Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلذَّوْقُ: (ن) کے معنیٰ چکھنے کے ہیں۔اصل میں ذَوْقٌ کے معنیٰ تھوڑی چیز کھانے کے ہیں۔کیونکہ کسی چیز کو زیادہ مقدار میں کھانے پر اَکْلٌ کا لفظ بولا جاتا ہے۔قرآن پاک نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنیٰ کے اعتبار سے اس میں معنیٰ کثرت کی صلاحیت موجود ہے لہذا معنیٰ عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے تاکہ قلیل و کثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن پاک میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے۔جیسے فرمایا: (لِیَذُوْقُو الْعَذَابَ) (۴۔۵۹) تاکہ (ہمیشہ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں۔ (وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ فَسَقُوۡا فَمَاۡوٰىہُمُ النَّارُ) (۳۲۔۲۰) اور ان سے کہا جائے گا کہ دوزخ کے مزے چکھو۔ (فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَکۡفُرُوۡنَ ) (۶۔۳۰) اور ان سے کہا جائے گا کہ دوزخ کے مزے چکھو۔ (ذُقۡ ۚ ۙ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡکَرِیۡمُ ) (۴۴۔۴۹) اب مزہ چکھو تو بڑی عزت والا(اور) سردار ہے۔ (اِنَّکُمۡ لَذَآئِقُوا الۡعَذَابِ الۡاَلِیۡمِ ) (۳۷۔۳۸) بے شک تم تکلیف دینے والے عذاب کا مزہ چکھنے والے ہو۔ (وَ لَنُذِیۡقَنَّہُمۡ مِّنَ الۡعَذَابِ الۡاَدۡنٰی دُوۡنَ الۡعَذَابِ الۡاَکۡبَرِ ) (۳۲۔۲۱) اور ہم ان کو (قیامت کے) بڑے عذاب کے سوا عذاب دنیا کا بھی مزہ چکھائیں گے۔اور بعض مقامات پر رحمت کے ساتھ بھی آیا ہے جیسے فرمایا: (وَ لَئِنۡ اَذَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنَّا رَحۡمَۃً ) (۱۱۔۹) اور اگر ہم انسان کو اپنے پاس سے نعمت بخشیں۔ (وَ لَئِنۡ اَذَقۡنٰہُ نَعۡمَآءَ بَعۡدَ ضَرَّآءَ مَسَّتۡہُ ) (۱۱۔۱۰) اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد آسائش کا مزہ چکھائیں۔اور کبھی بطور استعارہ ابتلاء اور اختیار کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے اَذَقْنٰہٗ کَذَا فَذَاقَ: میں نے اسے مزہ چکھایا چنانچہ اس نے چکھ لیا۔ فُلَانٌ ذَاقَ کَذَا وَاَنَا اَکَلْتُہٗ (مثل) فلاں نے تو اسے چکھا ہے اور میں کھاچکا ہوں یعنی میں نے اس سے دوبارہ باخبر ہوں اور آیت کریمہ: (فَاَذَاقَہَا اللّٰہُ لِبَاسَ الۡجُوۡعِ وَ الۡخَوۡفِ ) (۱۶۔۱۱۲) تو اﷲ تعالیٰ نے ان کے اعمال کے سبب انکو بھوک اور خوف کا لباس پہناکر(ناشکری کا) مزہ چکھایا۔میں لباس کے ساتھ ذَوق کا لفظ استعمال ہوا ہے کیونکہ اس سے اختیار و ابتلاء مراد ہے یعنی بھوک اور خوف سے اس طرح دوچار کیا کہ انکا تجربہ کرنے لگے بعض نے کہا ہے کہ یہاں دراصل دوجملے ہیں اور تقدیر کلام یہ ہے اَذَاقَھَا طَعْمَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ وَاَلْبَسَھَا لِبَاسَھُمَا: یعنی انہیں بھوک اور خوف کا مزہ چکھایا اور ان دونوں کو لباس اوڑھادیا۔ اور آیت کریمہ: (وَ اِنَّاۤ اِذَاۤ اَذَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنَّا رَحۡمَۃً ) (۴۲۔۴۸) اور جب ہم انسان کو اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں۔میں رَحْمَۃَ کے ساتھ اَذَاقَ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور رحمۃ کے بالمقابل سَیَئَۃ (یعنی سختی اور مصیبت) کے لئے اَصَابَ کا لفظ آتا ہے تو لفظ اَذَاقَ لاکر تنبیہ کی ہے کہ انسان ادنیٰ سی نعمت پاکر اترا جاتا ہے اور گھمنڈ کرنے لگ جاتا ہے اس سے آیت کریمہ: (کَلَّاۤ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَیَطۡغٰۤی ۙ﴿۶﴾ اَنۡ رَّاٰہُ اسۡتَغۡنٰی ) (۹۶۔۷۶) مگر انسان سرکش ہوجاتا ہے جبکہ اپنے تئیں غنی دیکھتا ہے کے مفہوم کی طرف اشارہ ہے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
نُّذِقْهُ سورة الحج(22) 25
وَتَذُوْقُوا سورة النحل(16) 94
وَذُوْقُوْا سورة الأنفال(8) 50
وَذُوْقُوْا سورة الحج(22) 22
وَذُوْقُوْا سورة السجدة(32) 14
وَلَــنُذِيْقَنَّهُمْ سورة حم السجدہ(41) 50
وَلَنُذِيْـقَنَّهُمْ سورة السجدة(32) 21
وَّلِيُذِيْقَكُمْ سورة الروم(30) 46
وَّنُذِيْقُهٗ سورة الحج(22) 9
وَّيُذِيْقَ سورة الأنعام(6) 65
يَذُوْقُوْا سورة ص(38) 8
يَذُوْقُوْنَ سورة الدخان(44) 56
يَذُوْقُوْنَ سورة النبأ(78) 24