Blog
Books
Search Hadith

انبیاء کی نماز جنازہ مشروع ہونے اور شہداء کی یہ نماز غیر مشروع ہونے کا بیان

860 Hadiths Found
سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے شہدائے احد کو نماز جنازہ پڑھے بغیر دفن کر دیا تھا۔

Haidth Number: 3150
سیّدنا جابربن عبداللہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانے میں بنو عذرہ خاندان کا ایک آدمی رات کو فوت ہوا اور اسے رات کو ہی دفن کر دیا گیا، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رات کو دفن کرنے سے منع فرما دیا، جب تک اس کی نماز جنازہ ادا نہ کر لی جائے، الا یہ کہ لوگ (رات کو دفن) کرنے پر مجبور ہو جائیں۔

Haidth Number: 3263
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: ہمیں تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دفن ہو جانے کا اس وقت علم ہوا کہ جب نے بدھ والی رات کے آخری حصے میں بیلچوں وغیرہ کی آوازیں سنیں۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں: اَلْمَسَاحِیْ کا معنی بیلچہ ہے۔

Haidth Number: 3264
سیّدناعقبہ بن عامر جھنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ان تین اوقات میں نماز پڑھنے اور مردوں کو دفن کرنے سے منع فرمایا: (۱) جب سورج طلوع ہو رہا ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ بلند ہو جائے، (۲) جب دوپہر کے وقت کھڑا ہو جانے والا کھڑا ہو جائے، یہاں تک کہ سورج ڈھل جائے، اور (۳) جب سورج غروب ہونے کے لیے جھک جائے، یہاں تک کہ وہ غروب ہو جائے۔

Haidth Number: 3265
سیّدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسولV نے فرمایا: قبر میں کافر پر ننانوے ازدہا مسلط کر دیئے جاتے ہیں، جو قیامت کے قائم ہونے تک اسے ڈستے رہتے ہیں، (وہ اس قدر زہریلے ہیں کہ) اگر ان میں سے ایک ازدہا زمین پر پھونک مار دے تووہ سبزہ نہ اگا سکے۔

Haidth Number: 3312
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرم ایا: کافر پر دو سانپ چھوڑے جاتے ہیں، ایک سر کی طرف سے اور دوسرا پائوں کی طرف سے، دونوں اسے بار بار کاٹتے رہتے ہیں، جب وہ ایک دفعہ فارغ ہو جاتے ہیں تو دوبارہ لوٹ آتے ہیں، قیامت کے دن تک ایسے ہوتا رہتا ہے۔

Haidth Number: 3313
سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ایک دفعہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیّدناابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے کھجوروں کے باغ میں قضائے حاجت کے لیے گئے، سیّدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اکرام میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے، نہ کہ پہلو بہ پہلو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے اور وہاں ٹھہر گئے، یہاں تک سیّدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قریب آ گئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بلال! تم ہلاک ہو جاؤ، جو کچھ میں سن رہا ہوں، تم بھی سن رہے ہو؟ انھوں نے کہا: میں تو کچھ نہیں سن رہا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس قبر والے کو عذاب دیا جارہا ہے۔ پھر اس کے بارے میں جب پوچھا گیاتو وہ یہودی نکلا۔

Haidth Number: 3314
سیّدنا ابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غروبِ آفتاب کے بعد باہر تشریف لے گئے اور کوئی آواز سن کر فرمایا: یہودیوں کو قبروں میں عذاب دیا جا رہا ہے۔

Haidth Number: 3315
سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ لوگ قبرستان کی طرف جاتے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کو یہ دعا پڑھنے کی تعلیم دیتے تھے: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَہْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ، إِنَّا إِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ، أَنْتُمْ فَرَطُنَا وَنَحْنُ لَکُمْ تَبَعٌ، وَنَسْأَلُ اللّٰہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ۔ (اے ان گھروں والو مومنو اور مسلمانو!تم پر سلامتی ہو،ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں، تم ہم سے آگے ہو اور ہم تمہارے پیچھے پیچھے آرہے ہیں، ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے عافیت مانگتے ہیں۔)

Haidth Number: 3351
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک قبرستان میں تشریف لے گئے اور ان کو سلام کہتے ہوئے یہ دعا پڑھی: سَلَامٌ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِیْنَ! وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ۔(اس گھر کے صاحب ِ ایمان لوگو! تم پر سلامتی ہو، ان شاء اللہ ہم بھی تمہیں ملنے والے ہیں۔)

Haidth Number: 3352

۔ (۳۳۵۳) ثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ أَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللّٰہِ رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ، أَنَّہُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَیْسِ بْنِ مَخَرَمَۃَ بْنِ الْمُطَلَّبَ أَنَّہُ قَالَ یَوْمًا: أَلَا أَحَدِّثُکُمْ عَنِّیْ وَعَنْ أَمُیِّ ؟ فَظَنَنَّا أَنَّہٗ یُرِیْدُ أُمَّہُ الَّتِیْ وَلَدَتْہُ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : أَلَا اُحَدِّثُکُمْ عَنِّی وَعَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قُلْتُ: بَلٰی۔ قَالَ: قَالَتْ: لَمَّا کَانَتْ لَیْلَتِیَ الَّتِیْ کَانَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْہَا عِنْدِی، اِنْقَلَبَ، فَوَضَعَ رِدَائَہُ وَخَلَعَ نَعْلَیْہِ فَوَضَعَہُمَا عِنْدَ رِجْلَیْہِ وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِہِ عَلٰی فِرَاشِہِ فَاضْطَجَعَ، فَلَمْ یَلْبَثْ إِلَّا رَیْثَمَا ظَنَّ أَنِّیْ قَدْ رَقَدْتُّ فَأَخَذَ رِدَائَہُ رُوَیْدًا، وَانْتَعَل رُوَیْدًا وَفَتَحَ الْبَابَ فَخَرَجَ ثُمَّ أَجَافَہُ رُوَیْدًا، فَجَعَلْتُ دِرْعِیْ فِیْ رَأْسِی وَاخْتَمَرْتُ وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِی ثُمَّ انْطَلَقْتُ عَلٰی اَثَرِہِ حَتّٰی جَائَ الْبَقِیْعَ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِیَامَ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ ثَلَاثََ مَرَّاتٍ، ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ فَأَسْرَعَ فَاَسْرَعْتُ فَہَرْوَلَ فَہَرْوَلْتُ، فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ، فَسَبَقْتُہُ، فَدَخَلْتُ فَلَیْسَ إِلَّا أَنِِ اضْطَجَعْتُ فَدَخَل فَقَالَ: ((مَالَکِ یَا عَائِشَۃُ! حَشْیَا رَابِیَۃً؟)) قَالَتْ: قُلْتُ: لَا شَیْئَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: ((لَتُخْبِرِیْنِیْ أَوْ لَیُخْبِرَنِّیَ اللَّطِیْفُ الْخَبْیِرُ۔)) قَالَتْ:یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! بِاَبِی أَنْتَ وَ أُمِّی، فَأَخْبَرْتُہُ، قَالَ: ((فَأَنْتِ السَوَادُ الَّذِیْ رَأَیْتُ أَمَامِی؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، فَلَہَزَنِی فِیْ ظَہْرِیْ لَہْزَۃً أَوْجَعَتْنِیْ وَقَالَ: ((أَظَنَنْتِ أَنْ یَحِیْفَ عَلَیْکِ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ؟)) قَالَتْ: مَہْمَا یَکْتُمِ النَّاسُ یَعْلَمْہُ اللّٰہُ، قَالَ: ((نَعَمْ فَإِنَِّ جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ أَتَانِیْ حِیْنَ رَأَیْتِ فَنَادَانِیْ فَأَخْفَاہُ مِنْکِ فَأَجَبْتُہُ فَأخْفَیْتُہُ مِنْکِ، وَلَمْ یَکُنْ لِیَدْخُلَ عَلَیْکِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِیَابَکِ وَظَنَنْتُ أَنَّکِ قَدْ رَقَدْتِّ فَکَرِہْتُ أَنْ أُوْقِظَکِ وَخَشِیْتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِیْ، فَقَالَ: إِنَّ رَبَّکَ جَلَّ وَعَزَّ یَأْ مُرُکَ أَنْ تَأْتِیَ أَہْلَ الْبَقِیْعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَہُمْ۔)) قَالَتْ: فَکَیْفَ أَقُوْلُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!؟ فَقَالَ: ((قُوْلِیْ: اَلسَّلَامُ عَلٰی أَہْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِیْنَ، وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللّٰہُ لَلَاحِقُوْنَ۔)) (مسند احمد: ۲۶۳۸۰)

ایک دن محمد بن قیس نے کہا: کیا میں تمہیں اپنی اور اپنی والدہ سے ایک حدیث بیان نہ کر دوں؟ ہم نے سمجھا کہ اس کی مراد اس کی حقیقی والدہ ہے، پھر انہوں نے کہا: سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: کیا میں تمہیں اپنا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ایک واقعہ بیان کروں؟ میں نے عرض کیا: جی کیوں نہیں، پھر انھوں نے کہا: جب میری رات تھی جس میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (عشاء کے بعد) واپس تشریف لائے، چادر رکھی، جوتے اتار کر پائنتی کی طرف رکھ دیئے اور چادر کا ایک حصہ بستر پر بچھا کر لیٹ گئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کچھ دیر لیٹے رہے، (میرے خیال کے مطابق) جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سمجھا کہ میں سو گئی ہوں تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے آہستہ سے اپنی چادر اٹھائی، آرام سے جوتے پہنے اور دروازہ کھول کر باہر تشریف لے گئے اور آہستگی سے اسے بند کر دیا۔ اُدھر میں نے بھی اپنا دوپٹہ سنبھالا، سر پر رکھا، چادر اوڑھی، شلوار پہنی اور آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔میں نے دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بقیع قبرستان میں جا پہنچے، وہاں کافی دیر کھڑے رہے اور تین مرتبہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے، بعد ازاں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم واپس لوٹے اور میں بھی لوٹنے لگی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تیز تیز چلے تو میں نے بھی رفتار تیز کر دی، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کچھ دوڑے تو میں بھی دوڑنے لگی۔ پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مزید تیز ہو گئے تو میں بھی مزید تیز ہو گئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے آگے نکل گئی اور گھر پہنچ کر ابھی لیٹی ہی تھی کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی تشریف لے آئے اور فرمایا: عائشہ! کیا بات ہے، سانس پھولا ہوا ہے، پیٹ اٹھا ہوا ہے؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کوئی بات نہیں ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم خود ہی مجھے بتا دو، ورنہ باریک بیں اور باخبر ربّ مجھے بتلا دے گا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے والدین آپ پر قربان ہوں، پھرمیں نے سارا واقعہ آپ کو بیان کر دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو مجھے اپنے سامنے کالا سا وجود نظر آ رہا تھا، یہ تم تھی؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری کمر میں مکا مارا، جس سے مجھے تکلیف ہوئی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر زیادتی کریں گے؟ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا:لوگ جیسے مرضی چھپا لیں، لیکن اللہ تعالیٰ تو اسے جانتا ہی ہوتا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں،بات یہ تھی کہ جب تم نے مجھے دیکھا تھا اس وقت جبریل علیہ السلام نے آکر مجھے آواز دی اور آواز کو تم سے پوشیدہ رکھا، میں نے بھی اپنی آواز کو تم سے مخفی رکھتے ہوئے اس کی بات کا جواب دیا، وہ اس وقت تمہارے پاس تو آ نہیں سکتا تھا، کیونکہ تم نے کپڑے وغیرہ ایک طرف رکھے ہوئے تھے، جبکہ میں نے سمجھا تھا تم سو چکی ہو اورتمہیں جگانا بھی مناسب نہ سمجھا، تاکہ تم اکیلی پریشان نہ ہو جائو، جبریل علیہ السلام نے مجھے کہا: آپ کا ربّ آپ کو حکم دے رہا ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بقیع والوں کے پاس جا کر ان کے لیے بخشش کی دعا کریں، (اس لیے میں چلا گیا تھا)۔ پھر سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: میں نے عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول! میں کیسے دعا پڑھا کروں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم یوں کہا کرو: اَلسَّلَامُ عَلٰی أَہْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِیْنَ، وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللّٰہُ لَلَاحِقُوْنَ۔ (سلامتی ہو ان گھروں والے مومنوں اور مسلمانوں پر اور اللہ تعالیٰ ہم سے پہلے والوں اور بعد والوں پر رحم کرے اور ہم بھی ان شاء اللہ ملنے والے ہیں۔)

Haidth Number: 3353
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: ایک رات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اٹھ کر چل پڑے، میں نے سمجھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کسی اور بیوی کے پاس جا رہے ہیں، اس لیے میں بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے پیچھے چل پڑی، لیکن دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبرستان تشریف لے گئے اور (یہ دعا کرتے ہوئے) فرمایا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ وَأَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ وَإِنَّا بِکُمْ لَاحِقُوْنَ، اَللّٰہُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَہُمْ وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَہُمْ۔(اس گھر والے مومنو! تم پر سلامتی ہو، تم ہم سے آگے ہو اور ہم بھی تم کو ملنے والے ہیں، اے اللہ! ہمیں ان کے اجرسے محروم نہ کرنا اور ان کے بعد ہمیں کسی فتنے میں نہ ڈالنا۔) سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے طرف متوجہ ہوئے اور مجھے دیکھ کر کہا: یہ ہلاک ہو جائے، اگر اس کو یہ طاقت ہوتی تو یہ کام نہ کرتی۔

Haidth Number: 3354
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ بدر والے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کنویں (جس میں کفار کے مقتولوں کو پھینک دیا گیا تھا) کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا: او فلاں! اوفلاں! تمہارے رب نے تمہارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا کیا تم نے اسے درست پایا ہے؟ خبردار! اللہ کی قسم ہے کہ یہ لوگ اس وقت میرا کلام سن رہے ہیں۔ لیکن سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اللہ تعالیٰ ابو عبدالرحمن پر رحم فرمائے، وہ بھول گئے ہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ اب یہ جانتے ہیں کہ میں ان سے جو کچھ کہتا تھا، وہ حق تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بیشک تو مردوں کو نہیں سنا سکتا۔ نیز فرمایا: جو لوگ قبروں میں ہیں، توان کو نہیں سنا سکتا۔

Haidth Number: 3355
سیدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: پانچ اوقیوں سے کم چاندی پر کوئی زکوۃ نہیں، پانچ اونٹوں سے کم پر زکوۃ نہیں اور پانچ وسق سے کم کھجور پر کوئی زکوۃ نہیں۔

Haidth Number: 3382

۔ (۳۳۸۳) عَنْ قَزْعَۃَ وَقَدْ سَأَلَ أَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِیَّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَنْ أَشْیَائَ قَالَ وَسَأَلْتُہُ عَنِ الزَّکَاۃِ (لَا أَدْرِی أَرَفَعَہُ إِلٰی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَمْ لَا) فِی مَائَتَیْ دِرْہَمٍ خَمْسَۃُ دَرَاہِمَ، وَفِی أَرْبَعِیْنَ شَاۃً شَاۃٌ إِلٰی عِشْرِیْنَ وَمِائَۃٍ فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَۃٌ فَفِیْہَا شَاتَانِ إِلٰی مِائَیْتَنِْ فَإِذَا زَادَتْ فَفِیْہَا ثَلَاثُ شِیَاہٍ إِلٰی ثَلَاثِمِائَۃٍ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِی کُلِّ مِائَۃٍ شَاۃٌ،وَفِی الإِبِلِ فِی خَمْسٍ شَاۃٌ وَفِی عَشْرٍ شَاتَانِ وَفِی خَمْسَ عَشْرَۃَ ثَلَاثُ شِیَاہٍ، وَفِی عِشْرِیْنَ أَرْبَعُ شِیَاہٍ ،وَفِی خَمْسٍ وَعِشْرِیْنَ ابْنَۃُ مَخَاضٍ إِلٰی خَمْسٍ وَثَلَاثِیْنَ’ فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃٌ فَفِیْہَا ابْنَۃُ لَبُوْنٍ إِلٰی خَمْسٍ وَأَرْبَعِیْنَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃٌ فَفِیْہَا حِقَّۃٌ إِلٰی سِتِّیْنَ ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃٌ فَفِیْہَا جَذَعَۃٌ إِلٰی خَمْسٍ وَسَبْعِیْنَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃٌ فَفِیْھَا اِبْنَتَا لَبُوْنٍ إِلٰی تِسْعِیْنَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَۃٌ فَفِیْہَا حِقَّتَانِ إِلٰی عِشْرِیْنَ وَمِائَۃٍ فَإِذَا زَادَتْ فَفِی کُلِّ خَمْسِیْنَ حِقَّۃٌ، وَفِی کُلِّ أَرْبَعِیْنَ بِنْتُ لَبُوْنٍ۔ (مسند احمد: ۱۱۳۲۷)

قزعہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مختلف اشیاء میں زکوۃ کے بارے میں دریافت کیا، انہوں نے جواب تو دیا، لیکن مجھے یہ یاد نہیں کہ انہوں نے اس جواب کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف منسوب کیا تھا یا نہیں، بہرحال انھوں نے کہا: (۲۰۰)درہم چاندی میں پانچ درہم اور بکریوں میں (۴۰)سے (۱۲۰) تک ایک بکری زکوۃ ہے، (۱۲۰) سے ایک بھی بڑھ جائے تو (۲۰۰) تک دو بکریاں، (۲۰۰) سے زائد بکریاں ہو جائیں تو (۳۰۰) تک تین بکریاں اور اس کے بعد ہر (۱۰۰) میں ایک بکری زکوۃ ہو گی۔پانچ اونٹوں میں ایک بکری، دس میں دو، پندرہ میں تین، بیس میں چار بکریاں، (۲۵) سے (۳۵) تک ایک بنت ِ مخاض، (۳۶) سے (۴۵) تک ایک بنت ِ لبون، (۴۶) سے (۶۰) تک ایک حِقّہ، (۶۱) سے (۷۵) تک ایک جذعہ، (۷۶) سے (۹۰) تک دو عدد بنت ِ لبون اور (۹۱) سے (۱۲۰) تک دو عدد حِقّے زکوۃ ہو گی، اس کے بعد ہر (۵۰) میں ایک عدد حقّہ اور ہر (۴۰) میں ایک بنت ِ لبون کی زکوۃ فرض ہو گی۔

Haidth Number: 3383
سیدنامعاویہ بن حیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چرنے والے چالیس اونٹوں میں ایک بنت ِ لبون کی زکوۃ ہو گی، (زکوۃ سے بچنے کے لیے مشترک) اونٹوں کو الگ الگ نہیں کیا جائے گا، جو آدمی اجر وثواب کی نیت سے زکوۃ دے گا، اسے اس کا اجر ملے گا اور جو یہ ادا نہیں کرے گا، تو ہم خود اس سے (جبراً) وصول کریں گے اور (بطورِ جرمانہ) اس کے اونٹوں میں سے کچھ اونٹ بھی لیں گے، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے واجب حقوق میں سے ہے اور آلِ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے اس میں سے کچھ لینا حلال نہیں ہے۔

Haidth Number: 3384
سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اونٹوں میں زکوۃ ہے، بکریوں میں زکوۃ ہے، گایوں میں زکوۃ ہے اور گندم میں بھی زکوۃ ہے۔

Haidth Number: 3385
سیدنا معاذبن جبل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یمن کی طرف عامل بنا کر بھیجا اورمجھے حکم دیا کہ میں ہر بالغ ذمِّی سے ایک دینار یا اس کے برابر معافری کپڑا (بطورِ جزیہ) وصول کروں اور ہر چالیس گائیوں پر دو دانتا اور ہر تیس پر ایک سال کا بچھڑا یا بچھڑی بطورِ زکوۃ وصول کروں اور جن کھیتوں کو بارش کے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے، ان کی پیدا وار کا دسواں حصہ اور جن کو ڈول یا رہٹ کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے، ان کی پیداوار کا بیسواں حصہ زکوۃ لوں۔

Haidth Number: 3386
۔ سیدناابو سیارہ متعی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس شہد کی مکھیاں ہیں، ( یعنی میرے پاس شہد ہوتاہے۔)آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کا دسواں حصہ (بطورِ زکوۃ) ادا کیا کر۔ اس نے کہا: تو پھر آپ وہ علاقہ تو میرے لیے مختص کر دیں۔ چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ علاقہ اس کے لیے محفوظ کر دیا۔ عبد الرحمن راوی نے (حدیث کے الفاظ بیان کرتے ہوئے) کہا: آپ وہ پہاڑ میرے لیے خاص کر دیں، چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہ پہاڑ اس کے لیے مختص کر دیا۔

Haidth Number: 3422
۔ سیدناعبد اللہ بن عمرو بن العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مسلمانوں سے زکوٰۃ ان کے اپنے ٹھکانوں پر ہی وصول کی جائے۔

Haidth Number: 3439
۔ سیدناعبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: (زکوۃ کے معاملے میں) جَلَب ہے نہ جَنَب ، نیز مسلمانوں سے زکوۃ صرف ان کی رہائش گاہوں پر وصول کی جائے۔

Haidth Number: 3440
۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا بیان ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے گھر تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی نے آ کر دریافت کیا: اتنے مال کی زکوٰۃ کتنی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اتنی اتنی۔ اس نے کہا: تو پھر فلاں آدمی نے مجھ پر زیادتی کی اور مجھ سے زیادہ زکوۃ وصول کی۔ پھر جب انھوں نے پڑتال کی تو دیکھا کہ اس نے واقعی ایک صاع کی مقدار زیادتی کی تھی، پس نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب تمہارے حکمران تم پر اس سے بڑھ کر زیادتی کریں گے۔

Haidth Number: 3441
۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ماہِ رمضان آیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ماہِ رمضان شروع ہو چکا ہے، یہ ایک بابرکت مہینہ ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس ماہ کے روزے فرض کئے ہیں، اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے تمام دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو بھی قید کر دیا جاتا ہے، اس مہینے میں ایک ایسی رات ہے کہ وہ ایک ہزارمہینوں سے بھی افضل ہے، جو اس رات کی برکت سے محروم رہا، وہ محروم قرار پائے گا۔

Haidth Number: 3664
۔ عرفجہ کہتے ہیں: میں عتبہ بن فرقد کی مجلس میں موجود تھا، وہ ماہِ رمضان کے حوالے سے بیان کر رہے تھے، اتنے میں ایک صحابی تشریف لے آئے، جب عتبہ نے انہیں دیکھا تو وہ مرعوب ہو کر خاموش ہو گئے اور کہا: آپ ماہِ رمضان کے بارے میں بیان کریں، اس صحابی نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ماہِ رمضان میں جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو مقید کر دیا جاتا ہے اور اس ماہ ایک فرشتہ یہ آواز دیتا رہتا ہے: اے نیکی کے متلاشی! خوش ہو جا اور اے برائی کو چاہنے والے! اب تو باز آ جا، یہاں تک رمضان گزر جاتا ہے۔

Haidth Number: 3665
۔ سیدناعبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ویسے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے ہی سہی، لیکن جب ماہِ رمضان میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ملاقات جبریل علیہ السلام سے ہوتی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بہت زیادہ سخاوت کرتے تھے۔ ماہِ رمضان کی ہر رات کو جبریل علیہ السلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ قرآن مجید کا دور کرتے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھیجی ہوئی ہوا سے بھی بڑھ کر مال کی سخاوت کیا کرتے تھے۔

Haidth Number: 3666

۔ (۳۶۶۷) عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖوَصَحْبِہِوَسَلَّمَ: ((اُعْطِیَتْ اُمَّتِی خَمْسَ خِصَالٍ فِی رَمَضَانَ لَمْ تُعْطَہَا اَمَّۃٌ قَبْلَہُمْ، خُلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ اَطْیَبُ عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ، وَتَسْتَغْفِرُ لَہُمْ الْمَلَائِکَۃُ حَتّٰییُفْطِرُوْا وَیُزَیِّنُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ کُلَّ یَوْمٍ جَنَّۃً، ثُمَّ یَقُوْلُ: یَوشِکُ عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ اَنْ یُلْقُوْا عَنْہُمْ الْمَئُوْنَۃَ وَالْاَذٰی وَیَصِیْرُوا إِلَیْکِ، وَیُصَفَّدُ فِیْہِ مَرَدَۃُ الشَّیَاطِیْنِ، فَلَا یَخْلُصُوا إِلَی مَا کَانُوْا یَخْلُصُوْنَ فِی غَیْرِہِ، وَیَغْفِرُلہَمُ ْفیِ آخِرِ لَیْلَۃٍ۔)) قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَہِیَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ؟ قَالَ: ((لَا وَلٰکِنَّ الْعَامِلَ إِنَّمَا یُوَفّٰی اَجْرَہُ إِذَا قَضٰی عَمَلَہُ۔)) (مسند احمد: ۷۹۰۴)

۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت کو ماہِ رمضان میں پانچ ایسی خوبیاںدی گئی ہیں جو اس سے پہلے کسی امت کو نہیں دی گئیں تھیں، ان کی تفصیلیہ ہے: (۱)روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے ہاں کستوری سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے، (۲)روزہ افطار کرنے تک فرشتے ان کے حق میں دعائے رحمت کرتے ہیں، (۳) اللہ تعالیٰ ہر روز اپنی جنت کو مزین کرتا ہے اور اس سے فرماتا ہے:قریب ہے کہ میرے نیک بندے اپنی مشقتوں اور تکلیفوں سے دست بردار ہو کر تیری طرف آ جائیں، (۴) اس مہینے میں سرکش شیطانوں کو قید کر دیا جاتا ہے اور جس طرح وہ عام دنوں میں کارروائیاںکرتے ہیں، اس مہینے میں نہیں کر سکتے، اور (۵) اللہ تعالیٰ اس مہینے کی آخری رات میں میری امت کو بخش دیتا ہے۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیایہ شب ِ قدر ہے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، نہیں، بات یہ ہے کہ مزدور کو اس وقت مزدوری دی جاتی ہے، جو وہ اپنا کام پورا کر لیتا ہے ۔

Haidth Number: 3667
۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو جائے، جس نے ماہِ رمضان کو پایا، لیکنیہ مہینہ اس کی بخشش سے پہلے گزر گیا۔

Haidth Number: 3668
۔ سیدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ماہِ رجب شروع ہوتا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ دعا کرتے تھے: اے اللہ! ہمارے لئے رجب اور شعبان میں برکت فرما اور ہمارے لیے رمضان کو مبارک بنا۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ بھی فرمایا کرتے تھے: جمعہ کی رات روشن اور اس کا دن چمک دار ہے۔

Haidth Number: 3669
۔ سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جس چیز کی قسم اٹھائی، اسی کی قسم! مسلمانوں کے لئے ماہِ رمضان سے بہتر کوئی مہینہ نہیں اور منافقین کے لئے اس سے زیادہ برا مہینہ کوئی نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل ایمان اس مہینے میں عبادت کے لئے قوت تیار کرتے ہیں، جبکہ منافق اس ماہ میں لوگوں کے عیوب اور کوتاہیاں ڈھونڈنے میں مگن ہو جاتے ہیں،یہ مہینہ مومن کے لئے بھی غنیمت ہے اور فاجر کے لئے بھی فرصت کا موقع ہے۔

Haidth Number: 3670
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رسول اللہ کی قسم اٹھائی ہوئی چیز کی قسم! تمہارے اوپر یہ مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے، اہل ایمان کے لئے اس سے بہتر کوئی مہینہ نہیں اور اہل نفاق کے لئے اس سے زیادہ برا کوئی مہینہ نہیں، اللہ تعالیٰ اس مہینہ کی آمد سے پہلے ہی اس کا اور اس کے نوافل کا ثواب بھی لکھ دیتا ہے اور اس کے گناہ، سزا اور بدبختی بھی، اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن اس میں عبادت کرنے کے لیے نفقہ کی قوت تیار کرتا ہے اور منافق لوگوں کی غفلت اور عیوب تلاش کرتا رہتاہے، اس طرح یہ ماہ مومن کے لئے بھی غنیمت ہے اور فاجر کے لیے بھی غنیمت ہے۔

Haidth Number: 3671