Blog
Books
Search Hadith

سیدہ زینب بنت رسول ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے خاوند سیدنا ابو العاص کا فدیہ

24 Hadiths Found

۔ (۵۰۹۰)۔ عَنْ رِعْیَۃَ السُّحَیْمِیِّ قَالَ: کَتَبَ إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی أَدِیمٍ أَحْمَرَ، فَأَخَذَ کِتَابَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَقَعَ بِہِ دَلْوَہُ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَرِیَّۃً، فَلَمْ یَدَعُوْا لَہُ رَائِحَۃً وَلَا سَارِحَۃً وَلَا أَہْلًا وَلَا مَالًا إِلَّا أَخَذُوہُ، وَانْفَلَتَ عُرْیَانًا عَلٰی فَرَسٍ لَہُ لَیْسَ عَلَیْہِ قِشْرَۃٌ حَتّٰی یَنْتَہِیَ إِلٰی ابْنَتِہِ وَہِیَ مُتَزَوِّجَۃٌ فِی بَنِی ہِلَالٍ، وَقَدْ أَسْلَمَتْ وَأَسْلَمَ أَہْلُہَا، وَکَانَ مَجْلِسُ الْقَوْمِ بِفِنَائِ بَیْتِہَا، فَدَارَ حَتّٰی دَخَلَ عَلَیْہَا مِنْ وَرَائِ الْبَیْتِ، قَالَ: فَلَمَّا رَأَتْہُ أَلْقَتْ عَلَیْہِ ثَوْبًا، قَالَتْ: مَا لَکَ؟ قَالَ: کُلُّ الشَّرِّ نَزَلَ بِأَبِیکِ مَا تُرِکَ لَہُ رَائِحَۃٌ وَلَا سَارِحَۃٌ وَلَا أَہْلٌ وَلَا مَالٌ إِلَّا وَقَدْ أُخِذَ، قَالَتْ: دُعِیتَ إِلَی الْإِسْلَامِ، قَالَ: أَیْنَ بَعْلُکِ؟ قَالَتْ: فِی الْإِبِلِ، قَالَ: فَأَتَاہُ، فَقَالَ: مَا لَکَ؟ قَالَ: کُلُّ الشَّرِّ قَدْ نَزَلَ بِہِ مَا تُرِکَتْ لَہُ رَائِحَۃٌ وَلَا سَارِحَۃٌ وَلَا أَہْلٌ وَلَا مَالٌ إِلَّا وَقَدْ أُخِذَ، وَأَنَا أُرِیدُ مُحَمَّدًا أُبَادِرُہُ قَبْلَ أَنْ یُقَسِّمَ أَہْلِی وَمَالِی، قَالَ: فَخُذْ رَاحِلَتِی بِرَحْلِہَا، قَالَ: لَا حَاجَۃَ لِی فِیہَا، قَالَ: فَأَخَذَ قَعُودَ الرَّاعِی وَزَوَّدَہُ إِدَاوَۃً مِنْ مَائٍ، قَالَ: وَعَلَیْہِ ثَوْبٌ إِذَا غَطَّی بِہِ وَجْہَہُ خَرَجَتْ اسْتُہُ، وَإِذَا غَطَّی اسْتَہُ خَرَجَ وَجْہُہُ، وَہُوَ یَکْرَہُ أَنْ یُعْرَفَ حَتَّی انْتَہٰی إِلَی الْمَدِینَۃِ فَعَقَلَ رَاحِلَتَہُ، ثُمَّ أَتٰی رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکَانَ بِحِذَائِہِ حَیْثُ یُصَلِّی، فَلَمَّا صَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْفَجْرَ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! ابْسُطْ یَدَیْکَ فَلْأُبَایِعْکَ، فَبَسَطَہَا فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ یَضْرِبَ عَلَیْہَا قَبَضَہَا إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَفَعَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذٰلِکَ ثَلَاثًا، قَبَضَہَا إِلَیْہِ وَیَفْعَلُہُ، فَلَمَّا کَانَتِ الثَّالِثَۃُ قَالَ: ((مَنْ أَنْتَ؟)) قَالَ: رِعْیَۃُ السُّحَیْمِیُّ، قَالَ: فَتَنَاوَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَضُدَہُ ثُمَّ رَفَعَہُ ثُمَّ قَالَ: ((یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ! ہٰذَا رِعْیَۃُ السُّحَیْمِیُّ الَّذِی کَتَبْتُ إِلَیْہِ فَأَخَذَ کِتَابِی۔)) فَرَقَعَ بِہِ دَلْوَہُ فَأَخَذَ یَتَضَرَّعُ إِلَیْہِ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَہْلِی وَمَالِی، قَالَ: ((أَمَّا مَالُکَ فَقَدْ قُسِّمَ، وَأَمَّا أَہْلُکَ فَمَنْ قَدَرْتَ عَلَیْہِ مِنْہُمْ۔)) فَخَرَجَ فَإِذَا ابْنُہُ قَدْ عَرَفَ الرَّاحِلَۃَ وَہُوَ قَائِمٌ عِنْدَہَا فَرَجَعٰ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ہٰذَا ابْنِی، فَقَالَ: ((یَا بِلَالُ اخْرُجْ مَعَہُ فَسَلْہُ أَبُوکَ ہٰذَا، فَإِنْ قَالَ: نَعَمْ فَادْفَعْہُ إِلَیْہِ۔)) فَخَرَجَ بِلَالٌ إِلَیْہِ فَقَالَ: أَبُوکَ ہٰذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، فَرَجَعَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ مَا رَأَیْتُ أَحَدًا اسْتَعْبَرَ إِلٰی صَاحِبِہِ، فَقَالَ: ((ذَاکَ جَفَائُ الْأَعْرَابِ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۸۳۳)

۔ زوجۂ رسول سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے مال وغیرہ بھیجا تو سیدہ زینب بنت ِ رسول ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنے خاوند ابو العاص بن ربیع کے فدیے میں مال بھیجا اس میں اس کا ایک ہار بھی تھا، یہ ہار دراصل سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا تھا، جب سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی ابو العاص کے ساتھ رخصتی ہوئی تھی تو سیدہ خدیجہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان کو دیا تھا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ ہار دیکھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر رقت طاری ہو گئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم لوگ مناسب سمجھو تو میری بیٹی کے قیدی کو ایسے ہی آزاد کر دو اور اس کا ہار اس کو واپس کر دو۔ صحابہ کرام نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! پس انھوں نے ابو العاص کو رہا کر دیا اور سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو ان کا ہار واپس کر دیا۔

Haidth Number: 5092
۔ سیدنا معمر بن عبداللہ عدوی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک غلام کوبھیجا کہ وہ گندم کا ایک صاع لے جائے اور اسے پہلے فروخت کرے اور پھر اس کے عوض جَو خرید کر لائے، پس وہ غلام گیا اور ایک صاع سے زیادہ جو خرید کر آ گیا، جب وہ سیدنا معمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آیا اورسودے کے بارے میں ان کو بتایا تو انھوں نے پوچھا: کیا تو واقعی اس طرح کر کے آیا ہے؟ واپس چل اور یہ سودا واپس کر دے اور اس کے عوض برابر برابر ہی لینا ہے، کیونکہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اناج کے بدلے اناج فروخت کرتے وقت برابر برابر ہو۔ اس وقت ہمارا کھانا جَو ہوتا تھا، کسی نے کہا: یہ تو ہم جنس ہی نہیں ہے، لیکن سیدنا معمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس سے مشابہت ہو جائے۔

Haidth Number: 5992
۔ ابودہقانہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں ایک مہمان آیا، آپ نے سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: ہمارے لئے کھانا لائو۔ سو وہ گئے اور کھجوروں کے دو صاع دے کر ان کے بدلے میں اچھی کھجوروں کا ایک صاع لیا، ان کی اپنی کھجوریں ناقص تھیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ کھجوریں بہت پسند آئی، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ـ: یہ کھجور کہاں سے آئی ہے؟ سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا اس نے دوصاع کے عوض اِن کھجوروں کا ایک صاع لیا ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہماری کھجوریں واپس لے کر آؤ۔

Haidth Number: 5993
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ترو تازہ اور سیرابی کھجوریں لائی گئیں جبکہ آپ کی کھجوروں بارانی تھیں اور ان میں خشکی آ گئی تھی، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: یہ کھجوریں کہاں سے آئی ہیں۔ لوگوں نے کہا: جی ہم نے دو صاع دے کر ان کھجوروں کا ایک صاع لیا ہے، آپ نے فرمایا: یہ سودا درست نہیں ہے، پہلے تم اپنی کھجوریں علیحدہ بیچو، پھر اس کی قیمت سے اس قسم کی اپنی ضرورت پوری کرو۔

Haidth Number: 5994
۔ سیدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہمیں عہد ِ نبوی میں ملی جلی کھجوریں دی جاتی تھیں، اس لیے ہم ان میں سے دو صاع دے کر (اچھی کھجوروں) کا ایک صاع خریدتے تھے، لیکن جب یہ بات نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کھجوروں کے دو صاع ایک صاع کے بدلے میں نہیں، گندم کے دو صاع ایک صاع کے عوض نہیں، چاندی کے دو درہم ایک درہم کے بدلے میں نہیں۔

Haidth Number: 5995
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے درمیان ایسا اناج تقسیم کیا کہ جس کی کچھ مقدار دوسری سے بہتر تھی، اس وجہ سے ہم نے آپس میں کمی بیشی کے ساتھ اس کی بیع شروع کر دی، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں اس طرح کی بیع کرنے سے منع کر دیا، الا یہ کہ وہ ماپ میں برابر ہوں اور کسی طرف سے کوئی مقدار میں زیادتی نہ ہو۔

Haidth Number: 5996
۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ عرب کے کچھ لوگ مدینہ منورہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور مسلمان ہو گئے،لیکن جب وہ مدینہ کی وبایعنی بخار میں مبتلا ہوئے تو ان کو پلٹا دیا گیا اور وہ مدینہ سے نکل گئے، ان کو آگے سے صحابۂ کرام کا ایک گروہ ملا اور اس نے ان سے پوچھا: کیا ہوا ہے تم کو،واپس جا رہے ہو؟ انھوں نے کہا: ہمیں مدینہ کی وبا لگ گئی ہے اور اس شہر کی آب و فضا موافق نہ آنے کی وجہ سے پیٹ میں بیماری پیدا ہو گئی ہے۔ مسلمانوں نے کہا:کیا تمہارے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ذات میں نمونہ نہیں ہے؟ اب بعض مسلمانوں نے کہا: وہ منافق ہو گئے ہیں اور بعض نے کہا: وہ منافق نہیں ہوئے، بلکہ مسلمان ہیں، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دی: {فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنَافِقِینَ فِئَتَیْنِ وَاللّٰہُ أَرْکَسَہُمْ بِمَا کَسَبُوْا۔} … پھر تمھیں کیا ہوا کہ منافقین کے بارے میں دو گروہ ہوگئے، حالانکہ اللہ نے انھیں اس کی وجہ سے الٹا کر دیا جو انھوں نے کمایا۔

Haidth Number: 8557
۔ سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم احد کی طرف نکلے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ (نکلنے والے منافق راستے سے) واپس لوٹ آئے، ان کی وجہ سے صحابہ کرام کے دو فریق بن گئے، ایک فریق کا خیال تھا کہ ہم لوگ ان منافقوں سے لڑیں، جبکہ دوسرے فریق کی رائے یہ تھی کہ ان سے نہیں لڑنا چاہیے، پس یہ آیت نازل ہوئی: {فَمَا لَکُمْ فِی الْمُنَافِقِینَ فِئَتَیْنِ وَاللّٰہُ أَ رْکَسَہُمْ بِمَا کَسَبُوْا۔} … پھر تمھیں کیا ہوا کہ منافقین کے بارے میں دو گروہ ہوگئے، حالانکہ اللہ نے انھیں اس کی وجہ سے الٹا کر دیا جو انھوں نے کمایا۔ پھرآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ طیبہ ہے، یہ گناہوں کی ایسی صفائی کرتا ہے، جیسے آگ چاندی کی میل کچیل کو ختم کر دیتی ہے۔

Haidth Number: 8558

۔ (۱۰۶۱۹)۔ عَنْ فَائِدٍ مَوْلٰی عَبَادِلَ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ رَبِیْعَۃَ فَأَرْسَلَ اِبْرَاھِیْمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اِلَی ابْنِ سَعْدٍ حَتّٰی اِذَا کُنَّا بِالْعَرَجِ أَتَانَا ابْنُ سَعْدٍ وَسَعْدٌ الَّذِیْ دَلَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی طَرِیْقِ رَکُوْبَۃِ فَقَالَ اِبْرَاھِیْمُ: اَخْبِرْنِیْ مَا حَدَّثَکَ أَبُوْکَ؟ قَالَ ابْنُُ سَعْدٍ: حَدَّثَنِیْ أبِیْ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَتَاھُمْ وَمَعَہُ أَبُوْ بَکْرٍ وَکَانَ لِأَبِیْ بَکْرٍ عِنْدَنَا بِنْتٌ مُسْتَرْضَعَۃٌ وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرَادَ الْاِخْتِصَارَ فِیْ الطَّرِیْقِ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ فَقَالَ لَہُ سَعْدٌ: ھٰذَا الْغَائِرُ مِنْ رَکُوْبَۃَ وَبِہٖلِصَّانِمِنْ اَسْلَمَیُقَالُ لَھُمَا: الْمُھَانَانِ فَاِنْ شِئْتَ أَخَذْنَا عَلَیْھِمَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((خُذْبِنَا عَلَیْھِمَا)) قَالَ سَعْدٌ: فَخَرَجْنَا حَتّٰی أَشْرَفْنَا اِذَا أَحَدُھُمَا یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ: ھٰذَاالْیَمَانِیُّ فَدَعَاھُمَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَعَرَضَ عَلَیْھِمَا الْاِسْلَامَ فَاَسْلَمَا ثُمَّّ سَأَلَھُمَا عَنْ أَسْمَائِھِمَا فَقَالَا: نَحْنُ الْمُھَانَانِ، فَقَالَ: ((بَلْ اَنْتُمَا الْمُکْرَمَانِ)) وَأَمَرَھُمَا أَنْ یَقْدَمَا عَلَیْہِ الْمَدِیْنَۃَ فَخَرَجْنَا حَتّٰی أَتَیْنَا ظَاھِرَ قُبَائَ فَتَلَقَّاہُ بَنُوْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَیْنَ أَبُوْ اُسَامَۃَ أَسْعَدُ بْنُ زُرَارَۃَ؟)) فَقَالَ سَعْدُ بْنُ خَیْثَمَۃَ: أَنّہُ أَصَابَ قَبْلِیْیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَفَـلَا أُخْبِرُہُ ذٰلِکَ؟ ثُمَّّ مَضَی حَتَّی اِذَ اطَلَعَ عَلَی النَّخْلِ فَاِذَا الشَّرَبُ مَمْلُوْئٌ، فَالْتَفَتَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلَی أَبِیْ بَکْرٍ فَقَالَ: ((یَا أَبَا بَکْرٍ ھٰذَا الْمَنْزِلُ رَأَیْتُنِیْ أَنْزِلُ عَلَی حَیَاضٍ کَحَیَاضِ بَنِیْ مُدْلِجٍ))۔ (مسند احمد: ۱۶۸۱۱)

۔ فائد کہتے ہیں: میں ابراہیم بن عبد الرحمن کے ساتھ نکلا، انھوں نے ابن سعد کی طرف پیغام بھیجا، جب ہم عرج مقام پر پہنچے تو ہمارے پاس ابن سعد آیا،یہ اس سعد کا بیٹا تھا کہ جس نے رکوبہ ٹیلے کے راستے سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رہنمائی کی تھی، ابراہیم نے کہا: اے سعد کے بیٹے! ہمیں وہ چیز بتلا جو تجھے تیرے باپ نے بیان کی تھی، ابن سعد نے کہا: میرے باپ نے مجھے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے اور اس وقت ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ایک بیٹیہمارے ہاں دودھ پی رہی تھی،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ کی طرف مختصر راستے کے خواہاں تھے، اس لیے سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: یہ رکوبہ ٹیلے سے ہوتا ہوا غائر پہاڑ کا راستہ ہے، لیکن اس راستے پر بنو اسلم قبیلے کے دو چور ہیں، لوگ ان کو مُھَانَان کہتے ہیں، اگر آپ چاہتے ہیں تو یہی راستہ اختیار کر لیتے ہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم کو اسی راستے پر لے کر چل۔ پس ہم روانہ ہو گئے اور جب آگے بڑھے تو وہ دو چور آ گئے، ان میں سے ایک دوسرے کو کہہ رہا تھا: یہیمانی ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دونوں کو بلایا اور ان پر اسلام پیش کیا، پس وہ مسلمان ہو گئے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے ان کے نام دریافت کیے، انھوں نے کہا: ہم مُھَانَان ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بلکہ تم مُکْرَمَان ہو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو حکم دیا کہ تم مدینہ آ جانا، ہم وہاں سے آگے کو چل پڑے، یہاں تک کہ قبا کی پچھلی سائیڈ تک پہنچ گئے، بنو عمرو بن عوف آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو آ کر ملے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: ابو اسامہ اسعد بن زرارہ کہاں ہے؟ سعد بن خیثمہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ تو قبلی طرف سے آ رہا تھا، کیا میں اس کو اس چیز کی خبر دے دوں؟ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آگے کو بڑھے، یہاں تک کہ کھجوروں کے پاس پہنچ گئے، وہاں کھجور کے پاس والا حوض بھرا ہوا تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے ابو بکر! یہ منزل ہے، میں نے اپنے آپ کو دیکھا تھا کہ میں بنومدلج کے حوضوں کی طرح کے حوضوں پر اتر رہا ہوں۔ مسند محقق میں علامہ سندھی کے حوالہ سے اس کا مفہوم یہ بیان ہوا ہے وہ مجھ سے پہلے خیر حاصل کر چکا (یعنی مسلمان ہو چکا ہے) سعد بن خیثمہ نے یہ بات اس سے تعجب کے طور پر کی کہ اسعد بن زرارہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر ہونے میں دیر کر دی ہے۔

Haidth Number: 10619
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس کے بالائی حصے میں ایک قبیلے کے پاس اترے، اس قبیلے کو بنو عمرو بن عوف کہا جاتا ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں چودہ دن قیام کیا۔

Haidth Number: 10620

۔ (۱۰۷۹۲)۔ عَنِ الْبَرَائِ قَالَ: اعْتَمَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی ذِی الْقَعْدَۃِ، فَأَبٰی أَہْلُ مَکَّۃَ أَنْ یَدَعُوہُیَدْخُلُ مَکَّۃَ حَتّٰی قَاضَاہُمْ عَلٰی أَنْ یُقِیمَ بِہَا ثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ، فَلَمَّا کَتَبُوا الْکِتَابَ کَتَبُوا ہٰذَا مَا قَاضٰی عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ، قَالُوا: لَا نُقِرُّ بِہٰذَا، لَوْ نَعْلَمُ أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ مَا مَنَعْنَاکَ شَیْئًا، وَلٰکِنْ أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ: ((أَنَا رَسُولُ اللّٰہِ وَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ۔)) قَالَ لِعَلِیٍّ: ((امْحُ رَسُولُ اللّٰہِ۔)) قَالَ: وَاللّٰہِ! لَا أَمْحُوکَ أَبَدًا، فَأَخَذَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْکِتَابَ وَلَیْسَیُحْسِنُ أَنْ یَکْتُبَ فَکَتَبَ مَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ہٰذَا مَا قَاضٰی عَلَیْہِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ، أَنْ لَا یُدْخِلَ مَکَّۃَ السِّلَاحَ إِلَّا السَّیْفَ فِی الْقِرَابِ، وَلَا یَخْرُجَ مِنْ أَہْلِہَا أَحَدٌ إِلَّا مَنْ أَرَادَ أَنْ یَتَّبِعَہُ، وَلَا یَمْنَعَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِہِ أَنْ یُقِیمَ بِہَا، فَلَمَّا دَخَلَہَا وَمَضَی الْأَجَلُ أَتَوْا عَلِیًّا فَقَالُوْا: قُلْ لِصَاحِبِکَ فَلْیَخْرُجْ عَنَّا فَقَدْ مَضَی الْأَجَلُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۸۸۳۸)

سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ذوالقعدہ کے مہینے میں عمرہ کا قصد کیا، لیکن اہلِ مکہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا،یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ان سے یہ معاہدہ ہوا کہ آپ آئندہ سال مکہ میں تین دن قیام کر سکیں گے، جب معاہدہ کی عبارت لکھنے لگے تو انہوں نے لکھا: یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد رسول اللہ نے اتفاق کیا ہے، قریش کہنے لگے: ہم تو اس کا اقرار ہی نہیں کرتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول تسلیم کرتے تو ہم آپ کو کسی بھی بات سے نہ روکتے، آپ تو محمد بن عبداللہ ہیں ( یہی لکھو)، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں رسول اللہ بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: رسول اللہ کا لفظ کو مٹا دو۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کی قسم! میں کبھی بھییہ نہیں مٹاؤں گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ کاغذ لے لیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اچھی طرح لکھ نہیں سکتے تھے۔ دوسری روایت کے الفاظ ہیں: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: اس لفظ کو مٹا دو۔ انہوں نے عرض کیا: میں تو ان الفاظ کو مٹا نہیں سکتا۔تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس لفظ کو مٹا دیا۔ اس کے بعد سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لفظ کی جگہ یوں لکھا: یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی ہے، وہ مکہ میں اسلحہ لے کر داخل نہ ہوں گے، ان کے پاس صرف تلواریں ہوں گی اور وہ بھی نیام کے اندر ہوں گی اور وہ اہل مکہ میں سے کسی کو بھی اپنے ساتھ نہیں لے جا سکیں گے، مگر وہ جو اس کی پیروی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو1 اور اگر ان کے ساتھیوں میں سے کوئی مستقل طور پرمکہ مکرمہ میں رہنا چاہے تو یہ اسے نہیں روکیں گے، اگلے سال جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ آئے اور مقرر وقت گزر گیا تو قریشی لوگ سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ اپنے رسول سے کہیں کہ مقرر وقت گزر گیا ہے، اب یہاں سے نکل لے جائیں۔ پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں سے روانہ ہو گئے۔

Haidth Number: 10792
۔( دوسری سند) سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حدیبیہ کے دن مشرکین کے ساتھ تین باتوں کا معاہدہ کیا، ایکیہ کہ اگر کوئی شخص نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو چھوڑ کر قریش کے ساتھ آ ملا تو قریش اسے واپس نہیں کریں گے، لیکن اگر مکہ والوں میں سے کوئی مسلمانوں کے پاس آیا تو وہ اسے واپس کریں گے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اصحاب آئندہ سال مکہ میں عمرہ کے ارادے سے آئیں گے اور صرف تین دن قیام کریں گے اور وہ ہتھیاروں کی نمائش نہیں کریں گے، ان کے پاس صرف تلواریں ہوں گی اور وہ بھی نیاموں کے اندر اور صرف کمان وغیرہ ہو گی۔

Haidth Number: 10793

۔ (۱۰۷۹۴)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ قُرَیْشًا صَالَحُوا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیہِمْ سُہَیْلُ بْنُ عَمْرٍو، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعَلِیٍّ: ((اکْتُبْ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ۔)) فَقَالَ سُہَیْلٌ: أَمَّا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، فَلَا نَدْرِی مَا بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ؟ وَلٰکِنْ اکْتُبْ مَا نَعْرِفُ بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ فَقَالَ: ((اُکْتُبْ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللّٰہِ۔)) قَالَ: لَوْ عَلِمْنَا أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ لَاتَّبَعْنَاکَ وَلٰکِنْ اکْتُبْ اسْمَکَ وَاسْمَ أَبِیکَ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اکْتُبْ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ۔)) وَاشْتَرَطُوا عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّ مَنْ جَائَ مِنْکُمْ لَمْ نَرُدَّہُ عَلَیْکُمْ، وَمَنْ جَاء َ مِنَّا رَدَدْتُمُوہُ عَلَیْنَا، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَتَکْتُبُ ہٰذَا؟ قَالَ: ((نَعَمْ، إِنَّہُ مَنْ ذَہَبَ مِنَّا إِلَیْہِمْ فَأَبْعَدَہُ اللّٰہُ۔))۔ (مسند احمد: ۱۳۸۶۳)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ قریش نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، ان کے وفد میں سہیل بن عمرو بھی تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِلکھو ۔ سہیل نے کہا: ہم تو نہیں جانتے کہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِکیا ہے؟ آپ وہی کلمہ لکھیں جسے ہم جانتے ہیں، بِاسْمِکَ اللّٰہُمَّ لکھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لکھو یہ معاہدہ محمد رسول اللہ کی طرف سے ہے۔ ! اس جگہ یہ بات ہے جبکہ عام روایات میں یہ ہے کہ مکہ والوں میں اگر کوئی مسلمان ہو جائے تو وہ آپ کے ساتھ نہیں جا سکے گا۔ اس پر پھر سہیل بولا کہ اگر ہم یہ مانتے ہوتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کی اقتدا کر لیتے، آپ اس طرح کریں کہ اپنا اور اپنے والد کا نام لکھیں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لکھو یہ معاہدہ محمد بن عبداللہ کی طرف سے ہے۔ انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ شرط طے کی کہ اگر آپ لوگوں میں سے کوئی (ہمارے پاس) آیا تو ہم اسے واپس نہیں کریں گے، لیکن ہمارا جو آدمی آپ کے پاس آیا، آپ اسے ہماری طرف واپس کر دیں گے۔ یہ سن کر سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم یہ شرط بھی لکھیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں ! جو آدمی ہمیں چھوڑ کر ان کی طرف جائے، اللہ تعالیٰ اسے ہم سے دور ہی رکھے۔

Haidth Number: 10794
سیدنا سائب بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: فتح مکہ والے روز مجھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لایا گیا، سیدنا عثمان بن عفان اور سیدنا زہیر مجھے لے کر آئے تھے، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے میری تعریف و توصیف کرنے لگے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہیں اس کے بارے میں مجھے بتلانے کی ضروت نہیں،یہ قبل از اسلام میرے ساتھی تھے۔ سیدنا سائب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی کہا: آپ کے رسول نے بالکل درست فرمایا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بہترین رفیق تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سائب! تم اپنے اسلام سے پہلے والے اخلاق پر نظر رکھنا اور اسلام میں بھی وہی اخلاق اپنائے رکھنا، مہمانوں کی مہمان نوازی کیا کرو، یتیموں کا اکرام کیا کرو اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے رہو۔

Haidth Number: 11710
سیدنا سائب بن ابی سائب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ اسلام سے قبل رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مل کر تجارت کیا کرتے تھے، مکہ فتح ہوا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو دیکھ کر فرمایا: میں اپنے بھائی اور شریک کار کو مرحبا کہتا ہوں۔ دوسری روایت میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میرے شریک کار تھے اور بہترین شریک کار تھے، وہ کسی بھی معاملے میں اختلاف اور جھگڑانہیں کرتے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے سائب! تم جاہلیت میں بہت اچھے عمل کرتے رہے، مگر وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں ہوتے تھے،، اب تمہاری طرف سے ایسے اعمال اللہ کے ہاں قبول ہوں گے۔ سیدنا سائب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوگوں کو ادھار اور ادائیگی میں مہلت دیا کرتے اور صلہ رحمی کیا کرتے تھے۔

Haidth Number: 11711
اسو د بن ہلال اپنی قوم کے ایک آدمی سے بیان کرتے ہیں کہ وہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے دور خلافت میںکہا کرتے تھے کہ سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جب تک خلافت نہیں ملے گی، انہیں اس وقت تک موت نہیں آئے گی۔ ہم نے کہا: تمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے گزشتہ رات نیند میں دیکھا ہے کہ گویا میرے تین صحابہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا وزن کیاگیا، پس ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا وزن کیا گیا، وہ بھاری رہے، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کاوزن کیا گیا، وہ بھی بھاری رہے، بعد ازاں سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا وزن کیا گیا تو وہ ذرا کم وزن تھے، بہرحال وہ بھی صالح آدمی ہیں۔

Haidth Number: 12237
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میںنے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس موجود تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ! کاش ہمارے پاس کوئی ایسا آدمی ہوتا جو ہمارے ساتھ باتیں کرتا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیغام بھیج دوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے، کچھ دیر بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: کاش ہمارے پاس کوئی آدمی ہوتا جو ہمارے ساتھ باتیں کرتا۔ میں نے کہا: کیا میں عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیغام بھیج دوں؟ لیکن آپ اس بار بھی خاموش رہے، کچھ دیر بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خادم کو بلوایا اور راز دارنہ انداز میں اس کے ساتھ کوئی بات کی، وہ چلا گیا،تھوڑا وقت ہی گزرا تھا کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں اجازت دی اور وہ اندر تشریف لے آئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کافی دیر تک ان کے ساتھ سرگوشی کرتے رہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عثمان! اللہ تعالیٰ تمہیں ایک قمیص پہنائے گا، اگر منافقین اس قمیص کو اتارنے کا مطالبہ کریں تو ان کے کہنے پر تم اسے نہ اتارنا، کیونکہ اس کے اتارنے میں کوئی عزت نہیں رہے گی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بات دو تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔

Haidth Number: 12238

۔ (۱۲۲۳۹)۔ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: أَرْسَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ إِلٰی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَأَقْبَلَ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَیْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ أَقْبَلت إِحْدَانَا عَلَی الْأُخْرٰی، فَکَانَ مِنْ آخِرِ کَلَامٍ کَلَّمَہُ أَنْ ضَرَبَ مَنْکِبَہُ، وَقَالَ: ((یَا عُثْمَانُ! اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ عَسٰی أَنْ یُلْبِسَکَ قَمِیْصًا، فَإِنْ أَرَادَکَ الْمُنَافِقُوْنَ عَلٰی خَلْعِہٖفَلَاتَخْلَعْہٗحَتّٰی تَلْقَانِیْ،یَا عُثْمَانُ! إِنَّ اللّٰہَ عَسٰی أَنْ یُلْبِسَکَ قَمِیْصًا فَإِنْ أَرَادَکَ الْمُنَافِقُوْنَ عَلٰی خَلْعِہٖفَلَاتَخْلَعْہُحَتّٰی تَلْقَانِیْ ثَلَاثًا۔)) فَقُلْتُ لَہَا: یَا أُمَّ الْمُؤُمِنِیْنَ! فَأَیْنَ کَانَ ہَذٰا عَنْکِ؟ قَالَتْ: نَسِیْتُہُ وَاللّٰہِ! فَمَا ذَکَرْتُہُ، قَالَ: فَأَخْبَرْتُہُ مُعَاوِیَۃَ بْنَ أَبِیْ سُفْیَانَ فَلَمْ یَرْضَ بِالَّذِیْ أَخْبَرْتُہُ حَتّٰی کَتَبَ إِلٰی أُمِّ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنْ اکْتُبِیْ إِلَیَّ بِہِ، فَکَتَبَتْ إِلَیْہِ بِہٖکِتَابًا۔ (مسنداحمد: ۲۵۰۷۳)

سیدنا نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف پیغام بھیجا، جب وہ آئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے، جب ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس حالت میں دیکھا تو ہم ایک طرف جا کر جمع ہوگئیں، تاکہ آپ آزادی سے گفتگو کرسکیں، بات چیت ہوتی رہی، آخر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے کندھے پر ہاتھ ما ر کر فرمایا: عثمان! امید ہے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ تم کو ایک قمیص پہنائے گا، اگر منافقین تم سے اس قمیص کے اتارنے کا مطالبہ کریں تو مجھے ملنے تک اس قمیض کو نہ اتارنا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بات تین بار ارشاد فرمائی۔ سیدنا نعمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: یہ حدیث اب تک کہاں رہی؟ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: میں بھول گئی تھی، اللہ کی قسم! مجھے یاد نہیں رہی تھی، سیدنا نعمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میںنے یہ حدیث سیدنا معاویہ بن ابی سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بتلائی، لیکن انہیں میری خبر پر تسلی نہ ہوئی، یہاں تک کہ انہوں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی طرف لکھ بھیجا کہ وہ یہ حدیث لکھوا کر ارسال کردیں، پس سیدہ نے ایک تحریر ان کو بھجوادی، جس میں یہ حدیث لکھی ہوئی تھی۔

Haidth Number: 12239
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میںنے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بے خبری میں صرف ایک بار آپ کی بات سننے کی کوشش کی اور سنی، تفصیل یہ ہے کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دوپہر کے وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، میں نے سمجھا کہ شاید آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیویوں کے بارے میں کوئی حکم نازل ہوا ہے، پس میری غیرت نے مجھے اس بات پر آمادہ کیا کہ میں نے اپنے کان اُدھر لگا دئیے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ تم کو ایک قمیص پہنائے گا، میری امت کے لوگ تم سے مطالبہ کریں گے کہ تم اس قمیض کو اتار دو، مگر تم نے وہ قمیص نہیں اتارنی۔ جب میں نے دیکھا کہ عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوگوں کی ہربات کو پورا کرتے آرہے ہیں، البتہ اس خلافت سے دست بردار نہیں ہورہے تو میں جان گئی کہ یہ وہی بات اور عہد ہے، جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے کیا تھا۔

Haidth Number: 12240
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں یہود و نصاریٰ کو جزیرۂ عرب سے اس حد تک نکال دوں گا اور یہاں صر ف مسلمانوں کو باقی چھوڑوں گا۔

Haidth Number: 12712
Haidth Number: 12713
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے علی! میرے بعد اگر تمہیں سر براہی ملے تو اہل نجران کو جزیرۂ عرب سے نکال باہر کرنا۔

Haidth Number: 12714
سیدنا ابوعبیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آخری گفتگو یہ تھی کہ تم حجاز اہل نجران کے یہودیوں کو جزیرۂ عرب سے نکال دینا اور یاد رکھو کہ سب سے برے لوگ وہ ہیں،جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔

Haidth Number: 12715
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اصل ایمان تو اہل حجاز میں ہے اور دلوں کی سختی اور شدت اہل مشرق کے اونٹوں کے مالکوں میں ہے۔

Haidth Number: 12716