Blog
Books
Search Hadith

سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی قید اور فدیے اور اس معاملے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ایک معجزے کا بیان

23 Hadiths Found

۔ (۵۰۸۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کَانَ الَّذِی أَسَرَ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَبُو الْیَسَرِ بْنُ عَمْرٍو وَہُوَ کَعْبُ بْنُ عَمْرٍو أَحَدُ بَنِی سَلِمَۃَ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((کَیْفَ أَسَرْتَہُ یَا أَبَا الْیَسَرِ؟)) قَالَ: لَقَدْ أَعَانَنِی عَلَیْہِ رَجُلٌ مَا رَأَیْتُہُ بَعْدُ وَلَا قَبْلُ ہَیْئَتُہُ کَذَا ہَیْئَتُہُ کَذَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَقَدْ أَعَانَکَ عَلَیْہِ مَلَکٌ کَرِیمٌ۔)) وَقَالَ لِلْعَبَّاسِ: ((یَا عَبَّاسُ! افْدِ نَفْسَکَ وَابْنَ أَخِیکَ عَقِیلَ بْنَ أَبِی طَالِبٍ وَنَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ وَحَلِیفَکَ عُتْبَۃَ بْنَ جَحْدَمٍ أَحَدُ بَنِی الْحَارِثِ بْنِ فِہْرٍ۔)) قَالَ: فَأَبٰی، وَقَالَ: إِنِّی کُنْتُ مُسْلِمًا قَبْلَ ذٰلِکَ، وَإِنَّمَا اسْتَکْرَہُونِی، قَالَ: ((اللّٰہُ أَعْلَمُ بِشَأْنِکَ إِنْ یَکُ مَا تَدَّعِی حَقًّا فَاللّٰہُ یَجْزِیکَ بِذٰلِکَ، وَأَمَّا ظَاہِرُ أَمْرِکَ فَقَدْ کَانَ عَلَیْنَا فَافْدِ نَفْسَکَ۔)) وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ أَخَذَ مِنْہُ عِشْرِینَ أُوقِیَّۃَ ذَہَبٍ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! احْسُبْہَا لِی مِنْ فِدَایَ، قَالَ: ((لَا ذَاکَ شَیْئٌ أَعْطَانَاہُ اللّٰہُ مِنْکَ۔)) قَالَ: فَإِنَّہُ لَیْسَ لِی مَالٌ، قَالَ: ((فَأَیْنَ الْمَالُ الَّذِی وَضَعْتَہُ بِمَکَّۃَ حَیْثُ خَرَجْتَ عِنْدَ أُمِّ الْفَضْلِ وَلَیْسَ مَعَکُمَا أَحَدٌ غَیْرُکُمَا، فَقُلْتَ: إِنْ أُصِبْتُ فِی سَفَرِی ہٰذَا فَلِلْفَضْلِ کَذَا وَلِقُثَمَ کَذَا وَلِعَبْدِ اللّٰہِ کَذَا۔)) قَالَ: فَوَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ مَا عَلِمَ بِہٰذَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ غَیْرِی وَغَیْرُہَاوَإِنِّی لَأَعْلَمُ أَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ۔ (مسند أحمد: ۳۳۱۰)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عباس بن عبد المطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قید کرنے والے بنو سلمہ کے آدمی سیدنا ابویسر کعب بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: اے ابو الیسر! تم نے ان کو کیسے قید کر لیا؟ انھوں نے کہا: ایک ایسے آدمی نے میری مدد کی تھی، کہ میں نے نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد اُس جیسا آدمی دیکھا، ایسے ایسے اس کی ہیئت تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک عزت والے فرشتے نے تیری مدد کی تھی۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے عباس! اب اپنا، اپنے بھتیجے عقیل بن ابی طالب کا، نوفل بن حارث کا، اور بنو حارث والے اپنے حلیف عتبہ بن جحدم کا فدیہ دو۔ لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا: میں تو اس سے پہلے مسلمان ہو چکا تھا، ان لوگوں نے مجھے مجبور کیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی تمہارے معاملے کو بہتر جانتا ہے، جو کچھ تم کہہ رہے ہو، اگر یہ بات سچی ہوئی تو اللہ تعالیٰ تم کو اس کا بدلہ دے دے گا، رہا مسئلہ ظاہری معاملے کا تو وہ تو یہی لگ رہا ہے کہ تم ہمارے خلاف تھے لہٰذا اپنے نفس کا فدیہ ادا کرو۔ اُدھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے بیس اوقیہ کے وزن کے برابر سونا لیا تھا، اس لیے انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس سونے کا میرے فدیے میں شمار کر لو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، ایسے نہیں ہو گا، کیونکہ وہ تو ایسی چیز ہے، جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں تمہاری طرف سے دلائی ہے۔ انھوں نے کہا: تو پھر میرے پاس مال نہیں ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ مال کہاں ہے، جو تم نے مکہ سے نکلتے وقت مکہ میں ام فضل کے پاس رکھا اور اس وقت صرف تم دو تھے، کوئی اور آدمی تمہارے ساتھ نہیں تھا، تم نے ام فضل سے کہا تھا: اگر اس سفر میں مجھے موت آ گئی تو اتنا فضل کے لیے ہے، اتنا قُثَم کے لیے ہے اور اتنا عبد اللہ کے لیے ہے؟ سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا! میرے اور ام فضل کے علاوہ کسی آدمی کو اس چیز کا علم نہیں تھا اور بیشک میں جانتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔

Haidth Number: 5087
۔ سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یا کسی اور صحابی سے مروی ہے کہ ایک انصاری آدمی، سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لے کر آئے، اسی آدمی نے ان کو قید کیا تھا، سیدنا عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس آدمی نے مجھے قید نہیں کیا، بلکہ ایک اور آدمی تھا، وہ سر کے اگلے حصے سے گنجا تھا اور اس کی ہیئت ایسے ایسے تھی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایک معزز فرشتے کے ساتھ تیری مدد کی ہے۔

Haidth Number: 5088
۔ سیدنا فضالہ بن عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ایک ہار لایا گیا، اس میں سونا اور موتی تھے اور وہ برائے فروخت تھا اور وہ مال غنیمت سے حاصل ہوا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا کہ ہار میں جو سونا ہے، اس کو الگ کر دیا جائے، پھر فرمایا: سونے کو سونے کے بدلے برابر برابر فروخت کیا جاتا ہے۔

Haidth Number: 5988
۔ سیدنا فضالہ بن عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے خیبر والے دن بارہ دینار میں ایک ہار خریدا، اس میں سونا اور موتی تھے۔ جب میں نے اسے علیحدہ علیحدہ کیا تو اس کا سونا ہی بارہ دینار سے زیادہ نکلا، جب میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات بتلائی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تک اس کو علیحدہ علیحدہ نہ کیا گیا ہو، اس وقت تک اس کو فروخت نہ کیا جائے۔

Haidth Number: 5989
۔ سیدنا فضالہ بن عبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم خیبر کی فتح کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، یہودیوں نے ایک اوقیہ کے برابر سونا دو دو اور تین تین دیناروں کے عوض فروخت کیا، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سونے کے عوض سونا فروخت نہ کیا کرو، الا یہ کہ برابر برابر ہو۔

Haidth Number: 5990
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عبد اللہ بن حذافہ سہمی کو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجا تھا، اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: {یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُو الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِمِنْکُمْ} … اے ایماندارو! تم اللہ تعالیٰ کی ااطاعت کرو اور رسول اور صاحب ِ امر لوگوں کی اطاعت کرو۔

Haidth Number: 8555

۔ (۱۰۶۱۳)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ قَالَ الزُّھْرِیُّ وَأَخْبَرَنِیْ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ أَنَّ عَائِشَۃَ قَالَتْ: لَمْ أَعْقِلْ اَبَوَایَ قَطُّ اِلَّا وَھُمَا یَدِیْنَانِ الدِّیْنَ وَلَمْ یَمُرَّ عَلَیْنَایَوْمٌ اِلَّا یَأْتِیْنَا فِیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم طَرَفَیِ النَّھَارِ بُکْرَۃً وَعَشِیَّۃً، فَلَمَّا ابْتُلِیَ الْمُسْلِمُوْنَ خَرَجَ أَبُوْ بَکْرٍ مُھَاجِرًا قِبَلَ أَرْضِ الْحَبَشَۃِ حَتّٰی اِذَا بَلَغَ بَرْکَ الْغِمَادِ لَقِیَہُ ابْنُ الدَّغِنَۃِ وَھُوَ سَیِّدُ الْقَارَۃِفَقَالَ ابْنُ الدَّغِنَۃِ: أَیْنَیَا أَبَا بَکْرٍ؟ فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: أَخْرَجَنِیْ قَوْمِیْ فَذَکَرَ الْحَدِیْثَ۔ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِلْمُسْلِمِیْنَ: ((قَدْ رَأَیْتُ دَارَ ھِجْرَتِکُمْ رَأَیْتُ سَبْخَۃً ذَاتَ نَخْلٍ بَیْنَ لَا بَتَیْنِ وَھُمَا حَرَّتَانِ۔)) فَخَرَجَ مَنْ کَانَ مُھَاجِرًا قِبَلَ الْمَدِیْنَۃِ حِیْنَ ذَکَرَ ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَجَعَ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ بَعْضُ مَنْ کَانَ ھَاجَرَ اِلٰی اللّٰہِ أَرْضِ الْحَبَشَۃِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَتَجَھَّزَ أَبُوْ بَکْرٍ مُھَاجِرًا فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((عَلٰی رِسْلِکَ فَاِنَّیْ اَرْجُوْ اَنْ یُؤْذَنَ لِیْ۔)) فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: وَتَرْجُوْ ذٰلِکَ بِأَبِیْ أَنْتَ وَأُمِّیْ؟ قَالَ: ((نَعَمْ)) فَحَبَسَ أَبُوْ بَکْرٍ نَفْسَہَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِصُحْبَۃٍ وَعَلَفَ رَاحِلَتَیْنِ کَانَتَا عِنْدَہُ مِنْ وَرَقِ السَّمَرِ أَرْبَعَۃَ أَشْھُرٍ قَالَ الزُّھْرِیُّ: قَالَ عُرْوَۃُ: قَالَتْ: عَائِشَۃُ: فَبَیْنَا نَحْنُ یَوْمًا جُلُوْسًا فِیْ بَیْتِنَا فِیْ نَحْرِ الظَّھِیْرَۃِ قَالَ قَائِلٌ لِأَبِیْ بَکْرٍ: ھٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُقْبِلًا مُتَقَنِّعًا فِیْ سَاعَۃٍ لَمْ یَکُنْیَأْتِیْنَا فِیْھَا، فَقَالَ أَبُوْبَکْرٍ: فِدَائٌ لَہُ أبِیْ وَأُمِّیْ، اِنْ جَائَ بِہٖفِیْ ھٰذِہِ السَّاعَۃِ اِلَّا أَمْرٌ؟ فَجَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَہُ فَدَخَلَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ دَخَلَ لِأَبِیْ بَکْرٍ: ((أَخْرِجْ مَنْ عِنْدَکَ۔)) فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: اِنَّمَا ھُمْ أَھْلُکَ بِأَبِیْ أَنْتَ وَأُمِّیْیَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَاِنَّہُ قَدْ أُذِنَ لِیْ فِی الْخُرُوْجِ۔)) فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: فَالصَّحَابَۃَ بِأَبِیْ أَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نَعَمْ۔)) فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: فَخُذْ بِأَبِیْ أَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِحْدٰی رَاحِلَتَیَّ ھَاتَیْنِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بِالثَّمَنِ)) قَالَتْ: فَجَھَّزْنَا ھُمَا أَحَبَّ الْجِھَازِ وَصَنَعْنَا لَھُمَا سُفْرَۃً فِیْ جِرَابٍ فَقَطَعَتْ اَسْمَائُ بِنْتُ أبِیْ بَکْرٍ مِنْ نِطَاقِھَا فَأَوْکَتِ الْجِرَابَ فَلِذٰلِکَ کَانَتْ تُسَمَّی ذَاتَ النِّطَاقَیْنِ، ثُمَّّ لَحِقَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ وَأَبُوْ بَکْرٍ بِغَارٍ فِیْ جَبَلٍ یُقَالُ لَہُ: ثَوْرٌ، فَمَکَثَا فِیْہِ ثَلَاثَ لَیَالٍ۔ (مسند احمد: ۲۶۱۴۴)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: جب سے میں نے ہوش سنبھالی، اس وقت سے میں نے اپنے والدین کو دینِ اسلام پر پایا، کوئی دن نہیں گزرتا تھا، مگر اس کے صبح و شام کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس آتے تھے، جب اسلام کی وجہ سے مسلمانوں پر مصائب ڈھائے گئے تو سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کے لیے نکل پڑے، جب (مکہ سے پانچ دنوں کی مسافت پر واقع) برک الغماد مقام پر پہنچے تو ابن دَغِنّہ ان کو ملے، جو کہ قارہ قبیلے کے سردار تھے، ابن دغنہ نے کہا: ابوبکر! کہاں جا رہے ہو، انھوں نے کہا: میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے، … … باقی حدیث ذکر کی، اُدھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا: تمہاری ہجرت گاہ مجھے دکھائی جا چکی ہے، میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ کھجوروں والی شور والی زمین ہے اور دو حرّوں کے درمیان واقع ہے۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی تو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے لوگ نکل پڑے، اور جو لوگ اللہ تعالیٰکے لیے حبشہ کی سرزمین کی طرف ہجرت کر گئے تھے، وہ مدینہ منورہ کی طرف لوٹ آئے اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی ہجرت کی تیاری شروع کر دی، لیکن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: ذرا ٹھیر جاؤ، مجھے امید ہے کہ مجھے بھی اجازت دے دی جائے گی۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا آپ بھی اس چیز کی امید رکھتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ سو سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صحبت کا شرف حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو روک لیا اور چارماہ تک اپنی دو اونٹنیوں کو ببول کے درخت کے پتوں کا چارہ دیتے رہے۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: ایک دن ہم ابتدائے زوال کے وقت اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: یہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آ رہے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سر ڈھانپا ہوا ہے اور ایسے گھڑی میں تشریف لا رہے کہ پہلے اس وقت میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نہیں آیا کرتے تھے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میرے ماں باپ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر قربان ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی خاص معاملے کی وجہ سے اس وقت میں تشریف لا رہے ہیں، اتنے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پہنچ گئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اجازت دے دی گئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر میں داخل ہو گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے داخل ہوتے ہی سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: اپنے پاس والے افراد کو باہر نکال دو۔ انھوں نے کہا: حضور! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ آپ کے اہل ہی ہیں، (ایک آپ کی بیوی عائشہ ہے اور ایک آپ کی سالی اسماء ہے)۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں بھی آپ کی صحبت کا ارادہ رکھتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میرے والدین آپ پر قربان ہوں، ان دو اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی آپ لے لیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیمت سے لوں گا۔ سیدہ کہتی ہیں: ہم نے بہت خوبصورت انداز میں ان دو اونٹنیوں کو تیار کیا، چمڑے کے تھیلے میں زادِ راہ رکھا، پھر سیدہ اسماء بنت ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنیپیٹی سے ایک ٹکڑا کاٹ کر اس تھیلے کو باندھا، اسی وجہ سے ان کو ذَاتُ النِّطَاقَیْنِ کہتے ہیں، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ثور پہاڑ کی ایک غار میں پہنچ گئے اور اس میں تین دنوں تک ٹھہرے رہے۔

Haidth Number: 10613
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا، جبکہ ہم غار میں تھے، کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنے پاؤں کی طرف دیکھا تو وہ اپنے پاؤں کے نیچے سے ہم کو دیکھ لے گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابو بکر! ان دو ہستیوں کے بارے میں تیرا کیاگمان ہے، جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہے۔

Haidth Number: 10614

۔ (۱۰۶۱۵)۔ عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّ أَبَاہُ حَدَّثَہُ عَنْ جَدَّتِہِ أَسْمَائَ بِنْتِ أبِیْ بَکْرٍ قَالَتْ: لَمَّا خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَخَرَجَ مَعَہُ أَبُوْ بَکْرٍ اِحْتَمَلَ أَبُوْ بَکْرٍ مَالَہُ کُلَّہُ، مَعَہُ خَمْسَۃُ آلافِ دِرْھَمٍ أَوْ سِتَّۃُ آلافِ دِرْھَمٍ، قَالَتْ: وَانْطَلَقَ بِھَا مَعَہُ، قَالَتْ: فَدَخَلَ عَلَیْنَا جَدِیِّ أَبُوْ قُحَافَۃَ وَقَدْ ذَھَبَ بَصَرُہُ فقَالَ: وَاللّٰہِ! اِنِّیْ لَأَرَاہُ قَدْ فَجَعَکُمْ بِمَالِہِ مَعْ نَفْسِہِ، قَالَتْ: قُلْتُ: کَلَّا یَا أَبَتِ! اِنَّہُ قَدْ تَرَکَ لَنَا خَیْرًا کَثِیْرًا، قَالَتْ: فَأَخَذْتُ أَحْجَارًا فَتَرَکْتُھَا فَوَضَعْتُھَا فِیْ کَوَّۃٍ بِبَیْتٍ کَانَ أبِیْیَضَعُ فِیْھَا مَالَہُ، ثُمَّّ وَضَعْتُ عَلَیْھَا ثَوْبًا ثُمَّّ أَخَذْتُ بِیَدِہِ فَقُلْتُ: یَا أَبَتِ! ضَعْ یَدَکَ عَلٰی ھٰذَا الْمَالِ، قَالَتْ: فَوَضَعَ یَدَہُ عَلَیْہِ فَقَالَ: لَا بَأَسَ اِنْ کَانَ قَدْ تَرَکَ لَکُمْ ھٰذَا فَقَدْ أَحْسَنَ، وَفِیْ ھٰذَا لَکُمْ بَلَاغٌ، قَالَتْ: لَا وَاللّٰہِ! مَا تَرَکَ لَنَا شَیْئًا وَلٰکِنِّیْ قَدْ أَرَدْتُ أَنْ أُسْکِنَ الشَّیْخَ بِذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۲۷۴۹۷)

۔ سیدہ اسماء بنت بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ کے ساتھ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نکل پڑے تو سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنا سارا مال اپنے ساتھ اٹھا لیا، وہ پانچ چھ ہزار درہم تھا، وہ اپنا سارا مال اپنے ساتھ لے گئے، اُدھر جب ہمارا دادا ابو قحافہ ہمارے پاس آیا، وہ نابینا ہو چکا تھا، تو اس نے کہا: اللہ کی قسم! میرا خیال ہے کہ اس آدمی نے تم کو اپنے مال و جان کے ذریعے تم کو تکلیف دی ہے، میں نے کہا: ہر گزنہیں، اے ابو جان! وہ ہمارے لیے بہت مال چھوڑ گئے ہیں، پھر میں نے پتھر پکڑے اور ان کو گھر کے اس روشندان میں رکھا، جہاں میرے باپ اپنا مال رکھتے تھے، پھر میں نے ان پر کپڑا رکھا اور پھر اپنے دادے کا ہاتھ پکڑا اور کہا: ابو جان! اس مال پر اپنا ہاتھ رکھو، پس انھوں نے اپنا ہاتھ رکھا اور کہا: چلو کوئی حرج نہیں ہے، اگر وہ اتنا مال چھوڑ گئے ہیں تو انھوں نے بہت اچھا کیا ہے، اس سے تمہاری گزر بسر ہوتی رہے گی۔سیدہ اسماء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: نہیں،اللہ کی قسم! سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمارے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا تھا،اس کاروائی سے میرا ارادہ یہ تھا کہ اس بزرگ کو اطمینان ہو جائے۔

Haidth Number: 10615

۔ (۱۰۷۸۶)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی غَزْوَۃِ ذَاتِ الرِّقَاعِ، فَأُصِیبَتِ امْرَأَۃٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَافِلًا، وَجَائَ زَوْجُہَا وَکَانَ غَائِبًا، فَحَلَفَ أَنْ لَایَنْتَہِیَ حَتّٰییُہْرِیقَ دَمًا فِی أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَرَجَ یَتْبَعُ أَثَرَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَزَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَنْزِلًا، فَقَالَ: ((مَنْ رَجُلٌ یَکْلَؤُنَا لَیْلَتَنَا ہٰذِہِ؟)) فَانْتَدَبَ رَجُلٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَا: نَحْنُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((فَکُونُوا بِفَمِ الشِّعْبِ۔)) قَالَ: وَکَانُوا نَزَلُوا إِلٰی شِعْبٍ مِنَ الْوَادِی، فَلَمَّا خَرَجَ الرَّجُلَانِ إِلَی فَمِ الشِّعْبِ، قَالَ الْأَنْصَارِیُّ لِلْمُہَاجِرِیِّ: أَیُّ اللَّیْلِ أَحَبُّ إِلَیْکَ أَنْ أَکْفِیَکَہُ أَوَّلَہُ أَوْ آخِرَہُ؟ قَالَ: اکْفِنِی أَوَّلَہُ، فَاضْطَجَعَ الْمُہَاجِرِیُّ فَنَامَ، وَقَامَ الْأَنْصَارِیُّیُصَلِّی، وَأَتَی الرَّجُلُ، فَلَمَّا رَأٰی شَخْصَ الرَّجُلِ، عَرَفَ أَنَّہُ رَبِیئَۃُ الْقَوْمِ، فَرَمَاہُ بِسَہْمٍ فَوَضَعَہُ فِیہِ فَنَزَعَہُ فَوَضَعَہُ وَثَبَتَ قَائِمًا، ثُمَّ رَمَاہُ بِسَہْمٍ آخَرَ فَوَضَعَہُ فِیہِ فَنَزَعَہُ فَوَضَعَہُ وَثَبَتَ قَائِمًا، ثُمَّ عَادَ لَہُ بِثَالِثٍ فَوَضَعَہُ فِیہِ فَنَزَعَہُ فَوَضَعَہُ ثُمَّ رَکَعَ وَسَجَدَ ثُمَّ أَہَبَّ صَاحِبَہُ، فَقَالَ: اجْلِسْ فَقَدْ أُتِیتَ، فَوَثَبَ فَلَمَّا رَآہُمَا الرَّجُلُ عَرَفَ أَنْ قَدْ نَذَرُوا بِہِ فَہَرَبَ، فَلَمَّا رَأَی الْمُہَاجِرِیُّ مَا بِالْأَنْصَارِیِّ مِنَ الدِّمَائِ قَالَ: سُبْحَانَ اللّٰہِ! أَلَا أَہْبَبْتَنِی؟ قَالَ: کُنْتُ فِی سُورَۃٍ أَقْرَؤُہَا فَلَمْ أُحِبَّ أَنْ أَقْطَعَہَا حَتّٰی أُنْفِذَہَا، فَلَمَّا تَابَعَ الرَّمْیَ رَکَعْتُ فَأُرِیتُکَ، وَایْمُ اللّٰہِ! لَوْلَا أَنْ أُضَیِّعَ ثَغْرًا أَمَرَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِحِفْظِہِ، لَقَطَعَ نَفْسِی قَبْلَ أَنْ أَقْطَعَہَا أَوْ أُنْفِذَہَا۔ (مسند احمد: ۱۴۷۶۰)

سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ہم غزوۂ ذاتِ رقاع میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے، اس دوران مشرکین کی ایک عورت مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو گئی، جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس لوٹے تو اس عورت کا شوہر جو اس وقت موجود نہ تھا، وہ آچکا تھا، اس نے قسم اُٹھائی کہ وہ اپنی کارروائی سے اس وقت تک باز نہ آئے گا جب تک کہ اصحابِ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میں قتل وغارت نہ کر دے، چنانچہ وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پیچھا کرنے لگا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کون ہے جو ہمارا پہرہ دے گا؟ ایک مہاجر اور ایک انصاری کا نام لیا گیا،ان دونوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم پہرہ دیں گے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم گھاٹی کے سامنے رہنا۔ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: صحابہ کرام نے وادی کی ایک جانب میں نزول کیا تھا، جب یہ دونوں آدمی گھاٹی کی طرف گئے تو انصاری نے مہاجر ساتھی سے کہا: تمہیں رات کا اول حصہ پسند ہے یا آخری، تاکہ میں اس حصے میں تمہاری طرف سے پہرہ دوں اور تم آرام کر لو۔ اس نے کہا: تم رات کے اول حصہ میں ڈیوٹی دو، چنانچہ مہاجر لیٹ گیا اور اسے نیند آگئی اور انصاری کھڑا ہو کر نماز میں مشغول ہو گیا، وہ دشمن آیا اس نے دور سے ایک آدمی کا وجود دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ ضرور ان کا نگران ہے، اس نے تیر مارا تیر آکر انصاری کو لگا۔ اس نے ( نماز کے دوران ہی) تیر کو نکال کر رکھ دیا اور کھڑا نماز پڑھتا رہا، دشمن نے دوسرا تیر مارا، وہ بھی آ کر لگا، اس نے اسے نکال کر رکھ دیا اور نماز میں مشغول رہا، دشمن نے اسے تیسرا تیر مارا، وہ بھی آ لگا، اس نے اسے بھی نکال کر رکھ دیا۔ اس کے بعد رکوع اور سجدے کئے اور ( نماز سے فارغ ہو کر) اپنے ساتھی کو بیدار کیا اور کہا اُٹھ کر بیٹھو دشمن آگیا ہے۔ وہ جلدی سے اُٹھا دشمن نے ان دو آدمیوں کو دیکھا تو جان گیا کہ وہ سنبھل گئے ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ بھاگ گیا، مہاجر نے انصاری کو لہولہان دیکھا تو کہا: سبحان اللہ! تم نے مجھے شروع ہی میں بیدار کیوں نہ کر دیا؟ انصاری نے کہا: میں ایک سورت شروع کر چکا تھا، میں نے اسے ادھورا چھوڑنا مناسب نہ سمجھا، جب پے در پے تیر آئے، تب میں نے جلدی سے رکوع کیا۔ ( اور نماز مکمل کی) اور تمہیں آگاہ کیا۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے ذمہ جو اس طرف سے پہرہ کی ذمہ داری لگائی تھی اس میں کوتاہی کا اندیشہ نہ ہوتا تو میرے اس سورت کو مکمل کرنے سے پہلے میری جان چلی جاتی۔

Haidth Number: 10786

۔ (۱۰۷۸۷)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: قَاتَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُحَارِبَ خَصَفَۃَ بِنَخْلٍ فَرَأَوْا مِنَ الْمُسْلِمِینَ غِرَّۃً، فَجَائَ رَجُلٌ مِنْہُمْ یُقَالُ لَہُ غَوْرَثُ بْنُ الْحَارِثِ حَتّٰی قَامَ عَلٰی رَأْسِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالسَّیْفِ، فَقَالَ: مَنْ یَمْنَعُکَ مِنِّی؟ قَالَ: ((اَللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ۔)) فَسَقَطَ السَّیْفُ مِنْ یَدِہِ، فَأَخَذَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَنْ یَمْنَعُکَ مِنِّی؟)) قَالَ: کُنْ کَخَیْرِ آخِذٍ، قَالَ: ((أَتَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ؟)) قَالَ: لَا وَلٰکِنِّی أُعَاہِدُکَ أَنْ لَا أُقَاتِلَکَ وَلَا أَکُونَ مَعَ قَوْمٍ یُقَاتِلُونَکَ، فَخَلّٰی سَبِیلَہُ، قَالَ: فَذَہَبَ إِلٰی أَصْحَابِہِ، قَالَ: قَدْ جِئْتُکُمْ مِنْ عِنْدِ خَیْرِ النَّاسِ، فَلَمَّا کَانَ الظُّہْرُ أَوْ الْعَصْرُ صَلَّی بِہِمْ صَلَاۃَ الْخَوْفِ، فَکَانَ النَّاسُ طَائِفَتَیْنِ طَائِفَۃً بِإِزَائِ عَدُوِّہِمْ وَطَائِفَۃً صَلَّوْا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَصَلّٰی بِالطَّائِفَۃِ الَّذِینَکَانُوا مَعَہُ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ انْصَرَفُوا فَکَانُوا مَکَانَ أُولٰئِکَ الَّذِینَ کَانُوا بِإِزَائِ عَدُوِّہِمْ، وَجَائَ أُولَئِکَ فَصَلّٰی بِہِمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَکْعَتَیْنِ، فَکَانَ لِلْقَوْمِ رَکْعَتَانِ رَکْعَتَانِ، وَلِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَرْبَعُ رَکَعَاتٍ۔ (مسند احمد: ۱۴۹۹۱)

سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خصفہ بن قیس بن عیلان بن الیاس بن مضر کے ساتھ نخل کے مقام پر لڑائی ہوئی، وہ لوگ مسلمانوں سے بدلہ لینے کی تاک میں رہتے تھے، اس قبیلہ کا غورث بن حارث نامی ایک شخص تھا، وہ تلوار لئے اچانک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب پہنچ گیا اور کہنے لگا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بچائے گا۔ پس تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تلوار اُٹھالی اور فرمایا: اب تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟ اس نے کہا: آپ اس آدمی کا ساسلوک کریں، جو غالب آکر اچھا سلوک کرتا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو اللہ کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، البتہ میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں نہ تو خود آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے قتال کروں گا اور نہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے لڑنے والوں کا ساتھ دوں گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے چھوڑ دیا، وہ اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور ان سے کہامیں تمہارے پاس ایک ایسے آدمی کے پاس سے آ رہا ہوں ،جو لوگوں میں سب سے اچھا ہے، چنانچہ جب ظہر یا عصر کی نماز کا وقت ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ کو نمازِ خوف پڑھائی، صحابۂ کرام کے دو حصے ہو گئے، ایک گروہ دشمن کے سامنے کھڑا رہا اور ایک گروہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز ادا کی، جو لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو دو رکعات پڑھائیں، وہ لوگ دو رکعات پڑھ کر ان لوگوں کی جگہ چلے گئے، جو دشمن کے سامنے تھے اور وہ لوگ آئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو بھی دو رکعات پڑھائیں، اس طرح لوگوں کی دو دو رکعات اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چار رکعات ہوئیں۔

Haidth Number: 10787
صالح بن خوات ایسے صحابی سے بیان کرتے ہیں، جس نے ذات الرقاع والے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نمازِ خوف پڑھی تھی، اس نے بیان کیا کہ ایک گروہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ صف بنالی اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے رہا۔ جو لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں ایک رکعت پڑھائی، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس قدر کھڑے رہے کہ ان لوگوں نے خود دوسری رکعت ادا کر لی اور پھر چلے گئے اور دشمن کے سامنے صف بستہ ہو گئے، دوسرا گروہ آیا اور انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی باقی ماندہ رکعت پڑھی، پھر آپ بیٹھے رہے، یہاں تک کہ یہ لوگ دوسری رکعت ادا کرکے (تشہد میں بیٹھ گئے) پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سلام پھیرا۔ امام مالک ‌رحمتہ ‌اللہ ‌علیہ ‌کہتے ہیں:نماز خوف کییہ صورت مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔

Haidth Number: 10788
خارجہ بن زید سے روایت ہے،ان کے والد سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو بتلانا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو مجھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے دیکھ کر خوش ہوئے،گھر والوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! بنو نجار کے اس لڑکے کوآپ پر نازل کی گئی سورتوں میں سے دس سے زیادہ سورتیںیاد ہیں،یہ بات بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بہت اچھی لگی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زید! تم یہودیوں کی زبان اورلکھنا پڑھنا سیکھ لو، اللہ کی قسم میں اپنی تحریروں کے بارے میں یہودیوں پر اعتماد نہیں کر سکتا۔ زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ان کی زبان لکھنا پڑھنا اور سیکھنا شروع کی اور میں پندرہ دنوں میں اس کا ماہر ہو گیا، اس کے بعد جب یہودی لوگ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نام خطوط لکھتے تو میں ہی وہ پڑھ کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سناتا اور جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے خطوط کا جواب لکھواتے تو میں ہی لکھا کرتا۔

Haidth Number: 11706
سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’کیا تم سریانی زبان اچھی طرح جانتے ہو؟ میر ے پاس اس زبان میں خطوط آتے ہیں۔ میں نے عرض کیا: جی نہیں، آپ نے فرمایا: تو پھر تم اس زبان کو اچھی طرح سیکھ لو۔ پس میں نے سترہ دنوں میں یہ زبان اچھی طرح سیکھ لی۔

Haidth Number: 11707

۔ (۱۲۲۳۲)۔ عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَیْکَۃَ، أَنَّہُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ: وُضِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَلَی سَرِیرِہِ، فَتَکَنَّفَہُ النَّاسُ یَدْعُونَ وَیُصَلُّونَ قَبْلَ أَنْ یُرْفَعَ، وَأَنَا فِیہِمْ فَلَمْ یَرُعْنِی إِلَّا رَجُلٌ، قَدْ أَخَذَ بِمَنْکِبِی مِنْ وَرَائِی، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا ہُوَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَتَرَحَّمَ عَلَی عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَقَالَ: مَا خَلَّفْتَ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَیَّ أَنْ أَلْقَی اللّٰہَ تَعَالٰی بِمِثْلِ عَمَلِہِ مِنْکَ، وَایْمُ اللّٰہِ! إِنْ کُنْتُ لَأَظُنُّ لَیَجْعَلَنَّکَ اللّٰہُ مَعَ صَاحِبَیْکَ، وَذٰلِکَ أَنِّی کُنْتُ أُکْثِرُ أَنْ أَسْمَعَ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((فَذَہَبْتُ أَنَا وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ، وَدَخَلْتُ أَنَا ٔوَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ، وَخَرَجْتُ أَنَا وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ۔)) وَإِنْ کُنْتُ لَأَظُنُّ لَیَجْعَلَنَّکَ اللّٰہُ مَعَہُمَا۔ (مسند احمد: ۸۹۸)

سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان کی چارپائی پر رکھا گیا تو ان کو اٹھائے جانے سے قبل لوگوں نے ان کی چارپائی کو گھیر لیا اور ان کے حق میں دعائیں اور رحمت کی التجائیں کرنے لگے، میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا، اچانک ایک آدمی نے پیچھے سے میرے ! سالم مولیٰ ابی حذیفہ، ابوبکر کی خلافت میں جنگ یمامہ میں شہید ہوگئے تھے اور ابو عبیدہ بن جراح عہد فاروقی میں ۱۸ ھ میں فوت ہو گئے تھے۔ عمر بن خطاب نے اپنے اس فرمان میں ان دو شخصیات کی عظمت و جلالت کا اعتراف کیا ہے۔ (عبداللہ رفیق) کندھوں کو پکڑا، جب میں اُدھر متوجہ ہوا تو کیا دیکھا کہ وہ سیدنا علی ابن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ انہوں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے حق میں دعائے رحمت کی اور کہا: آپ نے اپنے بعد کوئی ایسا آدمی نہیں چھوڑا کہ جس کے بارے میں میں یہ تمنا کرسکوں کہ جب اللہ تعالیٰ سے ملوں تو میرے اعمال اس کے اعمال جیسے ہوں، اللہ کی قسم!مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ضرور ملائے گا، اس لیے کہ میں کثرت سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کرتا تھا کہ ’‘میں، ابوبکر اور عمر گئے۔ میں، ابو بکر اور عمر داخل ہوئے۔ میں، ابو بکر اور عمر باہر گئے۔ مجھے یقین تھا کہ اللہ آپ کو ان کے ساتھ ضرور ملائے گا۔

Haidth Number: 12232
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو منبراور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی قبر کے درمیان لا کر رکھا گیا تو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آکر صفوں آگے کھڑ ے ہوگئے اور انہوں نے تین بار کہا: آپ پر اللہ کی رحمت ہو، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں اس ڈھانپے ہوئے آدمی کے علاوہ کوئی ایسا بشر نہیں ہے کہ میں اس جیسے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے پاس جانا پسند کروں۔

Haidth Number: 12233
ابو حجیفہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس تھا، ان پر ایک کپڑا ڈال کر انہیںڈھانپا گیا، وہ وفات پا چکے تھے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے، انہوں نے آپ کے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور کہا: اے ابو حفص! آپ پر اللہ کی رحمت ہو، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد آپ سے بڑھ کر کوئی آدمی مجھے اتنا محبوب نہیں کہ میں اس جیسا نامہ اعمال لیے ہوئے اللہ تعالیٰ سے جا کر ملوں۔

Haidth Number: 12234
معدان بن ابی طلحہ یعمری سے روایت ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر بدھ کے روز قاتلانہ حملہ ہوا، ابھی تک ماہِ ذوالحجہ کے چار دن باقی تھے۔

Haidth Number: 12235
سیدناسہل بن حنیف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اپنے گھر سے روانہ ہو کر مسجد ِ قباء میں جاکر نماز ادا کرے، اس کا یہ عمل عمرہ کے برابر ہے۔

Haidth Number: 12702
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کیا کرتے تھے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کبھی سو ار اور کبھی پیدل جا کر قباء مسجد کی زیارت کیا کرتے تھے۔

Haidth Number: 12703
عبداللہ بن قیس سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:میں قبا ء میں واقع مسجد بنی عمرو بن عوف میں نماز پڑھ کر اپنے خچر پر سوار ہو کر واپس آرہا تھا، راستے میں مجھے سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پیدل چلتے مل گئے، میں نے انہیں دیکھا تو میں اپنے خچر سے اترآیا اورمیں نے کہا: چچا جان! آ پ اس پر سوار ہو جائیں، انہوں نے کہا: بھتیجے! میںسواری پر سوار ہونا چاہتا تو ہوسکتا تھا، لیکن میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس مسجد کی طرف پیدل چل کرجاتے دیکھا ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جا کر وہاں نماز ادا کی، پس میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جس طرح میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پیدل جاتے دیکھا ہے، میں بھی پیدل ہی جاؤں اور انہوںنے سوار ہونے سے انکا ر کر دیا اور اسی طرح روانہ ہوگئے۔

Haidth Number: 12704
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ پیر کے دن قباء کی طرف گئے۔

Haidth Number: 12705
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں مسجد فضیخ میں فضیخ پیش کیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ نو ش فرمایا، اسی مناسبت سے اس مسجد کا نام فضیخ رکھ دیا گیا۔

Haidth Number: 12706