اَلطَّبْعُ: (ف) کے اصل معنی کسی چیز کو (ڈھال کر) کوئی شکل دینا کے ہیں۔ مثلاً طَبْعُ السَِّّۃ وَطَبْعُ الدَّرَاھِمِ: یعنی سکہ یا دراہم کو ڈھالنا یہ خَتْمٌ سے زیادہ عام اور نَقْشٌ سے زیادہ خاص ہے اور وہ آلہ جس سے مہر لگائی جائے اسے طَابَعٌ وَخَاتَمٌ کہا جاتا ہے اور مہر لگانے والے کو طَابِعٌ مگر کبھی یہ طَابَعٌ کے معنی میں بھی آجاتا ہے اور یِسْبَۃُ الْفِعْلِ اِلَی الْالَۃِ کے قبیل سے ہے۔ جیسے سَیْفٌ قَاطِعٌ۔ قرآن پاک میں ہے: (فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ ) (۶۳:۴) تو ان کے دلوں پر مہر لگادی۔ (کَذٰلِکَ یَطۡبَعُ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ) (۳۰:۵۹) اسی طرح خدا ان کے دلوں پر جو سمجھ نہیں رکھتے مہر لگادیتا ہے۔ (کَذٰلِکَ نَطۡبَعُ عَلٰی قُلُوۡبِ الۡمُعۡتَدِیۡنَ ) (۱۰:۷۴) اسی طرح ہم زیادتی کرنے والوں کے دلوں پر مہر لگادیتے ہیں۔ اور یہ بحث آیت: (خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ ) (۲:۷) میں گزر چکی ہے۔(1) اور نقش کرنے کے اعتبار سے سَجِیَّۃٌ (خلقی عادت) کو طَبْعٌ یا طَیبِیْعَۃٌ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی دل پر بمنزلہ نقش کے ہوتی ہے۔ عام اس سے کہ پیدائشی ہو یا عادت ہونے کے اعتبار سے لیکن عام طور پر اس کا استعمال خلقی عادت پر ہوتا ہے۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے۔(2) (۲۸۷) فَتَابَی الطِّبَاعُ عَلَی النَّاقِل کہ طبیعت کا بدلنا ممکن نہیں ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ نے آگ یا کسی دوا کا جو مزاج بنایا ہے اس خصوصی مزاج کو ان کی طبیعت کہا جاتا ہے۔ اور طِبْعُ السَّیَفِ کے معنی تلوار کا زنگ اور میل کچیل کے ہیں۔ رَجَلٌ طَبعً گندے اخلاق والا چنانچہ بعض نے آیت (طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ ) (۹:۹۳) خدا نے ان کے دلوں پر مہر کر دی۔ اور (کَذٰلِکَ یَطۡبَعُ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِ الۡکٰفِرِیۡنَ ) (۷:۱۰۱) اسی طرح خدا کافروں کے دلوں پر مہر لگادیتا ہے۔ میں طَبَعٌ کے معنی دلوں کو زندگی آلود یعنی گندہ کردینا کے ہیں۔ جیساکہ دوسرے مقام پر فرمایا: (بَلۡ رَانَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ) (۸۳:۱۴) بلکہ ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے۔ (اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُرِدِ اللّٰہُ اَنۡ یُّطَہِّرَ قُلُوۡبَہُمۡ) (۵:۴۱) یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو خدا نے پاک کرنا نہیں چاہا۔ بعض نے کہا ہے کہ طَبَعْتُ الْمِکْیَالَ کے معنی ہیں: میں نے پیمانے کو لبالب بھر دیا کوینکہ اس کا بھر جانا بھی گویا اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اس میں اب کوئی اور چیز نہیں آسکتی اور طِبْعٌ بمعنی مَطْبُوْعٌ بھرا ہوا آتا ہے۔ شاعر نے کہا ہے:(3) (رمل) (۲۸۸) کَرَوَاَیَا الطِّبْعِ ھَمَّتْ بِالْوَحَلِ ان کی حالت ان اونٹوں کی سی تھی جن پر پانی کے مشکیزے لدے ہوئے ہوں اور وہ دلدل میں پھنس جائے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
طَبَعَ | سورة النساء(4) | 155 |
طَبَعَ | سورة النحل(16) | 108 |
طَبَعَ | سورة محمد(47) | 16 |
فَطُبِعَ | سورة المنافقون(63) | 3 |
نَطْبَعُ | سورة يونس(10) | 74 |
وَطَبَعَ | سورة التوبة(9) | 93 |
وَطُبِعَ | سورة التوبة(9) | 87 |
وَنَطْبَعُ | سورة الأعراف(7) | 100 |
يَطْبَعُ | سورة الأعراف(7) | 101 |
يَطْبَعُ | سورة الروم(30) | 59 |
يَطْبَعُ | سورة مومن(40) | 35 |