Blog
Books
Search Hadith

{مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَنْ یَسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ… اِلٰی آخِرِ الْاٰیَتَیْنِ} کی تفسیر

18 Hadiths Found
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیںـ: میں نے ایک آدمی کو سنا،وہ اپنے مشر ک ماں باپ کے لئے بخشش طلب کر رہا تھا، میں نے کہا: تم اپنے مشرک والدین کے لئے استغفار کر رہے ہو؟ اس نے کہا: کیا سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مشرک باپ کے لئے استغفار نہیں کیا تھا؟ جب میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو یہ آیات نازل ہوئیں: {مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَلَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۔ وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہُ فَلَمَّا تَـبَیَّنَ لَہٓ اَنَّہ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ۔ } … اس نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ قرابت دار ہوں، اس کے بعد کہ ان کے لیے صاف ظاہر ہوگیا کہ یقینا وہ جہنمی ہیں۔ اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا نہیں تھا مگر اس وعدہ کی وجہ سے جو اس نے اس سے کیا تھا، پھر جب اس کے لیے واضح ہوگیا کہ بے شک وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بے تعلق ہو گیا۔ بے شک ابراہیمیقینا بہت نرم دل، بڑا بردبار تھا۔

Haidth Number: 8625

۔ (۸۶۲۶)۔ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ عَنْ أَ بِیہِ قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ أَ بَا طَالِبٍ الْوَفَاۃُ، دَخَلَ عَلَیْہِ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعِنْدَہُ أَ بُو جَہْلٍ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِی أُمَیَّۃَ، فَقَالَ: ((أَ یْ عَمِّ! قُلْ لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کَلِمَۃً أُحَاجُّ بِہَا لَکَ عِنْدَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔)) فَقَالَ أَ بُو جَہْلٍ وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِی أُمَیَّۃَ: یَا أَ بَا طَالِبٍ! أَ تَرْغَبُ عَنْ مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ؟ قَالَ: فَلَمْ یَزَالَایُکَلِّمَانِہِ حَتّٰی قَالَ آخِرَ شَیْئٍ کَلَّمَہُمْ بِہِ: عَلٰی مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَأَ سْتَغْفِرَنَّ لَکَ مَا لَمْ أُنْہَ عَنْکَ۔)) فَنَزَلَتْ: {مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَ نْ یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِینَ، وَلَوْ کَانُوْا أُولِی قُرْبٰی، مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَ نَّہُمْ أَ صْحَابُ الْجَحِیمِ} [التوبۃ: ۱۱۳] قَالَ: فَنَزَلَتْ فِیہِ {إِنَّکَ لَا تَہْدِی مَنْ أَ حْبَبْتَ} [القصص: ۵۶]۔ (مسند احمد: ۲۴۰۷۴)

۔ مسیب سے روایت ہے کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت ہوا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے پاس داخل ہوئے، جبکہ اس کے پاس ابو جہل اور عبداللہ بن امیہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے میرے چچا: لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہہ دو، یہ ایسا کلمہ ہے کہ میں اس کے ذریعہ آپ کے حق میں اللہ تعالیٰ کے ہاں بحث مباحثہ کروں گا۔ ابو جہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا: اے ابو طالب! کیا عبدالمطلب کے دین سے روگردانی کر جاؤ گے، وہ یہی بات دوہراتے رہے اور ورغلاتے رہے حتیٰ کہ ابو طالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر (مر رہا) ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تیرے لیے استغفار کرتا رہوں گا تا وقتیکہ مجھے منع کر دیا جائے، پس یہ آیت نازل ہوئی: {مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَلَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۔} … اس نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ قرابت دار ہوں، اس کے بعد کہ ان کے لیے صاف ظاہر ہوگیا کہ یقینا وہ جہنمی ہیں۔ اور یہ آیت بھی نازل ہوئی: {اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَائُ وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ۔} … بے شک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو پسند کرے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔

Haidth Number: 8626

۔ (۱۰۹۳۱)۔ عَنْ شُرَیْحِ بْنِ عُبَیْدٍ أَنَّ فَضَالَۃَ بْنَ عُبَیْدٍ الْأَنْصَارِیَّ کَانَ یَقُولُ: غَزَوْنَا مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَزْوَۃَ تَبُوکَ، فَجَہَدَ بِالظَّہْرِ جَہْدًا شَدِیدًا، فَشَکَوْا إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا بِظَہْرِہِمْ مِنَ الْجَہْدِ فَتَحَیَّنَ بِہِمْ مَضِیقًا، فَسَارَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیہِ فَقَالَ: ((مُرُّوا بِسْمِ اللّٰہِ۔)) فَمَرَّ النَّاسُ عَلَیْہِ بِظَہْرِہِمْ، فَجَعَلَ یَنْفُخُ بِظَہْرِہِمْ: ((اللَّہُمَّ احْمِلْ عَلَیْہَا فِی سَبِیلِکَ، إِنَّکَ تَحْمِلُ عَلَی الْقَوِیِّ وَالضَّعِیفِ، وَعَلَی الرَّطْبِ وَالْیَابِسِ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۔)) قَالَ: فَمَا بَلَغْنَا الْمَدِینَۃَ حَتّٰی جَعَلَتْ تُنَازِعُنَا أَزِمَّتَہَا، قَالَ فَضَالَۃُ: ہٰذِہِ دَعْوَۃُ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْقَوِیِّ وَالضَّعِیفِ، فَمَا بَالُ الرَّطْبِ وَالْیَابِسِ؟ فَلَمَّا قَدِمْنَا الشَّامَ غَزَوْنَا غَزْوَۃَ قُبْرُسَ فِی الْبَحْرِ، فَلَمَّا رَأَیْتُ السُّفُنَ فِی الْبَحْرِ وَمَا یَدْخُلُ فِیہَا، عَرَفْتُ دَعْوَۃَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۴۴۵۵)

سیدنا فضالہ بن عبید انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں غزوۂ تبوک میں شرکت کی، سواریوں کی بڑی قلت تھی، جب صحابہ کرام نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس کی شکایت کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ایک تنگ سے راستہ پر لے چلے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس راستے پر چلے،اور فرمایا : تم اللہ کا نام لے کر یہاں سے گزرو۔ لوگ اپنی سواریاں لے کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے گزرے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی سواریوں پر پھونک مارتے اور یہ دعا کرتے جاتے: یا اللہ اس سے اپنی راہ میں کام لے تو ہی قوی اور ضعیف کو طاقت دینے والا ہے۔ اور تو ہی بروبحر یعنی خشکی اور تری اور ہر رطب و یابسیعنی تازہ اور خشک پر قدرت رکھتا ہے۔ سیدنا فضالہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ہماری مدینہ منورہ واپسی تک ہمارے اونٹ ہم سے اپنی مہاریں کھینچتےتھے۔ یہ قوی اور ضعیف کے متعلق نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعاء کی برکت اور اس کا نتیجہ تھا۔ لیکن میں رطب ویابسیعنی خشک وتر کا مفہوم نہیں سمجھ سکا کہ یہاں اس سے کیا مراد ہو سکتی ہے؟ جب ہم ملکِ شام میں گئے اور ہم نے سمندر میں قبرص کی لڑائی لڑی اور میں نے سمندر میں کشتیوں کو چلتے اور سمندروں میں داخل ہوتے دیکھا تو مجھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعاء کی حقیقت معلوم ہوئی۔

Haidth Number: 10931

۔ (۱۰۹۳۲)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِیْ کَبْشَۃَ الْاَنْمَارِیِّ، عَنْ اَبِیْہِ قَالَ: لَمَّا کَانَ فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ تَسَارَعَ النَّاسُ اِلٰی اَھْلِ الْحِجْرِ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ فَبَلَغَ ذٰلِکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَادٰی فِیْ النَّاسِ: اَلصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ، قَالَ: فَاَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَ ھُوَ مُمْسِکٌ بَعِیْرَہُ وَ ھُوَ یَقُوْلُ : ((مَا تَدْخُلُوْنَ عَلٰی قَوْمٍ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ۔)) فَنَادَاہُ رَجُلٌ مِنْھُمْ: نَعْجِبُ مِنْھُمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِِ! قَالَ: ((اَفَلَا اُنْذِرُکُمْ بِاَعْجَبَ مِنْ ذٰلِکَ؟ رَجُلٌ مِنْ اَنْفُسِکُمْ یُنَبِّئُکُمْ بِمَا کَانَ قَبْلَکُمْ وَ مَا کَانَ ھُوَ کَائِنٌ بَعْدَکُمْ، فَاسْتَقِیْمُوْا وَسَدِّدُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَا یَعْبَاُ بِعَذَابِکُمْ شَیْئًا، وَ سَیَاْتِیْ قَوْمٌ لَا یَدْفَعُوْنَ عَنْ اَنْفُسِھِمْ بِشَیْئٍ۔)) (مسند احمد: ۱۸۱۹۲)

سیدنا ابو کبشہ انماری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ غزوۂ تبوک کے سفر کے دوران لوگوں نے (ثمود کی منازل) حِجر کی طرف جلدی کی اور وہ ان میں داخل ہونے لگ گئے، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس بات کا پتہ چلا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں میں یہ اعلان کیا: اَلصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ ، وہ کہتے ہیں: جب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے اونٹ کو روکا ہوا تھا اور فرما رہے تھے: تم ایسی قوم پر کیوں داخل ہوتے ہو، جس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا ہے؟ ایک بندے نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیںان سے تعجب ہوتا ہے، اس لیے ان کے پاس جاتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں نے تم کو اس سے زیادہ تعجب والے سے نہ ڈرائو؟ تم میں ہی ایک آدمی ہے، وہ تم کو ان کی امور کی بھی خبر دیتا ہے، جو تم سے پہلے گزر گئے ہیں اور ان امور کی بھی، جو تم سے بعد میں ہونے والے ہیں، پس تم سیدھے ہو جاؤ اور راہِ صواب پر چلتے رہو، پس بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے عذاب کی پرواہ نہیں کرے گے اور عنقریب ایسے لوگ آئیں گے، جو کسی چیز کو اپنے نفسوں سے دفع نہیں کریں گے۔

Haidth Number: 10932

۔ (۱۰۹۳۳)۔ عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَۃَ أَنَّ مُعَاذًا أَخْبَرَہُ: أَنَّہُمْ خَرَجُوا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَامَ تَبُوکَ، فَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَجْمَعُ بَیْنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ، قَالَ: وَأَخَّرَ الصَّلَاۃَ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّی الظُّہْرَ وَالْعَصْرَ جَمِیعًا، ثُمَّ دَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّی الْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ جَمِیعًا، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّکُمْ سَتَأْتُونَ غَدًا إِنْ شَائَ اللّٰہُ عَیْنَ تَبُوکَ، وَإِنَّکُمْ لَنْ تَأْتُوا بِہَا حَتّٰییَضْحَی النَّہَارُ، فَمَنْ جَائَ فَلَا یَمَسَّ مِنْ مَائِہَا شَیْئًا حَتّٰی آتِیَ۔)) فَجِئْنَا وَقَدْ سَبَقَنَا إِلَیْہَا رَجُلَانِ، وَالْعَیْنُ مِثْلُ الشِّرَاکِ تَبِضُّ بِشَیْئٍ مِنْ مَائٍ، فَسَأَلَہُمَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((ہَلْ مَسِسْتُمَا مِنْ مَائِہَا شَیْئًا؟)) فَقَالَا: نَعَمْ، فَسَبَّہُمَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَالَ لَہُمَا مَا شَائَ اللّٰہُ أَنْ یَقُولَ، ثُمَّ غَرَفُوا بِأَیْدِیہِمْ مِنَ الْعَیْنِ قَلِیلًا قَلِیلًا حَتَّی اجْتَمَعَ فِی شَیْئٍ، ثُمَّ غَسَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیہِ وَجْہَہُ وَیَدَیْہِ، ثُمَّ أَعَادَہُ فِیہَا فَجَرَتِ الْعَیْنُ بِمَائٍ کَثِیرٍ، فَاسْتَقَی النَّاسُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یُوشِکُیَا مُعَاذُ! إِنْ طَالَتْ بِکَ حَیَاۃٌ، أَنْ تَرٰی مَائً ہَاہُنَا قَدْ مَلَأَ جِنَانًا۔)) (مسند احمد: ۲۲۴۲۰)

سیدنا ابو طفیل عامر بن واثلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو خبردی کہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میں غزوۂ تبوک کے موقع پر سفر پر روانہ ہوئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر لیتے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز کو مؤخر کیا اور خیمہ سے باہر تشریف لائے اور ظہر و عصر کی نماز یںجمع کر کے ادا کیں، پھر اندر تشریف لے گئے، پھرباہر تشریف لائے اور مغرب وعشاء کو جمع کر کے ادا کیا، پھر ارشاد فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تم کل خوب دن چڑھے تبوک کے چشمہ پر پہنچو گے، تم میں سے جو کوئی وہاں پہنچ جائے تو وہ میرے آنے تک پانی کو ہاتھ نہ لگائے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ہم سے پہلے دو آدمی وہاں پہنچ چکے تھے اور چشمہ سے تسمہ کی مانند پانی کی باریک دھار نکل رہی تھی اور پانی انتہائی قلیل مقدار میں آرہا تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دونوں سے دریافت کیا کہ کیا تم نے پانی کو ہاتھ لگایا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دونوں کو بہت برا بھلا کہا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جو کچھ کہہ سکتے تھے ان سے کہا، اس کے بعد صحابہ کرام نے اپنے ہاتھوں کے ذریعے چشمے سے تھوڑا تھوڑا پانی جمع کر کے ایک برتن میں کچھ پانی اکٹھا کر لیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس میں اپنا چہرہ مبارک اور ہاتھ دھوئے اور اس دھوون کو اس میں واپس ڈال دیا، پھر تو اس چشمہ سے کثیر مقدار میں پانی نکلنے لگا، لوگ خوب سیراب ہوئے، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے معاذ! اگر تجھے زندگی ملی تو تو دیکھے گا کہ یہ صحراء باغات سے بھرا ہو گا۔

Haidth Number: 10933

۔ (۱۰۹۳۴)۔ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ أَبِی صَالِحٍ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ أَوْ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ شَکَّ الْأَعْمَشُ قَالَ: لَمَّا کَانَ غَزْوَۃُ تَبُوکَ، أَصَابَ النَّاسَ مَجَاعَۃٌ، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! لَوْ أَذِنْتَ لَنَا فَنَحَرْنَا نَوَاضِحَنَا فَأَکَلْنَا وَادَّہَنَّا، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((افْعَلُوا۔)) فَجَائَ عُمَرُ: فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّہُمْ إِنْ فَعَلُوا قَلَّ الظَّہْرُ، وَلٰکِنْ ادْعُہُمْ بِفَضْلِ أَزْوَادِہِمْ، ثُمَّ ادْعُ لَہُمْ عَلَیْہِ بِالْبَرَکَۃِ، لَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یَجْعَلَ فِی ذٰلِکَ، فَدَعَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِنِطَعٍ فَبَسَطَہُ، ثُمَّ دَعَاہُمْ بِفَضْلِ أَزْوَادِہِمْ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَجِیئُ بِکَفِّ الذُّرَۃِ، وَالْآخَرُ بِکَفِّ التَّمْرِ، وَالْآخَرُ بِالْکِسْرَۃِ، حَتَّی اجْتَمَعَ عَلَی النِّطْعِ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئٌیَسِیرٌ، ثُمَّ دَعَا عَلَیْہِ بِالْبَرَکَۃِ، ثُمَّ قَالَ لَہُمْ: ((خُذُوا فِی أَوْعِیَتِکُمْ۔)) قَالَ: فَأَخَذُوا فِی أَوْعِیَتِہِمْ حَتّٰی مَا تَرَکُوا مِنَ الْعَسْکَرِ وِعَائً إِلَّا مَلَئُوہُ وَأَکَلُوا حَتّٰی شَبِعُوا وَفَضَلَتْ مِنْہُ فَضْلَۃٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّی رَسُولُ اللّٰہِ، لَا یَلْقَی اللّٰہَ بِہَا عَبْدٌ غَیْرُ شَاکٍّ فَتُحْجَبَ عَنْہُ الْجَنَّۃُ۔)) (مسند احمد: ۱۱۰۹۶)

سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سے مروی ہے کہ جب غزوۂ تبوک پیش آیا تو لوگوں شدید بھوک میں مبتلا ہو گئے، انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اجازت ہو تو ہم اپنے اونٹوں کو نحر کر کے کھانے کا اور چربی کا انتظام کر لیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: ٹھیک ہے۔ لیکن سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر لوگوں نے اونٹوں کو نحر کیا تو سواریاں تھوڑی پڑ جائیں گی، آپ انہیں حکم دیں کہ وہ اپنے زائد از ضرورت خوردونوش کا سامان لے آئیں اور آپ ان کے لیے اس میں برکت کی دعا فرمائیں، امید ہے کہ اللہ اس میں برکت فرمائے گا، سو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چمڑے کا دسترخوان منگوا کر اسے بچھا دیا، پھر صحابہ کو بلا کر فرمایا: خوردونوش کا زائد سامان لے آئیں۔ کوئی ایک مٹھی مکئی لایا، کوئی ایک مٹھی کھجور لے آیا اور کوئی روٹی کے بچے کھچے ٹکڑے لے کر حاضر ہوا، یہاں تک کہ دسترخوان پر کچھ اشیاء جمع ہو گئیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان چیزوں پر برکت کی دعا کی اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب تم یہ سامان اپنے برتنوں( اور تھیلوں وغیرہ) میں ڈالو۔ چنانچہ صحابہ کرام اس سامان کو اپنے برتنوں میں بھرنے لگے، یہاں تک کہ انہوں نے پورے لشکر میں جو برتن بھی پایا، اسے بھرلیا، اور خوب پیٹ بھر کر کھا بھی لیا، لیکن پھر بھی اس میں کافی بچ بھی رہا۔ یہ منظر دیکھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، جو آدمی صدقِ دل سے ان دوباتوں کی گواہی دیتا ہو، جب اس کی اللہ سے ملاقات ہو گی تو اسے جنت میں جانے سے روکا نہیں جائے گا۔

Haidth Number: 10934

۔ (۱۱۸۴۹)۔ عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ قَالَ: کَانَ بَیْنِی وَبَیْنَ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ کَلَامٌ، فَأَغْلَظْتُ لَہُ فِی الْقَوْلِ، فَانْطَلَقَ عَمَّارٌ یَشْکُونِی إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَائَ خَالِدٌ وَہُوَ یَشْکُوہُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَجَعَلَ یُغْلِظُ لَہُ وَلَا یَزِیدُ إِلَّا غِلْظَۃً وَالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَاکِتٌ لَا یَتَکَلَّمُ فَبَکٰی عَمَّارٌ وَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَلَا تَرَاہُ فَرَفَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَأْسَہُ قَالَ: ((مَنْ عَادٰی عَمَّارًا عَادَاہُ اللَّہُ، وَمَنْ أَبْغَضَ عَمَّارًا أَبْغَضَہُ اللّٰہُ۔)) قَالَ خَالِدٌ: فَخَرَجْتُ فَمَا کَانَ شَیْئٌ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ رِضَا عَمَّارٍ فَلَقِیتُہُ فَرَضِیَ۔ قَالَ عَبْدُاللّٰہِ: سَمِعْتُہُ مِنْ أَبِیْ مَرَّتَیْنِ۔ (مسند احمد: ۱۶۹۳۸)

سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میرے اور سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے مابین کچھ تکرار ہوگئی،میں نے ان سے کچھ سخت باتیں کہہ دیں۔ سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میری شکایت کرنے کے لیے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں چلے گئے، ان کے بعد سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی ان کی شکایت کے سلسلہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں گئے اور ان کے متعلق سخت باتیں کرنے لگے، ان کی باتوں کی شدت بڑھتی ہی جاتی تھی۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش تھے، کوئی کلام نہیں کر رہے تھے، یہ منظر دیکھ کر عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رونے لگے۔ اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! کیا آپ دیکھتے نہیںیہ کیا کچھ کہہ رہے ہیں؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھا کر فرمایا: جو شخص عمار سے عداوت رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے عداوت رکھے گا اور جو کوئی عمار سے بغض رکھے گا، اللہ تعالیٰ اس سے بغض رکھے گا۔ سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں سے واپس ہوا تو میری نظروں میں سب سے اہم اور پسندیدہ بات یہی تھی کہ عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مجھ سے راضی ہو جائیں، چنانچہ میں نے جا کر ان سے ملاقات کی اور وہ مجھ سے راضی ہوگئے۔ عبداللہ بن امام احمد کہتے ہیں:میں نے یہ حدیث اپنے والدسے دو مرتبہ سنی ہے۔

Haidth Number: 11849
عمرو بن دینار مصر کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں، وہ بیان کرتا تھا کہ سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کچھ لوگوں کی خدمت میں تحائف بھیجے اور سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو زیادہ اور قیمتی تحفے بھیجے، اس بارے میں جب ان سے دریافت کیا گیا کہ ان کو اس قدر اہمیت دینے کی کیا وجہ ہے؟ تو انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے سنا کہ ایک باغی گروہ ان کو قتل کرے گا۔

Haidth Number: 11850
عطاء بن یسار سے مروی ہے کہ ایک آدمی سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی خدمت میں آیا اور وہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں ناروا باتیں کرنے لگا۔سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: جہاں تک سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بات ہے تو میں ان کے بارے میں تجھ سے کچھ نہیں کہوں گی، البتہ سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بارے میں میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے سنا ہے کہ عمار کو جب بھی دو باتوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا جائے تو انھوں نے زیادہ بہتر اور ہدایت والی بات کو منتخب کیا۔

Haidth Number: 11851
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کابیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابن سمیہ کے سامنے جب بھی دو باتیں پیش کی گئیں تو انہوںنے ان میں سے بہتر بات کو اختیار کیا۔

Haidth Number: 11852
سیدناابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ایک ایسے آدمی نے مجھے بیان کیا جو مجھ سے بہتر اور افضل ہے،ان کی مراد سیدنا ابو قتادہ سلمی انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں، اس نے بیان کیا کہ سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خندق کھود رہے تھے اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے سر سے مٹی جھاڑتے ہوئے فرما رہے تھے: ہائے ابن سمیہ کی مصیبت،(اے عمار!) تجھے ایک باغی گروہ قتل کر ے گا۔

Haidth Number: 11853

۔ (۱۱۸۵۴)۔ عَنْ عِکْرِمَۃَ: أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ لَہُ وَلِابْنِہِ عَلِیٍّ: انْطَلِقَا إِلَی أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ فَاسْمَعَا مِنْ حَدِیثِہِ، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا فَإِذَا ہُوَ فِی حَائِطٍ لَہُ، فَلَمَّا رَآنَا أَخَذَ رِدَائَہُ فَجَائَ نَا فَقَعَدَ، فَأَنْشَأَ یُحَدِّثُنَا حَتّٰی أَتٰی عَلٰی ذِکْرِ بِنَائِ الْمَسْجِدِ، قَالَ: کُنَّا نَحْمِلُ لَبِنَۃً لَبِنَۃً وَعَمَّارُ بْنُ یَاسرٍ یَحْمِلُ لَبِنَتَیْنِ لَبِنَتَیْنِ، قَالَ: فَرَآہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَعَلَ یَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْہُ وَیَقُولُ: ((یَا عَمَّارُ أَلَا تَحْمِلُ لَبِنَۃً کَمَا یَحْمِلُ أَصْحَابُکَ؟)) قَالَ: إِنِّی أُرِیدُ الْأَجْرَ مِنَ اللّٰہِ، قَالَ: فَجَعَلَ یَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْہُ وَیَقُولُ: ((وَیْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُہُ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ، یَدْعُوہُمْ إِلَی الْجَنَّۃِ وَیَدْعُونَہُ إِلَی النَّارِ۔)) قَالَ: فَجَعَلَ عَمَّارٌ یَقُولُ: أَعُوذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنَ الْفِتَنِ۔ (مسند احمد: ۱۱۸۸۳)

عکرمہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے اور میرے بیٹے علی سے کہا: تم ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں جا کر ان سے احادیث سن کر آئو، پس ہم چلے گئے، وہ اپنے باغ میں تشریف فرما تھے، انہوں نے ہمیں دیکھا تو اپنی چادر سنبھال کر ہمارے پاس آکر بیٹھ گئے اور ہمیں احادیث سنانے لگے(یا ہم سے باتیں کرنے لگے) یہاں تک کہ مسجد (نبوی) کی تعمیر کا ذکر آگیا۔ انھوں نے کہا: ہم ایک ایک اینٹ اٹھا رہے تھے اور سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دو دو اینٹیںاٹھا رہے تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب ان کو دیکھا تو ان کے جسم سے مٹی صاف کرنے لگے اور فرمانے لگے: عمار! تم بھی اپنے ساتھیوں کی طرح ایک ایک اینٹ کیوں نہیں اٹھاتے؟ انہوںنے کہا: میں اللہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنا چاہتا ہوں، آپ ان کے جسم سے مٹی جھاڑتے جاتے اور فرماتے جاتے: ہائے عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا، یہ انہیں جنت کی طرف بلائے گا، لیکن وہ اسے جہنم کی طرف بلائیں گے۔ یہ سن کر سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہنے لگے: میں فتنوں سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔

Haidth Number: 11854
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آکر اندر آنے کی اجازت طلب کی،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے آنے کی اجازت دے دو، بہترین اور شاندار آدمی کو خوش آمدید۔

Haidth Number: 11855

۔ (۱۱۸۵۶)۔ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِی الْجَعْدِ قَالَ: دَعَا عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیہِمْ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ فَقَالَ: إِنِّی سَائِلُکُمْ وَإِنِّی أُحِبُّ أَنْ تَصْدُقُونِی، نَشَدْتُکُمُ اللّٰہَ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یُؤْثِرُ قُرَیْشًا عَلٰی سَائِرِ النَّاسِ، وَیُؤْثِرُ بَنِی ہَاشِمٍ عَلٰی سَائِرِ قُرَیْشٍ، فَسَکَتَ الْقَوْمُ فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: لَوْ أَنَّ بِیَدِی مَفَاتِیحَ الْجَنَّۃِ لَأَعْطَیْتُہَا بَنِی أُمَیَّۃَ حَتّٰی یَدْخُلُوْا مِنْ عِنْدِ آخِرِہِمْ، فَبَعَثَ إِلٰی طَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرِ، فَقَالَ عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: أَلَا أُحَدِّثُکُمَا عَنْہُ یَعْنِی عَمَّارًا؟ أَقْبَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آخِذًا بِیَدِی، نَتَمَشّٰی فِی الْبَطْحَائِ حَتّٰی أَتٰی عَلٰی أَبِیہِ وَأُمِّہِ وَعَلَیْہِ یُعَذَّبُونَ، فَقَالَ أَبُو عَمَّارٍ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! الدَّہْرَ ہٰکَذَا، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((اصْبِرْ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِآلِ یَاسِرٍ وَقَدْ فَعَلْتَ۔)) (مسند احمد: ۴۳۹)

سالم بن ابی جعد سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سمیت کچھ صحابہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کوبلوایا اور کہا: میں تم سے ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوںاور میرا ارادہ ہے کہ تم مجھ سے سچ سچ بات بیان کر دو، میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں: کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کوئی چیز دینے میں قریش کو دوسرے لوگوں پر ترجیح دیا کرتے تھے؟ اور قریش میں سے بنو ہاشم کو ترجیح دیا کرتے تھے؟ یہ سن کر لوگ خاموش رہ گئے۔سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر جنت کی چابیاں میرے ہاتھ میں آجائیں تو میں چابیاں بنو امیہ کو دے دوں یہاں تک کہ یہ سب لوگ جنت میں چلے جائیں ۔پھر انہوںنے سیدنا طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف پیغام بھیجا اور سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے فرمایا: کیا میں تمہیں اس (یعنی عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) کے متعلق کچھ بیان کردوں؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور ہم بطحاء میں چلتے آرہے تھے، یہاں تک کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور اس کے ماں باپ کے پاس سے گزرے، انہیں قبول اسلام کیپاداش میں عذاب دیا جا رہا تھا۔ سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے والد (سیدنایاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ایسا کب تک ہوتا رہیگا؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: صبرکرو۔ پھر فرمایا: یا اللہ! آل یاسر کی مغفرت فرما۔ (ویسے میں جانتا ہوں کہ) تو ان کی مغفرت کر چکا ہے۔

Haidth Number: 11856
حسن بصری سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے سیدنا عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: آپ کی اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے، جس سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تا حیات محبت کرتے رہے ہوں، کیا وہ صالح آدمی نہیں ہوگا؟ انہوںنے کہا: کیوں نہیں، تو اس نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دنیا سے تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کو اپناعامل بنا کر بھیجا ہوا تھا، سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: انہوں نے مجھے عامل تو بنایا تھا، اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ مجھ سے محبت کی وجہ سے یا میری مدد کرنے کے لیے مجھے عامل بنایا تھا، البتہ میں تمہیں بتلاتا ہوں کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دنیا سے تشریف لے گئے تو آپ دو آدمیوں سے محبت کرتے تھے، ایک سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور دوسرے سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ۔

Haidth Number: 11857
سعید بن مسیب ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مروی ہے کہ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں تشریف لائے،سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان سے کہا: تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ میں کسی آدمی کوتمہاری تاک میں بٹھادوں جو تمہیں قتل کر دے؟ انھوں نے کہا: آپ ایسا کام نہیں کریں گی، کیونکہ میں حفظ وامان کے مرکز میں ہوں اور میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سن چکا ہوں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ ایمان بے خبری میں کسی کو قتل کرنے سے روکتا ہے۔ میراآپ کے ساتھ اور آپ کی ضروریات کے بارے میں رویہ کیسا ہے؟ سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: جی ٹھیک ہے، سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تو پھر آپ میرے اور ان لوگوں کے معاملات کو رہنے دیں تاآنکہ ہم اللہ تعالیٰ سے جاملیں۔

Haidth Number: 12414
سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے منبر پر کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دنیا کا جو حصہ اب باقی ہے، وہ محض مصائب اور فتنے ہیں اور تمہارے اعمال کی مثال برتن کی مانند ہے، اگر اس کا اوپر والا حصہ پاک ہو تو نیچے والا حصہ بھی پاک ہوگا اور اگر اوپر والا حصہ ناپاک ہو ا تو نیچے والا بھی ناپاک ہوگا۔

Haidth Number: 12415

۔ (۱۲۴۱۶)۔ عَنْ أَبِی عَامِرٍ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ لُحَیٍّ قَالَ: حَجَجْنَا مَعَ مُعَاوِیَۃَ بْنِ أَبِی سُفْیَانَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَکَّۃَ قَامَ حِینَ صَلّٰی صَلَاۃَ الظُّہْرِ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((إِنَّ أَہْلَ الْکِتَابَیْنِ افْتَرَقُوا فِی دِینِہِمْ عَلٰی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً، وَإِنَّ ہٰذِہِ الْأُمَّۃَ سَتَفْتَرِقُ عَلٰی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً،یَعْنِی الْأَہْوَائَ کُلُّہَا فِی النَّارِ إِلَّا وَاحِدَۃً وَہِیَ الْجَمَاعَۃُ، وَإِنَّہُ سَیَخْرُجُ فِی أُمَّتِی أَقْوَامٌ تَجَارٰی بِہِمْ تِلْکَ الْأَہْوَائُ کَمَا یَتَجَارَی الْکَلَبُ بِصَاحِبِہِ، لَا یَبْقٰی مِنْہُ عِرْقٌ، وَلَا مَفْصِلٌ إِلَّا دَخَلَہُ وَاللّٰہِ۔)) یَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ! لَئِنْ لَمْ تَقُومُوا بِمَا جَائَ بِہِ نَبِیُّکُمْ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَغَیْرُکُمْ مِنْ النَّاسِ أَحْرٰی أَنْ لَا یَقُومَ بِہِ۔ (مسند احمد: ۱۷۰۶۱)

ابو عامر عبداللہ بن لحی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا معاویہ بن ابی سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں حج کے لیے گئے، جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تو سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نماز ظہر ادا کرنے کے بعد کھڑے ہوئے اور کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ اہل کتاب اپنے دین کے متعلق بہتر گروہوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور یہ امت تہتر گروہوں میں بٹ جائے گی،یعنی یہ لوگ اپنی خواہشات کی پیروی کریں گے، ایک گروہ کے سوا باقی تمام جہنم رسید ہوں گے، اور وہ ایک گروہ جماعت ہے اور میری امت میں ایسے ایسے بھی لوگ پیدا ہوں گے کہ ان کے اندر خواہشات یوں سرایت کر جائیں گے جیسے باؤلے کتے کے کاٹے کے اثرات مریض کے پورے جسم میں پھیل جاتے ہیں، اس کی کوئی رگ اور جوڑ اس کے اثر سے محفوظ نہیں رہتی۔)) اے عربو! اللہ کی قسم تمہارا نبی جو دین اور دعوت لے کر تمہارے پاس آیا ہے، اگر تم اس پر عمل نہ کرو گے تو دوسرے لوگ کہاں کریںگے۔

Haidth Number: 12416