Blog
Books
Search Hadith

سمندروں اور دریاؤں کا بیان

742 Hadiths Found
Haidth Number: 10226
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سیحان، جیحان، فرات اور نیل ساری جنت کی نہروں میں سے ہیں۔

Haidth Number: 10227
۔ صباح بن اشرس سے مروی ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مد و جزر کے بارے میں سوال کیا گیا، انھوں نے کہا: ایک فرشتے کو سمندر کے درمیانے اور بڑے حصے پر مقرر کیا گیا ہے ، جب وہ اپنی ٹانگ اس میں رکھتا ہے تو پانی زیادہ ہو جاتا ہے اور جب وہ اس کو اٹھا لیتا ہے تو پانی کم ہو جاتا ہے۔

Haidth Number: 10228
۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر رات کو سمندر تین بار زمین پر جھانکتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے زمین والوں پر بہہ پڑنے کی اجازت طلب کرتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اس کو روک لیتا ہے۔

Haidth Number: 10229
۔ سیدنایعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سمندر جہنم ہی ہے۔ لوگوں نے سیدنایعلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ظالموں کے لیے ہم نے وہ آگ تیار کر رکھی ہے، جس کی قناتیں انہیں گھیر لیں گی۔ (سورۂ کہف: ۲۹) انھوں نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میںیعلی کی جان ہے! میں اس میں کبھی بھی داخل نہیں ہوں گا، یہاں تک کہ مجھے اللہ تعالیٰ پر پیش کیا جائے اور اس کا ایک قطرہ مجھ تک نہیں پہنچ سکتا، یہاں تک کہ میں اللہ تعالیٰ سے جا ملوں۔

Haidth Number: 10230
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا اور کہا: بیشک ہم سمندری سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا سا پانی اٹھاتے ہیں، اگر ہم اس سے وضو کریں تو پیاس لگتی ہے، تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سمندر کا پانی پاک کرنے والا ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔

Haidth Number: 10231
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سفرِ حج میں وادیٔ عسفان کے پاس سے گزرے تو فرمایا: اے ابو بکر! یہ وادی کون سی ہے؟ انھوں نے کہا: وادیٔ عسفان ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہود علیہ السلام اور صالح علیہ السلام اس وادی کے پاس سے گزرے، وہ سرخ اونٹوں پر سوار تھے، ان کی لگامیں کھجور کے پتوں کی تھیں، ان کے ازار اوڑھنے والی چادر کے تھے، ان کی چادریں دھاری دار تھیں اور وہ اس پرانے گھر کا حج کرنے کے لیے تلبیہ پکارتے ہوئے جا رہے تھے۔

Haidth Number: 10327

۔ (۱۰۳۲۸)۔ عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ یَزِیْدَ الْبَکْرِیِّ قَالَ: خَرَجْتُ اَشْکُوْ الْعَلَائَ بْنَ الْحَضْرَمِیِّ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَمَرَرْتُ بِالرَّبَذَۃِ فَاِذَا عَجُوْزٌ مِنْ بَنِیْ تَمِیْمٍ مُنْقَطِعٌ بِھَا فَقَالَتْ لِیْ: یَا عَبْدَ اللّٰہِ! اِنَّ لِیْ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَاجَۃٌ فَھَلْ اَنْتَ مُبَلِّغِیْ اِلَیْہِ؟ قَالَ: فَحَمَلْتُھَا فَاَتَیْتُ الْمَدِیْنَۃَ فَاِذَا الْمَسْجِدُ غَاصٌّ بِاَھْلِہِ وَ اِذَا رَأْیَۃٌ سَوْدَائُ تَخْفِقُ وَ بِلَالٌ مُتَقَلِّدُ السَّیْفِ بَینیَدَیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقُلْتُ: مَا شَاْنُ النَّاسِ؟ قَالُوْا: یُرِیْدُ اَنْ یَبْعَثَ عَمْرَو بْنَ الْعََاصِ وَجْھًا قَالَ: فَجَلَسْتُ۔ قَالَ: فَدَخَلَ مَنْزِلَہُ اَوْ قَالَ: رَحْلَہُ فَاسْتَاْذَنْتُ عَلَیْہِ فَاَذِنَ لِیْ فَدَخَلْتُ فَسَلَّمْتُ، فَقَالَ: ((ھَلْ کَانَ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَ بَنِیْ تَمِیْمٍ شَیْئٌ؟)) قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: وَ کَانَتْ لَنَا الدَّبَرَۃُ عَلَیْھِمْ وَ مَرَرْتُ بِعَجُوْزَۃٍ مِنْ بَنِیْ تَمِیْمٍ مُنْقَطِعٍ بِھَا فَسَاَلَتْنِیْ اَنْ اَحْمِلَھَا اِلَیْکَ وَ ھَا ھِیَ بِالْبَابِ، فَاَذِنَ لَھَا فَدَخَلَتْ فَقُلْتُ: یَارَسُوْلُ اللّٰہِ! اِنْ رَاَیْتَ اَنْ تَجْعَلَ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ بَنِیْ تَمِیْمٍ حَاجِزًا فَاجْعَلِ الدَّھْنَائَ، فَحَمِیَتِ الْعَجُوْزُ وَ اسْتَوْفَزَتْ قَالَتْ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! فَاِلٰی اَیْنَ تَضْطَرُّ مُضَرَکَ؟ قَالَ: قُلْتُ: اِنّمَا مَثَلِیْ مَا قَالَ الْاَوَّلُ: مِعْزَائُ حَمَلَتْ حَتْفَھَا، حَمَلْتُ ھٰذِہِ وَ لَا اَشْعُرُ اَنَّھَا کَانَتْ لِیْ خَصْمًا، اَعُوْذُ بِاللّٰہِ وَ رَسُولِہِ اَنْ اَکُوْنَ کَوَافِدِ عَادٍ، قَالَ: ((ھِیہْ وَ مَا وَافِدُ عَادٍ؟)) (وَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْحَدِیْثِ مِنْہُ وَ لٰکِنْ یَسْتَطْعِمُہُ) قُلْتُ: اِنَّ عَادًا قَحَطُوْا فَبَعَثُوْا وَافِدًا لَھُمْ یُقَالُ لَہُ قَیْلٌ فَمَرَّ بِمُعَاوِیَۃَ بْنِ بَکْرٍ فَاَقَامَ عِنْدَہُ شَھْرًا یَسْقِیْہِ الْخَمْرَ وَ تُغَنِّیْہِ جَارِیَتَانِیُقَالُ لَھُمَا: الْجَرَادَتَانِ، فَلَمَّا مَضَی الشَّھْرُ خَرَجَ اِلَی جِبَالِ تِھَامَۃَ فَنَادٰی: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ اَنِّیْ لَمْ اَجِیئْ اِلَی مَرِیْضٍ فَاُدَاوِیَہُ، وَ لَا اِلٰی اَسِیْرٍ فَاُفَادِیَہُ، اَللّٰھُمَّ اسْقِ عَادًا مَا کُنْتَ تَسْقِیْہِ، فَمَرَّتْ بِہٖسَحَابَاتٌسُوْدٌفَنُوْدِیَ مِنْھَا اخْتَرْ، فَاَوْمَأَ اِلٰی سَحَابَۃٍ مِنْھَا سَوْدَائَ فَنُوْدِیَ مِنْھَا خُذْھَا رَمَادًا رِمْدَدًا لَا تُبْقِ مِنْ عَادٍ اَحَدًا، قَالَ: فَمَا بَلَغَنِیْ اَنَّہُ بُعِثَ عَلَیْھِمْ مِنَ الرِّیْحِ اِلَّا قَدْرُ مَا یَجْرِیْ فِیْ خَاتِمِیْ ھٰذَا حَتّٰی ھَلَکُوْا، قَالَ اَبُوْ وَائِلٍ: وَصَدَقَ قَالَ: فَکَانَتِ الْمَرْاَۃُ وَ الرَّجُلُ اِذَا بَعَثُوْا وَافِدًا لَھُمْ، قَالُوْا: لَا تَکُنْ کَوَافِدِ عَادٍ۔ (مسند احمد: ۱۶۰۵۰)

۔ حارث بن یزید بکری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں علاء بن حضرمی کی شکایت کرنے کے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف روانہ ہوا، جب میں ربذہ مقام سے گزرا تو دیکھا کہ وہاں بنوتمیم کی ایک بڑھیا خاتون تھا، اس کے لیے سفر کے اسباب منقطع ہو چکے تھے، اس نے مجھ سے کہا: اے اللہ کے بندے! میرا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کوئی تقاضا ہے، کیا تو مجھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تک پہنچا سکتا ہے؟ پس میں نے اس کو اپنے ساتھ اٹھا لیا اور مدینہ منورہ پہنچ گئے، وہاں دیکھا کہ مسجد لوگوں سے بھری ہوئی تھی، سیاہ رنگ کا جھنڈا لہرا رہا تھا اور سیدنا بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تلوار لٹکا کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے کھڑے تھے، میں نے کہا: لوگوں کا کیا مسئلہ ہے ؟ انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو کسی غزوے میں بھیجنا چاہتے ہیں، پس میں بیٹھ گیا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے گھر میں داخل ہوگئے، پھر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اجازت طلب کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اجازت دی، پس میں داخل ہوا اور سلام کہا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: کیا تمہارے اور بنو تمیم کے درمیان کوئی مسئلہ ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، پھر میں (حارث) نے کہا: ہمارا ان پر غلبہ تھا اور میں بنوتمیم کی ایک بڑھیاں خاتون کے پاس سے گزرا، اس کے سفر کے اسباب منقطع ہو چکے تھے، اس نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اس کو آپ تک پہنچاؤں، اب وہ درروازے پر موجود ہے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو اجازت دی اور وہ اندر آ گئی، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ ہمارے اور بنو تمیم کے درمیان کوئی حد مقرر کرنا چاہتے ہیں تو دہناء مقام کا تعین کر دیں۔ یہ بات سن کر اس بڑھیا کو غیرت آ گئی تو اس نے اتنی باتیں کیں کہ اپنا پورا حق وصول کر لیا، پھر اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اپنے مضر کو کہاں تک مجبور کریں گے؟ اس کی باتیں سن کر میں نے کہا: میری مثال تو وہ ہے، جس کے بارے میں پہلے کسی نے کہا: معزاء نے اپنی موت کو اٹھا رکھا ہے، میں اس بڑھیا کو اٹھا کر لایا، جبکہ مجھے شعور بھی نہیں تھا کہ مجھ سے جھگڑنے لگے گی، میں اس بات سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں عادیوں کے قاصد کی طرح ہو جاؤں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں، ذرا بیان کرو، عادیوں کا قاصد کون تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود اس بات کو زیادہ جانتے تھے، لیکن اب اس سے سننا چاہتے تھے، میں نے کہا: عاد قوم قحط میں مبتلا ہو گئی، انھوں نے قَیل نامی قاصد کو بھیجا، وہ معاویہ بن بکر کے پاس سے گزرا اور ایک ماہ تک اس کے ہاں ٹھہرا، وہ اس کو شراب پلاتا اور اس کے لیے دو لونڈیاں گانے گاتی تھیں، ان لونڈیوں کو جرادتان کہتے تھے، جب ایک ماہ گزر گیا تو وہ آدمی تہامہ کے پہاڑوں کی طرف نکلا اور اس نے یہ آواز دی: اے اللہ! بیشک تو جانتا ہے کہ میں نہ کسی مریض کا دوا دارو کرنے کے لیے آیا ہوں اور نہ کسی قیدی کو چھڑانے آیا ہوں، اے اللہ! تو عادیوں پر وہی بارش نازل فرما، جو تو پہلے نازل کرتا تھا، پس اس کے پاس سے کالے کالے بادل گزرے اور اس سے کہا: ان میں سے ایک بادل کو منتخب کر، اس نے ایک سیاہ رنگ کی بدلی کی طرف اشارہ کیا، پس اس کو آواز دی گئی: اب لے اس کو، یہ تو آگ کے ساتھ ہونے والی ہلاکت ہے، یہ قومِ عاد میں سے کسی کو نہیں چھوڑے گی، پھر انھوں نے کہا: مجھے یہ بات موصول ہوئی ہے کہ ان پر اتنی ہوا بھیجی گئی، جو میری اس انگوٹھی سے گزر سکتی تھی، لیکن اس سے بھی وہ ہلاک ہو گئے۔ ابو وائل کہتے ہیں: حارث نے سچ کہا، اسی وجہ سے جب کوئی عورت یا مرد اپنا قاصد بھیجتے تھے تو وہ کہتے تھے: قومِ عاد کے قاصد کی طرح نہ ہو جانا۔

Haidth Number: 10328

۔ (۱۰۴۰۱)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((کَانَ دَاوٗدُالنَّبِیُّ فِیْہِ غَیْرَۃٌ شَدِیْدَۃٌ، وَ کَانَ اِذَا خَرَجَ اُغْلِقَتِ الْاَبْوَابُ فَلَمْ یَدْخُلْ عَلٰی اَھْلِہِ اَحَدٌ حَتّٰییَرْجِعَ، قَالَ: فَخَرَجَ ذَاتَ یَوْمٍ وَ غُلِّقَتِ الدَّارُ فَاَقْبَلَتْ اِمَرَاَتُہُ تَطَّلِعُ اِلَی الدَّارِ فَاِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ وَسْطَ الدَّارِ، فَقَالَت لِمَنْ فِیْ الْبَیْتِ: مِنْ اَیْنَ دَخَلَ ھٰذَا الرَّجُلُ الدَّارَ وَالدَّارُ مُغْلَقَۃٌ؟ وَاللّٰہِ لَتُفْتَضَحَنَّ بِدَاوُدَ فَجَائَ دَاوُدُ، فَاِذَا الرَّجُلُ قَائِمٌ وَسْطَ الدَّارِ، فَقَالَ لَہُ دَاوُدُ: مَنْ اَنْتَ؟ قَالَ: اَنَا الَّذِیْ لَا اَھَابُ الْمُلُوْکَ وَ لَا یَمْتَنِعُ مِنِّی شَیْئٌ، فَقَالَ دَاوُدُ: اَنْتَ وَاللّٰہِ! مَلَکُ الْمَوْتِ، فَمَرْحَبًا بِاَمْرِ اللّٰہِ، فَرُمِلَ دَاوُدُ مَکَانَہُ حَیْثُ قُبِضَتْ رُوْحُہُ حَتّٰی فَرَغَ مِنْ شَاْنِہِ وَطَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ، فَقَالَ سُلَیْمَانُ لِلطَّیْرِ: اَظِلِّیْ عَلٰی دَاوُدَ، فَاَظَلَّتْ عَلَیْہِ الطَّیْرُ حَتَّی اَظْلَمَتْ عَلَیْھِمَا الْاَرْضُ، فَقَالَ لَھَا سُلَیْمَانُ: اقْبِضِیْ جَنَاحًا جَنَاحًا۔)) قَالَ اَبُوْ ھُرَیْرَۃ: یُرِیْنَارَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَیْفَ فَعَلَتِ الطَّیْرُ، وَقَبَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَدِہِ، وَ غَلَبَتْ عَلَیْہِ ِیَوْمَئِذٍ الْمَصْرَجیَّۃُ۔ (مسند احمد: ۹۴۲۲)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کے نبی داود علیہ السلام شدید غیرت سے متصف تھے، جب وہ گھر سے باہر جاتے تو دروازے بند کر دیئے جاتے اور ان کے گھر والوں کے پاس کوئی نہ آ سکتا، یہاں تک کہ وہ واپس تشریف لے آتے، ایک دن روٹین کے مطابق وہ باہر چلے گئے اور گھر کو بند کر دیا گیا، لیکن جب ان کی بیوی گھر کی طرف متوجہ ہوئی تو انھوں نے دیکھا کہ ایک آدمی گھر کے درمیان میں کھڑا ہے، انھوں نے اس شخص کے بارے میں کہا: یہ آدمی گھر میں کیسے داخل ہوا، جبکہ گھر بند تھا؟ اللہ کی قسم! ہمیں داود کے ساتھ رسوا ہونا پڑے گا، اتنے میں داود علیہ السلام آگئے، جب انھوں نے گھر کے بیچ میں ایک آدمی کو دیکھا تو انھوں نے کہا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: میں وہ ہوں، جو بادشاہوں سے نہیں ڈرتا، بلکہ کوئی چیز مجھ سے بچ نہیں سکتی، داود علیہ السلام نے کہا: اللہ کی قسم! تو تو ملک الموت ہے، اللہ کے حکم کو مرحبا، داود علیہ السلام نے اس جگہ پر دفن ہونا تھا، جہاں ان کی روح قبض ہوئی، اُدھر جب فرشتہ اپنے کام سے فارغ ہوا تو سورج طلوع ہو گیا، سلیمان علیہ السلام نے پرندوں سے کہا: داود پر سایہ کرو، پس پرندوں نے ان پر سایہ کیا،یہاں تک کہ زمین نے ان دونوں پر اندھیرا کر دیا، سلیمان علیہ السلام نے کہا: ایک ایک پر بند کرو۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں دکھایا کہ پرندوں نے کیسے کیا، ساتھ ہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک بند کیا، اس دن لمبے پروں والے شکرے ان پر غالب آ گئے۔

Haidth Number: 10401

۔ (۱۰۴۳۴)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَمْ یَتَکَلَّمْ فِیْ الْمَھْدِ اِلَّا ثَلَاثَۃٌ عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ، وَ کَانَ مِنْ بَنِیْ اِسْرَئِیْلَ رَجُلٌ عَابِدٌ یُقَالُ لَہُ: جُرَیْجٌ فَاَبْتَنٰی صَوْمَعَۃً وَتَعَبَّدَ فِیْھَا، قَالَ: فَذَکَرَ بَنُوْ اِسْرَئِیْلَیَوْمًا عِبَادَۃَ جُرَیْجٍ فَقَالَتْ بَغِیٌّ مِنْھُمْ: لَئِنْ شِئْتُمْ لَاُصِیْبَنَّہُ، قَالُوْا: قَدْ شِئْنَا، قَالَ: فَاَتَتْہُ فَتَعَرَّضَتْ لَہُ فَلَمْ یَلْتَفِتْ اِلَیْھَا فَاَمْکَنَتْ نَفْسَھَا مِنْ رَاعٍ کَانَ یُؤْوِیْ غَنَمَہُ اِلٰی اَصَلِ صَوْمَعَۃِ جُرَیْجٍ فَحَمَلَتْ فَوَلَدَتْ غُلَامًا، فَقَالُوْا: مِمَّنْ؟ قَالَتْ: مِنْ جُرَیْجٍ، فَاَتَوْہُ فَاسْتَنْزَلُوْہُ فَشَتَمُوْہُ وَضَرَبُوْہُ وَ ھَدَمُوْا صَوْمَعَتَہُ، فَقَالَ: مَا شَاْنُکُمْ؟ قَالُوْا: اِنَّکَ زَنَیْتَ بِھٰذِہِ الْبَغِیِّ فَوَلَدَتْ غُلَامًا، قَالَ: وَ اَیْنَ ھُوَ؟ قَالُوْا: ھَا ھُوَ ذَا؟ قَالَ: فَقَامَ فَصَلّٰی وَ دَعَا ثُمَّ انْصَرَفَ اِلَی الْغُلَامِ فَطَعَنَہُ بِاِصْبَعِہِ وَ قَالَ: بِاللّٰہِ یَاغُلَامُ! مَنْ اَبُوْکَ؟ قَالَ: اَنَا ابْنُ الرَّاعِیْ، فَوَثَبُوْا اِلٰی جُرَیْجٍ فَجَعَلُوْا یُقَبِّلُوْنَہُ وَ قَالُوْا: نبَنِیْ صَوْمَعَتَکَ مِنْ ذَھَبٍ، قَالَ: لَا حَاجَۃَ لِیْ فِیْ ذٰلِکَ، ابْنُوْھَا مِنْ طِیْنٍ کَمَا کَانَتْ، قَالَ: وَ بَیْنَمَا اِمْرَاَۃٌ فِیْ حِجْرِھَا ابْنٌ تُرْضِعُہُ اِذْ مَرَّ بِھَا رَاکِبٌ ذُوْ شَارَۃٍ فَقَالَتْ: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ اِبْنِیْ مِثْلَ ھٰذَا، قَالَ: فَتَرَکَ ثَدْیَھَا وَ اَقْبَلَ عَلَی الرَّاکِبِ فَقَالَ: اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْنِیْ مِثْلَہُ، قَالَ: ثُمَّ عَادَ اِلَی ثَدْیَھَایَمُصُّہُ، (قَالَ اَبُوْھُرَیْرَۃَ : فَکَاَنِّیْ اَنْظُرُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَحْکِیْ عَلٰی صَنِیْعِ الصَّبِیِّ وَ وَضَعَ اِصْبَعَہُ فِیْ فَمِہِ فَجَعَلَ یَمُصُّھَا) ثُمَّ مَرَّ بِاَمَۃٍ تُضْرَبُ فَقَالَتْ: اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ اِبْنِیْ مِثْلَھَا، قَالَ: فَتَرَکَ ثَدْیَھَا وَ اَقْبَلَ عَلَی الْاَمَۃِ، فَقَالَ: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِثْلَھَا، قَالَ: فَذٰلِکَ حِیْنَ تَرَاجَعَا الْحَدِیْثَ فَقَالَت: حَلْقَی مَرَّ الرَّاکِبُ ذُوْ الشَّارَۃِ فَقُلْتُ: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ اِبْنِیْ مِثْلَہُ فَقُلْتَ: اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْنِیْ مِثْلَہُ وَ مَرَّ بِھٰذِہِ الْاَمَۃِ فَقُلْتُ: اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ اِبْنِیْ مِثْلَھَا فَقُلْتَ: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِثْلَھَا، قَالَ: یَا اَمَّتَاہْ! اِنَّ الرَّاکِبَ ذُوْالشَّارَۃِ جَبَّارٌ مِنَ الْجَبَابِرَۃِ، وَ اِنَّ ھٰذِہِ الْاَمَۃَیَقُوْلُوْنَ زَنَتْ وَ لَمْ تَزْنِ وَ سَرَقَتْ وَ لَمْ تَسْرِقْ وَ ھِیَ تَقُوْلُ: حَسْبِیَ اللّٰہُ۔)) (مسند احمد: ۸۰۵۷)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: گہوارے میں صرف تین بچوں نے کلام کیا ہے، (۱) عیسی بن مریم، (۲)بنو اسرائیل میں جریج نامی ایک عبادت گزار آدمی تھا، اس نے گرجا گھر بنایا اور اس میں عبادت کی، ایک دن بنو اسرائیل نے جریج کی عبادت کا ذکر کیا، لیکن ان کی ایک زانیہ عورت نے کہا: اگر تم چاہتے ہو تو میں اس کو آزمائش میں ڈالتی ہوں؟ انھوں نے کہا: ہم یہ چاہتے ہیں، پس وہ خاتون آئی، اس کے درپے ہوئی، لیکن جب اس نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی، تو اس نے اس چرواہے کو اپنے ساتھ زنا کرنے کا موقع دیا، جو اپنی بکریوں کو جریج کے گرجا گھر کے ساتھ بٹھاتا تھا، پس وہ حاملہ ہو گئی، پھر جب اس نے بچہ جنم دیا اور لوگوں نے اس سے پوچھا کہ یہ بچہ کس سے ہے تو اس بدکار خاتون نے کہا: یہ جریج کا ہے، (یعنی جریج نے اس عورت کے ساتھ زنا کیا تھا)، پس لوگ جریج کے پاس آئے، اس کو نیچے اتار کر برا بھلا کہا، اس کی پٹائی کی اور اس کا گرجا گھر گرا دیا، اس نے پوچھا: تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ انھوں نے کہا: تو نے فلاں زانیہ عورت کے ساتھ زنا کیا ہے اور اب اس نے بچہ بھی جنم دیا ہے، جریج نے کہا: وہ بچہ کہاں ہے؟ انھوں نے کہا: وہ یہ ہے، پس جریج کھڑے ہوئے، نماز پڑھی اور دعا کی، پھر اس بچے کی طرف آئے، اس کو اپنی انگلی ماری اور کہا: اللہ کی قسم! اے بچے! تیرا باپ کون ہے؟ اس نے کہا: میں چرواہے کا بیٹا ہوں، یہ سن کر لوگ جریج پر ٹوٹ پڑے اور اس کے بوسے لینے لگے اور کہنے لگے کہ ہم سونے سے تیرا گرجا گھر بنائیں گے، لیکن اس نے کہا: مجھے سونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، تم اس کو پہلے کی طرح مٹی سے بنا دو۔ (۳) ایک خاتون اپنی گودی میں ایک بچے کو دودھ پلا رہی تھی کہ اس کے پاس سے حسن و جمال والا ایک سوار گزرا، اس خاتون نے کہا: اے اللہ! میرے بیٹے کو اس کی طرح کا بنا دے، بچے نے ماں کا پستان چھوڑ دیا اور سوار کی طرف متوجہ ہو کر کہا: اے اللہ! مجھے اس کی طرح کا نہ بنانا، پھر وہ پستان کو چوسنے لگ گیا۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: گویا کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھ رہا ہوں، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بچے کے کیے کو بیان کیا اور اپنی انگلی کو منہ میں ڈال کر چوسا۔ اتنے میں اسی خاتون کے پاس سے ایک ایسی لونڈی کو گزارا گیا، جس کی پٹائی کی جا رہی تھی، اس خاتون نے کہا: اے اللہ! میرے بیٹے کو اس کی طرح کا نہ بنانا، بچے نے اس کا پستان چھوڑا اور لونڈی کی طرف متوجہ ہو کر کہا: اے اللہ! مجھے اسی کی طرح کا بنانا، پھر جب انھوں نے بات کو دوہرایا تو اس خاتون نے اپنے بیٹے سے کہا: میں سر منڈی، حسن و جمال والا سوار گزرا اور میں نے کہا: اے اللہ! میرے بیٹے کو اس کی طرح کا بنا دے تو تو نے کہا: اے اللہ! مجھے اس کی طرح کا نہ بنانا، پھر جب اس لونڈی کو گزارا گیا اور میں نے کہا: اے اللہ! میرے بیٹے کو اس کی طرح کا نہ بنانا تو تو نے کہا: اے اللہ! مجھے اس کی طرح کا بنانا، اب کی بار اس بچے نے کہا: اے میری ماں! وہ حسن و جمال والا سوار سرکشوں میں سے ایک سرکش تھا اور یہ لونڈی، لوگ کہتے تھے: اس نے زنا کیا ہے، جبکہ اس نے زنا نہیں کیا تھا، لوگ کہتے تھے کہ اس نے چوری کی ہے، جبکہ اس نے چوری نہیں کی تھی، اور وہ کہہ رہی تھی: اللہ مجھے کافی ہے۔

Haidth Number: 10434
۔ (دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: گہوارے میں صرف تین بچوں نے کلام کیا ہے: (۱) عیسی بن مریم علیہ السلام ، (۲) جریج کے زمانے کا ایک بچہ اور (۳) ایک اور بچہ، ……،پھر باقی حدیث ذکر کی، اس میںکچھ تفصیلیوں ہے: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جریج بنی اسرائیل کا ایک عبادت گزار آدمی تھا، اس کی ماں بھی حیات تھی، ایک دن وہ نماز پڑھ رہا تھا، جبکہ اُدھر ماں کو اپنے بیٹے کا اشتیاق پیدا ہوا اور اس نے کہا: اے جریج! اس نے نماز کے اندر ہی کہا: اے میرے ربّ! اب نماز بہتر ہے یا اپنی ماں کے پاس چلا جاؤں؟ پھر اس نے نماز جاری رکھی، ماں نے دوبارہ آواز دی، اس نے پھر اسی طرح کیا، ماں نے سہ بارہ آواز دی، اس نے پھر اسی طرح کیا اور نماز جاری رکھی،یہ چیز ماں پر بڑی گراں گزری، چنانچہ اس نے کہا: اے اللہ! زانی عورتوں سے جریج کا واسطہ پڑے، پھر وہ اپنے گرجا گھر کی طرف چڑھا اور بنی اسرائیل کی زانی عورت، ……۔ پھر مذکورہ بالا حدیث کی طرح کی روایت ذکر کی۔

Haidth Number: 10435
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بنو اسرائیل کا ایک آدمی تاجر تھا، کبھی اس کا مال کم ہو جاتا اور کبھی زیادہ، بالآخر اس نے کہا: اس تجارت میں کوئی خیر نہیں ہے، میں اس سے بہتر کوئی اور تجارت تلاش کرتا ہوں، پس اس نے ایک گرجا گھر بنایا اور رہبانیت اختیارکر کے اس میں بیٹھ گیا، اس کو جریج کہا جاتا تھا، ……۔

Haidth Number: 10436

۔ (۱۰۴۶۸)۔ عَنْ زَیْنَبَ بِنْتِ أَبِیْ سَلْمَۃَ عَنْ أُمِّ سَلْمَۃَ قَالَتْ: جَائَ تْ أُمُّ حَبِیْبَۃَ فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ھَلْ لَکَ فِیْ أُخْتِیْ؟ قَالَ: ((فَاَصْنَعُ بِھَا مَاذَا؟)) قَالَتْ: تَزَوَّجْھَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَتُحِبِّیْنَ ذٰلِکِ؟)) فَقَالَتْ: نَعَمْ، لَسْتُ لَکَ بِمُخْلِیَۃٍ، وَاَحَقُّ مَنْ شَرِکَنِیْ فِیْ خَیْرٍ أُخْتِیْ، فَقَالَ لَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّھَا لَاتَحِلُّ لِیْ)) فَقَالَتْ: فَوَاللّٰہِ! لَقَدْ بَلَغَنِیْ اَنَّکَ تَخْطُبُ دُرَّۃَ ابْنۃَ أُمِّ سَلَمَۃَ بْنِ أَبِیْ سَلَمَۃَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَوْ کَانَتْ تَحِلُّ لِیْ لَمَا تَزَوَّجْتُھَا قَدْ أَرْضَعَتْنِیْ وَاِبَاھَا ثَوَیْبَۃُ مَوْلَاۃُ بَنِیْ ھَاشِمٍ فَـلَا تَعْرِضْنَ عَلَیَّ أَخَوَاتِکُنَّ وَلَا بَنَاتِکُنَّ۔)) (مسند احمد: ۲۷۰۲۶)

۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ زوجۂ رسول سیدہ ام حبیبہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا آئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ میری بہن کی رغبت رکھتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اس کو کیا کروں؟ انھوں نے کہا: آپ ان سے شادی کر لیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم یہ چاہتی ہو؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، پہلے میں کون سی اکیلی ہوں اور اس خیر میں میرے ساتھ شریک ہونے کی سب سے زیادہ حقدار میری بہن ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ میرے لیے حلال نہیں ہے۔ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے تو یہ بات پہنچی ہے کہ آپ نے درّہ بنت ام سلمہ کو منگنی کا پیغام بھیجا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر وہ میرے لیے حلال ہوتی تو پھر بھی میں نے اس سے شادی نہیں کرنی تھی، کیونکہ مجھے اور اس کو بنو ہاشم کی لونڈی ثویبہ نے دودھ پلایا ہے، لہٰذا اپنی بہنیں اور بیٹیاں مجھ پر پیش نہ کرو۔

Haidth Number: 10468

۔ (۱۰۶۶۵)۔ حَدَّثَنَاإِسْمَاعِیلُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ عَطِیَّۃَ الْأَنْصَارِیُّ عَنْ جَدَّتِہِ أُمِّ عَطِیَّۃَ، قَالَتْ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِینَۃَ، جَمَعَ نِسَائَ الْأَنْصَارِ فِی بَیْتٍ، ثُمَّ بَعَثَ إِلَیْہِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَامَ عَلَی الْبَابِ فَسَلَّمَ، فَرَدَدْنَ عَلَیْہِ السَّلَامَ، فَقَالَ: أَنَا رَسُولُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَیْکُنَّ، قُلْنَا: مَرْحَبًا بِرَسُولِ اللّٰہِ وَرَسُولِ رَسُولِ اللّٰہِ وَقَالَ: ((تُبَایِعْنَ عَلٰی أَنْ لَا تُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا، وَلَا تَزْنِینَ وَلَا تَقْتُلْنَ أَوْلَادَکُنَّ، وَلَا تَأْتِینَ بِبُہْتَانٍ تَفْتَرِینَہُ بَیْنَ أَیْدِیکُنَّ وَأَرْجُلِکُنَّ، وَلَا تَعْصِینَہُ فِی مَعْرُوفٍ۔)) قُلْنَا: نَعَمْ! فَمَدَدْنَا أَیْدِیَنَا مِنْ دَاخِلِ الْبَیْتِ، وَمَدَّ یَدَہُ مِنْ خَارِجِ الْبَیْتِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّہُمَّ اشْہَدْ! وَأَمَرَنَا بِالْعِیدَیْنِ أَنْ نُخْرِجَ الْعُتَّقَ وَالْحُیَّضَ، وَنَہٰی عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ، وَلَا جُمُعَۃَ عَلَیْنَا، وَسَأَلْتُہَا عَنْ قَوْلِہِ: {وَلَا یَعْصِینَکَ فِی مَعْرُوفٍ} قَالَتْ: نُہِینَا عَنِ النِّیَاحَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۱۰۷۸)

سیدہ ام عطیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انصار کی خواتین کو ایک گھر میں جمع کیا اور سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان کی طرف بھیجا، وہ جا کر دروازے پر کھڑے ہو گئے اور سلام کہا، ان عورتوں نے سلام کا جواب دیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں تمہاری طرف رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا قاصد ہوں۔ ہم نے کہا: ہم اللہ کے رسول اور اللہ کے رسول کے قاصد کو مرحبا اور خوش آمدید کہتی ہیں، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم ان امور پر بیعت کرو کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو کو شریک نہیں ٹھہراؤ گی، زنا نہیں کرو گی، اپنی اولادوں کو قتل نہیں کرو گی،تم از خود کوئی بات بنا کر کسی پر بہتان طرازی نہیں کرو گی اور نوحہ نہیں کرو گی۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ پھر ہم نے گھر کے اندر سے اپنے ہاتھ آگے کو بڑھائے اور انھوں نے باہر ہی سے اپنا بڑھایا، ہاتھ ملائے بغیر ہی محض اشارے سے بیعت ہوئی۔ پھر انھوں نے فرمایا: یا اللہ! گواہ رہنا۔ انھوں نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم عیدین کے موقعہ پر نوجوان لڑکیوں کو اور حیض والی خواتین کو بھی باہر، عیدگاہ کی طرف عید کے لیے لے جایا کریں اور انھوں نے ہمیں جنازوں کے ساتھ جانے سے منع فرمایا، نیز فرمایا کہ ہمارے لیے جمعہ کی حاضری ضروری نہیں۔ اسمٰعیل بن عبدالرحمن کہتے ہیں: میں نے اپنی دادی سے دریافت کیا کہ حدیث میں وارد لفظ {وَلَا یَعْصِینَکَ فِی مَعْرُوفٍ} سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس لفظ کے ذریعے ہمیںنوحہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

Haidth Number: 10665
سیدہ امیمہ بنت رقیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں عورتوں کے ساتھ مل کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر ہوئی، ہم نے آپ سے بیعت کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے قرآن پاک میں بیان کئے گئے اصولوں پر بیعت لی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کریں گی، (آیت آخر تک)، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ان شقوں پر تم نے اتنا عمل کرنا ہے، جتنی تم میں طاقت اور قوت ہو گی۔ ہم نے کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تو ہمارے ساتھ ہمارے نفسوں سے بھی زیادہ رحم کرنے والے ہیں، ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ ہمارے ساتھ مصافحہ کیوں نہیں کرتے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اجنبی عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، میرا سو خواتین سے عہد لینا، ایسے ہی ہے جیسے ایک عورت سے عہد لیتا ہوں۔

Haidth Number: 10666
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ امیمہ بنت رقیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں اسلام کی بیعت کرنے کی غرض سے حاضر ہوئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تم سے اس بات کی بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہیں ٹھہراؤ گی، چوری اور زنانہیں کرو گی، اپنے بچوں کو قتل نہ کرو گی، اور از خود گھڑ کر کسی پر بہتان طرازی نہیں کرو گی، نوحہ نہیں کرو گی اور پہلی جاہلیت کی طرح سرِ عام بے پردہ نہ گھومو گی۔

Haidth Number: 10667
عبد خیر ہمدانی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو سنا، وہ منبر پر تشریف فرما تھے اور کہہ رہے تھے: لوگو! کیا میں تمہیں نہ بتلائوں کہ اس امت میں نبی کے بعد کون سب سے افضل ہے؟ پھر انہوںنے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا نام لیا۔ پھر کہا: کیا میں تمہیں اس آدمی کے بارے میں نہ بتلائوں جو نبی کے بعد امت میں دوسرے درجہ پر ہے؟ پھر انہوںنے خود ہی سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا نام لیا۔ اور پھر کہا: اگر میں چاہوں تو تمہیں اس آدمی کے متعلق بتلا سکتا ہوں جو تیسرے درجہ پر ہے۔ عبد خیر کہتے ہیں کہ یہ کہہ کرو ہ خاموش رہے۔ ہم یہی سمجھے کہ وہ اپنے آپ کو مراد لے رہے ہیں۔ میں نے ان سے دریافت کیا، کیا آپ نے خود رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، رب کعبہ کی قسم!، اگر میں نے خود نہ سنا ہو تو میرےیہ کان بہرے ہو جائیں۔

Haidth Number: 11562
ابو حجیفہ، جنہیں علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ وہب الخیر کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے، ان سے مروی ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: اے ابو جحیفہ! کیا میں تمہیںیہ نہ بتلائوں کہ اس امت میں نبی کے بعد افضل ترین آدمی کون ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ضرور بتلائیں اور میرا خیال تھا کہ نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے افضل کوئی نہیں ہو سکتا۔ لیکن انھوں نے کہا: نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد اس امت میں سب سے افضل سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، ان کے بعد سیدناعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے بعد ایک تیسرا آدمی ہے، پھر انہوں نے اس کا نام نہ لیا۔

Haidth Number: 11563
وہب سوائی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ہمیں خطبہ دیا اورپوچھا کہ اس امت میں نبی کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ میں نے عرض کیا: آپ خود ہیں، اے امیر المؤمنین! لیکن انھوں نے کہا: نہیں، اس امت میں نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سب سے افضل ہیں، ان کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں اور ہم اس امر کو بعید نہیں سمجھتے کہ سکون اور وقار عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی زبان پر بولتا ہے۔

Haidth Number: 11564
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ فضیلت و مرتبہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سب سے آگے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زندگی ہی میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے نائب کے طور پر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے امامت کے فرائض سر انجام دیئے اور تیسرا درجہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا ہے۔ ان کے بعد ہم فتنوں میں مبتلا ہوگئے اور اللہ جس سے چاہے گا، درگزر فرمائے گا۔

Haidth Number: 11565
عون بن ابی جحیفہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میرے والد سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے خصوصی پہرہ داروں میں سے تھے، وہ منبر کے قریب بیٹھے تھے، انہوںنے مجھے بیان کیا کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے منبر پر آکر اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء بیان کی اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر درود بھیجا اور کہا: اس امت میں نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بعد سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور ان کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سب سے افضل ہیں۔ پھر کہا: اللہ جہاں چاہتا ہے، خیر وبرکت نازل کر دیتا ہے۔

Haidth Number: 11566
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد میں تشریف لاتے، وہاں مہاجرین و انصار سب موجود تھے، سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سوا کوئی آدمی آپ کی طرف سر نہ اٹھاتا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان دونوں کی طرف دیکھ کر وہ دونوں آپ کی طرف دیکھ کر تبسم کرتے تھے۔

Haidth Number: 11567
ابن ابی حازم سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے علی بن حسین کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا کیا مقام تھا؟ انہوںنے کہا: (ان دو ہستیوں کا وہی مقام تھا) جو اس گھڑی میں ان کا حاصل ہے۔

Haidth Number: 11568
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری خاتون نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دعوت کی اور کھانا تیار کیا، ہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔ کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آرہا ہے۔ اتنے میں سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لے آئے، ہم نے ان کو مبارکباد دی ۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک جنتی آدمی تمہارے پاس آنے والا ہے۔ اتنے میں سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لے آئے۔ ہم نے انہیں مبارک باد دی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر فرمایا: تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آنے والا ہے۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ کہہ کر اپنا سر کھجور کے چھوٹے درختوں کے نیچے کر لیا اور فرمایا: اے اللہ! اگر تو چاہے تو آنے والا علی ہو۔ اتنے میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لے آئے،اورہم نے انہیں بھی مبارک باد دی۔

Haidth Number: 11569
عبدالرحمن بن غنم اشعری سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: اگر کسی مشورہ میں تم دونوں کی رائے ایک ہو تو میں تمہاری رائے سے اختلاف نہیں کروں گا۔

Haidth Number: 11570
سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میرے بعد ابو بکر اور عمر کی اقتداء کرنا۔

Haidth Number: 11571
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں، سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا سمرہ بن جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئے، لوگوں نے ہمیں بتلایا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو تقویٰ مسجد کی طرف تشریف لے گئے ہیں، ہم بھی ادھر چل دیئے،جب ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے پہنچے تو دیکھا کہ آپ کے ہاتھ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے کاندھوں پر تھے، ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے پر غصہ کے آثار محسوس کیے، آپ نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے دریافت کیا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوںنے بتلایا کہ یہ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہیں۔

Haidth Number: 11572

۔ (۱۱۵۷۳)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، صَلَّی بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صَلَاۃً، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْہِہِ، فَقَالَ: ((بَیْنَا رَجُلٌ یَسُوقُ بَقَرَۃً إِذْ رَکِبَہَا فَضَرَبَہَا، قَالَتْ: إِنَّا لَمْ نُخْلَقْ لِہٰذَا إِنَّمَا خُلِقْنَا لِلْحِرَاثَۃِ۔)) فَقَالَ النَّاسُ: سُبْحَانَ اللّٰہِ! بَقَرَۃٌ تَتَکَلَّمُ؟ فَقَالَ: ((فَإِنِّی أُومِنُ بِہٰذَا أَنَا وَأَبُو بَکْرٍ غَدًا غَدًا وَعُمَرُ۔)) وَمَا ہُمَا ثَمَّ، ((وَبَیْنَا رَجُلٌ فِی غَنَمِہِ إِذْ عَدَا عَلَیْہَا الذِّئْبُ فَأَخَذَ شَاۃً مِنْہَا فَطَلَبَہُ فَأَدْرَکَہُ فَاسْتَنْقَذَہَا مِنْہُ فَقَالَ: یَا ہٰذَا اسْتَنْقَذْتَہَا مِنِّی فَمَنْ لَہَا یَوْمَ السَّبُعِ یَوْمَ لَا رَاعِیَ لَہَا غَیْرِی؟)) قَالَ النَّاسُ: سُبْحَانَ اللّٰہِ! ذِئْبٌ یَتَکَلَّمُ؟ فَقَالَ: ((إِنِّی أُومِنُ بِذٰلِکَ وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ۔)) وَمَا ہُمَا ثَمَّ۔ (مسند احمد: ۷۳۴۵)

سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا : ایک دفعہ ایک آدمی بیل کو ہانکے جا رہا تھا کہ وہ اس پر سوار ہوگیا اور اس نے اسے مارا، آگے سے بیل نے بول کر کہا کہ ہمیں سواری کے لیے تو پیدا نہیں کیا گیا، ہمیں تو کھیتی باڑی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ لوگوں نے یہ بات سن کر ازراہ تعجب کہا: سبحان اللہ! بیل باتیں کرنے لگا۔ تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس بات کی صداقت پر میرا، ابو بکر اور عمرکا بھی ایمان ہے۔ حالانکہ سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما وہاں موجود نہیں تھے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک دفعہ ایک آدمی اپنی بکریوں کے ریوڑ میں تھا کہ ایک بھیڑیئے نے حملہ کرکے ایک بکری کو اچک لیا، اس نے اس کا پیچھا کرکے اسے جا لیا اور اس سے بکری کو چھڑا لیا، تو بھیڑیئے نے بول کر کہا: ارے تو نے آج تو اسے مجھ سے چھڑا لیا، فتنوں کے دنوں میں جب لوگ مویشیوں کو یونہی چھوڑ کر بھاگ جائیں گے اور اس دن میرے سوا ان کا کوئی چرواہا (محافظ) نہ ہوگا، تب ان کو مجھ سے کون بچائے گا؟ لوگوں نے یہ سن کر بھی ازراہ تعجب کہا: سبحان اللہ! بھیڑیا انسانوں کی طرح باتیں کرنے لگا۔ لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس بات کی صداقت پر میرا، ابو بکر کا اور عمر کا بھی ایمان ہے۔ حالانکہ وہ دونوں اس وقت وہاں موجود نہ تھے۔

Haidth Number: 11573
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں تھا کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تشریف لے آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے علی! یہ دونوں جنتی بزرگوں اور نوجوانوںکے سردار ہوں گے، ماسوائے انبیاء و رسل کے۔

Haidth Number: 11574
عبد خیر سے مروی ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے منبر پر کھڑے ہو کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ذکر خیر کیا اور فرمایا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے بعد سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خلیفہ چن لیا گیا، انہوںنے سارے امور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عمل کے مطابق سر انجام دیئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہی کے طریقے پر چلتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ا پنے پاس بلا لیا۔ان کے بعد سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خلیفہ چن لیا گیا، انہوںنے بھی اپنے دونوں پیش روؤں کے عمل کے مطابق امور سرانجام دیئے اور ان دونو ں کے طریقے پر چلتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی اپنے ہاں بلا لیااور وہ اسی منہج پر قائم تھے۔

Haidth Number: 11575