Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلسَّحْبُ: اس کے اصل معنیٰ کھینچنے کے ہیں۔ چنانچہ دامن زمین پر گھسیٹ کر چلنے یا کسی انسان کو منہ کے بل گھسٹنے پر سَحْبٌ کا لفظ بولا جاتا ہے اسی سے بادل کو سَحَابٌ کہا جتا ہے یا تو اس لئے کہ اسے ہوا کھینچ کر لے چلتی ہے اور یا اس لئے کہ وہ خود پانی کو کھینچ کر لاتا ہے۔ اور یا اس بنا پر کہ وہ چلنے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گھسٹتا ہوا چل رہا ہے قرآن پاک میں ہے: (یَوۡمَ یُسۡحَبُوۡنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوۡہِہِمۡ) (۵۴:۴۸) جس دن ان کو ان کے منہ کے بل (دوزخ کی) آگ میں گھسیٹا جائے گا۔ اور فرمایا: (یُسۡحَبُوۡنَ O فِی الۡحَمِیۡمِ) (۴۰:۷۱،۷۲) انہیں دوزخ میں کھینچا جائے گا۔ محاورہ ہے۔ فُلَانٌ یَتَسَحَّبُ عَلٰی فُلَانٍ: کہ فلاں اس پر جرأت کرتا ہے۔ جیساکہ یَتَجَرَّئُ عَلَیْہٖ کہا جاتا ہے۔ اَلسَّحَابُ: ابر کو کہتے ہیں خواہ وہ پانی سے پر ہو یا خالی اس لئے خالی بادل کو سَحَابٌ جَھَامٌ کہا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُزۡجِیۡ سَحَابًا) (۲۴:۴۳) کیا تونے غور نہیں کیا کہ اﷲ بادل کو چلاتا ہے۔ (حَتّٰۤی اِذَاۤ اَقَلَّتۡ سَحَابًا) (۷:۵۷) حتیٰ کہ جب وہ بھاری بادل کو اٹھا لاتی ہیں۔ (وَّ یُنۡشِیُٔ السَّحَابَ الثِّقَالَ) (۱۳:۱۲) او روہ بھاری بادل اٹھاتا ہے۔ اور کبھی لفظ سحاب بول کر بطور تشبیہ کے سا سے سایہ اور تاریکی مراد لی جاتی ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (اَوۡ کَظُلُمٰتٍ فِیۡ بَحۡرٍ لُّجِّیٍّ یَّغۡشٰہُ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ سَحَابٌ ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ) (۲۴:۴۰) یا (ان کے اعمال کی مثال) برے کہرے دریا کے اندرونی اندھیروں کی سی ہے کہ دریا کو لہر نے ڈھانپ رکھا ہے اور (لہر بھی ایک نہیں بلکہ) لہر کے اوپر لہر ان کے اوپر بادل (کی تاریکی غرض) اندھیرے ہیں ایک کے اوپر ایک۔

Words
Words Surah_No Verse_No
السَّحَابَ سورة الرعد(13) 12
السَّحَابِ سورة النمل(27) 88
سَحَابًا سورة الأعراف(7) 57
سَحَابًا سورة النور(24) 43
سَحَابًا سورة الروم(30) 48
سَحَابًا سورة فاطر(35) 9
سَحَابٌ سورة النور(24) 40
سَحَابٌ سورة الطور(52) 44
وَالسَّحَابِ سورة البقرة(2) 164
يُسْحَبُوْنَ سورة مومن(40) 71
يُسْحَبُوْنَ سورة القمر(54) 48