Blog
Books
Search Hadith

تصویر بنانے کی ممانعت اور ان کپڑوں، بچھونوں اور پردوں وغیرہ کے حکم کا بیان جن پر تصویریں بنی ہوتی ہیں تصویر سے ممانعت اور تصویر بنانے والے کی وعید کا بیان

140 Hadiths Found
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تصاویر بنانے والے روز قیامت عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے، ان سے کہا جائے گا کہ جو تم نے پیدا کیا ہے اس میں روح ڈال کر اس کو زندہ کرو۔

Haidth Number: 8059
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مروی ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: اس سے بڑھ کراور کون ظالم ہوگا، جو میری مخلوق کی مانند مخلوق بناتا ہے، ان کو چاہیے کہ یہ مچھر پیدا کریں اور ذرہ پیدا کریں۔

Haidth Number: 8060
۔ ابو زرعہ کہتے ہیں:میں سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ساتھ مروان بن حکم کے گھر داخل ہوا، انہوں نے وہاں دیکھا کہ تصویریں بنائی جا رہی ہیں، پس سیدنا ابو ہریرہ نے کہا: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اللہ تعالی سے روایت کیا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: اس سے بڑا ظالم کون ہے، جو میری تخلیق کی طرح تخلیق کرنے لگا ہے، ان کو چاہیے کہ ایک ذرہ پیدا کریں، ایک دانہ پیدا کریں، ایک جو پیدا کریں۔

Haidth Number: 8061
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے ایک بچی کے ہاتھ میں کپڑوں کے ٹکڑوں کا بنا ہوا ایک گھوڑا دیکھا اور کہا: کیا تم یہ نہیں دیکھ رہے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ آدمی یہ کام کرتا ہے، جس کا قیامت کے دن کوئی حصہ نہیں ہوتا۔

Haidth Number: 8062
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بہ نسبت شک کرنے کے زیادہ حقدار ہیں، جب انھوں نے کہا: {رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْيِ الْمَوْتٰی قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلٰی وَ لَکِنْ لِیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ} اور جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا ؟ فرمایا اور کیا تونے یقین نہیں کیا ؟ کہا کیوں نہیں اور لیکن اس لیے کہ میرا دل پوری تسلی حاصل کر لے۔

Haidth Number: 8522
۔ سیدنا نعمان بن بشیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، امام شعبی کہتے ہیں: جب میں ان کو یہ کہتے ہوئے سنتا کہ انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا تو میں اپنا کان لگاتا اور قریب ہو جاتااور ڈرتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں کسی اور سے یہ الفاظ نہ سن سکوں کہ وہ کہے کہ اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے، البتہ ان کے بیچ میں مشتبہ امور ضرور ہیں، جس نے گناہ سے بچنے کے لیے مشتبہ چیز کو چھوڑ دیا، تو وہ واضح ہونے والے گناہ کو زیادہ چھوڑنے والا ہو گا اور جس نے مشکوک چیز پر جرأت کر دی تو قریب ہے کہ وہ حرام میں پڑ جائے، بیشک ہر بادشاہ کی ایک ممنوعہ جگہ ہوتی ہے اور زمین میں اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ جگہ اس کی نافرمانیاںیا حرام کردہ امور ہیں۔

Haidth Number: 9851
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے گزرا، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیوی آپ کے پاس کھڑی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس آدمی کو آواز دی: اے فلاں، دراصل آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو یہ بتلانا چاہتے تھے کہ یہ عورت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیوی ہے، اس نے آگے سے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ کو میرے بارے میں کوئی بدگمانی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک مجھے یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان تیرے اندر گھس جائے (اور کوئی وسوسہ پیدا کر دے)۔

Haidth Number: 9852
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی ایک بیوی کے ساتھ کھڑے تھے کہ وہاں سے ایک آدمی کا گزر ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے فلاں! یہ میری بیوی ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے کسی کے بارے میں تو گمان ہو سکتا ہے، لیکن آپ کے بارے میں تو میں کسی بد گمانی میں مبتلا نہیں ہو سکتا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک شیطان، ابن آدم میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔

Haidth Number: 9853

۔ (۹۸۵۴)۔ عَنْ عَلَیٍّ بْنِ حُسَیْنٍ، عَنْ صَفِیَّۃَ بِنْتِ حُیَِيٍّ (زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم و ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ) قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُعْتَکِفًا، فَاَتَیْتُہُ اَزُوْرُہُ لَیْلًا، فَحَدَّثْتُہُ ثُمَّ قُمْتُ، فَانْقَلَبْتُ فَقَامَ مَعِیَیَقْلِبُنِیْ، وَکَانَ مَسْکَنُھَا فِیْ دَارِ اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ، فَمَرَّ رَجُلَانِ مِنَ الْاَنْصَارِ فَلَمَّا رَأَیَا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَسْرَعَا، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((عَلٰی رِسْلِکُمَا، اِنَّھَا صَفِیَّۃُ بِنْتُ حُیَیٍّ۔)) فَقَالَا: سُبْحَانَ اللّٰہِ! یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَقَالَ: ((اِنَّ الشَّیْطَانَیَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ، وَاِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ یَقْذِفَ فِیْ قُلُوْبِکُمَا شَرًّا، اَوْ قَالَ: شَیْئًا ۔)) (مسند احمد: ۲۷۴۰۰)

۔ زوجۂ رسول سیدہ صفیہ بنت حیی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اعتکاف کی حالت میں تھے، میں رات کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زیارت کرنے کے لیے آئی، پس میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے باتیں کیں اور جب اٹھ کر جانے لگی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی مجھے واپس چھوڑ کر آنے کے لیے کھڑے ہو گئے، میرا گھر سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھر کے پاس تھا، ہمارے پاس سے دو انصاریوں کا گزر ہوا، جب انھوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تو انھوں نے جلدی سے آگے سے گزرنا چاہا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: ٹھہر جاؤ، ٹھہر جاؤ، یہ صفیہ بنت حیی ہے (جو کہ میری اپنی بیوی ہے)۔ انھوں نے کہا: سبحان اللہ! اے اللہ کے رسول! بڑا تعجب ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک شیطان، ابن آدم کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے اور میں اس بات سے ڈر گیا کہ کہیں ایسانہ ہو کہ وہ تمہارے دل میں کوئی شرّ والی بات ڈال دے۔

Haidth Number: 9854
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس شخص میں چار خصلتیں ہوں گی، وہ منافق ہو گا اور جس میں ان چار میں ایک خصلت ہو گی، اس میں نفاق کی ایک خصلت ہو گی،یہاں تک کہ وہ اس کو چھوڑ دے، جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وہ وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے، جب معاہدہ کرے تو دھوکہ کر جائے اور جب جھگڑا کرے تو گالی نکالے۔

Haidth Number: 9995
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چار چیزیں ، امورِ جاہلیت میں سے ہیں، لوگ ان کو بالکل نہیں چھوڑیں گے: (۱) حسب پر طعن کرنا، (۲) میت پر نوحہ کرنا، (۳) ستاروں کا معاملہ اور (۴) یہ کہنا کہ ایک اونٹ کو خارش لگی، پس اس نے سب کو خارش لگا دی،یہ تو بتاؤ کہ پہلے کو کس نے خارش لگائی؟

Haidth Number: 9996

۔ (۹۹۹۷)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَلْقُلُوْبُ اَرْبَعَۃٌ، قَلْبٌ اَجْرَدُ فِیْہِ مِثْلُ السِّرَاجِ یُزْھِرُ، وَقَلْبٌ اَغْلَفُ مَرْبُوْطٌ عَلٰی غِلَافِہِ، وَقَلْبٌ مَنْکُوْسٌ، وَقَلْبٌ مُصْفَحٌ، فَاَمَّا الْقَلْبُ الْاَجْرَدُ فَقَلْبُ الْمُؤْمِنِ سِرَاجُہُ فِیْہِ نُوْرُہُ، وَاَمَّا الْقَلْبُ الْاَغْلَفُ فَقَلْبُ الْــکَافِرِ، وَاَمَّا الْقَلْبُ الْمَنْـکُوْسُ فَقَلْبُ الْمُنَافِقِ عَرَفَ ثُمَّ اَنْـکَرَ، وَامَّا الْقَلْبُ الْمُصْفَحُ فَقَلْبٌ فِیْہِ اِیْمَانٌ وَنِفَاقٌ، فَمَثَلُ الْاِیْمَانِ فِیْہِ کَمَثَلِ الْبَقْلَۃِیَمُدُّھَا الْمَائُ الطَّیِّبُ، وَمَثَلُ النِّفَاقِ فِیْہِ کَمَثَلِ الْقُرْحَۃِیَمُدُّھَا الْقَیْــحُ وَالدَّمُ، فَاَیُّ الْمَدَّتَیـْنِ غَلَبَتِ الْاُخْرٰی غَلَبَتْ عَلَیْہِ ۔)) (مسند احمد: ۱۱۱۴۶)

۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دل چار قسم کے ہوتے ہیں: (۱) خالص اور صاف دل، جو چراغ کی طرح روشن ہوتا ہے، (۲) پردے میں بند دل، جس سے پردہ ہٹ ہی نہیں سکتا، (۳) الٹا کیا ہوا دل اور (۴)دو رُخا دل۔ ان کی تفصیلیہ ہے: صاف دل سے مراد مومن کا دل ہے، اس کا چراغ اس کا نور ہے، پردے میں بند دل کافر کا ہوتا ہے، الٹا ہوا دل اس منافق کا ہوتا ہے، جو حق کی معرفت حاصل کرنے کے بعد اس کا انکار کر دیتا ہے اور دو رُخا دل وہ ہوتا ہے، جس کے اندر ایمان بھی ہو اور نفاق بھی، اس میں ایمان کی مثال سبزی کیسی ہے کہ پاکیزہ پانی جس کو بڑھاتا ہے اور نفاق کی مثال اس پھوڑے کی سی ہے کہ جو پیپ اور خون کی وجہ سے بڑھتاہے، ان دو میں سے جس کی بڑھوتری غالب آ جاتی ہے، سو وہ غالب رہتی ہے۔

Haidth Number: 9997
۔ سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے چار چیزیں سنی، انھوں نے مجھے تعجب میں ڈال دیا اور مجھے حیران کر دیا ، (۱) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منع فرمایا کہ عورت دو دنوں کی مسافت کا سفر کرے، مگر اس کے ساتھ اس کا خاوند یا کوئی محرم ہونا چاہیے، (۲)آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو گھڑیوں میں نماز سے منع فرمایا، نمازِ فجر کے بعد، یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے اور نماز عصر کے بعد، یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے، (۳)آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عید الاضحی اور عید الفطر کے دو دنوں کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا، نیز (۴) آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ پالان نہ کسے جائیں، ما سوائے تین مساجد کے، مسجد حرام، مسجد اقصی اور یہ مسجد نبوی۔

Haidth Number: 9998
۔ سیدنا ابو مالک اشعری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جاہلیت کے چار امور کو نہیں چھوڑا جائے گا، حسب میں فخر کرنا، نسب میں طعن کرنا، ستاروں سے بارش طلب کرنا اور نوحہ کرنا، اگر نوحہ کرنے والی خاتون نے مرنے سے پہلے توبہ نہ کی تو اس کو قیامت کے دن اس حال میں کھڑا کر دیا جائے گا کہ اس پر گندھک کا لباس ہو گا یا خارش کی قمیص ہو گی۔

Haidth Number: 9999
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چار چیزوں سے پناہ طلب کرتے تھے، جہنم کے عذاب سے، قبر کے عذاب سے، حیات و ممات کے فتنے سے اور دجال کے فتنے سے۔

Haidth Number: 10000
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب فرعون نے غرق ہوتے وقت کہا: میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ کوئی معبودِ برحق نہیں ہے، مگر وہی کہ جس پر بنو اسرائیل ایمان لائے، جبریل علیہ السلام نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اے محمد! کاش آپ مجھے اس وقت دیکھتے جب میںنے سمندر کی کالی مٹی لے کر فرعون کے منہ ٹھونس رہا تھا، اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ کی رحمت اس کو پا لے۔

Haidth Number: 10377
Haidth Number: 10378

۔ (۱۰۵۳۹)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: بَعَثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلَی النَّجَاشِیْ وَنَحْنُ نَحْوٌ مِنْ ثَمَانِیْنَ رَجُلًا، فِیْھِمْ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ، وَجَعْفَرٌ، وَعَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُرْفُطَۃَ، وَعُثْمَانُ بْنُ مَظْعُوْنٍ، وَأَبُوْ مُوْسٰی فَأَتَوُا النَّجَاشِیَّ، وَبَعَثَتْ قُرَیْشٌ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَعُمَارَۃَ بْنَ الْوَلِیْدِ بِھَدِیَّۃٍ، فَلَمَّا دَخَلَا عَلَی النَّجَاشِیِّ سَجَدَا لَہُ، ثُمَّّ ابْتَدَرَاہُ عَنْ یَمِیْنِہِ وَعَنْ شِمَالِہِ، ثُمَّّ قَالَا لَہُ: اِنَّ نَفَرًا مِنْ بَنِیْ عَمِّنَا نَزَلُوْا أَرْضَکَ وَرَغِبُوا عَنَّا وَعَنْ مِلَّتِنَا، قَالَ: فَأَیْنَ ھُمْ؟ قَالُوْا: ھُمْ فِیْ أَرْضِکَ فابْعَثْ اِلَیْھِمْ، فَبَعَثَ اِلَیْھِمْ، فَقَالَ جَعْفَرٌ: أَنَا خَطِیْبُکُمُ الْیَوْمَ، فَاتَّبَعُوْہُ، فَسَلَّمَ وَلَمْ یَسْجُدْ، فَقَالُوْا لَہُ: مَا لَکَ؟ لَا تَسْجُدُ لِلْمَلِکِ! قَالَ: إِنَّا لَا نَسْجُدُ إِلَّا لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، قَالَ: وَمَا ذٰلِکَ؟ قَالَ: اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ بَعَثَ اِلَیْنَا رَسُوْلَہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَمَرَنَا أَنْ لَا نَسْجُدَ لِأَحَدٍ اِلَّا اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وَأَمَرَناَ بِالصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ، قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ: فَاِنَّھُمْ یُخَالِفُوْنَکَ فِیْ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ، قَالَ: مَا تَقُوْلُوْنَ فِیْ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ وَأُمِّہِ؟ قَالُوْا: نَقُوْلُ کَمَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، ھُوَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ وَرُوْحُہُ، اَلْقَاھَا اِلَی الْعَذْرَائِ الْبَتُوْلِ الَّتِیْ لَمْ یَمَسَّھَا بَشَرٌ وَلَمْ یَفْرِضْھَا وَلَدٌ، قَالَ: فَرَفَعَ عُوْدًا مِنَ الْأَرْضِ، ثُمَّّ قَالَ: یَا مَعْشَرَ الْحَبَشَۃِ وَالْقِسِّیْسِیْنَ وَالرُّھْبَانِ، وَاللّٰہِ! مَا یَزِیْدُوْنَ عَلَی الَّذِیْ نَقُوْلُ فِیْہِ مَا یَسْوِیْ ھٰذَا، مَرْحَبًا بِکُمْ وَبِمَنْ جِئْتُمْ مِنْ عِنْدِہِ، اَشْھَدُ اَنَّہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَاِنَّہُ الَّذِیْ نَجِدُ فِی الْاِنْجِیْلِ، وَاِنَّہُ الرَّسُوْلُ الَّذِیْ بَشَّرَ بِہٖعِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ، اَنْزِلُوْا حَیْثُ شِئْتُمْ، وَاللّٰہِ! لَوْ لَا مَا أَنَا فِیْہِ مِنَ الْمُلْکِ لَأَتَیْتُہُ حَتَّی أَکُوْنَ أَنَا أَحْمِلُ نَعْلَیْہِ وَأُوَضِّئُہُ، وَأَمَرَ بِھَدِیَّۃِ الْآخَرِیْنَ فَرُدَّتْ اِلَیْھِمَا، ثُمَّّ تَعَجَّلَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مَسْعُوْدٍ حَتّٰی أَدْرَکَ بِدْرًا،وَزَعَمَ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِسْتَغْفَرَ لَہُ حِیْنَ بَلَغَہُ مَوْتُہُ ۔ (مسند احمد: ۴۴۰۰)

۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم کو نجاشی کی طرف بھیج دیا، ہم تقریباً اسی افراد تھے، ان میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود، سیدنا جعفر، سیدنا عبد اللہ بن عرفطہ، سیدنا عثمان بن مظعون اور سیدنا ابو موسیf شامل تھے، پس یہ لوگ نجاشیکی مملکت میں پہنچ گئے، اُدھر قریش نے عمرو بن عاص اور عمارہ بن ولید کو تحائف کے ساتھ روانہ کر دیا، جب یہ دوافراد نجاشی کے پاس پہنچے تو انھوں نے اس کو سجدہ کیا اور پھر جلدی جلدی ایک اس کی دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب بیٹھ گیا، پھر ان دونوں نے کہا: ہمارے چچے کے بیٹوں کا ایک گروہ آپ کے علاقے میں آیا ہوا ہے، انھوں نے ہم سے اور ہمارے دین سے بے رغبتی اختیار کر رکھی ہے۔ بادشاہ نے کہا: وہ اس وقت کہاں ہیں؟ انھوں نے کہا: وہ آپ کے علاقے میں ہیں، آپ ان کو پیغام بھیجیں، پس اس نے ان کی طرف پیغام بھیجا، سیدنا جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: آج میں تمہاری طرف سے خطاب کروں گا، سب نے ان کی بات مان لی، پس انھوں نے نجاشی کو سلام کہا اور سجدہ نہیں کیا، لوگوں نے کہا: تجھے کیا ہو گیا ہے، تو بادشاہ کو سجدہ نہیں کر رہا؟ انھوں نے کہا: ہم صرف اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں، اس نے کہا: کیا معاملہ ہے؟ سیدنا جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: بیشک اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف اپنا ایک رسول بھیجا ہے اور ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کو سجدہ کریں، نیز ہمیں نماز اور زکوۃ کا بھی حکم دیا ہے، عمرو بن عاص نے کہا: بادشاہ سلامت! یہ لوگ عیسی بن مریم کے معاملے میں آپ کے مخالف ہیں، پس بادشاہ نے کہا: تم لوگ عیسی بن مریم اور ان کی ماں کے بارے میںکیا نظریہ رکھتے ہو؟ صحابہ نے کہا: ہم ان کے بارے میں وہی کچھ کہتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں، اس نے ان کو کنواری بتول کی طرف ڈالا، جس کنواری کو نہ کسی بشر نے چھوا اور جس پر (عیسی علیہ السلام سے پہلے) کسی بچے کا نشان نہیں تھا۔ یہ تبصرہ سن کر نجاشی نے زمین سے ایک لکڑی اٹھائی اور کہا: اے حبشیو! پادریو اور راہبو! اللہ کی قسم ہے، جو کچھ ہم کہتے ہیں، ان مسلمانوں نے اس سے اس لکڑی کے برابر بھی ہمارے نظریے سے زیادہ بات نہیں کی ہے، اے مسلمانو! خوش آمدید تم کو اور اس کو جس کے پاس سے تم آئے ہو، میں شہادت دیتا ہوں کہ وہ واقعی اللہ کا رسول ہے، بلکہ یہ وہی ہے، جس کا ذکر ہم انجیل میں پاتے ہیں اور یہ وہی رسول ہے کہ جس کی بشارت عیسی بن مریم علیہ السلام نے دی تھی، میرے ملک میں جہاں چاہو، رہ سکتے ہو، اللہ کی قسم! اگر میں اس بادشاہت میں مبتلا نہ ہوتا تو میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچتا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے جوتے اٹھاتا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو وضو کرواتا، پھر نجاشی نے حکم دیا کہ قریشیوں کے تحائف ان کو واپس کر دیئے جائیں، پھر سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ حبشہ سے مدینہ منورہ کی طرف لوٹ آئے اور غزوۂ بدر میں شریک ہوئے، نیز انھوں نے کہا کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نجاشی کی وفات کا علم ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے لیے بخشش طلب کی۔

Haidth Number: 10539

۔ (۱۰۵۴۰)۔ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ الْحٰرِثِ بْنِ ھِشَامٍ الْمَخْزُوْمِیِّ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ ابْنَۃِ أَبِیْ أُمَیَّۃَ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ زَوْجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: لَمَّا نَزَلْنَا أَرْضَ الْحَبَشَۃَ جَاوَرْنَا بِھَا خَیْرَ جَارِ النَّجَاشِیِّ، أَمِنَّا عَلٰی دِیْنِنَا وَعَبَدْنَا اللّٰہَ لَا نُؤْذَیٰ وَلَا نَسْمَعُ شَیْئًا نَکْرَھُہُ، فَلَمَّا بَلَغَ ذٰلِکَ قُرَیْشًا،اِئْتَمَرُوْا أَنْ یَبْعَثُوْا اِلَی الْنَّجَاشِیِّ فِیْنَا رَجُلَیْنِ جَلْدَیْنِ، وَاَنْ یُھْدُوْا لِلنَّجَاشِیِّ ھَدَایَا مِمَّا یُسْتَطْرَفُ مِنْ مَتَاعِ مَکَّۃَ، وَکَانَ مِنْ أَعْجَبِ مَا یَأْتِیْہِ مِنْھَا اِلَیْہِ الْأَدَمُ، فَجَمَعُوْا لَہُ اَدَمًا کَثِیْرًا، وَلَمْ یَتْرُکُوْا مِنْ بَطَارِقَتِہِ بِطْرِیْقًا اِلَّا أَھْدَوْا لَہُ ھَدِیَّۃً، ثُمَّّ بَعَثُوْا بِذٰلِکَ مَعَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ رَبِیْعَۃَ بْنِ الْمُغِیْرَۃِ الْمَخْزُوْمِیِّ وَعَمْرَو بْنَ الْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ السَّھَمِیَّ، وَاَمَرُوْھُمَا أَمْرَھُمْ، وَقَالُوْا لَھُمَا: ادْفَعُوْا اِلَی کُلِّ بِطْرِیْقٍ ھَدِیَّتَہُ قَبْلَ أَنْ تُکَلِّمُوْا النَّجَاشِیَّ فِیْھِمْ، ثُمَّّ قَدِّمُوْا لِلنَّجَاشِیِّ ھَدَایَاہُ، ثُمَّّ سَلُوْہُ أَنْ یُسْلِمَھُمْ اِلَیْکُمْ قَبْلَ أَنْ یُکَلِّمَھُمْ، قَالَتْ: فَخَرَجْنَا فَقَدِمْنَا عَلَی النَّجَاشِیِّ، وَنَحْنُ عِنْدَہُ بِخَیْرِ دَارٍ وَعِنْدَ خَیْرِ جَارٍ، فَلَمْ یَبْقَ مِنْ بَطَارِقَتِہِ بِطْرِیْقٌ اِلَّا دَفْعَا اِلَیْہِ ھَدِیَّتَہُ قَبْلَ أَنْ یُکَلِّمَا النَّجَاشِیَّ، ثُمَّّ قَالَا لِکُلِّ بِطْرِیْقٍ مِنْھُمْ: إِنَّہُ قَدَ صَبَأَ اِلَی بَلَدِ الْمَلَکِ مِنَّا غِلْمَانٌ سُفَھَائُ، وَفَارَقُوْا دِیْنَ قَوْمِھِمْ وَلَمْ یَدْخُلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَجَاؤُا بِدِیْنٍ مُبْتَدَعٍ لَا نَعْرِفُہُ نَحْنُ وَلَا أَنْتُمْ، وَقَدْ بَعَثَنَا اِلَی الْمَلِکِ فِیْھِمْ أَشْرَافُ قَوْمِھِمْ لِیَرُدَّھُمْ اِلَیْھِمْ، فَاِذَا کَلَّمْنَا الْمَلِکَ فِیْھِمْ فَتُشِیْرُوْا عَلَیْہِ بِأَنْ یُسْلِمَھُمْ اِلَیْنَا وَلَا یُکَلِّمُھُمْ، فَاِنَّ قَوْمَھُمْ أَعْلٰی بِھِمْ عَیْنًا وَاَعْلَمُ بِمَا عَابُوْا عَلَیْھِمْ، فَقَالُوْا لَھُمَا: نَعَمْ، ثُمَّّ اِنَّھُمَا قَرَّبَا ھَدَایَا ھُمْ اِلَی النَّجَاشِیِّ فَقَبِلَھَا مِنْھُمَا، ثُمَّّ کَلَّمَاہُ فَقَالَا لَہُ: أَیُّھَا الْمَلِکُ! اِنَّہُ قَدْ صَبَأَ اِلٰی بَلَدِکَ مِنَّا غِلْمَانٌ سُفْھَائُ، فَارَقُوْا دِیْنَ قَوْمِھِمْ وَلَمْ یَدْخُلُوْا فِیْ دِیْنِکَ وَجَائُ وْا بِدِیْنٍ مُبْتَدَعٍ لَا نَعْرِفُہُ نَحْنُ وَلَا أَنْتَ، وَقَدَ بَعَثَنَا اِلَیْکَ فِیْھِمْ أَشْرَافُ قَوْمِھِمْ حَتّٰی آبَاؤِھِمْ وَأَعْمَامِھِمْ وَعَشَائِرِھِمْ لِتَرُدَّھُمْ اِلَیْھِمْ فَھُمْ أَعْلٰی بِھِمْ عَیْنًا وَاَعْلَمُ بِمَا عَابُوْا عَلَیْھِمْ وَعَاتَبُوْھُمْ فِیْہِ، قَالَتْ: وَلَمْ یَکُنْ شَیْئٌ أَبْغَضَ اِلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ رَبِیْعَۃَ وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ مِنْ أَنْ یَسْمَعَ النَّجَاشِیُّ کَلَامَھُمْ، فَقَالَتْ بَطَارِقَتُہُ حَوْلَہُ: صَدَقُوْا أَیُّھَا الْمَلِکُ! قَوْمُھُمْ أَعْلٰی بِھِمْ عَیْنًا وَاَعْلَمُ بِمَا عَابُوْا عَلَیْھِمْ، فَأَسْلِمْھُمْ اِلَیْھِمَا فَلْیَرُدَّاھُمْ اِلٰی بِلَادِھِمْ وَقَوْمِھِمْ، قَالَ: فَغَضِبَ النَّجَاشِیّ،ُ ثُمَّّ قَالَ: لَاھَا اللّٰہِ! اَیْمُ اللّٰہِ! اِذًا لَا أُسْلِمُھُمْ اِلَیْھِمَا وَلَا أَکَادُ قَوْمًا جَاوَرُوْنِیْ وَنَزَلُوْا بِلَادِیْ، اِخْتَارُوْنِیْ عَلٰی مَنْ سِوَایَ حَتّٰی أَدْعُوَھُمْ فَأَسْئَلَھُمْ مَایَقُوْلُ ھٰذَانِ فِیْ أَمْرِھِمْ، فَاِنْ کَانُوْا کَمَا یَقُوْلُوْنَ أَسْلَمْتُھُمْ اِلَیْھِمَا وَرَدَدْتُھُمْ اِلٰی قَوْمِھِمْ، وَاِنْ کَانُوْا عَلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ مَنَعْتُھُمْ مِنْھُمَا وَأَحْسَنْتُ جِوَارَھُمْ مَا جَاوَرُوْنِیْ، قَالَتْ: ثُمَّّ أَرْسَلَ اِلَی اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَعَاھُمْ، فَلَمَّا جَائَ ھُمْ رَسُوْلُہُ اجْتَمَعُوْا، ثُمَّّ قَالَ بَعْضُھْمُ لِبَعْضٍ: مَاتَقُوْلُوْنَ لِلرَجُلٍ اِذَا جِئْتُمُوْہُ؟ قَالُوْا: نَقُوْلُ وَاللّٰہِ! مَا عَلِمْنَا، وَمَا أَمَرَنَا بِہٖنَبِیُّنَا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَائِنٌ فِیْ ذٰلِکَ مَاھُوْ کَائِنٌ، فَلَمَّا جَائُ وْہُ وَقَدْ دَعَا النَّجَاشِیُّ اَسَاقِفَتَہُ فَنَشَرُوْا مَصَاحِفَھُمْ حَوْلَہُ سَأَلَھُمْ فَقَالَ: مَا ھٰذَا الدِّیْنُ الَّذِیْ فَارَقْتُمْ فِیْہِ قَوْمَکُمْ وَلَمْ تَدْخُلُوْا فِیْ دِیْنِیْ وَلَا فِیْ دِیْنِ أَحَدٍ مِنْ ھٰذِہِ الْأُمُمِ؟ قَالَتْ: فَکَانَ الَّذِیْ کَلَّمَہُ جَعْفَرَ بْنَ أَبِیْ طَالِبٍ فَقَالَ لَہُ: أَیُّھَا الْمَلِکُ! کُنَّا قَوْمًا أَھْلَ جَاھِلِیَّۃٍ، نَعْبُدُ الْأَصْنَامَ، وَنَأکُلُ الْمَیْتَۃَ، وَنَأْتِی الْفَوَاحِشَ، وَنَقْطَعُ الْأَرْحَامَ، وَنُسِیْیئُ الْجِوَارَ، یَأْکُلُ الْقَوِیُّ مِنَّا الضَّعِیْفَ، فَکُنَّا عَلٰی ذٰلِکَ حَتّٰی بَعَثَ اللّٰہُ اِلَیْنَا رَسُوْلًا مِنَّا، نَعْرِفُ نَسَبَہُ وَصِدْقَہُ، وَأَمَانَتَہُ وَعِفَافَہُ، فَدَعَانَا اِلَی اللّٰہِ لِنُوَحِّدَہُ وَنَعْبُدَہُ وَنَخْلَعَ مَا کُنَّا نَحْنُ نَعْبُدُ وَأَبَاؤُنَا مِنْ دَوْنِہِ مِنَ الْحِجَارَۃِ وَالْأَوْثَانِ، وَأَمَرَنَا بِصِدْقِ الْحَدَیْثِ وَأَدَائِ الْأَمَانَۃِ وَصِلَۃِ الرَّحِمِ وَحُسْنِ الْجِوَارِ وَالْکَفِّ عَنِ الْمَحَارِمِ وَالدِّمَائِ، وَنَھَانَا عَنِ الْفَوَاحِشِ وَقَوْلِ الزُّوْرِ وَأَکْلِ مَالِ الْیَتِیْمِ وَقَذْفِ الْمُحْصَنَۃِ، وَأَمَرَنَا أَنْ نَعْبُدَ اللّٰہَ وَحْدَہُ لَانُشْرِکُ بِہٖشَیْئًا، وَأَمَرَنَا بِالصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ وَالصِّیَامِ، قَالَ: فَعَدَّدَ عَلَیْہِ أُمُوْرَ الْاِسْلَامِ، فَصَدَّقْنَاہُ وَآمَنَّا بِہٖوَاَتْبَعْنَاہُعَلٰی مَا جَائَ بِہٖوَعَبَدْنَااللّٰہَوَحْدَہُفَلَمْنُشْرِکْبِہٖشَیْئًا، وَحَرَّمْنَا مَا حَرَّمَ عَلَیْنَا وَأَحْلَلْنَا مَا أَحَلَّ لَنَا، فَعَدَا عَلَیْنَا قَوْمَنَا فَعَذَّبُوْنَا وَفَتَنُوْنَا عَنْ دِیْنِنَا لِیَرُدُّوْنَا اِلٰی عِبَادَۃِ الْأَوْثَانِ مِنْ عِبَادَۃِ اللّٰہِ، وَأَنْ نَسْتَحِلَّ مَا کُنَّا نَسْتَحِلُّ مِنَ الْخَبَائِثِ، فَلَمَّا قَھَرُوْنَا وَظَلَمُوْنَا وَشَقُّوْا عَلَیْنَا وََحَالُوْا بَیْنَنَا وَبَیْنَ دِیْنِنَا خَرَجْنَا اِلٰی بَلَدِکَ وَاخْتَرْنَاکَ عَلَی مَنْ سِوَاکَ وَرَغِبْنَا فِیْ جِوَارِکَ وَرَجَوْنَا أَنْ لَا نُظْلَمَ عِنْدَکَ أَیُّھَا الْمَلِکُ!، قَالَتْ: فَقَالَ لَہُ النَّجَاشِیُّ: ھَلْ مَعَکَ مِمَّا جَائَ بِہٖعَنِاللّٰہِشَیْئٌ؟ قَالَتْ: فَقَالَ لَہُ: جَعْفَرٌ: نَعَمْ، فَقَالَ لَہُ النَّجَاشِیُّ: فَاقْرَأْہُ عَلَیَّ! فَقَرَأَ عَلَیْہِ صَدْرًا مِنْ {کٓھٰیٰعٓصٓ} قَالَتْ: فَبَکٰی وَاللّٰہِ! النَّجَاشِیُّ حَتّٰی أَخْضَلَ لِحْیَتَہُ، وَبَکَتْ اَسَاقِفَتُہُ حَتّٰی اَخْضَلُوْا مَصَاحِفَھُمْ حِیْنَ سَمِعُوْا مَا تَلَاہُ عَلَیْھِمْ، ثُمَّّ قَالَ النَّجَاشِیُّ: اِنَّ ھٰذَا وَاللّٰہِ! وَالَّذِیْ جَائَ بِہٖمُوْسٰی لَیَخْرُجُ مِنْ مِشْکَاۃٍ وَاحِدَۃٍ، اِنْطَلِقَا فَوَاللّٰہِ! لَا اُسْلِمُھُمْ اِلَیْکُمْ أَبَدًا وَلَا أَکَادُ، قَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ: فَلَمَّا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِہِ قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ: وَاللّٰہِ! لَأُنَبِّئَنَّھُمْ غَدًا عَیْبَھُمْ عِنْدَھُمْ، ثُمَّّ أَسْتَأْصِلُ بِہٖخَضْرَائَھُمْ،قَالَتْ: فَقَالَلَہُعَبْدُاللّٰہِبْنُأَبِیْ رَبِیْعَۃَ: وَکَانَ أَتْقَی الرَّجُلَیْنِ فِیْنَا: لَا تَفْعَلْ فِاِنَّ لَھُمْ أَرْحَامًا وَاِنْ کَانُوْا قَدْ خَالَفُوْنَا، قَالَ: وَاللّٰہِ! لَأُخْبِرَنَّہُ أَنَّھُمْ یَزْعُمُوْنُ أَنَّ عِیْسَی بْنَ مَرْیَمَ عَبْدٌ، قَالَتْ: غَدَا عَلَیْہِ الْغَدَ، فَقَالَ: أَیُّھَا الْمَلِکُ: اِنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ فِیْ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ قَوْلًا عَظِیْمًا فَأَرْسَلَ اِلَیْھِمْ فَاسْأَلْھُمْ عَمَّا یَقُوْلُوْنَ فِیْہِ، قَالَتْ: فَأَرْسَلَ اِلَیْھِمْیَسْأَلُھُمْ عَنْہُ، قَالَتْ: وَلَمْ یَنْزِلْ بِنَا مِثْلُہُ، فَاجْتَمَعَ الْقَوْمُ فَقَالَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ: مَاذَا تَقُوْلُوْنَ فِیْ عِیْسٰی اِذَا سَأَلَکُمْ عَنْہُ؟ قَالُوْا: نَقُوْلُ وَاللّٰہِ! فِیْہِ مَا قَالَ اللّٰہُ وَمَا جَائَ بِہٖنَبِیُّنَا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَائِنًا فِیْ ذٰلِکَ مَا ھُوَ کَائِنٌ، فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلَیْہِ قَالَ لَھُمْ: مَاتَقُوْلُوْنَ فِیْ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ؟ فَقَالَ لَہُ جَعْفَرُ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ: نَقُوْلُ فِیْہِ الَّذِیْ جَائَ بِہٖنَبِیُّنُا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ھُوَ عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ وَرُوْحُہُ وَکَلِمَتُہُ اَلْقَاھَا اِلَی مَرْیَمَ الْعَذْرَائِ الْبَتُوْلِ، قَالَتْ: فَضَرَبَ النَّجَاشِیُّ بِیَدِہِ اِلَی الْأَرْضِ فَاَخَذَ مِنْھَا عُوْدًا ثُمَّّ قَالَ: مَا عَدَا عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ مَا قُلْتَ ھٰذَا الْعُوْدَ، فَتَنَاخَرَتْ بَطَارِقَتُہُ حَوْلَہُ حِیْنَ قَالَ مَا قَالَ، فَقَالَ: وَاِنْ نَخَرْتُمْ وَاللّٰہِ! اذْھَبُوْا فَأَنْتُمْ سَیُوْمٌ بِاَرْضِیْ وَالسَّیُوْمُ الْآمِنُوْنَ) مَنْ سَبَّکُمْ غُرِّمَ ثُمَّّ مَنْ سَبَّکُمْ غُرِّمَ فَمَا أُحِبُّ أَنَّ لِیْ دَبْرًا ذَھَبًا وَأَنَّیْ أَذَیْتُ رَجُلًا مِنْکُمْ، (وَالدَّبَرُ بِلِسَانِ الْحَبْشَۃِ: اَلْجَبَلُ) رُدُّوْا عَلَیْھِمَا ھَدَایَا ھُمَا فَـلَا حَاجَۃَ لَنَا بِھَا، فَوَاللّٰہِ! مَا أَخَذَ اللّٰہُ مِنِّی الرِّشْوَۃَ حِیْنَ رَدَّ عَلَیَّ مُلْکِیْ فَآخُذُ الرِّشْوَۃَ فِیْہِ، وَمَا أَطَاعَ النَّاسَ فِیَّ فَأُطِیْعَھُمْ فِیْہِ، قَالَتْ: فَخَرَجَا مِنْ عِنْدِہِ مَقْبُوْحَیْنِ مَرْدُوْدًا عَلَیْھِمَا مَا جَائَ ا بِہٖ،وَأَقَمْنَاعِنْدَہُبِخَیْرِ دَارٍ مَعَ خَیْرِ جَارٍ، قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ! اَنَا عَلٰی ذٰلِکَ اِذْ نَزَلَ بِہٖیَعْنِیْ مَنْ یُنَازِعُہُ فِیْ مُلْکِہِ، قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ! مَا عَلِمْنَا حُزْنًا قَطُّ کَانَ أَشَدَّ مِنْ حُزْنٍ حَزِنَّاہُ عِنْدَ ذٰلِکَ تَخَوُّفًا أَنْ یَظْھَرَ ذٰلِکَ عَلَی النَّجَاشِیِّ فَیَأْتِیَ رَجُلٌ لَا یَعْرِفُ مِنْ حَقِّنَا مَا کَانَ النَّجَاشِیُّیَعْرِفُ مِنْہُ، قَالَتْ: وَسَارَ النَّجَاشِیُّ وَبَیْنَھُمَا عُرْضُ النِّیْلِ، قَالَتْ: فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَنْ رَجُلٌ یَخْرُجُ حَتّٰییَحْضُرَ وَقْعَۃَ الْقَوْمِ، یَأْتِیَنَا بِالْخَبْرِ؟ قَالَتْ: فَقَالَ الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ: أَنَا، قَالَتْ: وَکَانَ مِنْ أَحْدَثِ الْقَوْمِ سِنًّا، قَالَتْ: فَنَفَخُوْا لَہُ قِرْبَۃًفَجَعَلَھَا فِیْ صَدْرِہِ ثُمَّّ سَبَحَ عَلَیْھَا حَتّٰی خَرَجَ اِلٰی نَاحِیَۃِ النِّیْلِ الَّتِیْ بِھَا مُلْتَقَی الْقَوْمِ، ثُمَّّ انْطَلَقَ حَتّٰی حَضَرَھُمْ، قَالَتْ: وَدَعَوْنَا اللّٰہَ لِلنَّجَاشِیِّ بِالظُّھُوْرِ عَلٰی عَدُوِّہِ وَالتَّمْکِیْنِ لَہُ فِیْ بِلَادِہِ، وَاسْتَوْسَقَ عَلَیْہِ أَمْرُ الْحَبَشَۃِ، فَکُنَّا عِنْدَہُ فِیْ خَیْرِ مَنْزِلٍ حَتّٰی قَدِمْنَا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ وَھُوَ بِمَکَّۃَ۔(مسند احمد: ۱۷۴۰)

۔ زوجۂ رسول سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: ہم حبشہ کی سرزمین میں اترے اور نجاشی کو بہترین پڑوسی پایا، ہم اپنے دین پر پر امن ہو گئے اور ہم نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی، ہمیں نہ کوئی تکلیف دی جاتی تھی اور نہ ہم کوئی ناپسند بات سنتے تھے، جب قریشیوں کو اس چیز کا علم ہوا تو انھوں نے مشورہ کیا اور یہ طے پایا کہ دو قوی افراد کو نجاشی کے پاس بھیجا جائے اور نجاشی کے لیے ایسے تحائف کا انتخاب کیا جائے، جن کو مکہ کا عمدہ مال سمجھا جاتا ہے اور مکہ سے سب سے پسندیدہ چیز سالن تھی، لہٰذا انھوں بڑی مقدار میں سالن جمع کیا اور انھوں نے حبشہ کے ہر بڑے پادری کے لیے تحفہ ارسال کرنے کا فیصلہ کیا، پھر انھوں عبد اللہ بن ابی ربیعہ مخزومی اور عمرو بن عاص بن وائل سہمی کو تحائف دے کر بھیجا اور ان کو ساری باتیں سمجھا دیں، انھوں نے اِن دو افراد سے کہا: نجاشی سے بات کرنے سے پہلے ہر بڑے پادری کو اس کا حصہ دو اور پھر نجاشی کے سامنے اس کے تحائف پیش کر دو اور اس سے مطالبہ کرو کہ وہ ان افراد کو تمہارے سپرد کر دے اور اس کو پہلے بات کرنے کا موقع ہی نہ دو۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: ہم لوگ نکلے، نجاشی کے پاس پہنچے اور ہم اس کے پاس بہترین گھر میں اور بہترین پڑوسی کے پڑوس میں تھے۔ اتنے میں اِدھر سے قریشیوں کا وفد پہنچ گیا، انھوں نے نجاشی سے بات کرنے سے پہلے کوئی بڑا پادری نہیں چھوڑا ، مگر اس کو اس کا تحفہ پیش کیا، پھر انھوں نے ہر بڑے پادری سے کہا: ہماری قوم کے کچھ بیوقوف لڑکے بے دین ہو کر نجاشی بادشاہ کے ملک میں پہنچ گئے ہیں، انھوں نے اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا ہے اور وہ تمہارے دین میں داخل نہیں ہوئے، بلکہ انھوں نے ایک نیا دین گھڑ لیا ہے، اس دین کو ہم جانتے ہیں نہ تم جانتے ہو، ہماری قوم کے اشراف نے ہمیں اس بادشاہ کی طرف بھیجا ہے، تاکہ وہ ان کو واپس کر دے، لہٰذا جب ہم بادشاہ سے بات کریں تو تم نے یہی مشورہ دینا ہے کہ وہ ان کو ہمارے سپرد کر دیں اور بادشاہ کو پہلے بات کرنے کا موقع ہی نہیں دینا، پس بیشک ان لوگوں کی قوم کے لوگ ہی بہترین انداز میں اس چیز کو دیکھ سکتے ہیں اور جان سکتے ہیں کہ وہ ان کی کس چیز کو معیوب سمجھتے ہیں، پادریوں نے کہا: بالکل ٹھیک ہے، بعد ازاں قریشیوں کے ان دو قاصدوں نے نجاشی کو تحائف پیش کیے اور اس نے ان سے قبول کیے، پھر انھوں نے بات کی اور کہا: اے بادشاہ! ہمارے کچھ بیوقوف لڑکے بے دین ہو کر آپ کے ملک میں پہنچ گئے ہیں، انھوں نے اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا ہے اور انھوں نے تم لوگوں کا دین بھی اختیار نہیں کیا ، بلکہ انھوں نے ایک نیا دین ایجاد کر لیا ہے، نہ ہم اس کو جانتے ہیں اور نہ تم، ان کی قوم کے اشراف،یہاں تک کہ ان کے آبائ، چچوں اور قبیلوں کے دوسرے افراد نے ہمیں آپ کی طرف بھیجا ہے، تاکہ آپ ان کو ہماری طرف لوٹا دیں، ہم ہی بہترین انداز میں اس چیز کو دیکھ سکتے ہیں اور جان سکتے ہیں کہ وہ ان کی کس چیز کو معیوب سمجھتے ہیں اور کس چیز کی وجہ سے ان کی ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں، عبد اللہ بن ابی ربیعہ اور عمرو بن عاص کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ بات یہ تھی کہ نجاشی اُن صحابہ کی بات سنے، اتنے میں اس کے ارد گرد والے پادریوں نے کہا: اے بادشاہ! یہ لوگ سچ کہہ رہے ہیں، ان کی ہی بہتر انداز میں اس چیز کو دیکھ سکتی ہے اور جان سکتی ہے کہ یہ ان کی کس چیز کو معیوب سمجھتے ہیں، لہٰذا آپ اِن لوگوں کو ان کے سپرد کر دیں تاکہ یہ دو افراد اِن کو اپنے وطن اور قوم کی طرف واپس لے جائیں،یہ بات سن کر نجاشی غضبناک ہو گیا اور اس نے کہا: مخلوق کے خالق کی قسم! اللہ کی قسم! میں اِن کو اُن کے سپرد نہیں کروں گا اور قریب نہیں ہے کہ اس معاملے میں میرے ساتھ کوئی مکر کیا جائے، اِن لوگوں نے میرا پڑوس اختیار کیا ہے، میرے ملک میں آئے ہیں اور مجھے دوسرے بادشاہوں پر ترجیح دی ہے، لہٰذا میں ان کو بلا کر اس بارے میں ان سے پوچھوں گا کہ یہ دو آدمی کیا کہتے ہیں، اگر تو معاملہ ایسے ہی ہوا، جیسےیہ کہہ رہے ہیں تو میں اِن کے سپرد کر دوں گا اور اُن کو اُن کی قوم کی طرف لوٹا دوں گا، لیکن اگر کوئی اور معاملہ ہوا تو اُن کو روک لوں گا اور انھوں نے جو پڑوس اختیار کیا ہے، میں اس کو اچھا ثابت کروں گا۔ پھر نجاشی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ کی طرف پیغام بھیجا اور ان کو بلایا، جب اس کا قاصد آیا تو وہ جمع ہو گئے، پھر ان میں سے بعض نے بعض سے کہا: جب تم اس آدمی کے پاس جاؤ گے تو کیا کہو گے؟ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم وہی کچھ کہیں گے جو ہمیں علم ہے اور جو کچھ ہمارے نبی نے ہمیں حکم دیا ہے، اس کی وجہ سے جو کچھ ہونا ہے، وہ ہو جائے (ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں)، جب وہ صحابہ اس کے پاس پہنچ گئے اور اس نجاشی نے پادریوں کو بلایا، وہ اس کے ارد گرد مصاحف کھول کر بیٹھ گئے، نجاشی نے کہا: اس دین کی کیا حقیقت ہے کہ جس کی بنا پر تم اپنی قوم سے الگ ہو گئے ہو اور میرے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے، بلکہ تم نے موجودہ امتوں میں سے کسی امت کے دین کو نہیں اپنایا؟ سیدنا جعفر بن ابی طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بات کی اور کہا: اے بادشاہ! ہم جاہل قوم تھے، بتوں کی پرستش کرتے تھے، مردار کھاتے تھے، برے کام کرتے تھے، قطع رحمی کرتے تھے، پڑوسیوں کے ساتھ برا سلوک کرتے تھے اور ہمارا قوی آدمی ضعیف کو کھا رہا تھا، ہمارے یہی حالات تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف ایک رسول مبعوث فرمایا، ہم اس کے نسب، صدق، امانت اور پاکدامنی کو جانتے تھے، اس نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی کہ اس کو ایک تسلیم کریں، اس کی عبادت کریں اور ان پتھروں اور بتوں سے باز آ جائیں کہ جن کی ہم اور ہمارے آباء عبادت کرتے تھے، نیز اس نبی نے ہمیں سچی بات، ادائے امانت، صلہ رحمی اور بہترین پڑوس اختیار کرنے کا اور حرام کاموں سے اور قتل سے رکنے کا حکم دیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں برے امور، جھوٹ بات، یتیم کا مال کھانے سے اور پاکدامن خاتون پر تہمت لگانے سے منع کیا، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، جو کہ یکتا و یگانہ ہے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، نماز اور زکاۃ ادا کریں اور روزے رکھیں، اس طرح سیدنا جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نجاشی کے سامنے امورِ اسلام کا ذکر کیا اور پھر کہا: پس ہم نے اس رسول کی تصدیق کی، اس کے ساتھ ایمان لائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی پیروی کی، اللہ تعالیٰ کی عبادت کی، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا، جس چیز کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم پر حرام قرار دیا، ہم نے اس کو حرام سمجھا اور جس چیز کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمارے لیے حلال قرار دیا، ہم نے اس کو حلال سمجھا۔ ان وجوہات کی بنا پر ہماری قوم نے ہم پر زیادتی کی، ہمیں ایذا پہنچائی، ہمارے دین کے بارے میں ہمیں فتنے میں ڈالا تاکہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی بجائے بتوں کی عبادت کی طرف لے جائیں اور ان خبیث چیزوں کو حلال سمجھیں، جن کو ہم جاہلیت میں حلال سمجھتے تھے، پھر جب ان لوگوں نے ہم پر سختی کی، ہم پر ظلم کیا، ہمیں مشقت میں ڈالا اور ہمارے اور ہمارے دین کے مابین حائل ہونا چاہا تو ہم آپ کے ملک کی طرف آ گئے، آپ کو دوسروں پر ترجیح دی، ہمیں آپ کے پڑوس میں رہنے کی ترغیب ہوئی اور ہمیں امید تھی کہ اے بادشاہ سلامت! آپ کے ہاں ہم پر ظلم نہیں کیا جائے گا، نجاشی نے یہ تقریر سن کر کہا: تمہارے نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو چیز لائے ہیں، کیا اس کا کوئی حصہ تیرے پاس ہے؟ سیدنا جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جی ہاں، نجاشی نے کہا: تو پھر اس کی تلاوت کر کے مجھے سناؤ، سیدنا جعفر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سورۂ مریم کے ابتدائی حصے کی تلاوت کی، اللہ کی قسم! نجاشی نے رونا شروع کر دیا،یہاں تک کہ اس کی داڑھی تر ہو گئی اور پادریوں نے بھییہ تلاوت سن کر رونا شروع کر دیا، حتی کہ ان کے سامنے پڑے ہوئے مصاحف تر ہو گئے، پھر نجاشی نے کہا: اللہ کی قسم! بیشک اس کلام کا اور موسی علیہ السلام کے لائے ہوئے کلام کا سرچشمہ ایک ہے، تم دونوں چلے جاؤ یہاں سے، اللہ کی قسم! میں ان لوگوں کو کبھی بھی تمہارے سپرد نہیں کروں گا اور یہ نہیں ہو سکتا کہ اس معاملے میں میرے ساتھ کوئی مکر کیا جائے۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: جب ہم اس کے پاس سے نکلے تو عمرو بن عاص نے کہا: اللہ کی قسم! کل میں نجاشی اور اس کے ماتحت لوگوں کو اِن کا ایک عیب بتاؤں گا اور اس کے ذریعے ان کی اصل کو جڑ سے مٹا دوں گا۔ عبد اللہ بن ابی ربیعہ، جو کہ ان دو افراد میں اچھا تھا، نے اس سے کہا: اس طرح نہ کر، آخر یہ ہمارے ہی رشتہ دار ہیں، اگرچہ ہماری مخالفت کر رہے ہیں، لیکن عمرو بن عاص نے کہا: اللہ کی قسم! میں ان کو ضرور ضرور بتاؤں گا کہ یہ لوگ عیسی بن مریم کو بندہ کہتے ہیں، پس وہ دوسرے دن بادشاہ کے پاس گیا اور کہا: اے بادشاہ سلامت! یہ لوگ عیسی بن مریم کے بارے میں بڑی عجیب بات کرتے ہیں، پس آپ ان کو دوبارہ بلائیں اور اس بارے میں ان سے پوچھیں، پس اس نے اس بات کی تحقیق کرنے کے لیے ان کو بلا بھیجا،یہ ہمارے حق میں سب سے بڑی مصیبت تھی، پس صحابہ جمع ہو گئے اورایک دوسرے سے کہنے لگے: جب وہ تم سے سوال کرے گا تو تم حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں کیا کہو گے؟ بعض نے جواب دیتے ہوئے کہا: اللہ کی قسم! ہم وہی کچھ کہیں گے، جو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے اور ہمارے نبی کی لائی ہوئی شریعت نے کہا ہے، جس چیز نے ہونا ہے، وہ ہوجائے، جب وہ داخل ہوئے تو نجاشی نے کہا: تم لوگ عیسی بن مریم کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ سیدنا جعفر بن ابو طالب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہم ان کے بارے میں وہی کچھ کہتے ہیں، جو ہمارے نبی نے ہمیں تعلیم دی ہے، ہم کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے، رسول، روح اور کلمہ ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو کنواری مریم بتول کی طرف ڈالا،یہ سن کر نجاشی نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا، وہاں سے ایک لکڑی اٹھائی اور کہا: تو نے عیسی بن مریم کے بارے میں جو کچھ کہا، ان کی حیثیت اس لکڑی کے بقدر بھی اس سے زیادہ نہیں ہے، نجاشی کا یہ تبصرہ سن کر پادریوں نے (غصے کے ساتھ) باتیں کی، لیکن نجاشی نے کہا: بیشک تم غصے سے باتیں کرو، اللہ کی قسم! صحابہ! تم جاؤ، تم میری زمین میں امن والے ہو، جس نے تم کو برا بھلا کہا، اس کو چٹی پڑے گی، پھر جس نے تم کو گالی گلوچ کیا، اس کو چٹی پڑے گی، مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ تم میں سے کسی بندے کو تکلیف دوں اور مجھے پہاڑ کے برابر سونا دیا جائے، حبشہ کی زبان میں پہاڑ کو دَبَر کہتے ہیں، پھر نجاشی نے کہا: قریش کے ان دو افراد کے تحائف ان کو واپس کر دو، ہمیں ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اللہ کی قسم! جب اللہ تعالیٰ نے میری بادشاہت مجھے عطا کی تھی تو اس نے مجھ سے رشوت نہیں لی تھی، تو پھر میں اس معاملے میں رشوت کیوں لوں، لوگوں نے جب تک میری اطاعت کی، میں بھی ان کی اطاعت کروں گا۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: اب یہ دو قریشی بدنما اور معیوب ہو کر وہاں سے نکلے، ان کے لائے ہوئے ہدیے ان کو واپس کر دیئے گئے اور ہم نجاشی کے علاقے میں اس طرح رہے، جیسے ہم بہترین پڑوسی کے پاس بہترین گھر میں ہیں۔ سیدہ کہتی ہیں: ہم وہیں مقیم تھے کہ نجاشی سے ایسے لوگوں نے مقابلہ کرنا شروع کر دیا جو اس سے یہ بادشاہت چھیننا چاہتے تھے، اللہ کی قسم! اس وقت جو شدید غم ہمیں لاحق ہوا تھا، ہم نہیں جانتے کہ اس سے بڑا بھی غم ہوتا ہے، ہمیںیہ ڈر تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ نجاشی پر ایسا بادشاہ غالب آ جائے کہ جس کو ہمارے حق کی اس طرح معرفت نہ ہو، جیسے نجاشی کو تھی، نجاشی بھی مقابلے کے لیے چل پڑا، جبکہ دونوں کے درمیان نیل حائل تھا، یہ صورت حال دیکھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ نے کہا: کون آدمی ہے، جو لوگوں کے میدان جنگ کی طرف جائے اور ہمیں صورتحال سے آگاہ کرے؟ سیدنا زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں جاتا ہوں، اس جماعت میں نئی عمر والے یہی تھے، بہرحال لوگوں نے ایک مشکیزے میں ہوا بھر کر اس کو ان کے سینے میں ڈالا اور انھوں نے اس پر تیرنا شروع کر دیا،یہاںتک کہ نیل کی اس طرف نکل گئے، جہاں دونوںلشکروں کا مقابلہ ہونا تھا، پس وہ چلتے گئے، یہاں تک کہ ان کے پاس پہنچ گئے۔ سیدہ کہتی ہیں: ہم نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ نجاشی اپنے دشمن پر غالب آجائے اور اللہ تعالیٰ اسی کو اس کے علاقے میں برقرار رکھے اور یوں ہی ہوا کہ حبشیوںکا معاملہ نجاشی سے متفق ہو گیا، اس طرح ہم اس کے پاس بہترین انداز میں رہے، یہاں تک کہ ہم مکہ مکرمہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس واپس آ گئے۔

Haidth Number: 10540
Haidth Number: 10715
سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غزوۂ بدر سے فارغ ہوئے تو کسی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: آپ ابو سفیان کے قافلہ کی خبر لیں، اب کوئی آپ کی مزاحمت نہیں کر سکے گا ، لیکن عباس جو کہ اس وقت اسیر تھے اور بندھے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: اب ابو سفیان کا پیچھا کرنا آپ کے شایانِ شان نہیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: وہ کیوں؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ کیا تھا اور اس نے اپنے وعدے کے مطابق آپ کو ایک گروہ پر غلبہ دے دیا ہے۔

Haidth Number: 10716
سیدنا ابو اسید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بدر کے دن جب ہماری اور کفار کی مڈبھیڑ ہوئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے فرمایا: جب دشمن تمہارے اوپر چڑھ آئے یعنی بالکل قریب آجائے تو تب تم ان پر تیر چلانا۔ اور میرا خیال ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اندھا دھند تیر اندازی کرنے کی بجائے احتیاط سے تیر چلانا۔

Haidth Number: 10717
سیدناابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بدر کے دن ہم نے صف بندی کی تو ہم میں سے بعض جلد بازوں نے جلدی کی اور صف سے آگے نکل گئے،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: میرے ساتھ ساتھ رہو۔

Haidth Number: 10718
سیدناانس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ بدر کے دن ہم میدان جنگ میں تھے کہ ہمیں اونگھ نے آلیا، وہ کہتے ہیں کہ میں بھی اس دن انہی لوگوں میں شامل تھا ،جن کو اونگھ آگئی تھی، میری تلوار بار بار میرے ہاتھ سے چھوٹ کر جاتی تھی اور میں اسے سنبھالنے کی کوشش کرتا تھا۔

Haidth Number: 10719
سیدنابراء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بدر کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے اور ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو کم عمر قرار دے کر ہمیں لڑائی سے واپس بھیج دیا تھا۔

Haidth Number: 10720
سیدناعبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بدر کے دن جب کفار اور مسلمان ایک دوسرے کے بالمقابل ہوئے تو ابو جہل نے کہا: یا اللہ! ہم میں سے جس نے قطع رحمی کی اور ہمارے پاس ایسی چیز لایا جسے ہم پہنچانتے نہیں تو اسے کل صبح رسوا کر، چنانچہ اس کییہی دعا مسلمانوں کی فتح کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی۔

Haidth Number: 10721
سیدنا عبداللہ بن بریدہ سے مروی ہے کہ ان کے والد سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ سولہ غزوات میں شرکت کی سعادت حاصل رہی۔

Haidth Number: 11645
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کرتا رہوں، جب تک وہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُکا اقرار نہ کرلیں، پس جب وہ یہ کلمہ پڑھ کر اس کا اقرار کر لیں گے تو وہ اپنی جانیں اور اموال مجھ سے محفوظ کر لیں گے اور اس کے بعد ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہو گا۔ پس جب سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ خلیفہ بنے تو کچھ لوگ اس قدر مرتد ہوگئے (کہ زکوۃ دینے سے انکار کر دیا)، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے قتال کرنے کا ارادہ کیا، لیکن سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: آپ ان لوگوں سے قتال کیوں کریں گے، حالانکہ یہ نماز پڑھتے ہیں؟ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جو لوگ زکوٰۃ دینے سے انکاری ہیں، میں ضرور ضرور ان سے قتال کروں گا۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ اور اس کے رسول نے ان پر بھیڑ یا بکری کا ایک بچہ بھی بطور زکوٰۃ فرض کی ہے اور اگر یہ لوگ اسے ادا نہیں کریں گے تو میں ان سے قتال کروں گا۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جب میں نے دیکھا کہ اللہ نے ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا سینہ ان لوگوں سے قتال کرنے کے لیے کھول دیا ہے تو میں جان گیا کہ یہی بات حق ہے۔

Haidth Number: 12169
سیدنا ابو مسعود انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک سے یمن کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ایمان یہاں ہے، ایمان یہاں ہے، اور شدت اور دلوں کی سختی اونٹوں کے مالکوں میں ہے، جہاں سے ربیعہ اور مضر میں سے شیطان کے سینگ طلوع ہوں گے۔

Haidth Number: 12580
سیدناابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بنو مضر اللہ کے بندوں کو اس حدتک ماریں گے کہ اللہ کی عبادت کرنے والا کوئی نام نہیں رہے گا، پھر اہل ایمان ان کو ضرور ضرور اس طرح ماریں گے اور وہ ذلیل و رسوا ہو کر رہ جائیں گے۔

Haidth Number: 12581