Blog
Books
Search Hadith

اس قیدی کا بیان جو قید سے پہلے قبولیت ِ اسلام کا دعوی کر دے، نیز اسلام قبول کرنے والے قیدی کی فضیلت کا بیان

29 Hadiths Found
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب غزوۂ بدر والے دن قیدیوں کو لایا گیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان میں سے کوئی شخص بھاگنے نہ پائے، مگر فدیہ دے کر، یا گردن اتروا کر۔ میں (عبد اللہ) نے کہہ دیا: اے اللہ کے رسول! مگر سہیل بن بیضا، کیونکہ میں نے اس کو قبولیت ِ اسلام کی بات کرتے ہوئے سنا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ بات سن کر خاموش ہو گئے، میں نے اس دن اپنے آپ کو دیکھا کہ مجھے اس چیز سے سب سے زیادہ ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ پر آسمان سے پتھر گرنے لگ جائیں، (بس اسی کیفیت میں تھا کہ) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ما سوائے سہیل بن بیضاء کے۔

Haidth Number: 5110
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ابو القاسم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہمارے ربّ کو ان لوگوں سے تعجب ہوا ہے، جن کو زنجیروں میںجکڑ کر جنت کی طرف لایا جا رہا ہے۔

Haidth Number: 5111
۔ سیدنا ابو امامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہنس پڑے، کسی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! کس چیز نے آپ کو ہنسا دیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کچھ لوگوں کو اس حال میں جنت کی طرف لایا جا رہا ہے کہ وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

Haidth Number: 5112
۔ سیدنا سہل بن سعد ساعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں خندق کھودنے کے موقع پر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کلہاڑا پکڑا اور اس سے کھدائی شروع کی، اچانک سامنے پتھر آ گیا، اتنے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہنس پڑے، کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کس چیز نے آپ کو ہنسا دیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں ان لوگوں کی وجہ سے ہنسا ہوں، جن کو بیڑیاں ڈال کر مشرق سے لایا جا رہا ہے اور ان کو جنت کی طرف چلایا جا رہا ہے۔

Haidth Number: 5113
۔ یعلی بن امیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے سیّدناعمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھا کہ اللہ تعالی نے تو یہ کہا کہ اگر کفار کے فتنے سے تم ڈرو تو نماز کو قصر کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے ، جبکہ اب تو لوگ امن میں ہیں؟ سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے جواب دیتے ہوئے کہا: جس چیز سے تجھے تعجب ہوا ہے، مجھے بھی اس پر تعجب ہوا تھا، لیکن جب میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ خیرات (اور رخصت) ہے، جواللہ نے تم پر صدقہ کی ہے، سو تم اس کییہ رخصت قبول کرو۔

Haidth Number: 8564
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم

Haidth Number: 10636
۔ سیدنا مجاشع بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ وہ اپنا بھتیجا لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا، تاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سے ہجرت پر بیعت لیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، اب اسلام پر بیعت ہو گی، فتح مکہ کے بعد کوئی ہجرت نہیں ہے، اب یہ آدمی احسان کے ساتھ پیروی کرنے والوں میں سے ہو گا۔

Haidth Number: 10637
۔ (دوسری سند) سیدنا مجاشع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں فتح مکہ کے بعد اپنے بھائی معبد کے ساتھ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آے اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں اپنے بھائی کو لے کر آپ کے پاس آیا ہوں، تاکہ آپ اس سے ہجرت پر بیعت لیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہجرت والے تو ہجرت کا ثواب لے کر آگے نکل گئے ہیں، ایک روایت میں ہے: ہجرت اپنے اہل کے ساتھ سبقت لے جا چکی ہے۔ میں نے کہا: تو پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کس چیز پر اس کی بیعت لیں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسلام، ایمان اور جہاد پر۔ یحییٰ بن اسحاق راوی کہتا ہے: میں بعد میں سیدنا معبد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کوملا ، جبکہ وہ سیدنا مجاشع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بڑا بھائی تھا اور اس سے یہی سوال کیا، انھوں نے کہا: مجاشع نے سچ کہا ہے۔

Haidth Number: 10638
۔ سیدنایعلی بن امیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں فتح مکہ والے دن اپنے باپ امیہ کو لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ میرے باپ سے ہجرت کی بیعت لیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب میں جہاد پر بیعت لوں گا، ہجرت تو منقطع ہو چکی ہے۔

Haidth Number: 10639
۔ سیدنا صفوان بن امیہ بن خلف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ کسی نے ا س سے کہا: ہجرت نہ کرنے والے ہلاک ہو گئے ہیں، میں (صفوان) نے کہا: جب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس نہ جا لوں، اس وقت اپنے اہل والوں کے پاس نہیں جاؤں گا، پس میں اپنی سواری پر سوار ہوا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہجرت نہ کرنے والے ہلاک ہو گئے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر گز ایسا نہیں ہے، اے ابو وہب، پس تو لوٹ جا مکہ کی وادیوں کی طرف۔

Haidth Number: 10640
۔ سیدنا صفوان بن امیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! لوگ کہتے ہیں کہ صرف وہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے، جنھوں نے ہجرت کی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فتح مکہ کے بعد کوئی ہجرت نہیں ہے، لیکن جہاد اور نیت باقی ہیں اور جب تم سے نکلنے کا مطالبہ کیاجائے تو تم نکل پڑو۔

Haidth Number: 10641
۔ سیدنا جبیر بن مطعم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! لوگوں یہ خیال کر رہے ہیں کہ ہمارے لیے مکہ میں اجر نہیں ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے اجر ضرور ضرور تمہارے پاس پہنچ جائیں گے، اگرچہ تم لومڑی کے بل میں ہو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا سر مبارک میری طرف جھکایا اور فرمایا: میرے ساتھیوں میں منافق بھی ہیں۔

Haidth Number: 10642
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور ہجرت کے بارے میں سوال کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو ہلاک ہو جائے، اس کا معاملہ تو بڑا سخت ہے، اچھا کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو ان کی زکوۃ دیتا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو اس میں سے عطیے بھی دیتا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو گھاٹ والے دن ان کا دودھ دوہ کر لوگوں کو دیتا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر بیشک سمندروں کے اس پار عمل کرتا رہے، اللہ تعالیٰ تیرے عمل سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا۔

Haidth Number: 10643

۔ (۱۰۶۴۴)۔ عَنْ اَبِی الْبُخْتَرِیِّ الطَّائِیِّ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ ھٰذِہِ السُّوْرَۃُ: {اِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَأَیْتَ النَّاسَ} قَالَ: قَرَأَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی خَتَمَھَا وَقَالَ: ((اَلنَّاسُ حَیِّزٌ، وَأَنَا وَأَصْحَابِیْ حَیِّزٌ)) وَقَالَ: ((لَا ھِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ وَلٰکِنْ جِھَادٌ وَنِیَّۃٌ۔)) فَقَالَ لَہُ: مَرْوَانُ کَذَبْتَ وَعِنْدَہُ رَافِعُ بْنُ خَدِیْجٍ وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَھُمَا قَاعِدَانِ مَعَہُ عَلَی السَّرِیْرِ، فَقَالَ أَبُوْ سَعِیْدٍ: لَوْ شَائَ ھٰذَانِ لَحَدَّثَاکَ وَلٰکِنْ ھٰذَا یَخَافُ أَنْ تَنْزِعَہُ عَنْ عَرَافَۃِ قَوْمِہِ، وَھٰذَا یَخْشٰی أَنْ تَنْزِعَہُ عَنِ الصَّدَقَۃِ، فَسَکَتَا فَرَفَعَ مَرْوَانُ عَلَیْہِ الدُّرَّۃَ لِیَضْرِبَہُ فَلَمَّا رَأَیَا ذٰلِکَ قَالَا: صَدَقَ۔ (مسند احمد: ۲۱۹۶۷)

۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب سورۂ نصر {اِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَرَأَیْتَ النَّاسَ} نازل ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی مکمل تلاوت کی اور پھر فرمایا: لوگ ایک فریق ہیں اور میں اور میرے صحابہ ایک فریق ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید فرمایا: فتح مکہ کے بعد کوئی ہجرت نہیں ہے، البتہ جہاد اور نیت باقی ہے۔ مروان نے سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: تم جھوٹ بول رہے ہو، جبکہ اس کے پاس سیدنا رافع بن خدیج اور سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بھی موجود تھے اور وہ اس کے پاس تخت پر بیٹے ہوئے تھے، سیدناابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جواباً کہا: اگر یہ دو چاہیں تو یہ بھی تجھے یہ حدیث بیان کر سکتے ہیں، لیکنیہ اپنی قوم کی ریاست چھن جانے سے ڈرتا ہے اور اس کو زکوۃ و صدقات کی وصول کا عہد ہ چھن جانے کا ڈر ہے، پس وہ دونوں خاموش رہے، لیکن جب مروان نے سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو کوڑا مارنے کے لیے اٹھایا اور انھوں نے اس کاروائی کو دیکھا تو کہا: ابوسعید خدری سچ کہہ رہے ہیں۔

Haidth Number: 10644

۔ (۱۰۸۱۱)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَزَا خَیْبَرَ، فَصَلَّیْنَا عِنْدَہَا صَلَاۃَ الْغَدَاۃِ بِغَلَسٍ، فَرَکِبَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَکِبَ أَبُو طَلْحَۃَ، وَأَنَا رَدِیفُ أَبِی طَلْحَۃَ، فَأَجْرٰی نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی زُقَاقِ خَیْبَرَ،وَإِنَّ رُکْبَتَیَّ لَتَمَسُّ فَخِذَیْ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَانْحَسَرَ الْإِزَارُ عَنْ فَخِذَیْ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِنِّی لَأَرٰی بَیَاضَ فَخِذَیْ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا دَخَلَ الْقَرْیَۃَ، قَالَ: ((اللّٰہُ أَکْبَرُ خَرِبَتْ خَیْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَۃِ قَوْمٍ فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِینَ۔)) قَالَہَا ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: وَقَدْ خَرَجَ الْقَوْمُ إِلٰی أَعْمَالِہِمْ، فَقَالُوا: مُحَمَّدٌ، قَالَ عَبْدُ الْعَزِیزِ: وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: الْخُمُسُ، قَالَ: فَأَصَبْنَاہَا عَنْوَۃً، فَجُمِعَ السَّبْیُ، قَالَ: فَجَائَ دِحْیَۃُ، فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ أَعْطِنِی جَارِیَۃً مِنَ السَّبْیِ؟ قَالَ: ((اذْہَبْ فَخُذْ جَارِیَۃً۔)) قَالَ: فَأَخَذَ صَفِیَّۃَ بِنْتَ حُیَیٍّ، فَجَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَعْطَیْتَ دِحْیَۃَ صَفِیَّۃَ بِنْتَ حُیَیٍّ سَیِّدَۃَ قُرَیْظَۃَ وَالنَّضِیرِ وَاللّٰہِ! مَا تَصْلُحُ إِلَّا لَکَ، فَقَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((ادْعُوہُ بِہَا۔)) فَجَائَ بِہَا فَلَمَّا نَظَرَ إِلَیْہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((خُذْ جَارِیَۃً مِنَ السَّبْیِ غَیْرَہَا۔)) ثُمَّ إِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَعْتَقَہَا وَتَزَوَّجَہَا، فَقَالَ لَہُ ثَابِتٌ: یَا أَبَا حَمْزَۃَ مَا أَصْدَقَہَا؟ قَالَ: نَفْسَہَا أَعْتَقَہَا وَتَزَوَّجَہَا، حَتّٰی إِذَا کَانَ بِالطَّرِیقِ جَہَّزَتْہَا أُمُّ سُلَیْمٍ فَأَہْدَتْہَا لَہُ مِنَ اللَّیْلِ، وَأَصْبَحَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَرُوسًا، فَقَالَ: ((مَنْ کَانَ عِنْدَہُ شَیْئٌ فَلْیَجِئْ بِہِ۔)) وَبَسَطَ نِطَعًا، فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَجِیئُ بِالْأَقِطِ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ یَجِیئُ بِالتَّمْرِ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ یَجِیئُ بِالسَّمْنِ، قَالَ: وَأَحْسِبُہُ قَدْ ذَکَرَ السَّوِیقَ، قَالَ: فَحَاسُوا حَیْسًا وَکَانَتْ وَلِیمَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۱۵)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خیبر پر حملہ آور ہوئے تو ہم نے خیبر کے قریب جا کر منہ اندھیرے نمازِ فجر ادا کی، اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سواری پر سوار ہوئے، میں اور سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک سواری پر سوار ہو گئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں ساتھ لے کر خیبر کی گلیوں میں چلنے لگے، چلتے وقت میرا گھٹنا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ران کو چھو رہا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر آپ کی رانوں سے ذرا ہٹی ہوئی تھی اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رانوں کی سفیدی کو دیکھ رہا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب خیبر کی بستی میں داخل ہوئے تو فرمایا: اللہ اکبر، خیبر ویران ہو گیا۔ ہم جب کسی قوم کے صحن میں اترتے ہیں تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح ان کے حق میں بری ہوتی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ الفاظ تین مرتبہ دہرائے، یہودی لوگ اپنے کاموں کے سلسلہ میں باہر نکلے تو یہ منظر دیکھ کر کہنے لگے یہ تو محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ان کا لشکر ہے، پس ہم نے خیبر کو حملہ کر کے فتح کر لیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قیدیوں کو ایک جگہ جمع کیا۔ تو سیدنا دحیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: اللہ کے نبی! مجھے قیدیوں میں سے ایک لونڈی عنایت فرما دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جا کر ایک لونڈی لے لو۔ انہوں نے صفیہ بنت حیی کو اپنے قبضے میں لے لیا، لیکن ایک آدمی نے آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو قریظہ اور بنو نضیر کے رئیس کی دختر دحیہ کو دے دی ہے، اللہ کی قسم! وہ تو صرف آپ ہی کے لائق ہے۔ آپ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فرمایا: دحیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلاؤ اور کہو کہ وہ اسے ساتھ لے کر آئے۔ سیدنا دحیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ صفیہ کو ساتھ لیے حاضر ہوئے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صفیہ کو دیکھا تو فرمایا: دحیہ! تم قیدیوں میں سے کوئی اور لے لو۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صفیہ کو آزاد کر کے اس سے نکاح کر لیا، جب راستے ہی میں تھے کہ سیّدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان کو تیار کیا اور رات کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے پیش کیا، صبح ہوئی تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی شادی ہو چکی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ سے فرمایا: جس آدمی کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ لے آئے۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چمڑے کا دستر خوان بچھا دیا، کوئی پنیر لے آیا، کوئی کھجور لایا اور کوئی گھی لے آیااور کوئی ستو لے کر حاضر ہو گیا۔ صحابہ نے ان سب چیزوں کو ملا کر کھانا تیار کیا،یہی کھانا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ولیمہ تھا۔

Haidth Number: 10811
سیدنا علی بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کبھی نہیں سنا کہ آپ نے کسی کے لیےیوں فرمایا ہو کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ماں باب اس پر فدا ہوں، ما سوائے سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے، میں نے خود سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے احد والے دن فرمایا: اے سعد! تم دشمن پر تیر برسائو، میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں۔

Haidth Number: 11716
سیدنا سعد بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: احد کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے حق میںفدائیہ جملہ کہتے ہوئے اپنے والدا ور والدہ دونوں کا ذکر کیا۔

Haidth Number: 11717
سیدنا سعد بن مالک یعنی سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سب سے پہلا عرب ہوں، جس نے اللہ کی راہ میں سب سے پہلے تیر برسانے1 کی سعادت نصیب ہوئی، میں نے صحابہ کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ اس حال میں بھی دیکھا ہے کہ ہمارے پاس کھانے کے لیے خاردار درختوں کے پتوں اور ببول کے درخت کے سوا کچھ نہ تھا، ہم قضائے حاجت کو جاتے تو بکریوں کی طرح مینگنیاں کرتے، فضلہ کے ساتھ کسی قسم کی آلائش نہ ہوتی (یعنی بالکل خشک فضلہ ہوتا ! نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ۱ھ میں ایک سریہ روانہ کیا۔ مقصد قریشی تجارتی قافلہ پر حملہ تھا۔ اس میں دونوں طرف سے تیروں کا تبادلہ ہوا۔ سعد اس سریہ میں شامل تھے اور سب سے پہلے انہوں نے تیر چلایا تھا، جس کا وہ اس حدیث میں تذکرہ کر رہے ہیں۔ فتح الباری: ص ۸۲۔ (عبداللہ رفیق) تھا)۔ اب بنو اسد کے لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ دین کے بارے میں مجھ پر طنز کرتے ہیں، اگر ان کا طنز حقیقت پر مبنی ہوتو میں تو خسارے میں رہا اور میرے اعمال برباد ہوگئے۔

Haidth Number: 11718
۔ (دوسری روایت) سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے خود کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ دیکھا، میں مسلمان ہونے والے گروہ میں ساتواں1 فرد تھا، ہمارے پاس خوراک کے طور پر صرف خاردار درختوں کے پتے تھے ا ور ہم قضائے حاجت کرتے تو بکریوں کی طرح مینگنیاں کرتے تھے اور یہ فضلہ لیس دار نہیں ہوتا تھا،لیکن اب بنو اسد اسلام کے بارے میں مجھ پر طنز کرتے ہیں، اگر ان کی بات درست ہو تو میں تو خسارے میں رہا اور میرے سارے اعمال اکارت گئے۔

Haidth Number: 11719
عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس دروازے سے سب سے پہلے داخل ہونے والا آدمی اہل جنت میں سے ہے۔ پس سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس دروازے سے داخل ہوئے۔

Haidth Number: 11720

۔ (۱۱۷۲۱)۔ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ أُنْزِلَتْ فِی أَبِی أَرْبَعُ آیَاتٍ قَالَ: قَالَ أَبِی أَصَبْتُ سَیْفًا قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! نَفِّلْنِیہِ، قَالَ: ((ضَعْہُ۔)) قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! نَفِّلْنِیہِ، أُجْعَلْ کَمَنْ لَا غَنَائَ لَہُ، قَالَ: ((ضَعْہُ مِنْ حَیْثُ أَخَذْتَہُ۔)) فَنَزَلَتْ: {یَسْأَلُونَکَ الْأَنْفَالَ} قَالَ: وَہِیَ فِی قِرَائَ ۃِ ابْنِ مَسْعُودٍ کَذٰلِکَ {قُلِ الْأَنْفَالُ} وَقَالَتْ أُمِّی: أَلَیْسَ اللّٰہُ یَأْمُرُکَ بِصِلَۃِ الرَّحِمِ وَبِرِّ الْوَالِدَیْنِ، وَاللّٰہِ! لَا آکُلُ طَعَامًا وَلَا أَشْرَبُ شَرَابًا حَتّٰی تَکْفُرَ بِمُحَمَّدٍ، فَکَانَتْ لَا تَأْکُلُ حَتّٰی یَشْجُرُوْا فَمَہَا بِعَصًا فَیَصُبُّوا فِیہِ الشَّرَابَ، قَالَ شُعْبَۃُ: وَأُرَاہُ قَالَ: وَالطَّعَامَ، فَأُنْزِلَتْ: {وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہُ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ} وَقَرَأَ حَتّٰی بَلَغَ {بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ} وَدَخَلَ عَلَیَّ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا مَرِیضٌ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أُوصِی بِمَالِی کُلِّہِ فَنَہَانِی، قُلْتُ: النِّصْفُ، قَالَ: ((لَا۔)) قُلْتُ: الثُّلُثُ، فَسَکَتَ فَأَخَذَ النَّاسُ بِہِ وَصَنَعَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ طَعَامًا فَأَکَلُوْا وَشَرِبُوا وَانْتَشَوْا مِنَ الْخَمْرِ، وَذَاکَ قَبْلَ أَنْ تُحَرَّمَ، فَاجْتَمَعْنَا عِنْدَہُ فَتَفَاخَرُوْا وَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: الْأَنْصَارُ خَیْرٌ، وَقَالَتِ الْمُہَاجِرُونَ: الْمُہَاجِرُونَ خَیْرٌ، فَأَہْوٰی لَہُ رَجُلٌ بِلَحْیَیْ جَزُورٍ فَفَزَرَ أَنْفَہُ، فَکَانَ أَنْفُ سَعْدٍ مَفْزُورًا فَنَزَلَتْ: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ} إِلٰی قَوْلِہِ {فَہَلْ أَنْتُمْ مُنْتَہُونَ} [المائدۃ: ۹۰۔۹۱]۔ (مسند احمد: ۱۵۶۷)

سیدنا مصعب بن سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میرے باپ (سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) کے بارے میں چار آیات نازل ہوئی ہیں،میرے والد نے کہا: (غزوہ بدر کے ! اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سعد بن ابی وقاص بالکل ابتدائی مسلمان ہونے والوں میں سے ہیں۔ (بخاری: ۳۷۲۷) کی ایک روایت کے مطابق انہوں نے اپنے آپ کو ثلث الاسلام بھی قرار دیا ہے۔ دوران) مجھے ایک تلوار ملی، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ یہ تلوار مجھے زائد حصہ کے طور پر دے دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسے رکھ دو۔ میں نے عرض کیا :اللہ کے رسول! آپ یہ تلوار تو مجھے میرے حصہ سے زائد کے طور پر عنایت فرما دیں، بس آپ مجھے یوں سمجھیں کہ میرا اس کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے یہ جہاں سے اٹھائی ہے، وہیں رکھ دو۔ اس موقع پر آیت نازل ہوئی: {یَسْأَلُونَکَ الْأَنْفَالَ قُلِ الْأَنْفَالُ} یہ قراء ت سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ہے، (جبکہ قرآن کریم کی متواتر قرأت میں یَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الْأَنْفَالِ ہے)۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میری والدہ نے کہا: کیا اللہ آپ کو صلہ رحمی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم نہیں دیتا؟ اللہ کی قسم! میں اس وقت تک نہ کچھ کھائوں گی اور نہ پیوں گی جب تک تم محمد( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے ساتھ کفر نہیں کرو گے، پس وہ کچھ نہیں کھاتی تھی،یہاں تک کہ گھر والے لکڑی کے ذریعے اس کے منہ کو کھول کر رکھتے اور وہ اس میں پینے کی کوئی چیز ڈالتے تھے۔ شعبہ کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ میر ے شیخ سماک بن حرب نے کھانے کا بھی ذکر کیا تھا، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی: {وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَّفِصٰلُہ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ۔ وَاِنْ جَاہَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖعِلْمٌفَلَاتُطِعْہُمَاوَصَاحِبْہُمَافِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا ْ وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔} … اور حقیقتیہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں ضعف پر ضعف اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔لیکن وہ اگر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان۔ دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ مگر پیروی اس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے،اس وقت میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے تھے۔ (سورۂ لقمان: ۱۴،۱۵) سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں بیمار تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ہاں تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں اپنے سارے مال کی (اللہ کی راہ میں صدقہ کرنے کی ) وصیت کر سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: آدھے مال کی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے پوچھا: ایک تہائی کی۔ آپ یہ بات سن کر خاموش ہو گئے اور لوگوں نے اسی پر عمل شروع کر دیا، ایک انصاری نے کھانے کی دعو ت کی، لوگوں نے وہاں کھانا کھایا اور شراب پی کر نشے میں مست ہوگئے، یہ حرمت ِ شراب سے پہلے کی بات ہے، ہم اس کے ہاں جمع ہوئے، لوگ ایک دوسرے پر تفاخر کا اظہار کرنے لگے، انصار نے کہا کہ ہم افضل ہیں اور مہاجرین کہنے لگے کہ ہم افضل ہیں، ایک آدمی نے اونٹ کا جبڑا اٹھا کر سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دے مارااور ان کی ناک کو چیر ڈالا، سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ناک چیری ہوئی تھی۔ اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں: {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ۔ اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطَانُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَائَ فِیْ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ}… اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور شرک کے لیے نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیر سراسر گند ہیں، شیطان کے کام سے ہیں، سو اس سے بچو، تاکہ تم فلاح پاؤ،شراب اور جوئے کے ذریعے شیطان تمہارے درمیان عداوت اور بعض ڈالنا اور تمہیں اللہ کییاد اور نماز سے غافل کرنا چاہتا ہے۔ تو کیا تم ان دونوں کاموں سے باز نہیں آئو گے؟ (سورۂ مائدہ: ۹۰، ۹۱)

Haidth Number: 11721
عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کیا کرتی تھیں کہ ایک رات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نیند نہیں آرہی تھی، وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پہلو میں تھیں، انہوںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! کیا بات ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کاش میرے صحابہ میں سے کوئی نیک آدمی آج رات میرا پہرہ دیتا۔ میں ابھی انہی خیالات میں ہی تھی کہ میں نے اسلحہ کی آوازیں سنیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کون ہے؟ آنے والے نے کہا: اے ا للہ کے رسول! میں سعد بن مالک ہوں، آپ کا پہرہ دینے کی سعادت حاصل کرنے آیا ہوں۔ (اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس قدر سکون سے ہوئے کہ) سیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتی ہیں: اس کے بعد میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سوتے ہوئے خراٹے لیتے سنا۔

Haidth Number: 11722

۔ (۱۱۷۲۳)۔ عَنْ عَبَایَۃَ بْنِ رِفَاعَۃَ، قَالَ: بَلَغَ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ سَعْدًا لَمَّا بَنَی الْقَصْرَ قَالَ: انْقَطَعَ الصُّوَیْتُ، فَبَعَثَ إِلَیْہِ مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَۃَ فَلَمَّا قَدِمَ أَخْرَجَ زَنْدَہُ وَأَوْرٰی نَارَہُ وَابْتَاعَ حَطَبًا بِدِرْہَمٍ، وَقِیلَ لِسَعْدٍ: إِنَّ رَجُلًا فَعَلَ کَذَا وَکَذَا، فَقَالَ: ذَاکَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَۃَ، فَخَرَجَ إِلَیْہِ فَحَلَفَ بِاللّٰہِ مَا قَالَہُ، فَقَالَ: نُؤَدِّیْ عَنْکَ الَّذِی تَقُولُہُ، وَنَفْعَلُ مَا أُمِرْنَا بِہِ، فَأَحْرَقَ الْبَابَ ثُمَّ أَقْبَلَ یَعْرِضُ عَلَیْہِ أَنْ یُزَوِّدَہُ فَأَبٰی، فَخَرَجَ فَقَدِمَ عَلٰی عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَہَجَّرَ إِلَیْہِ فَسَارَ ذَہَابَہُ وَرُجُوعَہُ تِسْعَ عَشْرَۃَ، فَقَالَ: لَوْلَا حُسْنُ الظَّنِّ بِکَ لَرَأَیْنَا أَنَّکَ لَمْ تُؤَدِّ عَنَّا، قَالَ: بَلٰی أَرْسَلَ یَقْرَأُ السَّلَامَ وَیَعْتَذِرُ وَیَحْلِفُ بِاللّٰہِ مَا قَالَہُ، قَالَ: فَہَلْ زَوَّدَکَ شَیْئًا؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَمَا مَنَعَکَ أَنْ تُزَوِّدَنِی أَنْتَ، قَالَ: إِنِّی کَرِہْتُ: أَنْ آمُرَ لَکَ، فَیَکُونَ لَکَ الْبَارِدُ وَیَکُونَ لِی الْحَارُّ، وَحَوْلِی أَہْلُ الْمَدِینَۃِ قَدْ قَتَلَہُمْ الْجُوعُ، وَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَا یَشْبَعُ الرَّجُلُ دُونَ جَارِہِ۔)) (مسند احمد: ۳۹۰)

عبایہ بن رفاعہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کواطلاع پہنچی کہ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جب محل تعمیر کیا تو کہا: اب لوگوں کی آوازیں (شور آنا) بند ہوگئی ہیں۔ تو سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا محمد بن مسلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ادھر بھیجا، وہ آئے تو انہوںنے آتے ہی تیاری کی، ایک درہم کی لکڑی خریدی اور اس دروازے کو آگ لگا دی۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بتلایا گیا کہ ایک آدمی نے یہ کام کیا ہے، انھوں نے کہا: جی ہاں، وہ محمد بن مسلمہ بن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کی خدمت میں گئے اور جا کر کہا:اللہ کی قسم! میں نے ایسا کوئی لفظ نہیں کہا۔ محمد بن مسلمہ نے کہا: آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں، ہم آپ کی اس بات کو امیر المومنین تک پہنچا دیں گے اور ہمیں جو حکم ہوا ہے، ہم اس کی تعمیل کریں گے، چنانچہ انہوں نے دروازے کو آگ لگا دی۔ پھر سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے محمد بن مسلمہ کو مال کی پیش کش کی تو انہوںنے کچھ لینے سے انکار کر دیا۔ وہاں سے روانہ ہو کر محمد بن مسلمہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں آئے، وہ بہت جلد واپس آئے تھے، ان کے جانے اور واپسی میں صرف انیس دن لگے تھے۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر مجھے آپ کے بارے میں حسن ظن نہ ہوتا تو ہم سمجھتے کہ آپ نے ہماری طرف سے مفوضہ ذمہ داری کو پورے طور پر سر انجام نہیں دیا۔محمد بن مسلمہ نے کہا: کیوں نہیں، میں اپنی ذمہ داری کو بجا طور پر کیوں نہ ادا کرتا۔ انھوں نے کہا: سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آ پ کو سلام کہتے ہیں اور معذرت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دریافت کیا: آیا انہوںنے آپ کو زادِ راہ دیا ہے یا نہیں دیا؟ محمد بن مسلمہ نے کہا: جی نہیں دیا۔ آپ نے خود مجھے زاد راہ کیوں نہ دیا؟ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے تمہارے لیے زادراہ دیئے جانے کا حکم اس لیے نہیں دیا تھا کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ تم تو فائدہ اٹھائو اور اہل مدینہ کی حاجت کی وجہ سے ذمہ داری مجھ پر رہے، میرے ارد گرد یہ اہل مدینہ موجود ہیں، جنہیں بھوک کی شدت نے قتل کر رکھا ہے۔ میں اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ حدیث سن چکا ہوں کہ کوئی آدمی اکیلا سیر ہو کر نہ کھائے کہ اس کا ہم سایہ بھوکا ہو۔

Haidth Number: 11723
حسن بن ابی حسن سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی چادر پر ٹیک لگا کر بیٹھے تھے، اسی دوران دو آدمی جو لوگوں کو پانی پلانے کا کام کرتے، اپنے ایک جھگڑے کا فیصلہ کرانے کے لیے ان کی خدمت میں آئے، آپ نے ان کے درمیان فیصلہ کردیا، اس کے بعد میں آپ کے پاس آیا اور آپ کو بغور دیکھا، میں کیا دیکھتا ہوں کہ آپ خوبصورت چہرے والے آدمی تھے اور آپ کے رخسار پر چیچک کے کچھ داغ تھے اور آپ کے بالوں نے آپ کے بازوؤں کو ڈھانپ رکھا تھا۔

Haidth Number: 12256
ام موسیٰ سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لوگوں میں بہت خوبصورت آدمی تھے۔

Haidth Number: 12257
بنانہ سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے بالوں کو کبھی رنگا نہیں تھا۔

Haidth Number: 12258
عباد بن زاہرسے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپ نے کہا:’ اللہ کی قسم! ہمیں سفر وحضر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صحبت میں رہنے کا شرف حاصل ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے مریضوں کی عیادت کرتے تھے، ہمارے جنازوں میں شرکت کرتے تھے، ہمارے ساتھ مل کر لڑائی کرتے تھے اور کوئی چیز تھوڑی ہوتی یا زیادہ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں اس میں شریک کیا کرتے تھے۔ اب کچھ لوگ مجھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بارے میں کچھ باتیں سکھاتے ہیں حالانکہ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کسی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تک نہ ہو۔

Haidth Number: 12259
حسن سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس موجود تھا، آپ نے اپنے خطبہ میں کتوں کو قتل کرنے اور کبوتروں کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔

Haidth Number: 12260
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عسقلان، دو دلہنوںمیں سے ایک دلہن ہے، یہاں سے قیامت کے دن ستر ہزار ایسے لوگ اٹھائے جائیں گے، جن کا حساب نہیں لیا جائے گا اور یہاں سے پچاس ہزار شہدا اٹھائے جائیں گے، جو اللہ کے سامنے پیش ہوں گے، یہاں ایسے شہداء کی صفیں ہوں گی، جن کے کٹے ہوئے سر ان کے ہاتھوںمیں ہوں گے اور ان کی رگوں سے خون پھوٹ رہا ہوگا اور وہ کہہ رہے ہوں گے: رَبَّنَا آتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلٰی رُسُلِکَ إِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیعَادَ (اے ہمارے رب!تو نے اپنے رسولوں کے ذریعے ہم سے جو وعدے کیے تھے، وہ پورے فرما، بیشک تو وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔) اللہ فرمائے گا: میرے بندے سچ کہہ رہے ہیں، فرشتو! تم انہیں چمک والی نہر میں غسل دوـ، چنانچہ وہ وہاں سے ہر قسم کی میل کچیل سے پاک ہو کر صاف ستھرے ہو کر نکلیں گے اور جنت میں جہاں چاہیں گے گھومیں گے۔

Haidth Number: 12735