انس بن مالکرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس براق لایا گیا، یہ ایک سفید لمبا جانور تھا۔ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا، جہاں اس کی نگاہ ختم ہوتی وہاں اس کا قدم پڑتا، میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس میں آیا، اور اسے اس ستون سے باندھ دیا جس سے انبیاء سواریاں باندھا کرتے تھے۔ پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور اس میں دو رکعت نماز پڑھی، پھر میں باہر نکلا، جبریل علیہ السلام میرے پاس ایک برتن لائے جس میں شراب تھی، اور دوسرا برتن لائے جس میں دودھ تھا، میں نے دودھ کو پسند کیا۔ جبریل علیہ السلام نے کہا: آپ نے فطرت کو اختیار کیا ہے۔ پھر مجھے آسمان کی طرف لے جایا گیا، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھٹکھٹایا، پوچھا گیا: کون ہو؟ کہا کہ جبریل۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہنے لگے: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا: کیا انہیں پیغام ملا ہے؟ کہنے لگے: انہیں حکم ملا ہے، پھر ہمارے لئے دروازہ کھول دیا گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ آدم علیہ السلام کو دیکھا، انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لئے خیر کی دعا کی۔ پھر مجھے دوسرے آسمان کی طرف لے جایا گیا، جبریل نے دروازہ کھٹکھٹایا، پوچھا گیا کون ہو؟ کہنے لگے:جبریل ہوں، پوچھا گیا،آپ کے ساتھ کون ہے۔ کہنے لگے: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )،پوچھاگیا :کیا انہیں پیغام ملا ہے؟ فرمایا: انہیں حکم ملا ہے، پھر ہمارے لئے دروازہ کھول دیا گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے خالہ کے بیٹے عیسیٰ بن مریم اور یحیی بن زکریا کھڑے ہیں، ان دونوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لئے خیر کی دعا کی۔ پھر مجھے تیسرے آسمان کی طرف چڑھا ياگیا، جبریل نے دروازہ کھٹکھٹایا، پوچھا گیا کون ہو؟ کہنے لگے: جبریل، پوچھا گیا :تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہنے لگے: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )،پوچھا گیا: کیا انہیں پیغام ملا ہے؟ کہنے لگے:انہیں پیغام ملا ہے۔ پھر ہمارے لئے دروازہ کھول دیا گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے یوسف علیہ السلام کھڑے ہیں جنہیں حسن کا نصف حصہ عطا کیا گیا ہے انہوں نے مرحبا کہا اور میرے لئے خیر کی دعا کی، پھر مجھے چوتھے آسمان کی طرف لےجایا گیا، جبریل علیہ السلام نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا گیا: کون ہو؟ کہنے لگے: جبریل۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہیں؟ کہنے لگے: محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )،پوچھا گیا: کیا انہیں پیغام ملا ہے؟ کہنے لگے: انہیں پیغام ملا ہے۔ پھر ہمارے لئے دروازہ کھول دیا گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ ادریس علیہ السلام میرے سامنے کھڑے ہیں، انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لئے خیر کی دعا کی، اللہ عزوجل نے (انہی کے بارے میں فرمایا ہے) فرمایا:﴿مریم:۵۷﴾ ہم نے انہیں بلند مقام پر فائز کیا۔ پھر مجھے پانچویں آسمان کی طرف لے جایا گیا۔جبریل نے دروازہ کھٹکھٹا یا۔پوچھا گیا :کون ہو؟ کہنے لگے: جبریل ۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہنے لگے :محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )پوچھا گیا : کیاان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے؟ کہنے لگے :ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے۔ہمارے لئے دروازہ کھول دیا گیا۔کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے ہارون کھڑے ہیں۔ انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لئے خیر کی دعا کی، پھر مجھے چھٹے آسمان کی طرف لے جایاگیا۔ جبریل نے دروازہ کھٹکھٹا یا پوچھا گیا :کون ہو؟ کہنے لگے: جبریل ۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہنے لگے :محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )،پوچھا گیا :کیاان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے؟ کہنے لگے :ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے۔ہمارے لئے دروازہ کھول دیا گیا۔کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے موسیٰ کھڑے ہیں، انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لئے خیر کی دعا کی۔ پھر مجھے ساتویں آسمان کی طرف لے جایا گیا۔ جبریل نے دروازہ کھٹکھٹا یا۔پوچھا گیا :کون ہو؟ کہنے لگے: جبریل۔ پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہنے لگے :محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )،پوچھا گیا :کیاان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے؟ کہنے لگے :ان کی طرف پیغام بھیجا گیا ہے۔ہمارے لئے دروازہ کھول دیا گیا۔کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے ابراہیم بیت المعمور کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے ہیں اور ہر روز ستر ہزار فرشتے اس گھر میں داخل ہوتے ہیں جو دوبارہ اس میں نہیں آتے۔ پھر مجھے سدرۃ المنتہی تک لے گئے ۔ اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے اور اس کا پھل مٹکے کی طرح تھا ۔جب اللہ کے حکم نے اسے ڈھانپ لیا، تو وہ درخت بدل گیا، پھر اللہ کی کوئی مخلوق اس کے حسن کی تعریف بیان نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی اور مجھ پر ہر دن اور رات میں پچاس نمازیں فرض کیں۔ میں موسیٰ کی طرف آیا تو کہنے لگے: اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا: پچاس نمازیں۔ کہنے لگے: اللہ تعالیٰ کے پاس واپس جاؤ اور اللہ سے تخفیف کا سوال کرو، آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی کیوں کہ میں نے بنی اسرائیل کو آزما لیا ہے اور ان کا امتحان لے لیا ہے۔ میں اللہ کی طرف واپس گیا اور دعا کی: اے اللہ! میری امت پرتخفیف کر دیجئے، اللہ نے مجھ پر پانچ نمازیں کم کر دیں۔ میں موسیٰ علیہ السلام کی طرف واپس آیا،انہوں نےفرمایا: اللہ تعالیٰ کی طرف واپس جائیے اور ان سے تخفیف کا سوال کیئےس ۔میں اللہ تبارک وتعالیٰ اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان آتا جاتا رہا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اے محمد ! ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں، ہر نماز کے بدلے دس نمازوں کا ثواب ملے گا، اس طرح پچاس نمازوں کا ثواب ہو جائے گا۔ اور جس شخص نے کسی نیکی کا ارادہ کیا اور نیکی نہیں کر سکا، اس کے لئے ایک نیکی لکھ دی جائے گی۔ اور اگر عمل کر لیا تو اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں گی۔ اور جس شخص نے برائی کا ارادہ کیا لیکن کر نہ سکا، اس کے لئے کچھ نہ لکھا جائے گا، اور اگر اس نے برائی کر لی تو ایک برائی لکھی جائے گی۔ میں موسیٰ کی طرف آیا اور انہیں بتایا توانہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ کی طرف واپس جاؤ اور تخفر کا سوال کرو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اتنی مرتبہ واپس جا چکا ہوں کہ اب مجھے شرم آتی ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: مجھے تم خواب میں دو مرتبہ دکھلائی گئی ہو، ایک آدمی تمہیں ریشم کی چادرمیں اٹھائے ہوئے تھا اور کہہ رہا تھا، یہ تمہاری بیوی ہے، اور میں کہتا: اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو یہ ہو جائے گا۔
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے مروی ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے خبر دی کہ ابو سفیان بن حربرضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہرقل نے اس کی طرف پیغام بھیجا وہ قریش کے ایک قافلے میں تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار قریش کے مابین صلح حدیبیہ کے دوران شام میں تجارت کی غرض سے آیا تھا، وہ لوگ ہر قل کے پاس آئے۔ وہ اس وقت ایلیاء میں تھے۔ اس نے انہیں اپنے دربار میں بلایا، اس کے ارد گرد روم کے سردار بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر انہیں بلایا اور اپنے ترجمان کو بھی بلایا، ہر قل کہنے لگا: تم میں اس شخص کا قریبی کون ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی ہے؟ ابو سفیان نے کہا: میں نسبی لحاظ سے اس کا قریبی ہوں۔ ہرقل نے کہا: اسے میرے قریب کر دو، اور اس کے ساتھیوں کو بھی قریب کر کے اس کے پیچھے کھڑا کر دو، پھر اپنے ترجمان سے کہا: ان سے کہو: میں اس شخص سے سوال کروں گا، اگر یہ مجھ سے جھوٹ بولے تو اسے جھٹلا دینا۔ واللہ اگر مجھے اس بات کی حیا نہ ہوتی کہ یہ میرے بارے میں جھوٹ کا عیب نقل کریں گے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جھوٹ بولتا، پھر سب سے پہلا سوال اس نے یہ کیا کہ :تم میں اس کا نسب کیسا ہے؟ابوسفیان: وہ ہم میں اچھے نسب والا ہے۔ ہرقل : کیا اس سے پہلے کسی نے یہ بات کہی ہے؟ ابوسفیان: نہیں ۔ہر قل: کیا اس کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ ابوسفیان: نہیں ۔ہرقل: امیر لوگوں نے اس کی پیروی کی ہے یا(غریب) کمزور لوگوں نے؟ ابو سفیان:کمزور لوگوں نے ۔ہر قل: وہ لوگ زیادہ ہو رہے ہیں یا کم؟ ابو سفیان: وہ زیادہ ہو رہے ہیں۔ ہر قل: کیا ان میں سے کوئی شخص اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد اس کے دین کو نا پسند کرتے ہوئے مرتد ہوا ہے، ؟ابو سفیان: نہیں۔ ہر قل: وعدہ خلافی کرتا ہے؟ ابو سفیان: نہیں، ابھی ہمارے درمیان ایک معاہدہ ہوا ہے، ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کیا کرے گا؟ ابو سفیان نے کہا کہ: مجھے اس بات کے علاوہ کوئی دوسری بات نہیں ملی جو میں آپ کی شان میں تنقیص کےلئےکہتا۔ ہر قل: کیا تم نے اس سے لڑائی کی ہے؟ ابو سفیان: جی ہاں۔ ہر قل:تمہاری اس سے لڑائی کا کیا نتیجہ نکلا؟ ابو سفیان: ہمارے درمیان جنگ برابر ہی رہی،کبھی انہوں نے نقصان پہنچایا،کبھی ہم نے۔ ہر قل: وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے؟ابو سفیان: وہ کہتا ہے کہ : اللہ وحدہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور تمہارے باپ دادا جو کہتے ہیں اسے چھوڑ دو، وہ ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، پاکدامنی اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ ہر قل نے ترجمان سے کہا: اس سے کہو: میں نے تم سے اس کے نسب کے بارے میں سوال کیا،تو تم نے کہا کہ: وہ ہم میں اچھے نسب والا ہے، رسول اسی طرح ہوتے ہیں، اپنی قوم کے اعلیٰ نسب میں مبعوث کئے جاتے ہیں۔ میں نے تم سے سوال کیا: کیا یہ بات تم میں سے کسی نے پہلے بھی کہی ہے؟ تو تم نے کہا کہ نہیں، میں نے سوچا اگر اس سے پہلے کسی نے یہ بات کہی ہوتی تو میں کہتا یہ شخص ایسے قول کی پیروی کر رہا ہے جو پہلے کہا جا چکا ہے۔ میں نے تم سے سوال کیا: کیا اس کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ تم نے کہا: نہیں میں نے سوچا اگر اس کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو میں کہتا :ایسا شخص ہے جو اپنے بزرگوں کی بادشاہت کا متلاشی ہے۔ میں نے تم سے سوال کیا کہ کیا یہ بات کہنے سے پہلے تم اس پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے؟ تم نے کہا: نہیں، مجھے معلوم ہوگیا کہ جو شخص لوگوں سے جھوٹ نہیں بولتا وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کس طرح جھوٹ بول سکتا ہے۔ میں نے تم سے سوال کیا: طاقتور لوگوں نے اس کی پیروی کی یا کمزور لوگوں نے ؟تو تم نے کہا: کہ کمزور لوگوں نے اس کی پیروی کی اور یہی لوگ رسولوں کے پیروکار ہوتے ہیں۔ میں نے تم سے سوال کیا کہ کیا یہ زیادہ ہو رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں؟ تو تم نے کہا :کہ یہ زیادہ ہورہے ہیں۔ ایمان کا معاملہ اسی طرح رہتا ہے جب تک مکمل نہ ہو جائے۔ میں نے تم سے سوال کیا: کیا کوئی شخص اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد ناراض ہو کر مرتد ہوا ہے؟ تو تم نے کہا کہ : نہیں۔ ایمان کا معاملہ اسی طرح ہوتا ہے، جب وہ دلوں کے میں رچ بس جاتا ہے، میں نے تم سے سوال کیا: کیا وہ وعدہ خلافی کرتا ہے؟تو تم نے کہا کہ: نہیں، رسول وعدہ خلافی نہیں کرتے۔ میں نے تم سے سوال کیا: وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے ؟ تو تم نے کہا کہ: وہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ: تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور تمہیں بتوں کی عبادت سے منع کرتا ہے، تمہیں نماز، سچائی، پاکدامنی کا حکم دیتا ہے۔ اگر جو تم نے کہا ہے سچ ہے تو عنقریب وہ میرے قدموں کے نیچے والی جگہ( تخت) کا مالک ہوگا۔ مجھے یہ تو معلوم تھا کہ وہ آنے والا ہے لیکن یہ گمان نہیں تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میں اس کے پاس پہنچ جاؤں گا تو میں اس کی ملاقات کی کوشش و جستجو کرتا۔ اور اگر میں اس کے پاس ہوتا تو میں اس کے قدم دھوتا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خط منگوایا جسے دحیہ کلبیرضی اللہ عنہ نے والیٔ بصریٰ کی طرف بھیجا تھا۔ اس نے وہ خط ہر قل کے حوالے کیا، ہر قل نے اسے پڑھا تو اس میں لکھا تھا:بسم اللہ الرحمن الرحیم،محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے، ہر قل شاہ روم کی طرف۔ اس شخص پر سلام ہو جس نے ہدایت کی پیروی کی، اما بعد !میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں، اسلام لے آؤ، سلامت رہو گے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں دو گنا اجر دے گا، اگر تم نے منہ موڑ لیا تو تم پر رعایہ کا گناہ بھی ہوگا،﴿آل عمران:۶۴﴾ ”اے اہل کتاب ایسے کلمے کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابرہے کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔ پس اگر وہ پھر جائیں تو تم کہو کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں“۔ ابو سفیان نے کہا: جب اس نے یہ بات کہی اور خط سے فارغ ہوا تو اس کے پاس شور ہونے لگا اور آوازیں بلند ہونے لگیں۔ہمیں وہاں سے نکال دیا گیا، جب ہم باہر آگئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ابن ابی کبشہ کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا ۔بنو اصفر کا بادشاہ بھی اس سے ڈرتا ہے، مجھے اس وقت یقین ہوگیا کہ وہ غالب ہو کر رہے گا۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام میں داخل کر دیا۔ ابن ناظور- والیٔ ایلیا- اور ہر قل کا مصاحب شام کے عیسائیوں کا پادری بیان کرتا ہے کہ: ہر قل جب ایلیا پہنچا تو ایک صبح بوجھل طبیعت کے ساتھ اٹھا، اس کے درباریوں نے کہا: ہمیں آپ کی طبیعت ناساز لگتی ہے۔ ابن ناظور نے کہا: ہر قل ایک ماہر علم نجوم تھا، جب لوگوں نے اس سے سوال کیا تو اس نے کہا: آج رات میں نے ستاروں کی چال دیکھی تو میں نے دیکھا کہ ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ غالب ہو گیا ہے، اس امت میں کون ختنہ کرتا ہے؟ لوگوں نے کہا: یہودیوں کے علاوہ تو کوئی ختنہ نہیں کرتا۔ آپ کو ان کے ماملہ میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، ملک کے بڑے شہروں کے حکام کو لکھ لکھئے کہ جو یہودی وہاں ہیں انہیں قتل کر دیں، ابھی وہ اسی کشمکش میں تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا جسے غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اطلاع دے رہا تھا۔ جب ہرقل نے اس سے پوچھا تو ہر قل نے کہا: اسے لے جاؤ اور دیکھو کہ کیا اس کا ختنہ ہو چکا ہے یا نہیں؟ اس کے سپاہیوں نے اسے دیکھا تو آکر بتایا کہ اس کا ختنہ ہو چکا ہے۔ ہر قل نے اس سے عرب کے لوگوں کے بارے میں پوچھا۔ تو اس نے کہا: وہ لوگ ختنہ کرتے ہیں۔ ہر قل نے کہا: یہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم )اس امت کا بادشاہ ہے جو ظاہر ہو چکا ہے۔ پھر ہر قل نے اپنے ایک دوست جو رومیہ میں تھا کی طرف لکھا وہ بھی علم نجوم میں ہر قل جیسا تھا اور ہر قل حمص کی طرف چلا گیا۔ ابھی ہر قل حمص نہیں پہنچا تھا کہ اس کے پاس اس کے دوست کا خط آیا جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق ہر قل کی رائے کی موافقت کی گئی تھی۔ ہر قل نے حمص میں ایک بڑے ہال میں روم کے سرداروں کو بلایا، دروازے بند کرنے کا حکم دیا، پھر سامنے آکر کہنے لگا: اے روم کے لوگو! کیا تم بھلائی اور کامیابی چاہتے ہو اور یہ چاہتے ہو کہ تمہاری بادشاہت قائم ر ہے؟تو تم اس نبی کی پیروی کر لو۔ وہ جنگلی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف بھاگے، تو دیکھا کہ دروازے بند کئے جا چکے ہیں۔ جب ہر قل ان کی اس درجہ نفرت دیکھی اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو کہنے لگا: انہیں میری طرف واپس لاؤ اور کہنے لگا: ابھی میں نے یہ بات تمہارے امتحان کے لئے کہی تھی تاکہ میں تمہارے دین کی شدت کا اندازہ لگا سکوں۔ وہ میں نے دیکھ لی۔ وہ سب اس کے لئے سجدے میں گر پڑے اور اس سے خوش ہوگئے۔ یہ ہر قل کا آخر ی معاملہ تھا۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں انجیل میں لکھا ہوا تھا :نہ بدزبان ،نہ سخت، نہ بازاروں میں شور کرنے والے، نہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے بلکہ وہ معاف کرتے ہیں اور درگزرکرتے ہیں۔
عمر بن عبداللہ بن یعلی بن مرہ اپنے والد سے وہ ان کے دادا سے بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں تین چیزیں ایسی دیکھیں، جو مجھ سے پہلے کسی نے نہیں دیکھیں۔ ۱۔میں آپ کے ساتھ مکہ کے راستے میں تھا، آپ ایک لڑکی کے پاس سے گزرے اس کے ساتھ اس کا بیٹا تھا، جسے دیوانہ پن تھا میں نےاس سے زیادہ سخت دیوانہ پن نہیں دیکھا تھا وہ کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میرا یہ بیٹا اس طرح ہے جیسا آپ دیکھ رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں اس کے لئے دعا کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے دعا کی پھر چل پڑے۔ ۲۔آپ کے پاس سے ایک اونٹ گزرا جس کی گردن جھکی ہوئی تھی اور وہ بلبلا رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس اس کے مالک کو لاؤ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اونٹ کہہ رہا ہےکہ میں ان کےپاس پیداہوا،پھرانہوں نےمجھ سےکام لیا،اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں تو یہ مجھے نحر کرنا چاہتے ہیں۔ پھر آپ چل پڑے۔۳۔آپ نے دو جدا جدا درخت دیکھے، آپ نے مجھ سے کہا: جاؤ انہیں حکم دو کہ جمع ہو جائیں، وہ دونوں جمع ہوگئے۔ آپ نے اپنی حاجت پوری کی پھر فرمایا: جاؤ ان دونوں سے کہو: الگ ہو جائیں، پھر آپ چل پڑے۔ جب واپس آئے تو اس بچے کے پاس سے گزرے وہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اس کی ماں نے اس کے لیے چھ مینڈھے پال رکھے تھے، اس نے دو مینڈھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے اور کہنے لگی: اسے پھر دیوانہ پن نہیں ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر چیز جانتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں، سوائے جن و انس کے کافروں یا فاسقوں کے۔
ابو ایوب انصاریرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی چیز کھاتے یا پیتے تو کہتے: اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي أَطْعَمَ وَسَقَى وَسَوَّغَهُ وَجَعَلَ لَهُ مَخْرَجًاتمام تعریفات اس اللہ کے لئے جس نے کھلایا اور پلایا، اسے حلق سے نیچے سہولت کے ساتھ اتارا اور اس کے لئے باہر نکلنے کا راستہ بنایا۔
سہل بن سعدرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ زید بن ثابترضی اللہ عنہ نے کہا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوجھ محسوس کرتے،آپ کی پیشانی سے اس طرح پسینہ بہتا گویا کہ موتی ہوں اگرچہ آپ سردی میں ہوں۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہتی ہیں کہ مجھ سے سوال کیا گیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کیا عمل کیا کرتے تھے؟ کہنے لگی: آپ بھی ایک بشر تھے، کپڑے کو پیوند لگاتے، بکری کا دودھ دوہتے، اور اپنا کام خود کرتے۔
ابو نضرہ عوفی سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدریرضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر کے بارے میں سوال کیا تو کہنے لگے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت آپ کی پشت پر ابھرے ہوئے گوشت کی شکل میں تھی۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کلائیاں چوڑی تھیں اور آنکھوں کے کشادہ کناروں والے تھے، کاندھوں کے درمیان فاصلہ تھا، پوری توجہ سے آگے چل کر آتے اور پوری توجہ سے واپس جاتے، بدگو، بدزبان اور بازاروں میں شور کرنے والے نہیں تھے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرہ دیا جاتا تھا جب یہ آیت نازل ہو گئی وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ﴿۶۷﴾ اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے بچائے گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر خیمے سے باہر نکالا اور ان سے فرمایا: لوگو! واپس چلے جاؤ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے۔
ابن بریدہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبریل علیہ السلام نے اپنی انگلی سے پتھر میں سوراخ کیا اور براق کو اس کے ساتھ باندھ دیا۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس رات مجھے معراج کروائی گئی، اور صبح مکے میں کی تو میں اپنے معاملے سے پریشان ہو گیا اور مجھے معلوم ہو گیا کہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے، آپ غمگین ہو کر علیحدہ بیٹھ گئے۔ اللہ کا دشمن ابو جہل گزرا اور آکر آپ کے پاس بیٹھ گیا، اور استہزاء کرتے ہوئے آپ سے کہنے لگا: کیا کوئی نئی بات ہو گئی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ ابو جہل نے کہا: وہ کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج رات مجھے سیر کروائی گئی۔ ابو جہل نے کہا :کس طرف؟ آپ نے فرمایا: بیت المقدس کی طرف ابو جہل کہنے لگا: پھر آپ نے صبح یہاں ہمارے درمیان کی؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ ابو جہل نے آپ کی تکذیب اس ڈر سے مناسب نہ سمجھی کہ جب وہ اپنی قوم کو بلائے گا تو کہیں آپ اس بات کا انکار نہ کر دیں۔ کہنے لگا :آپ کے خیال میں اگر میں آپ کی قوم کو بلاؤں تو کیا آپ انہیں بھی وہی بات بتائیں گے جو مجھے بتائی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ ابو جہل پکارنے لگا: بنی کعب بن لوئی کے لوگو! آؤ، لوگ آپ کی طرف آنے لگے اور آکر ان دونوں کے پاس بیٹھ گئے۔ ابو جہل کہنے لگا: اپنی قوم کو بھی وہی بیان کیجئے جو مجھے بتایا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آج رات مجھے سیر کروائی گئی ہے ۔ لوگوں نے کہا:کس طرف؟آپ نے فرمایا: بیت المقدس کی طرف۔ لوگ کہنے لگے: پھر آپ ہمارے درمیان کھڑے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، کچھ لوگ تالیاں بجانے لگے،اور کچھ لوگوں نے آپ کے گمان کے مطابق جھوٹ پر تعجب کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سروں پر رکھ لئے۔ لوگوں نے کہا: کیا آپ ہمیں اس مسجد کی صفات بیان کر یں گے؟ کچھ لوگ ایسے بھی تھےجنہوں نے اس علاقے کا سفر کیا تھا اور مسجد دیکھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں انہیں بتانے لگا۔ میں انہیں بتارہا تھا کہ کوئی وصف مجھ پر خلط ملط ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر مسجد کو (میرے سامنے)لایا گیا، میں دیکھ رہا تھا حتی کہ عقال یا عقیل کے دروازے کے پاس رکھ دی گئی میں اس کا وصف بیان کرنے لگا اور میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ عبداللہ بن عباس نے کہا کہ: اس حدیث میں رسول اللہ کا بیان کردہ بیت المقدس کا وصف بھی تھا لیکن وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ لوگوں نے کہا: یہ وصف واللہ درست بتایا۔
عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ ہم غزوہ بدر میں تھے، ہم میں سے تین تین آدمی ایک ایک اونٹ پر (باری بار سوار ہوتے)تھے، علی اور ابو لبابہ رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھی تھے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باری آئی تو دونوں نے کہا: اے اللہ کے رسول سوار ہو جائیے، ہم پیدل چلتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دونوں مجھ سے زیادہ پیدل چلنے پر قادر نہیں ہو، اور نہ میں ثواب میں تم سے کم محتاج ہوں۔
ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہ میں تمہیں کوئی چیز دیتا ہوں، نہ کوئی چیز روکتا ہوں۔ میں تو اللہ کی طرف مامور خازن ہوں، جیساحکم دیا جاتا ہے ویسا ہی کرتا ہوں۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ :آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک فوت نہیں ہوئے جب تک اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے حلال نہیں کر دیا کہ جس عورت سے چاہیں شادی کر لیں۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سےمروی ہےکہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے کبھی کسی خادم یا عورت کو نہیں مارا، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو کبھی مارا، صرف اس وقت جب آپ اللہ کے راستے میں جااد کر رہے ہوتے، اور جب بھی آپ کو دو معاملوں کے درمیان اختیار دیا گیا آپ نے آسان معاملہ کو پسند کیا۔ جب تک کہ وہ گناہ نہ ہو جب کوئی گناہ کا کام ہوتا تو آپ سب سے زیادہ دور ہوتے۔ آپ نے اپنے لئے کسی سے انتقام نہیں لیا سوائے اس کے کہ اللہ کی حرمات کی نا فرمانی کی جاتی۔ اس صورت میں آپ اللہ عزوجل کے لئے انتقام لیتے۔
عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ قریش کے کچھ سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرے، آپ کے پاس صہیب، بلال، عمار، خباب رضی اللہ عنہم اور ان جیسے کمزور مسلمان بیٹھے تھے۔ کہنے لگے:اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!انہیں دھتکار دیجئے، کیا آپ نے اپنی قوم میں سے انہیں پسند کیا ہے؟ کیا ہم ان کے پیچھے لگیں؟ کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا؟ ممکن ہے اگر آپ انہیں دھتکار دیں تو ہم آپ کے پاس آجائیں۔تب یہ آیت نازل ہوئی:(الانعام:۵۲)ترجمہ:اور ایسے لوگوں کو ڈرائیے جو اس بات سے اندیشہ رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں جمع کئے جائیں گے کہ جتنے غیر اللہ ہیں نہ کوئی ان کا مددگار ہوگا اور نہ کوئی شفیع ہوگا، اس امید پر کہ وہ ڈر جائیں۔ اور ان لوگوں کو نہ نکالیے جو صبح وشام اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں، خاص اسی کی رضامندی کا قصد رکھتے ہیں۔ان کا حساب ذرا بھی آپ کے متعلق نہیں اور آپ کا حساب ذرا بھی ان کے متعلق نہیں کہ آپ ان کو نکال دیں۔ورنہ آپ ظلم کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔