Blog
Books
Search Hadith

گنہگار مومنوں کو قبر میں عذاب ہونے اور اس کو ہلکا کرنے والے امور کا بیان اور اس چیز کی وضاحت کہ یہ عذاب زیادہ پیشاب کی وجہ سے ہوتا ہے

742 Hadiths Found
سیّدنا یعلی بن سیابہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اسی قسم کی روایت بیان کی ہے۔

Haidth Number: 3322
سیّدناابوبکرہ نفیع بن حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ چل رہا تھا،جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور ایک آدمی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بائیں جانب چل رہا تھا، اچانک دو قبریں ہمارے سامنے آ گئیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور انہیں یہ عذاب کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں ہو رہا، البتہ (یہ گناہ ہیں کبیرہ)، تم میں سے کون آدمی چھڑی لائے گا۔)) یہ سن کر ہم دونوں لپکے، لیکن میں سبقت لے گیا اورچھڑی لے آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے دو حصوںمیں تقسیم کر کے ایک حصہ ایک قبر پر اور دوسرا دوسری قبر پر رکھ دیا اورفرمایا: جب تک یہ تر رہیں گی، تب تک ان کے عذاب میں کمی کی جائے گی اور ان کو عذاب پیشاب اور چغلی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

Haidth Number: 3323
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عورت میرے پاس آئی اور کہا:پیشاب کی وجہ سے قبر کا عذاب ہوتا ہے۔ میں نے کہا: تم غلط کہتی ہو، اس نے کہا: بات ایسے ہی ہے، بلکہ ہم تو

Haidth Number: 3324
سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زیادہ تر پیشاب کی وجہ سے عذابِ قبر ہوتا ہے۔

Haidth Number: 3325

۔ (۳۳۲۶) عَنْ أَبِی أُماَمَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: مَرَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی یَوْمٍ شَدِیْدِ الْحَرِّ نَحْوَ بَقِیْعِ الْغَرْقَدِ، قَالَ: فَکَانَ النَّاسُ یَمْشُوْنَ خَلْفَہُ، قَالَ: فَلَمَّا سَمِعَ صَوْتَ النِّعَالِ وَقَرَ ذَالِکَ فِی نَفْسِہِ، فَجَلَسَ حَتّٰی قَدَّمَہُمْ أَمَامَہُ لِئَلاَّ یَقَعَ فِیْ نَفْسِہِ مِنَ الْکِبْرِ فَلَمَّا مَرَّ بِبَقِیْعِ الْغَرْقَدِ، إِذَا بِقَبْرِیْنَ قَدْ دَفَنُوْا فِیْہِمَا رَجُلَیْنِ، قَالَ: فَوَقَفَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَنْ دَفَنْتُمْ ہَاہُنَا الْیَوْمَ؟)) قَالُوْا: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! فُلَانٌ وَ فُلَانٌ، قَالَ: ((إِنَّہُمَا لَیَعُذَبَّاَنِ الْآنَ وَیُفْتَنَانِ فِی قَبْرَیْہِمَا۔)) قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فِیْمَ ذَالکَ؟ قَالَ: ((أَمَّا أَحَدُہُمَا فَکَانَ لَایَسْتَنْزِہُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَکَانَ یَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَۃِ۔)) وَأَخَذَ جَرِیْدَۃً رَطْبَۃً، فَشَقَّہا ثُمَّ جَعَلَہَا عَلَی الْقَبْرَیْنِ، قَالُوْا: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! وَلِمَ فَعَلْتَ؟ قَالَ: ((لَیُخَفَّفَنَّ عَنْہُمَا۔)) قَالُوْا: یَا نَبِیَّ اللّٰہُ! وَحَتَّی مَتٰی یُعَذِّبُہُمَا اللّٰہُ؟ قَالَ: ((غَیْبٌ لَا یَعْلَمُہُ إِلَّا اللّٰہُ وَلَولَا تََمْرِیْغُ قُلُوْبِکُمْ أَوْ تَزَیُّدُکُمْ فِی الْحَدِیْثِ لَسَمِعْتُمْ مَا اَسْمَعُ۔)) (مسند احمد: ۲۲۶۴۸)

سیّدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سخت گرمی والے ایک دن میں بقیع الغرقد کی جانب سے گزرے، لوگ آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کے جوتوں کی آہٹ سنی تو یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر گراں گزرا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہیں بیٹھ گئے، یہاں تک کہ لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آگے گزر گئے، تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دل میں تکبر پیدا نہ ہو۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بقیع الغرقد کے پاس سے گزرے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو قبریں دیکھیں، لوگوں نے ان میں دو آدمیوں کو دفن کیا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں رک گئے اور پوچھا: آج تم نے یہاں کن لوگوں کو دفن کیا ہے؟ صحابہ نے بتایا : اے اللہ کے نبی ! یہ فلاں دو آدمی ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کو اس وقت قبروں میں عذاب ہو رہا ہے۔ صحابہ نے پوچھا : اے اللہ کے رسول! انہیں عذاب دیئے جانے کی کیا وجہ ہے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان میں سے ایک آدمی پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک تر چھڑی لے کر اسے چیرا اور دونوں قبروں پر ان کو رکھ دیا۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے نبی! آپ نے یہ کام کس لیے کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کی وجہ سے ان کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! اللہ تعالیٰ ان کو کب تک عذاب دے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ غیب کی بات ہے، جسے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تمہارے دلوں کی بدلتی کیفیات یا بہت زیادہ گفتگو نہ ہوتی تو تم بھی وہ کچھ سنتے جو میں سنتا ہوں۔

Haidth Number: 3326
سیّدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے اور فرمایا: میرے پاس دو چھڑیاں لائو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک کو اس کے سرہانے اور دوسری کو پائنتی کی طرف رکھ دیا، کسی نے کہا:اے اللہ کے نبی! کیا اس سے میت کو فائدہ پہنچے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس وقت تک عذابِ قبر میں کچھ تخفیف رہے گی، جب تک ان میں تری رہے گی۔

Haidth Number: 3327
‘عبد اللہ بن یسار کہتے ہیں: میں سیّدناسلیمان بن صرد اور سیّدناخالد بن عرفطہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا، لوگوں نے بتایا کہ فلاں آدمی پیٹ کی بیماری کی وجہ سے فوت ہو گیا ہے،انہوں نے اس کی نماز جنازہ ادا کرنی چاہی اور ایک نے دوسرے سے کہا: کیا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایسے فرمایا تھا کہ جو آدمی پیٹ کی بیماری کی وجہ فوت ہو جائے اس کو ہرگز قبر میں عذاب نہیں دیا جائے گا۔ ؟ دوسرے نے کہا: جی ہاں فرمایا ہے۔

Haidth Number: 3328

۔ (۳۳۹۰) عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: بَعَثَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُصَدِّقًا عَلٰی بَلِیٍّ وَعُذْرَۃَ، وَجَمِیْعِ بَنِی سَعْدِ بْنِ ہُذَیْمِ ابْنِ قُضَاعَۃَ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: مِنْ قُضَاعَۃَ) قَالَ: فَصَدَّقْتُہُمْ حَتّٰی مَرَرْتُ بِآخِرِ رَجُلٍ مِنْہُمْ، وَکَانَ مَنْزِلُہُ وَبَلَدُہُ مِنْ أَقْرَبِ مَنَازِلِہِمْ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْمَدِیْنَۃِ، قَالَ: فَلَمَّا جَمَعَ إِلَیَّ مَالَہُ لَمْ أَجِدْ عَلَیْہِ فِیْہَا إِلَّا ابْنَۃَ مَخَاضٍ یَعْنِی فَأَخْبَرْتُہُ أَنَّہَا صَدَقَتُہُ، قَالَ: فَقَالَ: ذَاکَ مَا لَا لَبَنَ فِیْہِ وَلَا ظَہْرَ، وَأَیْمُ اللّٰہِ، مَا قَامَ فِی مَالِی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَا رَسُوْلٌ لَہُ قَطُّ قَبْلَکَ، وَمَا کُنْتُ لِأُقْرِضَ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَاَلٰی مِنْ مَالِی مَا لَا لَبَنَ فِیْہِ وَلَا ظَہْرَ وَلٰکِنْ ہٰذِہِ نَاقَۃٌ فَتِیَّۃٌ سَمِیْنَۃٌ فَخُذْہَا، قَالَ: قُلْتُ لَہُ: مَا أَنَا بِآخِذٍ مَا لَمْ أُوْمَرْ بِہِ، فَہٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْکَ قَرِیْبٌ فَإِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ تَأْتِیَہُ فَتَعْرِضَ عَلَیْہِ مَا عَرَضْتَ عَلَیَّ فَافْعَلْ، فَإِنْ قَبِلَہُ مِنْکَ قَبِلَہُ، وَإِنْ رَدَّہُ عَلَیْکَ رَدَّہُ، قَالَ فَاِنِّیْ فَاعِلٌ، قَالَ فَخَرَجَ مَعِی وَخَرَجَ بِالنَّاقَۃِ التَّیِ عَرَضَ عَلَیَّ حَتّٰی قَدِمْنَا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہُ! أَتَانِی رَسُوْلُکَ لِیَأْخُذَ مِنِّی صَدَقَۃَ مَالِی، وَأَیْمُ اللّٰہِ! مَا قَامَ فِی مَالِی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَا رَسُوْلٌ لَہٗ قَطُّ فَجَمَعْتُ لَہُ مَالِی فَزَعَمَ أَنْ عَلَیَّ فِیْہِ ابْنَۃَ مَخَاضٍ وَذَالِکَ مَا لَا لَبَنَ فِیْہِ وَلَا ظَہْرَ، وَقَدْ عَرَضْتُ عَلَیْہِ نَاقَۃً فَتِیَّۃً سَمِیْنَۃً لِیَأْخُذُہَا فَأَبٰی عَلَیَّ ذَالِکَ وَقَالَ: ہَا ہِیَ ہَذِہِ قَدْ جِئْتُکَ بِہَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! خُذْہَا، قَالَ: فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ذَالِکَ الَّذِی عَلَیْکَ، فَإِنْ تَطَوَّعْتَ بِخَیْرٍ قَبِلْنَاہُ مِنْکَ وَآجَرَکَ اللّٰہُ فِیْہِ۔)) قَالَ: فَہَا ہِیَ ذِہْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَدْ جِئْتُکَ بِہَا فَخُذْہَا، قَالَ: فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِقَبْضِہَا وَ دَعَا لَہُ فِی مَالِہِ بِالْبَرَکَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۱۶۰۳)

سیدناابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلی، عذرۃ، بنو سعد بن ہذیم بن قضاعہ کے قبائل کی طرف زکوۃ کی وصولی کے لیے بھیجا، میں ان لوگوں سے زکوۃ وصول کی اورجب میں سب سے آخری آدمی کے پاس پہنچا، وہ مدینہ منورہ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب ترین رہائش پذیر تھا، وہ اپنے جانور جمع کر کے میرے پاس لایا تو میں نے دیکھا کہ اس مال پر ایک سالہ اونٹنی کی زکوۃ فرض ہوتی ہے، لیکن جب میں نے اسے یہ مقدار بتائی تو وہ کہنے لگا کہ یہ جانور تو نہ دودھ والا ہے اور نہ سواری کے قابل، اللہ کی قسم! صورتحال یہ ہے کہ آج سے قبل نہ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے مال میں تشریف لائے اور نہ آپ کا کوئی قاصد۔ اب میں اللہ تعالیٰ کو ایسا جانور بطورِ قرضہ نہیں دوں گا، جو نہ دودھ دیتا ہو اور نہ سواری کے قابل ہو، البتہ یہ ایک جوان اور موٹی تازی اونٹنی ہے، تم یہ لے جاؤ، میں نے کہا: میں وہ چیز نہیں لوں گا جس کے لینے کا مجھے حکم نہیں دیا گیا، یہ اللہ کے رسول تمہارے قریب ہی ہیں، اگر تم چاہو تو جو جانور مجھے دینا چاہتے ہو خود جا کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پیش کر دو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مرضی ہے وہ اس کو قبول کر لیں یا واپس کر دیں۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے۔پس وہ اونٹنی ساتھ لے کر میرے ساتھ روانہ ہوا، جب ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تو اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ کا یہ نمائندہ میرے مال کی زکوۃ وصول کرنے کے لیے میرے پاس آیا، اللہ کی قسم! اس سے پہلے نہ اللہ کے رسول میرے مال میں تشریف لائے اور نہ آپ کا کوئی قاصد، میں نے سارے جانور جمع کر کے اس قاصد کے سامنے پیش کر دیئے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس مال پر ایک سالہ اونٹنی کی زکوۃ واجب ہوتی ہے، چونکہ یہ جانور دودھ والا تھا نہ سواری کے قابل، اس لیے میں نے اس کی خدمت میں ایک موٹی تازی اور جوان اونٹنی پیش کی، تاکہ یہ اسے قبول کر لے، لیکن اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا، اے اللہ کے رسول! اب میں خود اسے لے کر آ گیا ہوں، آپ اسے قبول فرمائیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم پر واجب تو یہی (ایک سال) ہی ہے، ہاں اگر تم خوشی سے اس سے عمدہ دینا چاہو تو ہم قبول کر لیں گے اور اللہ تمہیں اس کا اجر دے گا، اس نے کہا:اے اللہ کے رسول! یہ وہ بہتر اونٹنی حاضر ہے، میں اسے اپنے ساتھ لے کر آیا ہوں، آپ اسے قبول فرمائیں، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے لے لینے کا حکم دیا اور اس کے مال میں برکت کی دعا کی۔

Haidth Number: 3390

۔ (۳۳۹۰) عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: بَعَثَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُصَدِّقًا عَلٰی بَلِیٍّ وَعُذْرَۃَ، وَجَمِیْعِ بَنِی سَعْدِ بْنِ ہُذَیْمِ ابْنِ قُضَاعَۃَ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: مِنْ قُضَاعَۃَ) قَالَ: فَصَدَّقْتُہُمْ حَتّٰی مَرَرْتُ بِآخِرِ رَجُلٍ مِنْہُمْ، وَکَانَ مَنْزِلُہُ وَبَلَدُہُ مِنْ أَقْرَبِ مَنَازِلِہِمْ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْمَدِیْنَۃِ، قَالَ: فَلَمَّا جَمَعَ إِلَیَّ مَالَہُ لَمْ أَجِدْ عَلَیْہِ فِیْہَا إِلَّا ابْنَۃَ مَخَاضٍ یَعْنِی فَأَخْبَرْتُہُ أَنَّہَا صَدَقَتُہُ، قَالَ: فَقَالَ: ذَاکَ مَا لَا لَبَنَ فِیْہِ وَلَا ظَہْرَ، وَأَیْمُ اللّٰہِ، مَا قَامَ فِی مَالِی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَا رَسُوْلٌ لَہُ قَطُّ قَبْلَکَ، وَمَا کُنْتُ لِأُقْرِضَ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَاَلٰی مِنْ مَالِی مَا لَا لَبَنَ فِیْہِ وَلَا ظَہْرَ وَلٰکِنْ ہٰذِہِ نَاقَۃٌ فَتِیَّۃٌ سَمِیْنَۃٌ فَخُذْہَا، قَالَ: قُلْتُ لَہُ: مَا أَنَا بِآخِذٍ مَا لَمْ أُوْمَرْ بِہِ، فَہٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْکَ قَرِیْبٌ فَإِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ تَأْتِیَہُ فَتَعْرِضَ عَلَیْہِ مَا عَرَضْتَ عَلَیَّ فَافْعَلْ، فَإِنْ قَبِلَہُ مِنْکَ قَبِلَہُ، وَإِنْ رَدَّہُ عَلَیْکَ رَدَّہُ، قَالَ فَاِنِّیْ فَاعِلٌ، قَالَ فَخَرَجَ مَعِی وَخَرَجَ بِالنَّاقَۃِ التَّیِ عَرَضَ عَلَیَّ حَتّٰی قَدِمْنَا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہُ! أَتَانِی رَسُوْلُکَ لِیَأْخُذَ مِنِّی صَدَقَۃَ مَالِی، وَأَیْمُ اللّٰہِ! مَا قَامَ فِی مَالِی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلَا رَسُوْلٌ لَہٗ قَطُّ فَجَمَعْتُ لَہُ مَالِی فَزَعَمَ أَنْ عَلَیَّ فِیْہِ ابْنَۃَ مَخَاضٍ وَذَالِکَ مَا لَا لَبَنَ فِیْہِ وَلَا ظَہْرَ، وَقَدْ عَرَضْتُ عَلَیْہِ نَاقَۃً فَتِیَّۃً سَمِیْنَۃً لِیَأْخُذُہَا فَأَبٰی عَلَیَّ ذَالِکَ وَقَالَ: ہَا ہِیَ ہَذِہِ قَدْ جِئْتُکَ بِہَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! خُذْہَا، قَالَ: فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ذَالِکَ الَّذِی عَلَیْکَ، فَإِنْ تَطَوَّعْتَ بِخَیْرٍ قَبِلْنَاہُ مِنْکَ وَآجَرَکَ اللّٰہُ فِیْہِ۔)) قَالَ: فَہَا ہِیَ ذِہْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَدْ جِئْتُکَ بِہَا فَخُذْہَا، قَالَ: فَأَمَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِقَبْضِہَا وَ دَعَا لَہُ فِی مَالِہِ بِالْبَرَکَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۱۶۰۳)

سیدناسوید بن غفلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا زکوۃ وصول کرنے والا عامل ہمارے پاس آیا، میں اس کے پاس گیا، وہ یہ کہنے لگا: میری ذمہ داری ہے کہ میں دودھ پیتا جانور نہ لوں، (دوسری بات یہ ہے کہ) زکوۃ سے بچنے کے لیے نہ الگ الگ ریوڑوں کو اکٹھا کیا جائے اور نہ اکٹھے ریوڑ کو الگ الگ کیا جائے، اتنے میں ایک آدمی ان کے ہاں بلند کوہان والی شاندار اونٹنی لے کر آیا،لیکن انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

Haidth Number: 3391
سیدنا صنابحی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صدقہ کے اونٹوں میں ایک بیش قیمت اونٹنی دیکھی تو غصے میں آ کر فرمایا: یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے صدقہ کے دو کم تر اونٹ دے کر ان کے عوض یہ لی ہے۔ یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے۔

Haidth Number: 3392

۔ (۳۳۹۳) عَنْ قُرَّۃَ بنِ دُعْمُوْصٍ النُّمَیْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِیْنَۃَ فَأَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَحَوْلَہُ النَّاسُ فَجَعَلْتُ أُرِیْدُ أَدْنُوْ مِنْہُ فَلَمْ أَسْتَطِعْ فَنَادَیْتُہُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!اِسْتَغْفِرْ لِلْغُلَامِ النُّمَیْرِی، فَقَالَ: ((غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ۔)) قَالَ وَبَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الضَّحَّاکَ بْنَ قَیْسٍ سَاعِیًا، فَلَمَّا رَجَعَ رَجَعَ بِإِبِلٍ جُلَّۃٍ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((أَتَیْتَ ہِلَالَ بْنَ عَامِرَ بْنَ رَبِیْعَۃَ فَاَخَذْتَ جُلَّۃَ أَمْوَالِہِمْ۔)) قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّی سَمِعْتُکَ تَذْکُرُ الْغَزْوَ فَأَحْبَبْتُ أَنْ آتِیَکَ بِإِبِلٍ تَرْکَبُہَا وَتَحْمِلُ عَلَیْہَا،فَقَالَ: ((وَاللّٰہِ! لَلَّذِیْ تَرَکْتَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الَّذِی اَخَذْتَ، اُرْدُدْہَا وَخُذْ مِنْ حَوَاشِی أَمْوَالِہِمْ صَدَقَاتِہِمْ۔)) قَالَ فَسَمِعْتُ الْمُسْلِمِیْنَ یَسَمُّوْنَ تِلْکَ الإِبِلَ الْمَسَانَّ الْمُجَاہِدَاتِ۔ (مسند احمد: ۲۰۹۶۹)

سیدناقرۃ بن دعموص نمیری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں مدینہ منورہ آیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت بہت سے لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے۔ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب جانا چاہتا تھا، لیکن اتنی ہمت نہیں ہوئی، اس لیے میں نے (ذرا فاصلے سے ہی) آواز دی: اے اللہ کے رسول! نمیری نوجوان کے حق میں مغفرت کی دعا فرمادیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تمہاری بخشش فرمائے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ضحاک بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو زکوۃ کی وصولی کے لیے نمائندہ بنا کر بھیجا تھا، وہ تو بڑا ہی قیمتی اونٹ لے کر آگئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: تم ہلال بن عامر اور عامر بن ربیعہ کے قبائل میں زکوۃ کی وصولی کے لیے گئے تھے، تم تو ان کا بڑا قیمتی مال لے آئے ہو۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک غزوہ کی تیاری کرتے ہوئے سنا تھا، اس لیے میں نے اس قسم کے اونٹ وصول کیے ہیں تاکہ وہ آپ کی سواری اور بار برداری کے کام آسکیں۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! ان اونٹوں کی نسبت مجھے وہ اونٹ زیادہ پسند ہیں، جنہیں تم چھوڑ آئے ہو، یہ واپس کر کے ان کے کم تر اونٹوں میں سے زکوۃ وصول کر کے لاؤ۔ سیدناقرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے مسلمانوں کو سنا وہ ان قوی عمر والے اونٹوں کو جہادی اونٹ کہا کرتے تھے۔

Haidth Number: 3393

۔ (۳۳۹۴) عَنْ مُسِلِم بْنِ شُعْبَۃَ أَنَّ عَلْقَمَۃَ اسْتَعْمَلَ أَبَاہُ عَلٰی عِرَافَۃِ قَوْمِہِ، قَالَ مُسْلِمٌ: فَبَعَثَنِی اَبِیْ إِلٰی مَصْدَقَہِ فِی طَائِفَۃٍ مِنْ قَوْمِی، قَالَ: فَخَرَجْتُ حَتّٰی آتِی شَیْخًا، یُقَالُ لَہُ سَعْرٌ، فِی شِعْبٍ مِنَ الشِّعَابِ، فَقُلْتُ: إِنَّ أَبِی بَعَثَنِی إِلَیْکَ لِتُعْطِیَنِی صَدَقَہَ غَنَمِکَ، فَقَالَ: أَیِ ابْنَ أَخِی وَأَیَّ نَحْوٍ تَأْخُذُوْنَ؟ فَقُلْتُ: نَأْخُذُ أَفْضَلَ مَا نَجِدَ، فَقَالَ الشَّیْخُ إِنِّی لَفِی شُعَیْبٍ مِنْ ہٰذِہِ الشِّعَابِ فِی غَنَمٍ لِی إِذْ جَائَ نِی رَجُلَانِ مُرْتَدِفَانِ بَعِیْرًا فَقَالَا: إِنَّا رَسُولَا رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعَثَنَا إِلَیْکَ لِتُؤْتِیَنَا صَدَقَۃَ غَنَمِکَ، قُلْتُ: وَمَا ہِیَ؟ قَالَا: شَاۃٌ’ فَعَمَدْتُّ إِلٰی شَاۃٍ قَدْ عَلِمْتُ مَکَانَہَا مُمْتَلِئَۃً مَخْضًا وَشَحْمًا، فَأَخْرَجْتُہَا إِلَیْہَا، فَقَالَا: ہٰذِہِ شَافِعٌ، وَقَدْ نَہَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ نَأْخُذُ شَافِعًا وَالشَّافِعُ الَّتِی فِی بَطْنِہَا وَلَدُہَا، قَالَ: فَقُلْتُ: فَأَیَّ شَیْئٍ تَأْخُذَانِ؟ قَالَا: عَنَاقًا، أَوْجَذَعَۃً أَوْ ثَنِیَّۃً، قَالَ فَأَخْرَجَ لَہُمَا عَنَاقًا، قَالَ: فَقَالَا: اِدْفَعْہَا إِلَیْنَا فَتَنَاوَلَاہَا وَجَعَلَاہَا مَعَہُمَا عَلٰی بَعِیْرِہِمَا۔ (مسند احمد: ۱۵۵۰۵)

مسلم بن شعبہ کہتے ہیں: علقمہ نے ان کے والد (شعبہ) کو ان کی قوم پر عامل مقرر کیا، پھر میرے والد نے مجھے میری قوم کے ایک حصہ پر زکوۃ کی وصولی کے لیے روانہ کیا، میں ایک بزرگ کے ہاں پہنچا، اس کو سِعْر کہتے تھے، وہ ایک گھاٹی میں مقیم تھا، میں نے اسے کہا: میرے والد نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے، تاکہ آپ اپنی بکریوں کی زکوۃ مجھے جمع کرادیں۔ انہوں نے کہا: بھتیجے! تم بطور زکوۃ کس قسم کا جانور قبول کرو گے؟ میں نے کہا: ہم سب سے افضل اور بہترین جانور لیں گے۔ پھر اس نے کہا: میں انہی گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں مقیم تھا کہ دو شتر سوار میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نمائندے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ ہمیں اپنی بکریوں کی زکوۃ جمع کرادیں۔ میں نے پوچھا: کتنی زکوۃ جی؟ انہوں نے کہا: ایک بکری۔ میں نے ایک ایسی بکری نکالی، جو دودھ اور چربی سے بھری ہوئی تھی، لیکن انہوں نے کہا: یہ تو حاملہ ہے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ایسا جانور لینے سے منع فرمایا ہے۔ میں نے کہا: تو پھر آپ کیسی بکری لیں گے؟ انہوں نے کہا: عَنَاق یا جَذَعہ یا ثَنِیّہ دے دو، جب میں نے عَنَاق بکری نکالی تو انھوں نے کہا: یہ ہمیں دے دو، پس انھوں نے وہ وصول کی اور اپنے ساتھ اونٹ پر رکھ کر چلے گئے۔

Haidth Number: 3394
۔ سیدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف گئے، ہمارا ایک ساتھی قضائے حاجت کے لئے ایک ویرانے کی طرف گیا، جب اس نے استنجاء کرنے کے لئے ایک اینٹ اٹھائی تو اسے وہاں سے سونے کی ایک ڈلی ملی،اس نے وہ اٹھا لی اور اسے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لے آیا اور ساری بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلا دی،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کا وزن کرو۔ اس نے وزن کیا تو وہ دو سو درہم کی ہوئی۔نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ رکاز ہے اور اس میںخُمُسیعنی پانچواں حصہ زکوٰۃ ہے۔

Haidth Number: 3425
۔ ابوزبیر کہتے ہیں: میں نے سیدناجابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا کہ کیا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ رِکاز میں خمس یعنی پانچواں حصہ زکوٰۃ ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔

Haidth Number: 3426
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رِکاز میں پانچواں حصہ زکوٰۃ کا فیصلہ کیا۔

Haidth Number: 3427
۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کنواں رائیگاں ہے، کان ضائع ہے اور جانور بھی رائیگاں ہے اور رِکاز میں پانچواں حصہ زکوۃ ہے۔

Haidth Number: 3428
۔ سیدناعوف بن مالک اشجعی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ایک روز رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ میں لاٹھی بھی تھی، اُدھر مسجد میں کھجوروں کے خوشے لٹکے ہوئے تھے، ان میں سے ایک خوشے میں خشک اور ردی قسم کی کھجوریں تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لاٹھی اس خوشے پر ماری اور فرمایا: اگریہ خوشہ صدقہ کرنے والا چاہتا تو اس سے عمدہ صدقہ کر سکتا تھا، یہآدمی قیامت کے دن بھی ناکارہ کھجوریں ہی کھائے گا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے اہل مدینہ! ایک زمانہ آئے گا کہ تم اس شہر کو چالیس سال تک کے لئے پرندوں اور درندوں کے لئے چھوڑ جائو گے۔ راوی کہتا ہے: میں نے کہا کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن اس نے کہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی (عوافی سے مراد) پرندے اور درندے تھے۔ ہم کہتے تھے: بیشکیہ وہی چیز ہوتی ہے، جس کو عجمی لوگ کَرَاکِی کہتے ہیں۔

Haidth Number: 3444
Haidth Number: 3445
۔ سیدنا عبد اللہ ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے۔

Haidth Number: 3446
۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب بندہ حلال کمائی میں سے صدقہ کرے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتا ہے اور اس کو دائیں ہاتھ میں لے کر یوں بڑھاتا رہتا ہے، جیسے تم میں سے کوئی اپنے گھوڑییا اونٹنییا گائے کے بچے کو پالتا ہے، آدمی تو ایک لقمہ ہی صدقہ کرتا ہے، لیکن وہ اللہ کے ہاتھ (ایک راوی کے بیان کے مطابق اللہ کی تھیلی) میں بڑھتا بڑھتا پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے، پس تم صدقہ کیا کرو۔

Haidth Number: 3447
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بندۂ مومن حلال کمائی میں سے جو صدقہ کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ حلال چیز کو ہی قبول کرتا ہے اور حلال ہی آسمان کی طرف چڑھتا ہے، بہرحال اللہ تعالیٰ اسے اپنے ہاتھ میں لے کر یوں بڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے گھوڑی کے بچے کو پا لتا ہے، یہاں تک کہ ایک کھجور بڑے پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔

Haidth Number: 3448
۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی حلال کمائی میں سے ایک کھجور کے بقدر صدقہ کرتا ہے، اور حلال چیز ہی اللہ تعالیٰ کی طرف چڑھتی ہے ، تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں قبول کرتا ہے اور اسے مالک کے لئے یوں بڑھاتا رہتا ہے، جیسےتم میں سے کوئی اپنے گھوڑی کے بچے کی پرورش کرتا ہے، حتی کہ ایک کھجور ایک پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔

Haidth Number: 3449

۔ (۳۶۷۳) عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: اُحِیْلَتِ الصَّلَاۃُ ثَلَاثَۃَ اَحْوَالٍ وَاُحِیْلَ الصِّیَامُ ثَلَاثَۃَ اَحْوَالٍ، فَاَمَّا اَحْوَالُ الصَّلَاۃِ فَإِنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ وَہُوَ یُصَلِّیْ سَبْعَۃَ عَشَرَ شَہْرًا إِلٰی بَیْتِ الْمَقْدِسِ (الْحَدِیْثَ) قَالَ: وَاَمَا اَحْوَالُ الصِّیَامِ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ فَجَعَل یَصُوْمُ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ، وَقَالَیَزِیْدُ: فَصَامَ سَبْعَۃَ عَشَرَ شَہْرًا مِنْ رَبِیْعِ الْاَوَّلِ إِلَی رَمَضَانَ، مِنْ کُلِّ شَہْرٍ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ، وَصَامَ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ، ثُمَّ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ فَرَضَ عَلَیْہِ الصِّیَامَ فَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ (إِلٰی ھٰذِہِ الآیَۃِ) وَعَلَی الَّذِیْنَیُطِیْقُوْنَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ} قَالَ: فَکَانَ مَنْ شَائَ صَامَ وَمَنْ شَائَ اَطْعَمَ مِسْکِیْنًا فَاَجْزَأَ ذَالِکَ عَنْہُ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اَنْزَلَ اْلآیَۃَ الْاُخْرٰی: {شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنْزِلَ فیِہِ الْقُرْآنُ (إِلٰی قَوْلِہِ) فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ} فَاَثْبَتَ اللّٰہُ صِیَامَہُ عَلَی الْمُقِیْمِ الصَّحِیْحِ، وَرَخَّصَ فِیْہِ لِلْمَرِیْضِ وَالْمُسَافِرِ وَثَبَّتَ الإِطْعَامَ لِلْکَبِیْرِ الَّذِی لَایَسْتَطِیْعُ الصِّیَامَ فَھٰذَانِ حَالَانِ، قَالَ: وَکَانُوْا یَاْکُلُوْنَ وَیَشْرَبُوْنَ، وَیَاْتُوْنَ النِّسَائَ مَالَمْ یَنَامُوْا فَإِذَا نَامُوْا اِمْتَنَعُوْا، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ رَجُلاً مِنَ الْاَنْصَارِ یُقَالُ لَہُ صِرْمَۃُ، ظَلَّ یَعْمَلُ صَائِمًا حَتّٰی اَمْسٰی فَجَائَ إِلٰی اَہْلِہِ فَصَلَّی الْعِشَائَ ثُمَّ نَامَ فَلَمْ یَاْکُلْ، وَلَمْ یَشْرَبْ حَتّٰی اَصْبَحَ فَاَصْبَحَ صَائِمًا، قَالَ: فَرَآہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَدْ جَہِدَ جَہْدًا شَدِیْدًا، قَالَ: ((مَالِیْ اَرَاکَ قَدْ جَہِدْتَّ جَہْدًا شَدِیْدًا؟)) قَالَ: یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ! إِنِّی عَمِلْتُ اَمْسِ فَجِئْتُ حِیْنَ جِئْتُ فَاَلْقَیْتُ نَفْسِی فَنِمْتُ وَاَصْبَحْتُ حِیْنَ اَصْبَحْتُ صَائِمًا، قَالَ: وَکَانَ عُمَرُ قَدْ اَصَابَ مِنَ النِّسَائِ مِنْ جَارِیَۃٍ اَوْ مِنْ حُرْۃٍ بَعْدَ مَانَامَ، وَاَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖوَصَحْبِہِوَسَلَّمَفَذَکَرَذَالِکَلَہُفَاَنْزَلَاللّٰہُعَزَّوَجَّلَ: {اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ إلَی نِسَائِکُمْ (إِلٰی قَوْلِہٖعَزَّوَجَلَّ) ثُمَّاَتِمُّوْاالصِّیامَ إِلَی الَّیْلِ۔} (مسند احمد: ۲۲۴۷۵)

۔ سیدنامعاذ بن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ تین مراحل میں نماز کی فرضیت اور تین مراحل میں ہی روزے کی فرضیت ہوئی، نماز کے مراحل یہ ہیں: جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سترہ ماہ تک بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے، …… (کتاب الصلاۃ میں مکمل حدیث گزر چکی ہے) روزے کے مراحل یہ ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر ماہ میں تین روزے رکھا کرتے تھے، یزید راوی کہتا ہے: ربیع الاول سے لے کر ماہِ رمضان کے روزوں کی فرضیت تک کل سترہ ماہ کے دوران آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہر ماہ میں تین روزے رکھتے رہے، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دس محرم کا روزہ بھی رکھا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ماہِ رمضان کے روزے فرض کر دیئے اور یہ آیات نازل فرمائیں: {یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَآمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔} (اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں، جس طرح کہ تم سے پہلے والے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم پرہیزگار بن جائو۔ )نیز فرمایا: { وَعَلَی الَّذِیْنَیُطِیْقُوْنَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ} (اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں ، وہ (روزہ کی بجائے) ایک مسکین کوبطور فدیہ کھانا کھلا دیا کریں۔) ان آیات پر عمل کرتے ہوئے جو آدمی چاہتا وہ روزہ رکھ لیتا اور جو کوئی روزہ نہ رکھنا چاہتا وہ بطورِ فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا اور یہی چیز اس کی طرف سے کافی ہو جاتی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: {شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنْزِلَ فیِہِ الْقُرْآنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ} (ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں لوگوں کو ہدایت کے لئے اور ہدایت کے واضح دلائل بیان کرنے کے لئے قرآن مجید نازل کیا گیا ہے، جو حق و باطل میں امتیاز کرنے والا ہے، اب تم میں سے جو آدمی اس مہینہ کو پائے وہ روزے رکھے۔) اس طرح اللہ تعالیٰ نے مقیم اورتندرست آدمی پراس مہینے کے روزے فرض کر دیئے، البتہ مریض اور مسافر کو روزہ چھوڑنے کی رخصت دے دی اور روزہ کی طاقت نہ رکھنے والے عمر رسیدہ آدمی کے لیے روزہ کا یہ حکم برقرار رکھا کہ وہ بطورِ فدیہ مسکین کو کھانا کھلا دیا کرے، یہ دو حالتیں ہو گئیں، تیسری حالت یہ تھی کہ لوگ رات کو سونے سے پہلے تک کھا پی سکتے تھے اور بیویوں سے ہم بستری کر سکتے تھے تھے، لیکن جب نیند آ جاتی تو اس کے بعد یہ سب کچھ ان کے لئے ممنوع قرار پاتا تھا، ایک دن یوں ہوا کہ ایک صرمہ نامی انصاری صحابی روزے کی حالت میں سارا دن کام کرتا رہا، جب شام ہوئی تو اپنے گھر پہنچا اور عشاء کی نماز پڑھ کر کچھ کھائے پئے بغیر سو گیا،یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور اس طرح اس کا روزہ بھی شروع ہو چکا تھا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے دیکھا کہ وہ کافی نڈھال ہوچکا ہے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے پوچھا کہ: بہت نڈھال دکھائی دے رہے ہو، کیا وجہ ہے؟ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! کل سارا دن کام کرتا رہا، جب گھر آیا تو ابھی لیٹا ہی تھا کہ سو گیا( اور اس طرح میرے حق میں کھانا پینا حرام ہو گیا اور) جب صبح ہوئی تو میں نے تو روزے کی حالت میں ہی ہونا تھا۔ اُدھر سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بھی ایک معاملہ تھا کہ انھوں نے نیند سے بیدار ہونے کے بعد اپنی بیوییا لونڈی سے ہم بستری کر لی تھی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آ کر ساری بات بتلا دی تھی، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: {اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ …… ثُمَّ اَتِمُّوْا الصِّیامَ إِلَی الَّیْلِ۔} (روزے کی راتوںمیں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لیے حلال کیا گیا، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو، تمہاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے، اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے درگزر فرما لیا، اب تمہیں ان سے مباشرت کی اور اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی چیز کو تلاش کرنے کی اجازت ہے، تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے، پھر رات تک روزے کو پورا کرو۔)

Haidth Number: 3673
۔ نضر بن شیبان کہتے ہیں:میں ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے ملا اور ان سے کہا: مجھے ماہِ رمضان کے بارے کوئی ایسی حدیث بیان کرو جو تم نے اپنے والد سے سنی ہو اور انہوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہو، انھوں نے کہا: جی ہاں، میرے باپ سیدنا عبد الرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بیان کیا کہ انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان کے روزے فرض کئے ہیں اور میں رمضان کے قیام کو مسنون قرار دیتاہوں، جو کوئی اجر و ثواب کے حصول کی خاطر اس مہینے کے روزے رکھے گا اور اس کا قیام کرے گا تو وہ اپنے گناہوں سے یوں پاک ہو جائے گا، جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہے۔

Haidth Number: 3674
۔ سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا:اے اللہ کے رسول! روزہ کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ قرض ہے، جس کا بدلہ دیا جائے گا۔

Haidth Number: 3675
۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سحری کھایا کرو، بیشک سحری کے کھانے میں برکت ہے۔

Haidth Number: 3723
۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سحری اور ثرید میں برکت کی دعا فرمائی ہے۔

Haidth Number: 3724
۔ ایک صحابی رسول سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس اس وقت گئے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سحری کاکھانا کھا رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ برکت والا کھانا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کیا ہے، پس اس کو نہ چھوڑو۔

Haidth Number: 3725
۔ سیدناعرباض بن ساریہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ماہِ رمضان میں مجھے سحری کی دعوت دی اور فرمایا: اس بابرکت کھانے کی طرف آؤ۔

Haidth Number: 3726
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سحری کا کھانا بابرکت ہے، اس لیے اس کو نہ چھوڑا کرو، خواہ پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ اور فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت کرتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ رحمت بھیجتا ہے اور فرشتے رحمت کے نزول کی دعا کرتے ہیں۔

Haidth Number: 3727