Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلْعَیْنُ کے معنی آنکھ کے ہیں۔ قرآن میں ہے۔ (الۡعَیۡنَ بِالۡعَیۡنِ ) (۵:۴۵) آنکھ کے بدلے آنکھ۔ (لَطَمَسۡنَا عَلٰۤی اَعۡیُنِہِمۡ ) (۳۶:۶۶) ان کی آنکھوں کو مٹا (کر اندھا) کردیں۔ (اَعۡیُنَہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ) (۵:۸۳) ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے یہں۔ (قُرَّتُ عَیۡنٍ لِّیۡ وَ لَکَ) (۲۸:۹) (یہ) میری اور تمہاری (دونوں کی) آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ (کَیۡ تَقَرَّ عَیۡنُہَا ) (۲۰:۴۰) تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ اور عَیْنٌ کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فُلَانٌ بِعَیْنِیْ کے معنی ہیں۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے۔ جیساکہ ھُوَ بِمَرْأًی مِّنِّیْ وَمَسْمَعٍ کا محاورہ ہے۔ قرآن پاک میں ہے۔ (فَاِنَّکَ بِاَعۡیُنِنَا ) (۵۲:۴۸) تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو۔ (تَجۡرِیۡ بِاَعۡیُنِنَا) (۵۴:۱۴) وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی۔ (وَ لِتُصۡنَعَ عَلٰی عَیۡنِیۡ ) (۲۰:۳۹) اور اس لیے کہ تم میرے سامنے پرورش پاؤ۔ اور اسی سے عَیْنُ اﷲِ عَلَیْکَ ہے جس کے معنی ہیں: اﷲ تعالیٰ تمہاری حفظت اور نگہداشت فرمائے۔ یا اﷲ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اَعْیُنٌ وَعُیُوْنٌ دونوں عین کی جمع ہیں۔ قرآن پاک میں ہے۔ (وَّ لَاۤ اَقُوۡلُ لِلَّذِیۡنَ تَزۡدَرِیۡۤ اَعۡیُنُکُمۡ ) (۱۱:۳۱) اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ۔ (رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ) (۲۵:۷۴) اے ہمارے پروردگار! ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے دل کا چین اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔ اور استعارہ کے طور پر عَیْنٌ کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں۔ (۱) مشکیزہ کے سوراخ کو عَیْنٌ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے۔ سِقَائٌ عَیِّنٌ وَمُعَِیْنٌ: پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عَیِّنْ قِرْبَتَکَ: اپنی نئی مشک میں پانی ڈالو تاکہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں۔ (۲) جاسوس کو عَیْنٌ کہا جاتا ہے یونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا یہ جس طرح کہ عورت کو فَرْجٌ اور سواری کو ظَھْرٌ کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چنانچہ محاورہ ہے: فُلَانٌ یَمْلِکُ کَذَا فَرْجًا وَکَذَا ظَھْرًا (فلاں کے پاس) اس قدر لونڈیاں اور اتنی سواریاں ہیں۔ (۳) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ یہ جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے۔ جیساکہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اسی سے افاضل قوم کو اَعْیَانٌ کہا جاتا ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں اَعْیَانُ الْاِخْوَۃِ کہا جاتا ہے۔ (۴) بعض نے کہا ہے کہ عَیْنٌ کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہو جیسے کُلُّ مَالِہٖ عَیْنٌ تو یہ معنی مجازی ہوگا، جیساکہ غلام کو رَقْبَۃٌ (گردن) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فَرْجٌ (شرمگاہ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے۔ (۵) پانی کے چشمہ کو بھی عَیْنٌ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عَیْنُ الْمَائِ سے مَائٌ مَعِیْنٌ کا محاورہ لیا گیا ہے۔ جس کے معنی جاری پانی کے ہیں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے اور عَیْنٌ کے معنی جاری چشمہ کے ہیں۔ چنانچہ فرمایا: (عَیۡنًا فِیۡہَا تُسَمّٰی سَلۡسَبِیۡلًا) (۷۶:۱۸) یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے۔ (وَّ فَجَّرۡنَا الۡاَرۡضَ عُیُوۡنًا) (۵۴:۱۲) اور زمین میں چشمے جاری کردیے۔ (فِیۡہِمَا عَیۡنٰنِ تَجۡرِیٰنِ ) (۵۵:۵۰) ان میں دو چشمے بہہ رہے ہیں۔ (فِیۡہِمَا عَیۡنٰنِ نَضَّاخَتٰنِ) (۵۵:۶۶) دو چشمے ابل رہے ہیں۔ (وَ اَسَلۡنَا لَہٗ عَیۡنَ الۡقِطۡرِ) (۳۴:۱۲) اور ان کے لیے ہم نے تانبے کا چشمہ بہادیا تھا۔ (فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ ) (۱۵:۴۵) باغ اور چشموں میں ۔ (مِنۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ … وَّ زُرُوۡعٍ ) (۴۴:۲۶) باغ اور چشمے اور کھیتیاں۔ (عِنْتُ الرَّجُلَ کے معنی ہیں: میں نے اس کی آنکھ پر مارا۔ جیسے رَأَسْتُہٗ کے معنی ہوتے ہیں: میں نے اس کے سر پر مارا اور فَأَدْتُّہٗ: میں نے اس کے دل پر مارا نیز عِنْتُہٗ کے معنی ہیں: میں نے اسے نظربد لگادی جیسے سَفْتُہٗ کے معنی ہیں: میں نے اسے تلوار سے مارا، یہ اس لیے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مارنے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سِفْتُہٗ وَرَمَحْتُہٗ۔ چنانچہ یَدَیْتُہٗ کا لفظ ان ہر دو معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے اپنے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عِنْتُ الْبِئْرَ کے معنی ہیں: کنواں کھودتے کھودتے اس کے پانی کے چشمہ تک پہنچ گیا۔ قرآن پاک میں ہے۔ (اِلٰی رَبۡوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیۡنٍ) (۲۳:۵۰) ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور نتھرا ہوا پانی جاری تھا۔ (فَمَنۡ یَّاۡتِیۡکُمۡ بِمَآءٍ مَّعِیۡنٍ) (۶۷:۳۰) تو (سوائے خدا کے) کون ہے جو تمہارے لیے شیریں پانی کا چشمہ بہا لائے۔ بعض نے کہا ہے کہ مَعِیْنٌ میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ مَعَنْتُ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں: کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور عَیْن کا لفظ بطور استعارہ ترازو کے جھکاؤ پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوبصورتی کی وجہ سے اَعْیَنُ وَعَیْنَائُ کہا جاتا ہے اس کی جمع عِیْنٌ ہے پھر گاوان وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عِیْنٌ کہا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے۔ (قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِ عِیۡنٌ ) (۳۷:۴۸) جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں (اور) آنکھیں بڑی بڑی۔ (وَ حُوۡرٌ عِیۡنٌ ) (۵۶:۲۲) اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں۔

Words
Words Surah_No Verse_No
عِيْنٍ سورة الطور(52) 20
مَّعِيْنٍ سورة الملك(67) 30
مَّعِيْنٍ سورة الواقعة(56) 18
مَّعِيْنٍۢ سورة الصافات(37) 45
وَالْعَيْنَ سورة المائدة(5) 45
وَّعُيُوْنٍ سورة الشعراء(26) 57
وَّعُيُوْنٍ سورة الشعراء(26) 134
وَّعُيُوْنٍ سورة الشعراء(26) 147
وَّعُيُوْنٍ سورة الدخان(44) 25
وَّعُيُوْنٍ سورة الدخان(44) 52
وَّعُيُوْنٍ سورة الذاريات(51) 15
وَّعُيُوْنٍ سورة المرسلات(77) 41
وَّمَعِيْنٍ سورة المؤمنون(23) 50
وَّاَعْيُنُهُمْ سورة التوبة(9) 92
وَّعُيُوْنٍ سورة الحجر(15) 45