْہِ نَعْلَانِ جَدِیْدَانِ قَالَ: فَقُلْتُ: کَلِمَۃً کَأَنِّیْ أُرِیْدُ أَنْ أُشْرِکَ الْقَوْمَ بِھَا فِیْمَا قَالُوْا، مَاتَسْتَطِیْعُیَا أَبَا جَابِرٍ وَأَنْتَ سَیِّدٌ مِنْ سَادَاتِنَا أَنْ تَتَّخِذَ نَعْلَیْنِ مِثْلَ نَعْلَیْ ھٰذَا، ھٰذَا الْفَتٰی مِنْ قُرَیْشٍ؟ فَسَمِعَھَا الْحَارِثُ فَخَلَعَھُمَا ثُمّّ رَمٰی بِھِمَا اِلَیَّ فَقَالَ: وَاللّٰہِ! لَتَنْتَعِلَنَّھُمَا، قَالَ: یَقُوْلُ أَبُوْ جَابِرٍ: أَحْفَظْتَ وَاللّٰہِ! الْفَتٰی فَارْدُدْ عَلَیْہِ نَعْلَیْہِ، قَالَ: فقُلْتُ: وَاللّٰہِ! لَا أَرُدَّھُمَا، قَالَ وَاللّٰہِ! صَالِحٌ لَئِنْ صَدَقَ الْفَأْلُ لَاَسْلُبَنَّہُ، فَھٰذَا حَدِیْثُ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ مِنَ الْعَقَبَۃِ وَمَا حَضَرَ مِنْھَا۔ (مسند احمد: ۱۵۸۹۱)

۔ عبید اللہ بن کعب، جو کہ انصاریوں میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے، بیان کرتے ہیں کہ ان کے باپ سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو عقبہ میں حاضر ہوئے تھے اور وہاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی تھی، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم اپنی قوم کے مشرک لوگوںکے ساتھ حج کرنے کے لیے روانہ ہوئے، ہم نماز بھی پڑھتے تھے اور ہمیں دین کی سمجھ بھی تھی، ہمارے ساتھ ہمارے بڑے اور ہمارے سردار سیدنا براء بن معرور ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، جب ہم نے رخت ِ سفر باندھا اور مدینہ منورہ سے نکل پڑے تو سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: لوگو! اللہ کی قسم! میں نے ایک خواب دیکھا ہے، لیکنیہ میں نہیں جانتا کہ تم میری موافقت کرو گے یا نہیں؟ ہم نے کہا: وہ ہے کون سا؟ انھوں نے کہا: میں نے دیکھا ہے کہ میں کعبہ کی عمارت کی طرف پیٹھ نہیں کروں گا اور میں اسی طرف رخ کر کے نماز پڑھوں گا، ہم نے کہا: اللہ کی قسم! ہمیں تو یہی بات پہنچی ہے کہ ہمارے نبی شام کی طرف نماز پڑھتے ہیں، لہٰذا ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مخالفت تو نہیں کر سکتے، لیکن انھوں نے کہا: میں تو کعبہ کی طرف منہ کر کے ہی نماز پڑھوں گا، ہم نے کہا: لیکن ہم اس طرح نہیں کریں گے، اب صورتحال یہ تھی کہ جب نماز کا وقت ہو جاتا تو ہم شام کی طرف رخ کر کے اور سیدنا براء کعبہ کیطرف منہ کر کے نماز ادا کرتے، یہاں تک کہ ہم مکہ مکرمہ پہنچ گئے، میرے بھائی نے کہا: ہم نے اس کے کیے کو معیوب تو سمجھا ہے، میرے باپ کی قسم! البتہ اس سے مخالفت نہیں کی، جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تو انھوں نے کہا: اے بھتیجے! چلو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس چیز کے بارے میں دریافت کر کے لاؤ، جو میں نے اس سفر میں کی ہے، جب سے میں نے دیکھا کہ تم لوگ میری مخالفت کر رہے ہو تو میرے نفس میں اس کے بارے میں شبہ پڑ گیا ہے، وہ کہتے ہیں: پس ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کرنے کے لیے نکلے، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پہنچانتے نہیں تھے، کیونکہ ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا نہیں تھا، جب مکہ مکرمہ کے ایک باشندے سے ہماری ملاقات ہوئی تو ہم نے اس سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بارے میں دریافت کیا، اس نے کہا: کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟ ہم نے کہا: جی نہیں، اس نے کہا: کیا تم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چچا عباس بن عبد المطلب کو پہچانتے ہو؟ ہم نے کہا: جی ہاں، چونکہ سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بطورِ تاجر ہمارے پاس آتے رہتے تھے، اس لیے ہم ان کو پہچانتے تھے، بہرحال اس نے کہا: جب تم مسجد میں داخل ہو تو جو آدمی عباس کے ساتھ بیٹھا ہو گا، وہی (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) ہوں گے، پس ہم مسجد میں داخل ہوئے، وہاں سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ ہی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف فرما تھے، ہم نے ان کو سلام کہا اور پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ بیٹھ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: اے ابو الفضل! کیا آپ ان دو افراد کو جانتے ہیں؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، یہ اپنی قوم کا سردار براء بن معرور ہے اور یہ کعب بن مالک، اللہ کی قسم! میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کییہ بات نہیں بھولا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: جو شاعر ہے، وہ؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، اب سیدنا براء بن معرور ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں اس سفر میں نکلا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کے لیے ہدایت دی ہوئی ہے، میں نے ایک خواب دیکھا کہ میں کعبہ کی عمارت کو پشت پر نہیں رکھوں گا، بلکہ میں اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھوں گا، لیکن میرے ساتھیوں نے میرے ساتھ اتفاق نہیں کیا،یہاں تک کہ میرے نفس میں تردّد پیدا ہو گیا۔ اے اللہ کے رسول! اب آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تو صبر کرتا تو تو قبلے پر ہی تھا۔ پس سیدنا براء نے فوراً رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا قبلہ اختیار کر لیا اور ہمارے ساتھ شام کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی۔ سیدنا براء کے گھر والے تو یہ گمان کرتے تھے کہ وہ مرتے دم تک کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے، یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئے، لیکنیہ دعوی درست نہیں ہے، ہم اس کے اہل کی بہ نسبت اس کو زیادہ جانتے ہیں، پھر ہم حج کے لیے نکلے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایام تشریق کے وسط میں عقبہ کے مقام پر ملنے کا وعدہ کیا، پس جب ہم حج سے فارغ ہوئے اور وہ رات آ گئی، جس کا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ وعدہ کیا تھا، اُدھر ہمارے ساتھ ابو جابر عبد اللہ بن عمرو بن حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، ہم اپنی قوم کے مشرک افراد سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اس بات کو چھپانا چاہتے تھے، ہم نے کہا: اے ابو جابر! تم سرداروں اور اشراف میں سے ایک سردار اور شریف ہو، لیکن جس دین پر تم ہو، ہم اس سے بے رغبت ہیں اور ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کل آگ کا ایندھن بن جاؤ، پھر میںنے ان کو اسلام کی دعوت دی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کیے گئے وعدے کی خبر دی، پس وہ بھی مسلمان ہو گئے اور ہمارے ساتھ عقبہ میں شریک ہوئے، بلکہ ان کا نقیب بھی بنایا گیا، پس ہم اس رات کو اپنی قوم کے ساتھ اپنی رہائش گاہوں میں سو گئے، جب رات کا ایک تہائی حصہ گزر گیا تو ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کیے گئے وعدے کے مطابق اپنی رہائش گاہوں سے نکل پڑے اور چھپتے ہوئے قطا پرندے کی طرح سرکنے لگے، یہاں تک کہ ہم عقبہ کے پاس گھاٹی میں جمع ہو گئے، ہم کل ستر مرد تھے اور ہمارے ساتھ دو عورتیں تھیں، ایک خاتون ام عمارہ نسیبہ بنت کعب تھیں، ان کا تعلق بنو مازن بن نجار سے تھا اور دوسری خاتون ام منیع اسماء بنت عمرو بن عدی تھیں، ان کا تعلق بنو سلمہ سے تھا، ہم لوگ گھاٹی میں جمع ہو کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتظار کرنے لگ گئے، یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس تشریف لے آئے، آپ کے چچا سیدنا عباس بن عبد المطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، وہ اس وقت اپنی قوم کے دین پر تھے، البتہ وہ چاہتے تھے کہ اپنے بھتیجے (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کا معاملہ دیکھیں اور اعتماد حاصل کر لیں، جب وہاں بیٹھ گئے تو سب سے پہلے سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بات کی اور کہا: اے خزرج کی جماعت! بیشک تم جانتے ہو کہ محمد( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) ہم میں سے ہیں، ہم نے اپنی قوم سے ان کی حفاظت کی ہوئی ہے، یہاں محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) اپنے قوم میں عزت کے ساتھ اور اپنے شہر میں قوت کے ساتھ ہیں۔ عرب لوگ انصاریوں کے اس قبیلے کو خزرج کہتے تھے، ہم نے کہا: ہم نے تمہاری بات سن لی ہے، اے اللہ کے رسول! اب آپ بات کریں اور اپنی پسند کے مطابق اپنی ذات کے لیے اور اپنے ربّ کے لیے جو معاہدے لینے ہیں، وہ لے لیں، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے گفتگو کی، قرآن مجید کا کچھ حصہ تلاوت کیا، لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی، ان کو اسلام کی رغبت دلائی اور فرمایا: میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم ہر اس چیز سے مجھے تحفظ فراہم کرو گے، جس سے اپنی عورتوں اور بیٹوں کی حفاظت کرتے ہو۔ سیدنا براء بن معرور ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ پکڑا اور کہا: جی ہاں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا! ہم آپ کو اس چیز سے بچائیں گے، جس سے اپنی خواتین کو بچاتے ہیں، پس ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی، ہم لڑائیوں والے اور اسلحہ والے تھے، یہ چیز ہم کو نسل در نسل ورثے میںملی تھی، ابھی تک سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ہم کلام تھے کہ بیچ میں بنو عبد الاشہل کے حلیف سیدنا ابو الہیثم بن تیہان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بول پڑے اور انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بیشک ہمارے اور یہودیوں کے مابین معاہدے ہیں اور آپ کی وجہ سے ہم ان کو توڑ دینے والے ہیں، لیکن کیایہ ممکن ہے کہ جب ہم یہ سب کچھ کر دیں اور اللہ تعالیٰ آپ کو غلبہ عطا کر دے تو آپ اپنی قوم کی طرف واپس آ جائیں اور ہمیں چھوڑ دیں؟یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرائے اور فرمایا: نہیں، بلکہ اب تو جہاں تمہارا خون طلب کیا جائے گا، وہاں میرا خون بھی طلب کیا جائے گا اور جہاں تمہارے خون کو رائیگاں قرار دیا جائے گا، وہاں میرے خون کو بھی رائیگاں قرار دیا جائے گا، اب میں تم میں سے ہوں اور تم مجھ سے ہو، جن سے تم لڑو گے، میں بھی ان سے لڑوں گا اور جن سے تم صلح کرو گے، میں بھی ان سے صلح کروں گا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید فرمایا: اپنے بارہ نقیب میری طرف نکالو، جو اپنی اپنی قوم کے ذمہ دار ہوں گے۔ پس انھوں نے بارہ نقیب منتخب کیے، نو خزرج سے تھے اور تین اوس سے، معبد بن کعب کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: پہلا شخص جس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ پر ہاتھ مارا وہ سیدنا براء بن معرور ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، پھر باقی لوگ پے در پے بیعت کرنے لگے، جب ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کر لی تو گھاٹی کی چوٹی سے شیطان بہت بلند آواز میں بولا، میں نے ایسی اونچی آواز کبھی نہیں سنی تھی، اور اس نے کہا: اے ان رہائش گاہوں والو! کیا تمہیں مذمَّم کی فکر ہے، بے دین لوگ تمہارے ساتھ لڑنے کے لیے اس کے ساتھ جمع ہو رہے ہیں۔ اس اللہ کے دشمن شیطان نے محمد نہیں کہا، بلکہ مذمّم کہا، یہ آواز سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اس گھاٹی کا اَزَبّ شیطان ہے، یہ ابن اَزْیَب ہے، سن اے اللہ کے دشمن! خبردار! اللہ کی قسم ہے، میں تیرے لیے ضرور ضرور فارغ ہونے والا ہوں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب تم اپنی رہائش گاہوں کی طرف لوٹ جاؤ۔ سیدنا عباس بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ، اگر آپ چاہتے ہیں تو ہم کل اپنی تلواریں لے کر اہلِ مِنٰی پر حملہ کر دیتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابھی تک مجھے اس چیز کا حکم نہیں دیا گیا۔ پس ہم لوٹ آئے اور اپنے اپنے مقام پر سو گئے، جب صبح ہوئی تو سردارانِ قریش ہمارے پاس ہماری رہائش گاہوں میں پہنچ گئے اور انھوں نے کہا: اے خزرج کی جماعت! ہمیںیہ بات پہنچی ہے کہ تم ہمارے اس صاحب کے پاس گئے ہو اور اب اس کو ہمارے درمیان سے نکالنا چاہتے ہو اور ہمارے ساتھ لڑائی کرنے پر اس کی بیعت کر رہے ہو، اللہ کی قسم! ہر عرب کو یہ بات انتہائی ناپسند ہے کہ ہمارے اور تمہارے ما بینلڑائی بھڑک اٹھے، اب بتاؤ کہ کیا معاملہ ایسے ہی ہے؟ ہماری قوم کے مشرک لوگ کھڑے ہوئے اور انھوں نے ان کے لیے اللہ کی قسمیں اٹھائیں کہ اس قسم کی کوئی چیز واقع نہیں ہوئی، بلکہ ہمیں تو ایسے معاملے کا علم ہی نہیں ہے، وہ لوگ سچ بول رہے تھے، کیونکہ ان کو پتہ ہی نہیں کہ ہم (ستر افراد) رات کو کیا کر کے آئے ہیں، البتہ ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر وہ لوگ اٹھ پڑے، ان میں حارث بن ہشام بن مغیرہ مخزومی بھی تھے، (یہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے) انھوں نے دو نئے جوتے پہنے ہوئے تھے، سیدنا ابو جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے بھی ایک بات کہی ہے، گویا کہ میرا ارادہ یہ تھا کہ میں بھی لوگوں کے منفی جواب میں شریک ہو جاؤں، ہم نے کہا: اے ابو جابر! کیا آپ میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ آپ کے بھیاس قریشی نوجوان کے جوتوں کی طرح جوتے ہوں، جبکہ آپ ہمارے سردار ہیں؟ جب حارث نے یہ بات سنی تو اس نے وہ جوتے اتار دیئے اور ان کو میری طرف پھینک دیا اور کہا: اللہ کی قسم! تو ضرور ضرور ان کو پہنے گا، اس نے کہا: تو نے نوجوان کو ناراض کر دیا ہے، اب یہ جوتے اس کو واپس کر دے، میں نے کہا: اللہ کی قسم! میںیہ واپس نہیں کروں گا، اس نے کہا: اللہ کی قسم! یہٹھیک ہیں، اگر یہ فال سچی ہے تو میں اس سے بطورِ سلب لوں گا۔ یہ سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی عقبہ کے بارے میں اور جو کچھ انھوں نے وہاں دیکھا تھا، اس کے بارے میں حدیث ہے۔

Haidth Number: 10606

۔ (۱۰۶۰۷)۔ عَنْ عَامِرٍ قَالَ: انْطَلَقَ النَّبِیُّّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَعَہُ الْعَبَّاسُ عَمُّہُ اِلَی السَّبْعِیْنَ مِنَ الْأَنْصَارِ عِنْدَ الْعَقَبَۃِ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ، فَقَالَ: ((لِیَتَّکَلِّمْ مُتَکَلِّمُکُمْ وَلَا یُطِیْلُ الْخُطْبَۃَ فَاِنَّ عَلَیْکُمْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ عَیْنًا، وَاِنْ یَعْلَمُوْا بِکُمْ یَفْضَحُوْکُمْ۔)) فَقَالَ قَائِلُھُمْ وَھُوَ أَبُوْ اُمَامَۃَ: سَلْ یَا مُحَمَّدُ! لِرَبِّکَ مَاشِئْتَ، ثُمَّّ سَلْ لِنَفْسِکَ وَلِأَصْحَابِکَ مَا شِئْتَ، ثُمَّّ أَخْبِرْنَا مَالَنَا مِنَ الثَّوَابِ عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَلَیْکُمْ اِذَا فَعَلْنَا ذٰلِکَ، قَالَ: فَقَالَ: ((أَسْأَلُکُمْ لِرَبِّیْ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ تَعْبُدُوْہُ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖشَیْئًا، وَأَسْأَلُکُمْ لِنَفْسِیْ وَلِأَصْحَابِیْ أَنْ تُؤْوُوْنَا وَتَنْصُرُوْنَا وَتَمْنَعُوْنَا مِمَّا مَنَعْتُمْ مِنْہُ أَنْفُسَکُمْ)) قَالُوْا: فَمَا لَنَا اِذَا فَعَلْنَا ذٰلِکَ؟ قَالَ: ((لَکُمُ الْجَنَّۃُ)) قَالُوْا: فَلَکَ ذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۱۷۲۰۶)

۔ سیدنا عامر سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے چچا سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ عقبہ کے پاس درخت کے نیچے ستر انصاریوں کے پاس تشریف لے گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں جس بندے نے بات کرنی ہے، وہ بات کرے اور خطاب کو لمبا نہ کرے، کیونکہ مشرکوں کا جاسوس تمہاری تاڑ میں ہے اور اگر ان کو تمہاری اس کاروائی کا پتہ چل گیا تو وہ تمہیں رسوا کر دیں گے۔ پس ان کے بات کرنے والے سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے محمد! اپنے ربّ کے لیے جو مطالبہ کرنا ہے کرو، اور پھر اپنے نفس اور اپنے صحابہ کے لیے جو چاہتے ہو، ہم سے سوال کرو، پھر ہمیں بتاؤ کہ اگر ہمیہ ذمہ داریاں نبھا دیں تو اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمارا اجر و ثواب کیا ہوگا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تم سے اپنے ربّ کے لیےیہ مطالبہ کرتا ہوں کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اپنے اور اپنے صحابہ کے لیے تم سے یہ سوال کرتا ہوںکہ تم لوگ ہمیں جگہ فراہم کرو، ہماری مدد کرو اور ان امور سے ہماری بھی حفاظت کرو، جن سے تم اپنی جانوں کی حفاظت کرتے ہو۔ انھوں نے کہا: اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہمیں کیا ملے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم کو جنت ملے گی۔ انھوں نے کہا: تو پھر جو آپ نے مطالبہ کیا ہے، وہ پورا کیا جائے گا۔

Haidth Number: 10607
۔ (دوسری سند) سیدنا ابو مسعود انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے اور وہ ابو مسعود عمر میں سب سے چھوٹے تھے۔

Haidth Number: 10608

۔ (۱۰۷۷۸)۔ حَدَّثَنَا بَہْزٌ وَحَدَّثَنَا ہَاشِمٌ قَالَا: حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الْمُغِیرَۃِ عَنِ ثَابِتٍ عَنِ أَنَسٍ قَالَ: لَمَّا انْقَضَتْ عِدَّۃُ زَیْنَبَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِزَیْدٍ: ((اذْہَبْ فَاذْکُرْہَا عَلَیَّ۔)) قَالَ: فَانْطَلَقَ حَتّٰی أَتَاہَا، قَالَ: وَہِیَ تُخَمِّرُ عَجِینَہَا، فَلَمَّا رَأَیْتُہَا عَظُمَتْ فِی صَدْرِی حَتّٰی مَا أَسْتَطِیعُ أَنْ أَنْظُرَ إِلَیْہَا أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَکَرَہَا، فَوَلَّیْتُہَا ظَہْرِی وَرَکَضْتُ عَلٰی عَقِبَیَّ، فَقُلْتُ: یَا زَیْنَبُ! أَبْشِرِی أَرْسَلَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَذْکُرُکِ، قَالَتْ: مَا أَنَا بِصَانِعَۃٍ شَیْئًا حَتّٰی أُؤَامِرَ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ، فَقَامَتْ إِلَی مَسْجِدِہَا، وَنَزَلَ یَعْنِی الْقُرْآنَ وَجَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلَ عَلَیْہَا بِغَیْرِ إِذْنٍ، قَالَ: وَلَقَدْ رَأَیْتُنَا أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَطْعَمَنَا الْخُبْزَ وَاللَّحْمَ، قَالَ ہَاشِمٌ: حِینَ عَرَفْتُ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَطَبَہَا، قَالَ ہَاشِمٌ فِی حَدِیثِہِ: لَقَدْ رَأَیْتُنَا حِینَ أُدْخِلَتْ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُطْعِمْنَا الْخُبْزَ وَاللَّحْم،َ فَخَرَجَ النَّاسُ وَبَقِیَ رِجَالٌ یَتَحَدَّثُونَ فِی الْبَیْتِ بَعْدَ الطَّعَامِ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاتَّبَعْتُہُ فَجَعَلَ یَتَتَبَّعُ حُجَرَ نِسَائِہِ فَجَعَلَ یُسَلِّمُ عَلَیْہِنَّ، وَیَقُلْنَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! کَیْفَ وَجَدْتَ أَہْلَکَ؟ قَالَ: فَمَا أَدْرِی أَنَا أَخْبَرْتُہُ أَنَّ الْقَوْمَ قَدْ خَرَجُوا أَوْ أُخْبِرَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ حَتّٰی دَخَلَ الْبَیْتَ، فَذَہَبْتُ أَدْخُلُ مَعَہُ فَأَلْقَی السِّتْرَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ، وَنَزَلَ الْحِجَابُ، قَالَ: وَوُعِظَ الْقَوْمُ بِمَا وُعِظُوا بِہِ، قَالَ ہَاشِمٌ فِی حَدِیثِہِ: {لَا تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلَّا أَنْ یُؤْذَنَ لَکُمْ إِلٰی طَعَامٍ غَیْرَ نَاظِرِینَ إِنَاہُ … … وَلَا مُسْتَأْنِسِینَ لِحَدِیثٍ إِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیِی مِنْکُمْ وَاللّٰہُ لَا یَسْتَحْیِی مِنَ الْحَقِّ}۔ (مسند احمد: ۱۳۰۵۶)

انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب سیّدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی عدت پوری ہوئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تم جا کر ان کو میری طرف سے نکاح کا پیغام دو۔ وہ ان کے ہاں گئے، وہ اس وقت آٹا گوندھ رہی تھیں۔ زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں میں نے ان کو دیکھا تو میرے سینے میں ان کا اس قدر عظیم مقام محسوس ہوا کہ مجھ میں ان کی طرف دیکھنے کی جرأت نہ ہو سکی، کیونکہ ان کو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی زوجہ بنانے کے ارادہ سے یاد فرمایا تھا، سو میں نے اپنی پشت ان کی طرف پھیری اور اپنی ایڑیوں پر پیچھے کو مڑا اور میں نے کہا: زینب! تمہیں خوش خبری ہو کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بھیجا ہے، وہ تمہیں اپنی بیوی بنانے کے لیےیاد کرتے ہیں۔ وہ بولیں میں جب تک اپنے رب سے مشورہ نہ کر لوں، اس وقت تک میں کوئی بات نہیں کروں گی۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر میں نماز کے لیے مقرر کردہ جگہ پر کھڑی ہوئیں۔ اسی دوران قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں بلا اجازت ہی چلے آئے۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں گوشت روٹی کھلائی۔ امام احمد کے شیخ ہاشم یوں بیان کرتے ہیں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ کھانا دیا، تب مجھے علم ہوا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو نکاح کا پیغام دیا ہے۔ ہاشم اپنی حدیث میںیوں بھی بیان کرتے ہیں کہ جب سیّدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بھیجا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں گوشت روٹی کھلائی، لوگ کھانا کھا کر چلے گئے تو کچھ لوگ کھانے کے بعد وہیں گھر میں بیٹھے باتوں میں مصروف ہو گئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر سے باہر جا کر اپنی ازواج کے حجروں میں چکر لگانے لگے، میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر حجرہ میں جا کر اپنی ازواج کو سلام کہتے اور وہ دریافت کرتیں: اے اللہ کے رسول! آپ نے اپنی بیوی کو کیسا پایا، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں کہ میں نے آپ کو بتلایایا کسی نے آکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اطلاع دی کہ لوگ چلے گئے ہیں، تب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے گھر میں آئے، میں بھی اندر جانے لگا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے اور میرے درمیان پردہ لٹکا دیا اور حجاب کا حکم نازل ہوا۔ اور لوگوں کو خوب نصیحت کی گئی۔ امام احمد کے شیخ ہاشم نے اپنی حدیث میں بیان کیا کہ یہاں حجاب کے حکم سے یہ آیات مراد ہیں: {لَا تَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلَّا أَنْ یُؤْذَنَ لَکُمْ إِلٰی طَعَامٍ غَیْرَ نَاظِرِینَ إِنَاہُ … … وَلَا مُسْتَأْنِسِینَ لِحَدِیثٍ إِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیِی مِنْکُمْ وَاللّٰہُ لَا یَسْتَحْیِی مِنَ الْحَقِّ…}… ایمان والو! تم نبی کے گھروں میں بلا اجازت داخل نہ ہوا کرو۔ الا یہ کہ تمہیں کھانے کے لئے بلایا جائے تو ایسے وقت جایا کرو کہ تمہیں اس کے پکنے کی انتظار نہ کرنی پڑے۔لیکن جب تمہیں بلایا جائے تب جاؤ اور کھانا کھا چکنے کے بعد وہاں سے آجاؤ اور وہاں بیٹھ کر باتوں میں مصروف نہ ہو جاؤ۔ بے شک تمہارایہ عمل نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایذا دیتا ہے اور وہ تم سے جھجکتا ہے۔ اس لئے تمہیں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اور اللہ تو حق بات کہنے سے نہیں جھجکتا۔ اور جب تم نبی کی ازواج سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ یہ حکم تمہارے اور ان کے دلوں کو شیطانی وساوس سے پاک کرنے کے لیے ہے۔ اور تمہیںیہ زیبا نہیں کہ تم اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایذاء پہنچاؤ۔ اور نہ تم اس کے بعد اس کی ازواج سے کبھی نکاح کر سکتے ہو۔ اللہ کے نزدیکیہ بہت بڑا ہے۔ (سورۂ احزاب: ۵۳)

Haidth Number: 10778
عبدالعزیز بن صہیب سے مروی ہے کہ میں نے انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جیسا ولیمہ اُمّ المؤمنین سیّدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے نکاح کے بعد کیا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایسا ولیمہ دوسری کسی زوجہ کے موقع پر نہیں کیا۔ ثابت بنانی نے پوچھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کس چیز کا ولیمہ کیاتھا؟ انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کو اس قدر روٹی گوشت کھلایا کہ لوگوں نے سیر ہو کر کھایا، تب بھی وہ باقی چھوڑآئے یعنی کھانا بچ گیا۔

Haidth Number: 10779
۔( دوسری سند) سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جس قدر ولیمہ سیّدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے شادی کرنے کے موقع پر کیا تھا، میں نے نہیں دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کسی دوسری زوجہ کے موقع پر ایسا ولیمہ کیا ہو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک بکری ذبح کر کے ولیمہ کیا تھا۔

Haidth Number: 10780

۔ (۱۰۷۸۱)۔ عن حُمَیْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: أَوْلَمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِزَیْنَبَ فَأَشْبَعَ الْمُسْلِمِینَ خُبْزًا وَلَحْمًا، ثُمَّ خَرَجَ کَمَا کَانَ یَصْنَعُ، إِذَا تَزَوَّجَ فَیَأْتِی حُجَرَ أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ فَیُسَلِّمُ عَلَیْہِنَّ وَیَدْعُو لَہُنَّ وَیُسَلِّمْنَ عَلَیْہِ وَیَدْعُونَ لَہُ، ثُمَّ رَجَعَ وَأَنَا مَعَہُ فَلَمَّا انْتَہٰی إِلَی الْبَابِ إِذَا رَجُلَانِ قَدْ جَرٰی بَیْنَہُمَا الْحَدِیثُ فِی نَاحِیَۃِ الْبَیْتِ، فَلَمَّا أَبْصَرَہُمَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انْصَرَفَ، فَلَمَّا رَأَی الرَّجُلَانِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ رَجَعَ وَثَبَا فَزِعَیْنِ فَخَرَجَا، فَلَا أَدْرِی أَنَا أَخْبَرْتُہُ أَوْ مَنْ أَخْبَرَہُ، فَرَجَعَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۳۱۰۳)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اُمّ المؤمنین سیّدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے تزویج کے موقع پر ولیمہ کیا اورمسلمانوں کو سیر کر کے روٹی گوشت کھلایا، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے معمول کے مطابق باہر نکلے، جیسے آپ قبل ازیں شادی کر کے باہر جایا کرتے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم امہات المؤمنین کے حجروں میں جا کر انہیں سلام کہتے، ان کے حق میں دعا کرتے اور جواباً وہ بھی آپ کو سلام کہتیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حق میں دعا کرتیں، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس تشریف لائے، میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دروازے کے قریب پہنچے تو گھر کے اندر دو آدمی ابھی تک محوِ گفتگو تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو دیکھا تو واپس لوٹ آئے، ان دونوں نے جب دیکھا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس تشریف لے گئے ہیں۔ تو وہ جلدی سے گھبرا کر اُٹھے اور چلے گئے، مجھے یاد نہیں کہ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلایایا کسی دوسرے نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اطلاع دی (کہ وہ آدمی بھی چلے گئے ہیں)، تب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس آئے۔

Haidth Number: 10781
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ اُمّ المؤمنین سیّدہ زینب بنت جحش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا دیگر ازواج پر بطور فخر کہا کرتی تھیں:میرا نکاح آسمان سے اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔

Haidth Number: 10782

۔ (۱۱۶۹۶)۔ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ہَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُبَارَکُ یَعْنِی ابْنَ فَضَالَۃَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِیُّ، عَنْ رَبِیعَۃَ الْأَسْلَمِیِّ، قَالَ: کُنْتُ أَخْدُمُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((یَا رَبِیعَۃُ أَلَا تَزَوَّجُ؟)) قَالَ: قُلْتُ: وَاللّٰہِ! یَا رَسُولَ اللّٰہِ، مَا أُرِیدُ أَنْ أَتَزَوَّجَ مَا عِنْدِی مَا یُقِیمُ الْمَرْأَۃَ، وَمَا أُحِبُّ أَنْ یَشْغَلَنِی عَنْکَ شَیْئٌ، فَأَعْرَضَ عَنِّی فَخَدَمْتُہُ مَا خَدَمْتُہُ، ثُمَّ قَال لِی الثَّانِیَۃَ: ((یَا رَبِیعَۃُ! أَلَا تَزَوَّجُ؟)) فَقُلْتُ: مَا أُرِیدُ أَنْ أَتَزَوَّجَ، مَا عِنْدِی مَا یُقِیمُ الْمَرْأَۃَ، وَمَا أُحِبُّ أَنْ یَشْغَلَنِیْ عَنْکَ شَیْئٌ فَأَعْرَضَ عَنِّی، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلٰی نَفْسِی، فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ! لَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمَا یُصْلِحُنِی فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ أَعْلَمُ مِنِّی، وَاللّٰہِ! لَئِنْ قَالَ: تَزَوَّجْ، لَأَقُولَنَّ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، مُرْنِی بِمَا شِئْتَ، قَالَ فَقَالَ: ((یَا رَبِیعَۃُ أَلَا تَزَوَّجُ؟)) فَقُلْتُ: بَلٰی مُرْنِی بِمَا شِئْتَ، قَالَ: ((انْطَلِقْ إِلٰی آلِ فُلَانٍ حَیٍّ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَکَانَ فِیہِمْ تَرَاخٍ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْ لَہُمْ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرْسَلَنِیْ إِلَیْکُمْ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُزَوِّجُونِیْ فُلَانَۃَ لِامْرَأَۃٍ مِنْہُمْ۔)) فَذَہَبْتُ: فَقُلْتُ لَہُمْ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ أَرْسَلَنِی إِلَیْکُمْ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُزَوِّجُونِیْ فُلَانَۃَ فَقَالُوْا: مَرْحَبًا بِرَسُولِ اللّٰہِ وَبِرَسُولِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاللّٰہِ، لَا یَرْجِعُ رَسُولُ رَسُولِ اللّٰہِ ص ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَّا بِحَاجَتِہِ فَزَوَّجُونِیْ وَأَلْطَفُونِیْ وَمَا سَأَلُونِی الْبَیِّنَۃَ، فَرَجَعْتُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَزِینًا، فَقَالَ لِی: ((مَا لَکَ یَا رَبِیعَۃُ؟)) فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ، أَتَیْتُ قَوْمًا کِرَامًا فَزَوَّجُونِیْ وَأَکْرَمُونِی وَأَلْطَفُونِی وَمَا سَأَلُونِی بَیِّنَۃً وَلَیْسَ عِنْدِی صَدَاقٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا بُرَیْدَۃُ الْأَسْلَمِیُّ اجْمَعُوْا لَہُ وَزْنَ نَوَاۃٍ مِنْ ذَہَبٍ۔)) قَالَ: فَجَمَعُوْا لِی وَزْنَ نَوَاۃٍ مِنْ ذَہَبٍ، فَأَخَذْتُ مَا جَمَعُوْا لِی فَأَتَیْتُ بِہِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اذْہَبْ بِہٰذَا إِلَیْہِمْ فَقُلْ: ہٰذَا صَدَاقُہَا۔)) فَأَتَیْتُہُمْ فَقُلْتُ: ہَذَا صَدَاقُہَا فَرَضُوہُ وَقَبِلُوہُ وَقَالُوْا: کَثِیرٌ طَیِّبٌ، قَالَ: ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَزِینًا، فَقَالَ: ((یَا رَبِیعَۃُ! مَا لَکَ حَزِینٌ؟)) فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا رَأَیْتُ قَوْمًا أَکْرَمَ مِنْہُمْ، رَضُوْا بِمَا آتَیْتُہُمْ وَأَحْسَنُوْا وَقَالُوْا: کَثِیرًا طَیِّبًا، وَلَیْسَ عِنْدِی مَا أُولِمُ، قَالَ: ((یَا بُرَیْدَۃُ اجْمَعُوْا لَہُ شَاۃً۔)) قَالَ: فَجَمَعُوْا لِی کَبْشًا عَظِیمًا سَمِینًا، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اذْہَبْ إِلٰی عَائِشَۃَ، فَقُلْ لَہَا: فَلْتَبْعَثْ بِالْمِکْتَلِ الَّذِی فِیہِ الطَّعَامُ۔)) قَالَ: فَأَتَیْتُہَا فَقُلْتُ لَہَا مَا أَمَرَنِی بِہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: ہٰذَا الْمِکْتَلُ فِیہِ تِسْعُ آصُعِ شَعِیرٍ، لَا وَاللّٰہِ إِنْ أَصْبَحَ لَنَا طَعَامٌ غَیْرُہُ خُذْہُ، فَأَخَذْتُہُ فَأَتَیْتُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَََََ وَأَخْبَرْتُہُ مَا قَالَتْ عَائِشَۃُ، فَقَالَ: ((اذْہَبْ بِہٰذَا إِلَیْہِمْ فَقُلْ: لِیُصْبِحْ ہٰذَا عِنْدَکُمْ خُبْزًا۔)) فَذَہَبْتُ إِلَیْہِمْ وَذَہَبْتُ بِالْکَبْشِ وَمَعِی أُنَاسٌ مِنْ أَسْلَمَ، فَقَالَ: لِیُصْبِحْ ہٰذَا عِنْدَکُمْ خُبْزًا وَہٰذَا طَبِیخًا، فَقَالُوْا: أَمَّا الْخُبْزُ فَسَنَکْفِیکُمُوہُ وَأَمَّا الْکَبْشُ فَاکْفُونَا أَنْتُمْ، فَأَخَذْنَا الْکَبْشَ أَنَا وَأُنَاسٌ مِنْ أَسْلَمَ فَذَبَحْنَاہُ وَسَلَخْنَاہُ وَطَبَخْنَاہُ فَأَصْبَحَ عِنْدَنَا خُبْزٌ وَلَحْمٌ، فَأَوْلَمْتُ وَدَعَوْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَعْطَانِی أَرْضًا وَأَعْطَانِی أَبُو بَکْرٍ أَرْضًا وَجَاء َتْ الدُّنْیَا فَاخْتَلَفْنَا فِی عِذْقِ نَخْلَۃٍ، فَقُلْتُ: أَنَا ہِیَ فِی حَدِّی، وَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: ہِیَ فِی حَدِّی فَکَانَ بَیْنِی وَبَیْنَ أَبِی بَکْرٍ کَلَامٌ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ کَلِمَۃً کَرِہَہَا وَنَدِمَ، فَقَالَ لِی: یَا رَبِیعَۃُ رُدَّ عَلَیَّ مِثْلَہَا حَتَّی تَکُونَ قِصَاصًا، قَالَ: قُلْتُ: لَا أَفْعَلُ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: لَتَقُولَنَّ أَوْ لَأَسْتَعْدِیَنَّ عَلَیْکَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِفَاعِلٍ، قَالَ: وَرَفَضَ الْأَرْضَ وَانْطَلَقَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَانْطَلَقْتُ أَتْلُوْہُ، فَجَائَ نَاسٌ مِنْ أَسْلَمَ فَقَالُوْا لِی: رَحِمَ اللّٰہُ أَبَا بَکْرٍ فِی أَیِّ شَیْئٍ یَسْتَعْدِی عَلَیْکَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ قَالَ لَکَ مَا قَالَ، فَقُلْتُ: أَتَدْرُونَ مَا ہٰذَا؟ ہٰذَا أَبُوْ بَکْرٍ الصِّدِّیقُ، ہٰذَا ثَانِیَ اثْنَیْنِ، وَہٰذَا ذُوْ شَیْبَۃِ الْمُسْلِمِینَ، إِیَّاکُمْ لَایَلْتَفِتُ فَیَرَاکُمْ تَنْصُرُونِی عَلَیْہِ، فَیَغْضَبَ فَیَأْتِیَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَیَغْضَبَ لِغَضَبِہِ فَیَغْضَبَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِغَضَبِہِمَا فَیُہْلِکَ رَبِیعَۃَ، قَالُوْا: مَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: ارْجِعُوْا، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَبِعْتُہُ وَحْدِی حَتّٰی أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَحَدَّثَہُ الْحَدِیثَ، کَمَا کَانَ فَرَفَعَ إِلَیَّ رَأْسَہُ، فَقَالَ: ((یَا رَبِیعَۃُ! مَا لَکَ وَلِلصِّدِّیقِ؟)) قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! کَانَ کَذَا کَانَ کَذَا، قَالَ لِیْ کَلِمَۃً کَرِھَہَا، فَقَالَ لِیْ: قُلْ کَمَا قُلْتُ حَتّٰی یَکُوْنَ قِصَاصًا فَاَبَیْتُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَجَلْ فَلَا تَرُدَّ عَلَیْہِ وَلٰکِنْ، قُلْ: غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ یَا أَبَا بَکْرٍ!۔)) فَقُلْتُ: غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ یَا أَبَا بَکْرٍ، قَالَ الْحَسَنُ: فَوَلّٰی أَبُوْ بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ وَھُوَ یَبْکِیْ۔ (مسند احمد: ۱۶۶۹۳)

سیدنا ربیعہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: ربیعہ! تم شادی کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں شادی نہیں کرنا چاہتا، میں بیوی کی ضروریات پوری کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ کوئی چیز مجھے آپ کی طرف سے مصروف (اور غافل) کر دے۔ آپ نے اس بارے میں مجھ سے مزید کچھ نہ کہا۔ پھر جب تک اللہ کو منظور تھا، میں آپ کی خدمت بجا لاتا رہا۔ کافی عرصہ بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک دفعہ پھر مجھ سے فرمایا: ربیعہ! تم شادی کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں شادی نہیں کرنا چاہتا، نہ ہی میں بیوی کی ضروریات پوری کر سکتا ہوں، میں یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ کوئی چیز مجھے آپ کی طرف سے مشغول (یا غافل) کرے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے مزید کچھ نہ کہا، میں نے اس کے بعد دل میں سوچاکہ اللہ کے رسول بہتر جانتے ہیں کہ کونسی چیز میرے لیے دنیا اور آخرت میں بہتر ہے۔ اللہ کی قسم! اگر اب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے نکاح کے متعلق ارشاد فرمایا تو میں کہہ دوں گا کہ اللہ کے رسو ل ٹھیک ہے، آپ جو چاہیں مجھے ارشاد فرمائیں۔ آپ نے ایک دفعہ پھر مجھ سے فرمایا: ربیعہ! تم نکاح کیوں نہیں کر لیتے؟ میں نے عرض کیا:جی ٹھیک ہے، آپ جو چاہیں مجھے حکم فرمائیں، آپ نے ایک انصاری قبیلہ کا نام لے کر فرمایا کہ تم ان کے ہاں جائو، وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں کچھ وقفہ سے آیا کرتے تھے، تم جا کر ان سے کہو کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے، وہ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنے خاندان کی فلاں خاتون کا نکاح میرے ساتھ کر دو، چنانچہ میں نے ان کے ہاں جا کر ان سے کہا کہ مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تمہاری طرف بھیجا ہے اور حکم دیا ہے کہ تم فلاں خاتون کا نکاح میرے ساتھ کردو۔ وہ کہنے لگے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ان کے نمائندے کو مرحبا (خوش آمدید)، اللہ کی قسم، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا بھیجا ہوا آدمی اپنی ضرورت پوری کرکے واپس جائے گا۔ چنانچہ انہوںنے میرا نکاح کر دیا اور میرے ساتھ بہت اچھا برتائو کیا۔ انہوں نے مجھ سے اس بات کا بھی ثبوت طلب نہ کیا کہ کیا واقعی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بھیجا بھی ہے؟ میں غمگین سا ہو کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں واپس آیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: ربیعہ! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بہت ہی با اخلاق لوگوں کے پاس گیا، انہوںنے میری خوب آئو بھگت کی اور میرے ساتھ حسن سلوک کیا، انہوںنے مجھ سے اس بات کی دلیل بھی نہیں مانگی کہ کیا واقعی آپ نے مجھے ان کی طرف بھیجا ہے؟ اب مسئلہ یہ ہے کہ میں مہر ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے بریدہ اسلمی! تم اس کے لیے پانچ درہم چاندی کی قیمت کے مساوی سونا جمع کرو۔ پس انہوںنے میرے لیےاتنا سونا جمع کر دیا، انہوںنے میری خاطر جو سونا جمع کیا تھا میں اسے لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آگیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم یہ سونا ان یعنی اپنے سسرال کے ہاں لے جائو اور ان سے کہنا کہ یہ اس کا مہر ہے۔ چنانچہ میں ان لوگوں کے ہاں گیا اور میں نے ان سے کہا کہ یہ اس کا (یعنی میری بیوی کا) مہر ہے۔ وہ اس پر راضی ہوگئے اور انہوںنے اسی کو قبول کر لیا اور ساتھ ہی کہا کہ یہ بہت ہی پاکیزہ ہے۔ سیدنا ربیعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں ایک دفعہ پھر غمگین ہو کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: ربیعہ! کیا بات ہے؟ غمگین کیوں ہو؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے ان سے بڑھ کر شریف لوگ نہیں دیکھے، میں نے ان کو جو بھی دیا وہ اسی پر راضی ہوگئے اورانہوںنے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ بہت ہے اور پاکیزہ ہے۔اب میری تو حالت یہ ہے کہ میں ولیمہ کرنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتا۔ آپ نے فرمایا: اے بریدہ! اس کے لیے ایک بکری کا انتظام کرو۔ چنانچہ انہوں نے میرے لیے اتنی رقم جمع کر دی کہ ایک بڑا اور موٹا تازہ مینڈھا خرید لیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس جا کر ان سے کھانے والا بڑا برتن لے آئو۔ میں ان کی خدمت میں گیا اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے جو حکم فرمایا تھا، میں نے ان سے بیان کر دیا۔ انہوںنے کہا: وہ یہ برتن ہے، اس میں نو صاع (تقریباً۲۲کلو) جو ہیں۔ اللہ کی قسم! ہمارے ہاں اس کے علاوہ کھانے کی اور کوئی چیز نہیں ہے، تم یہ لے جائو۔ چنانچہ میں وہ لے گیااور لے جاکر وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ اور ام المومنین نے جو کچھ کہا تھا وہ بھی بیان کر دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم یہ خوراک ان (اپنے سسرال) کے ہاں لے جائو۔ اور کہو کہ یہ تمہارے ہاں روٹی کے کام آئیں گے۔ چنانچہ میں مینڈھا بھی ساتھ لے کر وہاں چلا گیا، میرے ساتھ میرے قبیلہ کے لوگ بھی تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ جو روٹی کے لیے اور یہ مینڈھا سالن پکانے کے لیے ہے، وہ کہنے لگے کہ روٹی ہم تیار کرتے ہیں اور مینڈھے کو تم تیار کرو، میں نے اور قبیلہ کے کچھ لوگوں نے مینڈھے کو ذبح کرکے اس کی کھال اتار کر گوشت تیار کرکے اسے پکایا، ہمارے پاس روٹی اور گوشت کا سالن تیار تھا۔ میں نے ولیمہ کیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بھی دعوت دی۔ اس سے آگے سیدنا ربیعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے بعد مجھے اور ابو بکر صدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قطعۂ زمین عنایت فرمایا، ہمارے پاس دنیا کا مال آگیا، میرا اور ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا کھجور کے ایک درخت کے بارے میں جھگڑا ہو گیا۔ میں نے دعوی کیا کہ یہ میری حد میں ہے اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہا کہ یہ میری حد میں ہے۔ میرے اور ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے درمیان تو تکار ہوگئی، غصے میں ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک سخت کلمہ کہہ گئے، وہ خود انہیں بھی اچھا نہ لگا اور وہ خود اس پر نادم ہوئے، انہوںنے مجھ سے کہا: ربیعہ! تم بھی مجھے اسی قسم کے الفاظ کہہ لو، تاکہ بدلہ پورا ہو جائے۔ میں نے کہا کہ میں تو ایسے نہیں کروںگا، ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بولے تمہیں ایسے الفاظ کہنے ہوں گے ورنہ میں اس بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے شکایت کر دوں گا۔ میںنے کہا: میں تو ایسا کام نہیں کر سکتا یعنی آپ کو ایسے الفاظ نہیں کہہ سکتا۔ ربیعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے وہ متنازعہ جگہ چھوڑ دی اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف چل دیئے، میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ میرے قبیلے بنو اسلم کے بھی کچھ لوگ آگئے اور انہوںنے مجھ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر رحم کرے، وہ کس بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں تیری شکایت کریں گے؟ حالانکہ سخت اور ناگوار قسم کے الفاظ تو خود انہوںنے کہے ہیں۔ میں نے ان لوگوں سے کہا: کیا تم جانتے ہو وہ کون ہیں؟ وہ ابو بکرصدیق ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں،وہ ثانی اثنین ہیں۔ (یعنی جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہجرت کی تو غار میں اللہ کے رسول کے ساتھ دوسرے فرد وہی تھے۔) تمام مسلمانوں میں سے معزز و مکرم وہی ہیں۔ خبردار! خیال کرو کہ وہ کہیں مڑ کر تمہیں نہ دیکھ لیں کہ تم ان کے خلاف میری مدد کرنے آئے ہو۔ انہوںنے دیکھ لیا تو ناراض ہو جائیں گے۔ وہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئے تو ان کے غصہ کی بنیاد پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی ناراض ہو جائیں گے اور ان دونوں کی ناراضگی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بھی ناراض ہو جائے گا اور ربیعہ ہلاک ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا: تو پھر تم ہمیں کیا حکم دیتے ہو؟ اس نے کہا:تم واپس چلے جائو۔ چنانچہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں چلے گئے، ان کے پیچھے پیچھے میں بھی اکیلا چلا گیا۔ انہوں نے جا کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ساری بات بتلا دی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری طرف سر اٹھا کر دریافت فرمایا: ربیعہ! تمہارے اور ابو بکر کے درمیان کیا بات ہوئی ہے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!بات اس طرح ہوئی تھی۔ انہوںنے مجھے ایسے الفاظ کہہ دیئے جو خود انہیں بھی اچھے نہیں لگے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں بھی ان کو اسی قسم کے الفاظ کہوں تاکہ قصاص ہو جائے۔ لیکن میں نے ایسے الفاظ کہنے سے انکار کر دیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بہت اچھا، تم ایسے الفاظ نہ کہنا، بلکہ تم یوں کہو ابو بکر! اللہ آپ کو معاف کرے۔ تو میں نے کہا: اے ابو بکر! اللہ آپ کو معاف کرے۔ حسن نے بیان کیا کہ اس کے بعد ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ روتے ہوئے چلے گئے۔

Haidth Number: 11696

۔ (۱۱۶۹۷)۔ عَنْ نُعَیْمٍ الْمُجْمِرِ، عَنْ رَبِیعَۃَ بْنِ کَعْبٍ قَالَ: کُنْتُ أَخْدُمُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَقُومُ لَہُ فِی حَوَائِجِہِ نَہَارِی أَجْمَعَ حَتّٰی یُصَلِّیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْعِشَائَ الْآخِرَۃَ، فَأَجْلِسَ بِبَابِہِ إِذَا دَخَلَ بَیْتَہُ أَقُولُ لَعَلَّہَا أَنْ تَحْدُثَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَاجَۃٌ، فَمَا أَزَالُ أَسْمَعُہُ یَقُولُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((سُبْحَانَ اللّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ۔)) حَتّٰی أَمَلَّ فَأَرْجِعَ أَوْ تَغْلِبَنِی عَیْنِی فَأَرْقُدَ قَالَ: فَقَالَ لِی: یَوْمًا لِمَا یَرٰی مِنْ خِفَّتِی لَہُ وَخِدْمَتِی إِیَّاہُ: ((سَلْنِی یَا رَبِیعَۃُ أُعْطِکَ۔)) قَالَ: فَقُلْتُ: أَنْظُرُ فِی أَمْرِی یَا رَسُولَ اللّٰہِ ثُمَّ أُعْلِمُکَ ذٰلِکَ، قَالَ: فَفَکَّرْتُ فِی نَفْسِی فَعَرَفْتُ أَنَّ الدُّنْیَا مُنْقَطِعَۃٌ زَائِلَۃٌ وَأَنَّ لِی فِیہَا رِزْقًا سَیَکْفِینِی وَیَأْتِینِی، قَالَ: فَقُلْتُ: أَسْأَلُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِآخِرَتِی، فَإِنَّہُ مِنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ بِالْمَنْزِلِ الَّذِی ہُوَ بِہِ، قَالَ: فَجِئْتُ فَقَالَ: ((مَا فَعَلْتَ؟ یَا رَبِیعَۃُ!۔)) قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ، أَسْأَلُکَ أَنْ تَشْفَعَ لِی إِلٰی رَبِّکَ فَیُعْتِقَنِی مِنَ النَّارِ، قَالَ: فَقَالَ: ((مَنْ أَمَرَکَ بِہٰذَا یَا رَبِیعَۃُ!۔)) قَالَ: فَقُلْتُ: لَا وَاللّٰہِ الَّذِی بَعَثَکِ بِالْحَقِّ، مَا أَمَرَنِی بِہِ أَحَدٌ، وَلٰکِنَّکَ لَمَّا قُلْتَ سَلْنِی أُعْطِکَ وَکُنْتَ مِنَ اللّٰہِ بِالْمَنْزِلِ الَّذِی أَنْتَ بِہِ، نَظَرْتُ فِی أَمْرِی وَعَرَفْتُ أَنَّ الدُّنْیَا مُنْقَطِعَۃٌ وَزَائِلَۃٌ، وَأَنَّ لِی فِیہَا رِزْقًا سَیَأْتِینِی، فَقُلْتُ أَسْأَلُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِآخِرَتِی، قَالَ: فَصَمَتَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم طَوِیلًا ثُمَّ قَالَ لِی: ((إِنِّی فَاعِلٌ فَأَعِنِّی عَلٰی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُودِ۔)) (مسند احمد: ۱۶۶۹۵)

نعیم بن مجمر بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ربیعہ بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا اور سارا سارا دن آپ کی ضروریات پوری کیا کرتا تھا، یہاں تک کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عشاء کی نمازادا فرما لیتے، نماز عشاء کے بعد آپ اپنے گھر تشریف لے جاتے تو میں آپ کے دروازے پر بیٹھ رہتا۔ میں سوچتا کہ ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کوئی ضرورت پیش آجائے، میں کافی دیر تک آپ کی آواز سنتا رہتا کہ آپ سُبْحَانَ اللّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِکے الفاظ ادا کرتے رہتے، یہاں تک کہ میں ہی تھک کر واپس آجاتا، یا مجھ پر آنکھیں غلبہ پالیتیں اور میں سو جاتا، میں چونکہ آپ کی خدمت کے لیے ہر وقت مستعد رہتا اور خوب خدمت کیا کرتا تھا، ایک دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے ربیعہ! مجھ سے کچھ مانگو، میں تمہیں دوں گا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں غور کرکے عرض کروں گا۔ میں نے دل میں کافی سوچ بچار کی، مجھے خیال آیا کہ دنیا تو منقطع ہو جانے والی چیز ہے اور میرے پاس دنیوی رزق کافی ہے، مزید بھی آتا رہے گا، میں نے سوچا کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آخرت کے بارے کچھ طلب کر لوں۔ کیونکہ آپ کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بلند مقام ہے، چنانچہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ربیعہ! سنائو کیا سوچا؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے سوچ لیا ہے۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ کہ آپ میرے حق میں رب تعالیٰ کے ہاں سفارش کریں کہ وہ مجھے جہنم سے آزاد کر دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’ربیعہ! یہ دعا کرنے کا تمہیں کس نے کہا؟ میں نے عرض کیا: اللہ کی قسم، اس بات کا مجھے کسی نے بھی نہیں کہا، لیکن جب آپ نے مجھ سے فرمایا کہ مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا اور آپ کا اللہ کے ہاں جو مقام ہے وہ تو ہے ہی۔ تو میں نے اپنے تمام معاملات میں غور کیا تو مجھے یاد آیا کہ دنیا تو منقطع ہو جانے والی چیز ہے اور میرے پاس دنیوی رزق بہت ہے اور مزید ملتا بھی رہے گا۔ میں نے سوچا کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آخرت کے بارے میں کچھ طلب کر لوں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کافی دیر خاموش رہے، پھر مجھ سے فرمایا: ٹھیک ہے میں یہ کام کروں گا،لیکن تم بکثرت سجدے کرکے میری مدد کرو۔

Haidth Number: 11697

۔ (۱۲۲۲۵)۔ عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ، عَنْ أَبِی فِرَاسٍ قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقَالَ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! أَلَا إِنَّا إِنَّمَا کُنَّا نَعْرِفُکُمْ، إِذْ بَیْنَ ظَہْرَیْنَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَإِذْ یَنْزِلُ الْوَحْیُ، وَإِذْ یُنْبِئُنَا اللّٰہُ مِنْ أَخْبَارِکُمْ، أَلَا! وَإِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدِ انْطَلَقَ، وَقَدِ انْقَطَعَ الْوَحْیُ، وَإِنَّمَا نَعْرِفُکُمْ بِمَا نَقُولُ لَکُمْ مَنْ أَظْہَرَ مِنْکُمْ خَیْرًا، ظَنَنَّا بِہِ خَیْرًا، وَأَحْبَبْنَاہُ عَلَیْہِ، وَمَنْ أَظْہَرَ مِنْکُمْ لَنَا شَرًّا، ظَنَنَّا بِہِ شَرًّا، وَأَبْغَضْنَاہُ عَلَیْہِ سَرَائِرُکُمْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ رَبِّکُمْ، أَلَا! إِنَّہُ قَدْ أَتٰی عَلَیَّ حِینٌ، وَأَنَا أَحْسِبُ أَنَّ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ یُرِیدُ اللّٰہَ، وَمَا عِنْدَہُ فَقَدْ خُیِّلَ إِلَیَّ بِآخِرَۃٍ، أَلَا! إِنَّ رِجَالًا قَدْ قَرَئُ وْہُ یُرِیدُونَ بِہِ مَا عِنْدَ النَّاسِ، فَأَرِیدُوا اللّٰہَ بِقِرَائَتِکُمْ، وَأَرِیدُوہُ بِأَعْمَالِکُمْ، أَلَا! إِنِّی وَاللّٰہِ مَا أُرْسِلُ عُمَّالِی إِلَیْکُمْ لِیَضْرِبُوا أَبْشَارَکُمْ، وَلَا لِیَأْخُذُوْا أَمْوَالَکُمْ، وَلَکِنْ أُرْسِلُہُمْ إِلَیْکُمْ لِیُعَلِّمُوکُمْ دِینَکُمْ وَسُنَّتَکُمْ، فَمَنْ فُعِلَ بِہِ شَیْئٌ سِوَی ذَلِکَ فَلْیَرْفَعْہُ إِلَیَّ، فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ إِذَنْ لَأُقِصَّنَّہُ مِنْہُ، فَوَثَبَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فَقَالَ: یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ! أَوَ رَأَیْتَ إِنْ کَانَ رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ عَلَی رَعِیَّۃٍ، فَأَدَّبَ بَعْضَ رَعِیَّتِہِ، أَئِنَّکَ لَمُقْتَصُّہُ مِنْہُ؟ قَالَ: إِی وَالَّذِی نَفْسُ عُمَرَ بِیَدِہِ! إِذَنْ لَأُقِصَّنَّہُ مِنْہُ، وَقَدْ رَاَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقِصُّ مِنْ نَفْسِہِ، أَلَا! لَا تَضْرِبُوا الْمُسْلِمِینَ فَتُذِلُّوہُمْ، وَلَا تُجَمِّرُوہُمْ فَتَفْتِنُوہُمْ، وَلَا تَمْنَعُوہُمْ حُقُوقَہُمْ فَتُکَفِّرُوہُمْ، وَلَا تُنْزِلُوہُمْ الْغِیَاضَ فَتُضَیِّعُوہُمْ۔ (مسند احمد: ۲۸۶)

ابو فراس سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لوگوں سے خطاب کیا اور کہا: لوگو! جب ہمارے درمیان نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم موجود تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل ہوا کر تی تھی اور اللہ تعالیٰ تمہاری کاروائیوں سے ہمیں باخبر کر دیا کرتے تھے، ہم تم سب کو اچھی طرح پہچان لیتے تھے، اب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات پا چکے ہیں اور وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے، اب ہم تمہیں جو کچھ کہیں گے، اسی کی روشنی میں تمہیں پہچاننے کی کوشش کریں گے، تم میں سے جو آدمی اچھائی کا اظہار کرے گا، ہم بھی اس کے متعلق اچھا گمان رکھیں گے اور اسی کے مطابق اس کے ساتھ رویہ اختیار کریں گے اور تم میں سے جس نے ہمارے ساتھ برائی کا اظہار کیا، ہم بھی اس کے متعلق برا گمان رکھیں گے اور اسی کے مطابق اس سے بغض رکھیں گے، تمہارے راز اور اندر کی باتیں تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان ہیں۔ خبردار! مجھ پر ایک ایسا وقت بھی گزر چکا ہے کہ میں جسے قرآن پڑھتا دیکھتا تھا، اس کے بارے میں یہی سمجھتا تھا کہ وہ اللہ کی رضا کے لیے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے، اس کو حاصل کرنے کے لیے پڑھ رہا ہے، اس کے بارے میں میں آخر تک یہی سمجھتا رہا، مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو قرآن پڑھ کر لوگوں سے اس کا معاوضہ اور مال چاہتے ہیں، میں تم کو یہی کہوں گا کہ تم اپنی قراء ت اور اعمال کے ذریعے اللہ کی رضا حاصل کرنے کا ارادہ کرو۔ خبردار! اللہ کی قسم! میں اپنے عمال اور مسئولین کو تمہاری طرف اس لیے نہیں بھیجتا کہ وہ تمہیں سزائیں دیں اور نہ میں انہیں اس لیے بھیجتا ہوں کہ وہ تمہارے اموال ہتھیا لیں، میرا ان کو بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ تمہیں تمہارا دین اور سنت سکھائیں، اگر میرا کوئی عامل اس کے الٹ کاروائی کرے تو اس کے بارے میں مجھے خبر دو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میںمیری جان ہے! میں اس سے اس کی کاروائی کا بدلہ دلواؤں گا۔ یہ سن کر سیدنا عمر و بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اٹھے اور انھوں نے کہا: اے امیر المومنین! کیا خیال ہے اگر ایک مسلمان آدمی کچھ لوگوں پر حاکم ہو اور وہ اپنی رعایا کے بعض افراد کو ادب سکھانے کے لیے سزا وغیرہ دیتا ہو تو کیا آپ اس سے بدلہ لیں گے؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی ہاں، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے! میں تب بھی ضرور ضرور اس سے بدلہ لوںگا۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بدلے کے لیے خود کو پیش کر دیا تھا۔ خبردار! تم مسلمانوں کو سزائیں دے دے کر ان کو ذلیل ورسوانہ کرو اور تم انہیں زیادہ عرصے تک سرحدوں پر روک کر نہ رکھو، اس طرح تم انہیں فتنوں میں مبتلا کر دو گے اور تم انہیں ان کے حق سے محروم نہ کرو، وگرنہ تم انہیں ناشکرے بندے بنا دو گے اور تم لشکروں کو درختوں کے جھنڈوں میں نہ اتارا کرو (کیونکہ اس طرح سے وہ بکھر جائیں گے) اور ضائع ہو جائیں گے۔

Haidth Number: 12225
Haidth Number: 12226
سیدناابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے گھر اور منبرکے درمیان والی جگہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔

Haidth Number: 12688
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے منبر اور میرے حجرے کے درمیان والی جگہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے اور میرا منبر جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ پر ہے۔

Haidth Number: 12689