Blog
Books
Search Hadith

جنین کی تخلیق اور رحم میں اس کی تکوین کا بیان

243 Hadiths Found
۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بشیک نطفہ چالیس ایام تک اپنی حالت پر رہتا ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، جب چالیس دن گزر جاتے ہیں تو وہ جمے ہوئے خون کا ایک ٹکڑا بن جاتا ہے، پھر چالیس دنوں کے بعد گوشت کا ٹکڑا بن جاتا ہے، پھر چالیس دنوں کے بعد ہڈیاں بنتی ہیں، پس جب اللہ تعالیٰ اس کی تخلیق کو برابر کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے، اس کام کو سنبھالنے والا فرشتہ کہتا ہے: اے میرے ربّ! یہ مذکر ہے یا مؤنث؟ خوش بخت ہے یا بد بخت؟ کوتاہ قد ہے یا دراز قد؟ ناقص الخلقت ہے یا زائد الخلقت؟ نیز اس کی روزی اور موت؟ اور یہ تندرست ہے یا بیمار؟ پس یہ سب چیزیں لکھ لی جاتی ہیں۔ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اگر اس سارے معاملے سے فارغ ہوا جا چکا ہے تو پھر عمل کا کیا تک ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم عمل کرو، پس جس شخص کو جس چیز کے لیے پیدا کیا گیا ہے، اس کو اس کی طرف متوجہ کر دیا جائے گا۔

Haidth Number: 10306
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایوب علیہ السلام پر سونے کی ٹڈیاں گرائی گئیں، انھوں نے ان کو اکٹھا کرنا شروع کر دیا، اللہ تعالیٰ نے کہا: اے ایوب کیا میں نے تجھے کو غنی نہیں کر دیا؟ انھوں نے کہا: اے میرے ربّ! بھلا کون تیری رحمت یا تیرے فضل سے سیر ہو سکتا ہے۔

Haidth Number: 10357
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایوب ننگے ہو کر غسل کر رہے تھے کہ سونے کی ٹڈیاں ان پر گر پڑیں، انھوں نے ان کو اپنے کپڑے میں جمع کرنا شروع کر دیا، ربّ تعالیٰ نے آواز دی: اے ایوب! کیا میں نے تجھے اس چیز سے غنی نہیں کر دیا، جو تو دیکھ رہا ہے؟ انھوں نے کہا: کیوں نہیں، اے میرے ربّ! لیکن تیری برکتوں سے مجھے کوئی غِنٰی نہیں۔

Haidth Number: 10358
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، زید بن عمرو بن نفیل کو بلدح کے زیریں مقام پر ملے، یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر نزولِ وحی سے پہلے کی بات ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو ایک تھیلا پیش کیا، اس میں گوشت تھا، لیکن اس نے اس سے کھانے سے انکارکر دیا اور کہا: بیشک میں وہ چیز نہیں کھاتا جوتم اپنے تھانوں پر ذبح کرتے ہو، میں صرف وہ چیز کھاتا ہوں، جس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے، سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے اس کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بیان کیا۔

Haidth Number: 10452
۔ سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ ابو جہل نے کہا: اگر میں نے رسول اللہ ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کو کعبہ کے پاس نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو اس کی گردن کو روند دوں گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی اس بات پر فرمایا: اگر وہ ایسا کرتا تو فرشتے اس کو لوگوں کے سامنے پکڑ لیتے، اگر یہودیوں نے موت کی تمنا کی ہوتی تو وہ واقعی مر جاتے اور جہنم میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتے اور اگر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مباہلہ کرنے والے نکلتے تو وہ اس حال میںلوٹتے کہ ان کا مال ہوتا اور نہ اہل و عیال۔

Haidth Number: 10518

۔ (۱۰۵۱۹)۔ عَنْ أَبِیْ حَازِمٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ أَبُوْجَھْلٍ: ھَلْ یُعَفِّرُ مُحَمَّدٌ وَجْھَہُ بَیْنَ أَظْھُرِکُمْ؟ قَالَ: فَقِیْلَ: نَعَمْ، قَالَ: وَاللَّاتِ وَالْعُزّٰییَمِیْنًایَحْلِفُ بِھَا لَئِنْ رَأَیْتُہُیَفْعَلُ ذٰلِکَ لَأَطَأَنَّ عَلٰی رَقَبَتِہِ أَوْ لَاُعَفِّرَنَّ وَجْھَہُ فِی التُّرَابِ، قَالَ: فَاَتٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ یُصَلِّیْ زَعَمَ لَیَطَأُ عَلٰی رَقَبَتِہِ، قَالَ: فَمَا فَجَأَھُمْ مِنْہُ اِلَّا وَھُوَ یَنْکُصُ عَلٰی عَقِبَیْہِ وَیَتَّقِیْ بِیَدَیْہِ، قَالَ: قَالُوْا لَہُ: مَا لَکَ؟ قَالَ: اِنَّ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُ لَخَنْدَقًا مِنْ نَارٍ وَھَوْلًا وَأَجْنِحَۃً، قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَوْ دَنَا مِنِّیْ لَخَطَفَتْہُ الْمَلَائِکَۃُ عُضْوًا عُضْوًا۔)) قَالَ فَأُنْزِلَ لَا أَدْرِی فِی حَدِیثِ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَوْ شَیْء ٍ بَلَغَہُ {إِنَّ الْإِنْسَانَ لَیَطْغَی أَنَّ رَآہُ اسْتَغْنَی} {أَرَأَیْتَ الَّذِییَنْہٰی عَبْدًا إِذَا صَلّٰی أَرَأَیْتَ إِنْ کَانَ عَلَی الْہُدٰی أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوٰی أَرَأَیْتَ إِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی} یَعْنِی أَبَا جَہْلٍ {أَلَمْ یَعْلَمْ بِأَنَّ اللّٰہَ یَرٰی کَلَّا لَئِنْ لَمْ یَنْتَہِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِیَۃِ نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ خَاطِئَۃٍ فَلْیَدْعُ نَادِیَہُ} قَالَ یَدْعُو قَوْمَہُ {سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ} قَالَ یَعْنِی الْمَلَائِکَۃَ {کَلَّا لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ}(مسند احمد: ۸۸۱۷)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ابوجہل نے کہا: کیا تمہارے مابین محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) سجدہ کرتا ہے؟ کسی نے کہا: ہاں، اس نے کہا: لات اور عزی کی قسم! اب اگر میں نے اس کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو اس کی گردن روند دوں گا یا اس کے چہرے کو مٹی میں لت پت کر دوں گا، پس اُدھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز پڑھنے کے لیے تشریف لے آئے، اِدھر سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی گردن کو روندنے کے لیے ابوجہل بھی چل پڑا، لیکن اچانک اس نے ایڑھیوںکے بل ہٹنا شروع کر دیا اور اپنے ہاتھوں کے ذریعے اپنا بچاؤ کر رہا تھا، لوگوں نے اس سے پوچھا: تجھے کیا ہو گیا ہے؟ اس نے کہا: میرے اور آپ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے درمیان آگ کی ایک خندق اور ہولناکی اور پَر تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگروہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کے ایک ایک عضو کو اچک لیتے۔ پس اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں: سچ مچ انسان تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ بھلا تو نے اسے بھی دیکھا جو بندے کو روکتا ہے، جبکہ وہ نماز ادا کرتا ہے، بھلا بتلا تو سہی اگر وہ ہدایت پر ہو، یا پرہیز گاری کا حکم دیتا ہو، بھلا دیکھو اگر یہ جھٹلاتا ہو اور منہ پھیرتا ہو تو۔ اس سے ابو جہل مراد ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: کیا اس نے نہیں جانا کہ اللہ تعالیٰ اسے خوب دیکھ رہا ہے، یقینا اگر یہ باز نہ رہا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے، ایسی پیشانی جو جھوٹی خطاکار ہے، یہ اپنی مجلس والوں کو بلالے۔ یعنی وہ اپنیقوم کو بلائے، ہم بھی دوزخ کے پیادوں کو بلا لیں گے۔ یعنی فرشتوں کو، خبردار! اس کا کہنا نہ مان اور سجدہ کر اور قریب ہو جا۔راوی کہتا ہے: مجھے یہ علم نہ ہو سکا کہ ان آیات کا ذکر سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی حدیث میں تھا، یا کسی اور سند سے اس کا علم ہوا تھا۔

Haidth Number: 10519
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی اسی طرح کی حدیث ِ نبوی بیان کی ہے۔

Haidth Number: 10520

۔ (۱۰۶۹۴)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بُسَیْسَۃَ عَیْنًا،یَنْظُرُ مَا فَعَلَتْ عِیرُ أَبِی سُفْیَانَ، فَجَائَ وَمَا فِی الْبَیْتِ أَحَدٌ غَیْرِی وَغَیْرُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: لَا أَدْرِی مَا اسْتَثْنٰی بَعْضَ نِسَائِہِ فَحَدَّثَہُ الْحَدِیثَ، قَالَ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَکَلَّمَ، فَقَالَ: ((إِنَّ لَنَا طَلِبَۃً فَمَنْ کَانَ ظَہْرُہُ حَاضِرًا فَلْیَرْکَبْ مَعَنَا۔)) فَجَعَلَ رِجَالٌ یَسْتَأْذِنُونَہُ فِی ظَہْرٍ لَہُمْ فِی عُلُوِّ الْمَدِینَۃِ، قَالَ: ((لَا إِلَّا مَنْ کَانَ ظَہْرُہُ حَاضِرًا۔)) فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابُہُ حَتّٰی سَبَقُوا الْمُشْرِکِینَ إِلٰی بَدْرٍ، وَجَائَ الْمُشْرِکُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا یَتَقَدَّمَنَّ أَحَدٌ مِنْکُمْ إِلٰی شَیْئٍ حَتّٰی أَکُونَ أَنَا أُؤْذِنُہُ۔)) فَدَنَا الْمُشْرِکُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((قُومُوا إِلٰی جَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمٰوَاتُ وَالْأَرْضُ۔)) قَالَ: یَقُولُ عُمَیْرُ بْنُ الْحُمَامِ الْأَنْصَارِیُّ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! جَنَّۃٌ عَرْضُہَا السَّمٰوَاتُ وَالْأَرْضُ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) فَقَالَ: بَخٍ بَخٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا یَحْمِلُکَ عَلٰی قَوْلِکَ بَخٍ بَخٍ؟)) قَالَ: لَا، وَاللّٰہِ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِلَّا رَجَائَ أَنْ أَکُونَ مِنْ أَہْلِہَا، قَالَ: ((فَإِنَّکَ مِنْ أَہْلِہَا۔)) قَالَ: فَأَخْرَجَ تَمَرَاتٍ مِنْ قَرَنِہِ فَجَعَلَ یَأْکُلُ مِنْہُنَّ، ثُمَّ قَالَ: لَئِنْ أَنَا حَیِیتُ حَتّٰی آکُلَ تَمَرَاتِی ہٰذِہِ إِنَّہَا لَحَیَاۃٌ طَوِیلَۃٌ، قَالَ: ثُمَّ رَمٰی بِمَا کَانَ مَعَہُ مِنَ التَّمْرِ، ثُمَّ قَاتَلَہُمْ حَتّٰی قُتِلَ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۲۵)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا بسیسہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جاسوس کی حیثیت سے روانہ فرمایا تاکہ وہ ابو سفیان کے قافلہ پر نظر رکھے، ایک دفعہ جب کہ گھر میں میرے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سوا اور کوئی نہ تھا وہ آئے، ثابت راوی کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں ہے کہ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے امہات المؤمنین میں سے کسی کا استثناء کیا تھا یا نہیں، اور سیدنا بسیسہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بات کی، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لے گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک قافلے پر ہماری نظر ہے، جس آدمی کے پاس سواری ہو، وہ سوار ہو کر ہمارے ساتھ چلے۔ بعض لوگوں نے یہ اجازت چاہی کہ ان کی سواریاں مدینہ منورہ کے بالائی علاقہ میں ہیں، وہ جا کر سواریاں لے آئیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، صرف وہ لوگ چلیں جن کی سواریاں اس وقت موجود ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ کے اصحاب روانہ ہوئے اور مشرکین سے پہلے پہلے بدر کے مقام پر جا پہنچے، مشرکین بھی آگئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تک میں اجازت نہ دوں کوئی آدمی پیش قدمی نہ کرے۔ جب مشرکین مسلمانوں کے قریب آپہنچے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب بڑھو اس جنت کی طرف جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ عمیر بن نحام انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا جنت کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں! تو وہ کہنے لگے: واہ، واہ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم یہ واہ واہ کیوں کہہ رہے ہو؟ انہوں نے :کہا اللہ کے رسول! میں یہ الفاظ اس امید پر کہہ رہا ہوں کہ اللہ مجھے اہلِ جنت میں سے بنا دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جنتی ہو، اس کے بعد اس نے اپنی تھیلی سے کچھ کھجوریں نکالیں اور کھانے لگا ، اتنے میں اس نے کہا: اگر میں ان کھجوروں کے کھانے تک زندہ رہوں، تو یہ تو بڑی طویل زندگی ہے، چنانچہ اس کے پاس جو کھجوریں تھیں، اس نے ان کو پھینک دیا اور مشرکین سے قتال کیایہاں تک کہ شہید ہو گیا۔

Haidth Number: 10694
سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جب سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو لشکر کا سربراہ مقرر فرمایا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ لوگ اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سربراہ بننے پر اعتراض کرتے ہیں اور ان کو امیر بنائے جانے پر طعن کرتے ہیں، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھڑے ہو کر فرمایا: تم لوگ اسامہ کو سربراہِ لشکر بنائے جانے پر اعتراض کرتے ہو اور ان کو امیر بنائے جانے پر طنز کرتے ہو، یہی کام تم نے اس سے قبل اس کے والد کے بارے میں بھی کیا تھا، حالانکہ وہ امیر بنائے جانے کا بجا طور پر حق دار تھا۔ اور وہ مجھے سب سے زیادہ محبوب بھی تھا، اس کے بعد اس کا یہ بیٹامجھے سب سے زیادہ پیارے لوگوں میں سے ہے، میں تمہیں اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں، یہ تمہارے بہترین لوگوں میں سے ہے۔

Haidth Number: 11622
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے سب سے زیادہ محبوب اسامہ (بن زید) ہے، فاطمہ وغیرہ کے علاوہ۔

Haidth Number: 11623
سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زیادہ بیمار ہو گئے تو میں اور میرے رفقاء ہم سب مدینہ کے ایک نواح میں ٹھہر گئے، میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بالکل خاموش تھے اور شدت مرض کی وجہ سے بول نہ سکتے تھے،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر میری طرف جھکا کر اشارہ کرتے۔ میں جان گیا کہ آپ میرے حق میں دعائیں کر رہے ہیں۔

Haidth Number: 11624
سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے پکڑ کر اپنی ایک ران پر بٹھا لیتے اور دوسری ران پر سیدنا حسن بن علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بٹھا لیتے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں اپنے سینے سے چمٹا کر فرماتے: یا اللہ! میں ان پر شفقت کرتا ہوں تو بھی ان پر رحم فرما دے۔

Haidth Number: 11625
سیدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہو،وہ اسامہ سے محبت رکھے۔ اس فرمان کے بعد کسی کے لیے اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بغض رکھنا روا نہیں ہے۔

Haidth Number: 11626
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا اسامہ بن یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دروازے کی چوکھٹ میں گر پڑے اور ان کی پیشانی پر زخم آگیا۔ (اور ایک روایت میںیوں ہے کہ خون بہنے لگا) تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اس کی پیشانی سے خون صاف کر دو۔ لیکن مجھے کچھ کراہت سی محسوسی ہوئی، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود شروع ہو گئے اور زخم کو چوس کر تھوکتے رہے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر اسامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لڑکی ہوتا تو میں اسے اچھے اچھے کپڑے اور زیور پہنا کر اس قدر خوب صورت بنا دیتا کہ لوگ اس سے شادی کرنے میں رغبت کا اظہار کرتے۔

Haidth Number: 11627
Haidth Number: 12129
سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے مسلمانوں کی جماعت کی ایک بالشت بھر بھی مخالفت کی، اس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے اتار پھینکی۔

Haidth Number: 12130
ربعی بن حراش کہتے ہیں: جن ایام میں لوگ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی مخالفت میں بغاوت کر کے ان کی طرف روانہ ہوئے تو میں انہی راتوں میں سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں مدائن گیا، انہو ںنے مجھ سے کہا: ربعی! تمہاری قوم نے کیا کیا ہے؟ میں نے کہا: آپ ان کے کس فعل کے بارے میں پوچھ رہے ہیں؟ انہو ںنے کہا: کون لوگ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف گئے ہیں؟ سو میں نے جانے والوں میں سے کچھ افراد کے نام ذکر کر دئیے، انہو ں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے مسلمانوں کی جماعت سے علیحدگی اختیار کی اور امارت و حکومت کو ذلیل کرنے کی کوشش کی، وہ اللہ تعالیٰ کو اس حال میں جا کر ملے گا کہ اللہ کے ہاں اس کی کوئی توقیر نہیں ہو گی۔

Haidth Number: 12131
سیدنا ابو بکرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے بادشاہ کا اکرام کرے، اللہ قیامت کے دن اس کا اکرام کرے گا اور جس نے دنیا میں اللہ کے بنائے ہوئے بادشاہ کی توہین و تذلیل کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ذلیل ورسوا کرے گا۔

Haidth Number: 12132
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قبیلہ ازد کے لوگ بہترین لوگ ہیں، ان کے منہ یعنی گفتگو انتہائی شان دار ہوتی ہے، یہ اپنی قسم کو پورا کرتے ہیں اوردلوں کے صاف ہوتے ہیں، یعنی یہ کسی کے خلاف بغض یا حسد نہیں رکھتے۔

Haidth Number: 12558
سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، ایک آدمی نے آکر کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبیلہ حمیر پر لعنت کریں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے اعراض فرمایا، وہ دوسری طرف سے آگیا اور اس بار بھی یہی بات کہی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبیلہ حمیر پر لعنت فرمائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے منہ موڑ لیا اور فرمایا: اللہ قبیلہ حمیر پر رحم فرمائے، ان کے منہ یعنی گفتگو سلامتی والی ہے، ان کے ہاتھ کھانا کھلانے والے ہیں اور یہ لوگ امن و ایمان والے ہیں۔

Haidth Number: 12559
سیدنا سعید بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اندھیری رات کے اندھیروں کی طرح کے فتنوں کا ذکر کیا، میرا خیال ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا: ان فتنوں میں لوگ بہت جلدی ختم ہو جائیں گے۔ کسی نے پوچھا: آیا وہ سب ہلاک ہونے والے ہوں گے یا ان میں سے بعض؟ آپ نے فرمایا: ان کو قتل ہی کافی ہو گا۔

Haidth Number: 12914
سیدنا ابو وائل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدناعبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدناابوموسیٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ان دونوں نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت سے قبل ایسا زمانہ ہو گا کہ اس میں جہالت عام ہو گی، علم اٹھ جائے گا اور ھَرْج عام ہوجائے گا۔ ہم نے پوچھا: ھرج سے کیا مراد ہے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قتل ۔

Haidth Number: 12915
سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے قیامت کے بارے میں پوچھا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت کا علم تو میرے رب کے پاس ہے،وہ اس کو اس کا وقت ہونے پر ظاہر کرے گا، البتہ میں تمہیں اس کی کچھ علامتیں اور اس سے پہلے کیا ہو گا، وہ بیان کر دیتا ہوں، قیامت سے پہلے فتنے ظاہر ہوں گے اور ھرج ہوگا۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! فتنوں کا مفہوم تو ہم سمجھتے ہیں، ھرج سے کیا مراد ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اہل حبشہ کی زبان میں قتل کو کہتے ہیں اور (تیسری علامت یہ ہے کہ) لوگوں میں ایک دوسرے سے اس قدر بے اعتنائی اور لاپروائی آجائے گی کہ کوئی کسی کو نہیں پہچانے گا۔

Haidth Number: 12916

۔ (۱۲۹۱۷)۔ وَعَنْ اَبِیْ وَائِلٍ عَنْ عَزْرَۃَ بْنِ قَیْسٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیْدِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کَتَبَ اِلَیَّ اَمِیْرُ ْالْمُؤْمِنِیْنَ (یَعْنِیْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) حِیْنَ اَلْقَی الشَّامُ بَوَانِیَہٗ بَثْنِیَۃً وَعَسَلًا، فَاَمَرَنِیْ اَنْ اَسِیْرَ اِلَی الْھِنْدِ وَالْھِنْدُ فِیْ اَنْفُسِنَا یَوْمَئِذٍ اَلْبَصْرَۃُ، قَالَ: وَاَنَا لِذٰلِکَ کَارِہٌ، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ لِیْ: یَا اَبَا سُلَیْمَانَ! اِتَّقِ اللّٰہَ فَاِنَّ الْفِتَنَ قَدْ ظَہَرَتْ، قَالَ: فَقَالَ: وَابْنُ الْخَطَّابِ حَیٌّ، اِنَّمَا تَکُوْنُ بَعْدَہٗوَالنَّاسُبِذِیْ بِلِّیَانِ بِمَکَانٍ کَذَا وَکَذَا، فَیَنْظُرُ الرَّجُلُ فَیَتَفَکَّرُ ھَلْ یَجِدُ مَکَانًا لَمْ یَنْزِلْ بِہٖمِثْلُمَانَزَلَبِمَکَانِہِالَّذِیْ ھُوَ فِیْہِ مِنَ الْفِتْنَۃِ وَالشَّرِّ فَلاَ یَجِدُہُ، قَالَ: وَتِلْکَ الْاَیَّامُ الَّتِیْ ذَکَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَیَدَیِ السَّاعَۃِ اَیَّامَ الْھَرْجِ، فَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ اَنْ تُدْرِکَنَا وَاِیَّاکُمْ تِلْکَ الْاَیَّامُ۔ (مسند احمد: ۱۶۹۴۴)

سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب ارضِ شام نے گندم اور شہد سمیت اپنی برکتوں کو ہمارے سامنے پیش کیا تو امیر المومنین سیدنا عمربن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے ہند کی طرف روانگی کا حکم دیا، ان دنوں ہم ہند سے بصرہ مراد لیا کرتے تھے، میں اس چڑھائی کو ناپسند کر رہا تھا، اتنے میں ایک آدمی نے اٹھ کر مجھ سے کہا: ابو سلیمان! اللہ سے ڈرو، فتنوں کا ظہور ہوچکا ہے، اُدھر سے ایک آدمی نے کہا: ابھی فتنوں کا ظہور نہیں ہوا، کیونکہ ابن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ زندہ ہیں، فتنے ان کے بعد ہوں گے، (اور فتنوں کے دور میں) جب لوگ (یمن سے پرے واقع) بلیان کے مقام پرہوں گے، پھر آدمی ارد گرد کے حالات کو دیکھ کر غور کر ے گاکہ آیا کوئی ایسی جگہ بھی ہے، جہاں اس جگہ جیسے فتنے نہ ہوں، تو اسے کوئی ایسی پر سکون جگہ نہ ملے گی، بس یہی وہ زمانہ ہے، جس کے متعلق رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا کہ قیامت سے پہلے قتل ِ عام ہوگا، اور ہم اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں کہ ایسا زمانہ ہمیں اور تمہیں پائے۔

Haidth Number: 12917

۔ (۱۳۱۱۲)۔ عَنْ اَبِیْ بُرْدَۃَ عَنْ اَبِیْ مُوْسَی الْاَشْعَرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ بَعْضِ اَسْفَارِہٖقَالَ: فَعَرَّسَبِنَارَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَانْتَہَیْتُ بَعْضَ اللَّیْلِ اِلٰی مُنَاخِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَطْلُبُہُ فَلَمْ اَجِدْہُ، قَالَ: فَخَرَجْتُ بَارِزًا اَطْلُبُہُ وَاِذَا رَجُلٌ مِنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَطْلُبُ مَا اَطْلُبُ قَالَ: فَبَیْنَا نَحْنُ کَذٰلِکَ اِذِ اتَّجَہَ اِلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَقُلْنَا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَنْتَ بِاَرْضِ حَرْبٍ وَلَانَأْمَنُ عَلَیْکَ، فَلَوْلَا اِذْ بَدَتْ لَکَ الْحَاجَۃُ قُلْتَ لِبَعْضِ اَصْحَابِکَ، فَقَامَ مَعَکَ۔ قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنِّیْ سَمِعْتُ ہَزِیْزًا کَہَزِیْزِ الرَّحٰی اَوْ حَنِیْنًا کَحَنِیْنِ النَّحْلِ وَاَتَانِیْ آتٍ مِنْ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ قَالَ: فَخَیَّرَنِیْ اَنْ یَدْخُلَ شَطْرُ اُمَّتِی الْجَنَّۃَ وَبَیْنَ شَفَاعَتِیْ لَھُمْ فَاخْتَرْتُ شَفَاعَتِیْ لَہُمْ وَعَلِمْتُ اَنَّہَا اَوْسَعُ لَھُمْ فَخَیَّرَنِیْ بِأَنْ یَدْخُلَ ثُلُثُ اُمَّتِی الْجَنَّۃَ وَبَیْنَ الشَّفَاعَۃِ فَاخْتَرْتُ لَہُمْ شَفَاعَتِیْ وَعَلِمْتُ اَنَّہَا اَوْسَعُ لَہُمْ۔)) فَقَالَا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اُدْعُ اللّٰہَ تَعَالٰی اَنْ یَّجْعَلَنَا مِنْ اَھْلِ شَفَاعَتِکَ قَالَ: فَدَعَا لَہُمَا ثُمَّ اِنَّہُمَا نَبَّہَا اَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاَخْبَرَھُمْ بِقَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَعَلُوْا یَاْتُوْنَہُ وَیَقُوْلُوْنَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اُدْعُ اللّٰہَ تَعَالٰی اَنْ یَجَعَلَنَا مِنْ اَھْلِ شَفَاعَتِکَ فَیَدْعُوْلَہُمْ قَالَ: فَلَمَّا اَضَبَّ عَلَیْہِ الْقَوْمُ وَکَثُرُوْا، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّہَا لِمَنْ مَاتَ وَھُوَ یَشْہَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔)) (مسند احمد: ۱۹۹۶۲)

سیدناابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں دوران سفر تھے، رات کے آخری حصہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آرام کے لیے ایک جگہ رکے، پھر میں رات کے کسی وقت میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آرام کرنے کی جگہ پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھنے گیا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے وہاں نہ ملے، پھر تو میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تلاش کے لیے نکل کھڑا ہو گیا اورایک اور صحابی بھی میری طرح آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تلاش میں تھا، ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تلاش کر رہے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری طرف تشریف لے آئے،ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ دشمن کے علاقے میں ہیں، اس لیے ہم آپ کے بارے میں لاپروا نہیں رہ سکتے، اگر کوئی کام ہوتو اپنے کسی ساتھی سے کہہ دیا کریں تاکہ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ جایا کرے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے چکی کے چلنے یا شہد کی مکھیوں کے بھنبھنانے کی سی آواز سنی اور میرے پاس میرے ربّ تعالیٰ کا ایک فرستادہ آگیا، اس نے مجھے دو میں سے ایک بات کا اختیار دیا کہ یا تو اللہ تعالیٰ میری نصف امت کو جنت میں داخل کردے یا میں ان کے حق میں شفاعت کروں، میںنے امت کے حق میں شفاعت والی بات کو اختیار کر لیا، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس میں زیادہ وسعت ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بات کا اختیار دیا کہ یا تو میری امت کا ایک تہائی حصہ جنت میں چلا جائے یا میں ان کے حق میں شفاعت کر لوں، تو میں نے ان کے حق میں شفاعت والی بات کو اختیار کیا، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ سفارش میں زیادہ وسعت ہے۔ یہ سن کر ان دو صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعافرمائیں کہ وہ ہمیں بھی ان لوگوں میں بنا دے، جنہیں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دونوں کے حق میں دعا فرما دی۔ اس کے بعد وہ صحابہ کرام میں آئے اور ان کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی یہ ساری بات بتلا دی، یہ سن کر باقی لوگ بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آکر یہی درخواست کرنے لگے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ان کو بھی ان لوگوں میں سے بنا دے، جنہیں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے حق میں بھی دعائیں کرتے رہے، لیکن جب کثرت سے لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آکر اس بارے میں درخواست کرنے لگے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری شفاعت ہر اس آدمی کے لیے ہوگی جواس حال میں مرے گا کہ وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہ شہادت دیتا ہو گا۔

Haidth Number: 13112
۔ (دوسری سند) سیدناابو موسیٰ اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پہرہ دیا کرتے تھے، میں ایک رات کو اٹھا اورآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آرام گاہ میں نہیں دیکھا، مجھے تو اگلے پچھلے تمام اندیشوں نے آگھیرا، میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تلاش میں نکلا، اس دوران سیدنا معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے میری ملاقات ہوئی، ان کو بھی وہی پریشانی لاحق تھی، جو مجھے ہوئی تھی،… اس کے بعد گزشتہ حدیث کی مانند ہی ہے، البتہ اس میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اور ہر وہ آدمی جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا ہوگا، کے حق میں میری شفاعت ہو گی۔

Haidth Number: 13113

۔ (۱۳۱۱۴)۔ وَعَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: فَقَدَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیْلَۃً اَصْحَابُہُ وَکَانُوْا اِذَا نَزَلُوْا اَنْزَلُوْہُ اَوْسَطَہُمْ فَفَزِعُوْا وَظَنُّوْ اَنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اخْتَارَ لَہُ اَصْحَابًا غَیْرَھُمْ، فَاِذَا ھُمْ بِخِیَالِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَکَبَّرُوْا حِیْنَ رَاَوْہُ وَقَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اَشْفَقْنَا اَنْ یَّکُوْنَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اخْتَارَ لَکَ اَصْحَابًا غَیْرَنَا، فَقَالَ رَسَوْلُ اللّٰہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا، بَلْ اَنْتُمْ اَصْحَابِیْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی أَیْقَظَنِیْ فَقَالَ: یَا مُحَمَّدُ! اِنِّیْ لَمْ اَبْعَثْ نَبِیًّا وَلَارَسُوْلاً اِلَّا وَقَدْ سَاَلَنِیْ مَسْاَلَۃً اَعْطَیْتُہَا اِیَّاہُ، فَاسْاَلْ یَا مُحَمَّدُ! تُعْطَ، فَقُلْتُ مَسْاَلَتِیْ شَفَاعَۃٌ لِاُمَّتِیْیَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) فَقَال اَبُوْبَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: وَمَا الشَّفَاعَۃُ؟ قَالَ: ((اَقُوْلُ: یَا رَبِّ شَفَاعَتِیْ الَّتِیْ اخْتَبَاْتُ عِنْدَکَ، فَیَقُوْلُ الرَّبُّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: نَعَمْ، فَیُخْرِجُ رَبِّیْ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی بَقِیَّۃَ اُمَّتِیْ مِنَ النَّارِ فَیَنْبِذُ ھُمْ فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: ۲۳۱۵۲)

سیدناعبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، صحابہ کرام نے ایک رات نبی کر یم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنی جگہ سے گم پایا، ان کا معمول یہ تھا کہ جب وہ کسی مقام پر ٹھہرتے تو رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آرام گاہ اپنے درمیان بناتے، انھوں نے جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنی جگہ پر نہ پایا تو وہ گھبرا گئے اور انہوں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بطورِ ساتھی منتخب کر لیا ہے (یعنی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات پا گئے ہیں)۔ سو وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے، پھر جب انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کودیکھا تو خوشی سے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا، پھر انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہمیں تو یہ اندیشہ ہوگیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے ہمارے علاوہ دوسرے لوگوں کو آپ کا ساتھی بنا دیا ہے (یعنی آپ فوت ہو گئے ہیں)۔رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے اور دنیا و آخرت میں تم ہی میرے صحابہ ہو، بات یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیدار کر کے فرمایا: اے محمد! میں نے جتنے بھی رسول اور نبی مبعوث کیے، ہر ایک نے مجھ سے ایک ایک ایسی دعا کی کہ میں نے ہر صورت میں اس کی وہ دعا قبول کی،اے محمد! آپ بھی کوئی دعا کریں، وہ ضرور قبول ہوگی، تو میں نے عر ض کیا کہ میری دعا قیامت کے دن امت کے حق میں شفاعت ہوگی۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: شفاعت سے کیا مراد ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں کہوں گا کہ اے میرے رب! میری وہ سفارش جو میں نے تیرے پاس پوشیدہ کر کے رکھ دی تھی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ہاں،پھر اللہ تعالیٰ اس سفارش کی وجہ سے میری بقیہ امت کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دے گا۔

Haidth Number: 13114
نبی کر یم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ایک خادم یا خادمہ بیان کرتی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے خادم سے پوچھا کرتے تھے کہ: آیا تمہاری کوئی حاجت ہے؟ ایک دن ایسے ہو ا کہ خادم نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری ایک ضرورت ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: وہ کون سی؟ اس نے کہا: میری حاجت یہ ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قیامت کے دن میرے حق میں شفاعت فرمائیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: تمہیں اس کے بارے میں کس نے بتلایا ہے؟ اس نے کہا: میرے ربّ نے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر یہی بات ہے تو تم کثرتِ سجود کے ساتھ میری اعانت کرو۔

Haidth Number: 13115
سیدناانس بن مالک سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کر یم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے درخواست کی کہ قیامت کے دن آپ میرے حق میں سفارش کریں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی میں قیامت کے دن لوگوں کے حق میں شفاعت کروں گا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کے نبی! میں اس دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کہاں تلاش کروں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم مجھے سب سے پہلے پل صراط پر تلاش کرنا۔ میں نے کہا: اگر آپ سے میری ملاقات پل صراط پر نہ ہو سکے تو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: توپھر میزان کے پاس مجھے تلاش کرنا۔ میں نے کہا: اگر میزان کے پاس بھی میں آپ کو نہ پا سکوں تو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر میں حوض کو ثر کے پاس ہوں گا، قیامت کے دن میں ان تین مقامات میں سے کسی ایک پر ہی ہوں گا۔

Haidth Number: 13116
مولائے عثمان ابن دارہ کہتے ہیں: میں بقیع مقام پر سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ تھا، ہم نے انہیں یوں کہتے ہوئے سنا: قیامت کے دن محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سفارش کے بارے میں سب سے زیادہ جانتا ہوں، یہ سن کر لوگ ان کے ارد گرد جمع ہوگئے اور کہنے لگے: کچھ اور کہو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرو، (اس کی تفصیل بیان کر دو)۔انھوں نے کہا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ فرمائیں گے: اے اللہ ہر اس مسلمان بندے کو بخش دے جو مجھ پر ایمان رکھتا تھا اور تیرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔

Haidth Number: 13117