اَلْحِصْنُ: (قلعہ) اس کی جمع حُصُوْنٌ آتی ہے قرآن پاک میں ہے: (مَّانِعَتُہُمۡ حُصُوۡنُہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ ) (۵۹:۲) کہ ان کے قلعے ان کو خدا (کے عذاب) سے بچالیں گے۔ اور آیت کریمہ: (لَا یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ جَمِیۡعًا اِلَّا فِیۡ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ ) (۵۹:۱۴) یہ سب جمع ہوکر بھی تم سے (بالمواجھہ) نہیں لڑسکیں گے۔ مگر بستیوں کے قلعوں میں۔ میں مُحَصَّنَۃ سے مراد وہ بستیاں ہیں جو قلعوں کی طرح محفوظ اور محکم بنائی گئی ہوں۔ تَحَصَّنَ کے اصل معنیٰ تو قلعہ کو مسکن بنالینے کے ہیں مگر مجازاً ہر قسم کا بچاؤ حاصل کرنے پر یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ اسی سے دِرْعٌ حَصِیْنَۃٌ (زرہ محکم) اور فَرَسٌ حِصَانٌ (اسپ نرونجیب) کا محاورہ ہے۔ کیونکہ زرہ بدن کے لئے اور گھوڑا اپنے سوار کے لئے ایک طرح سے بمنزلہ قلعہ کے ہوتا ہے۔ اس بنا پر شاعر نے کہا ہے (1) ع (الکامل) (۱۱۱) اِنَّ الْحَصُوْنَ الخَیْلُ لاَمُدْنَ الْقُریٰ کہ حقیقی قلعے تو نجیب گھوڑے ہیں نہ کہ شہر اور قصبے اور آیت کریمہ: (اِلَّا قَلِیۡلًا مِّمَّا تُحۡصِنُوۡنَ) (۱۲:۴۸) صرف وہی تھوڑا (سارہ جائے گا جو تم احتیاط سے رکھ چھوڑو گے۔) میں تُحصِنُوْنَ سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ قلعے جیسی محفوظ جگہوں میں حفاظت سے رکھ چھوڑو۔ کہا جاتا ہے۔ اِمْرَئَ ۃٌ حَصَانٌ وَحَاصِنٌ: (عفیفہ عورت) حَصَانٌ کی جمع حُصُنٌ اور حَاصِنٌ کی جمع حَوَاصِنٌ آتی ہے اور حَصَانٌ کے معنیٰ پاکدامن یا معزز عورت کے ہوتے ہیں (2) قرآن پاک میں ہے: (وَ مَرۡیَمَ ابۡنَتَ عِمۡرٰنَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا) (۶۶:۱۲) اور (دوسری) عمران کی بیٹی مریم کی جنہوں نے اپنی شرم گاہ کو محفوظ رکھا۔ اَحْصَنَتْ وَحَصَّنَتْ کے ایک ہی معنیٰ ہیں۔ (فَاِذَاۤ اُحۡصِنَّ ) (۴:۲۵) یعنی جب نکاح کرلیں اور اُحْصِنَّ (مجہول) ہو تو نکاح کردی جائیں۔ اَلْحِصَانِ کے معنیٰ مُحصنَۃ عورت کے ہیں خواہ وہ اِحْصَان پاک دامنی کی وجہ سے ہو یا کسی کے ساتھ نکاح کرلینے کی وجہ سے اور یا اپنے شرف اور حریت کی وجہ سے محفوظ ہو اور عورت کو مُحْصِنْ (بصیغہ فاعل) بھی کہا جاتا ہے اور مُحْصَن (بصیغہ مفعول) بھی اوّل یعنی صیغہ فاعل اس تصور کی بنا پر ہے کہ وہ خود اپنی ذات کی حفاظت کرتی ہے اور اسم مفعول دوسرے کی جانب سے حفاظت کی وجہ سے ہے اور آیت کریمہ: (وَ اٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ مُحۡصَنٰتٍ غَیۡرَ مُسٰفِحٰتٍ …… فَاِذَاۤ اُحۡصِنَّ فَاِنۡ اَتَیۡنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیۡہِنَّ نِصۡفُ مَا عَلَی الۡمُحۡصَنٰتِ مِنَ الۡعَذَابِ ) (۴:۲۵…) اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کردو۔ بشرطیکہ عفیفہ ہوں نہ ایسی کھلم کھلا بدکاری کریں … پھر اگر نکاح میں آکر بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو جو سزا آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) کے لئے ہے اس کی آدھی ان کو دی جائے۔ میں اوّل مُحْصَنات سے شوہر والی عورتیں مراد ہیں گویا خاوند ان کی حفاظت کرتے ہیں اور قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی مُحصنات کا لفظ آیا ہے وہاں فتحہ اور کسرہ دونوں طرح پڑھنا صحیح ہے لیکن جہاں حُرِّمَت کے بعد آیا ہے وہاں صرف فتحہ صاد کے ساتھ ہی پڑھا جائے گا کیونکہ شوہردار عورتوں کے ساتھ ہی نکاح حرام ہے نہ کہ عفیفہ کے ساتھ۔
Words | Surah_No | Verse_No |
الْمُحْصَنٰتِ | سورة النساء(4) | 25 |
الْمُحْصَنٰتِ | سورة النساء(4) | 25 |
الْمُحْصَنٰتِ | سورة النور(24) | 4 |
الْمُحْصَنٰتِ | سورة النور(24) | 23 |
اَحْصَنَتْ | سورة الأنبياء(21) | 91 |
اَحْصَنَتْ | سورة التحريم(66) | 12 |
اُحْصِنَّ | سورة النساء(4) | 25 |
تَحَصُّنًا | سورة النور(24) | 33 |
تُحْصِنُوْنَ | سورة يوسف(12) | 48 |
حُصُوْنُهُمْ | سورة الحشر(59) | 2 |
لِتُحْصِنَكُمْ | سورة الأنبياء(21) | 80 |
مُحْصَنٰتٍ | سورة النساء(4) | 25 |
مُحْصِنِيْنَ | سورة المائدة(5) | 5 |
مُّحَصَّنَةٍ | سورة الحشر(59) | 14 |
مُّحْصِنِيْنَ | سورة النساء(4) | 24 |
وَالْمُحْصَنٰتُ | سورة المائدة(5) | 5 |
وَالْمُحْصَنٰتُ | سورة المائدة(5) | 5 |
وَّالْمُحْصَنٰتُ | سورة النساء(4) | 24 |