Blog
Books
Search Hadith

منیٰ میں نمازوں کو قصر کرکے ادا کرنے اور ان دنوں میں روزہ کے ناجائز ہونے کا بیان

53 Hadiths Found
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ منیٰ میں دو دو رکعتیںیعنی قصر نمازیں ادا کیں، کاش ان چار رکعتوں کے بدلے میں میری دو رکعتیں قبول کر لی جائیں۔

Haidth Number: 4565
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ منی میں دو رکعتیں ، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ دو رکعتیں، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ دو رکعتیں اور سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ ان کی خلافت کے شروع میں دو رکعتیں پڑھی تھیں۔

Haidth Number: 4566
۔ سیدنا کعب بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو اور سیدنا اوس بن حدثان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ایام تشریق کے دوران یہ اعلان کرنے کے لئے بھیجا کہ صرف مومن جنت میں جائے گا اور ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں۔

Haidth Number: 4567

۔ (۵۰۴۶)۔ عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ، قَالَ: قَالَ أَبُو قَتَادَۃَ: رَأَیْتُ رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلَانِ مُسْلِمٌ وَمُشْرِکٌ، وَإِذَا رَجُلٌ مِنْ الْمُشْرِکِینَ یُرِیدُ أَنْ یُعِینَ صَاحِبَہُ الْمُشْرِکَ عَلَی الْمُسْلِمِ، فَأَتَیْتُہُ فَضَرَبْتُ یَدَہُ فَقَطَعْتُہَا وَاعْتَنَقَنِی بِیَدِہِ الْأُخْرٰی، فَوَاللّٰہِ! مَا أَرْسَلَنِی حَتّٰی وَجَدْتُ رِیحَ الْمَوْتِ، فَلَوْلَا أَنَّ الدَّمَ نَزَفَہُ لَقَتَلَنِی فَسَقَطَ فَضَرَبْتُہُ فَقَتَلْتُہُ وَأَجْہَضَنِی عَنْہُ الْقِتَالُ، وَمَرَّ بِہِ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ، فَسَلَبَہُ فَلَمَّا فَرَغْنَا وَوَضَعَتِ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ قَتَلَ قَتِیلًا فَسَلَبُہُ لَہُ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَدْ قَتَلْتُ قَتِیلًا وَأُسْلِبَ فَاَجْھَضَنِیْ عَنْہُ الْقِتَالُ، فَلَا اَدْرِیْ مَنِ اسْتَلَبَہُ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ مَکَّۃَ: صَدَقَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَنَا سَلَبْتُہُ فَارْضِہِ عَنِّی مِنْ سَلَبِہِ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: تَعْمِدُ إِلٰی أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللّٰہِ، یُقَاتِلُ عَنِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، تُقَاسِمُہُ سَلَبَہُ ارْدُدْ عَلَیْہِ سَلَبَ قَتِیلِہِ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((صَدَقَ فَارْدُدْ عَلَیْہِ سَلَبَ قَتِیلِہِ)) قَالَ أَبُو قَتَادَۃَ: فَأَخَذْتُہُ مِنْہُ فَبِعْتُہُ فَاشْتَرَیْتُ بِثَمَنِہِ مَخْرَفًا بِالْمَدِینَۃِ، وَإِنَّہُ لَأَوَّلُ مَالٍ اعْتَقَدْتُہُ۔ (مسند أحمد: ۲۲۹۸۱)

۔ سیدنا ابو قتادہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے دو آدمیوں کو لڑتے ہوئے دیکھا، ان میں سے ایک مسلمان تھا اور دوسرا کافر، ایک مشرک آدمی چاہتا تھا کہ وہ مسلمان کے خلاف اپنے مشرک ساتھی کی مدد کرے، لیکن اُدھر سے میں آیا اور اس کے ہاتھ پر ضرب لگا کر اس کو کاٹ دیا، اس نے دوسرے ہاتھ سے مجھے اس طرح پکڑا جیسے معانقہ کرتے ہیں، پس اللہ کی قسم! اس نے مجھے اس وقت تک نہ چھوڑا، یہاں تک کہ میں نے اس سے موت کی بو محسوس کر لی، اگر اس کا خون نہ بہتا تو وہ مجھے قتل کر دیتا، پھر وہ گر پڑا اور میں نے اس کو ضرب لگائی اور قتل کر دیا، پھر میں قتال کی مصروفیت کی وجہ سے اس کا سلب نہ لے سکا، اور اس کے پاس سے اہل مکہ کا ایک آدمی گزرا اور اس نے اس کا سلب لے لیا، پس جب ہم فارغ ہوئے اور لڑائی ختم ہو گئی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے کسی شخص کو قتل کیا، اس کا سلب اس کے لیے ہو گا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے ایک شخص کو قتل کیا ہے، لیکن پھر لڑائی میں مصروف ہو گیا، اب میں نہیں جانتا کہ کس نے اس کا سلب لے لیا ہے، اہل مکہ کا ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ سچ کہہ رہا ہے، میں نے اس کا سلب لے لیا ہے، تو آپ اس کو میری طرف سے راضی کر دیں، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تو اللہ تعالیٰ کے شیروں میں سے ایک شیر کی طرف قصد کرتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتا ہے اور پھر تو اس کا سلب تقسیم کرتا ہے، تو اس کے مقتول کا سلب اس پر لوٹا دے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو بکر سچ کہہ رہے ہیں، تو اس کے مقتول کا سلب اس پر لوٹا دے۔ سیدنا ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے اس سے وہ سامان لیا اور اس کو بیچ کر اس کی قیمت سے مدینہ منورہ میں ایک باغ خریدا، یہ پہلا مال تھا، جس کا میں مالک بنا تھا۔

Haidth Number: 5046
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ حنین کے موقع پر فرمایا: جو آدمی کسی کو قتل کرنے میں اکیلا ہو تو اسی کے لیے اس کا سلب ہو گا۔ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اکیس افراد کا سلب لے کر آئے۔

Haidth Number: 5047
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے غزوۂ حنین کے موقع پر فرمایا: جس نے کسی کافر کو قتل کیا، اسی کے لیے اس کا سلب ہو گا۔ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیس کافر قتل کیے تھے۔

Haidth Number: 5048

۔ (۵۰۴۹)۔ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ، عَنْ أَبِیہِ جُبَیْرٍ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الْأَشْجَعِیِّ، قَالَ: غَزَوْنَا غَزْوَۃً إِلٰی طَرَفِ الشَّامِ، فَأُمِّرَ عَلَیْنَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ، قَالَ: فَانْضَمَّ إِلَیْنَا رَجُلٌ مِنْ أَمْدَادِ حِمْیَرَ، فَأَوٰی إِلٰی رَحْلِنَا، لَیْسَ مَعَہُ شَیْئٌ إِلَّا سَیْفٌ، لَیْسَ مَعَہُ سِلَاحٌ غَیْرُہُ، فَنَحَرَ رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ جَزُورًا، فَلَمْ یَزَلْ یَحْتَلْ حَتَّی أَخَذَ مِنْ جِلْدِہِ کَہَیْئَۃِ الْمِجَنِّ حَتّٰی بَسَطَہُ عَلَی الْأَرْضِ ثُمَّ وَقَدَ عَلَیْہِ حَتّٰی جَفَّ، فَجَعَلَ لَہُ مُمْسِکًا کَہَیْئَۃِ التُّرْسِ، فَقُضِیَ أَنْ لَقِینَا عَدُوَّنَا فِیہِمْ أَخْلَاطٌ مِنْ الرُّومِ وَالْعَرَبِ مِنْ قُضَاعَۃَ فَقَاتَلُونَا قِتَالًا شَدِیدًا، وَفِی الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنَ الرُّومِ عَلٰی فَرَسٍ لَہُ أَشْقَرَ وَسَرْجٍ مُذَہَّبٍ وَمِنْطَقَۃٍ مُلَطَّخَۃٍ ذَہَبًا وَسَیْفٌ مِثْلُ ذٰلِکَ، فَجَعَلَ یَحْمِلُ عَلَی الْقَوْمِ، وَیُغْرِی بِہِمْ، فَلَمْ یَزَلْ ذٰلِکَ الْمَدَدِیُّ یَحْتَالُ لِذٰلِکَ الرُّومِیِّ حَتّٰی مَرَّ بِہِ فَاسْتَقْفَاہُ فَضَرَبَ عُرْقُوبَ فَرَسِہِ بِالسَّیْفِ فَوَقَعَ، ثُمَّ أَتْبَعَہُ ضَرْبًا بِالسَّیْفِ حَتّٰی قَتَلَہُ، فَلَمَّا فَتَحَ اللّٰہُ الْفَتْحَ أَقْبَلَ یَسْأَلُ لِلسَّلَبِ، وَقَدْ شَہِدَ لَہُ النَّاسُ بِأَنَّہُ قَاتِلُہُ، فَأَعْطَاہُ خَالِدٌ بَعْضَ سَلَبِہِ وَأَمْسَکَ سَائِرَہُ، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَی رَحْلِ عَوْفٍ ذَکَرَہُ، فَقَالَ لَہُ عَوْفٌ: ارْجِعْ إِلَیْہِ فَلْیُعْطِکَ مَا بَقِیَ، فَرَجَعَ إِلَیْہِ فَأَبٰی عَلَیْہِ، فَمَشٰی عَوْفٌ حَتّٰی أَتٰی خَالِدًا، فَقَالَ: أَمَا تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَضٰی بِالسَّلَبِ لِلْقَاتِلِ؟ قَالَ: بَلٰی، قَالَ: فَمَا یَمْنَعُکَ أَنْ تَدْفَعَ إِلَیْہِ سَلَبَ قَتِیلِہِ؟ قَالَ خَالِدٌ: اسْتَکْثَرْتُہُ لَہُ، قَالَ عَوْفٌ: لَئِنْ رَأَیْتُ وَجْہَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَأَذْکُرَنَّ ذٰلِکَ لَہُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَۃَ بَعَثَہُ عَوْفٌ فَاسْتَعْدٰی إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَعَا خَالِدًا وَعَوْفٌ قَاعِدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا یَمْنَعُکَ یَا خَالِدُ أَنْ تَدْفَعَ إِلٰی ہٰذَا سَلَبَ قَتِیلِہِ؟)) قَالَ: اسْتَکْثَرْتُہُ لَہُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، فَقَالَ: ((ادْفَعْہُ إِلَیْہِ۔)) قَالَ: فَمَرَّ بِعَوْفٍ فَجَرَّ عَوْفٌ بِرِدَائِہِ، فَقَالَ: اَنْجَزْتُ لَکَ مَا ذَکَرْتُ لَکَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَسَمِعَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاسْتُغْضِبَ فَقَالَ: ((لَا تُعْطِہِ یَا خَالِدُ! ہَلْ أَنْتُمْ تَارِکِی أُمَرَائِی، إِنَّمَا مَثَلُکُمْ وَمَثَلُہُمْ کَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتُرْعِیَ إِبِلًا أَوْ غَنَمًا، فَرَعَاہَا ثُمَّ تَخَیَّرَ سَقْیَہَا، فَأَوْرَدَہَا حَوْضًا، فَشَرَعَتْ فِیہِ فَشَرِبَتْ صَفْوَۃَ الْمَائِ، وَتَرَکَتْ کَدَرَہُ، فَصَفْوُہُ لَکُمْ وَکَدَرُہُ عَلَیْہِمْ۔)) (مسند أحمد: ۲۴۴۸۷)

۔ سیدنا عوف بن مالک اشجعی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے شام کی طرف ایک غزوہ کیا، (یہ ۸ ؁ھ میں لڑا جانے والا غزوۂ موتہ تھا)، سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہمارے امیر تھے، حمیر قبیلے کے اعوان و انصار میں سے ایک آدمی بھی ہمارے ساتھ مل گیا، وہ ہماری رہائش گاہ میں آگیا اور اس کے پاس صرف ایک تلوار تھی، اس کے علاوہ کوئی اور اسلحہ نہیں تھا، ایک مسلمان نے اونٹ نحر کیے، وہ آدمی حیلے بہانے کرتا رہا، یہاں تک کہ اس نے ان اونٹوں کے چمڑے سے ڈھال کی طرح کی ایک چیز بنائی، پھر اس کو زمین پر بچھایا اور اس پر آگ جلائی، یہاں تک کہ وہ خشک ہو گئی، پھر اس نے ڈھال کی طرح کا اس کو دستہ لگا دیا، پھر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق ہمارا دشمنوں سے مقابلہ شروع ہو گیا، ہمارا دشمن رومیوں اور عرب کے بنو قضاعہ قبیلے کے افراد پر مشتمل تھا، انھوں نے ہم سے بڑی سخت لڑائی لڑی، رومیوں میں ایک جنگجو ایسا تھا کہ وہ سرخ رنگ کے گھوڑے پر سنہری زین رکھ کر اس پر سوار تھا، اس گھوڑے کا تنگ بھی سونے سے لت پت تھا اور اس کی تلوار بھی ایسے ہی سنہری تھی، اس نے مسلمانوں پر حملہ کرنا اور لڑائی کی آگ بھڑکانا شروع کی، حمیر قبیلے کا یہ آدمی اس رومی کے لیے حیلے بہانے کرنے لگا، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس سے گزرا تو یہ اس کے پیچھے چل پڑا، یہاں تک کہ اس کے گھوڑے کی پچھلی ٹانگ کا گھٹنا کاٹ دیا، پس وہ گھوڑا گر پڑا اور وہ شخص اس رومی پر تلوار کے ساتھ چڑھ دوڑا اور اس کوقتل کر دیا، جب اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح عطا کر دی تو وہ شخص سلب کا سوال کرنے لگا، جبکہ لوگ اس کے حق میں یہ گواہی دے رہے تھے کہ واقعی اس نے اس کو قتل کیا ہے، لیکن سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کو کچھ سامان دے دیا اور باقی روک لیا، پھر جب وہ سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رہائش گاہ کی طرف لوٹا اور ان کو یہ بات بتلائی تو انھوں نے کہا: تو سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف لوٹا جا، ان کو چاہیے کہ باقی حصہ بھی تجھے دے دیں، پس وہ لوٹ کر تو گیا، لیکن انھوں نے اس کو باقی حصہ دینے سے انکار کر دیا، پس سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خود چل کر سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس گئے اور کہا: کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سلب کا فیصلہ قاتل کے حق میں کیا ہے؟ انھوں نے کہا: جی،کیوں نہیں، مجھے پتہ ہے، انھوں نے کہا: تو پھر تجھے اس کو اس کے مقتول کا سلب دینے سے کون سی چیز مانع ہے؟ سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: دراصل میں نے اس حصے کو بہت زیادہ سمجھا ہے (اور سارے کا سارا اس کو نہیں دیا)، سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ دیکھا تو میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ضرور ضرور بتلاؤں گا، پھر جب وہ مدینہ منورہ پہنچے تو سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس شخص کو بھیجا اور اس نے جا کر سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شکایت کی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مدد طلب کی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلایا، جبکہ سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیٹھے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خالد! کس چیز نے تجھے اس شخص کو اس کا سلب دینے سے روکا؟ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اس سلب کو زیادہ سمجھا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو اس کو دے دے۔ جب سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس سے گزرے تو انھوں نے سیدنا خالد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی چادر گھسیٹی اور کہا: میں نے جو بات تم کو کہی تھی، اب میں نے اس کو تیرے لیے پورا کر دیا ہے، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے (سیدنا عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) کا یہ طعن سنا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو غصے آ گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خالد! تو اس کو نہ دے، کیا تم میرے امراء کو میرے لیے چھوڑنے والے ہو، میری اور میرے امراء کی مثال اس شخص کی سی ہے، جس کو اونٹ یا بکریاں چرانے کا کہا گیا، پس اس نے ان کو چرایا، پھر اس نے ان کو پانی پلانے کا وقت مقرر کیا اور ان کو حوض پر لے آیا، پس انھوں نے پانی پینا شروع کیا اور سارا صاف پانی پی گئے اور گدلا پانی رہ گیا، (ایسے سمجھو کہ) میرے امراء کا صاف پن تمہارے لیے ہے اور گدلا پن ان پر ہے۔

Haidth Number: 5049

۔ (۵۰۵۰)۔ حَدَّثَنَا إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہَوَازِنَ وَغَطَفَانَ، فَبَیْنَمَا نَحْنُ کَذٰلِکَ إِذْ جَائَ رَجُلٌ عَلٰی جَمَلٍ أَحْمَرَ، فَانْتَزَعَ شَیْئًا مِنْ حَقَبِ الْبَعِیرِ، فَقَیَّدَ بِہِ الْبَعِیرَ، ثُمَّ جَائَ یَمْشِی حَتّٰی قَعَدَ مَعَنَا یَتَغَدّٰی، قَالَ: فَنَظَرَ فِی الْقَوْمِ فَإِذَا ظَہْرُہُمْ فِیہِ قِلَّۃٌ وَأَکْثَرُہُمْ مُشَاۃٌ، فَلَمَّا نَظَرَ إِلَی الْقَوْمِ خَرَجَ یَعْدُو، قَالَ: فَأَتٰی بَعِیرَہُ فَقَعَدَ عَلَیْہِ، قَالَ: فَخَرَجَ یَرْکُضُہُ وَہُوَ طَلِیعَۃٌ لِلْکُفَّارِ، فَاتَّبَعَہُ رَجُلٌ مِنَّا مِنْ أَسْلَمَ عَلٰی نَاقَۃٍ لَہُ وَرْقَائَ، قَالَ إِیَاسٌ: قَالَ أَبِی: فَاتَّبَعْتُہُ أَعْدُو عَلٰی رِجْلَیَّ، قَالَ: وَرَأْسُ النَّاقَۃِ عِنْدَ وَرِکِ الْجَمَلِ، قَالَ: وَلَحِقْتُہُ فَکُنْتُ عِنْدَ وَرِکِ النَّاقَۃِ، وَتَقَدَّمْتُ حَتَّی کُنْتُ عِنْدَ وَرِکِ الْجَمَلِ، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتَّی أَخَذْتُ بِخِطَامِ الْجَمَلِ، فَقُلْتُ لَہُ: إِخْ! فَلَمَّا وَضَعَ الْجَمَلُ رُکْبَتَہُ إِلَی الْأَرْضِ اخْتَرَطْتُ سَیْفِی فَضَرَبْتُ رَأْسَہُ فَنَدَرَ ثُمَّ جِئْتُ بِرَاحِلَتِہِ أَقُودُہَا، فَاسْتَقْبَلَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَ النَّاسِ، قَالَ:(( مَنْ قَتَلَ ہٰذَا الرَّجُلَ؟)) قَالُوْا ابْنُ الْأَکْوَعِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَہُ سَلَبُہُ أَجْمَعُ۔)) (مسند أحمد: ۱۶۶۵۱)

۔ سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہوازن اور غطفان کے ساتھ جہاد کیا، ہم ایک مقام پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی سرخ اونٹ پر آیا اور اونٹ کے تنگ میں سے کوئی چیز نکالی اور اس کے ساتھ اپنے اونٹ کو باندھا، پھر آیا اور ہمارے ساتھ دوپہر کا کھانا کھانے لگا، اس نے ہمارے لوگوں کا جائزہ لیا اور دیکھا کہ ہمارے سوار تھوڑے ہیں اور زیادہ تر لوگ پیدل ہیں، یہ جائزہ لے کر وہ دوڑتا ہوا نکلا، اپنے اونٹ کے پاس گیا اور اس پر بیٹھ کر اس کو دوڑانے لگا، یہ دراصل کافروں کا جاسوس تھا، بنواسلم قبیلے کا ایک آدمی اپنی سیاہی نما اونٹنی پر سوار ہوا اور اس کا پیچھا کیا، سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں اپنی ٹانگوں پر دوڑا، اس آدمی کی اونٹنی کا سر جاسوس کے اونٹ کے پچھلی ٹانگ تک پہنچ چکا تھے، پیچھے سے میں بھی ملا جا رہا تھا اور اس کی اونٹنی کی پچھلی ٹانگ کے برابر تک پہنچ چکا تھا، میں میں اور آگے بڑھا اور جاسوس کے اونٹ کے پچھلے حصے کے برابر ہو گیا، پھر میں اور آگے بڑھا اور اونٹ کی لگام پکڑ لی اور اس کو بیٹھنے کی آواز دی، جب اونٹ نے اپنا گھٹنا زمین پر رکھا تو میں نے اپنی تلوار سونتی اور اس کے سر پر ماری اوروہ گر پڑا، پھر میں اونٹنی لے کر واپس آ گیا، آگے سے کچھ لوگوں سمیت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم آ رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کس نے اس آدمی کو قتل کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: ابن اکوع نے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کا سارا سلب اس کے لیے ہے۔

Haidth Number: 5050
۔ سیدنا ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے مقتول پر دلیل قائم کر دی تو اس کا سلب اس کے لیے ہو گا۔

Haidth Number: 5051
۔ سیدنا ابو قتادہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے ایک کافر کو قتل کیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کافر کا سلب اور زرہ ان کو دی، پھر انھوں نے وہ زرہ پانچ اوقیوں کے عوض فروخت کی تھی۔

Haidth Number: 5052
۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس سے گزرے، جبکہ وہ اپنے مقتول کے پاس موجود تھے، اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو اور اس کے سلب کو چھوڑ دو۔

Haidth Number: 5053
۔ سیدنا عوف بن مالک اشجعی اور سیدنا خالد بن ولید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سلب میں سے خمس وصول نہیں کیا۔

Haidth Number: 5054
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے غلام خریدا اوراس سے فائدہ حاصل کیا، لیکن بعد میں اس نے اس میں ایک عیب دیکھ کر اس کو واپس لوٹا دیا، بیچنے والے کہا: میرے غلام کی آمدنی (بھی مجھے دی جائے)۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آمدنی (اور نفع) ضمانت کے عوض ہوتا ہے۔

Haidth Number: 5938
۔ سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: غلام کی ذمہ داری چارراتوں تک ہے۔ جبکہ قتادہ کہتے ہیں: اہل مدینہ کے نزدیک تین راتیںہیں۔

Haidth Number: 5939
Haidth Number: 5940

۔ (۶۶۱۱)۔ عَنْ حَنْشٍ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: بَعَثَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الْیَمَنِ فَانْتَہَیْنَا اِلٰی قَوْمٍ قَدْ بَنَوْا زُبْیَۃً لِلْأَسَدِ، فَبَیْنَمَاھُمْ کَذَالِکَ یَتَدَافَعُوْنَ اِذَا سَقَطَ رَجُلٌ فَتَعَلَّقَ بِأَخَرَ، ثُمَّ تَعَلَّقَ رَجُلٌ بِآخَرَ حَتّٰی صَارُوْا فِیْہَا أَرْبَعَۃً فَجَرَحَہُمُ الْأَسَدُ فَانْتَدَبَ لَہُ رَجُلٌ بِحَرْبَۃٍ فَقَتَلَہُ وَمَاتُوْا مِنْ جِرَاحَتِہِمْ کُلُّہُمْ، فَقَامَ أَوْلِیَائُ الْاَوَّلِ اِلَی أَوْلِیَائِ الْآخَرِ فَأَخْرَجُوْا السَّلَاحَ لِیَقْتَتِلُوْا، فَأَتَاھُمْ عَلِیٌّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ عَلٰی تَفِیْئَۃِ ذَالِکَ فَقَالَ: تُرِیْدُوْنَ أَنْ تُقَاتِلُوْا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَیٌّ، إِنِّی أَقْضِیْ بَیْنَکُمْ قَضَائً اِنْ رَضِیْتُمْ فَہُوَ الْقَضَائُ وَإِلَّا حَجَزَ بَعْضُکُمْ عَنْ بَعْضٍ حَتّٰی تَأْتُوْا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَیَکُوْنَ ھُوَ الَّذِیْیَقْضِیْ بَیْنَکُمْ، فَمَنْ عَدَا بَعْدَ ذَالِکَ فَـلَا حَقَّ لَہُ، إِجْمَعُوْا مِنْ قَبَائِلِ الَّذِیْنَ حَضَرُوْا الْبِئْرَ رُبُعَ الدِّیَۃِ وَثُلُثَ الدِّیَۃِ وَنِصْفَ الدِّیَۃِ وَالدِّیَۃَ کَامِلَۃً، فلَأَِوَّلٍ الرُّبُعُ لِأَنَّہُ ھَلَکَ مَنْ فَوْقَہُ، وَلِلثَّانِیْ ثُلُثُ الدِّیَۃِ، وَلِلثَّالِثِ نِصْفُ الدِّیَۃِ، فَأَبَوْا أَنْ یَرْضَوْا، فَأَتَوُا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَھُوَ عِنْدَ مَقَامِ اِبْرَاھِیْمَ فَقَصُّوْا، فَقَالَ: ((اَنَا أَقْضِیْ بَیْنَکُمْ۔)) وَاحْتَبٰی فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: اِنَّ عَلِیًّا قَضَا فِیْنَا فَقَصُّوْا عَلَیْہِ الْقِصَّۃَ، فَأَجَازَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۵۷۳)

۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یمن بھیجا، میں ان لوگوں کے پاس پہنچا جنہوں نے شیر کے لئے ایک گڑھا کھود رکھا تھا، اسی دوران وہاں بھیڑ ہو گئی اورلوگ ایک دوسرے کے ذریعے بچنے لگے، ایک آدمی گڑھے میں گرا تو وہ دوسرے سے چمٹ گیا، دوسرے نے تیسرے کو پکڑ لیا،یہاں تک کہ چار آدمی گڑھے میں جاگر ے، شیر نے ان سب کو زخمی کر دیا، ایک آدمی نے جلدی سے نیزہ مار کر شیر کو مار دیا، لیکن وہ چاروں افراد زخموں کی تاب نہ لاسکے اور وفات پاگئے، اب ان مقتولین کے ورثاء مسلح ہو کر لڑنے مرنے کے لئے تیار ہوگئے، جب وہ لڑائی کی تیاری کر رہے تھے تو سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اسی وقت ان کے پاس تشریف لائے اور کہا: تم لڑائی پہ کمر بستہ ہورہے ہو، جبکہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابھی تمہارے درمیان بقید حیات ہیں، میں تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں، اگر وہ تمہیں پسند آ جائے تو ٹھیک، بصورت دیگر تم ایک دوسرے سے باز رہنا اور اس وقت تک کوئی قدم نہ اٹھانا، جب تک کہ تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ نہ جاؤ، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تمہارے ما بین فیصلہ کر دیں گے اور جو اس فیصلے کے بعد زیادتی کرے گا، اس کا کوئی حق باقی نہ رہے گا، اب سنو! میرا فیصلہیہ ہے کہ جو قبائل کنویں کے پاس ہجوم کیے ہوئے تھے، ان سب سے ایکچوتھائی دیت، ایک تہائی دیت، نصف دیت اور مکمل دیت جمع کرو، جو سب سے پہلا گڑھے میں گرا تھا، اس کو دیتکا چوتھا حصہ دیا جائے، کیونکہ وہ اپنے سے اوپر والوں کی ہلاکت کا سبب بنا ہے،گرنے والے دوسرے آدمی کو دیت کا تیسرا حصہ دیا جائے اور گرنے والے تیسرے آدمی کو نصف دیت دی جائے اور چوتھے کو پوری دیت دی جائے، لیکن لوگوں نے یہ فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا، جب وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ اس وقت مقام ابراہیم کے قریب تشریف فرما تھے، انہوں نے یہ واقعہ آپ کے سامنے بیان کیا، آپ نے فرمایا: میں ابھی تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہوں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گوٹھ مار کر بیٹھ گئے، اتنے میں ایک آدمی نے کہا: بیشک سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمارے درمیان فیصلہ کیا تھا، پھر انھوں نے سارا واقعہ بیان کیا، پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسی فیصلے کو نافذ کر دیا۔

Haidth Number: 6611
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مردوں کی خوشبو وہ ہے جس کی مہک ہو اور رنگ نمایاں نہ ہو اور عورتوں کی خوشبو وہ ہے، جس کارنگ نمایاں ہو اور اس کی خوشبو نہ ہو۔

Haidth Number: 8167
۔ سیدنا عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نہ سرخ رنگ کی ریشم کی چادر پر سوار ہوں گا، نہ عصفر بوٹی سے رنگا کپڑا پہنوں گا اور نہ ایسی قمیص پہنوں گا، جس کے گریبان اور آستینوں پر ریشم لگا ہوا ہو۔ ساتھ ہی حسن نے اپنی قمیص کے گریبان کی طرف اشارہ کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مزید فرمایا: خبردار!مردوں کی خوشبو وہ ہے، جس میں رنگ نہ ہو اورعورتوں کی خوشبو وہ ہے، جس میں رنگ ہو اور خوشبو کی مہک نہ ہو۔

Haidth Number: 8168
۔ سیدناعبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز عشاء کو مؤخر کیا، پھر مسجد میں تشریف لائے، جبکہ لوگ نماز کا انتظار کر رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! اس وقت ان ادیان والوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے، جو اس وقت اللہ تعالی کا ذکر کر رہا ہو، ما سوائے تمہارے۔ اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کی ہیں: {لَیْسُوْا سَوَاء ً مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَائِمَۃٌیَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَاء َ الَّیْلِ وَھُمْ یَسْجُدُوْنَ۔ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَاُولٰیِکَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ۔ وَمَا یَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ یُّکْفَرُوْہُ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌبِالْمُتَّقِیْنَ۔}… وہ سب برابر نہیں۔ اہل کتاب میں سے ایک جماعت قیام کرنے والی ہے، جو رات کے اوقات میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور وہ سجدے کرتے ہیں۔اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے اور اچھے کاموں میں ایک دوسرے سے جلدی کرتے ہیں اور یہ لوگ صالحین سے ہیں۔ اور وہ جو نیکی بھی کریں اس میں ان کی بے قدری ہرگز نہیں کی جائے گی اور اللہ متقی لوگوں کو خوب جاننے والا ہے۔ (سورۂ آل عمران: ۱۱۳۔ ۱۱۵)

Haidth Number: 8544
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے ربّ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ عبد اللہ بن امام احمد کہتے ہیں: میں نے اپنے باپ سے یہ حدیث سنی تھی، انھوں نے کسی اور مقام پر یہ حدیث مجھے لکھوائی تھی۔

Haidth Number: 10586
۔ سیدنا عبد اللہ بن شقیق کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اگر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھتا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک سوال کرتا، انھوں نے کہا: تو کون سا سوال کرتا؟ میں نے کہا: میں نے یہ سوال کرنا تھا کہ کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ربّ کو دیکھا ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ سوال کیا تھا ، جس کے جواب میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اس کو نور پایا ہے، میں اس کو کیسے دیکھوں۔

Haidth Number: 10587
۔ (دوسری سند) عبد اللہ بن شقیق کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پایا ہوتا تو میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایک سوال کرنا تھا، انھوں نے کہا: کس چیز کے بارے میں؟ میں نے کہا: یہ سوال کرنا تھا کہ کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ربّ کو دیکھا ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ سوال کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا: وہ نور ہے، میں اس کو کیسے دیکھوں۔یعنی مثبت جواب دیا۔

Haidth Number: 10588

۔ (۱۰۵۸۹)۔ حَدَّثَنَا یَحْیَی عَنْ اِسْمَاعِیْلَ ثَنَّا عَامِرٌ قَالَ: اَتٰی مَسْرُوْقٌ عَائِشَۃَ فَقَالَ: یَا اُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ! ھَلْ رَأٰی مُحَمَّدٌ رَبَّہُ؟ قَالَتْ: سُبْحَانَ اللّٰہِ! لَقَدْ قَفَّ شَعْرِیْ لِمَا قُلْتَ، أَیْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلَاثٍ مَنْ حَدَّثَکَھُنَّ فَقَدْ کَذَبَ، مَنْ حَدَّثَکَ أَنَّ مُحَمَّدًا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَاٰی رَبَّہُ فَقَدْ کَذَبَ، ثُمَّّ قَرَأَتْ {لَاتُدْرِکُہُ الْأَبْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْأَبْصَارَ} {وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَرَائِ حِجَابٍ} وَمَنْ أَخْبَرَکَ بِمَا فِیْ غَدٍ فَقَدْ کَذَبَ ثُمَّّ قَرَأَتْ {إِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِیْ الْأَرْحَامِ} وَمَنْ اَخْبَرَکَ أَنَّ مُحَمَّدًا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَتَمَ فَقَدْ کَذَبَ ثُمَّّ قَرَأَتْ {یَا اَیُّھَا الرُّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ} وَلٰکِنَّہُ رَأٰی جِبْرِیْلُ فِیْ صُوْرَتِہِ مَرَّتَیْنِ۔ (مسند احمد: ۲۴۷۳۱)

۔ عامر بیان کرتے ہیں کہ مسروق، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس آیا اور کہا: اے ام المؤمنین! کیا محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ربّ کو دیکھا ہے؟ انھوں نے کہا: سبحان اللہ! بڑا تعجب ہے، تیری بات سے میرے تو رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں، تجھے کوئی پتہ نہیں ان تین چیزوں کا کہ جو آدمی ان کو بیانکرے گا، وہ جھوٹا ہو گا، (۱)جو آدمی تجھے یہ بیان کرے کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ربّ کو دیکھا، پس اس نے جھوٹ بولا، پھر سیدہ نے یہ آیات پڑھیں: اس کو تو کسی کی نگاہ محیط نہیں ہو سکتی، اور وہ سب نگاہوں کو محیط ہو جاتا ہے۔ (سورہ انعام: ۱۰۳) نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ناممکن ہے کہ کسی بندہ سے اللہ تعالیٰ کلام کرے، مگر وحی کے ذریعہیا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے، بیشک وہ برتر ہے، حکمت والا ہے۔ (سورۂ زخرف: ۵۱) (۲) جو آدمی تجھے کل کی بات بتلائے، وہ بھی جھوٹا ہے، پھر سیدہ نے یہ آیت پڑھی: بیشک اللہ تعالیٰ کے پاس قیامت کا علم ہے، وہ بارش نازل کرتا ہے اور اس چیز کو جانتا ہے، جو رحموں کے اندر ہوتی ہے۔ اور (۳) جو آدمی تجھے یہ بات بتلائے کہ محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے شریعت کا کوئی حصہ چھپا لیا ہے، وہ بھی جھوٹا ہے، پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی: اے رسول! جو کچھ تیرے ربّ کی طرف سے تجھ پر نازل کیا گیا ہے، اس کو آگے پہنچا دے۔ دراصل آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جبریل کو اس کی اصل صورت میں دوبار دیکھا تھا۔

Haidth Number: 10589
۔ (دوسری سند) مسروق کہتے ہیں: میں سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا تھا، سیدہ نے کہا: اے ابو عائشہ! میں وہ پہلا فرد ہوں، جس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس چیز کے بارے میں سوال کیا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ جبریل تھے، میں نے صرف دو بار اس کو اس کی اصلی صورت میں دیکھا ہے، جب میں نے اس کو آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا تو اس کے بڑے وجود نے آسمان و زمین کے درمیانی خلا کو بھر رکھا تھا۔

Haidth Number: 10590
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جبریل علیہ السلام سے سوال کیا کہ آپ ان کو ان کی اصلی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں، انھوں نے کہا: اپنے ربّ سے دعا کرو، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ربّ سے دعا کی، پس مشرق کی طرف سے سیاہ رنگ کا ایک وجود اٹھا، پھر وہ بلند ہونے اور پھیلنے لگا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو دیکھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بیہوش ہو گئے، جبریل علیہ السلام آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کھڑا کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گوشۂ دہن سے لعاب کو صاف کیا۔

Haidth Number: 10591
۔ سیدنا ابو موسی اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک نہ اللہ تعالیٰ سوتا ہے اور نہ سونا اس کے شایانِ شان ہے، وہ کسی کے حق میں ترازوں کو جھکاتا ہے اور کسی کے حق میں اٹھا دیتا ہے، اس کا پردہ آگ کا ہے، اگر وہ اس پردے کو چاک کر دے تو اس کے چہرے کے انوار و تجلیات ہر اس چیز کو جلا دیں گے، جہاں تک اس کی نگاہ کا ادراک ہے۔ پھر ابو عبیدہ راوی نے اس آیت کی تلاوت کی: جب موسی وہاں پہنچے تو آواز دی گئی کہ بابرکت ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور برکت دیا گیا ہے، وہ جو اس کے آس پاس ہے اور پاک ہے اللہ، جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ (سورۂ نمل: ۸)

Haidth Number: 10592

۔ (۱۰۷۵۵)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فِیْ حَدِیْثِ الْاِفِکِ قَالَتْ: وَاللّٰہِ! مَا کُنْتُ أَظُنُّ أَنْ یَنْزِلَ فِی شَأْنِی وَحْیٌیُتْلٰی وَلَشَأْنِی، کَانَ أَحْقَرَ فِی نَفْسِی مِنْ أَنْ یَتَکَلَّمَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیَّ بِأَمْرٍ یُتْلٰی، وَلٰکِنْ کُنْتُ أَرْجُو أَنْ یَرٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی النَّوْمِ رُؤْیَایُبَرِّئُنِی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہَا، قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ! مَا رَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ مَجْلِسِہِ، وَلَا خَرَجَ مِنْ أَہْلِ الْبَیْتِ أَحَدٌ، حَتّٰی أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی نَبِیِّہِ، وَأَخَذَہُ مَا کَانَ یَأْخُذُہُ مِنَ الْبُرَحَائِ عِنْدَ الْوَحْیِ، حَتّٰی إِنَّہُ لَیَتَحَدَّرُ مِنْہُ مِثْلُ الْجُمَانِ مِنَ الْعَرَقِ فِی الْیَوْمِ الشَّاتِی مِنْ ثِقَلِ الْقَوْلِ الَّذِی أُنْزِلَ عَلَیْہِ، قَالَتْ: فَلَمَّا سُرِّیَعَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ یَضْحَکُ، فَکَانَ أَوَّلُ کَلِمَۃٍ تَکَلَّمَ بِہَا أَنْ قَالَ: ((أَبْشِرِییَا عَائِشَۃُ! أَمَّا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فَقَدْ بَرَّأَکِ۔)) فَقَالَتْ لِی أُمِّی: قُومِی إِلَیْہِ، فَقُلْتُ: وَاللّٰہِ! لَا أَقُومُ إِلَیْہِوَلَا أَحْمَدُ إِلَّا اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ ہُوَ الَّذِی أَنْزَلَ بَرَائَ تِی، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ {إِنَّ الَّذِینَ جَائُ وْا بِالْإِفْکِ عُصْبَۃٌ مِنْکُمْ} [النور: ۱۱] عَشْرَ آیَاتٍ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ہٰذِہِ الْآیَاتِ بَرَائَ تِی قَالَتْ: فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: وَکَانَ یُنْفِقُ عَلٰی مِسْطَحٍ لِقَرَابَتِہِ مِنْہُ وَفَقْرِہِ: وَاللّٰہِ! لَا أُنْفِقُ عَلَیْہِ شَیْئًا أَبَدًا بَعْدَ الَّذِی قَالَ لِعَائِشَۃَ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَا یَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ} إِلٰی قَوْلِہِ: {أَلَا تُحِبُّوْنَ أَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ} [النور: ۲۲] فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: وَاللّٰہِ! إِنِّی لَأُحِبُّ أَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لِی، فَرَجَعَ إِلٰی مِسْطَحٍ النَّفَقَۃَ الَّتِی کَانَ یُنْفِقُ عَلَیْہِ، وَقَالَ: لَا أَنْزِعُہَا مِنْہُ أَبَدًا، قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَأَلَ زَیْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ زَوْجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ أَمْرِی: ((وَمَا عَلِمْتِ أَوْ مَا رَأَیْتِ أَوْ مَا بَلَغَکِ؟)) قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَحْمِی سَمْعِی وَبَصَرِی وَأَنَا مَا عَلِمْتُ إِلَّا خَیْرًا، قَالَتْ عَائِشَۃُ: وَہِیَ الَّتِیکَانَتْ تُسَامِینِی مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَعَصَمَہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِالْوَرَعِ، وَطَفِقَتْ أُخْتُہَا حَمْنَۃُ بِنْتُ جَحْشٍ تُحَارِبُ لَہَا فَہَلَکَتْ فِیمَنْ ہَلَکَ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شِہَابٍ: فَہٰذَا مَا انْتَہٰی إِلَیْنَا مِنْ أَمْرِ ہٰؤُلَائِ الرَّہْطِ۔ (مسند احمد: ۲۶۱۴۱)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ حدیث الافک (یعنی بہتان والی بات) بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: اللہ کی قسم! یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ میرے بارے میں وحی نازل ہو گی، میں اپنے اس معاملہ کو اس سے کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ خود اس کے بارے میں کلام کریں گے اور پھر اس کلام کی تلاوت کی جائے گی، ہاں یہ مجھے امید تھی کہ میرے بارے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خواب دیکھیں گے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مجھے بری کر دیں گے، اللہ کی قسم! نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنی نشست گاہ سے حرکت نہ کی تھی اور نہ ہی گھروالوں میں سے ابھی کوئی باہر گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر وحی نازل کر دی اور وحی کے وقت سخت بوجھ کی وجہ سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پسینہ آنا شروع ہو گیا، سردی کے سخت دن میں بھی وحی کے نازل ہوتے وقت آپ کی پیشانی سے پسینہ لؤلؤ موتیوں کی طرح گرتا تھا، اس وحی کے بوجھ کی وجہ سے، جو آپ پر نازل ہو رہی ہوتی تھی، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے وحی کے نازل ہونے کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسکرا رہے تھے، سب سے پہلے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وحیکے بعد جو بات کی، وہ یہ تھی: اے عائشہ! خوش ہوجائو، اللہ تعالیٰ نے تمہیں بری قرار دیا ہے۔ یہ سن کرمیری ماں نے کہا: عائشہ! کھڑی ہوجا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا شکریہ ادا کر۔ لیکن میں نے کہا:میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کھڑی نہیں ہوں گی، میں اپنے اس اللہ کی تعریف کروں گی، جس نے میری براء ت نازل کی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دیں: {إِنَّ الَّذِینَ جَائُ وْا بِالْإِفْکِ عُصْبَۃٌ مِنْکُمْ} [النور: ۱۱] یہ کل دس آیات تھیں۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مسطح پر خرچ کیا کرتے تھے کیونکہ وہ فقیر تھااور ان کا رشتہ دار بھی تھا، اس نے بھی سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بارے میں تہمت والی بات کر دی تھی، اس لیے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں اس پر آئندہ خرچ نہیں کروں گا، یہ اس حد تک چلا گیا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دی: {وَلَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔} … اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھالیں کہ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دیں اور لازم ہے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ یہ آیت سن کر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں پسند کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے، پس انہوں نے جو مسطح کا خرچہ لگا رکھا تھا وہ دوبارہ جاری کر دیااورکہا اب میں اسے کبھی نہیں روکوں گا۔سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ زینب بنت حجش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے میرے معاملہ کے بارے میں سوال کیا کہ تم اس بارے میں کیا جانتی ہو؟ یا کیا سمجھتی ہو؟ یا تم کو کون سی بات پہنچی ہے؟‘ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس بات سے اپنے کان اورآنکھ کو محفوظ رکھنا چاہتی ہوں! اللہ کی قسم، میری معلومات کے مطابق عائشہ میں خیر ہی خیر ہے۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: یہ سیدہ زینب ہی امہات المومنین میں سے میرا مقابلہ کرتی تھیں،لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں تقویٰ کی بدولت اس معاملے میں پڑنے سے بچا لیا اور ان کی بہن سیدہ حمنہ بنت حجش ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے اپنی بہن کے ساتھ عصبیت اختیار کی اور ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوگئی۔ ابن شہاب کہتے ہیں: اس گرو ہ کے بارے میں ہمیں یہی کچھ معلوم ہو سکا۔

Haidth Number: 10755

۔ (۱۰۷۵۶)۔ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ أُمِّ رُومَانَ، وَہِیَ أُمُّ عَائِشَۃَ، قَالَتْ: کُنْتُ أَنَا وَعَائِشَۃُ قَاعِدَۃً فَدَخَلَتْ امْرَأَۃٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَتْ: فَعَلَ اللّٰہُ بِفُلَانٍ وَفَعَلَ تَعْنِی ابْنَہَا، قَالَتْ: فَقُلْتُ لَہَا: وَمَا ذٰلِکَ؟ قَالَتْ: ابْنِی کَانَ فِیمَنْ حَدَّثَ الْحَدِیثَ، قَالَتْ: فَقُلْتُ لَہَا: وَمَا الْحَدِیثُ؟ قَالَتْ: کَذَا وَکَذَا، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: أَسَمِعَ بِذٰلِکَ أَبُو بَکْرٍ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَتْ: أَسَمِعَ بِذٰلِکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: نَعَمْ، فَوَقَعَتْ أَوْ سَقَطَتْ مَغْشِیًّا عَلَیْہَا، فَأَفَاقَتْ حُمَّی بِنَافِضٍ فَأَلْقَیْتُ عَلَیْہَا الثِّیَابَ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَا لِہٰذِہِ؟)) قَالَتْ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَخَذَتْہَا حُمّٰی بِنَافِضٍ، قَالَ: ((لَعَلَّہُ مِنَ الْحَدِیثِ الَّذِی تُحُدِّثَ بِہِ؟)) قَالَتْ: قُلْتُ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَرَفَعَتْ عَائِشَۃُ رَأْسَہَا وَقَالَتْ: إِنْ قُلْتُ: لَمْ تَعْذِرُونِی، وَإِنْ حَلَفْتُ لَمْ تُصَدِّقُونِی، وَمَثَلِی وَمَثَلُکُمْ کَمَثَلِ یَعْقُوبَ وَبَنِیہِ حِینَ قَالَ: {فَصَبْرٌ جَمِیلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُونَ} فَلَمَّا نَزَلَ عُذْرُہَا أَتَاہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرَہَا بِذَلِکَ، فَقَالَتْ: بِحَمْدِ اللّٰہِ لَا بِحَمْدِکَ أَوْ قَالَتْ: وَلَا بِحَمْدِ أَحَدٍ۔ (مسند احمد: ۲۷۶۱۰)

سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی ماں سیدہ ام رومان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں اور عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیٹھی تھیں کہ ایک انصاری خاتون آئی اور وہ اپنے بیٹے کے متعلق کہنے لگی کہ اللہ اسے ہلاک کرے، تباہ کرے، میں نے اس سے کہا: کیا بات ہے؟ اس نے کہا: وہ بات کرنے والوں میں میرا بیٹا بھی شامل ہے۔ ام رومان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: کونسی بات؟ اس نے کہا: فلاں بات، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے دریافت کیا کہ آیایہ بات ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی سنی ہے؟ اس عورت نے کہا: جی ہاں، انہوں نے پھر پوچھا: کیا اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بھی اس کا علم ہو چکا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! یہ سنتے ہی وہ گر گئی اور وہ بے ہوش ہو گئی اسے شدت کا بخار ہو گیا، اور جسم کانپنے لگا، میں نے اس پر کپڑے ڈالے، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے اور پوچھا: اسے کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اسے شدید بخاری ہو گیا ہے اور اس کا جسم کانپ رہا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شاید اس کییہ کیفیت اس بات کی وجہ سے ہوئی ہے جو کہی جا رہی ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! یہ باتیں سن کر سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے سر اُٹھایا اور کہا: اگر میں اپنے حق میں کچھ کہوں تو آپ میری معذرت قبول نہیں کریں گے اور اگر میں قسم اُٹھاؤں تب بھی آپ میری بات نہیں مانیں گے، میری اور آپ کی مثال یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کی سی ہے، جنہوں نے بیٹوں کی بات سن کر کہا تھا: {فَصَبْرٌ جَمِیلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُونَ} … پس صبر کرنا ہی بہتر ہے، تم جو کچھ بیان کر رہے ہو اس پر اللہ ہی کی مدد درکار ہے۔ (سورۂ یوسف: ۱۸) پس جب اللہ کی طرف سے ان کی براء ت نازل ہوئی تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس آئے اور انہیں نزولِ براء ت کی اطلاع دی تو سیّدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: میں اللہ کی حمد کرتی ہوں، آپ کی نہیں،یایوں کہا کہ اللہ کے سوا کسی کی حمد نہیں۔

Haidth Number: 10756

۔ (۱۰۷۵۷)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ اُمِّ رُوْمَانٍ قَالَتْ: بَیْنَا اَنَا عِنْدَ عَائِشَۃَ اِذْ دَخَلَتْ عَلَیْنَا اِمْرَاَۃٌ مِنَ الْاَنْصَارِ، فَذَکَرَتْ نَحْوَ الْحَدِیْثِ الْمُتَقَدمِ وَفِیْہِ: قَالَتْ وَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عُذْرَہَا فَرَجَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَعَہُ أَبُو بَکْرٍ فَدَخَلَ فَقَالَ: ((یَا عَائِشَۃُ! إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَنْزَلَ عُذْرَکِ۔)) قَالَتْ: بِحَمْدِ اللّٰہِ لَا بِحَمْدِکَ، قَالَتْ: قَالَ لَہَا أَبُو بَکْرٍ: تَقُولِینَ ہٰذَا لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَتْ: فَکَانَ فِیمَنْ حَدَّثَ الْحَدِیثَ رَجُلٌ، کَانَ یَعُولُہُ أَبُو بَکْرٍ فَحَلَفَ أَبُو بَکْرٍ أَنْ لَا یَصِلَہُ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَا یَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ، قَالَ أَبُو بَکْرٍ: بَلٰی! فَوَصَلَہُ۔ (مسند احمد: ۲۷۶۱۱)

۔(دوسری سند) سیدہ ام رومان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں تھی کہ ایک انصاری خاتون ہمارے ہاں آئی، اس سے آگے ساری حدیث گزشتہ حدیث کی مانند ہے، البتہ اس میں ہے: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی براء ت نازل کر دی ہے۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں واپس اندر آئے اور فرمایا: عائشہ ! بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہاری براء ت نازل کی ہے۔ انھوں نے کہا:اللہ کا شکر ہے، آپ کا نہیں۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کییہ بات سن کر سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: تم ایسی بات اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہتی ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، ام رومان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا پر الزام وتہمت لگانے والوں میں سے ایک شخص کی کفالت سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کرتے تھے، اس واقعہ کے بعد انہوں نے قسم اُٹھا لی کہ اب اس کے ساتھ پہلے والا برتاؤ نہیں کریں گے، اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔{وَلَا یَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ…} تم میں سے جو لوگ صاحبِ فضل اور مال دار ہیں وہ اس بات کی قسم نہ اُٹھائیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں، مساکین اور اللہ کی راہ میں ہجرت کر کے آنے والوں کو کچھ نہ دیں گے۔ انہیں چاہیے کہ معاف کر دیںا ور درگزر کریں، کیا تمہیںیہ پسند نہیں کہ اللہ تمہاری خطائیں معاف کر دے۔ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیوں نہیں، چنانچہ انہوں نے اس کے ساتھ حسن برتاؤ کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا۔

Haidth Number: 10757
ابو اسحاق سے مروی ہے کہ ایک شخص نے (ازراہِ مذاق) سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا کہ تم لوگ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھی تھے اور تم ہی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے تھے، سیدنا براء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس روز فرار نہیں ہوئے تھے۔ اور میں نے خندق والے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لوگوں کے ساتھ مل کر مٹی اُٹھا رہے تھے۔ دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیںیہاں تک کہ مٹی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیٹ کی جلد کو چھپا دیا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابن رواحہ کے یہ کلمات زبان سے ادا فرما رہے تھے: اَللّٰہُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اہْتَدَیْنَا،وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا،فَأَنْزِلَنْ سَکِینَۃً عَلَیْنَا،وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَیْنَا،فَإِنَّ الْأُلٰی قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا،وَإِنْ أَرَادُوا فِتْنَۃً أَبَیْنَا (یا اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم راہِ ہدایت نہ پا سکتے اور ہم نہ صدقے کرتے اور نہ نمازیں پڑھتے، تو ہمارے اوپر سکون نازل فرما اور اگر ہمارا دشمن سے مقابلہ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھنا، ان کفار نے ہمارے اوپر سرکشی کی ہے اور دین کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے، اگر انہوں نے کسی فتنہ وفساد کا ارادہ کیا تو ہم اس سے انکار کر دیں گے۔) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کلمات کے ساتھ اپنی آواز کو لمبا کر کے ادا کر رہے تھے۔

Haidth Number: 10758