Blog
Books
Search Hadith

طوافِ وداع کی مشروعیت اور حائضہ سے اس کے ساقط ہونے اورملتزم کے پاس دعا کرنے کا بیان طوافِ وِداع: …وہ طواف جو حج سے فراغت کے بعد مکہ مکرمہ سے رخصت ہوتے وقت کیا جاتا ہے۔

29 Hadiths Found
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ مناسکِ حج کے بعد لوگ منیٰ سے ہی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہورہے تھے، تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک اپنے گھرکو نہ جائے جب تک وہ بیت اللہ کا طواف نہ کر لے۔

Haidth Number: 4580
۔ سیدنا حارث بن عبداللہ ثقفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پوچھا کہ اگر ایک عورت طواف افاضہ کر چکنے کے بعد حائضہ ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ انہوں نے کہا: اس کا آخری عمل تو بیت اللہ کا طواف (یعنی طواف وداع) ہی ہونا چاہیے۔ میں (حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ )نے کہا: مجھے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ فتوی دیا تھا۔ یہ سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں ، جو بات تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے دریافت کر چکا ہے، مجھ سے بھی پوچھتا ہے تاکہ میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مخالفت کروں۔

Haidth Number: 4581
۔ (دوسری سند) (سیدنا حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ : جو آدمی حج یا عمرہ کرے تو (روانگی سے قبل) اس کا آخری عمل بیت اللہ کا وداع ہونا چاہیے۔ یہ سن کر سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تیرا ناس ہو جائے، تو نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ حدیث سنی ہوئی ہے اور پھر ہمیں اس کے بارے میں بتلاتا نہیں۔

Haidth Number: 4582
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حائضہ کو طوافِ وداع کے بغیر ہی (اپنے وطن کو) واپس چلے جانے کی رخصت دی ہے، بشرطیکہ وہ پہلے طوافِ افاضہ کر چکی ہو۔

Haidth Number: 4583
۔ سیدنا عبدالرحمن بن صفوان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حجراسود اور کعبہ کے دروازے کے درمیان والی جگہ پر بیت اللہ کے ساتھ چمٹے ہوئے دیکھا اور میں نے دوسرے لوگوں کو بھی دیکھا کہ وہ بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ بیت اللہ کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔

Haidth Number: 4584

۔ (۵۰۶۹)۔ عَنِ الزُّہْرِیِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِی أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ: أَنَّ نَاسًا مِنَ الْأَنْصَارِ قَالُوْا یَوْمَ حُنَیْنٍ حِینَ أَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُولِہِ أَمْوَالَ ہَوَازِنَ، وَطَفِقَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُعْطِی رِجَالًا مِنْ قُرَیْشٍ الْمِائَۃَ مِنَ الْإِبِلِ کُلَّ رَجُلٍ، فَقَالُوْا: یَغْفِرُ اللّٰہُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُعْطِی قُرَیْشًا وَیَتْرُکُنَا، وَسُیُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِہِمْ، قَالَ أَنَسٌ: فَحُدِّثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِمَقَالَتِہِمْ، فَأَرْسَلَ إِلَی الْأَنْصَارِ فَجَمَعَہُمْ فِی قُبَّۃٍ مِنْ أَدَمٍ، وَلَمْ یَدْعُ أَحَدًا غَیْرَہُمْ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوْا جَائَ ہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَا حَدِیثٌ بَلَغَنِی عَنْکُمْ؟)) فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: أَمَّا ذَوُوْ رَأْیِنَا فَلَمْ یَقُولُوْا شَیْئًا، وَأَمَّا نَاسٌ حَدِیثَۃٌ أَسْنَانُہُمْ فَقَالُوْا کَذَا وَکَذَا لِلَّذِی قَالُوْا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنِّی لَأُعْطِی رِجَالًا حُدَثَاء َ عَہْدٍ بِکُفْرٍ أَتَأَلَّفُہُمْ، (أَوْ قَالَ: أَسْتَأْلِفُہُمْ) أَفَلَا تَرْضَوْنَ أَنْ یَذْہَبَ النَّاسُ بِالْأَمْوَالِ وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللّٰہِ إِلٰی رِحَالِکُمْ؟ فَوَاللّٰہِ! لَمَا تَنْقَلِبُونَ بِہِ خَیْرٌ مِمَّا یَنْقَلِبُونَ بِہِ۔)) قَالُوْا: أَجَلْ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَدْ رَضِینَا، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّکُمْ سَتَجِدُونَ بَعْدِی أَثَرَۃً شَدِیدَۃً، فَاصْبِرُوْا حَتّٰی تَلْقَوُا اللّٰہَ وَرَسُولَہُ، فَإِنِّی فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ۔)) قَالَ أَنَسٌ: فَلَمْ نَصْبِرْ۔ (مسند أحمد: ۱۲۷۲۶)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہوازن کے مال اپنے رسول کو بطورِ فئدیئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس مال کو قریشیوں میں تقسیم کرتے ہوئے ایک ایک آدمی کو سو سو اونٹ دیئے تو بعض انصاریوں نے کہا: اللہ اپنے رسول کو معاف کرے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہیں، جبکہ ہماری تلواریں ان کے خون سے ٹپک رہی ہیں، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ان کی بات کا پتہ چلا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انصاریوں کو بلا بھیجا اور ان کو چمڑے کے ایک خیمے میں جمع کیا، انصاریوں کے علاوہ کسی کو نہیں بلایا تھا، جب وہ جمع ہو گئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: تمہاری طرف سے مجھے کچھ باتیں موصول ہو رہی ہے، کیا مسئلہ ہے؟ انھوں نے کہا: ہمارے سمجھ دار لوگوں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے، البتہ کم سن لوگوں نے اس قسم کی باتیں کی ہیں، یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک میں ایسے افراد کو یہ مال دے رہا ہوں، جنھوں نے ابھی ابھی کفر کو چھوڑا ہے، میں ان کی تالیف ِ قلبی کر رہا ہوں، بھلا تم لوگ کیا اس شرف پر راضی نہیں ہو کہ لوگ مال لے کر جائیں اور تم رسول اللہ کو لے کر اپنے گھروں کو لوٹو، اللہ کی قسم ! تم جو چیز لے کر لوٹ رہے ہو، یہ اس چیز سے بہتر ہے، جو وہ لوگ لے کر جا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! ہم راضی ہیں، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: تم میرے بعد ترجیحِ نفس اور خود غرضی پاؤ گے، پس صبر کرنا، یہاں تک کہ اللہ اور اس کے رسول کو جا ملو، پس بیشک میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: لیکن ہم نے صبر نہیں کیا۔

Haidth Number: 5069

۔ (۵۰۷۰)۔ عن عَمْرو بْنُ تَغْلِبَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَتَاہُ شَیْئٌ فَأَعْطَاہُ نَاسًا وَتَرَکَ نَاسًا، وَقَالَ جَرِیرٌ: أَعْطٰی رِجَالًا وَتَرَکَ رِجَالًا، قَالَ: فَبَلَغَہُ عَنِ الَّذِینَ تَرَکَ أَنَّہُمْ عَتِبُوا وَقَالُوْا، قَالَ: فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللّٰہَ وَأَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((إِنِّی أُعْطِی نَاسًا وَأَدَعُ نَاسًا، وَأُعْطِی رِجَالًا وَأَدَعُ رِجَالًا، (قَالَ عَفَّانُ: قَالَ: ذِی وَذِی) وَالَّذِی أَدَعُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الَّذِی أُعْطِی، أُعْطِی أُنَاسًا لِمَا فِی قُلُوبِہِمْ مِنَ الْجَزَعِ وَالْہَلَعِ، وَأَکِلُ قَوْمًا إِلٰی مَا جَعَلَ اللّٰہُ فِی قُلُوبِہِمْ مِنَ الْغِنَی وَالْخَیْرِ، مِنْہُمْ عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ۔)) قَالَ: وَکُنْتُ جَالِسًا تِلْقَائَ وَجْہِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِی بِکَلِمَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حُمْرَ النَّعَمِ۔ (مسند أحمد: ۲۰۹۴۸)

۔ سیدنا عمرو بن تغلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کچھ مال وصول ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ کو نہ دیا، جن لوگوں کو نہیں دیا گیا تھا، ان کی طرف سے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ خبر ملی کہ انھوں نے طعن کیا ہے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر چڑھے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: بیشک میں کچھ لوگوں کو دیتا ہوں اور بعض کو نہیں دیتا، میں کچھ مردوں کو عطا کرتا ہوں اور بعض کو چھوڑ دیتا ہوں، لیکن میں جن لوگوں کو چھوڑ دیتا ہوں، وہ مجھے ان سے زیادہ محبوب ہیں، جن کو میں دیتا ہوں، میں ان لوگوں کو عطا کرتا ہوں، جن کے دلوں میں جزع و فزع اور بے صبری و بے قراری ہے اور بعض لوگوں کو اس غِنا اور خیر کے سپرد کر دیتا ہوں، جو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رکھی ہے اور عمرو بن تغلب بھی ان میں سے ہے۔ سیدنا عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے بیٹھا ہوا تھا، میں یہ پسند نہیں کرتا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اس بات کے عوض مجھے سرخ اونٹ مل جائیں۔

Haidth Number: 5070
۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سود کھانے والے پر، کھلانے والے پر، اس پر گواہی دینے والوں پر، اس کے بارے میں لکھنے والے پر، حسن کے لئے گوند نے والی پر اور گوندوانے والی پر، صدقہ ادا نہ کرنے والے پر ، حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیاجائے،ان سب افراد پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لعنت کی ہے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نوحہ سے منع کرتے تھے۔

Haidth Number: 5954
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سود کھانے والے پر، سود کھلانے والے پر، اس کے دونوں گواہوںپر اور اس کا معاملہ لکھنے والے پر لعنت کی ہے۔

Haidth Number: 5955
Haidth Number: 5956
۔ سیدنا ابوہر یرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو ں پر ایک ایسا وقت آئے گاکہ یہ سود کھائیں گے۔ کسی نے کہا: کیا سب لوگو سود خور بن جائیں گے؟ آپ نے فرمایا: اگر کوئی نہیں کھائے گا تو اس کا غبار اس تک ضرور پہنچے گا۔

Haidth Number: 5957
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک سود اگرچہ زیادہ ہو، بہرحال اس کا انجام قلت ہی ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے: {یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبَا وَیُرْبِیْ الصَّدَقَاتِ۔} … اللہ تعالی سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے۔ (سورۂ بقرہ: ۲۷۶)

Haidth Number: 5958
Haidth Number: 5959
Haidth Number: 5960
Haidth Number: 5961
۔ سیدنا سمرہ بن جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس رات مجھے معراج کرائی گئی، میں نے ایک آدمی دیکھا، وہ ایک نہر میں تیررہا تھا اور اس کے منہ میںپتھر پھینکے جارہے تھے، میں نے پوچھا: یہ کیا ہے ، مجھے کہا گیا کہ یہ سود خور ہے۔

Haidth Number: 5962

۔ (۸۵۴۹)۔ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ: أَ خْبَرَنِی ابْنُ أَ بِی مُلَیْکَۃَ: أَ نَّ حُمَیْدَ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَ خْبَرَہُ: أَ نَّ مَرْوَانَ قَالَ: اذْہَبْ یَا رَافِعُ لِبَوَّابِہِ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْ: لَئِنْ کَانَ کُلُّ امْرِئٍ مِنَّا فَرِحَ بِمَا أُوتِیَ، وَأَ حَبَّ أَ نْ یُحْمَدَ بِمَا لَمْ یَفْعَلْ، لَنُعَذَّبَنَّ أَ جْمَعُونَ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَمَا لَکُمْ؟ وَہٰذِہِ إِنَّمَا نَزَلَتْ ہٰذِہِ فِی أَ ہْلِ الْکِتَابِ، ثُمَّ تَلَا ابْنُ عَبَّاسٍ: {وَإِذْ أَ خَذَ اللّٰہُ مِیثَاقَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ} ہٰذِہِ الْآیَۃَ وَتَلَا ابْنُ عَبَّاسٍ: {لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَیَفْرَحُوْنَ بِمَا أَتَوْا وَیُحِبُّونَ أَ نْ یُحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوا} [آل عمران: ۱۸۷۔۱۸۸] وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: سَأَ لَہُمُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ شَیْئٍ فَکَتَمُوہُ إِیَّاہُ وَأَ خْبَرُوہُ بِغَیْرِہِ فَخَرَجُوا، قَدْ أَ رَوْہُ أَنْ قَدْ أَخْبَرُوہُ بِمَا سَأَلَہُمْ عَنْہُ، وَاسْتَحْمَدُوا بِذٰلِکَ إِلَیْہِ، وَفَرِحُوا بِمَا أَ تَوْا مِنْ کِتْمَانِہِمْ إِیَّاہُ مَا سَأَ لَہُمْ عَنْہُ۔ (مسند احمد: ۲۷۱۲)

۔ حمید بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا: اے رافع! تم سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس جاؤ اوران سے کہو: اگر ہم میں سے ہر کوئی اس چیز پر خوش ہو، جو اس کو دی گئی ہے اور یہ پسند کرے کہ ایسے کام پر بھی اس کی تعریف کی جائے، جو اس نے کیا نہ ہو، تو پھرتو ہم سب کو عذاب ہوگا۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا:تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تمہارا س آیت سے کیا تعلق ہے؟ یہ تو اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی، پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی: {وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہ لِلنَّاسِ وَلَاتَکْتُمُوْنَہ ْ فَنَبَذُوْہُ وَرَاء َ ظُہُوْرِھِمْ وَاشْتَرَوْا بِہٖثَمَـــنًاقَلِیْلًا فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُوْنَ۔} … اور جب اللہ نے ان لوگوں سے پختہ عہد لیا جنھیں کتاب دی گئی کہ تم ہر صورت اسے لوگوں کے لیے صاف صاف بیان کرو گے اور اسے نہیں چھپاؤ گے تو انھوں نے اسے اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا اور اس کے بدلے تھوڑی قیمت لے لی۔ سو برا ہے جو وہ خرید رہے ہیں۔ اور اس کے ساتھ یہ آیت بھی پڑھی: {لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَیَفْرَحُوْنَ بِمَا أَ تَوْا وَیُحِبُّونَ أَ نْ یُحْمَدُوْا بِمَا لَمْیَفْعَلُوا} … ان لوگوں کو ہرگز خیال نہ کر جو ان (کاموں) پر خوش ہوتے ہیں جو انھوں نے کیے اور پسند کرتے ہیں کہ ان کی تعریف ان (کاموں) پر کی جائے جو انھوں نے نہیں کیے۔ پھر سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان اہل کتاب سے ایک سوال کیا، انہوں نے اس کو چھپایا اورغلط بتایا اور تمنا یہ کی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی اس بناء پر تعریف بھی کریں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے جو کچھ پوچھا ہے، انہوں نے وہ بتا دیا اور یہیہودی اس صحیح بات کو چھپا لینے پر بہت خوش تھے کہ انھوں نے اصل بات بھی چھپا لی ہے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جواب بھی دے دیا ہے۔

Haidth Number: 8549
۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں بیعت ِ عقبہ اولی میں موجود تھا، ہم کل بارہ مرد تھے، ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ان امور پر بیعت کی، جن امور کا ذکر عورتوں کی بیعت میں ہے، یہ بیعت لڑائی اور جہاد فرض ہونے سے پہلے ہوئی تھی، ہم نے اس بات پر بیعت کی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کریں گے، چوری نہیں کریں گے، زنا نہیں کریں گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گے، بہتان گھڑ کر نہیں لگائیں گے اور نیکی کے سلسلے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی نافرمانی نہیں کریں گے، اگر تم نے یہ بیعت پوری کر دی تو تمہارے لیے جنت ہو گی اور اگر تم نے کسی چیز میںمخالفت کر دی تو تمہارا معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہو گا، وہ چاہے تو تم کو عذاب دے اور چاہے تو تم کو بخش دے۔

Haidth Number: 10602
۔ (دوسری سند) سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو نقباء میں سے ایک تھے، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی لڑائی کرنے پر بیعت کی، سیدنا عبادہ بن صامت بارہ افراد میں سے تھے، جنہوں نے عقبۂ اولی میں ان امور پر بیعت کی تھی، جن امور پر عورتوں کی بیعت ہوتی تھی، بیعتیہ تھی کہ بدحالی میں، خوشحالی میں، خوشی میں اور ناخوشی میں خلیفہ کی بات سنیں گے اور اس کی اطاعت کریں گے، امارت کے اہل لوگوں سے امارت نہیں چھینیں گے، حق کہیں گے، وہ جہاں بھی ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والی کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔

Haidth Number: 10603

۔ (۱۰۷۷۵)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: لَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ الْخَنْدَقِ، وَوَضَعَ السِّلَاحَ وَاغْتَسَلَ، فَأَتَاہُ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَام وَعَلٰی رَأْسِہِ الْغُبَارُ، قَالَ: قَدْ وَضَعْتَ السِّلَاحَ، فَوَاللّٰہِ! مَا وَضَعْتُہَا اخْرُجْ إِلَیْہِمْ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((فَأَیْنَ؟)) قَالَ: ہَاہُنَا فَأَشَارَ إِلٰی بَنِی قُرَیْظَۃَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَیْہِمْ، قَالَ ہِشَامٌ: فَأَخْبَرَنِی أَبِی: أَنَّہُمْ نَزَلُوا عَلٰی حُکْمِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَدَّ الْحُکْمَ فِیہِمْ إِلٰی سَعْدٍ، قَالَ: فَإِنِّی أَحْکُمُ أَنْ تُقَتَّلَ الْمُقَاتِلَۃُ وَتُسْبَی النِّسَائُ وَالذُّرِّیَّۃُ وَتُقَسَّمَ أَمْوَالُہُمْ، قَالَ ہِشَامٌ: قَالَ أَبِی: فَأُخْبِرْتُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَقَدْ حَکَمْتَ فِیہِمْ بِحُکْمِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔))۔ (مسند احمد: ۲۴۷۹۹)

سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب غزوۂ خندق سے واپس آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہتھیار اتار کر غسل کیا تو جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آئے، ان کے سر پر غبار تھا، انہوں نے کہا: کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہتھیار اتار دئیے؟ اللہ کی قسم میں نے تو ہتھیار نہیں اتارے ہیں، آپ بنو قریظہکی طرف روانہ ہوں۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ادھر روانہ ہو گئے۔ عروہ نے بیان کیا کہ بنو قریظہ کے لوگ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فیصلہ پر راضی ہو گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فیصلے کا اختیار سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دے دیا اور انہوں نے کہا: میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں سے لڑنے والوں کو قتل کر دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کے اموال کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ یہ فیصلہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: ( اے سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) تو نے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ والا فیصلہ کیا ہے، یعنی ایسا فیصلہ کیا ہے جو اللہ کو بھی پسند اور منظور ہے۔

Haidth Number: 10775
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں گویا کہ اس وقت بھی جبریل علیہ السلام کی سواری کا اُٹھنے والا غبار بنی غنم کی گلی میں آسمان کی طرف اُڑتا دیکھ رہا ہوں، جب وہ بنو قریظہ کی طرف جا رہے تھے۔

Haidth Number: 10776
سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ بنو قریظہ کی عورتوں میں سے صرف ایک عورت کو قتل کیا گیا، اللہ کی قسم وہ میرے پاس بیٹھی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی، جبکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بازار میں ان کے مردوں کو قتل کر رہے تھے، اچانک پکارنے والے نے اس کا نام لے کر پکارا تو وہ کہنے لگی: اللہ کی قسم! یہ تو میرے نام کی پکار ہے۔ میں نے کہا: تیرا بھلا ہو، تجھے کیا ہوا؟ وہ بولی: مجھے قتل کیا جائے گا۔ میں نے پوچھا: وہ کیوں؟ اس نے کہا: میں نے ایک جرم کیا تھا۔ اُمّ المؤمنین فرماتی ہیں: پس اسے لے جا کر اس کی گردن اُڑا دی گئی۔ سیّدہ کہا کرتی تھیں کہ اللہ کی قسم! مجھے اس کی خوش طبعی اور کثرت سے ہنسنا نہیں بھولتا، حالانکہ اسے معلوم تھا کہ اسے قتل کیا جانے والا ہے۔

Haidth Number: 10777

۔ (۱۱۶۹۵)۔ قَالَ أَخْبَرَنِی یَحْیَی بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ بْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ، قَالَ أَخْبَرَتْنِی جَدَّتِی، یَعْنِی امْرَأَۃَ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ، قَالَ عَفَّانُ: عَنْ جَدَّتِہِ أُمِّ أَبِیہِ امْرَأَۃِ رَافِعِ بْنِ خَدِیجٍ، أَنَّ رَافِعًا رَمٰی مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ أُحُدٍ اَوْ یَوْمَ خَیْبَرَ، قَالَ: أَنَا أَشُکُّ بِسَہْمٍ فِی ثَنْدُوَتِہِ، فَأَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ انْزِعِ السَّہْمَ، قَالَ: ((یَا رَافِعُ إِنْ شِئْتَ نَزَعْتُ السَّہْمَ وَالْقُطْبَۃَ جَمِیعًا، وَإِنْ شِئْتَ نَزَعْتُ السَّہْمَ وَتَرَکْتُ الْقُطْبَۃَ، وَشَہِدْتُ لَکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَنَّکَ شَہِیدٌ۔)) قَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ بَلْ انْزِعِ السَّہْمَ وَاتْرُکِ الْقُطْبَۃَ، وَاشْہَدْ لِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَنِّی شَہِیدٌ، قَالَ: فَنَزَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم السَّہْمَ وَتَرَکَ الْقُطْبَۃَ۔ (مسند احمد: ۲۷۶۶۹)

سیدنا رافع بن خدیج ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اہلیہ نے بیان کیا کہ سیدنا رافع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ احدیا خیبر کے دن ایک تیر ان کے سینے میں آ کر لگا تھا، انہوںنے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ اس تیر کو باہر کھینچ دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رافع! اگر تم چاہو تو میں تیر اور اس کے پھل دونوں کو کھینچ دوں، لیکن اگر چاہو تو تیر کو باہر کھینچ لوں اور اس کے پھل کو اندر ہی رہنے دوں اور میں قیامت کے دن تمہارے حق میں گواہی دوں کہ تم اللہ کی راہ میں شہید ہو۔ انہوںنے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! تو پھر آپ تیر کھینچ لیں اور اس کے پھل کو اندر رہنے دیں اور آپ قیامت کے دن میرے حق میں گواہی دیں کہ میں اللہ کی راہ میں شہید ہوا ہوں۔ پس رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تیر کو باہر کھینچ لیا اور اس کا پھل رہنے دیا۔

Haidth Number: 11695

۔ (۱۲۲۲۴)۔ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ: حَدَّثَنِی نَافِعٌ مَوْلَی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: خَرَجْتُ أَنَا وَالزُّبَیْرُ والْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ إِلَی أَمْوَالِنَا بِخَیْبَرَ نَتَعَاہَدُہَا، فَلَمَّا قَدِمْنَاہَا تَفَرَّقْنَا فِی أَمْوَالِنَا، قَالَ: فَعُدِیَ عَلَیَّ تَحْتَ اللَّیْلِ، وَأَنَا نَائِمٌ عَلَی فِرَاشِی، فَفُدِعَتْ یَدَایَ مِنْ مِرْفَقِی، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ اسْتُصْرِخَ عَلَیَّ صَاحِبَایَ، فَأَتَیَانِی فَسَأَلَانِی عَمَّنْ صَنَعَ ہٰذَا بِکَ؟ قُلْتُ: لَا أَدْرِی، قَالَ: فَأَصْلَحَا مِنْیَدَیَّ، ثُمَّ قَدِمُوْا بِی عَلٰی عُمَرَ، فَقَالَ: ہَذَا عَمَلُ یَہُودَ، ثُمَّ قَامَ فِی النَّاسِ خَطِیبًا، فَقَالَ: أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ عَامَلَ یَہُودَ خَیْبَرَ عَلٰی أَنَّا نُخْرِجُہُمْ إِذَا شِئْنَا، وَقَدْ عَدَوْا عَلَی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَفَدَعُوْا یَدَیْہِ کَمَا بَلَغَکُمْ مَعَ عَدْوَتِہِمْ عَلَی الْأَنْصَارِ قَبْلَہُ لَا نَشُکُّ أَنَّہُمْ أَصْحَابُہُمْ، لَیْسَ لَنَا ہُنَاکَ عَدُوٌّ غَیْرُہُمْ، فَمَنْ کَانَ لَہُ مَالٌ بِخَیْبَرَ فَلْیَلْحَقْ بِہِ، فَإِنِّی مُخْرِجٌ یَہُودَ فَأَخْرَجَہُمْ۔ (مسند احمد: ۹۰)

سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں، سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا مقداد بن اسود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خیبر میں اپنے اموال کی دیکھ بھال کے لیے گئے، وہاں پہنچ کر ہم میں ہر کوئی اپنے اپنے مال میں چلا گیا، میں اپنے بستر پر رات کو سویا ہوا تھا کہ مجھ پر حملہ کر دیا گیا اور کہنیوں سے میرے دونوں بازئوں کو اس طرح کھینچا گیا کہ جوڑوں میں کجی پیدا ہو گئی، جب صبح ہوئی تو میرے دونوں ساتھیوں کو میرے پاس میری مدد کے لیے بلایا گیا،جب وہ میرے پاس آئے تو انہوں نے مجھ سے کہا:تمہارے ساتھ یہ کاروائی کس نے کی ہے؟ میں نے کہا: مجھے تو کوئی پتہ نہیں ہے کہ وہ کون تھے، انہوں نے میرے ہاتھوں کا علاج کیا اور مجھے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس لے گئے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یہ یہودیوں کی کارستانی ہے، پھر وہ خطاب کرنے کے لیے لوگوں میں کھڑے ہوئے اور کہا، لوگو! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیبر کے یہودیوں سے معاہدہ کیا تھا کہ جب ہم چاہیں گے، انہیں یہاں سے نکال سکیں گے۔ ان لوگوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے زیادتی کی ہے اور ان کے ہاتھ کھینچ ڈالے ہیں، جیسا کہ تم کو پتہ چل چکا ہے اور اس سے پہلے یہ انصاریوں سے دشمنی کا اظہار کر چکے ہیں، اب ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ یہ زیادتیاں انھوں نے ہی کی ہیں، کیونکہ یہاں ہمارا کوئی اور دشمن ہی نہیں ہے، لہذا خیبر میں جس جس آدمی کا مال ہے، وہ جاکر اسے سنبھال لے، میں یہودیوں کو خیبر سے نکالنے ہی والا ہوں۔ پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہودیوںکو وہاں سے جلا وطن کر دیا۔

Haidth Number: 12224
سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد میں مسجد نبوی اینٹوں سے تعمیر ہوئی تھی اور اس کی چھت کھجور کی شاخوں کی اور اس کے ستون کھجور کے تنوں کے تھے، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے عہد میں اس میں کوئی اضافہ نہ کیا، البتہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسے نئے سرے سے تعمیر کیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے زمانہ والی بنیادوں پر ہی اسکی بنیادیں اٹھائیں اور انہوں نے اسے اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے تعمیر کیا اور اس کے ستون لکڑی کے بنائے، بعد ازاں سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسے تعمیر کیا اور اس میںبہت زیادہ توسیع بھی کی، انہوں نے اس کی دیوار وں کو منقش پتھروں سے چونا گچ کیا اور اس کے ستون منقش پتھروں سے اور چھت ساگواں کی لکڑی سے بنائی۔

Haidth Number: 12686
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مسجد نبوی میں معروف ستون سے مقصورہ (پتھر) تک اضافہ کیا تھا اور سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی اضافہ کیا تھا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا تھا: اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے یہ بات نہ سنی ہوتی کہ ہم اپنی اس مسجد میں توسیع کرنا چاہتے ہیں تو میں اس میں توسیع نہ کرتا۔

Haidth Number: 12687
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک چوپایہ ظاہر ہوگا، اس کے پاس موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور سلیمان علیہ السلام کی مہر ہوگی، وہ کافر کے چہرے یا ناک پر اس مہر سے نشان لگائے گا، او راس عصا کے ساتھ اہل ایمان کے چہروں کو چمکا دے گا، یہاں تک کہ ایک دسترخوان پر جمع ہو کر لوگ بیٹھے ہوں اور وہ (اس علامت کی وجہ سے شناخت کر کے) کہیں گے: اے مومن، اے کافر! (اس علامت کو دیکھ کر) ایک دوسرے کو کہیں گے کہ یہ مومن ہے اور یہ کافر ہے۔

Haidth Number: 13038
سیدنا ابوامامہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک چوپایہ نکلے گا‘ وہ لوگوں کی ناک پر ایک علامت لگائے گا اور وہ تم میں لمبی عمریں پائیں گے‘ حتی کہ ایک آدمی اونٹ خریدے گا، جب کوئی اس سے پوچھے گا کہ تو نے یہ اونٹ کس سے خریدا ہے، تو وہ جواب دے گا: میں نے یہ نشان زدہ لوگوں میں سے ایک آدمی سے خریدا تھا۔

Haidth Number: 13039
سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے اپنے ساتھ لیے مکہ کے قریب ایک دیہاتی جگہ تشریف لے گئے، وہاں ایک خشک زمین تھی، اس کے ارد گرد ریت تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس مقام سے چوپایہ ظہور پذیر ہوگا۔ وہاں ایک بالشت کے برابر دراڑسی تھی۔

Haidth Number: 13040