Blog
Books
Search Hadith

ایک مشرک کے فدیے میں دو مسلمان لینے کا بیان ان قیدیوں کا بیان جنھوں نے اپنے فدیے میں انصاریوں کے بچوں کو کتابت کی تعلیم دی

51 Hadiths Found
۔ سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو عقیل کے ایک مشرک کے فدیے میں دو مسلمان لیے تھے۔

Haidth Number: 5093
۔ سیدنا عبد للہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ بدر والے بعض قیدیوں کے پاس اپنے فدیے کے طور پر دینے کی کوئی چیز نہیں تھی، اس لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس چیز کو ان کا فدیہ قرار دیا کہ وہ انصاری بچوں کو کتابت کی تعلیم دے دیں، ایک دن ان میں سے ایک بچہ روتا ہوا اپنے باپ کے پاس آیا، اس نے پوچھا: بیٹا! تجھے کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا: میرے استاد نے مجھے مارا ہے، اس نے کہا: خبیث، یہ بدر کا انتقام لینا چاہتا ہے، اللہ کی قسم! تو نے اس کے پاس کبھی بھی نہیں جانا۔

Haidth Number: 5094
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ مسلمانوں نے غزوۂ خندق کے موقع پر ایک مشرک قتل کر دیا، انھوں نے اس کی لاش کے عوض مال دینا چاہا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: ان کی لاش ان کے سپرد کر دو، یہ لاش بھی خبیث ہے اور اس کا عوض بھی خبیث ہے۔ پس ٓپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے عوض ان سے کچھ وصول نہ کیا۔

Haidth Number: 5095
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ غزوۂ خندق کے موقع پر ایک مشرک قتل ہو گیا، اُن لوگوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے اس آدمی کو دفنانا چاہتے ہیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، تمہارے لیے کوئی کرامت اور عزت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا: ہم اس کے عوض آپ کو کچھ دے دیتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ تو بہت خبیث چیز ہو گی، بلکہ سب سے زیادہ خبیث ہو گی۔

Haidth Number: 5096
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ادھار پر حیوان کے عوض حیوانیعنی دو کے بدلے ایک جانور کی بیع کرنے سے منع فرمایا ہے، اگر نقد و نقد ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔

Haidth Number: 5997
۔ سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ادھار پر حیوان کے عوض حیوان کی تجارت کرنے سے منع کیا ہے۔

Haidth Number: 5998
Haidth Number: 5999
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا صفیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا دحیہ کلبی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حصہ میں آ گئی تھیں، کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک خوبصورت لونڈی سیدنا دحیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حصہ میں آ گئی ہے، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے سات افرادکے عوض خرید لیا تھا۔

Haidth Number: 6000
۔ عمر بن حریش کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمروبن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھا کہ ہم ایک ایسے علاقے میں ہیں کہ جہاں دینارہے نہ درہم، اس لیے ہم ادھار کی ایک مدت تک کے لئے اونٹ اور بکریوں کا لین دین کرتے ہیں، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تو نے اس مسئلہ کے بارے میں باخبر آدمی سے سوال کیا ہے، بات یہ ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صدقہ کے اونٹوں سے ایک لشکر تیار کیا، مگر ابھی تک تیاری مکمل نہ ہوئی تھی کہ اونٹ ختم ہوگئے، جبکہ لوگوں کی ضرورت ابھی تک باقی تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: ہمارے لئے صدقہ کی اونٹنیوں کے عوض اونٹ خرید لو،جب میسر آئیں گی تو ہم مالکان کو ادا کردیں گے۔ پھر میں نے دو تین تین اونٹنیوں کے عوض ایک ایک اونٹ خریدا،یہاں تک کہ تعداد مکمل ہو گئی، پھر جب صدقہ کے اونٹ آئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ ادا کر دیئے۔

Haidth Number: 6001

۔ (۸۵۵۹)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَ نَّ رَجُلًا أَ تَاہُ فَقَالَ: أَ رَأَ یْتَ رَجُلًا قَتَلَ رَجُلًا مُتَعَمِّدًا؟ قَالَ: {جَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہُ وَأَ عَدَّ لَہُ عَذَابًا عَظِیمًا} [النسائ: ۹۳] قَالَ: لَقَدْ أُنْزِلَتْ فِی آخِرِ مَا نَزَلَ، مَا نَسَخَہَا شَیْئٌ حَتّٰی قُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَمَا نَزَلَ وَحْیٌ بَعْدَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: أَ رَأَ یْتَ إِنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدٰی؟ قَالَ: وَأَ نّٰی لَہُ بِالتَّوْبَۃِ؟ وَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((ثَکِلَتْہُ أُمُّہُ، رَجُلٌ قَتَلَ رَجُلًا مُتَعَمِّدًا یَجِیئُیَوْمَ الْقِیَامَۃِ آخِذًا قَاتِلَہُ بِیَمِینِہِ أَ وْ بِیَسَارِہِ، وَآخِذًا رَأْسَہُ بِیَمِینِہِ أَ وْ شِمَالِہِ، تَشْخَبُ اَوْدَاجُہُ دَمًا قِبَلَ الْعَرْشِ، یَقُوْلُ: یَا رَبِّ سَلْ عَبْدَکَ فِیْمَ قَتَلَنِیْ۔)) (مسند احمد: ۲۱۴۲)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور اس نے کہا: اس بارے میں بتائیں ایک آدمی دوسرے آدمی کو جان بوجھ کو قتل کر دیتا ہے (اس کی کیا سزا ہے)؟ انھوں نے کہا: {جَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہُ وَأَ عَدَّ لَہُ عَذَابًا عَظِیمًا} … اس کا بدلہ جہنم ہے، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا، اللہ تعالی نے اس پر لعنت کی اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کیا ہے۔ یہ آیت سب سے آخر میں اتری ہے، کسی آیت نے اس کو منسوخ نہیں کیا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات تک یہی حکم باقی رہا، اس کے بعد اس بارے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی۔ اس آدمی نے کہا: اگر وہ توبہ کر لے، ایمان مضبوط کر لے اورنیک عمل کرے اور ہدایتیافتہ ہو جائے تو؟ انھوں نے کہا:اس کی توبہ کیسے قبول ہوگی، جبکہ میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اس کی ماں اسے گم پائے، ایک آدمی دوسرے آدمی کو جان بوجھ کر قتل کرتا ہے، وہ مقتول روزِ قیامت اس حال میں آئے گا کہ اس نے دائیںیا بائیں ہاتھ سے اپنے قاتل کو پکڑا ہوگا اور اسے سر سے بھی پکڑ رکھا ہوگا، اس وقت مقتول کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ اس کو عرش کے سامنے لے آئے گا اور کہے گا: اے میرے رب! اپنے اس بندے سے پوچھو اس نے مجھے کس وجہ سے قتل کیا تھا۔

Haidth Number: 8559

۔ (۱۰۶۲۱)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: لَمَّا ھَاجَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَرْکَبُ وَأَبُوْ بَکْرٍ رَدِیْفُہُ وَکَانَ أَبُوْ بَکْرٍ یُعْرَفُ فِی الطَّرِیْقِ لِاِخْتِلَافِہِ اِلَی الشَّامِ وَکَانَ یَمُرُّ بِالْقَوْمِ فَیَقُوْلُوْنَ: مَنْ ھٰذَا بَیْنَیَدَیْکَیَا أَبَا بَکْرٍ؟ فَیَقُوْلُ: ھَادٍ یَھْدِیْنِیْ فَلَمَّا دَنَوْا مِنَ الْمَدِیْنَۃِ بَعَثَ اِلَی الْقَوْمِ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا مِنَ الْأَنْصَارِ اِلَی أَبِیْ اُمَامَۃَ وَأَصْحَابِہٖفَخَرَجُوْااِلَیْھِمَا فَقَالُوْا: ادْخُلَا آمِنَیْنِ مُطَاعَیْنِ فَدَخَلَا، قَالَ أَنَسٌ: فَمَا رَأَیْتُیَوْمًا قَطُّ أَنْوَرَ وَلَا اَحْسَنَ مِنْ یَوْمٍ دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَبُوْ بَکْرٍ الْمَدِیْنَۃَ، وَشَھِدْتُ وَفَاتَہُ فَمَا رَأَیْتُیَوْمًا قَطُّ أَظْلَمَ وَلَا اَقْبَحَ مِنَ الْیَوْمِ الَّذِیْ تُوُفِّیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۲۵۹)

۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہجرت کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سوار تھے اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ کے ردیف تھے، راستے میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پہچان لیا جاتا تھا، کیونکہ وہ شام آتے جاتے وقت اس راستے والے لوگوں کے پاس سے گزرتے رہتے تھے، اس لیے لوگوں نے پوچھا: اے ابو بکر! یہ آپ کے آگے والا آدمی کون ہے؟ وہ کہتے: یہ میری رہنمائی کرنے والا رہبر ہے، جب وہ مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انصاری قبیلے کے مسلمان ہونے والے لوگوں کو اور ابو امامہ اور اس کے ساتھیوں کو پیغام بھیجا، وہ لوگ آ گئے اور انھوں نے کہا: آپ دونوں امن و اطمینان کے ساتھ داخل ہوں، پس وہ داخل ہوئے، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے کوئی دن نہیں دیکھا، جو زیادہ نور اور حسن والا ہو، اس دن کی بہ نسبت، جس دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مدینہ منورہ تشریف لائے، اور چونکہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے موقع پر بھی مدینہ میں موجود تھا، اس لیے میں نے کوئی دن نہیں دیکھا، جو زیادہ اندھیرے اور قباحت والا ہو، اس دن سے جس دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات پائی تھی۔

Haidth Number: 10621
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آمد پر خوشی کا اظہار کرنے کے لیے حبشی لوگ جنگی آلات کے ساتھ کھیلے۔

Haidth Number: 10622
Haidth Number: 10623

۔ (۱۰۶۲۴)۔ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: اِنِّیْ لَاَسْعٰی فِی الْغِلْمَانِ یَقُوْلُوْنَ: جَائَ مُحَمَّدٌ، فَأَسْعٰی فَـلَا أَرٰی شَیْئًا، ثُمَّّ یَقُوْلُوْنَ: جَائَ مُحَمَّدٌ، فَأَسْعٰی فَـلَا أَرٰی شَیْئًا ، قَالَ: حَتّٰی جَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَصَاحِبُہُ أَبُوْ بَکْرٍ فَکُنَّا فِیْ بَعْضِ حِرَارِ الْمَدِیْنَۃِ ثُمَّّ بَعَثَنَا رَجُلٌ مِنْ أَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ لِیُؤَذِّنَ بِھِمَا الْاَنْصَارَ فَاسْتَقْبَلَھُمَا زُھَائَ خَمْسِمِائَۃٍ مِنَ الْأَنْصَارِ حَتَّی اِنْتَھُوْ اِلَیْھِمَا فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: اِنْطَلِقَا آمِنَیْنِ مُطَاعَیْنِ، فَأَقْبَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَصَاحِبُہُ بَیْنَ أَظْھُرِھِمْ فَخَرَجَ أَھْلُ الْمَدِیْنَۃِ حَتّٰی اِنَّ الْعَوَاتِقَ لَفَوْقَ الْبُیُوْتِیَتَرَائَیْنَہُیَقُلْنَ: اَیُّھُمْ ھُوَ؟ اَیُّھُمْ ھُوَ؟ قَالَ: رَأَیْنَا مَنْظَرًا مُشْبِھًا بِہٖیَوْمَئِذٍ، قَالَ أَنَسٌ: وَلَقَدْ رَأَیْتُہُیَوْمَ دَخَلَ عَلَیْنَا وَیَوْمَ قُبِضَ فَلَمْ اَرَ یَوْمَیْنِ مُشْبِھًا بِھِمَا۔ (مسند احمد: ۱۳۳۵۱)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں بچوں میں دوڑ کر آتا اور ہم یہ کہہ رہے ہوتے: محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) آ گئے ہیں، پس میں دوڑ کر آتا، لیکن کوئی شخص نظر نہ آتا، پھر جب بچوں کو یہ کہتے ہوئے سنتا: محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) آ گئے ہیں تو میں دوڑ کر آتا، لیکن کوئی چیز نظر نہ آتی، بالآخر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھی سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آ گئے، ہم اس وقت مدینہ کے بعض حرّوں میں تھے، پھر ایک آدمی نے ہمیں بھیجا تاکہ انصاریوں کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی آمد کا بتایا جائے، پس تقریباً پانچ سو انصاری آئے اور ان دو ہستیوںکے پاس پہنچ گئے اور کہا: تم دونوں امن و اطمینان کے ساتھ آگے بڑھو، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھی دونوں مدینہ منورہ کی طرف متوجہ ہوئے، اُدھر سے اہل مدینہ نکل پڑے، یہاں تک کہ کنواری لڑکیاں گھروں کے چھتوں پر چڑھ گئیں اور کہنے لگیں: ان میں محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کون ہیں؟ ان میں محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کون ہیں؟ ہم نے اس دن ایسا منظر دیکھا کہ جس کی (مسرت و شادمانی میں) کسی سے مشابہت ہی نہیں دی جا سکتی۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جس دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے تھے، میں نے وہ دن بھی دیکھا تھا، اور جس دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات پائی تھی، پس اس دن بھی میں نے ایسا منظر دیکھا کہ جس کی (غم و حزن میں) کسی سے مشابہت ہی نہیں دی جا سکتی۔

Haidth Number: 10624

۔ (۱۰۶۲۵)۔ عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ عَنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیِّ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِیْنَۃَ اِقْتَرَعَتِ الْأَنْصَارُ أَیُّھُمْیَأْوِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَرَعَھُمْ أَبُوْ أَیُّوْبَ فَآوٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکَانَ اِذَا اُھْدِیَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم طَعَامٌ اُھْدِیَ لِأَبِیْ اَیُّوْبَ قَالَ: فَدَخَلَ أَبُوْ أَیُّوْبَیَوْمًا فَاِذَا قَصْعَۃٌ فِیْھَا بَصَلٌ فَقَالَ: مَا ھٰذَا؟ فَقَالُوْا: أَرْسَلَ بِھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَاطَّلَعَ أَبُوْ أَیُّوْبَ اِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا مَنَعَکَ مِنْ ھٰذِہِ الْقَصْعَۃِ قَالَ: ((رَأَیْتُ فِیْھَا بَصَلًا۔)) قَالَ: وَلَا یَحِلُّ لَنَا الْبَصَلُ؟ قَالَ: ((بَلٰی فَکُلُوْہُ وَلٰکِنْ یَغْشَانِیْ مَا لَایَغْشَاکُمْ)) وَقَالَ حَیْوَۃُ: ((اِنَّہُیَغْشَانِیْ مَا لَایَغْشَا کُمْ۔)) (مسند احمد: ۲۳۹۰۳)

۔ سیدنا ابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو انصاریوں نے آپس میں قرعہ اندازی کی کہ کون رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سب سے پہلے جگہ دے گا، قرعہ میں سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا نام نکلا، پس انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنے ہاں ٹھہرایا، پھر جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کھانے کا ہدیہ پیش کیا جاتا تھا تو سیدنا ابوایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھی ہدیہ دیا جاتا تھا، ایک دن جب سیدنا ابوایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اندر داخل ہوئے تو ایک پیالے میں پیاز ڈالا ہوا تھا، انھوں نے کہا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھیجا ہے، وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اس پیالے سے کیوں نہیں کھایا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اس میں پیاز دیکھا ہے۔ میں نے کہا: کیایہ ہمارے لیے حلال نہیں ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں، تم اس کو کھا سکتے ہو، بس میرے پاس (وحی اور فرشتوں کی صورت میں) وہ کچھ آتا ہے، جو تمہارے پاس نہیں آتا۔

Haidth Number: 10625

۔ (۱۰۶۲۶)۔ عَنْ أَفْلَحَ مَوْلٰی أَبِیْ أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیِّ عَنْ أَبِیْ أَیُّوْبَ الْأَنْصَارِیِّ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَزَلَ عَلَیْہِ فَنَزَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَسْفَلَ وَأَبُوْ أَیُّوْبَ فِی الْعُلُوِّ، فَانْتَبَہَ أَبُوْ أَیُّوْبَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ فَقَالَ: نَمْشِیْ فَوْقَ رَأْسِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَحََوَّلَ فَبَاتُوْا فِیْ جَانِبٍ، فَلَمَّا أَصْبَحَ ذُکِرَ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَلسُّفْلُ أَرْفَقُ بِیْ۔)) فَقَالَ أَبُوْ أَیُّوْبَ: لَا أَعْلُو سَقِیْفَۃً أَنْتَ تَحْتَھَا فَتَحَوَّلَ أَبُوْ اَیُّوْبَ فِیْ السُّفْلِ وَالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْعُلُوِّ، فَکَانَ یَصْنَعُ طَعَامَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَیَبْعَثُ اِلَیْہِ فَاِذَا رُدَّ اِلَیْہِ سَأَلَ عَنْ مَوْضِعِ أَصَابِعِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَیَتْبَعُ أَثَرَ أَصَابِعِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَیَأْکُلُ مِنْ حَیْثُ أَثَرَ أَصَابِعُہُ، نَصْنَعُ ذَاتَ یَوْمٍ طَعَاماً فِیِْہِ ثَوْمٌ فَأَرْسَلَ بِہٖاِلَیْہِ فَسَأَلَ عَنْ مَوْضِعِ أَثَرِ أَصَابِعِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقِیْلَ لَمْ یَأْکُلْ فَصَعِدَ اِلَیْہِ فَقَالَ: أَ حَرَامٌ ھُوَ؟ فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَکْرَھُہُ۔)) قَالَ: اِنِّیْ أَکْرَہُ مَا تَکَرَہُ أَوْ مَاکَرِھْتَہُ، وَکَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُؤْتٰی۔ (مسند احمد: ۲۳۹۱۴)

۔ سیدنا ابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس اترے تو گھر کے زیریں مقام میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تھے اور بالائی مقام میں سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خود، ایک رات کو جب سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیدار ہوئے تو انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر کے اوپر چل رہے ہیں، پس انھوں نے اپنی جگہ بدل لی اور کسی ایک جانب رات گزار دی، جب صبح ہوئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات بتلائی گئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زیریں منزل میرے لیے زیادہ سہولیت آمیز ہے۔ لیکن سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں اس چھت پر نہیں چڑھوں گا، جس کے نیچے اللہ کے رسول ہوں، پس سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نچلی منزل میں آ گئے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اوپر والی منزل میں تشریف لے گئے، چونکہ سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے کھانا تیار کرتے تھے، اس لیے جب وہ کھانا بھیجتے اور کھانا بچ کر واپس آ جاتا تو وہ کھانے کے اس مقام کے بارے میں سوال کرتے، جہاں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی انگلیاں لگی ہوتیں، پھر وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی انگلیوں کے نشان کو تلاش کرتے اور وہاں سے کھاتے، روٹین کے مطابق ایک دن ہم نے کھانا تیار کیا، اس میں لہسن بھی تھا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھائے بغیر وہ کھانا واپس بھیج دیا، سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی انگلیوں کے مقام کے بارے میں سوال کیا، لیکن جب ان کو یہ بتلایا گیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو کھایا ہی نہیں ہے، تو وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف چڑھے اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیایہ حرام ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اس کو ناپسند کرتاہوں۔ انھوں نے کہا: تو پھر جو چیز آپ ناپسند کرتے ہیں، میں بھی اس کو ناپسند کروں گا، دراصل آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس (وحی اور فرشتے) آتے تھے، (اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکروہ بو والا کھانا نہیں کھاتے تھے، جیسے پیاز، لہسن وغیرہ)۔

Haidth Number: 10626
معقل بن یسار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ حدیبیہ کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ حاضر تھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب لوگوں سے بیعت لے رہے تھے تو یہ اپنے ہاتھوں سے درخت کی شاخوں میں سے ایک شاخ کو پکڑ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سر مبارک سے اوپر کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ صحابہ کرام نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بات کی بیعت کی تھی کہ وہ میدان سے فرار نہیں ہوں گے، اس روز صحابہ کی تعداد ایک ہزار چارسو تھی۔

Haidth Number: 10795
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ حدیبیہ کے دن ہماری تعداد چودہ سو تھی، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ تھاما ہوا تھا، کیکریا ببول کے درخت کے نیچے ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بات کی بیعت کی تھی کہ ہم میدان سے فرار نہ ہوں گے، ہم نے موت پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت نہیں کی تھی۔

Haidth Number: 10796

۔ (۱۰۷۹۷)۔ عَنِ جَابِرٍ قَالَ: کَانَ الْعَبَّاسُ آخِذًا بِیَدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُوَاثِقُنَا، فَلَمَّا فَرَغْنَا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَخَذْتُ وَأَعْطَیْتُ۔)) قَالَ: فَسَأَلْتُ جَابِرًا یَوْمَئِذٍ: کَیْفَ بَایَعْتُمْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَعَلَی الْمَوْتِ؟ قَالَ: لَا، وَلٰکِنْ بَایَعْنَاہُ عَلٰی أَنْ لَا نَفِرَّ، قُلْتُ لَہُ: أَ فَرَأَیْتَیَوْمَ الشَّجَرَۃِ؟ قَالَ: کُنْتُ آخِذًا بِیَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ حَتّٰی بَایَعْنَاہُ، قُلْتُ: کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ: کُنَّا أَرْبَعَ عَشَرَ مِائَۃً، فَبَایَعْنَاہُ کُلُّنَا إِلَّا الْجَدَّ بْنَ قَیْسٍ اخْتَبَأَ تَحْتَ بَطْنِ بَعِیرٍ، وَنَحَرْنَا یَوْمَئِذٍ سَبْعِینَ مِنَ الْبُدْنِ لِکُلِّ سَبْعَۃٍ جَزُورٌ۔ (مسند احمد: ۱۵۳۳۲)

سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہم سے بیعت لے رہے تھے، جب ہم بیعت سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تم لوگوں سے بیعت لے چکا اور اللہ کا دین اور اس کے وعدے تمہیں دے چکا۔ ابو زبیر کہتے ہیں: میں نے سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ اس دن آپ لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کس قسم کی بیعت کی تھی؟ کیا موت کی بیعت تھی؟ انہوں نے کہا: نہیں، ہم نے آپ سے اس بات کی بیعت کی تھی کہ ہم فرار نہیں ہوں گے۔ میں نے کہا: درخت والے دن کے متعلق بھی بتلائیں،انہوں نے کہا:اس د ن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا، میں نے دریافت کیا: اس دن آپ لوگوں کی تعداد کتنی تھی؟ انھوں نے کہا: ہم چودہ سو تھے، جد بن قیس کے سوا باقی سب لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، وہ اونٹ کے پیٹ کے پیچھے چھپ گیا تھا، اس دن ہم نے ستر اونٹ نحر کئے تھے، ہر سات آدمیوں کی طرف سے ایک اونٹ۔

Haidth Number: 10797
ابو زبیر نے بیان کیا کہ انہوں نے سنا کہ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا گیا تھا کہ آیا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ذوالحلیفہ کے مقام پر بیعت لی تھی؟ انہوں نے کہا: نہیں، البتہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں نماز ادا کی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر درخت کے قریب بیعت ضرور لی تھی۔ ابو زبیر نے ہمیں خبر دی کہ انہوں نے سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سنا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حدیبیہ کے کنوئیں پر دعا کی تھی۔

Haidth Number: 10798
سیدنا عبداللہ بن مغفل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، یہ صحابی ان لوگوں میں سے ہیں جن کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی تھی: {وَلَا عَلَی الَّذِینَ إِذَا مَا أَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ} … اور نہ ان لوگوں پر کہ جب وہ آپ کے پاس آئے، تاکہ آپ ان کو سوار کریں۔ (سورۂ توبہ: ۹۲)، یہ صحابی بیان کرتے ہیں کہ ( حدیبیہ کے دن) صحابہ کرام ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کر رہے تھے اور میں درخت کی ایک شاخ پکڑے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر سایہ کئے ہوئے تھا، صحابہ نے کہا: ہم موت پر آپ کی بیعت کرتے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم اس بات کی بیعت کرو کہ میدان سے فرار اختیار نہیں کرو گے۔

Haidth Number: 10799
سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں نے (حدیبیہ میں دوسرے لوگوں کے ساتھ) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی تھی، لیکن پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن اکوع! کیا تم بیعت نہیں کرو گے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں تو آپ کی بیعت کر چکا ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پھر کرو۔ میں نے عرض کی: جی میںکس چیز پر بیعت کروں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: موت پر۔

Haidth Number: 10800
۔( دوسری سند) یزید بن ابی عبید سے مروی ہے کہ میں نے سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا:آپ لوگوں نے حدیبیہ کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کس بات پر بیعت کی تھی؟ انہوں نے کہا: موت پر۔

Haidth Number: 10801
سعید بن مسیب اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، ان کے باپ ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے درخت کے نیچے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت ِ رضوان کی تھی۔ انہوں نے کہا: جب ہم اگلے سال حج کے ارادے سے گئے تو اس درخت کی جگہ پہنچاننا ہمارے لیے مشکل ہو گیا۔( یعنییہ معلوم کرنا مشکل ہو گیا کہ ہم نے کس جگہ اور کس درخت کے نیچے بیعت کی تھی؟) اگر وہ جگہ تمہارے لیے واضح ہو گئی تو تم ہی پھر اس کے بارے میں بہتر جانتے ہو گے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابی کا بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں تو اگلے سال بھی اس درخت اور اس کی جگہ کا یقینی علم نہ ہو سکا۔ اگر کسی بعد والے شخص کو اس کا علم ہوا ہے تو پھر اس کا علم تو ہم سے زیادہ ہوا نا۔ مطلب یہ ہے کہ اس کا یقینی علم کسی کو نہیں۔ (عبداللہ رفیق)

Haidth Number: 10802
۔(دوسری سند) طارق بن عبدالرحمن سے مروی ہے کہ سعید بن مسیب کے سامنے بیعت والے درخت کا ذکر کیا گیا،انہوں نے کہا: مجھے میرے والد نے بیان کیا کہ اس سال ( یعنی حدیبیہ والے سال) وہ بھی صحابہ کے ساتھ تھے، لیکن جب وہ صحابہ کے ساتھ اگلے سال گئے تو وہ اس درخت کو بھول چکے تھے۔

Haidth Number: 10803
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ حدیبیہ کے دن ہماری تعداد چودہ سو تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں فرمایا: تم آج روئے زمین کے تمام لوگوں سے افضل ہو۔

Haidth Number: 10804
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔

Haidth Number: 10805
سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو مکہ مکرمہ بھیجا تھا، ان کے جانے کے بعد بیعتِ رضوان ہوئی تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس بیعت کے دوران اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا: یہ عثمان کی طرف سے ہے۔

Haidth Number: 10806

۔ (۱۰۸۰۷)۔ حَدَّثَنَا یَزِیدُ حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ: أَنَّ شُرَحْبِیلَ بْنَ سَعْدٍ أَخْبَرَہُ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ الْحُدَیْبِیَۃِ حَتّٰی نَزَلْنَا السُّقْیَا، فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: مَنْ یَسْقِینَا فِی أَسْقِیَتِنَا؟ قَالَ جَابِرٌ: فَخَرَجْتُ فِی فِئَۃٍ مِنَ الْأَنْصَارِ حَتّٰی أَتَیْنَا الْمَائَ الَّذِی بِالْأُثَایَۃِ وَبَیْنَہُمَا قَرِیبٌ مِنْ ثَلَاثَۃٍ وَعِشْرِینَ مِیلًا، فَسَقَیْنَا فِی أَسْقِیَتِنَا حَتّٰی إِذَا کَانَ بَعْدَ عَتَمَۃٍ إِذَا رَجُلٌ یُنَازِعُہُ بَعِیرُہُ إِلَی الْحَوْضِ، فَقَالَ: أَوْرِدْ فَإِذَا ہُوَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَوْرَدَ، ثُمَّ أَخَذْتُ بِزِمَامِ نَاقَتِہِ فَأَنَخْتُہَا، فَقَامَ فَصَلَّی الْعَتَمَۃَ، وَجَابِرٌ فِیمَا ذَکَرَ إِلٰی جَنْبِہِ، ثُمَّ صَلّٰی بَعْدَہَا ثَلَاثَ عَشْرَۃَ سَجْدَۃً۔ (مسند احمد: ۱۵۱۳۰)

سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ حدیبیہ سے واپس ہوئے تو ہم نے سقیا کے مقام پر نزول کیا۔(وہاں پانی کی قلت تھی) سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کون ہے جو ہمیں پانی پلائے گا؟ پس میں چند انصاری نوجوانوں کو لے کر روانہ ہوا، یہاں تک کہ ہم مقامِ اثایہ کے پانی پر پہنچے، جو وہاں سے تقریباً تئیس( ۲۳) میل دور تھا اور ہم اپنے مشکیزے بھر لائے، رات کا اندھیرا چھا چکا تھا، ہم نے دیکھا کہ ایک آدمی کو اس کا اونٹ پانی کے حوض کی طرف کھینچ رہا تھا، اس نے بھی کہاکہ پی لے۔ ہم نے دیکھا تو وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تھے، چنانچہ اس اونٹ نے پانی پیا، پھر میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اونٹنی کی مہار پکڑ کر اسے بٹھا دیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں کھڑے ہو کر عشاء کی نماز ادا کی، سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بیان کے مطابق انہوں نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پہلو میں نماز ادا کی، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تیرہ رکعت (رات کا قیام ) کیا تھا۔

Haidth Number: 10807
سیدنا سائب بن یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:حجۃ الوداع میں، جبکہ میری عمر سات برس تھی، میرے والد نے مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں مجھے حج کرایا۔

Haidth Number: 11712