Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلْقَضَائُ کے معنی قولاً یا عملاً کسی کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی و عملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں(1) قضائِ الٰہی اور قضاء بشری چناچنہ قضائِ الٰہی کے متعلق فرمایا: (وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ ) (۱۷:۲۳) اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (وَ قَضَیۡنَاۤ اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ فِی الۡکِتٰبِ ) (۱۷:۴) اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل سے کہہ دیا تھا … یہاں قضاء سے مراد قطعی طور پر اطلاع دینے اور حکماً فیصلہ کردینے کے ہیں۔ یعنی ہم نے انہیں اطلاع دے دی اور وحی کے ذریعہ قطعی طور پر حکم دے دیا تھا۔ اور آیت کریمہ: (وَ قَضَیۡنَاۤ اِلَیۡہِ ذٰلِکَ الۡاَمۡرَ اَنَّ دَابِرَ ہٰۤؤُلَآءِ مَقۡطُوۡعٌ مُّصۡبِحِیۡنَ ) (۱۵:۶۶) اور ہم نے لوط علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ ان لوگوں کی جڑ صبح ہوتے ہوتے کاٹ دی جائے گی۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے۔ فعلاً قضائِ الٰہی کے متعلق فرمایا: (وَ اللّٰہُ یَقۡضِیۡ بِالۡحَقِّ ؕ وَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ لَا یَقۡضُوۡنَ بِشَیۡءٍ ) (۴۰:۲۰) اور خدا سچائی کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کچھ بھی حکم نہیں دے سکتے۔ اور آیت کریمہ: (فَقَضٰہُنَّ سَبۡعَ سَمٰوَاتٍ فِیۡ یَوۡمَیۡنِ) (۴۱:۱۲) پھر دو دن میں سات آسمان بنائے… میں اﷲ تعالیٰ کی ایجاد ابداعی اور اس سے فارغ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسے فرمایا: (بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ) (۲:۱۱۷) وہ ہی آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ اور آیت کریمہ: (2) (اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ) (۴۲:۱۴) اگر ایک وقت مقرر تک کے لیے بات نہ ٹھہرچکی ہوتی تو ان میں فیصلہ کردیا جاتا۔ میں قُضِیَ بمعنی فُصِلَ ہے یعنی ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا۔ اور قضا بشری بذریعہ قول، جیسے قَضَی الْحَاکِمُ بِکَذَا: حاکم نے فلاں فیصلہ کیا۔ کیونکہ حاکم ہمیشہ زبان کے ساتھ فیصلہ دیتا ہے اور قضا بشری بذریعہ فعل کے متعلق فرمایا: (فَاِذَا قَضَیۡتُمۡ مَّنَاسِکَکُمۡ ) (۲:۲۰۰) پھر جب حج کے تمام ارکان پورے کرچکو۔ (ثُمَّ لۡیَقۡضُوۡا تَفَثَہُمۡ وَ لۡیُوۡفُوۡا نُذُوۡرَہُمۡ) (۲۲:۲۹) پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں۔ اور نیز فرمایا: (ذٰلِکَ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکَ ؕ اَیَّمَا الۡاَجَلَیۡنِ قَضَیۡتُ فَلَا عُدۡوَانَ عَلَیَّ) (۲۸:۲۸) مجھ میں اور آپ میں یہ عہد پختہ ہوا کہ میں جونسی مدت چاہوں پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو۔ (فَلَمَّا قَضٰی زَیۡدٌ مِّنۡہَا وَطَرًا) (۳۳:۳۷) پھر جب زید نے اس سے کوئی حاجت متعلق نہ رکھی۔ (ثُمَّ اقۡضُوۡۤا اِلَیَّ وَ لَا تُنۡظِرُوۡنِ ) (۱۰:۷۱) پھر وہ کام میرے حق میں کرگزرو۔ یعنی تم میرے متعلق اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہنالو۔ اور آیت کریمہ: (فَاقۡضِ مَاۤ اَنۡتَ قَاضٍ ؕ اِنَّمَا تَقۡضِیۡ ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ) (۲۰:۷۲) تو آپ کو جو حکم دینا ہووے دیجیے اور آپ جو حکم دے سکتے ہیں وہ صرف اسی دنیا کی زندگی میں دے سکتے ہیں۔ اور اسی طرح شعر(3) (الطّویل) (۳۵۶) قَضَیْتَ اُمُوْرًا ثُمَّ غَادَرْتَ بَعْدَھَا تم نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے امور سرانجام دئیے۔ پھر اس کے بعد … چھوڑ دئیے ہیں میں دونوں معنی ہوسکتے ہیں۔ یعنی قضاء قولی بھی اور قضا فعلی بھی۔ اور کبھی قصا سے موت مراد ہوتی ہے جیسے کہا جاتا ہے فُلَان قَضٰی نَحْبَہٗ: یعنی اس نے اپنے دنیاوی امور جو اس کے ساتھ مخصوص تھے پورے کرلیے یعنی فوت ہوگیا۔ چنانچہ آیت کریمہ: (فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ) (۳۳:۲۳) تو ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اپنی نذر سے فارغ ہوگئے اور بعض ایسے ہیں کہ انتظار کررہے ہیں۔ کے بعض نے یہ معنی کیے ہیں کہ انہوں نے اپنی نذر پوری کرلی۔ کیونکہ انہوں نے اپنے اوپر لازم کرلیا تھا کہ وہ جان قربان کردیں گے اور کبھی بھی دشمنوں سے شکست کھاکر نہیں بھاگیں گے مگر بعض نے اس کے معنی فوت ہوجانا بھی کیے ہیں۔ اور آیت کریمہ: (ثُمَّ قَضٰۤی اَجَلًا ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّی عِنۡدَہٗ ) (۶:۲) پھر مرنے کا ایک وقت مقرر کردیا اور ایک مدت اس کے ہاں اور مقرر ہے۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اجل اولی سے دنیاوی زندگی مراد ہے اور بانی سے موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونا مراد ہے اور ارشادِالٰہی: (یٰلَیۡتَہَا کَانَتِ الۡقَاضِیَۃَ ) (۶۹:۲۷) اے کاش موت (ابدالاباد کے لیے میرا کام) تمام کرچکی ہوتی۔ (وَ نَادَوۡا یٰمٰلِکُ لِیَقۡضِ عَلَیۡنَا رَبُّکَ) (۴۳:۷۷) اور پکاریں گے کہ اے مالک تمہارا پروردگار ہمیں موت دے دے۔ میں بھی موت سے کنایہ ہے۔ نیز فرمایا: (فَلَمَّا قَضَیۡنَا عَلَیۡہِ الۡمَوۡتَ مَا دَلَّہُمۡ عَلٰی مَوۡتِہٖۤ اِلَّا دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ ) (۳۴:۱۴) پھر جب ہم نے ان کے لیے موت کا حکم صادر کیا تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑے سے قَضَی الَّدَیْنَ قرض ادا کرنا۔ اور اقتضاء کے معنی قرض کی واپسی کا مطالبہ کرنے کے ہیں۔ اور اسی سے ھٰذا یَقْضِی کَذَا محاورہ ہے اور آیت کریمہ: (لَقُضِیَ اِلَیۡہِمۡ اَجَلُہُمۡ) (۱۰:۱۱) تو ان کی عمر کی میعاد پوری ہوچکی ہوتی۔ کے معنی یہ ہیں کہ ان کی دنیاوی زندگی کی میعاد پوری کردی جاتی۔ قضاء الٰہی قدر (تقدیر) سے اخص ہے۔ کیونکہ قضاء کے معنی تقدیر کو قطعی کردینے کے ہیں لہٰذا قدر بمعنی تقدیر ہے اور قضاء اس کا فیصلہ کرنے کا نام ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ قدر (بمنزلہ اپنے کے ہے جیساکہ مروی ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے ملک شام سے بوجہ طاعون کے واپسی کا ارادہ کیا تو ابوعبیدہؓ نے کہا(4) (۸۳) اَتَفِرِّ مِنَ الْقَضَائِ (کیا تم قضائِ الٰہی سے بھاگ رہے ہو) تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: (اَفِرُّ مِنْ قَضَآئِ اﷲِ اِلٰی قَدَرِ اﷲِ کہ میں قضائِ الٰہی سے تقدیر الٰہی کی طرف بھاگتا ہوں۔ تو اس میں تنبیہ ہے کہ تقدیر جب تک قضا کے مرحلہ میں داخل نہ ہو۔ ہوسکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اسے (دعا وغیرہ کے وسیلہ سے) روک دے لیکن جب اﷲ تعالیٰ قضا یعنی قطعی فیصلہ کردے تو کسی حیلہ سے اسے روکنا ممکن نہیں ہوتا۔ جیساکہ مندرجہ ذیل آیات سے معلوم ہوتا ہے۔ (وَ کَانَ اَمۡرًا مَّقۡضِیًّا) (۱۹:۲۱) اور یہ کام مقرر ہوچکا ہے۔ (کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتۡمًا مَّقۡضِیًّا ) (۱۹:۷۱) یہ تمہارے پروردگار پر لازم اور مقرر ہے۔ اور اسی طرح آیت کریمہ: (وَ قُضِیَ الۡاَمۡرُ) (۱۱:۴۴) اور کام تمام کردیا گیا۔ میں قُضِیَ کے معنی فُصِلَ کے ہیں یعنی قطعی فیصلہ کردیا گیا کہ اس کی تلافی نہیں ہوسکتی اسی طرح فرمایا: (وَ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا) (۲:۱۱۷) اور جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے۔ اور ہر وہ قول جس میں نفع یا اثبات قطعی کا حکم پایا جائے اسے قضیۃ کہا جاتا ہے اسی لیے یہ صدق و کذب کے ساتھ متصف ہوتا ہے او راسی بنا پر بعض نے کا ہے کہ تجربہ خطرناک امر ہے اور قضاء مشکل یعنی کسی چیز کے متعلق یہ فیصلہ کرنا کہ یہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے نہایت ہی مشکل امر ہے حدیث میں ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا:(5) (۸۴) (عَلِیٌّ اَقْضَاکُمْ) کہ علیؓ تم سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں۔

Words
Words Surah_No Verse_No
وَقُضِيَ سورة البقرة(2) 210
وَقُضِيَ سورة يونس(10) 54
وَقُضِيَ سورة هود(11) 44
وَقُضِيَ سورة الزمر(39) 69
وَقُضِيَ سورة الزمر(39) 75
يَـقْضُوْنَ سورة مومن(40) 20
يَـقْضِيْ سورة مومن(40) 20
يَقْضِ سورة عبس(80) 23
يَقْضِيْ سورة يونس(10) 93
يَقْضِيْ سورة النمل(27) 78
يَقْضِيْ سورة الجاثية(45) 17
يُقْضٰى سورة فاطر(35) 36
يُّقْضٰٓى سورة طه(20) 114