Blog
Books
Search Hadith

جمعہ کی فرضیت اور اس کو ترک کرنے پر تشدید کا بیان، نیز یہ کن لوگوں پر واجب ہے

860 Hadiths Found
سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے ارادہ کیا ہے کہ نماز کا حکم دوں، پس وہ کھڑی کر دی جائے اور میں جوانوں کے ساتھ نکل جاؤں، ان کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں، پھر میں ان لوگوں سمیت ان کے گھر جلا دوں جو اذان سنتے ہیں، لیکن نماز ادا کرنے کے لیے نہیں آتے۔ یزید راوی سے پوچھا گیا کہ یہ وعید جمعہ کے بارے میں تھی یا دوسری نمازوں کے متعلق؟ انھوں نے کہا: میں نے سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جمعہ کا ذکر کرتے ہوئے یا کسی اور نماز کا ذکر کرتے ہوئے نہیں سنا۔

Haidth Number: 2715
سیّدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جمعہ کی نماز سے پیچھے رہنے والے لوگوں کے بارے میں فرمایا: میں نے اس بات کا ارادہ کیا ہے کہ کسی آدمی کو نماز پڑھانے کا حکم دوں اور میں خود ان آدمیوں سمیت ان کے گھروں کو جلا دوں جو جمعہ سے پیچھے رہتے ہیں۔

Haidth Number: 2716
سیّدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے عذر کے بغیرتین جمعے چھوڑ دیئے، اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دے گا۔

Haidth Number: 2717
ابوالجعد ضمری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو صحابی تھے، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے عذر کے بغیر اور سستی کرتے ہوئے تین جمعے چھوڑ دیئے، اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دے گا۔

Haidth Number: 2718
سیّدنا ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس قسم کی حدیث بیان کرتے ہیں۔

Haidth Number: 2719
سیّدنا سمرہبن جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جمعہ کے لیے حاضر ہوا کرو اور امام کی قریب ہو کر بیٹھا کرو، یقینا ایک آدمی جمعہ سے پیچھے رہنا شروع کر دیتا ہے، حتی کہ اسے جنت سے پیچھے کر دیا جاتا ہے، حالانکہ وہ جنتی لوگوں میں سے ہوتا ہے۔

Haidth Number: 2720
سیّدنا حارثہ بن نعمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے ایک آدمی چرنے والے جانور رکھ لیتا ہے اور (شروع شروع میں) نماز باجماعت میں حاضر ہوتا ہے، پھر جب اس کے جانوروں کو (چرنے کی چیزوں کی) کمی کا شکوہ ہونے لگتا ہے، تو وہ کہتا ہے: اگر میں اپنے جانوروں کے زیادہ گھاس والی کوئی جگہ تلاش کر لوں، سو وہ منتقل ہو کر (دور چلا جاتا ہے) اور صرف جمعہ کی نماز کے لیے حاضر ہوتا ہے، پھر اس کے جانور(چرنے کی چیزوں کی کمی کا) عذر پیش کرنے لگتے ہیں، پس وہ کہنے لگتا ہے: اگر میں اپنے جانوروں کے لیے اس سے زیادہ گھاس والی کوئی جگہ تلاش کر لوں، پھر وہ جگہ بدل لیتا ہے اور (اتنا دور چلا جاتا ہے کہ) جمعہ کے لیے حاضر ہوتا ہے نہ جماعت کے لیے، اس وجہ سے اس کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے۔

Haidth Number: 2721
عطاء کہتے ہیں: میں نے سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: اگر تمہیں طاقت ہو کہ تم عید الفطر کے موقع پر کچھ کھا کر ہی جا ؤ تو ایسے ہی کیا کرو۔ جب سے میں نے یہ بات ان سے سنی، اس وقت سے صبح جانے سے پہلے کھانا کھانا ترک نہ کیا، وہ روٹی کا لقمہ ہو جاتا یا دودھ یا پانی پی لیتا۔ ابن جریج نے عطاء سے سوال کیا: سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے اس قول کی کیا تاویل کی جائے گی؟ انھوں نے کہا: میرا تو یہی خیال ہے کہ انھوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا ہو گا۔وہ اس وقت تک نہیں نکلتے تھے، جب تک روشنی لمبی نہ ہو جاتی تھی، یعنی دن چڑھ نہ آتا تھا، اور وہ کہتے تھے کہ وہ اس لیے کھانا کھاتے ہیں، تاکہ نماز سے جلدی نہ کرنی پڑے۔

Haidth Number: 2836
سیّدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عیدالفطر والے دن نکلنے سے پہلے ناشتہ کرتے تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز عید سے قبل کوئی نفل نماز نہیں پڑھتے تھے، جب (عید کی) نماز پڑھ لیتے تو (گھر لوٹ کر) دو رکعت پڑھتے تھے۔

Haidth Number: 2837
سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عید الفطر والے دن اس وقت تک نہیں نکلتے تھے، جب تک کھجوریں نہ کھا لیتے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم طاق کھجوریں کھاتے تھے۔

Haidth Number: 2838
Haidth Number: 2839
(دوسری سند) اس میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عید الاضحی والے دن کچھ نہیں کھاتے تھے، جب تک لوٹ نہ آتے تھے، پھر لوٹ کر اپنی قربانی کا گوشت کھاتے تھے۔

Haidth Number: 2840
سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عید الفطر کے دن (عید گاہ کی طرف) نہیں جاتے تھے، مگر کھجوریں کھا کر۔ سیّدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خود نکلنے سے پہلے تین کھجوریں کھاتے تھے، اگر زیادہ کھانے کا ارادہ ہوتا تو پانچ کھاتے اور اگر اس سے بھی زیادہ کا ارادہ ہوتا تو طاق کھاتے۔

Haidth Number: 2841
سیّدنا محمود بن لبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:جس دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بیٹے ابراہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ فوت ہوئے، اس دن سورج کو گرہن لگ گیا۔پس لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا: جناب ابرہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی موت کی وجہ سے سورج کو گرہن لگا ہے، یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ خبردار! یہ کسی کی موت اور زندگی کی وجہ سے بے نور نہیں ہوتے، جب تم ان کو اس طرح دیکھو تو ڈر کر مسجد کی طرف پناہ لو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور ہمارا خیال ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سورۂ ابراہیم کی بعض آیات تلاوت کیں، پھر رکوع کیا، اس کے بعدسیدھے ہوئے اور پھر دو سجدے کیے، پھر کھڑے ہوئے اور پہلی رکعت کی طرح دوسری رکعت ادا کی۔

Haidth Number: 2895

۔ (۲۸۹۶) عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَامَ وَقُمْنَا مَعَہُ فَأَطَالَ الْقِیَامَ حَتّٰی ظَنَنَّا أَنَّہُ لَیْسَ بِرَاکِعٍ ثُمَّ رَکَعَ فَلَمْ یَکَدْ یَرْفَعُ رَأْسَہُ، ثُمَّ رَفَعَ فَلَمْ یَکَدْ یَسْجُدُ،ثُمَّ سَجَدَ فَلَمْ یَکَدْ یَرْفَعُ رَأْسَہُ، ثُمَّ جَلَسَ فَلَمْ یَکَدْ یَسْجُدُ ثُمَّ سَجَدَ فَلَمْ یَکَدْ یَرْفَعُ رَأْسَہُ، ثُمَّ فَعَلَ فِی الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ کَمَا فَعَلَ فِی الْأُوْلٰی وَجَعَلَ یَنْفُخُ فِی الْأَرْضِ وَیَبْکِی وَھُوَ سَاجِدٌ فِی الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ، وَجَعَلَ یَقُوْلُ: ((رَبِّ لِمَ تُعَذِّبُہُمْ وَأَنَا فِیْھِمْ، رَبِّ لِمَ تُعَذِّبُنَا وَنَحْنُ نَسْتَغْفِرُکَ)) فَرَفَعَ رَأْسَہُ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ وَقَضٰی صَلَاتَہُ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((أَیُّہَا النَّاسُ! اِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، فَاِذَا کَسَفَ أَحَدُھُمَا فَافْزَعُوا اِلَی الْمَسَاجِدِ، فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَیَّ الْجَنَّۃُ حَتّٰی لَوْ أَشَائُ لَتَعَاطَیْتُ بَعْضَ أَغْصَانِہَا وَعُرِضَتْ عَلَیَّ النَّارُ حَتّٰی اِنِّی لَأُطْفِئُہَا خَشْیَۃَ أَنْ تَغْشَاکُمْ، وَرَأَیْتُ فِیْہَا امْرَأَۃً مِنْ حِمْیَرَ سَوْدَائَ طُوَالَۃً تُعَذَّبُ بِہِرَّۃٍ لَھَا تَرْبِطُھَا فَلَمْ تُطْعِمْہَا وَلَمْ تَسْقِہَا وَلَا تَدَعْہَا تَأْکُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ کُلَّمَا أَقْبَلَتْ نَہَشَتْہَا، وَکُلَّمَا أَدْبَرَتْ نَھَشَتْہَا وَرَأَیْتُ فِیْہَا أَخَابَنِی دَعْدَعٍ وَرَأَیْتُ صَاحِبَ الْمِحْجَنِ مُتَّکِئًا فِی النَّارِ عَلٰی مِحْجَنِہِ کَانَ یَسْرِقُ الْحَاجَّ بِمِحْجَنِہِ، فَاِذَا عَلِمُوا بِہِ قَالَ لَسْتُ أَنَا أَسْرِقُکُمْ، اِنَّمَا تَعَلَّقَ بِمِحْجَنِی۔)) (مسند احمد: ۶۴۸۳)

سیّدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں سورج کو گرہن لگ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، ہم بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کھڑے ہوگئے،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اتنا لمبا قیام کیاکہ ہمیں یہ گمان ہونے لگا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رکوع ہی نہیں کرنا، بالآخر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رکوع کیا اور قریب نہیں تھا کہ رکوع سے سر اٹھائیں، پھر سر اٹھایا اور سجدے میں گر گئے، قریب نہیں تھا کہ اس سے بھی سر اٹھاتے، بالآخر سر اٹھایا اور (جلسہ میں) بیٹھ گئے (اور اتنی دیر کے لیے بیٹھے رہے کہ) قریب نہیں تھا کہ دوسرا سجدہ کریں گے، پھر سجدہ کیا اور قریب نہیں تھا کہ سجدہ سے سر اٹھائیں گے، پھر دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح ادا کی، جب دوسری رکعت کا سجدہ کر رہے تھے تو زمین میں پھونکنا اور رونا شروع کر دیا اور یہ کہنا شروع کر دیا: اے رب! تو ان کو عذاب کیوں دے رہا ہے، حالانکہ میں ان میں موجود ہوں، اے رب! تو ہمیں عذاب کیوں دیتا ہے، حالانکہ ہم تجھ سے بخشش طلب کر رہے ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور سورج صاف ہوچکا تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز مکمل کرنے کے بعد اللہ کی حمدو ثنا بیان کی اور فرمایا: اے لوگو! بے شک سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، پس جب تم ان میں سے کسی کو بے نور ہوتا دیکھو تو ڈر کر مساجد کی طرف پناہ لو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!تحقیق میرے اوپر جنت پیش کی گئی (اور اتنی قریب کی گئی کہ) اگر میں چاہتا تو اس کی ٹہنی کو پکڑ لیتااورمجھ پر آگ کو بھی پیش کیا گیا (اور اتنا قریب کیا گیا کہ) اس ڈر سے میں اس کو بجھا رہا تھا کہ وہ کہیں تم کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔میں نے اس میں حمیر قبیلے کی ایک سیاہ رنگ کی طویل عورت دیکھی،اس کوایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا جا رہا تھا، اس نے اس کو باندھ دیا تھا، نہ اس کو خود کھلاتی پلاتی تھی اور نہ اس کو چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے حشرات وغیرہ کھا سکے، (عذاب کی کیفیت یہ تھی کہ) وہ جب آگے کی طرف آتی تو وہ بلی اس کو (سامنے سے) نوچتی اور جب وہ واپس جاتی تو وہ اس کو (پیچھے سے) نوچتی، میں نے آگ میں بنو دعدع کے ایک فرد کو بھی دیکھا اور اس میں لاٹھی والے کو بھی دیکھا، وہ آگ میں اپنی لاٹھی پر ٹیک لگائے ہوئے تھا، (اس کا جرم یہ تھا کہ) وہ اپنی لاٹھی کے ساتھ حاجیوں کی چوری کیا کرتا تھا، پس جب لوگوں کو اس کا پتہ لگ جاتا تو وہ کہتا: میں چوری تو نہیں کر رہا، ویسے یہ چیز لاٹھی کے ساتھ لٹک گئی ہے۔

Haidth Number: 2896
۔ (اور اتنی دیر کے لیے بیٹھے رہے کہ) قریب نہیں تھا کہ دوسرا سجدہ کریں گے، پھر سجدہ کیا اور قریب نہیں تھا کہ سجدہ سے سر اٹھائیں گے، پھر دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح ادا کی، جب دوسری رکعت کا سجدہ کر رہے تھے تو زمین میں پھونکنا اور رونا شروع کر دیا اور یہ کہنا شروع کر دیا: اے رب! تو ان کو عذاب کیوں دے رہا ہے، حالانکہ میں ان میں موجود ہوں، اے رب! تو ہمیں عذاب کیوں دیتا ہے، حالانکہ ہم تجھ سے بخشش طلب کر رہے ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور سورج صاف ہوچکا تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز مکمل کرنے کے بعد اللہ کی حمدو ثنا بیان کی اور فرمایا: اے لوگو! بے شک سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، پس جب تم ان میں سے کسی کو بے نور ہوتا دیکھو تو ڈر کر مساجد کی طرف پناہ لو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!تحقیق میرے اوپر جنت پیش کی گئی (اور اتنی قریب کی گئی کہ) اگر میں چاہتا تو اس کی ٹہنی کو پکڑ لیتااورمجھ پر آگ کو بھی پیش کیا گیا (اور اتنا قریب کیا گیا کہ) اس ڈر سے میں اس کو بجھا رہا تھا کہ وہ کہیں تم کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔میں نے اس میں حمیر قبیلے کی ایک سیاہ رنگ کی طویل عورت دیکھی،اس کوایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا جا رہا تھا، اس نے اس کو باندھ دیا تھا، نہ اس کو خود کھلاتی پلاتی تھی اور نہ اس کو چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے حشرات وغیرہ کھا سکے، (عذاب کی کیفیت یہ تھی کہ) وہ جب آگے کی طرف آتی تو وہ بلی اس کو (سامنے سے) نوچتی اور جب وہ واپس جاتی تو وہ اس کو (پیچھے سے) نوچتی، میں نے آگ میں بنو دعدع کے ایک فرد کو بھی دیکھا اور اس میں لاٹھی والے کو بھی دیکھا، وہ آگ میں اپنی لاٹھی پر ٹیک لگائے ہوئے تھا، (اس کا جرم یہ تھا کہ) وہ اپنی لاٹھی کے ساتھ حاجیوں کی چوری کیا کرتا تھا، پس جب لوگوں کو اس کا پتہ لگ جاتا تو وہ کہتا: میں چوری تو نہیں کر رہا، ویسے یہ چیز لاٹھی کے ساتھ لٹک گئی ہے۔

Haidth Number: 2897
سیّدنا نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سورج گرہن کے موقع پر تمہاری نماز کی طرح کی نماز پڑھی کہ اس میں رکوع اور سجدہ بھی کیا۔

Haidth Number: 2898
(دوسری سند)وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں سورج بے نور ہوگیا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز پڑھائی اور اس میں رکوع و سجود کیے، حجاج نے کہا: وہ ہماری نمازکی طرح ہی تھی۔

Haidth Number: 2899

۔ (۲۹۰۰) عَنْ ثَعْلَبَۃَ بْنِ عَبَّادٍ الْعَبْدِیِّ مِنْ أَھْلِ الْبَصْرَۃِ قَالَ: شَہِدْتُ یَوْمًا خُطْبَۃً لِسَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَذَکَرَ فِی خُطْبَتِہِ حَدِیْثًا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: بَیْنَا أَنَا وَغُلَامٌ مِنَ الْأَنْصَارِ نَرْمِیْ فِی غَرَضَیْنِ لَنَا عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی اِذَا کَانَتِ الشَّمْسُ قِیْدَ رُمْحَیْنِ أَوْ ثَـلَاثَۃٍ فِی عَیْنِ النَّاظِرِ اِسْوَدَّتْ حَتّٰی آضَتْ کَأَنَّہَا تَنُّوْمَۃٌ، قَالَ: فَقَالَ أَحَدُنَا لِصَاحِبِہِ: اِنْطَلِقْ بِنَا اِلَی الْمَسْجِدِ فَوَاللّٰہِ! لَیُحْدِثَنَّ شَأْنُ ھٰذِہِ الشَّمْسِ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی أُمَّتِہِ حَدَثًا، قَالَ: فَدَفَعْنَا اِلَی الْمَسْجِدِ فَاِذَا ھُوَ بَارِزٌ قَالَ: وَوَافَقْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِیْنَ خَرَجَ اِلَی النَّاسِ فَاسْتَقْدَمَ فَقَامَ بِنَا کَأَطْوَلِ مَا قَامَ بِنَا فِی صَلَاۃٍ قَطُّ لَانَسْمَعُ لَہُ صَوْتًا ثُمَّ رَکَعَ کَا طْوَلِ مَا رَکَعَ بِنَا فِی صَلَاۃٍ قَطُّ لَا نَسْمَعُ لَہُ صَوْتًا، ثُمَّ فَعَلَ فِی الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ مِثْلَ ذٰلِکَ فَوَافَقَ تَجَلِّی الشَّمْسِ جُلُوْسَہُ فِی الرَّکْعَۃِ الثَّانِیَۃِ، قَالَ زُھَیْرٌ (أَحد الرواۃ): حَسِبْتُہُ، قَالَ: فَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ وَشَہِدَ أَنَّہُ عَبْدُاللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ، ثُمَّ قَالَ: ((أَیُّہَا النَّاسُ! أَنْشُدُکُمْ بِاللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَنِّی قَصَّرْتُ عَنْ شَیْئٍ مِنْ تَبْلِیْغِ رِسَالَاتِ رَبِّی عَزَّوَجَلَّ لَمَا أَخْبَرْتُمُوْنِی ذَاکَ، فَبَلَّغْتُ رِسَالَاتِ رَبِّی کَمَا یَنْبَغِی لَھَا أَنْ تُبَلَّغَ، وَاِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَنِّی بَلَّغْتُ رِسَالَاتِ رَبِّی لَمَا أَخْبَرْتُمُوْنِی ذَاکَ۔)) قَالَ: فَقَامَ رِجَالٌ فَقَالُوا: نَشْھَدُ أَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ رِسَالَاتِ رَبِّکَ وَنَصَحْتَ لِأُمَّتِکَ وَقَضَیْتَ الَّذِی عَلَیْکَ ثُمَّ سَکَتُوْا۔ ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ رِجَالًا یَزْعُمُوْنَ أَنَّ کُسُوْفَ ھٰذِہِ الشَّمْسِ وَکُسُوْفَ ھٰذَا الْقَمَرِ وَزَوَالَ ھٰذِہِ النُّجُوْمِ عَنْ مَطَالِعِہَا لِمَوْتِ رِجَالٍ عُظَمَائَ مِنْ أَھْلِ الْأَرْضِ وَاِنَّہُمْ قَدْ کَذَبُوا، وَلٰکِنَّہَا آیَاتٌ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ یَعْتَبِرُ بِھَا عِبَادُہُ فَیَنْظُرُ مَنْ یُحْدِثُ لَہُ مِنْہُمْ تَوْبَۃً، وَاَیْمُ اللّٰہِ! لَقَدْ رَأَیْتُ مُنْذُ قُمْتُ أُصَلِّیْ مَا أَنْتُمْ لَاقُوْنَ فِی أَمْرِ دُنْیَاکُمْ وَآخِرَتِکُمْ وَاِنَّہُ وَاللّٰہِ! لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَخْرُجَ ثَـلَاثُوْنَ کَذَّابًا، آخِرُھُمْ الْأَعْوَرُ الدَّجَّالُ مَمْسُوْحُ الْعَیْنِ الْیُسْرٰی کَأَنَّہَا عَیْنُ أَبِی یَحْیٰی لِشَیْخٍ حِیْنَئِذٍ مِنَ الْأَنْصَارِ بَیْنَہُ وَبَیْنَ حُجْرَۃِ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، وَاِنَّہُ مَتٰی یَخْرُجُ أَوْ قَالَ مَتٰی مَا یَخْرُجُ فَاِنَّہُ سَوْفَ یَزْعُمُ أَنَّہُ اللّٰہُ، فَمَنْ آمَنَ بِہِ وَصَدَّقَہُ وَاتَّبَعَہُ لَمْ یَنْفَعْہُ صَالِحٌ مِنْ عَمَلِہِ سَبَقَ، وَمَنْ کَفَرَ بِہِ وَکَذَّبَہُ لَمْ یُعَاقَبْ بِشَیْئٍ مِنْ عَمَلِہِ (وَفِی رِوَایَۃٍ: بِشَیْئٍ مِنْ عَمَلِہِ سَلَفَ) وَاِنَّہُ سَیَظْہَرُ أَوْ قَالَ سَوْفَ یَظْہَرُ عَلَی الْأَرْضِ کُلِّہَا اِلَّا الْحَرَمَ وَبَیْتَ الْمَقْدِسِ وَاِنَّہُ یَحْصُرُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی بَیْتِ الْمَقْدِسِ فَیُزَلْزَلُوْنَ زِلْزَالاً شَدِیْدًا ثُمَّ یُہْلِکُہُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَجُنُوْدَہُ حَتّٰی اِنَّ جِذْمَ الْحَائِطِ أَوْ قَالَ أَصْلَ الْحَائِطِ، وَقَالَ حَسَنُ الْأَشْیَبُ وَأَصْلَ الشَّجَرَۃِ لَیُنَادِیْ أَوْ قَالَ یَقُوْلُ: یَامُؤْمِنُ! أَوْ قَالَ یَا مُسْلِمُ! ھٰذَا یَھُوْدِیٌّ أَوْ قَالَ ھٰذَا کَافِرٌ تَعَالَ فَاقْتُلْہُ قَالَ وَلَنْ یَکُوْنَ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ حَتّٰی تَرَوْا أُمُوْرًا یَتَفَاقَمُ شَأْنُہَا فِی أَنْفُسِکُمْ وَتَسَائَلُوْنَ بَیْنَکُمْ ھَلْ کَانَ نَبِیُّکُمْ ذَکَرَ لَکُمْ مِنْہَا ذِکْرًا، وَحَتّٰی تَزُوْلَ جِبَالٌ عَنْ مَرَاتِبِہَا ثُمَّ عَلٰی أَثَرِ ذٰلِکَ الْقَبْضُ ثُمَّ شَہِدْتُ خُطْبَۃً لِسَمُرَۃَ ذَکَرَ فِیْھَا ھٰذَا الْحَدِیْثَ، فَمَا قَدَّمَ کَلِمَۃً وَلَا أَخَّرَھَا عَنْ مَوْضِعِھَا۔ (مسند احمد: ۲۰۴۴۰)

ثعلبہ بن عباد عبدی، جو اہل بصرہ میں سے تھے، کہتے ہیں: میں ایک دن سیّدنا سمرۃ بن جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے خطبے میں حاضر تھا، انہوں نے اس خطبے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک حدیث بیان کرتے ہوئے کہا: میں اور ایک انصاری لڑکا عہد ِ نبوی میں دو نشانوں کے درمیان تیر پھینک رہے تھے، جب سورج دیکھنے والے کی نظر میں دو تین نیزے بلند ہوا تو وہ کالا ہونا شروع ہو گیا اور (سیاہ رنگ کا پھل) تنومہ کی طرح ہو گیا، ہم میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا: مسجد کی طرف چلیے، اللہ کی قسم! سورج کی یہ کیفیت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے اس امت میں کوئی نیا حکم پیدا کرے گی، پس ہم مسجد کی طرف بھاگے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واقعی باہر آئے ہوئے تھے، پھر جب آپ لوگوں کے پاس آئے تو آگے بڑھے اور (نماز شروع کر دی) اور اتنا لمبا قیام کروایاکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کسی نماز میں کبھی بھی ایسی طوالت اختیار نہیں کی تھی، ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آواز نہیں سن رہے تھے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انتہائی لمبا رکوع کیا کہ کبھی بھی ہمیں ایسا رکوع نہیں کروایا تھا، ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آواز نہیں سن رہے تھے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوسری رکعت میں بھی ایسے ہی کیا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دوسری رکعت کے بعد بیٹھے تو سورج بھی صاف ہو گیا تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سلام پھیرا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور یہ شہادت دی کہ آپ خود اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے لوگو! میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ اگر تم جانتے ہو کہ میں نے رب تعالیٰ کے پیغامات کو پہنچانے میں کوئی کمی کی ہے تو تم مجھ کو اس کی خبر دو گے، (میں خود تو یہ کہتا ہوں کہ) میں اپنے رب کے پیغامات کے اس طرح پہنچا دئیے، جس طرح پہنچانے کا حق تھا، بہرحال اگر تم جانتے ہو کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے پیغامات پہنچا دیئے ہیں تو تم مجھے اس کی خبر دو۔ کچھ لوگ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دئیے ہیں اور آپ نے اپنی امت کی خیر خواہی کردی ہے اور جو حق آپ پر تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے ادا کر دیا ہے، پھر وہ خاموش ہوگئے۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:حمد و ثناء کے بعد، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سورج اور چاند کا بے نور ہو جانا اور ستاروں کا اپنے مقام سے ہٹ جانااہل زمین میں سے کسی بڑے آدمی کی موت کی وجہ سے ہوتا ہے، یہ لوگ جھوٹے ہیں،یہ تو اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں،وہ ان کے ذریعے اپنے بندوں کا امتحان لیتاہے اور پھر وہ دیکھتاہے کہ ان میں سے کون اس موقع پر توبہ کرتا ہے۔ اللہ کی قسم! جب میں اس نماز میں کھڑا ہوا تو میں نے وہ سارا کچھ دیکھ لیا جس کو تم دنیا و آخرت میں ملنے والے ہو۔اللہ کی قسم! اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی ، جب تک تیس کذاب نہ نکل آئیں، ان میں سے آخری دجال ہوگا، جو کانا ہو گا اور جس کی بائیں آنکھ مٹی ہوئی ہوگی، گویا کہ وہ ابویحیی کی آنکھ ہے۔ یہ ایک انصاری شیخ تھا جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اور سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے حجرے کے درمیان بیٹھا ہوا تھا۔ جب وہ دجال نکلے گا تو وہ یہ دعوی کرے گا کہ وہی اللہ ہے، پس جو شخص اس کے ساتھ ایمان لائے گا،اس کی تصدیق کرے گا اور اس کی پیروی کرے گا تو سابقہ نیک اعمال بھی اسے کوئی فائدہ نہیں دیں گے، (یعنی اس کے اعمال صالحہ ضائع ہو جائیں گے)۔اور جس نے اس کے ساتھ کفر کیا اور اس کی تکذیب کردی تواس کا اس کے سابقہ (برے) اعمال کی وجہ مؤاخذہ نہیں ہو گا، (یعنی اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جائیں گے)۔ بے شک وہ دجال ساری زمین پر غالب آجائے گا، ما سوائے حرم اور بیت المقدس کے، وہ مومنوں کو بیت المقدس میں محصور کردے گا اور ان کو انتہائی سختی سے ہلا دیا جائے گا، (یعنی وہ اِس کی وجہ سے سخت گھبراہٹ، تنگی اور پریشانی میں ہوں گے)۔ پھر اللہ اس کو اور اس کے لشکروں کو ہلاک کردے گا، حتیٰ کہ دیوار کی بنیاد یا درخت کا بنیادی تناپکار پکار کر کہے گا: او مومن! او مسلمان! یہ یہودی (چھپا ہوا) ہے، یہ کافر ہے، ادھر آ اور اس کو قتل کر دے۔ لیکن یاد رکھو کہ دجال والا یہ معاملہ اس وقت تک نہیں ہو گا، جب تلک تم بڑے بڑے امور نہ دیکھ لو گے اور جن کے وقوع پذیر ہونے کے بعد تم آپس میں سوال کرو گے کہ کیا تمہارے نبی ان کا کوئی ذکر کیا تھا، بطور مثال پہاڑ اپنی جگہوں سے سرک جائیں گے، پھر اس کے بعد قیامت بپا ہوجائے گی۔

Haidth Number: 2900
سیّدنا ابوبکرۃ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں سورج کو گرہن لگ گیا، آپ کھڑے ہوئے اور کپڑا گھسیٹتے ہوئے جلدی جلدی مسجد پہنچے اور لوگ بھی لگاتار جمع ہونا شروع ہو گئے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو رکعت نماز پڑھائی اور سورج کا گرہن ختم ہوگیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: بے شک سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں،وہ ان کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، یہ کسی کی موت کی وجہ سے بے نور نہیں ہوتے۔ اس دن دراصل آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا بیٹا(ابراہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) فوت ہوا تھا۔ پس جب تم ان میں اس قسم کی چیز دیکھو تو نماز پڑھو اور دعا کرو، حتیٰ کہ وہ چیز ختم ہو جائے، جس میں تم مبتلا ہو۔

Haidth Number: 2901
سیّدنا قبیصہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: سورج کو گرہن لگ گیا، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لائے اور دو رکعت نماز پڑھائی اور ان میں قراء ت کو لمبا کیا، اتنے میں سورج صاف ہوگیا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، وہ ان کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتاہے، پس جب تم اس چیز کو دیکھو تو جو تم نے تازہ تازہ فرض نماز پڑھی ہے، اس کی طرح کی نماز پڑھو۔

Haidth Number: 2902

۔ (۲۹۳۱) عَنْ حُمَیْدٍ قَالَ: سُئِلَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ھَلْ کَانَ النَّبِیُُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَرْفَعُ یَدَیْہِ؟ فَقَالَ: قِیْلَ لَہُ یَوْمَ جُمُعَۃٍ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَحِطَ الْمَطَرُ، وَأَجْدَبَتِ الْأَرْضُ، وَھَلَکَ الْمَالُ، قَالَ فَرَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی رَأَیْتُ بَیَاضَ اِبْطَیْہِ فَاسْتَسْقٰی، وَلَقَدْ رَفَعَ یَدَیْہِ وَمَا نَرٰی فِی السَّمَائِ سَحَابَۃً، فَمَا قَضَیْنَا الصَّلَاۃَ حَتَّی اِنَّ قَرِیْبَ الدَّارِ الشَّابَّ لَیُہِمُّہُ الرُّجُوعُ اِلٰی أَھْلِہِ، قَالَ: فَلَمَّا کَانَتِ الْجُمُعَۃُ الَّتِی تَلِیْہَا، قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! تَہَدَّمَتِ الْبُیُوْتُ وَاحْتَبَسَتِ الرُّکْبَانُ، فَتَبَسَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ سُرْعَۃِ مَلَالَۃِ ابْنِ آدَمَ، وَقَالَ: ((اَللّٰھُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا۔)) فَتَکَشَّطَتْ (وَفِی لفظٍ فَتَکَشَّفَتْ) عَنِ الْمَدِیْنَۃِ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۴۲)

سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے سوال کیا گیا کہ کیا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (دعا کے لیے) اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے؟ انھوں نے کہا: کسی نے جمعہ کے دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول ! بارش کا قحط پڑ گیا ہے،زمین خشک ہو گئی ہے اور مال مویشی ہلاک ہو رہے ہیں۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے، حتیٰ کہ میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بارش کے لیے دعا مانگی۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے تھے تو آسمان میں کوئی بادل نظر نہیں آ رہا تھا، لیکن ابھی تک ہم نے نماز پوری نہیں کی تھی کہ (اتنی زیادہ بارش ہوئی کہ) قریب گھر والے نوجوان کے لیے بھی اپنے گھر کو لوٹنا مشکل ہوگیا۔ جب اس کے بعد والا جمعہ آیا تو لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! گھر گرنے لگ گئے ہیں اورقافلے رک گئے ہیں، یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آدم کے بیٹے کے جلدی اُکتا جانے پر مسکرانے لگے اور کہا: اَللّٰھُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا۔ یعنی: اے اللہ! ہمارے ارد گرد بارش برسا ، نہ کہ ہمارے اوپر۔ پس مدینہ منورہ سے بادل ہٹ گئے۔

Haidth Number: 2931
(دوسری سند)ثابت کہتے ہیں: سیّدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں جمعہ کے دن منبر کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، مسجد والوں میں سے کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! بارش روک دی گئی ہے، … …۔ پھر سابقہ حدیث کی طرح بیان کی۔

Haidth Number: 2932

۔ (۲۹۳۳)(وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ) عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَجُلًا نَادٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی یَوْمِ الْجُمُعَۃِ وَھُوَ یَخْطُبُ النَّاسَ بِالْمَدِیْنَۃِ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَحَطَ الْمَطَرُ وَأَمْحَلَتِ الْأَرْضُ وَقَحَطَ النَّاسُ، فَاسْتَسْقِ لَنَا رَبَّکَ، فَنَظَرَ النَّبِیُُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلَی السَّمَائِ وَمَا نَرٰی کَثِیْرَ سَحَابٍ فَاسْتَسْقٰی فَنَشَأَ السَّحَابُ بَعْضُہُ اِلٰی بَعْضِ، ثُمَّ مُطِرُوا حَتّٰی سَالَتْ مَثَاعِبُ الْمَدِیْنَۃِ، وَاطَّرَدَتْ طُرُقُہَا أَنْہَارًا، فَمَا زَالَتْ کَذٰلِکَ اِلٰی یَوْمِ الْجُمُعَۃِ الْمُقْبِلَۃِ مَا تُقْلِعُ، ثُمَّ قَامَ ذٰلِکَ الرَّجُلُ أَوْ غَیْرُہُ، وَنَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَخْطُبُ، فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! اُدْعَ اللّٰہَ أَنْ یَحْبِسَہَا عَنَّا، فَضَحِکَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ قَالَ: ((اَللّٰہُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا۔)) فَدَعَا رَبَّہُ فَجَعَلَ السَّحَابُ یَتَصَدَّعُ عَنِ الْمَدِیْنَۃِ یَمِیْنًا وَشِمَا لًا یُمْطِرُ مَا حَوْلَھَا وَلَا یُمْطِرُ فِیْہَا شَیْئًا۔ (مسند احمد: ۱۳۷۷۹)

(تیسری سند)سیّدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جمعہ کے دن ایک آدمی نے رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو آواز دی، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ میں لوگوں کو خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، اور کہا: اے اللہ کے رسول! بارش رک گئی ہے،زمین نباتات سے خالی ہوگئی ہے اور لوگ قحط زدہ ہو گئے ہیں، اس لیے آپ ہمارے لیے اپنے رب سے بارش کی دعا کریں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آسمان کی طرف دیکھا، ہم کوئی زیادہ بادل نہیں دیکھ رہے تھے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دعا کی اوربادل منشتر اور زیادہ ہونے لگے، پھر بارش برسنا شروع ہوئی،مدینہ کے ندی نالے بہنے لگے اور اس کے راستے نہروں کی طرح چلنے لگے، اگلے جمعہ تک بارش اسی طرح ہوتی رہی اور نہ رکی ۔ (اگلے جمعہ میں) وہی یا کوئی اور آدمی کھڑا ہوا، جبکہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، اوراس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہم سے بارش کو روک دے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرا پڑے اور یہ دعا کی: اے اللہ! ہمارے ارد گرد (بارش برسا)، نہ کہ ہم پر ۔جونہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے رب سے دعا کی، بادل پھٹ کر مدینے سے دائیں اور بائیں ہونے لگ گئے اور مدینے کے ارد گرد بارش برسانے لگ گئے اور جبکہ مدینہ میں کوئی بارش نہیں ہو رہی تھی۔

Haidth Number: 2933
(چوتھی سند)سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہو گئے، جمعہ کے دن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، اتنے میں ایک خانہ بدوش آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول!مویشی ہلاک ہو گئے ہیںاور اہل و عیال بھوکے ہیں، اس لیے آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں پانی پلائے، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے (اور دعا کی)، جبکہ آسمان میں بادل کا ٹکڑا بھی نظر نہیں آ رہا تھا، پھر تو پہاڑوں کی طرح بادل جمع ہو گئے اور ابھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر سے نہیں اترے تھے کہ ہم نے بارش کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی داڑھی مبارک پر گرتے ہوئے دیکھا۔ (پھر بقیہ حدیث بیان کی)۔

Haidth Number: 2934

۔ (۲۹۳۵) عَنْ شُرَحْبِیْلِ بْنِ السِّمْطِ أَنَّہُ قَالَ لِکَعْبِ بْنِ مُرَّۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: یَا کَعْبُ بْنَ مُرَّۃَ! حَدِّثْنَا عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاحْذَرْ۔ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ وَجَائَ ہُ رَجُلٌ فَقَالَ: اِسْتَسْقِ اللّٰہَ لِمُضَرَ، فَقَالَ: ((اِنَّکَ لَجَرِیئٌ، أَلِمُضَرَ؟)) قَالَ: یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ! اِسْتَنْصَرْتَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ فَنَصَرَکَ وَدَعَوْتَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ فَأَجَابَکَ۔ قَالَ: فَرَفَعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَدَیْہِ یَقُوْلُ: ((اَللّٰہُمَّ اسْقِنَا غَیْثَا مُغِیْثًا مُرِیْعًا مَرِیْئًا طَبَقًا غَدَقًا عَاجِلًا غَیْرَ رَائِثٍ، نَافِعًا غَیْرَ ضَارٍّ۔)) قَالَ: فَأُجِیْبُوا، قَالَ: فَمَا لَبِثُو أَنْ أَتوْہُ فَشَکَوْا اِلَیْہِ کَثْرَۃَ الْمَطَرِ، فَقَالُوا: قَدْ تَہَدَّمَتِ الْبُیُوْتُ، قَالَ: فَرَفَعَ یَدِیْہِ وَقَالَ: ((اَللّٰہُمَّ حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا۔)) قَالَ: فَجَعَلَ السَّحَابُ یَتَقَطَّعُ یَمِیْنًا وَشِمَالًا۔ (مسند احمد: ۱۸۲۳۴)

شرجیل بن سمط نے سیّدنا کعب بن مرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے کعب بن مرۃ! ہمیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کوئی حدیث بیان کرو اور احتیاط کرنا، انھوں نے کہا: میں سن رہا تھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: مضر قبیلے کے لیے اللہ سے بارش کی دعا کیجیے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو تو بڑا جرأت مند ہے، کیا مضر کے لیے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ! آپ نے اللہ سے مدد مانگی تو اس نے آپ کی مدد کی اور آپ نے اللہ سے دعا کی تو اس نے قبول کی، (لہٰذا اب کی بار بھی دعا کر دیں)۔ پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی: اے اللہ! ہم پر ایسی بارش برسا، جو سختی و پریشانی کو دور کرنے والی ،زمین کو سر سبز کرنے والی اور اچھے انجام والی ہو اور وہ عام بارش ہو اور زیادہ پانی والی ہو، وہ جلدی آنے والی ہو، دیر کرنے والی نہ ہو، نفع دینے والی ہو، نقصان دینے والی نہ ہو۔ پس لوگوں کا مطالبہ پورا ہو گیا اور وہ جلدی ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس (دوبارہ) پہنچے اور بارش کی کثرت کی شکایت کرتے ہوئے کہنے لگے: گھر گرنے لگ گئے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی: اے اللہ! ہمارے ارد گرد برسا، نہ کہ ہم پر۔ بادل پھٹ کر دائیں بائیں ہونا شروع ہو گئے۔

Haidth Number: 2935
سیّدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو سلیم کے ایک علاقہ ذی قرد،، میں نمازِ خوف ادا کی، لوگوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اقتداء میں دو صفیں بنا ئیں، ایک صف دشمن کے سامنے رہی اور ایک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے کھڑی ہو گئی، جو صف آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو ایک رکعت پڑھائی، پھر یہ لوگ دوسروں کی جگہ پر چلے گئے اور وہ اِن کی جگہ پر آ گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے (بقیہ) ایک رکعت ان کو پڑھائی۔ ایک روایت میں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دو اور ہر گروہ کی ایک ایک رکعت ہوئی۔

Haidth Number: 2957
سیّدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں نمازِ خوف پڑھائی، (اس کی کیفیت یہ تھی کہ) ایک صف آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے آگے کھڑی ہوگئی اور ایک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پیچھے والوں کو دو سجدوں سمیت ایک رکعت پڑھائی، پھر وہ آگے بڑھے اور دوسرے گروہ کی جگہ پر کھڑے ہو گئے اور وہ آئے اور اِن کی جگہ پر (آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے) کھڑے ہو گئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو دو سجدوں سمیت ایک رکعت پڑھائی اور پھر سلام پھیر دیا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دو رکعتیں تھیں اور ان کی ایک ایک۔

Haidth Number: 2958

۔ (۲۹۵۹) عَنْ أَبِی ہُرَْیرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَزَلَ بَیْنَ ضَجْنَانَِ وَعُسْفَانَ فَقَالَ الْمُشْرِکُوْنَ: إِنَّ لَہُمْ صَلَاۃً ہِیَ أَحَبُّ إِلَیْہِمْ مِنْ آبَائِہِمْ وَاَبْنَائِہِمْ وَہِیَ الْعََصْرُ، فَأَجْمِعُوْا أَمْرَکُمْ فَمِیْلُوْا عَلَیْہِمْ مَیْلَۃً وَاحِدَۃً، وَأِنَّ جِبْرِیْلَ علیہ السلام أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَمَرَہُ أَنْ یَقْسِمَ أَصْحَابَہٗ شَطْرَیْنِ فَیُصَلِّیَ بِبَعْضِہِمْ، وَتَقُوْمُ الطَّائِفَۃُ اْلأُخْرٰی وَرَائَ ہُمْ، وَلْیَأْخُذُوا حِذْرَہُمْ وَأَسْلِحَتَہُمْ، ثُمَّ تَأْتِیْ الأُخْرَی فَیُصَلُّوْنَ مَعَہُ وَیَأْخُذُ ہٰؤُلَائِ حِذْرَہُمْ وَأَسْلِحَتَہُمْ لِتَکُوْنَ لَہُمْ رَکْعَۃٌ رَکْعَۃٌ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَکْعَتَانِ۔ (مسند احمد: ۱۰۷۷۵)

ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ضجنان اور عسفان کے درمیان پڑاؤ ڈالا۔ مشرکین نے کہا:مسلمانوں کو عصر کی نماز اپنے آباء و اجداد اور اولادسے بھی بڑھ کر محبوب ہے۔ تیاری مکمل کر لو، ان پر یکدم حملہ کرناہے۔ اُدھر جبریل علیہ السلام نے آ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حکم دیا کہ آپ اپنے صحابہ کر دو گروہوں میں تقسیم کر دیں، ایک گروہ کو نماز پڑھائیں اوردوسرا گروہ ان کے پیچھے اپنی بچاؤ کی چیزیں اور اسلحہ پکڑ کر کھڑا ہو جائے، پھر وہ دوسرا گروہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز پڑھے اور یہ گروہ اپنی بچاؤ کی چیزیں اور اسلحہ پکڑ لے، اس طرح لوگوں کی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک ایک رکعت ہو جائے گی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دو رکعتیں ہو جائیں گی۔

Haidth Number: 2959
سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی کسی تکلیف کی بنا پر موت کی تمنا نہ کرے، اگر کسی کا اس کے علاوہ اور کوئی چارۂ کار نہ ہو تو وہ یہ دعا کرے: اَللّٰہُمَّ أَحْیِنِی مَا کَانَتِ الْحَیَاۃُ خَیْرًا لِی، وَتَوَفَّنِی مَا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْرًا لِّیْ۔ (اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ، جب تک میرے لیے زندہ رہنا بہتر ہو اور اس وقت مجھے فوت کر دینا، جب میرے لیے فوت ہونا بہتر ہو۔)۔

Haidth Number: 2988