Blog
Books
Search Hadith

علم کے اٹھائے جانے کا بیان

157 Hadiths Found
سیدنا عبد اللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گاکہ وہ اِس کو لوگوں سے سلب کر لے، وہ تو علماء کو فوت کر کے علم کو اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب وہ کسی عالم کو زندہ نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے، پس جب ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے اور اس طرح خود بھی گمراہ ہو جائیں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔

Haidth Number: 315
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک جب اللہ تعالیٰ لوگوں کو علم عطا کر دیتا ہے تو وہ اس کو لوگوں سے چھین نہیں لیتا، بلکہ وہ علماء کو فوت کرنا شروع کر دیتا ہے، جب ایک عالم فوت ہوتا ہے تو وہ علم بھی چلا جاتا ہے، جو اس کے پاس ہوتا ہے، یہاں تک کہ صرف وہ لوگ باقی رہ جاتے ہیں، جن کو علم نہیں ہوتا، پس لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیتے ہیں اور پھر جب ان سے فتوی طلب کیا جاتا ہے تو وہ بغیر علم کے فتوی دیتے ہیں اور اس طرح خود بھی گمراہ ہو جاتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کر دیتے ہیں۔

Haidth Number: 316
سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ قیامت کی علامتوں میں سے ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا، جہالت پھیل جائے گی، شراب کو پیا جائے گا اور زنا عام ہو جائے گا۔

Haidth Number: 317
سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں: آخری سختی، جس میں مؤمن مبتلا ہوتا ہے، موت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان {یَوْمَ تَکُوْنُ السَّمَائُ کَالْمُہْلِ} میں مُھْل سے مراد تیل کا تلچھٹ ہے اور {آنَائَ اللَّیْلِ} سے مراد رات کا درمیانہ حصہ ہے۔ پھر انھوں نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ علم کا ختم ہو جانا کیا ہے؟ وہ زمین سے اہل علم کا اٹھ جانا ہے۔

Haidth Number: 318
سیدنا زیاد بن لبید ؓ کہتے ہے: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے کسی چیز کا ذکر کیا اور فرمایا: یہ اس وقت ہوگا، جب علم اٹھ جائے گا۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! علم کیسے ختم ہو جائے گا، جبکہ ہم قرآن مجید پڑھتے ہیں اور اپنے بچوں کی اس کی تعلیم دیتے ہیں اور پھر ہمارے بیٹے اپنے بچوں کو اس کی تعلیم دیں گے اور قیامت کے دن تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: ابن ام لبید! تجھے تیری ماں گم پائے، میرا خیال تو یہ تھا کہ مدینہ میں سب سے بڑا سمجھ دار اور فقیہ آدمی تو ہے، کیا یہ یہودی اور عیسائی تورات اور انجیل کو نہیں پڑھتے،لیکن صورتحال یہ ہے کہ یہ لوگ ان میں سے کسی چیز سے مستفید نہیں ہو رہے۔

Haidth Number: 319

۔ (۳۲۰)۔عَنِ الْوَلِیْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ الْجُرَشِیِّ قَالَ: حَدَّثَنَا جُبَیْرُ بْنُ نُفَیْرٍ عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ (الْأَشْجَعِیِّؓ) أَنَّہُ قَالَ: بَیْنَمَا نَحْنُ جُلُوْسٌ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ذَاتَ یَوْمٍ نَظَرَ اِلَی السَّمَائِ ثُمَّ قَالَ: ((ھٰذَا أَوَانُ الْعِلْمِ أَنْ یُرْفَعَ۔))، فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ یُقَالُ لَہُ زَیَادُ بْنُ لَبِیْدٍ: أَیُرْفَعُ الْعِلْمُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! وَفِیْنَا کِتَابُ اللّٰہِ وَقَدْ عَلَّمْنَاہُ أَبْنَائَ نَا وَنِسَائَ نَا؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((اِنْ کُنْتُ لَأَظُنُّکَ مِنْ أَفْقَہِ أَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ۔)) ثُمَّ ذَکَرَضَلَالَۃَ أَھْلِ الْکِتَابَیْنِ وَعِنْدَہُمَا مَا عِنْدَہُمَا مِنْ کِتَاب اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، فَلَقِیَ جُبَیْرُ بْنُ نُفَیْرٍ شَدَّادَ بْنَ أَوْسٍ (ؓ) بِالْمُصَلَّی فَحَدَّثَہُ ھٰذَا الْحَدِیْثَ عَنْ عَوْفٍ فَقَالَ: صَدَقَ عَوْفٌ، ثُمَّ قَالَ: وَھَلْ تَدْرِیْ مَا رَفْعُ الْعِلْمِ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا أَدْرِیْ، قَالَ: ذَہَابُ أَوْعِیَتِہِ، قَالَ: وَھَلْ تَدْرِیْ أَیُّ الْعِلْمِ أَوَّلُ أَنْ یُرْفَعَ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا أَدْرِیْ، قَالَ: الْخَشُوْعُ حَتَّی لَا تَکَادُ تَرٰی خَاشِعًا۔ (مسند أحمد:۲۴۴۹۰)

سیدنا عوف بن مالک اشجعی ؓ کہتے ہیں: ہم لوگ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا: یہ علم کے اٹھ جانے کا وقت ہو گا۔ زیاد بن لبید نامی ایک انصاری آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا علم اٹھا لیا جائے گا، جبکہ ہمارے اندر اللہ تعالیٰ کی کتاب موجود ہے اور ہم اپنے بچوں اور عورتوں کو اس کی تعلیم دے رہے ہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: میں تو تجھے اہل مدینہ میں سب سے زیادہ سمجھدار لوگوں میں سے سمجھتا تھا۔ پھرآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے دو کتابوں والوں یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کی گمراہی اور ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب کی جو صورتحال ہے، اس کا ذکر کیا۔ جب جبیر بن نفیر کی سیدنا شداد بن اوس ؓ سے عید گاہ کے مقام پر ملاقات ہوئی تو انھوں نے ان کو سیدنا عوف ؓ کی حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: جی عوف نے سچ کہا ہے، پھر انھوں نے کہا: اور کیا تم جانتے ہو کہ علم کا اٹھ جانا کیا ہے؟ میں نے کہا: جی نہیں، انھوں نے کہا: اس سے مراد علم کے برتنوں کا اٹھ جانا ہے، اور کیا تو جانتا ہے کہ سب سے پہلے کون سا علم اٹھایا جائے گا؟ میں نے کہا: جی نہیں، انھوں نے کہا: نماز میں خشوع، (اور اس چیز کا اتنا فقدان ہو جائے گا کہ) ممکن ہو گا کہ تو خشوع کرنے والا کوئی شخص نہ دیکھے۔

Haidth Number: 320

۔ (۳۲۱)۔عن أَبِیْ أُمَامَۃَ الْبَاہِلیِّ ؓ قَالَ: لَمَّا کَانَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ یَوْمَئِذٍ مُرْدِفٌ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ عَلَی جَمَلٍ آدَمَ فَقَالَ: ((یَا أَیُّہَا النَّاسُ! خُذُوْا مِنَ الْعِلْمِ قَبْلَ أَنْ یُقْبَضَ الْعِلْمُ وَقَبْلَ أَنْ یُرْفَعَ الْعِلْمُ۔)) وَقَدْ کَانَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {یَا أَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَسْأَلُوْا عَنْ أَشْیَائَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُوئْ کُمْ، وَاِنْ تَسْأَلُوْا عَنْہَا حِیْنَ یُنْزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَلَکُمْ، عَفَااللّٰہُ عَنْہَا وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ} قَالَ: فَکُنَّا نَذْکُرُہَا کَثِیْرًا مِنْ مَسْأَلَتِہِ وَاتَّقَیْنَا ذَاکَ حِیْنَ أنَزَلَ اللّٰہُ عَلَی نَبِیِّہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم، قَالَ: فَأَتَیْنَا أَعْرَابِیًّا فَرَشَوْنَاہُ بِرِدَائٍ، قَالَ: فَاعْتَمَّ بِہِ حَتَّی رَأَیْتُ حَاشِیَۃَ الْبُرْدِ خَارِجَۃً مِنْ حَاجِبِہِ الْأَیْمَنِ، قَالَ: ثُمَّ قُلْنَا لَہُ: سَلِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم، قَالَ: فَقَالَ لَہُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! کَیْفَ یُرْفَعُ الْعِلْمُ مِنَّا وَبَیْنَ أَظْہُرِنَا الْمَصَاحِفُ وَقَدْ تَعَلَّمْنَا مَا فِیْھَا وَعَلَّمْنَا ہَا نِسَائَ نَا وَذَرَارِیَّنَا وَخَدَمَنَا؟ قَالَ: فَرَفَعَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلمرَأْسَہُ وَقَدْ عَلَتْ وَجْہَہُ حُمْرَۃٌ مِنَ الْغَضَبِ، قَالَ: فَقَالَ: ((أَیْ ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ، وَہٰذِہِ الْیَہُوْدُ وَالنَّصَارٰی بَیْنَ أَظْہُرِہُمُ الْمَصَاحِفُ لَمْ یُصْبِحُوْا یَتَعَلَّقُوْا بِحَرْفٍ مِمَّا جَائَ تْہُمْ بِہ أَنْبِیَائُ ہُمْ، أَلَا وَاِنَّ مِنْ ذَہَابِ الْعِلْمِ أَنْ یَذْہَبَ حَمَلَتُہُ۔)) ثَلَاثَ مِرَارٍ۔ (مسند أحمد: ۲۲۶۴۶)

سیدنا ابو امامہ باہلیؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کھڑے ہوئے ، اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سفید اونٹ پر سوار تھے اور سیدنا فضل بن عباس ؓ کو پیچھے بٹھایا ہوا تھا، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: لوگو! علم حاصل کرو، قبل اس کے کہ علم سلب کر لیا جائے اور اس کو اٹھا لیا جائے۔ اُدھر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمان بھی نازل کر دیا تھا: اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں اور اگر تم زمانۂ نزولِ قرآن میں ان باتوں کو پوچھو گے تو تم پر ظاہر کی دی جائیں گی، سوالات گزشتہ اللہ نے معاف کر دیئے اور اللہ بڑی مغفرت والابڑے حلم والا ہے۔ (سورۂ مائدہ:۱۰۱) ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے بڑے سوالات کرتے تھے، لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ آیت نازل فرمائی تو ہم نے سوال کرنے سے بچنا شروع کر دیا۔ (ایک دن ایک سوال کرنے کی خاطر) ہم ایک بدّو کے پاس گئے اور یہ کام کروانے کے لیے اسے ایک چادر دی، اس نے اس سے پگڑی باندھی اور چادر کا کنارہ دائیں ابرو کی طرف سے نکلا ہوا نظر آ رہا ہے، پھر ہم نے اس سے کہا: تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے ایک سوال کر، پس اس نے سوال کرتے ہوئے کہا: اے اللہ کے نبی! ہم سے علم کیسے اٹھایا جائے گا، جبکہ ہمارے اندر قرآن مجید موجود ہے اور ہم نے اس کی تعلیم حاصل کی ہے اور اپنی عورتوں، بچوں اور خادموں کو اس کی تعلیم دی ہے؟ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اپنا سر اٹھایا اور غصے کی وجہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے چہرے پر سرخی نظر آ رہی تھی، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: او فلاں! تجھے تیری ماں گم پائے، یہ یہودی اور عیسائی ہیں، ان کے اندر ان کی کتابیں موجود ہیں،لیکن صورتحال یہ ہے کہ ان کے انبیاء جو کچھ لائے ہیں، یہ اس کی ایک شق پر بھی عمل پیرا نہیں ہیں، خبردار! علم کا اٹھ جانا یہ ہے کہ حاملینِ علم اٹھ جائیں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے یہ بات تین دفعہ ارشاد فرمائی۔

Haidth Number: 321
سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے سیدنا علی ؓ کو حکم دیا، پس انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے غسل کا پانی رکھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ان کو ایک کپڑا دے کر فرمایا: اس کے ساتھ مجھ پر پردہ کرو اور اپنی پیٹھ میری طرف کر لو۔

Haidth Number: 861
سیدنا انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک حضرت موسی بن عمرانؑجب پانی میں داخل ہونے کا ارادہ فرماتے تو اس وقت تک کپڑا نہیں اتارتے تھے، جب تک پردے کے مقامات کو پانی نہ چھپا لیتے تھے۔

Haidth Number: 862
سیدنا یعلی بن امیہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ حیادار اور پردے والا ہے، اس لیے جب کوئی آدمی غسل کرنے لگے تو وہ کسی چیز کے ساتھ چھپ جایا کرے۔

Haidth Number: 863
سیدنا یعلی بن امیہؓ سے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ حیا اور پردے کو پسند کرتا ہے۔

Haidth Number: 864
سیدہ ام ہانیؓ سے مروی ہے کہ وہ فتح مکہ والے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی طرف گئیں، وہ کہتی ہیں: میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو اس حالت میں پایا کہ آپ غسل فرما رہے تھے اور سیدہ فاطمہ ؓ ایک کپڑے کے ساتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کا پردہ کر رہی تھیں، …۔ (یہ پوری حدیث غَزْوَۃُ فَتْحِ مَکَّۃَ میں آئے گی۔)

Haidth Number: 865
سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: حضرت ایوب ؑ برہنہ حالت میں غسل کر رہے تھے کہ ان پر سونے کی ٹڈیاں گرنے لگیں، حضرت ایوبؑ ان کو اپنے کپڑے میں اکٹھا کرنے لگ گئے، اس کے ربّ نے اس کو یوں آواز دی: اے ایوب! کیا میں نے تجھے اس چیز سے غنی نہیں کیا، جو تجھے نظر آ رہی ہے؟ انھوں نے کہا: کیوں نہیں، اے میرے رب! لیکن تیری برکت سے کوئی بے پرواہی نہیں ہے۔

Haidth Number: 866
سیدنا ابو ذر ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے کعبہ کے دروازے کے کڑے کو پکڑا اور کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا: عصر کے بعد کوئی نماز نہیں ہے، یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے اور فجر کے بعد کوئی نماز نہیں ہے، یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے، مگر مکہ میں ، مگر مکہ میں۔

Haidth Number: 1221

۔ (۱۵۹۷) عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ أَبِیْ أَوْفٰی رَضِیَ اللّٰہِ عَنْہُ قَالَ أَتٰی رَجُلٌ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّی لَا أَقْرأُ الْقُرْآنَ فَمُرْنِیْ بِمَا یُجْزِئُنِیْ مِنْہُ ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((قُل: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَلاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ وَلاَ حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللّٰہِ۔)) قَالَ: فَقَالَھَا الرَّجُلُ وَقَبَضَ کَفَّہُ وَعَدَّ خَمْسًامَعَ إِبْہَامِہِ، فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ھٰذَا لِلّٰہِ تَعالٰی فَمَا لِنَفْسِیْ؟ قَالَ: ((قُلْ: اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَعَافِنِیْ وَاھْدِنِیْ وَارْزُقْنِیْ۔)) قَالَ: فَقَالَھَا وَقَبَضَ عَلَی کَفِّہِ الْأُخْرٰی وَعَدَّ خَمْسًا مَعَ إِبْہَامِہِ فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ وَقَدْ قَبَضَ کَفَّیْہِ جَمِیْعًا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَقَدْ مَلَأَ کَفَّیْہِ مِنَ الْخَیْرِ۔ (مسند احمد: ۱۹۶۲۹)

سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! میں قرآن نہیں پڑھ سکتا، اس لیے آپ مجھے ایسی چیز کا حکم فرمائیں جو مجھے اس سے کفایت کرے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے فرمایا: تویہ کہہ لیا کر: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ لاَ اِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلاَحَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللّٰہِ ۔ (سب تعریف اللہ کے لیے ہے، اللہ پاک ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، گناہ سے بچنے کی کوئی طاقت نہیں اور نہ ہی نیکی کرنے کی کوئی قوت ہے مگر اللہ (کی مدد) کے ساتھ) اس آدمی نے یہ کلمات کہے اور اپنی ہتھیلی بند کر لی، کیونکہ اس نے ان کلمات کو انگوٹھے سمیت پانچ تک شمار کیا تھا، پھر وہ کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! یہ (کلمات) تو اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، میرے اپنے لیے کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو (اپنے لیے) یہ کہہ لیا کر: اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَعَافِنِیْ وَاھْدِنِیْ وَارْزُقْنِیْ۔ ( اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے عافیت دے،مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق عطا فرما) اس نے یہ (کلمات) کہے اور اپنی دوسری ہتھیلی کو بھی بند کر دیااور اپنے انگوٹھے سمیت پانچ تک شمار کیا، پھر وہ آدمی چلا گیا، جبکہ اس نے دونوں ہتھیلیاں بند کی ہوئی تھیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا: یقینا اس نے اپنی دونوں ہتھیلیاں خیر سے بھر لی ہیں۔

Haidth Number: 1597

۔ (۳۲۳۱) عَنْ لَیْثٍ ، عَنْ أَبِی بُرْدَۃَ بْنِ أَبِی مُوْسٰی الأَشْعَرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِذَا مَرَّتْ بِکُمْ جَنَازَۃٌ فَإِنْ کَانَ مُسْلِمًا أَوْ یَہُوْدِیًّا أَوْ نَصْرَانِیَّا فَقُوْمُوْا لَہَا، فَإِنَّہُ لَیْسَ لہَا نَقُوْمُ، وَلٰکِنْ نَقُوْمُ لِمَنْ مَعَہَا مِنَ الْمَلَائِکَۃِ۔)) قَالَ لَیْثَ فَذَکَرْتُ ہٰذَا الْحَدِیْثَ لِمُجَاھِدٍ فَقَالَ: حَدَّثَنِی عَبْدُاللّٰہِ بْنُ سَخْبَرَۃَ الأَزْدِیُّ، قَالَ: إِنَّا لَجُلُوْسٌ مَعَ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌نَنْتَظِرُ جَنَازَۃً إِذْ مَرَّتْ بِنَا أُخْرٰی، فَقُمْنَا، فَقَالَ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: مَا یُقِیْمُکُمْ؟ فَقُلْنَا: ہٰذَا مَا تَأْتُوْنَا بِہِ یَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ! قَالَ: وَمَا ذَالِکَ؟ قُلْتُ: زَعَمَ اََبُوْ مُوْسٰی أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِذَا مَرَّتْ بِکُمْ جَنَازَۃٌ، فَإِنْ کَانَ مُسْلِمًا أَوْ یَہُوْدِیًّا أَوْنَصْرَانِیًّا فَقُوْمُوا لَہَا، فَإِنَّہُ لَیْسَ لَہَا نَقُوْمُ، وَلٰکِنْ نَقُوْمُ لِمَنْ مَعَہَا مِنَ الْمَلَائِکَۃَ۔)) فَقَالَ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: مَا فَعَلَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَطُّ غَیْرَ مَرَّۃٍ بِرَجُلٍ مِنَ الْیَہُوْدِ، وَکَانُوْا أَہْلَ کِتَابٍ وَکَانَ یَتَشَبَّہُ بِہِمْ، فَإِذَا نُھِیَ اِنْتَہٰی، فَمَا عَادَلہَا بَعْدُ۔ (مسند احمد: ۱۹۹۴۲)

سیّدناابوبردہ بن ابی موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تمہارے پاس سے کوئی جنازہ گزرے، وہ مسلمان کا ہو یا یہودی کا یا عیسائی کا، تم اسے دیکھ کر کھڑے ہو جایا کرو، ہم اس کے لیے نہیں، بلکہ اس کے ساتھ آنے والے فرشتوںکے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ لیث کہتے ہیں: جب میں نے یہ حدیث مجاہد کو بیان کی تو انھوں نے کہا: مجھے عبداللہ بن سنجرہ ازدی نے بیان کرتے ہوئے کہا:ہم سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھے ایک جنازے کا انتظار کر رہے تھے کہ ہمارے قریب سے کوئی اور جنازہ گزرا،ہم اسے دیکھ کر کھڑے ہو گئے، لیکن سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم کیوں کھڑے ہوئے ہو؟ ہم نے کہا: اے اصحابِ محمد! تم نے ہمیں جو حدیث بیان کی ہے، ہم اس پر عمل کر رہے ہیں۔ انھوں نے پوچھا: وہ کون سی حدیث ہے؟ میں نے کہا کہ سیّدنا ابوموسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا خیال ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تمہارے پاس سے کوئی جنازہ گزرے، وہ مسلمان کا ہو یا یہودی کا یا عیسائی کا، تم اسے دیکھ کر کھڑے ہو جایا کرو، ہم اس کے لیے نہیں، بلکہ اس کے ساتھ آنے والے فرشتوںکے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ سن کر سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ عمل صرف ایک دفعہ ایک یہودی کے ساتھ کیا تھا اور اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ یہ لوگ چونکہ اہل کتاب تھے، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی ان کی موافقت کیا کرتے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو (اللہ کی طرف سے) روک دیا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رک گئے اور اس کے بعد ایسا عمل نہیں کیا۔

Haidth Number: 3231
ابومعمر کہتے ہیں: ہم سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، وہاں سے ایک جنازہ گزرا اورلوگ اسے دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔ سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پوچھا: تمہیں کھڑے ہونے کا فتویٰ کس نے دیا؟ لوگوں نے کہا کہ سیّدنابو موسی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے، یہ سن کر سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ عمل صرف ایک دفعہ کیا تھا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پسند کرتے تھے کہ اہل کتاب سے موافقت اختیار کی جائے، لیکن جب (اللہ کی طرف سے) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو روک دیا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رک گئے۔

Haidth Number: 3232
واقد بن عمرو کہتے ہیں: میں بنو سلمہ کے ایک جنازہ میں حاضر ہوا اور (جنازہ کو دیکھ کر) میں کھڑا ہو گیا۔ نافع بن جبیر نے مجھ سے کہا: بیٹھ جائو، میں تمہیں اس مسئلہ کے بارے میں ایک ثقہ آدمی کی حدیث بیان کرتا ہوں،مسعود بن حکم زرقی نے مجھے بیان کیا کہ انہوں نے مسجد ِ کوفہ کے صحن میں سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہونے کا ہمیں حکم تو دیا تھا، لیکن اس کے بعد آپ بیٹھے رہتے اور ہمیں بھی بیٹھے رہنے کا حکم دیا۔

Haidth Number: 3233
محمد بن سیرین کہتے ہیں: مجھے یہ بتلایا گیا کہ سیّدناحسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس ایک جنازہ گزرا، اسے دیکھ کر سیّدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کھڑے ہو گئے، لیکن سیّدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیٹھے رہے، سیّدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا : کیا تم نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا نہیں تھا کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے جنازہ گزرا تو آپ کھڑے ہو گئے تھے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، لیکن پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھ گئے تھے۔یہ سن کر سیّدنا حسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کی بات پر کوئی انکار نہیں کیا۔

Haidth Number: 3234
سیّدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا، اسے دیکھ کر لوگ کھڑے ہو گئے، لیکن وہ بیٹھے رہے، پھر سیّدناحسن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پوچھا: یہ تم نے کیا کیا ہے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو صرف یہودی میت کی بدبو کی تکلیف کی وجہ سے کھڑے ہوئے تھے۔

Haidth Number: 3235
سیّدناحسین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیّدناعبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دونوں سے یا ان میں سے کسی ایک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے ایک یہودی کا جنازہ گزرا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؓ کھڑے ہو گئے اور فرمایا: مجھے اس کی بدبو نے تکلیف دی ہے۔

Haidth Number: 3236

۔ (۳۵۳۴) عَنْ ہِلَالِ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ: نَزلَتُ عَلٰی اَبِیْ سَعِیْدٍ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَضَمَّنِی وَإِیَّاہُ الْمَجْلِسُ، قَالَ: فَحَدَّثَ اَنَّہُ اَصْبَحَ ذَاتَ یَوْمٍ وَقَدْ عَصَبَ عَلَی بَطْنِہِ حَجَرًا مِنَ الْجُوْعِ، فَقَالَتْ لَہُ امْرَاَتُہُ اَوْ اُمُّہُ: اِئْتِ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاسْاَلْہُ فَقَدْ اَتَاہُ فُلَانٌ فَسَاَلَہُ فَاَعْطَاہُ وَاَتَاہُ فُلَانٌ فَسَاَلَہُ فَاَعْطَاہُ، قَالَ: فَقُلْتُ: حَتّٰی اَلْتَمِسَ شَیْئًا، قَالَ: فَالْتَمَسْتُ فَلَمْ اَجِدْ شَیْئًا، فَاَتَیْتُہُ وَہُوَ یَخْطُبُ فَاَدْرَکْتُ مِنْ قَوْلِہِ وَہُوَ یَقُوْلُ: ((مَنِ اسْتَعَفَّ یُعِفَّہُ اللّٰہُ، وَمَنِ اسْتَغْنٰییُغْنِہِ اللّٰہُ، وَمَنْ سَاَلَنَا إِمَّا اَنْ نَبْذُلَ لَہُ وَإِمَّا اَنْ نُواسِیَہُ، وَمَنْ یَسْتَعِفُّ عَنَّا اَوْ یَسْتَغْنِیْ اَحَبُّ إِلَیْنَا مِمَّنْ یَسَاَلُنَا۔)) قَالَ: فَرَجَعْتُ فَمَا سَاَلْتُہُ شَیْئًا، فَمَا زَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ یَرْزُقُنَا حَتّٰی مَا اَعْلَمُ فِی الْاَنْصَارِ اَہْلَ بَیْتٍ اَکْثَرَ اَمْوَالاً مِنَّا۔ (مسند احمد: ۱۱۴۲۱)

۔ ہلال بن حصین کہتے ہیں: میں سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں جا کر ٹھہرا، ہم ایک مجلس میں جمع ہوئے، سیدنا ابوسعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ انہوں نے اس حال میں صبح کی کہ بھوک کی شدت کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھا ہوا تھا، ان کی اہلیہیا والدہ نے ان سے کہا: تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جاؤ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کچھ مانگ کر لائو، جب فلاں آدمی نے جا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے دیا تھا، اسی طرح فلاں نے بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس جا کر مانگا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے بھی عطا کیا تھا۔ میں (ابو سعید)نے جواباً کہا: میں پہلے (کسی اور ذریعہ سے) کوئی چیز حاصل کرنے کی کوشش کروں گا، پھر میں نے ایسے ہی کیا، مگر مجھے (کہیں سے) کچھ بھی نہ ملا۔ بالآخر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس چلا گیا، اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس وقت یہ بات ارشاد فرما رہے تھے: جو آدمی مانگنے سے بچے گا، اللہ تعالیٰ اسے بچا لے گا اور جس نے غِنٰی اختیار کیا،اللہ تعالیٰ اسے غنی کر دے گا اور جو آدمی ہم سے کوئی چیز مانگے گا تو ہم اسے کچھ نہ کچھ دے دیں گے، بہرحال جو شخص ہم سے مانگنے سے بچے گا اور غِنٰی اختیار کرے گا تو وہ ہمیں سوال کرنے والے آدمی کی بہ نسبت زیادہ محبوب ہو گا۔ سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: یہ حدیث سن کر میں واپس چلا آیا اور میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کوئی سوال نہیں کیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس قدر رزق دیا کہ میں نہیں جانتا کہ انصار کے کسی گھر والے ہم سے زیادہ مال دار ہوں۔

Haidth Number: 3534
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے صبر سے کام لیا، اللہ اسے صابر بنا دے گا،جس نے استغنا اختیار کیا، اللہ تعالیٰ اسے غنی بنا دے گا اورجو مانگنے سے بچے گا، اللہ تعالیٰ اسے بچا لے گا اور میں تمہارے لئے صبر سے بہتر کوئی چیز نہیں پاتا۔

Haidth Number: 3535

۔ (۳۵۳۶) عَنْ حِبَّانَ بْنِ بُحٍّ الصُّدَائِیِّ صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّہُ قَالَ: إِنَّ قَوْمِی کَفَرُوْا، فَاُخْبِرْتُ اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَہَّزَلَہُمْ جَیْشًا فَاَتَیْتُہُ فَقُلْتُ: إِنَّ قَوْمِی عَلَی الْإِسْلَامِ، فَقَالَ: ((اَکَذٰلِکَ؟)) فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَاتَّبَعْتُہُ لَیْلَتِیْ إِلَی الصَّبَاحِ فَاَذَّنْتُ بِالصَّلَاۃِ لَمَّا اَصْبَحْتُ وَاَعْطَانِیْ إِنَائً تَوَضَّائْ تُ مِنْہُ فَجَعَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَصَابِعَہُ فِی الْإِناَء ِفَانْفَجَرَ عُیُوْنًا، فَقَالَ: ((مَنْ اَرَادَ مِنْکُمْ اَنْ یَتَوَضَّاَ فَلْیَتَوضَّا۔)) فَتَوَضَّاْتُ وَصَلَّیْتُ وَاَمَّرَنِی عَلَیْہِمْ وَاَعْطَانِی صَدَقَتَہُمْ، فَقَامَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: فُلَانٌ ظَلَمَنِی،فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لاَ خَیْرَ فِی الْإِمْرَۃِ لِمْسْلِمٍ۔)) ثُمَّ جَائَ رَجُلٌ یَسْاَلُ صَدَقَۃً، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ الصَّدَقَۃَ صُدَاعٌ فِی الرَّاْسِ وَحَرِیْقٌ فِی الْبَطْنِ اَوْ دَائٌ ۔)) فَاَعْطَیْتُہُ صَحِیْفَتِی اَوْ صَحِیْفَۃَ إِمْرَتِی وَصَدَقَتِیْ، فَقَالَ: ((مَاشَاْنُکَ؟)) فَقُلْتُ: کَیْفَ اَقْبَلُہَا وَقَدْ سَمِعْتُ مِنْکَ مَا سَمِعْتُ، فَقَالَ: ((ہُوَ مَا سَمِعْتَ۔)) (مسند احمد: ۱۷۶۷۷)

۔ صحابی ٔ رسول حبان بن بح صدائی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میری قوم کے بعض لوگ کافر ہو گئے ہیں تو مجھے اطلاع دی گئی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک لشکر تیار کیا ہے، میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو اور کہا کہ میری قوم تو اسلام ہی پر ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کیا واقعی بات ایسے ہی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ پھر میں صبح تک یعنی رات بھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رہا، صبح کو میں نے نماز کے لئے اذان کہی، جب صبح ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایک برتن دیا تاکہ میں وضو کر لوں، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی انگلیاں اس برتن میں ڈالیں تو ان سے چشمے پھوٹ پڑے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو کوئی وضو کرنا چاہتا ہے کر لے۔)) چنانچہ میں نے وضو کیا اور نماز ادا کی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اپنی قوم کا امیربنایا اور ان کی طرف سے ادا کیے گئے صدقات مجھے عطا کر دیئے، ایک آدمی اٹھا اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آیا، اس نے کہا: فلاں آدمی نے مجھ پر ظلم کیا ہے، یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مسلمان کے لئے امارت میں کوئی خیر نہیں ہے۔ اس کے بعد ایک آدمی آیا اور اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے صدقے کا سوال کیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: صدقہ سر کی درد اور پیٹ کی جلن یا بیماری کا سبب ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے یہ فرامین سن کر میں نے اپنی امارت اور صدقات وصول کرنے کا عہدہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو واپس لوٹا دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا بات ہے؟ میں نے کہا: میں اس ذمہ داری کوکیسے قبول کروں، جبکہ آپ اس کے بارے میں یہ کچھ فرما چکے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بات تو وہی ہے جو تم سن چکے ہو۔

Haidth Number: 3536
۔ نعمان بن سعد کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے امیر المومنین! آپ مجھے رمضان کے بعد کون سے مہینے کے روزے رکھنے کا حکم دیں گے؟ انہوں نے کہا: میں نے کسی کو یہ سوال کرتے ہوئے نہیں سنا، ما سوائے ایک آدمی کے، اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہی سوال کرتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسول! ماہِ رمضان کے بعد آپ مجھے کس مہینے کے روزے رکھنے کا حکم دیں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تم رمضان کے بعد روزے رکھنا چاہتے ہو تو ماہِ محرم کے روزے رکھو، یہ اللہ کا مہینہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اسی ماہ میں ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی اور ایک قوم کی توبہ قبول کرے گا۔

Haidth Number: 3900
۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ سوال کیا گیا کہ فرض نماز کے بعد کونسی نماز افضل ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رات کے کسی بھی وقت میں نماز۔ پھر کسی نے کہا: رمضان کے بعد کونسے روزے افضل ہیں؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے اس مہینے کے، جسے تم محرم کہتے ہو۔

Haidth Number: 3901
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مسجد میں اعتکاف کرتے تواپنا سر مبارک میری طرف جھکاتے اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کنگھی کرتی، جبکہ میں ان دنوں حیض کی حالت میں ہوتی تھی۔

Haidth Number: 4000
۔ (دوسری سند) وہ کہتی ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اعتکاف میں ہوتے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد سے میری طرف اپنا سر مبارک نکالتے، پھر میں اس کو دھوتی، جبکہ میں حائضہ ہوتی۔

Haidth Number: 4001
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب اعتکاف میں ہوتے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انسانی ضرورت کے علاوہ گھر میں نہیں آتے تھے، اور جب میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا سر مبارک دھوتی تو میرے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے درمیان دروازے کی دہلیز ہوتی تھی۔

Haidth Number: 4002
۔ (دوسری سند) سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میری طرف اپنا سر کرتے، پھر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کنگھی کرتی، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد میں اعتکاف کی حالت میں ہوتے اور انسانی ضرورت (یعنی بول و براز)کے علاوہ گھر میں داخل نہیں ہوتے تھے، الّا یہ کہ وضو کرنے کا ارادہ ہوتا تو آ جاتے۔

Haidth Number: 4003