Blog
Books
Search Hadith

قزع کی کراہت اور مکمل سر منڈوانے کی رخصت کا بیان

506 Hadiths Found
۔ سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک بچہ دیکھا، اس کے سر کے کچھ بال منڈوائے گئے تھے اور کچھ چھوڑ دئیے گئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سارا سر منڈوا دو یا سارا سر چھوڑ دو۔

Haidth Number: 8230
۔ سیدنا عبداللہ بن جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (سیدنا جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کے موقع پر) تین دن تک ہمارے پاس تشریف نہ لائے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آئے اور ہم سے فرمایا: آج یا کل کے بعد میرے بھائی جعفر پر نہ رونا، میرے بھتیجوں کو بلائو۔ پس ہمیں لایا گیا، ایسے لگ رہا تھا کہ ہم چوزے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’حجام کو بلائو۔ پس حجام کو لایا گیا، پھر اس نے ہمارے سرمونڈ دئیے۔

Haidth Number: 8231
۔ سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب یہودی لوگ تم پر سلام کرتے ہیں تو وہ (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کے بجائے) اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ کہتے ہیں، اس لیے تم بھی جواب میں وَعَلَیْکُمْ (اور تم پر بھی ہو) کہہ دیا کرو۔

Haidth Number: 8278
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اہل کتاب تم کو سلام کہیں تو تم جواب میں وَعَلَیْکُمْ کہا کرو۔

Haidth Number: 8279
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے اور اس نے کہا: اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ۔ لوگوں نے اس کا جواب دیا، لیکن اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: تو نے ایسے ایسے کہا ہیں نا؟ اس نے کہا: جی ہاں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اہل کتاب میں سے کوئی تم پر سلام کہے تو تم صرف عَلَیْکَ کہا کرو۔ یعنی جو کچھ تونے کہا، تجھ پر بھی وہی کچھ ہو۔

Haidth Number: 8280
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اہل کتاب میں سے ایک آدمی آیا اور اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں سلام کہا: اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، بس جب یہ لوگ تم کو سلام کہیں تو تم یہ کہہ کر ان کا جواب دیا کرو: وَعَلَیْکُمْ۔

Haidth Number: 8281
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہودی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا: اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی جواباً یہی الفاظ دوہراتے ہوئے فرمایا: اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ ۔ لیکن سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بندروں اور خنزیروں کے بھائیو! تم پر موت اور ہلاکت واقع ہو، اور تم پر اللہ تعالی کی لعنت اور غضب برسے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے عائشہ ! رک جائو۔ سیدہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! جو کچھ انہوں نے کہا ہے، کیا وہ آپ نے سنا نہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ! میں نے ان کو جو جواب دیا ہے، کیا تم نے وہ نہیں سنا، نرمی جس چیز میں بھی پیدا ہو، وہ اسے زینت بخشتی ہے اور جس چیز سے نرمی کو نکال دیا جائے، تو یہ (نرمی کا نہ ہونا) اسے عیب دار بنا دیتا ہے۔ ایک روایت میںہے: بیشک اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔

Haidth Number: 8282
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتی ہیں کہ کچھ یہودی لوگ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا: اَلسَّامُ عَلَیْکَ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عَلَیْکُمْ (تم پر بھی ہو)۔ لیکن سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: تم پر ہو اللہ کی لعنت، بلکہ سب لعنت کرنے والوں کی لعنت تم پر ہو۔ انہوں نے کہا: اے عائشہ! تمہارے باپ تو اتنے سخت گو نہ تھے، جب وہ چلے گئے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے پوچھا: جو تو نے سخت الفاظ کہے ہیں، تجھے کس چیز نے ان پر آمادہ کیا ہے؟ سیدہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے سنا نہیں کہ ان یہودیوں نے کیا کہا تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو نے دیکھا نہیں کہ میں نے بھی جوابا عَلَیْکُمْ کہا تھا، میں ان پر جو بد دعا کروں گا، وہ ان تک پہنچے گی، لیکن مجھ پر جو وہ بد دعا کریں گے، وہ مجھ تک نہیں پہنچے گی۔

Haidth Number: 8283
۔ حضرت عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک یہودی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور (السلام علیکم کی بجائے) کہا:اے محمد! اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ (یعنی آپ پر موت اور ہلاکت ہو)۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں جواب دیا: وَعَلَیْکَ (اور تجھ پر بھی ہو)۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں: میں نے بات تو کرنا چاہی لیکن مجھے معلوم تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ناپسند کریں گے، اس لیے میں خاموش رہی۔ دوسرا یہودی آیا اور کہا: اَلسَّامُ عَلَیْکُم (آپ پر موت اور ہلاکت پڑے)۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وَعَلَیْکَ (اور تجھ پر بھی ہو)۔ اب کی بار بھی میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ناپسندکرنے کی وجہ سے (خاموش رہی)۔ پھر تیسرا یہودی آیا اور کہا: اَلسَّامُ عَلَیْکُم۔ مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں یوں بول اٹھی: بندرو اور خنزیرو! تم پر ہلاکت ہو، اللہ کا غضب ہو اور اس کی لعنت ہو۔ اللہ تعالی نے جس انداز میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سلام نہیں کہا، کیا تم وہ انداز اختیار کرنا چاہتے ہو؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی بدزبانی اور فحش گوئی کو پسند نہیں کرتا، ان (یہودیوں) نے اَلسَّامُ عَلَیْکَ کہا اور ہم نے بھی (بد گوئی سے بچتے ہوئے صرف وَعَلَیْکَ کہہ کر) جواب دے دیا۔ دراصل یہودی حاسد قوم ہے اور (ہماری کسی) خصلت پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا کہ سلام اور آمین پر کرتے ہیں۔

Haidth Number: 8284
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ یہودی لوگوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر سلام کہنے کے بہانے کہا: اے ابو القاسم ! اَلسَّامُ عَلَیْکَ،آپ نے یوں جواب دیا: وَعَلَیْکُمْ۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا، جبکہ وہ غصے میں تھیں: اے اللہ کے نبی! کیا آپ نے سنا ہے کہ انھوں نے کیا کہا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی بالکل، میں نے سنا ہے اور میں نے ان کا جواب بھی دے دیا ہے، بات یہ ہے کہ ان کے خلاف ہماری بددعائیں تو قبول ہو جاتی ہیں، لیکن ہمارے خلاف ان کی بددعائیں قبول نہیں ہوتیں۔

Haidth Number: 8285
۔ سیدنا عبداللہ بن بسر مازنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب لوگوں کے گھر آتے تو اس کی دیوار کے نزدیک کھڑے ہوتے اور اس کے دروازے کے سامنے نہ آتے تھے۔

Haidth Number: 8286
۔ (دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب اجازت طلب کرنے کے لیے کسی کے گھر کے دروازے پر آتے تو سامنے کھڑے نہ ہوتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دیوار کے ساتھ چلتے، یہاں تک کہ اجازت طلب کر لیتے یا پھر واپس چلے جاتے۔

Haidth Number: 8287
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اجازت طلب کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کون ہے؟ میں نے کہا: جی میں ہوں، میں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں، میں … یہ کیا ہوتا ہے۔ محمد راوی کہتے ہیں: گویا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لفظ میں کو ناپسند کیا۔

Haidth Number: 8288
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے انہیںیہ خوشخبری سنائی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو چاہتا ہے کہ قرآن مجید کو اس طرح ترو تازہ پڑھے، جس طرح وہ نازل ہوا ہے تو وہ ام عبد کے بیٹے (عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) کی قراء ت کے مطابق پڑھے۔

Haidth Number: 8378
Haidth Number: 8379
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو قرآن مجید کو اس طرح ترو تازہ پڑھنا چاہتا ہے جس طرح کہ وہ نازل ہوا تو اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد یعنی عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی قراء ت کے مطابق پڑھے۔

Haidth Number: 8380
۔ مسروق ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌ کہتے ہیں:میں سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، وہاں سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ذکر ہونے لگا، انھوں نے کہا: میں اس وقت سے اس آدمی سے محبت کرتا ہوں، جب سے میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کییہ حدیث سنی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اِن چار افراد سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرو: ابن ام عبد، معاذ، مولائے ابی حذیفہ سالم۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سب سے پہلے ابن ام عبد یعنی سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ذکر کیا۔ یعلی راوی کہتے ہیں: میں چوتھے کا نام بھول گیا۔

Haidth Number: 8381
۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اِن چار افراد سے قرآن مجید سیکھو: عبداللہ بن مسعود، مولائے ابی حذیفہ سالم، معاذ بن جبل اور ابی بن کعب ۔

Haidth Number: 8382
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد ِ مبارک میں چار افراد نے مکمل قرآن مجید حفظ کیا تھا، یہ سارے کے سارے انصار میں سے تھے: ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابو زید۔

Haidth Number: 8383
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے پڑھایا {اِنِّیْ اَنَا الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ}۔

Haidth Number: 8427
۔ سیّدناابو امامہ باہلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوتے اور نماز میںداخل ہوتے تو تین دفعہ اللّٰہ اکبر، تین دفعہ لاا لہ الا اللّٰہ او رتین مرتبہ سبحان اللّٰہ وبحمدہ پھر یہ پڑھتے: أَ عُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ ھَمْزِہِ وَنَفْخِہِ وَنَفْثِہِ۔

Haidth Number: 8469
۔ سیدنا سلیمان بن صرد بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو آدمیوں کو سنا جو آپس میں جھگڑا کرتے ہوئے باتیں کر رہے تھے، ان میں سے ایک غضب ناک ہوگیا اورسخت غصہ میں آ گیا اور اپنے ساتھی کو برا بھلا کہنے لگا،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے، اگر یہ کہے گا تو اس کا شیطان دور چلا جائے گا۔ یہ سن کر ایک آدمی اس کے پاس آیا اور کہا: تو یہ کلمہ کہہ: أَ عُوذُ بِاللّٰہِ مِنْ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ، لیکن اس نے آگے سے کہا: کیا تو مجھے پاگل سمجھتا ہے۔

Haidth Number: 8470

۔ (۸۴۹۵)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَ: قُلْتُ: أَ رَأَ یْتِ قَوْلَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَ وْ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَ نْ یَطَّوَّفَ بِہِمَا} قَالَ: فَقُلْتُ: فَوَاللّٰہِ! مَا عَلَی أَ حَدٍ جُنَاحٌ أَ نْ لَا یَطَّوَّفَ بِہِمَا، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: بِئْسَمَا قُلْتَ یَا ابْنَ أُخْتِی! إِنَّہَا لَوْ کَانَتْ عَلَی مَا أَ وَّلْتَہَا کَانَتْ {فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَ نْ لَا یَطَّوَّفَ بِہِمَا} وَلَکِنَّہَا إِنَّمَا أُنْزِلَتْ أَ نَّ الْأَ نْصَارَ کَانُوْا قَبْلَ أَ نْ یُسْلِمُوْایُہِلُّونَ لِمَنَاۃَ الطَّاغِیَۃِ، الَّتِی کَانُوا یَعْبُدُونَ عِنْدَ الْمُشَلَّلِ، وَکَانَ مَنْ أَ ہَلَّ لَہَا تَحَرَّجَ أَ نْ یَطَّوَّفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ، فَسَأَ لُوْا عَنْ ذَلِکَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّا کُنَّا نَتَحَرَّجُ أَ نْ نَطَّوَّفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، فَأَ نْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ} إِلٰی قَوْلِہِ: {فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَ نْ یَطَّوَّفَ بِہِمَا} قَالَتْ عَائِشَۃُ: ثُمَّ قَدْ سَنَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الطَّوَافَ بِہِمَا فَلَیْسَیَنْبَغِی لِأَ حَدٍ أَ نْ یَدَعَ الطَّوَافَ بِہِمَا۔ (مسند احمد: ۲۵۶۲۵)

۔ عروہ سے مروی ہے، انھوں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے کہا: اس آیت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَ وْ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَ نْ یَطَّوَّفَ بِہِمَا} … بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، تو جو کوئی اس گھر کا حج کرے، یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ دونوں کا خوب طواف کرے (سورۂ بقرہ:۱۵۸) میں نے کہا:اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کا طواف نہ بھی کیاجائے تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن سیدہ نے کہا: اے بھانجے! یہ تونے درست نہیں سمجھا، اگر یہ مطلب ہوتا جو تو بیان کر رہا ہے تو پھر قرآن کے الفاظ اس طرح ہوتے: {فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَ نْ لَا یَطَّوَّفَ بِہِمَا} … پس اس پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان دونوں کا طواف نہ کرے۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے انصاری لوگ منات بت کے لئے احرام باندھتے تھے اور جس کی وہ عبادت کرتے تھے، وہ مشلل مقام میں تھا اور جو اس بت کے لئے احرام باندھتا تھا، وہ صفا اور مروہ کی سعی کرنے میں حرج سمجھتا تھا، جب انہوں نے اس بارے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہم جاہلیت میں صفا و مروہ کی سعی میں حرج محسوس کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَ نْ یَطَّوَّفَ بِہِمَا} … بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، تو جو کوئی اس گھر کا حج کرے، یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ دونوں کا خوب طواف کرے۔ پھر سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی سعی کو مشروع قرار دیا ہے، لہٰذا کسی کے لائق نہیں ہے کہ وہ ان کا طواف چھوڑے۔

Haidth Number: 8495
۔ سیدنا عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، انھوں نے اللہ تعالی کے فرمان { إِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَۃَ مِـنْ شَعَائِـرِ اللّٰہِ} کے بارے میں کہا: جو انصاری لوگ دورِ جاہلیت میں منات کے لیے احرام باندھتے تھے، مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک بت کا نام مناۃ تھا، انھوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! ہم صفااور مروہ کے درمیان منات کی تعظیم کے لئے سعی کیا کرتے تھے، کیا اب ان کی سعی کرنے میں ہم پرکوئی حرج تو نہیں ہے،پس اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَ وِ اعْتَمَرَ فَـلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَ نْ یَطَّوَّفَ بِہِمَا} … بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، تو جو کوئی اس گھر کا حج کرے، یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ دونوں کا خوب طواف کرے

Haidth Number: 8496
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا کہ کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیرا کھانا کھلانا اور سلام کہنا ہر شخص کو، تیری اس سے معرفت ہو یا نہ ہو۔

Haidth Number: 9084
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی ضیافت کرے، جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے ہمسائے کی حفاظت کرے، اسی طرح جو آدمی اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ خیر و بھلائی والی بات کرے یا پھر خاموش رہے۔

Haidth Number: 9085
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بات تین بار ارشاد فرمائی، لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مہمان کا اکرام کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تین دن، اور اس کے بعد بھی اگر وہ بیٹھا رہے تو ضیافت اس پر صدقہ ہو گی۔

Haidth Number: 9086
۔ سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس آدمی میں کوئی خیر نہیں ہے، جو مہمان نوازی نہیں کرتا۔

Haidth Number: 9087
۔ سیدنا مالک بن نضلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں ایک آدمی کے پاس گیا، اس نے نہ میری ضیافت کی اور نہ میری عزت کی، پھر اگر وہی آدمی میرے پاس آ جائے تو کیا میں اس کی ضیافت کروں یا اس کو اس کے کیے کا بدلہ دوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بلکہ تو اس کی ضیافت کر۔

Haidth Number: 9088
۔ صحابی ٔ رسول سیدنا سنان بن سنّہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شکریہ ادا کرنے والے کھانے والے کا اجر روزہ رکھنے والے اور صبر کرنے والے کی طرح ہے۔

Haidth Number: 9089