Blog
Books
Search Hadith

عدد سے شروع ہونے والے پانچ پانچ امور کا بیان

86 Hadiths Found
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ آدمی جنت میں داخل نہیں ہو گا، جس میں یہ پانچ چیزیں پائی جائیں گی، شراب پر ہمیشگی کرنے والا، جادو پر ایمان لانے والا، قطع رحمی کرنے والا، نجومی اور احسان جتلانے والا۔

Haidth Number: 10008
۔ سیدنا عبدا للہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اطلاع دینا، مشاہدہ کرنے کی طرح نہیں ہے، بیشک جب اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کو بتلایا کہ اس کی قوم نے بچھڑے کے معاملے میں یہ رویہ اختیار کر لیا ہے، تو انھوں نے تختیاں نہیں پھینکی، لیکن جب انھوں نے خود مشاہدہ کیا تو ان کو پھینک دیا اور وہ ٹوٹ گئیں۔

Haidth Number: 10380
۔ سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے (حجۃ الوداع) کے موقع پر فرمایا: ہم کل ان شاء اللہ بنوکنانہ کی وادییعنی وادیٔ محصب میں اتریں گے، یہاں قریش نے کفر پر قسم اٹھائی تھی اور اس مقام پر بنو کنانہ نے قریش کے ساتھ مل کر بنو ہاشم کی مخالفت میں یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ ان سے نکاح والا معاملہ کریں گے نہ خرید و فروخت والا اور نہ ان کوجگہ دیں گے۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں بنتا۔ امام زہری کہتے ہیں: خیف وادی کو کہتے ہیں۔

Haidth Number: 10543
سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بقیع الغرفد میں تشریف لے گئے اور صحابہ کرام کو ان کے مشن کے لیے روانہ کرتے ہوئے فرمایا: تم اللہ کا نام لے کر چل پڑو۔ اور یہ دعا فرمائی: یا اللہ ان کی مدد فرمانا۔ (یہ وہ گروہ تھا، جس کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کعب بن اشرف کی طرف روانہ کیا تھا۔)

Haidth Number: 10725
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ان کے والد عبداللہ بن عمرو بن حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ شہید ہو گئے اور ان کے ذمے کافی قرض تھا، میں نے قرض خواہوں کو ادائیگی کے سلسلہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے تعاون کی درخواست کی کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ وہ اپنے قرض میں سے کچھ معاف کر دیں،لیکن ان لوگوں نے یہ رعایت دینے سے انکار کر دیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم جا کر ہر قسم کی کجھور الگ الگ کر دو، عجوہ الگ رکھو، عذق زید الگ رکھو اور اس کے بعد مجھے اطلاع دو۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے آپ کی ہدایت کے مطابق سارا کام کیا،پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور کھجور کے سب سے اونچے یا سب سے درمیان والے ڈھیر پربیٹھ گئے اور مجھ سے فرمایا: تم پیمانے بھر بھر کر ان لوگوں کو ادائیگی کرتے جائو۔ میں نے ایسے ہی کیا کہ پیمانے بھر بھر کر ان لوگوں کا قرض چکا دیا اور میری کھجوریں اسی طرح باقی رہیں گویا ان میں کچھ بھی کمی نہیں ہوئی۔

Haidth Number: 11651

۔ (۱۱۶۵۲)۔ حَدَّثَنَا أَبُو الْمُتَوَکِّلِ قَالَ: أَتَیْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ، فَقُلْتُ: حَدِّثْنِی بِحَدِیثٍ شَہِدْتَہُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: تُوُفِّیَ وَالِدِی وَتَرَکَ عَلَیْہِ عِشْرِینَ وَسْقًا تَمْرًا دَیْنًا وَلَنَا تُمْرَانٌ شَتّٰی، وَالْعَجْوَۃُ لَا یَفِی بِمَا عَلَیْنَا مِنَ الدَّیْنِ، فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَذَکَرْتُ ذٰلِکَ لَہُ فَبَعَثَ إِلٰی غَرِیمِی فَأَبٰی إِلَّا أَنْ یَأْخُذَ الْعَجْوَۃَ کُلَّہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((انْطَلِقْ فَأَعْطِہِ۔)) فَانْطَلَقْتُ إِلَی عَرِیشٍ لَنَا أَنَا وَصَاحِبَۃٌ لِی فَصَرَمْنَا تَمْرَنَا، وَلَنَا عَنْزٌ نُطْعِمُہَا مِنَ الْحَشَفِ قَدْ سَمُنَتْ، إِذَا أَقْبَلَ رَجُلَانِ إِلَیْنَا إِذَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعُمَرُ، فَقُلْتُ: مَرْحَبًا یَا رَسُولَ اللّٰہِ مَرْحَبًا یَا عُمَرُ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((یَا جَابِرُ! انْطَلِقْ بِنَا حَتّٰی نَطُوفَ فِی نَخْلِکَ ہٰذَا۔)) فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَطُفْنَا بِہَا وَأَمَرْتُ بِالْعَنْزِ فَذُبِحَتْ، ثُمَّ جِئْنَا بِوِسَادَۃٍ فَتَوَسَّدَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِوِسَادَۃٍ مِنْ شَعْرٍ حَشْوُہَا لِیفٌ، فَأَمَّا عُمَرُ فَمَا وَجَدْتُ لَہُ مِنْ وِسَادَۃٍ، ثُمَّ جِئْنَا بِمَائِدَۃٍ لَنَا عَلَیْہَا رُطَبٌ وَتَمْرٌ وَلَحْمٌ فَقَدَّمْنَاہُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعُمَرَ فَأَکَلَا، وَکُنْتُ أَنَا رَجُلًا مِنْ نِشْوِیِّ الْحَیَائُ، فَلَمَّا ذَہَبَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَنْہَضُ، قَالَتْ صَاحِبَتِی: یَا رَسُولَ اللّٰہِ دَعَوَاتٌ مِنْکَ، قَالَ: ((نَعَمْ، فَبَارَکَ اللّٰہُ لَکُمْ۔)) قَالَ: نَعَمْ، فَبَارَکَ اللّٰہُ لَکُمْ، ثُمَّ بَعَثْتُ بَعْدَ ذٰلِکَ إِلٰی غُرَمَائِی فَجَائُ وْا بِأَحْمِرَۃٍ وَجَوَالِیقَ، وَقَدْ وَطَّنْتُ نَفْسِی أَنْ أَشْتَرِیَ لَہُمْ مِنَ الْعَجْوَۃِ، أُوفِیہِمُ الْعَجْوَۃَ الَّذِی عَلٰی أَبِی فَأَوْفَیْتُہُمْ، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ عِشْرِینَ وَسْقًا مِنَ الْعَجْوَۃِ وَفَضَلَ فَضْلٌ حَسَنٌ، فَانْطَلَقْتُ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُبَشِّرُہُ بِمَا سَاقَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَیَّ، فَلَمَّا أَخْبَرْتُہُ قَالَ: ((اللَّہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ، اللَّہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ۔)): فَقَالَ لِعُمَرَ: ((إِنَّ جَابِرًا قَدْ أَوْفٰی غَرِیمَہُ۔)) فَجَعَلَ عُمَرُ یَحْمَدُ اللّٰہَ۔ (مسند احمد: ۱۵۰۶۹)

ابو المتوکل کہتے ہیں: میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں جا کر عرض کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا کوئی ایسا واقعہ سنائیں جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خود مشاہدہ کیا ہو، انہوںنے بیان کیا کہ میرے والد کی وفات ہوئی تو ان کے ذمے بیس وسق کھجوروں کا قرض تھا (ایک وسق تقریباً۱۳۰ کلو کے برابر ہوتا ہے)، ہمارے پاس عجوہ اور مختلف قسم کی اتنی کھجوریں تھیںکہ ان سے ہمارا قرض پورا ادا نہ ہو سکتا تھا۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں جا کر صورت حال کا ذکر کیا، آپ نے میرے قرض خواہ کو پیغام بھیجا کہ وہ کچھ رعایت کر دے، مگر اس نے رعایت دینے سے انکار کیا اور اصرار کیا کہ وہ تو عجوہ کھجور ہی لے گا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تم جا کر اسے عجوہ ہی کی ادائیگی کر دو۔ میں اور میری بیوی اپنے باغ میں گئے، ہم نے کھجوریں اتاریں،ہماری ایک بکری تھی جسے ہم ردی ردی کھجوریں کھلایا کرتے تھے۔ وہ کھجوریں کھا کھا کر خوب موٹی تازی ہو چکی تھی، میں نے اچانک دیکھا تو دو آدمی آرہے تھے، ایک اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور دوسرے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مرحبا، عمر! مرحبا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: جابر! آئو ہم تمہاری کھجوروں میں گھوم کر آئیں۔ میں نے عرض کیا: جی ٹھیک ہے۔ چنانچہ ہم نے باغ میں چکر لگایا اور میں نے بکری کے ذبح کرنے کا کہا، اس کو ذبح کر دیا گیا۔ پھر ہم بالوں کا بنا ہوا ایک تکیہ لائے جس کے اندر کھجور کی جالی بھر ی گئی تھی، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دینے کے لیے ہمارے پاس تکیہ دستیاب نہ ہو سکا، پھر ہم نے دستر خوان پر تازہ اور خشک کھجور اور گوشت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے پیش کیا، ان دونوں نے کھانا کھایا، میں اور ایک ایسا آدمی تھا کہ جھجک رہا تھا۔ جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جانے لگے تو میری اہلیہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کی دعائوں کی ضرورت ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے، اللہ تمہارے رزق میں برکت فرمائے گا، اللہ تمہارے رزق میں برکت فرمائے۔ اس کے بعد میں نے اپنے قرض خواہوں کو پیغام بھیجا، وہ گدھے اور بورے لے کر آگئے، میں پختہ ارادہ کر چکا تھا کہ ان کے لیے عجوہ یعنی عمدہ قسم کی کھجور خرید کر میں اپنے والد کے ذمے عجوہ کھجور کی ادائیگی کروں گا۔ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے پورے بیس وسق عجوہ کھجور کے پورے ادا کر دیئے اور کافی ساری کھجور بچ رہی۔ میں نے جا کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ خوش خبری دی کہ کس طرح اللہ نے میرے مال میں برکت فرمائی۔ جب میں نے آپ کو یہ بات بتلائی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ تیرا شکر ہے۔ آپ نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بھی بتلایا کہ جابر نے اپنے قرض خواہوں کو پورا پورا قرض ادا کر دیا ہے، وہ بھی اللہ کی تعریفیں کرنے لگے۔

Haidth Number: 11652
۔ (دوسری سند) سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میرے والد کے ذمے قرض تھا، میں اس کی ادائیگی کے سلسلے میں تعاون کے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہارے پاس آئوں گا۔ میں نے جا کر اپنی اہلیہ سے کہہ دیا کہ تم اس بارے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کچھ نہ کہنا اور نہ کچھ مانگنا۔ آپ ہمارے ہاں تشریف لائے۔ آپ کی تشریف آوری پر ہم نے ایک بکریذبح کی، آپ نے گوشت دیکھ کر فرمایا: جابر! لگتا ہے تمہیںپتہ چل گیا کہ ہمیں گوشت پسند ہے۔ کھانے سے فارغ ہو کر آپ جانے لگے تو میری اہلیہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے درخواست کی: اے اللہ کے رسول! آپ میرے لیے اور میرے شوہر کے حق میں دعائے رحمت کر دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یا اللہ ! ان پر رحمتیں نازل فرما۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے اپنی اہلیہ سے کہا، کیا میں نے تمہیں منع نہیں کیا تھا؟ وہ بولی: تم جانتے ہو کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سے پہلے ہمارے ہاں تشریف لاتے اور ہمارے حق میں دعا نہیں فرماتے تھے، (اس لیے میں نے دعا کی درخواست کی)۔

Haidth Number: 11653

۔ (۱۱۶۵۴)۔ عَنْ سَالِمِ بْنِ الْجَعْدِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی سَفَرٍ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ الْمَدِینَۃِ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنِّی حَدِیثُ عَہْدٍ بِعُرْسٍ فَأْذَنْ لِی فِی أَنْ أَتَعَجَّلَ إِلٰی أَہْلِی، قَالَ: ((أَفَتَزَوَّجْتَ؟)) قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((بِکْرًا أَمْ ثَیِّبًا؟)) قَالَ: قُلْتُ: ثَیِّبًا، قَالَ: ((فَہَلَّا بِکْرًا تُلَاعِبُہَا وَتُلَاعِبُکَ وَفِیْ رِوَایَۃٍ تُلَاعِبُکَ وَتُلَاعِبُھَا وَتُضَاحِکُکَ وَتُضَاھِکُھَا)) قَالَ: قُلْتُ: إِنَّ عَبْدَ اللّٰہِ ہَلَکَ وَتَرَکَ عَلَیَّ جَوَارِیَ فَکَرِہْتُ أَنْ أَضُمَّ إِلَیْہِنَّ مِثْلَہُنَّ، فَقَالَ: ((لَا تَأْتِ أَہْلَکَ طُرُوقًا۔)) قَالَ: وَکُنْتُ عَلٰی جَمَلٍ فَاعْتَلَّ، قَالَ: فَلَحِقَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا فِی آخِرِ النَّاسِ قَالَ: فَقَالَ: ((مَا لَکَ یَا جَابِرُ؟)) قَالَ: قُلْتُ: اعْتَلَّ بَعِیرِی، قَالَ: ((فَأَخَذَ بِذَنَبِہِ۔)) ثُمَّ زَجَرَہُ قَالَ: فَمَا زِلْتُ إِنَّمَا أَنَا فِی أَوَّلِ النَّاسِ یَہُمُّنِی رَأْسُہُ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنَ الْمَدِینَۃِ قَالَ: قَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا فَعَلَ الْجَمَلُ؟)) قُلْتُ: ہُوَ ذَا، قَالَ: ((فَبِعْنِیہِ۔)) (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَقَالَ: أَتَبِیْعُنِیْہِ بِکَذَا وَکَذَا وَاللّٰہُ یَغْفِرُلَکَ) قُلْتُ: لَا بَلْ ھُوَ لَکَ، قَالَ ((بِعْنِیْہِ۔)) (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَزَادَنِیْ قَالَ: أَتَبِیْعُنِیْہِ بِکَذَا وَکَذَا وَاللّٰہُ یَغْفِرُ لَکَ) قُلْتُ: ہُوَ لَکَ، قَالَ: ((لَا قَدْ أَخَذْتُہُ بِأُوقِیَّۃٍ ارْکَبْہُ فَإِذَا قَدِمْتَ فَأْتِنَا بِہِ۔)) قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ جِئْتُ بِہِ، فَقَالَ: ((یَا بِلَالُ زِنْ لَہُ وُقِیَّۃً وَزِدْہُ قِیرَاطًا۔)) قَالَ: قُلْتُ: ہٰذَا قِیرَاطٌ زَادَنِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا یُفَارِقُنِی أَبَدًا حَتّٰی أَمُوتَ، قَالَ: فَجَعَلْتُہُ فِی کِیسٍ، فَلَمْ یَزَلْ عِنْدِی حَتّٰی جَائَ أَہْلُ الشَّامِ یَوْمَ الْحَرَّۃِ فَأَخَذُوْہٗ فِیْمَا أَخَذُوْہُ۔ (مسند احمد: ۱۴۴۲۹)

سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں ایک سفر میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، واپسی پر جب ہم مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری نئی نئی شادی ہوئی ہے، اجازت ہو تو میں ذرا جلدییعنی دوسروں سے پہلے گھر چلا جائوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: کیا تم نے شادی کر لی ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: وہ کنواری ہے یا بیوہ؟ میں نے عرض کیا: جی وہ بیوہ ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے کنواری سے نکاح کیوں نہیں کیا؟ وہ تمہارے ساتھ اور تم اس کے ساتھ خوب کھیلتے؟ ۔ ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں: تم اس کے ساتھ اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی، اور وہ تمہیں ہنساتی اور تم اسے ہنساتے۔ میں نے عرض کیا: (میرے والد) عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتقال اس حال میں ہوا ہے کہ ان کے بعد میری(سات) جو ان بہنیں میری کفالت میں ہیں،میں نے ان پر ان کی ہم عمر عورت کو (بیوی کے طور پر لانا) مناسب نہیں سمجھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنے گھر رات کو یعنی بلا اطلاع نہ جانا۔ میں ایک اونٹ پر سوار تھا، و ہ بیمار پڑ گیا، میں سب سے پیچھے آہستہ آہستہ چلا جا رہا تھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے آ ملے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جابر! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میرا اونٹ بیمار پڑ گیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی دم پکڑ کراسے ذرا ڈانٹا، دیکھتے ہی دیکھتے میں سب سے آگے نکل گیا، میں اس کی مہار کو کھینچ کھینچ کر اس کے سر کو پیچھے کی طرف لاتا تاکہ اس کی رفتار ذرا کم ہو، جب ہم مدینہ منورہ کے قریب آ پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: تمہارا اونٹ کہاں ہے؟ میں نے عرض کیا: جییہ ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اسے میرے ہاتھ بیچ دو۔ دوسری روایت کے لفظ یوں ہیں: آپ نے فرمایا: اللہ تمہاری مغفرت کرے، کیا تم اسے میرے ہاتھ فروخت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا: میں اسے آپ کے ہاتھ فروخت نہیں کرتا بلکہ یہ (بلاعوض) آپ ہی کا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : میں بلا معاوضہ نہیں لوں گا، تم اسے میرے ہاتھ بیچ دو۔ ایک روایت میں ہے:آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قیمت میں پہلے سے اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: کیا تم اتنے میں اسے میرے ہاتھ بیچتے ہو؟ اللہ تمہاری مغفرت فرمائے۔ میں نے عرض کیا: یہ آپ ہی کا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، میں اسے ایک اوقیہ سونے کے عوض خریدتا ہوں۔ مدینہ منورہ پہنچ کر اسے ہمارے حوالے کر دینا۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں جب مدینہ منورہ پہنچا تو اونٹ کو آپ کی خدمت میں لے گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بلال! تم ایک اوقیہ سونا اور مزید ایک قیراط تول کر اسے دے دو۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: قیراط زائد سونا رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے عنایت فرمایا،یہ میرے مرنے تک میرے پاس رہے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اسے اپنی جیب میںیا تھیلی میں رکھتا تھا اور وہ میرے پاس ہی موجود رہا یہاں تک کہ حرہ کی لڑائی کے دن جب اہل شام آئے تو ہمارے ہاں سے لوٹے ہوئے مال میں اسے بھی لوٹ کے گئے۔

Haidth Number: 11654

۔ (۱۱۶۵۵)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: فَقَدْتُ جَمَلِی لَیْلَۃً فَمَرَرْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یَشُدُّ لِعَائِشَۃَ، قَالَ: فَقَالَ لِی: ((مَا لَکَ یَا جَابِرُ؟)) قَالَ: قُلْتُ: فَقَدْتُ جَمَلِی أَوْ ذَہَبَ جَمَلِی فِی لَیْلَۃٍ ظَلْمَائَ، قَالَ: فَقَالَ لِی: ((ہَذَا جَمَلُکَ اذْہَبْ فَخُذْہُ۔)) قَالَ: فَذَہَبْتُ نَحْوًا مِمَّا قَالَ لِی فَلَمْ أَجِدْہُ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَیْہِ فَقُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! مَا وَجَدْتُہُ، قَالَ: فَقَالَ لِی: ((ہٰذَا جَمَلُکَ اذْہَبْ فَخُذْہُ۔)) قَالَ: فَذَہَبْتُ نَحْوًا مِمَّا قَالَ لِی فَلَمْ أَجِدْہُ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَیْہِ فَقُلْتُ بِأَبِی وَأُمِّی یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! لَا وَاللّٰہِ مَا وَجَدْتُہُ، قَالَ: فَقَالَ لِی: ((عَلٰی رِسْلِکَ۔)) حَتّٰی إِذَا فَرَغَ أَخَذَ بِیَدِی فَانْطَلَقَ بِی حَتّٰی أَتَیْنَا الْجَمَلَ فَدَفَعَہُ إِلَیَّ، قَالَ: ((ہٰذَا جَمَلُکَ۔)) قَالَ: وَقَدْ سَارَ النَّاسُ، قَالَ: ((فَبَیْنَمَا أَنَا أَسِیرُ عَلٰی جَمَلِی فِی عُقْبَتِی۔)) قَالَ: وَکَانَ جَمَلًا فِیہِ قِطَافٌ، قَالَ: قُلْتُ: یَا لَہْفَ أُمِّی أَنْ یَکُونَ لِی إِلَّا جَمَلٌ قَطُوفٌ، قَالَ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدِی یَسِیرُ، قَالَ: فَسَمِعَ مَا قُلْتُ، قَالَ: فَلَحِقَ بِی، فَقَالَ: ((مَا قُلْتَ یَا جَابِرُ قَبْلُ؟)) قَالَ: فَنَسِیتُ مَا قُلْتُ، قَالَ: قُلْتُ: مَا قُلْتُ شَیْئًا یَا نَبِیَّ اللّٰہِ!، قَالَ: فَذَکَرْتُ مَا قُلْتُ، قَالَ: قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ یَا لَہْفَاہُ أَنْ یَکُونَ لِی إِلَّا جَمَلٌ قَطُوفٌ، قَالَ: فَضَرَبَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَجُزَ الْجَمَلِ بِسَوْطٍ أَوْ بِسَوْطِی، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَوْضَعَ أَوْ أَسْرَعَ جَمَلٍ رَکِبْتُہُ قَطُّ وَہُوَ یُنَازِعُنِی خِطَامَہُ، قَالَ: فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَنْتَ بَائِعِی جَمَلَکَ ہٰذَا؟)) قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((بِکَمْ؟)) قَالَ: قُلْتُ: بِوُقِیَّۃٍ، قَالَ: قَالَ لِی: ((بَخٍ بَخٍ، کَمْ فِی أُوقِیَّۃٍ مِنْ نَاضِحٍ وَنَاضِحٍ؟)) قَالَ: قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ مَا بِالْمَدِینَۃِ نَاضِحٌ أُحِبُّ أَنَّہُ لَنَا مَکَانَہُ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((قَدْ أَخَذْتُہُ بِوُقِیَّۃٍ۔)) قَالَ: فَنَزَلْتُ عَنِ الرَّحْلِ إِلَی الْأَرْضِ، قَالَ: ((مَا شَأْنُکَ۔)) قَالَ: قُلْتُ: جَمَلُکَ، قَالَ: قَالَ لِی: ((ارْکَبْ جَمَلَکَ۔)) قَالَ: قُلْتُ: مَا ہُوَ بِجَمَلِی وَلٰکِنَّہُ جَمَلُکَ، قَالَ: کُنَّا نُرَاجِعُہُ مَرَّتَیْنِ فِی الْأَمْرِ إِذَا أَمَرَنَا بِہِ فَإِذَا أَمَرَنَا الثَّالِثَۃَ لَمْ نُرَاجِعْہُ، قَالَ: فَرَکِبْتُ الْجَمَلَ حَتّٰی أَتَیْتُ عَمَّتِی بِالْمَدِینَۃِ، قَالَ: وَقُلْتُ لَہَا: أَلَمْ تَرَیْ أَنِّی بِعْتُ نَاضِحَنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِأُوقِیَّۃٍ؟ قَالَ: فَمَا رَأَیْتُہَا أَعْجَبَہَا ذٰلِکَ، قَالَ: وَکَانَ نَاضِحًا فَارِہًا، قَالَ: ثُمَّ أَخَذْتُ شَیْئًا مِنْ خَبَطٍ أَوْجَرْتُہُ إِیَّاہُ، ثُمَّ أَخَذْتُ بِخِطَامِہِ فَقُدْتُہُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُقَاوِمًا رَجُلًا یُکَلِّمُہُ، قَالَ: قُلْتُ: دُونَکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ جَمَلَکَ، قَالَ: فَأَخَذَ بِخِطَامِہِ ثُمَّ نَادَی بِلَالًا، فَقَالَ: ((زِنْ لِجَابِرٍ أُوقِیَّۃً وَأَوْفِہِ۔)) فَانْطَلَقْتُ مَعَ بِلَالٍ فَوَزَنَ لِی أُوقِیَّۃً وَأَوْفٰی مِنَ الْوَزْنِ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ قَائِمٌ یُحَدِّثُ ذٰلِکَ الرَّجُلَ، قَالَ: قُلْتُ لَہُ: قَدْ وَزَنَ لِی أُوقِیَّۃً وَأَوْفَانِی، قَالَ: فَبَیْنَمَا ہُوَ کَذٰلِکَ إِذْ ذَہَبْتُ إِلٰی بَیْتِی وَلَا أَشْعُرُ، قَالَ: ((فَنَادٰی أَیْنَ جَابِرٌ؟)) قَالُوْا: ذَہَبَ إِلٰی أَہْلِہِ، قَالَ: أَدْرِکْ ائْتِنِی بِہِ، قَالَ: فَأَتَانِی رَسُولُہُ یَسْعٰی، قَالَ: یَا جَابِرُ یَدْعُوکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَأَتَیْتُہُ، فَقَالَ: ((فَخُذْ جَمَلَکَ۔)) قُلْتُ: مَا ھُوَ جَمَلِیْ وَإِنَّمَا ھُوَ جَمَلُکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((خُذْ جَمَلَکَ۔)) قَالَ: فَأَخَذْتُہُ، قَالَ: فَقَالَ: ((لَعَمْرِیْ مَا نَفَعْنَاکَ لِنُنْزِلَکَ عَنْہٗ۔)) قَالَ: فَجِئْتُ إِلٰی عَمَّتِیْ وَالنَّاضِحُ مَعِیْ وَبِالْوَقِیَّۃِ، قَالَ: فَقُلْتُ لَھَا: مَا تُرِیْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَعْطَانِیْ أَوْقِیَّۃً وَرَدَّ عَلَیَّ جَمَلِیْ۔ (مسند احمد: ۱۴۹۲۵)

سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک رات میرا اونٹ گم ہوگیا، اس کی تلاش میں میرا گزر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے ہوا۔ آپ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے لیے اونٹ کو تیار کر رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: جابر! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا: رات اندھیری ہے اور میرا اونٹ گم ہو گیا ہے۔آ پ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارا اونٹ وہاں ہے، جا کر اسے پکڑ لو۔ آپ نے جس طرح اشارہ فرمایا تھا، میں ادھر کو گیا لیکن اونٹ تو مجھے نہ ملا، میں آپ کی خدمت میں واپس آیا اور میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! میرے باپ اور ماں آپ پر فدا ہوں،مجھے تو اونٹ نہیں ملا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارا اونٹ وہیں ہے، جا کر اسے پکڑ لو۔ آپ نے جس طرف کا اشارہ کیا تھا، میں ادھر گیا، لیکن اونٹ مجھے نہ ملا، میں نے واپس آکر عرض کیا: اے اللہ کے نبی ! اللہ کی قسم! اونٹ مجھے تو نہیں ملا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اچھا ٹھہرو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے کام سے فارغ ہو کر میرا ہاتھ پکڑا اور چل پڑے، یہاں تک کہ ہم چلتے چلتے اونٹ کے پاس جا پہنچے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ میرے حوالے کیا اور فرمایا: یہ اونٹ ہے۔ لوگ آگے جا چکے تھے، میں اپنے اونٹ پر سوار چلا جا رہا تھا، میرا اونٹ سست رفتار تھا، میں کہہ رہا تھا کہ کس قدر افسوس ہے کہ میرا اونٹ سست رفتار ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی میرے پیچھے پیچھے آرہے تھے۔ آپ نے میری بات سن لی۔ آپ مجھ سے آن ملے۔ اور فرمایا۔جابر! ابھی تم نے کیا کہا تھا؟ مجھے اپنی کہی ہوئی بات بھول چکی تھی۔ میں نے عرض کیا، اللہ کے نبی! میں نے تو کچھ نہیں کہا۔ پھر اچانک مجھے یہ بات یاد آگئی۔ تو میں نے عرض کیا، اللہ کے نبی میں نے کہا تھا، افسوس! میرا اونٹ کس قدر سست ہے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اونٹ کے پچھلے حصے پر اپنییامیری لاٹھی ماری۔ جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ لاٹھی پڑتے ہی اونٹ اس قدر تیز دوڑا کہ میں آج تک کبھی بھی اس قدر تیز رفتار اونٹ پر سوار نہیں ہوا۔ وہ اپنی مہار مجھ سے چھڑاتا تھا اور قابو میں نہ آرہا تھا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تم اپنا یہ اونٹ میرے ہاتھ فروخت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: کتنے ہیں؟ میں نے عرض کیا، کہ ایک اوقیہ سونے کے عوض۔ آپ نے فرمایا بہت خوب، ایک اوقیہ کے کتنے اونٹ آتے ہیں؟ میں نے عرض کیا، اللہ کے نبی! پورے مدینہ میں ہمیں کوئی اونٹ اس سے زیادہ پیارا نہیں لگتا۔ تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک اوقیہ کے بدلے یہ اونٹ میں نے لے لیا۔یہ سنتے ہی میں اونٹ سے نیچے اتر آیا۔ آپ نے فرمایا: کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا کہ اب یہ اونٹ میرا نہیں بلکہ آپ کا ہے۔ آپ نے فرمایا: تم اپنے اونٹ پر سوار ہو جائو۔ میں نے کہا، اب یہ اونٹ میرا نہیں رہا۔ بلکہ آپ کا ہو چکا ہے۔ ہم نے دو مرتبہ یہ باتیں دہرائیں۔ اور تیسری دفعہ نہ دہرائی۔ اور میں اونٹ پر سوار ہو گیا۔ مدینہ منورہ جا کر میں اپنی پھوپھی جان کے پاس گیا۔ میں نے ان سے کہا کہ دیکھیں میں نے یہ اونٹ ایک اوقیہ سونے کے عو ض رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ فروخت کر دیا ہے۔ میں نے دیکھا کہ یہ سودا انہیں اچھا نہیں لگا، دراصل وہ اونٹ بڑا تیز اور طاقت ور تھا،میں نے ایک درخت کے پتے جھاڑ کر اونٹ کو کھلائے اور اس کی مہار پکڑ کر اسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سپرد کر نے چلا۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی کے ساتھ محو گفتگو تھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! آپ اپنا یہ اونٹ سنبھال لیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اونٹ کی مہار پکڑ لی اور سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: تم جابر کوایک اوقیہ سونا تول دو اور کچھ زیادہ دے دینا۔ میں بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ گیا، انہوںنے ایک اوقیہ سونا مجھے تول کر مزید بھی دے دیا، میں قیمت وصول کرکے واپس آیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابھی تک اس آدمی کے ساتھ محوکلام تھے۔ میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا: بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے ایک اوقیہ سونا اور کچھ مزید دے دیا ہے۔ آپ وہیں کھڑے تھے اور میں اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ میں اپنے خیالوں میں جا رہا تھا کہ آپ نے آواز دی: جابر کہاں ہے؟ صحابہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بتلایا کہ وہ تو اپنے گھر چلا گیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا: جاؤ اور اسے میرے پاس بلا لائو۔ آپ کا قاصد دوڑتا ہوا میرے پاس آیا۔ اس نے کہا: جابر! آپ کو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بلایا ہے۔ میں آپ کی خدمت میں پہنچا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنا اونٹ لے جائو۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ اونٹ میرا نہیں بلکہ اب تو آپ کا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنا اونٹ لے جائو۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اب یہ اونٹ میرا نہیں، بلکہ آپ کا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنا اونٹ لے جائو۔ چنانچہ میں نے اونٹ لے لیا، سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں ہم نے سوچا کہ اگر ہم آپ کے اس سودے سے منحرف ہوتے ہیں تو یہ بات ہمارے حق میں قطعاً مفید نہیں۔چنانچہ میں اپنی پھوپھی جان کے پاس گیا، اونٹ میرے ساتھ تھااور ایک اوقیہ سونا بھی میرے پاس تھا۔ میں نے پھوپھی جان کو بتلایا کہ دیکھیں اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایک اوقیہ سونا بھی دیا ہے اور میرا اونٹ بھی مجھے واپس کر دیا ہے۔

Haidth Number: 11655
سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! میں اپنے ہر خلیل کی خلت اور گہری دوستی سے اظہار براء ت کرتا ہوں، اگر میں نے کسی کو خلیل بنانا ہو تا تو ابو بکر کو بتاتا، بیشک تمہارا یہ ساتھی اللہ تعالیٰ کا دوست ہے۔

Haidth Number: 12171
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جتنا فائدہ مجھے ابو بکر کے مال سے پہنچاہے، اتنا کسی دوسرے کے مال سے نہیںپہنچا۔ یہ سن کر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خوشی سے رو پڑے اور کہا: اللہ کے رسول! میں اور میرا مال، سب کچھ آپ کا ہے۔

Haidth Number: 12172
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غار میں تھے اور دشمن غار کے منہ پر کھڑے تھے، تو میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اگر ان میںسے کسی نے اپنے پاؤں کی طرف جھانکا تو اپنے قدموں کے نیچے ہمیں دیکھ لے گا، یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارا ان دو کے بارے میں کیا گمان ہے، جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے۔

Haidth Number: 12173
سیدنا عمر و بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے غزوۂ ذات ِسلاسل کے لیے روانہ کیا، میں اس سے فارغ ہو کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اللہ کے رسول! لوگوں میںسے آپ کو سب سے زیادہ کس کے ساتھ محبت ہے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ سے۔ میں نے کہا: اور مردو ں میں سے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کے والد سے۔ میں نے پوچھا: ان کے بعد؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عمر سے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید چند آدمیوں کے نام لیے۔

Haidth Number: 12174
سیدناحذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مضر کا یہ قبیلہ زمین پر موجود صالح لوگوں کو فتنوں میں ڈالے گا اور انہیں ہلاک کرے گا، یہاں تک کہ اللہ اپنے بندوں کے لشکروں کے ذریعے ان کی گرفت کرے گا اور ان کو ذلت و رسوائی میں مبتلا کر دے گا اور وہ ذلیل و رسوا ہو کر رہ جائیں گے۔

Haidth Number: 12586
۔ (دوسری سند) سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: مضر کے لوگ اللہ کے مومن بندوں کو فتنوں میں ڈالیں گے یا انہیں قتل کر دیں گے، پھر اللہ تعالی، فرشتے اور اہل ایمان ان کی ایسی مار کٹائی کریں گے کہ وہ ذلیل و رسوا ہوکر رہ جائیں گے۔ ایک آدمی نے سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے اللہ کے بندے! تم خود مضر سے ہو اور یہ کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے جواباً کہا: میں وہی کہتا ہوں، جو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ہے۔

Haidth Number: 12587
امام نافع کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ابن صیاد کو مدینہ منورہ کی ایک گلی میں دیکھا، تو انھوں نے اسے برا بھلا کہا اور اس کی ڈانٹ ڈپٹ کی، ابن صیاد غصے سے اس قدر پھول گیا کہ راستہ بند ہوگیا، سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس ایک لاٹھی تھی، انہوں نے اسے مار مار کر لاٹھی توڑ دی، سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان سے کہا: تمہیں اس سے کیا غرض ہے؟ کون سی چیز تمہیں اس پر اکسا رہی ہے؟ کیا تم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا: دجال اس وقت نکلے گا، جب اسے شدید غصہ آیا ہوا ہو گا۔

Haidth Number: 12953

۔ (۱۲۹۵۴)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا عَنِ ابْنِ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: لَقِیْتُ ابْنَ صَیَّادٍ مَرَّتَیْنِ، فَاَمَّا مَرَّۃً فَلَقِیْتُہُ وَمَعَہُ بَعْضُ اَصْحَابِہٖفَقُلْتُلِبَعْضِہِمْ: نَشَدْتُّکُمْبِاللّٰہِاِنْسَاَلْتُکُمْعَنْشَیْئٍ لَتَصْدُقُنِّیْ؟ قَالُوْا: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: اَتُحَدِّثُوْنِیْ اَنَّہٗھُوَ،قَالُوْا: لَا، قُلْتُ: کَذَبْتُمْ وَاللّٰہِ! لَقَدْ حَدَّثَنِیْ بَعْضُکُمْ وَھُوَ یَوْمَئِذٍ اَقَلُّکُمْ مَالًا وَوَلَدًا اَنَّہُ لَایَمُوْتُ حَتّٰییَکُوْنَ اَکْثَرَکُمْ مَالًا وَوَلَدًا وَھُوَالْیَوْمَ کَذٰلِکَ قَالَ: فَحَدَّثَنَا ثُمَّ فَارَقْتُہُ، ثُمَّ لَقِیْتُہُ مَرَّۃً اُخْرٰی وَقَدْ تَغَیَّرَتْ عَیْنُہُ فَقَلْتُ: مَتٰی فَعَلَتْ عَیْنُکَ مَا اَرٰی؟ قَالَ: لَا اَدْرِیْ، قُلْتُ:مَا تَدْرِیْ وَھِیَ فِیْ رَاْسِکَ، فَقَالَ: مَا تُرِیْدُ مِنِّیْیَا ابْنَ عُمَرَ اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالیٰ اَنْ یَّخْلُقَہُ مِنْ عَصَاکَ ہٰذِہٖخَلَقَہُوَنَخَرَکَاَشَدِّنَخِیْرِ حِمَارٍ سَمِعْتُہُ قَطُّ، فَزَعَمَ بَعْضُ اَصْحَابِیْ اَنَّیْ ضَرَبْتُہُ بِعَصًا کَانَتْ مَعِیَ حَتّٰی تَکَسَّرَتْ وَاَمَّا اَنَا فَوَاللّٰہِ مَاشَعَرْتُ قَالَ: فَدَخَلَ عَلٰی اُخْتِہِ حَفْصَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فَاَخْبَرَھَا فَقَالَتْ: مَا تُرِیْدُ مِنْہُ؟ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّہُ قَالَ: تَعْنِی النَّبِیّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اَوَّلَ خُرُوْجِہٖعَلٰی النَّاسِ مِنْ غَضَبَۃٍیَغْضِبُہَا۔)) (مسند احمد: ۲۶۹۵۸)

امام نافع کہتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ابن صیادسے دو دفعہ میری ملاقات ہوئی، ایک دفعہ جب میں اسے ملا تو اس کے ساتھ اس کے کچھ ساتھی بھی تھے، میں نے ان سے کہا: میںتم لوگوں کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ اگر میں تم سے کوئی بات پوچھوں تو تم سچ بولو گے؟ انہوںنے کہا: ٹھیک ہے۔ میں نے پوچھا: کیا تم مجھے بتاؤ گے کہ یہ (ابن صیاد) وہی (دجال) ہے؟ انھوں نے کہا: نہیں، یہ وہ نہیں ہے، میں نے کہا: تم غلط کہتے ہو، اللہ کی قسم! تم ہی میں سے بعض نے مجھے بتلایا تھا کہ دجال شروع میں مال و اولاد کے لحاظ سے سب سے کم ہوگا، لیکن جب اسے موت آئے گی تو اس کا مال بھی سب سے زیادہ ہوگا اور اولاد بھی، یہ ساری باتیں اس پر صادق آتی ہیں، اس کے بعد میں اسے چھوڑ کر چلا گیا، پھر جب میری اس سے دوسری مرتبہ ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ اس کی آنکھ خراب ہوچکی تھی، میں نے پوچھا: میں تمہاری آنکھ کو خراب دیکھ رہا ہوں، یہ کب سے ایسے ہے؟ وہ بولا: مجھے معلوم نہیں۔ میںنے کہا: یہ آنکھ تمہارے سر میں ہے اور تم نہیں جانتے کہ ایسا کب سے ہوا ہے؟ اس نے کہا: عبد اللہ بن عمر! تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ اگر اللہ نے چاہا تو تمہاری اس لاٹھی سے دجال کو پیدا کر دے گا، اس کے بعد وہ زور سے گدھے کی طرح خرّاٹے لینے لگا، میں نے ایسی (مکروہ) آواز کبھی نہیں سنی تھی۔ پھر سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:میرے کچھ دوست کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک لاٹھی تھی اورمیںنے اس کو اتنا زدو کوب کیا کہ وہ ٹوٹ گئی۔ لیکن اللہ کی قسم! مجھے تو اس چیز کا بالکل علم نہیں ہوا۔ نافع کہتے ہیں : پھر سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی ہمشیرہ سیدہ حفصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس گئے اور ان کو یہ واقعہ بیان کیا،انہوں نے کہا: تمہیں اس سے کیا غرض ہے؟ کیا تم نہیں جانتے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: دجال کا لوگوں کے سامنے پہلا ظہور شدید غصے کی صورت میں ہوگا۔

Haidth Number: 12954
سیدناابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کو تین پیشیوں کا سامنا کرنا ہوگا، دو پیشیوں میں تو بحث مباحثہ اور معذرتیں ہوں گی ا ور تیسری پیشی میں تو لوگوں کے اعمال نامے اڑ اڑ کر ہاتھوں میں آپہنچیں گے، کوئی دائیں ہاتھ سے پکڑ رہا ہو گا اور کوئی بائیں ہاتھ سے۔

Haidth Number: 13147

۔ (۱۳۱۴۸)۔ وَعَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَلْ یَذْکُرُ الْحَبِیْبُ حَبِیْبَہُیَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ: ((یَاعَائِشَۃُ! اَمَّا عِنْدَ ثَلَاثٍ فَلَا، اَمَّا عِنْدَ الْمِیْزَانِ حَتّٰییَثْقُلَ اَوْ یَخِفَّ فَلَا وَاَمَّا عِنْدَ تَطَایُرِ الْکُتُبِ فَاِمَّا اَنْ یُّعْطٰی بِیَمِیْنِہٖ اَوْ یُعْطٰی بِشِمَالِہٖفَلَاوَحِیْنَیَخْرُجُ عُنُقٌ مِّنَ النَّارِ فَیَنْطَوِیْ عَلَیْھِمْ وَیَتَغَیَّظُ عَلَیْہِمْ وَیَقُوْلُ ذٰلِکَ الْعُنُقُ: وُکِّلْتُ بِثَلَاثَۃٍ وُکِّلْتُ بِثَلَاثَۃٍ وُکِّلْتُ بِمَنِ ادَّعٰی مَعَ اللّٰہِ اِلٓہًا آخَرَ، وَوُکِّلْتُ بِمَنْ لَا یُوْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ ، وَوُکِّلْتُ بِکُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ قَالَ: فَیَنْطَوِیْ عَلَیْہِمْ وَیَرْمِیْ بِہِمْ فِیْ غَمَرَاتٍ، وَلِجَہَنَّمَ جَسَرٌ اَدَقُّ مِنَ الشَّعْرِ وَاَحَدُّ مِنَ السَّیْفِ عَلَیْہِ کَلاَلِیْبُ وَحَسَکٌیَاْخُذُوْنَ مَنْ شَائَ اللّٰہُ وَالنَّاسُ عَلَیْہِ کَالطَّرْفِ وَکَالْبَرْقِ وَکَالرِّیْحِ وَکَاَجَاوِیْدِ الْخَیْلِ وَالرِّکَابِ، وَالْمَلاَئِکَۃُیَقُوْلُوْنَ: رَبِّ سَلِّمْ رَبِّ سَلِّمْ، فَنَاجٍ مُسَلَّمٌ وَمَخْدُوْشٌ مُسَلَّمٌ وَمُکَوَّرٌ فِی النَّارِ عَلٰی وَجْہِہٖ۔)) (مسنداحمد: ۲۵۳۰۳)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں:میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! قیامت کے دن دوست اپنے دوستوں اور پیاروں کو یاد کریں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ! تین موقعے تو ایسے ہیں کہ وہاں کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا، ان میں سے ایک ترازو کا موقع ہے، اس میں یہی فکر ہو گی کہ نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوتا ہے یا ہلکا، دوسرا موقع نامۂ اعمال کے اڑنے کا ہے کہ وہ کسی کو دائیں ہاتھ میں مل رہا ہو گا اور کسی کو بائیں ہاتھ میں، اس وقت بھی کوئی کسی کا یاد نہیں کرے گا، تیسرا موقعہ وہ ہوگا، جب جہنم سے ایک گردن نکلے گی اورلوگوںپر چھا جائے گی، وہ ان پر غصے کی حالت میں ہو گی اور کہے گی: مجھے تین قسم کے لوگوں پر مسلط کیا گیا ہے، مجھے تین قسم کے لوگوں پر مسلط کیا گیا ہے، مجھے ان لوگوں پر مسلط کیا گیا ہے جنہوںنے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو اپنا معبود سمجھ لیا، مجھے ان لوگوں پر بھی مسلط کیا گیا ہے جو یومِ حساب پر ایمان نہیں رکھتے تھے اور مجھے ہر سرکش و نافرمان پر بھی مسلط کیا گیا ہے، وہ ان لوگوں پر چھا جائے گی اور ان کو گہرے گڑھوں میں جا پھینکے گی، جہنم کے اوپر ایک پل ہوگا، جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا، اس پر کنڈیاں اور کانٹے ہوںگے اور جن لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہوگا، وہ انہیں کھینچ کر جہنم میں ڈال دیں گے، جب لوگ اس کے اوپر سے گزریں گے تو کوئی آنکھ جھپکنے کی دیر میں، کوئی بجلی کی طرح، کوئی ہوا کی طرح اور کوئی بہترین گھوڑوں اورسواریوں کی رفتار سے گزریں گے، اللہ تعالیٰ کے فرشتے بھی یہ دعاکر رہے ہوں گے: اے ربّ ! محفوظ رکھ، اے ربّ! محفوظ رکھ،کوئی تو سلامتی کے ساتھ اس کو عبور کر جائے گا اور کوئی زخمی ہوتا ہوا اس سے گزرے گا اور کوئی چہرے کے بل جہنم میںجا پڑے گا۔

Haidth Number: 13148
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ قیامت کے دن اپنے اہل خانہ کویا د کریں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رہا مسئلہ تین موقعوں کا، تو ان میں کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا: نامہ اعمال کی تقسیم، ترازو کے پاس اور پل صراط سے گزرتے وقت۔

Haidth Number: 13149
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن ترازو نصب کر دیئے جائیں گے، ایک آدمی کو پیش کیا جائے گا، اسے اور اس کے اعمال کو ترازو کے پلڑوں میں رکھا جائے گا، لیکن ترازو اوپر کو اٹھ جائے گا، پھر اسے جہنم کی طرف بھیج دیا جائے گا، جب اسے لے جایا جا رہا ہو گا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک پکارنے والا یوں پکارے گا : جلدی نہ کرو، جلدی نہ کرو، اس کی ایک نیکی رہ گئی ہے، پھر ایک پرچی لائی جائے گی اس میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ لکھا ہوا ہو گا، پھر اسے اس آدمی کے ساتھ دوبارہ پلڑے میں رکھا جائے گا ، نتیجتاً وہ پلڑا وزنی ہوجائے گا۔

Haidth Number: 13150
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک بازار ہوگا، وہاں کوئی خرید و فروخت نہیں ہوگی، بلکہ وہاں تو صرف مردوں اور عورتوں کی تصاویر ہوں گی، جب کوئی مرد کسی تصویر کو پسند کرے گا، تو وہ اسی تصویر میں تبدیل ہوجائے گا اور جنت میں موٹی آنکھوں والی عورتوں حوروں کی ایک اجتماع گاہ ہو گی، وہ وہاں بلند آواز سے گائیں گی، مخلوقات ان جیسی نہیں دیکھیں، وہ یہ نغمہ گائیں گی:ہم ہمیشہ زندہ رہنی والی ہیں، ہم کبھی نہیں مریں گی، ہم راضی ہونے والی ہیں، کبھی ناراض نہیں ہوں گی، ہم خوشحال رہنی والی ہیں، کبھی بد حال نہیں ہوں گی، پس خوشخبری ہے ان کے لیے جو ہمارے لیے ہیں اور ہم ان کے لیے ہیں۔

Haidth Number: 13283
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں اہلِ جنت کا ایک بازار ہوگا، وہ وہاں ہر ہفتہ کو جایا کریں گے، اس میں کستوری کے اونچے اونچے ڈھیر ہوں گے، جب وہ اس بازار کی طرف نکلیں گے تو شمال کی جانب سے ہوا چلے گی اور وہ ان کے چہروں ،کپڑوں اور گھروں کو کستوری سے بھر دے گی اور اس سے ان کے حسن و جمال میں اضافہ ہو گا، وہ جب لوٹ کر اپنے گھر والوںکے پاس جائیں گے تو گھر والے ان سے کہیں گے کہ ہمارے پاس سے جانے کے بعد تمہارا حسن و جمال بہت زیادہ ہو چکا ہے اور وہ کہیں گے کہ ہمارے بعد تمہارے حسن و جمال میں بھی بہت اضافہ ہوچکا ہے۔

Haidth Number: 13284
سیدنا ا نس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر اہل جنت کی بیویوں میں سے ایک خاتون زمین کی طرف جھانک جائے تو اس کی خوشبو سے زمین و آسمان کے درمیان والا خلا بھر جائے اور ان دونوں کے درمیان والی ہر چیز معطر ہو جائے، اس کے سر کا ایک دوپٹہ دنیا وما فیہا سے بڑھ کر ہے۔

Haidth Number: 13285
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: موٹھی آنکھوں والی حوروں میں سے ہر جنتی کی دو دو بیویاں ہوں گی، ہر ایک کے جسم پر ستر ستر لباس ہوں گے، (لیکن نزاکت اور شفافیت کا یہ عالَم ہو گا کہ) ان کپڑوں کے پیچھے سے ان کی ران کا مغز دکھائی دے رہا ہوگا۔

Haidth Number: 13286

۔ (۱۳۲۸۷)۔ وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ الرَّجُلَ لَیَتَّکِیئُ فِی الْجَنَّۃِ سَبْعِیْنَ سَنَۃً قَبْلَ اَنْ یَّتَحَوَّلَ ثُمَّ تَاْتِیْہِ اِمْرَاَتُہُ فَتَضْرِبُ عَلٰی مَنْکِبَیْہِ فَیَنْظُرُ وَجْہَہٗفِیْ خَدِّھَا اَصْفٰی مِنَ الْمَرْأَۃِ، وَاِنَّ اَدْنٰی لُؤْلُؤَۃٍ عَلَیْہَا تُضِیْئُ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ فَتُسَلِّمُ عَلَیْہِ قَالَ: فَیَرُدُّ السَّلَامَ وَیَسْاَلُھَا مَنْ اَنْتِ؟ وَتَقُوْلُ: اَنَا مِنَ الْمَزِیْدِ، وَاِنَّہُ لَیَکُوْنُ عَلَیْہَا سَبْعُوْنَ ثَوْبًا اَدْنَاھَا مِثْلُ النُّعْمَانِ مِنْ طُوْبٰی فَیَنْفُذُھَا بَصَرَہُ حَتّٰییَرٰی مُخَّ سَاقِہَا مِنْ وَّرَائِ ذٰلِکَ، وَاِنَّ عَلَیْہَا مِنَ التِّیْجَانِ، اِنَّ اَدْنٰی لُؤْلُؤَۃٍ عَلَیْہَا لَتُضِیْئُ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔)) (مسند احمد: ۱۱۷۳۸)

سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک آدمی ستر سال تک جگہ تبدیل کیے بغیر ایک مقام میں بیٹھا رہے گا، اس کے بعد اس کی بیوی اس کے پاس آکر اس کے کندھوں پرہاتھ رکھے گی، اسے اس بیوی کے رخساروں میںاپنا چہرہ نظر آئے گا، بیوی کا چہرہ آئینے سے بھی زیادہ شفاف ہوگا، اس کے جسم پر لگے ہوئے موتیوں میں سب سے کم تر موتی اس قدر خوبصورت ہوگا کہ وہ مشرق و مغرب کے درمیان کا علاقہ روشن کر دے گا، وہ اپنے شوہر کو سلام کہے گی اور وہ اسے سلام کا جواب دے گا اور اس سے پوچھے گا کہ تم کون ہو؟ وہ جواب دے گی: میں تمہارے لیے مزید نعمتوں میں سے ہوں، اس کے جسم پر ستر لباس ہوں گے، ان میں ہلکے سے ہلکا لباس طوبیٰ کے پہاڑ کے گل لالہ جیسا ہوگا، اس کی نظر ان تمام لباسوں کو پارکر کے اس کی پنڈلی کے گودے تک کو دیکھ رہی ہوگی، اس کے اوپرکئی تاج ہوں گے، ان تاجوں پر ٹانکا ہوا کم تر موتی اس قدر خوبصورت ہو گا کہ شرق و غرب کے درمیان خلا کو روشن کر دے گا۔

Haidth Number: 13287