Blog
Books
Search Hadith

ان امور سے ممانعت کابیان: احتلام ہونے یا زیر ناف بالوں کے اگنے سے پہلے قیدی کو قتل کرنا، دوسرے کے قیدی کو قتل کرنا، قیدیوں میں والدہ اور اس کی اولاد میں تفریق ڈالنا، حاملہ قیدی خواتین سے جماع کرنا اور قیدی کو باندھ کر مارنا

30 Hadiths Found
۔ سیدنا عطیہ قرظی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہمیں قریظہ والے دن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر پیش کیا گیا، جس کے زیرناف بال اُگ چکے تھے، اس کو قتل کر دیا گیا اور جس کے زیر ناف بال نہیں اُگے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو قتل نہ کیا، میں (عطیہ) ان بچوں میں سے تھا، جن کے بال نہیں اگے تھے، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے قتل سے رہا کر دیا۔

Haidth Number: 5100
۔ کثیر بن سائب سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: قریظہ کے دو بیٹوں نے مجھے بیان کیا کہ ان کو بنو قریظہ کی بدعہدی کے زمانے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر پیش کیا گیا، پس ان میں سے جو بالغ ہو چکا تھا یا اس کے زیرِ ناف بال اگ چکے تھے، اس کو قتل کر دیا گیا اور جو ایسے نہیں تھا، اس کو چھوڑ دیا گیا تھا۔

Haidth Number: 5101
۔ سیدنا سمرہ بن جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی اپنے بھائی کے قیدی کے درپے نہ ہو کہ وہ اس کو قتل کر دے۔

Haidth Number: 5102
۔ ابو عبد الرحمن حُبُلی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم (روم کے علاقوں میں) سمندری جہاد کر رہے تھے، عبد اللہ بن قیس فزاری ہمارے امیر تھے اور سیدنا ابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی ہمارے ساتھ تھے، جس آدمی نے مالِ غنیمت تقسیم کرنا تھا، سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کے پاس سے گزرے، اس نے قیدیوں کو کھڑا کیا ہوا تھا اور ان میں ایک خاتون رو رہی تھی، انھوں نے کہا: اس کو کیا ہوا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ مسلمانوں نے اس کے اور اس کے بچے کے ما بین جدائی ڈال دی ہے، پس سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس کے بچے کا ہاتھ پکڑا اور اس کو اس کی ماں کو پکڑا دیا، یہ دیکھ تقسیم کرنے والا عبد اللہ بن قیس کے پاس گیا اور اس سے شکایت کی، انھوں نے سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلایا اور پوچھا: کس چیز نے تمہیں ایسا کرنے پر آمادہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے والدہ اور اس کے بچے کے مابین تفریق ڈالی، اللہ تعالیٰ روزِ قیامت اس کے اور اس کے محبوبوں کے درمیان تفریق ڈال دے گا۔

Haidth Number: 5103
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس قیدی لائے جاتے تھے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (آپس میں قرابت والے) قیدی ایک گھر والوں کو دے دیتے، اس چیز کو ناپسند کرتے ہوئے کہ ان کے درمیان جدائی ہو جائے۔

Haidth Number: 5104
۔ سیدنا رویفع بن ثابت انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حنین والے دن ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے آدمی کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنا پانی دوسرے کی کھیتی کو پلائے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد یہ تھی کہ حاملہ قیدی خواتین سے مخصوص تعلق قائم نہ کیا جائے، نیز آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ بھی حلال نہیں ہے کہ آدمی خاوند والی قیدی خاتون سے مباشرت کرے، جب تک استبرائے رحم نہ کر لے، یعنی جب وہ ایسی خاتون خریدے تو استبرائے رحم سے پہلے اس سے خاص تعلق قائم نہ کرے، اور یہ بھی حلال نہیں ہے کہ آدمی تقسیم سے پہلے مالِ غنیمت کو بیچ دے۔

Haidth Number: 5105
۔ سیدنا رویفع بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے منع فرمایا کہ لونڈی سے اس کا حیض آنے تک اور حاملہ سے اس کا بچہ پیدا ہونے تک مباشرت کی جائے۔

Haidth Number: 5106
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ آدمی ہم میں سے نہیں ہے، جو حاملہ لونڈی سے مباشرت کرتا ہے۔

Haidth Number: 5107
۔ سیدنا ابو درداء ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خیمے کے دروازے پر یا اس کے ایک کونے میں ایسی خاتون دیکھی، جس کا بچہ جنم دینے کا وقت لگ رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شاید اس کا مالک اس سے مباشرت کرتا ہو؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے ارادہ کیا کہ اس شخص پر ایسی لعنت کروں، جو اس کے ساتھ اس کی قبر میں بھی گھس جائے، وہ اس کا کیسے وارث بنے گا، جبکہ وہ اس کیلئے حلال نہیں ہے، وہ اس سے کیسے خدمت لے گا، جبکہ وہ اس کیلئے حلال نہیں ہے۔

Haidth Number: 5108
۔ عبید بن تعلی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے عبد الرحمن بن خالد بن ولید کی قیادت میں غزوہ کیا، ان کے پاس عجمی لوگوں میں چار کافر لائے گئے اور انھوں نے ان کے بارے میں حکم دیا، پس ان کو باندھ کر تیر کے ساتھ قتل کر دیا گیا، جب یہ بات سیدنا ابو ایوب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پتہ چلی تو انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سنا تھا کہ آپ باندھ کر قتل کرنے سے منع کر رہے تھے۔

Haidth Number: 5109

۔ (۸۵۶۲)۔ عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: کُنْتُ إِلٰی جَنْبِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَغَشِیَتْہُ السَّکِینَۃُ، فَوَقَعَتْ فَخِذُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی فَخِذِی، فَمَا وَجَدْتُ ثِقْلَ شَیْئٍ أَ ثْقَلَ مِنْ فَخِذِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ سُرِّیَ عَنْہُ، فَقَالَ: ((اکْتُبْ۔)) فَکَتَبْتُ فِی کَتِفٍ {لَا یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ} إِلٰی آخِرِ الْآیَۃِ [النسائ: ۹۵]، فَقَامَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ وَکَانَ رَجُلًا أَ عْمٰی لَمَّا سَمِعَ فَضِیلَۃَ الْمُجَاہِدِینَ فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَکَیْفَ بِمَنْ لَا یَسْتَطِیعُ الْجِہَادَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ؟ فَلَمَّا قَضٰی کَلَامَہُ غَشِیَتْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم السَّکِینَۃُ، فَوَقَعَتْ فَخِذُہُ عَلٰی فَخِذِی وَوَجَدْتُ مِنْ ثِقَلِہَا فِی الْمَرَّۃِ الثَّانِیَۃِ کَمَا وَجَدْتُ فِی الْمَرَّۃِ الْأُولٰی، ثُمَّ سُرِّیَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اقْرَأْ یَا زَیْدُ!)) فَقَرَأْتُ: {لَا یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ} فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ} الْآیَۃَ کُلَّہَا قَالَ زَیْدٌ: فَأَ نْزَلَہَا اللّٰہُ وَحْدَہَا فَأَ لْحَقْتُہَا، وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ! لَکَأَ نِّی أَ نْظُرُ إِلٰی مُلْحَقِہَا عِنْدَ صَدْعٍ فِی کَتِفٍ۔ (مسند احمد: ۲۲۰۰۴)

۔ سیدنا زید بن ثابت سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا کہ آپ پر سکینت (نزول وحی کے وقت کی ایک کیفیت) طاری ہوگئی، اُدھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ران میری ران پرتھی، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ران کے وزن سے زیادہ کسی چیز کا وزن محسوس نہیں کیا، جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لکھو۔ پس میں نے شانے کی ایک ہڈی پر لکھا : {لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُجٰہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰہِدِیْنَ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَۃً وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی وَفَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجٰہِدِیْنَ عَلَی الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا۔} … ایمان والوں میں سے بیٹھ رہنے والے اور اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں، اللہ نے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت دی ہے اور ہر ایک سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے اور اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کی فضیلت عطا فرمائی ہے۔ مجاہدین کییہ فضیلت سن کر سیدنا ابن ام مکتوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، جو نابینا تھے،کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! اس کا کیا حال ہوگا، جو کسی عذر کی وجہ سے جہاد میں شریک نہیں ہو سکتا؟ جب وہ اپنی بات کہہ چکے تو پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر نزول وحی کی مخصوص کیفیت طاری ہوگئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ران میری ران پر تھی اور اس پر دوسری مرتبہ میں بھی میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ران کا اتنا ہی وزن محسوس کیا جتنا کہ پہلی مرتبہ میں نے کیا تھا، کچھ دیر کے بعد جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے زید! آیت پڑھو۔ پس میں نے پڑھی: {لَا یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ}، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: {غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ} بھی لکھو۔ پھر سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے اس جملہ کو الگ نازل فرمایا، اس کے بعد میں نے اس کو اس کی اپنی جگہ پر لگا دیا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اس وقت بھی ہڈی کے شگاف کے پاس اس مقام کو دیکھ رہا ہوں، جہاں میں نے اس کو لکھا تھا۔

Haidth Number: 8562
۔ ابو اسحق سے مروی ہے کہ انھوں نے سیدنا براء کو اس آیت {لَا یَسْتَوِی الْقَاعِدُونَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُجَاہِدُونَ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ}کے بارے میں یہ کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا زید کو حکم دیا، پس وہ آئے اور انھوں نے شانے کی ہڈی پر اس آیت کو لکھ لیا، جب سیدنا ابن ام مکتوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے نابینا پن کا ذکر کیا تو یہ آیتیوں نازل ہوئی: {لَا یَسْتَوِی الْقَاعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُوْلِی الضَّرَرِ}۔

Haidth Number: 8563
۔ (دوسری سند)سیدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی {وَفَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجَاہِدِینَ عَلَی الْقَاعِدِینَ أَ جْرًا عَظِیمًا} توسیدنا ابن ام مکتوم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں تو نابینا ہوں، اب میرے لیے کیاحکم ہے؟ اتنے میں یہ الفاظ نازل ہو گئے: {غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ}، ایک روایت میں ہے:ابھی تک آپ اسی جگہ پر تھے کہ یہ آیت نازل ہو گئی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: شانے کی ہڈی اور دوات یا تختی اور دوات میرے پاس لاؤ۔

Haidth Number: 8563
۔ سیدنا ابن سعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہجرت اس وقت تک منقطع نہیں ہو گی، جب تک دشمن سے لڑائی جاری رہے گی۔ سیدنا معاویہ، سیدنا عبد الرحمن بن عوف اور سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصf سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک ہجرت کی دو قسمیں ہیں: ایکیہ کہ تو برائیوں کو چھوڑ دے اور دوسرییہ کہ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر جائے، ہجرت اس وقت تک منقطع نہیں ہو گی، جب تک توبہ قبول ہوتی رہے گی اور اس وقت تک توبہ کی قبولیت ہوتی رہے گی، جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو جائے، جب اُس سمت سے طلوع ہو جائے گا تو ہر دل کے اندر جو کچھ ہو گا، اس سمیت اس پر مہر لگا دی جائے گی اور لوگ عمل سے کافی ہو جائیں گے۔

Haidth Number: 10630
۔ ابوہند بَجَلی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا معاویہ بن ابی سفیان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، وہ اپنی چارپائی پر اونگھ کی وجہ سے آنکھوں کو بند کر کے تشریف فرما تھے، ہم نے وہاں ہجرت کا تذکرہ کیا، کسی نے کہا: ہجرت منقطع ہو چکی ہے اور کسی نے کہا کہ ابھی تک وہ منقطع نہیں ہوئی، اتنے میں سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جاگ گئے اور کہا: تم لوگ کیا بات کر رہے تھے؟ ہم نے ان کو تفصیل بتائی، وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف کم احادیث منسوب کرتے تھے، بہرحال اس بار انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گفتگو کر رہے تھے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہجرت اس وقت تک منقطع نہیں ہو گی، جب تک توبہ منقطع نہیں ہو جاتی اور توبہ اس وقت تک منقطع نہیں ہو گی، جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہو جاتا۔

Haidth Number: 10631
۔ بنو مالک بن حنبل کا ایک آدمی سیدنا عبد اللہ بن سعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھیوں کی ایک جماعت سمیت رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، چونکہ وہ لوگوں میں سب سے چھوٹے تھے، اس لیے لوگوں نے اس سے کہا: تو ہمارے کجاووں اور سامانِ سفر کی حفاظت کر، پھر اندر آ جانا، پس اس نے ان کی ضرورت پوری کی، پھر انھوں نے اس سے کہا: اب تو اندر چلا جا، پس اندر داخل ہوا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے کہا: تیری ضرورت کیا ہے؟ اس نے کہا: میری ضرورت یہ ہے کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ کیا ہجرت منقطع ہو چکی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیری ضرورت باقی لوگوں کی ضرورتوں سے بہتر ہے، جب تک دشمن سے لڑائی جاری رہے گی، اس وقت تک ہجرت منقطع نہیں ہو گی۔

Haidth Number: 10632
۔ سیدنا حیوہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ اس نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ہجرت کے بارے میں سوال کیا ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تک دشمن سے جہاد جا ری رہے گا، اس وقت تک ہجرت منقطع نہیں ہو گی۔

Haidth Number: 10633
۔ سیدنا جنادہ بن ابی امیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ چند صحابہ کرامf میں ایک بحث ہونے لگی، کسی نے کہا کہ ہجرت منقطع ہو چکی ہے، بہرحال اس بارے میں ان کا اختلاف ہو گیا، میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف چلا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہجرت منقطع ہو چکیہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک ہجرت اس وقت تک منقطع نہیں ہو گی، جب تک جہاد جاری رہے گا۔

Haidth Number: 10634
۔ سیدنا معاویہ بن حدیج ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے زمانے میں ہجرت کی، ہم ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، پھر وہ منبر پر چڑھ گئے۔

Haidth Number: 10635

۔ (۱۰۸۰۹)۔ قَالَ حَدَّثَنِی مَکِّیُّ بْنُ إِبْرَاہِیمَ قَالَ حَدَّثَنَا یَزِیدُ بْنُ أَبِی عُبَیْدٍ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ، أَنَّہُ أَخْبَرَہُ قَالَ، خَرَجْتُ مِنَ الْمَدِینَۃِ ذَاہِبًا نَحْوَ الْغَابَۃِ حَتّٰی إِذَا کُنْتُ بِثَنِیَّۃِ الْغَابَۃِ، لَقِیَنِی غُلَامٌ لِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: قُلْتُ: وَیْحَکَ! مَا لَکَ؟ قَالَ: أُخِذَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قُلْتُ: مَنْ أَخَذَہَا؟ قَالَ: غَطَفَانُ وفَزَارَۃُ، قَالَ: فَصَرَخْتُ ثَلَاثَ صَرَخَاتٍ أَسْمَعْتُ مَنْ بَیْنَ لَابَتَیْہَا،یَا صَبَاحَاہْ! یَا صَبَاحَاہْ! ثُمَّ انْدَفَعْتُ حَتّٰی أَلْقَاہُمْ وَقَدْ أَخَذُوہَا، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَرْمِیہِمْ وَأَقُولُ: أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَعِ، قَالَ: فَاسْتَنْقَذْتُہَا مِنْہُمْ قَبْلَ أَنْ یَشْرَبُوا، فَأَقْبَلْتُ بِہَا أَسُوقُہَا فَلَقِیَنِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ الْقَوْمَ عِطَاشٌ وَإِنِّی أَعْجَلْتُہُمْ قَبْلَ أَنْ یَشْرَبُوا فَاذْہَبْ فِی أَثَرِہِمْ، فَقَالَ: ((یَا ابْنَ الْأَکْوَعِ! مَلَکْتَ فَأَسْجِحْ إِنَّ الْقَوْمَ یُقْرَوْنَ فِی قَوْمِہِمْ۔)) (مسند احمد: ۱۶۶۲۸)

یزید بن ابی عبید سے مروی ہے کہ سیدنا سلمہ بن اکوع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو بتلایا کہ میں غابہ کی طرف جانے کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہوا، جب میں غابہ کی گھاٹییا راستہ میں تھا تو مجھ سے سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لڑکے کی ملاقات ہوئی، میں نے کہا تیرا بھلا ہو، تجھے کیاہوا ہے؟ وہ بولا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اونٹنیوں کو لوٹ لیا گیا ہے، میں نے پوچھا: کس نے لوٹی ہیں؟ اس نے بتایا کہ غطفان اور فزارہ کے لوگوں نے، سیدنا سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: یہ سن کر میں نے بلند آواز سے تین بار یَا صَبَاحَاہ کی آواز دی،یہ آواز اس قدر اونچی اور تیز تھی کہ میں نے مدینہ کے دو حرّوں کے مابین لوگوں تک پہنچادی، پھر میں ان لوگوں کے پیچھے دوڑ پڑا، تاآنکہ میں نے ان کو جا لیا، وہ ان اونٹنیوں کو اپنے قبضے میں لے چکے تھے۔ میں ان پر تیر برسانے لگا اور میں یہ رجز پڑھتا جا تا تھا: أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَعِ (میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی ہلاکت کا دن ہے)۔ سیدنا سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں:قبل اس کے کہ وہ کہیں جا کر پانی پیتے میں نے اونٹنیوں کو ان سے چھڑوا لیا۔ میں اونٹنیوں کو لے کر واپس ہوا اوررسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ لوگ ابھی تک پیاسے ہیں اور میں ان کے پانی پینے سے پہلے پہلے ان تک پہنچ گیا، آپ ان کے پیچھے تشریف لے چلیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابن اکوع! تو نے ان پر غلبہ پالیا اب نرمی کر، ان کی قوم میں ان کی ضیافت کی جا رہی ہے۔

Haidth Number: 10809

۔ (۱۰۸۱۰)۔ حَدَّثَنَا إِیَاسُ بْنُ سَلَمَۃَ بْنِ الْأَکْوَعِ عَنْ أَبِیہِ قَالَ: قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ زَمَنَ الْحُدَیْبِیَۃِ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَرَجْنَا أَنَا وَرَبَاحٌ غُلَامُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِظَہْرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَخَرَجْتُ بِفَرَسٍ لِطَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ، کُنْتُ أُرِیدُ أَنْ أُبْدِیَہُ مَعَ الْإِبِلِ، فَلَمَّا کَانَ بِغَلَسٍ غَارَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عُیَیْنَۃَ عَلٰی إِبِلِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَتَلَ رَاعِیَہَا وَخَرَجَیَطْرُدُہَا ہُوَ وَأُنَاسٌ مَعَہُ فِی خَیْلٍ، فَقُلْتُ: یَا رَبَاحُ! اقْعُدْ عَلٰی ہٰذَا الْفَرَسِ فَأَلْحِقْہُ بِطَلْحَۃَ وَأَخْبِرْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ قَدْ أُغِیرَ عَلٰی سَرْحِہِ، قَالَ: وَقُمْتُ عَلٰی تَلٍّ فَجَعَلْتُ وَجْھِیْ مِنْ قِبَلِ الْمَدِیْنَۃِ، ثُمَّ نَادَیْتُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ: یَا صَبَاحَاہ! ثُمَّ اتَّبَعْتُ الْقَوْمَ مَعِیَ سَیْفِیْ وَنَبَلِیْ فَجَعَلْتُ اَرْمِیْھِمْ وَاَعْقرُ بِھِمْ وَذٰلک حِیْنَیَکْثُرُ الشَّجَرُ، فَاِذَا رَجَعَ اِلَیَّ فَارِسٌ جَلَسْتُ لَہُ فِیْ اَصْلِ الشَّجَرَۃِ ثُمَّ رَمَیْتُ، فَلَا یَقْبَلُ عَلَیَّ فَارِسٌ إِلَّا عَقَرْتُ بِہِ فَجَعَلْتُ اَرْمِیْھِمْ رَاحِلَتِہِ وَاَقُوْلُ: أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَّع، فَاَلْحَقُ بِرَجْلٍ مِنْھُمْ فَاَرْمِیْہِ وَھُوَ عَلٰی رَاحِلَتِہِ فَیَقْعُ سَھْمِیْ فِی الرَّجُلِ حَتَّی انْتَظَمْتُ کَتِفَہُ فَقُلْتُ: خُذْھَا وَأَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَّعِ فَاِذَا کُنْتُ فِی الشَّجَرِ اَحْرَقْتُھُمْ بِالنَّبَلِ فَاِذَا تَضَایَقَتِ الثَّنَایَا عَلَوْتُ الْجَبَلَ فَرَدَّیْتُھُمْ بِالْحِجَارَۃِ، فَمَا ذَاکَ شَاْنِیْ وَشَاْنُہُمْ اَتْبَعُہُمْ فَاَرْتَجِزُ حَتّٰی مَا خَلَقَ اللّٰہُ شَیْئاً مِنْ ظَہْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَّا خَلَفْتُہُ وَرَائَ ظَہْرِیْ فَاسْتَنْقَذْتُہُ مِنْ اَیْدِیْہِمْ، ثُمَّ لَمْ اَزَلْ اَرْمِیْہِمْ حَتّٰی اَلْقَوْا اَکْثَرَ مِنْ ثَلَاثِیْنَ رُمْحاً، وَاَکْثَرَ مِنْ ثَلَاثِیْنَ بُرْدَۃًیَسْتَخِفُّوْنَ مِنْہَا، وَلَا یُلْقَوْنَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا إِلَّا جَعَلْتُ عَلَیْہِ حِجَارَۃً وَجَمَعْتُ عَلٰی طَرِیْقِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی إِذَا امْتَدَّ الضُّحٰی اَتَاھُمْ عُیَیْنَۃُ بْنُ بَدْرٍ الْفَزَارِیُّ مَدَدًا لَھُمْ، وَھُمْ فِیْ ثَنِیَّۃٍ ضَیْقَۃٍ، ثُمَّ عَلَوْتُ الْجَبَلَ فَاَنَا فَوْقَہُمْ فَقَالَ عُیَیْنَۃُ: مَا ھٰذَا الَّذِیْ أرٰی قَالُوا: لَقِینَا مِنْ ہٰذَا الْبَرْحَ مَا فَارَقَنَا بِسَحَرٍ حَتّٰی الْآنَ وَأَخَذَ کُلَّ شَیْء ٍ فِی أَیْدِینَا وَجَعَلَہُ وَرَاء َ ظَہْرِہِ، قَالَ عُیَیْنَۃُ: لَوْلَا أَنَّ ہٰذَا یَرَی أَنَّ وَرَائَ ہُ طَلَبًا لَقَدْ تَرَکَکُمْ لِیَقُمْ إِلَیْہِ نَفَرٌ مِنْکُمْ، فَقَامَ إِلَیْہِ مِنْہُمْ أَرْبَعَۃٌ فَصَعِدُوْا فِی الْجَبَلِ، فَلَمَّا أَسْمَعْتُہُمْ الصَّوْتَ قُلْتُ: أَتَعْرِفُونِی؟ قَالُوا: وَمَنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ، وَالَّذِی کَرَّمَ وَجْہَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ! لَا یَطْلُبُنِی مِنْکُمْ رَجُلٌ فَیُدْرِکُنِی وَلَا أَطْلُبُہُ فَیَفُوتُنِی، قَالَ رَجُلٌ مِنْہُمْ: إِنْ أَظُنُّ قَالَ فَمَا بَرِحْتُ مَقْعَدِی ذٰلِکَ حَتّٰی نَظَرْتُ إِلٰی فَوَارِسِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتَخَلَّلُونَ الشَّجَرَ، وَإِذَا أَوَّلُہُمْ الْأَخْرَمُ الْأَسَدِیُّ، وَعَلٰی أَثَرِہِ أَبُو قَتَادَۃَ فَارِسُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعَلٰی أَثَرِ أَبِی قَتَادَۃَ الْمِقْدَادُ الْکِنْدِیُّ فَوَلَّی الْمُشْرِکُونَ مُدْبِرِینَ، وَأَنْزِلُ مِنَ الْجَبَلِ فَأَعْرِضُ لِلْأَخْرَمِ فَآخُذُ بِعِنَانِ فَرَسِہِ، فَقُلْتُ: یَا أَخْرَمُ! ائْذَنِ الْقَوْمَ یَعْنِی احْذَرْہُمْ، فَإِنِّی لَا آمَنُ أَنْ یَقْطَعُوکَ فَاتَّئِدْ حَتّٰییَلْحَقَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابُہُ، قَالَ: یَا سَلَمَۃُ! إِنْ کُنْتَ تُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ، وَتَعْلَمُ أَنَّ الْجَنَّۃَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ، فَلَا تَحُلْ بَیْنِی وَبَیْنَ الشَّہَادَۃِ، قَالَ: فَخَلَّیْتُ عِنَانَ فَرَسِہِ فَیَلْحَقُ بِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عُیَیْنَۃَ، وَیَعْطِفُ عَلَیْہِ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ، فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَیْنِ فَعَقَرَ الْأَخْرَمُ بِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ، وَطَعَنَہُ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ فَقَتَلَہُ، فَتَحَوَّلَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ عَنْ فَرَسِ الْأَخْرَمِ، فَیَلْحَقُ أَبُو قَتَادَۃَ بِعَبْدِ الرَّحْمٰنِ، فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَیْنِ فَعَقَرَ بِأَبِی قَتَادَۃَ وَقَتَلَہُ أَبُو قَتَادَۃَ، وَتَحَوَّلَ أَبُو قَتَادَۃَ عَلٰی فَرَسِ الْأَخْرَمِ، ثُمَّ إِنِّی خَرَجْتُ أَعْدُو فِی أَثَرِ الْقَوْمِ حَتّٰی مَا أَرٰی مِنْ غُبَارِ صَحَابَۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَیْئًا، وَیُعْرِضُونَ قَبْلَ غَیْبُوبَۃِ الشَّمْسِ إِلٰی شِعْبٍ فِیہِ مَائٌ یُقَالُ لَہُ: ذُو قَرَدٍ،فَأَرَادُوا أَنْ یَشْرَبُوا مِنْہُ، فَأَبْصَرُونِی أَعْدُو وَرَائَ ہُمْ، فَعَطَفُوا عَنْہُ وَاشْتَدُّوا فِی الثَّنِیَّۃِ ثَنِیَّۃِ ذِی بِئْرٍ وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَأَلْحَقُ رَجُلًا فَأَرْمِیہِ: فَقُلْتُ: خُذْہَا، وَأَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ، وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَّعِ، قَالَ: فَقَالَ: یَا ثُکْلَ أُمِّ أَکْوَعَ بَکْرَۃً، قُلْتُ: نَعَمْ، أَیْ عَدُوَّ نَفْسِہِ! وَکَانَ الَّذِی رَمَیْتُہُ بَکْرَۃً فَأَتْبَعْتُہُ سَہْمًا آخَرَ، فَعَلِقَ بِہِ سَہْمَانِ، وَیَخْلُفُونَ فَرَسَیْنِ، فَجِئْتُ بِہِمَا أَسُوقُہُمَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ عَلَی الْمَائِ الَّذِی جَلَّیْتُہُمْ عَنْہُ ذُوْ قَرَدٍ، فَإِذَا بِنَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی خَمْسِ مِائَۃٍ، وَإِذَا بِلَالٌ قَدْ نَحَرَ جَزُورًا مِمَّا خَلَّفْتُ فَہُوَ یَشْوِی لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ کَبِدِہَا وَسَنَامِہَا، فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! خَلِّنِی فَأَنْتَخِبَ مِنْ أَصْحَابِکَ مِائَۃً فَآخُذَ عَلَی الْکُفَّارِ عَشْوَۃً فَلَا یَبْقٰی مِنْہُمْ مُخْبِرٌ إِلَّا قَتَلْتُہُ، قَالَ: ((أَکُنْتَ فَاعِلًا ذٰلِکَ یَا سَلَمَۃُ۔)) قَالَ: نَعَمْ، وَالَّذِی أَکْرَمَکَ! فَضَحِکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی رَأَیْتُ نَوَاجِذَہُ فِی ضَوئِ النَّارِ، ثُمَّ قَالَ: ((إِنَّہُمْ یُقْرَوْنَ الْآنَ بِأَرْضِ غَطَفَانَ۔)) فَجَائَ رَجُلٌ مِنْ غَطَفَانَ، فَقَالَ: مَرُّوا عَلَی فُلَانٍ الْغَطَفَانِیِّ فَنَحَرَ لَہُمْ جَزُورًا، قَالَ: فَلَمَّا أَخَذُوا یَکْشِطُونَ جِلْدَہَا رَأَوْا غَبَرَۃً فَتَرَکُوہَا وَخَرَجُوا ہَرَبًا، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((خَیْرُ فُرْسَانِنَا الْیَوْمَ أَبُو قَتَادَۃَ، وَخَیْرُ رَجَّالَتِنَا سَلَمَۃُ۔)) فَأَعْطَانِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سَہْمَ الرَّاجِلِ وَالْفَارِسِ جَمِیعًا، ثُمَّ أَرْدَفَنِی وَرَائَ ہُ عَلَی الْعَضْبَائِ رَاجِعِینَ إِلَی الْمَدِینَۃِ، فَلَمَّا کَانَ بَیْنَنَا وَبَیْنَہَا قَرِیبًا مِنْ ضَحْوَۃٍ وَفِی الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ کَانَ لَا یُسْبَقُ، جَعَلَ یُنَادِی: ہَلْ مِنْ مُسَابِقٍ أَلَا رَجُلٌ یُسَابِقُ إِلَی الْمَدِینَۃِ؟ فَأَعَادَ ذٰلِکَ مِرَارًا وَأَنَا وَرَائَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُرْدِفِی قُلْتُ لَہُ: أَمَا تُکْرِمُ کَرِیمًا، وَلَا تَہَابُ شَرِیفًا؟)) قَالَ: لَا إِلَّا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، خَلِّنِی فَلَأُسَابِقُ الرَّجُلَ، قَالَ: ((إِنْ شِئْتَ۔)) قُلْتُ أَذْہَبُ إِلَیْکَ فَطَفَرَ عَنْ رَاحِلَتِہِ وَثَنَیْتُ رِجْلَیَّ فَطَفَرْتُ عَنِ النَّاقَۃِ، ثُمَّ إِنِّی رَبَطْتُ عَلَیْہَا شَرَفًا أَوْ شَرَفَیْنِیَعْنِی اسْتَبْقَیْتُ نَفْسِی،ثُمَّ إِنِّی عَدَوْتُ حَتّٰی أَلْحَقَہُ فَأَصُکَّ بَیْنَ کَتِفَیْہِ بِیَدَیَّ، قُلْتُ: سَبَقْتُکَ وَاللّٰہِ! أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَہَا، قَالَ: فَضَحِکَ، وَقَالَ: إِنْ أَظُنُّ حَتّٰی قَدِمْنَا الْمَدِینَۃَ۔ (مسند احمد: ۱۶۶۵۴)

ایاس بن سلمہ بن اکوع اپنے والد سلمہ بن اکوع سے بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ حدیبیہ کے زمانہ میں ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ مدینہ منورہ آئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا غلام رباح ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اونٹ کو لے کر روانہ ہوئے۔ میں طلحہ بن عبیداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھوڑے پر سوار اسے اونٹ کے ساتھ دوڑانا چاہتا تھا۔ صبح منہ اندھیرے عبدالرحمن بن عیینہ فزاری نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اونٹوں پر دھاوا بول دیا۔ ان کے چرواہے کو قتل کر دیا۔ وہ اور اس کے ساتھی جو گھوڑوں پر سوار تھے۔ اونٹوں کو بھگالے گئے۔ میں نے کہا اے رباح! تم اس گھوڑے پر سوار ہو کر جاؤ اور اسے طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تک پہنچا دو اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جا کر اطلاع دو کہ ان کے جانوروں کو لوٹ لیا گیا ہے۔ اور میں نے خود ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر مدینہ کی طرف رخ کر کے تین مرتبہ یا صباحاہ کی ندا دی۔ اور تیر تلوار لے کر میں نے ان لوگوں کا پیچھا شروع کر دیا۔ تو میں تیر چلا چلا کر جہاں درخت زیادہ ہوتے ان کو زخمی کرتا اور جب کوئی گھڑ سوار میری طرف رخ کرتا تو میں کسی درخت کے پیچھے بیٹھ جاتا اور پھر تیر چلانا شروع کر دیتا کوئی بھی گھڑ سوار میری طرف رخ کرتا تو میں اس کے گھوڑے کو زخمی کر دیتا، میں ان پر تیر برساتا اور یہ رجز پڑھتا تھا۔ أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَّع (اور میں اکوع کا بیٹا ہوں آج کمینوں (کی ہلاکت) کا دن ہے) میں ان میں سے کسی سے ملتا اس پر تیر چلاتا میرا تیر اسے جا لگتا اور میں تیر کو اس کے کندھے میں پیوست کر دیتا اور میں کہتا۔ أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَّع (اور میں اکوع کا بیٹا ہوں آج کمینوں (کی ہلاکت) کا دن ہے)میں جب درختوں کے کسی جھنڈ میں ہوتا تو ان پر تیر وں کی بوچھاڑ کر دیتا۔ اور جب تنگ راستے آتے تو میں پہاڑ کے اوپر چڑھ جاتا اور ان پر پتھر لڑھکانے لگتا۔ ان کی اور میرییہی حالت رہی۔ میں ان کے پیچھے لگا رہا۔ اور رجز پڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے جتنے اونٹ پیدا کئے تھے میں ان کو دشمنوں سے چھڑوا کر ان کو پیچھے چھوڑتا گیا۔ اور میں ان پر تیر برساتا رہا یہاں تک کہ وہ اپنا وزن ہلکا کرنے کے لیے تیس سے زیادہ نیزے اور تیس سے زائد چادریں بھی پھینک گئے۔ وہ جو چیز بھی اس طرح پھینکتے جاتے میں ان پر بطور علامت پتھر رکھ جاتا اور ان اشیاء کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے راستے پر جمع کر تا گیا۔ جب دن اچھی طرح چڑھ آیا تو عیینہ بن بدر فزاری ان کی مدد کو آگیا۔ اس وقت وہ ایک تنگ راستے پر جا رہے تھے۔ میں پہاڑ کے اوپر چڑھ گیا۔ تو عیینہ نے ان سے کہا میں تمہارا کیسا براحال دیکھ رہا ہوں۔ وہ بولے یہ ساری مصیبت اس کی طرف سے آئی ہے۔ یہ صبح سے اب تک ہمارا پیچھا کر رہا ہے۔ اس نے ہمارا سارا سامان ہم سے لے کر اسے پیچھے چھوڑ آیا ہے۔ عیینہ نے کہا اسے یقینا معلوم ہے کہ پیچھے سے اس کے ساتھی آرہے ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو یہ تمہیں چھوڑ جاتا۔ تم میں سے کچھ لوگ اس کی طرف جائیں تو سہی۔ تو ان میں سے چار آدمی اس کی طرف جانے کے لیے اُٹھے اور پہاڑ پر چڑھ گئے۔ میں نے بلند آواز سے ان کو کہا کیا تم لوگ مجھے پہنچانتے ہو؟ وہ بولے بتاؤ تم کون ہو؟ میں نے کہا کہ میں اکوع کا بیٹا ہوں۔ اس ذات کی قسم جس نے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بے انتہا عزت سے نوازا ہے تم میں سے کوئی بھی مجھے نہیں پکڑ سکتا۔ اور میں تم میں سے جسے پکڑنا چاہوں وہ میرے ہاتھوں سے نکل نہیں سکتا۔ ان میں سے ایک نے کہا بات تو ایسی ہی ہے سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ میں بڑے آرام سے اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ میں نے درختوں کے بیچ میں سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھڑ سواروں کو آتے دیکھ لیا۔ اخرم اسدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سب سے آگے تھے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھڑ سوار ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس سے پیچھے تھے۔ اور ان سے پیچھے مقداد کندی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے۔ یہ منظر دیکھ کر مشرکین تو دُم دبا کر بھاگ اُٹھے اور میں پہاڑ سے نیچے اتر کر اخرم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سامنے آیا اور ان کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر میں نے کہا اخرم! ان لوگوں سے ذرا محتاط رہنا مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ آپ کو اچک نہ لیں۔ تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ کے اصحاب کے آنے تک ذرا رک جاؤ۔ تو اخرم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا اے سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ! اگر تم اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور یقین رکھتے ہو کہ جنت اور دوزخ حق ہیں تو تم میرے اور شہادت کے درمیان رکاوٹ نہ بنو۔ سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں ان کی بات سن کر میں نے ان کے گھوڑے کی باگ کو چھوڑ دیا۔ ان کا ٹکراؤ عبدالرحمن بن عیینہ سے ہو گیا۔ وہ ان پر الٹ الٹ کر حملے کرنے لگا۔ انہوں نے ایک دوسرے پر نیزے کے دو دو وار کئے اخرم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عبدالرحمن کے گھوڑے کی ٹانگوں کو زخمی کر دیا۔ اور عبدالرحمن نے ان کو نیزے کا وار کر کے شہید کر دیا۔ اس کے بعد عبدالرحمن اخرم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ پھر ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی اس سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ انہوں نے بھی ایک دوسرے پر نیزے چلائے۔ ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا گھوڑا تو زخمی ہو گیا تاہم انہوں نے عبدالرحمن کو قتل کر دیا۔ اور ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اخرم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ والے گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ میں پھر دشمن کے پیچھے دوڑنے لگا۔ اور اس قدر آگے نکل گیا کہ مجھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ کا غبار بھی دکھائی نہ دے رہا تھا اور دشمن غروب آفتاب سے ذرا پہلے قرد نامی ایک گھاٹی پر پہنچے جہاں کچھ پانی موجود تھا۔ انہوں نے وہاں سے پانی پینے کا ارادہ کیا۔ اسی دوران انہوں نے مجھے دیکھا کہ میں ان کے پیچھے پیچھے دوڑتا آرہا ہوں وہ وہاں سے روانہ ہو گئے اور تیزتیز دوڑتے پہاڑی تنگ راستے پر چل دئیے۔ اس پہاڑی راستے کا نام ثینیہ ذی بئر ہے۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔ میر ا ایک مشرک سے ٹکراؤ ہوا میں نے اس پر تیر چلاتے ہوئے کہا: أَنَا ابْنُ الْأَکْوَعِ وَالْیَوْمُیَوْمُ الرُّضَّع (اور میں اکوع کا بیٹا ہوں آج کمینوں (کی ہلاکت) کا دن ہے)وہ بولا اکوع کی ماں اسے گم پائے۔ ( یعنی وہ مر جائے) صبح سے تو ہی ہمارا پیچھا کر رہا ہے؟ میں نے کہا اللہ کے دشمن ! ہاں میں ہی تم پر صبح سے تیر بر سا رہا ہوں۔ اور ساتھ ہی میں نے اس پر دوسرا تیر چھوڑا۔ دونوں تیر اس پر پیوست ہو گئے اور وہ لوگ مزید دو گھوڑے پیچھے چھوڑ گئے۔ میں ان دونوں گھوڑوں کو لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف چل دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پانی کے اس ذی قرد چشمے پر تھے جہاں سے میں نے دشمنوں کو دوڑایا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اللہ کے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے پانچ سو جان نثاروں سمیت وہاں تشریف فرما تھے۔ اور میں جو اونٹ پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان میں سے ایک اونٹ کو ذبح کیا ہو اتھا اور وہ اس کا جگر اور کوہان رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے بھون رہے تھے۔ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے اجازت ہو تو میں آپ کے ان ساتھیوں سے ایک سوآدمیوں کو لیجاؤں اور جا کر اندھیرے اندھیرے میں کفار پر حملہ کر دوں اور ان سب کو قتل کر دوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کیا تو یہ کام کرنے کے لیے تیار ہے؟ انہوں نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو عزت واکرام سے نوازا ہے۔ میں اس کام کے لیے تیار ہوں۔ یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس قدر مسکرائے کہ آگ کی روشنی میں میں نے آپ کی داڑھ مبارک نمایاں دیکھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس وقت غطفان کے علاقے میں ان کی ضیافت ہو رہی ہے۔ بعد میں بنو غطفان سے ایک آدمی آیا اس نے بتلایا کہ وہ لوگ فلاں غطفانی کے پاس سے گزرے اس نے ان کے لیے ایک اونٹ ذبح کیا۔ جب وہ اس کا چمڑا اتار رہے تھے تو انہوں نے دور غبار اڑتے دیکھا تو وہ اونٹ کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا آج ہمارے گھڑ سواروں میں سب سے افضل ابوقتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں اور پیدل لوگوں میں سب سے افضل سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے پیدل اور گھڑ سوار دونوں قسم کے لوگوں سے حصہ دیا۔ پھر مدینہ منورہ کی طرف واپس ہوئے تو آپ نے اپنی عضباء اونٹنی پر مجھے بھی اپنے پیچھے سوار کر لیا جب ہمارے مدینہ منورہ پہنچنے میں چاشت کے بقدر وقت باقی رہ گیا تو لوگوں میں ایک انصاری شخص تھا جو بہت تیز رفتار تھا۔ کوئی شخص اس کامقابلہ کر کے اس سے آگے نہ نکل سکتا تھا۔ وہ آوازیں دینے لگا کوئی میرے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کرنے والا ہے کوئی ہے جو مدینہ منورہ تک میرے ساتھ دوڑ لگائے۔ اس نے یہ بات کئیمرتبہ دہرائی۔ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سواری پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے سوار تھا۔ میں نے اس سے کہا کیا تم کسی معزز کی عزت نہیں کر سکتے اور نہ کسی صاحبِ شرف سے ڈرتے ہو؟ وہ بولا میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سوا سب کو اس مقابلے کی دعوت دے رہا ہوں تو میں نے عرض کیا اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ مجھے اجازت دیجئے میں اس کے ساتھ دوڑ لگاؤں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تمہاری مرضی، میں نے عرض کیا میں اس کے مقابلے میں جاتا ہوں۔ وہ آدمی اپنی سواری سے کود کر نیچے آگیا۔ اور میں نے بھی اپنی ٹانگوں کو حرکت دی اور اونٹنی سے چھلانگ لگا دی۔ پھر میں ایک دو منزل تک جان بوجھ کر آہستہ دوڑاتاکہ اپنا سانس بچا لوں اور سانس نہ چڑھ جائے۔ اس کے بعد میں دوڑ کر اس تک پہنچا اور پیچھے سے اس کے کندھوں کے درمیان ہاتھ مار کر کہا اللہ کی قسم میں تجھ سے آگے نکل گیا۔ میں نے یہی لفظ کہے یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کہے۔ یہ سن کر وہ ہنس پڑا اور بولا میرا بھییہی خیال ہے یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ پہنچ گئے۔

Haidth Number: 10810
سیدنا سعد بن ابی ذباب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا اور اسلام قبول کیا، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! قبول اسلام کے وقت میری قوم کے لوگوں کے پاس جو اموال ہیں، آپ وہ اموال انہی کی ملکیت میں رہنے دیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایسے ہی کیا اور مجھے میری قوم پر امیر مقرر کر دیا، بعد میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اور ان کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی مجھے میری قوم پر امیر مقرر کیے رکھا۔

Haidth Number: 11715
ابو جمیع سالم سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:حسن نے سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے شدت حیا کا تذکرہ کیا اور کہا:وہ گھر میں ہوتے اور دروازہ بند ہوتا، تب بھی اپنے اوپر پانی ڈالنے کے لیے کپڑا نہیں اتارتے تھے اور حیاء کی وجہ سے وہ اپنی پشت کو سیدھا نہیں کر پاتے تھے۔

Haidth Number: 12251
عبداللہ بن ابی اوفی ٰ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں ایک بچی دف بجا رہی تھی، اتنے میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، پس وہ اندر آ گئے، ان کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آنے کی اجازت طلب کی، وہ بھی داخل ہو گئے، ان کے بعد سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آنے کی اجازت طلب کی تو وہ لڑکی دف بجانے سے رک گئی، یہ دیکھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عثمان باحیاآدمی ہیں۔

Haidth Number: 12252

۔ (۱۲۲۵۳)۔ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا لَیْثٌ، حَدَّثَنِی عُقَیْلٌ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدِ بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ سَعِیدَ بْنَ الْعَاصِ أَخْبَرَہُ أَنَّ عَائِشَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَعُثْمَانَ حَدَّثَاہُ أَنَّ أَبَا بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اسْتَأْذَنَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَہُوَ مُضْطَجِعٌ عَلٰی فِرَاشِہِ، لَابِسٌ مِرْطَ عَائِشَۃَ، فَأَذِنَ لِأَبِی بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ وَہُوَ کَذٰلِکَ، فَقَضٰی إِلَیْہِ حَاجَتَہُ ثُمَّ انْصَرَفَ، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَأَذِنَ لَہُ وَہُوَ عَلٰی تِلْکَ الْحَالِ فَقَضٰی إِلَیْہِ حَاجَتَہُ ثُمَّ انْصَرَفَ، قَالَ عُثْمَانُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: ثُمَّ اسْتَأْذَنْتُ عَلَیْہِ فَجَلَسَ، وَقَالَ لِعَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : ((اجْمَعِی عَلَیْکِ ثِیَابَکِ۔)) فَقَضٰی إِلَیَّ حَاجَتِی ثُمَّ انْصَرَفْتُ قَالَتْ عَائِشَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا لِی لَمْ أَرَکَ فَزِعْتَ لِأَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ کَمَا فَزِعْتَ لِعُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ؟ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ عُثْمَانَ رَجُلٌ حَیِیٌّ، وَإِنِّی خَشِیتُ إِنْ أَذِنْتُ لَہُ عَلٰی تِلْکَ الْحَالِ، أَنْ لَا یَبْلُغَ إِلَیَّ فِی حَاجَتِہِ۔)) و قَالَ اللَّیْثُ: وَقَالَ جَمَاعَۃُ النَّاسِ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا: ((أَلَا أَسْتَحْیِی مِمَّنْ یَسْتَحْیِی مِنْہُ الْمَلَائِکَۃُ))۔ (مسند احمد: ۲۵۷۳۱)

سیدنا سعید بن ابی العاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اور سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بیان کیا کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس وقت سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی چادر اوڑھے اپنے بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور اسی حالت میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اندر آنے کی اجازت دے دی اور ان کی ضرورت پوری کردی، ان کے چلے جانے کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، انہیں اجازت دے دی گئی، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی حالت میں رہے، ان کی ضرورت پوری کردی اور وہ چلے گئے، پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگئے اور انہوں نے حاضر ہونے کی اجازت طلب کی، اس بار آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سید ھے ہوکر بیٹھ گئے اور سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے فرمایا: تم بھی اپنے کپڑے اچھی طرح اپنے اوپر سمیٹ لو، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری ضرورت پوری کی اور میں چلا گیا، یہ فرق دیکھ کر سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! کیا وجہ ہے کہ آپ نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی آمد پر وہ اہتمام نہیں کیا، جو عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی آمد پر کیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ انتہائی شرم و حیا والے آدمی ہیں، اگر میں ان کو اسی حالت میں آنے کی اجازت دے دیتا تو مجھے اندیشہ تھا کہ وہ اپنی آمد کا مقصد بیان نہیں کر سکیں گے۔راوی حدیث لیث کہتے ہیں: اہل علم کی ایک جماعت نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے فرمایا: کیا میں ایسے آدمی سے حیا نہ کروں کہ جس سے اللہ کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔

Haidth Number: 12253
سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف فرما تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ران سے کپڑا ہٹا ہوا تھا، اتنے میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، انہیں اجازت دے دی گئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی طرح بیٹھے رہے، ان کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آنے کی اجازت طلب کی، انہیں بھی آنے کی اجازت دے دی گئی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی طرح بیٹھے رہے، ان کے بعد جب عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے اپنے اوپر کپڑے کر لیے۔ جب سب لوگ چلے گے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی اور آپ نے ان حضرات کو آنے کی اجازت دے دی، جبکہ آپ اسی حالت میں ہی تشریف فرما رہے، لیکن جب سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے حاضر ہونے کی اجازت طلب کی تو آپ نے اپنے اوپر کپڑے کر لیے، اس فرق کی کیا وجہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ! کیا میںاس آدمی سے حیا نہ کروں، کہ اللہ کی قسم! جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔

Haidth Number: 12254

۔ (۱۲۲۵۵)۔ عَنْ حَفْصَۃَ بِنْتِ عُمَرَ قَالَتْ: دَخَلَ عَلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ، فَوَضَعَ ثَوْبَہُ بَیْنَ فَخِذَیْہِ، فَجَائَ أَبُو بَکْرٍ یَسْتَأْذِنُ فَأَذِنَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی ہَیْئَتِہِ، ثُمَّ جَائَ عُمَرُ یَسْتَأْذِنُ فَأَذِنَ لَہُ وَرَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی ہَیْئَتِہِ، وَجَائَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِہِ فَأَذِنَ لَہُمْ، وَجَائَ عَلِیٌّیَسْتَأْذِنُ فَأَذِنَ لَہُ وَرَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی ہَیْئَتِہِ، ثُمَّ جَائَ عُثْمَانُ فَاسْتَأْذَنَ فَتَجَلَّلَ ثَوْبَہُ ثُمَّ أَذِنَ لَہُ، فَتَحَدَّثُوْا سَاعَۃً ثُمَّ خَرَجُوْا، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! دَخَلَ عَلَیْکَ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعَلِیٌّ وَنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِکَ وَأَنْتَ عَلٰی ہَیْئَتِکَ لَمْ تَتَحَرَّکْ، فَلَمَّا دَخَلَ عُثْمَانُ تَجَلَّلْتَ ثَوْبَکَ، فَقَالَ: ((أَلَا أَسْتَحْیِی مِمَّنْ تَسْتَحْیِی مِنْہُ الْمَلَائِکَۃُ۔)) (مسند احمد: ۲۷۰۰۰)

سیدہ حفصہ بنت عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک روز میرے پاس تشریف لائے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا کپڑا پنی رانوں کے درمیان کرلیا،سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے اور انہوں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں اجازت دے دی اور اپنی اسی حالت میںبیٹھے رہے، ان کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں بھی اندر آنے کی اجازت دے دی اور ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی اسی حالت میں بیٹھے رہے، پھر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی، انہیں بھی اجازت دی گئی اور اللہ کے رسول اپنی اسی حالت میں بیٹھے رہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کچھ اور صحابہ آئے اور انھوں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو بھی اجازت دے دی، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی حالت پر تشریف فرما رہے، ان کے بعد جب سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لائے اور انہوںنے اندر آنے کی اجازت طلب کی، تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے کپڑوں کو سنبھال کر ترتیب دی اور اس کے بعد سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اندر آنے کی اجازت دی، یہ لوگ کچھ دیر باتیں کرتے رہے، اس کے بعد جب یہ لوگ اٹھ کر چلے گئے تو میں عائشہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ کی خدمت میں سیدنا ابو بکر، سیدنا عمر ، سیدنا علی اور دوسرے صحابہ تشریف لائے ، لیکن آپ نے کوئی حرکت نہ کی بلکہ اپنی اسی حالت میں بیٹھے رہے، لیکن جب جب سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے تو آپ نے کپڑوں کو سمیٹ کر ترتیب دے دی، اس فرق کی کیا وجہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں ایسے شخص کا حیا نہ کروں کہ جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔

Haidth Number: 12255

۔ (۱۲۷۳۲)۔ عَنْ حُمْرَۃَ بْنِ عَبْدِ کُلَالٍ، قَالَ: سَارَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ إِلَی الشَّامِ بَعْدَ مَسِیرِہِ الْأَوَّلِ، کَانَ إِلَیْہَا حَتّٰی إِذَا شَارَفَہَا، بَلَغَہُ وَمَنْ مَعَہُ أَنَّ الطَّاعُونَ فَاشٍ فِیہَا، فَقَالَ لَہُ أَصْحَابُہُ: ارْجِعْ، وَلَا تَقَحَّمْ عَلَیْہِ فَلَوْ نَزَلْتَہَا وَہُوَ بِہَا لَمْ نَرَ لَکَ الشُّخُوصَ عَنْہَا، فَانْصَرَفَ رَاجِعًا إِلَی الْمَدِینَۃِ، فَعَرَّسَ مِنْ لَیْلَتِہِ تِلْکَ، وَأَنَا أَقْرَبُ الْقَوْمِ مِنْہُ، فَلَمَّا انْبَعَثَ انْبَعَثْتُ مَعَہُ فِی أَثَرِہِ، فَسَمِعْتُہُ یَقُولُ: رَدُّونِی عَنِ الشَّامِ بَعْدَ أَنْ شَارَفْتُ عَلَیْہِ لِأَنَّ الطَّاعُونَ فِیہِ أَلَا! وَمَا مُنْصَرَفِی عَنْہُ مُؤَخِّرٌ فِی أَجَلِی، وَمَا کَانَ قُدُومِیہِ مُعَجِّلِی عَنْ أَجَلِی، أَلَا! وَلَوْ قَدْ قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ فَفَرَغْتُ مِنْ حَاجَاتٍ لَا بُدَّ لِی مِنْہَا، لَقَدْ سِرْتُ حَتّٰی أَدْخُلَ الشَّامَ، ثُمَّ أَنْزِلَ حِمْصَ، فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((لَیَبْعَثَنَّ اللّٰہُ مِنْہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ سَبْعِینَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَیْہِمْ وَلَا عَذَابَ عَلَیْہِمْ، مَبْعَثُہُمْ فِیمَا بَیْنَ الزَّیْتُونِ وَحَائِطِہَا فِی الْبَرْثِ الْأَحْمَرِ مِنْہَا۔)) (مسند احمد: ۱۲۰)

حمر ہ بن عبد کلال سے مروی ہے کہ امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے پہلے سفر کے بعد شام کی طرف روانہ ہوئے، جب شام کے قریب پہنچے تو آپ کو اطلاع ملی کہ وہاں تو طاعون کی وباء پھیلی ہوئی ہے، آپ کے ساتھیوں نے کہا کہ آپ وہاں نہ جائیں اور یہیں سے واپس چلیں، کیونکہ اگر آپ ادھر جائیں گے تو ہمیں اندیشہ ہے کہ آپ اسی میں مبتلا نہ ہوجائیں، پس آپ مدینہ منورہ کی طرف واپس چل پڑے، واپسی کی پہلی رات کے کسی حصہ میں آپ ذرا سستانے کے لیے کسی جگہ رکے، سب لوگوں کی نسبت میں آپ کے سب سے زیادہ قریب تھا، آپ بیدار ہوئے تو میں بھی اٹھ بیٹھا، میں نے آپ کو سنا آپ کہہ رہے تھے، ـمیں شام تک جا پہنچا تھا ان لوگوں نے مجھے واپس کر دیا، محض اس لیے کہ وہاں طاعون تھا، حالانکہ میری وہاں سے واپسی میری موت کو مؤ خر نہیں کرسکتی اور میرا وہاں جانا میری موت کو جلدی نہ لاتا، خبردار! اب مدینہ جا کر اپنے ضروری کام تکمیل کر کے میں دوبارہ شام کی طرف جاؤں گا اور پھر حمص میں قیام کروں گا، میںرسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے سن چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن وہاں سے ستر ہزار ایسے لوگوں کو اٹھائے گا، جن پر کوئی حساب و عذاب نہ ہوگا، انہیں وہاں کے زیتون اور اس کے باغات کے درمیان میں برثِ ا حمر سے اٹھا لیا جائے گا۔

Haidth Number: 12732
نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خادمہ سیدہ میمونہ بنت سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے ، انھوںنے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ ہمیں بیت المقدس کے بارے میں کچھ ارشاد فرمائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ لوگوں کے اٹھائے جانے اور جمع کیے جانے کی جگہ ہے، تم وہاں جا کر نماز پڑھا کرو، وہاں کی ایک نماز باقی مقامات کی ایک ہزار نمازوں سے افضل ہے۔ انہوں نے کہا: اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کوئی وہاں نہ جا سکے یا سفر کی مشقت برداشت نہ کر سکے تو کیا کرے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ وہاں جلانے کے لیے زیتون کا تیل بھجوا دے، جس نے وہاں تیل بھجوا دیا، اس نے گویا وہاں نماز ادا کر لی۔

Haidth Number: 12733
سیدناعبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سلیمان بن داؤد علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیںکیں، اللہ تعالیٰ نے ان کی دو دعائیں قبول کر لیں، ہمیں امیدہے کہ اللہ ان کی تیسری دعا بھی قبول کر ے گا، انہوںنے اللہ سے دعا کی کہ ان کا فیصلہ اللہ کے فیصلہ کے مطابق ہو، اللہ نے ان کی یہ دعا قبول کر لی، انہوںنے دوسری دعا یہ کی کہ اللہ ان کو ایسی حکومت دے کر ایسی حکومت ان کے بعد کسی اور کونہ ملے، اللہ نے ان کی یہ دعا بھی قبول فرمائی، انہوں نے تیسری دعا یہ کی کہ جو آدمی اپنے گھر سے محض نماز ادا کرنے کے لیے مسجد اقصیٰ کو جائے، وہ گناہوں سے یوں پاک صاف ہوجائے، جیسا وہ اپنی ولادت کے روز تھا، ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا بھی قبول کرلی ہوگی۔

Haidth Number: 12734