Blog
Books
Search Quran
Lughaat

رَسَاالشَّیئُ: (ن) کے معنٰی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں اور اَرْسیٰ کے معنیٰ ٹھہرانے کے ہیں اور اَرْسیٰ کے معنیٰ ٹھہرانے اور استواء کردینے کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ قُدُوۡرٍ رّٰسِیٰتٍ) (۳۴:۱۳) اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک جگہ پر جمی رہیں۔ (رَوَاسِیَ شٰمِخٰتٍ ) (۷۷:۲۷) اور اونچے اونچے پہاڑ۔ یہاں پہاڑوں کو بوجہ ان کے ثبات اور استواری کے روَاسِیْ کہا گیا ہے جیساکہ دوسری جگہ فرمایا: (وَ الۡجِبَالَ اَرۡسٰہَا) (۷۹:۳۲) اور پہاڑوں کو (اس میں گاڑ کر) پلایا۔ اسی طرح معنیٰ ثبات کے اعتبار سے پہاڑوں کو اوتاد فرمایا ہے۔ جیسے: (وَّ الۡجِبَالَ اَوۡتَادًا) (۷۸:۷) اور پہاڑوں کو (زمین کی) میخیں نہیں بنایا۔ کسی شاعر نے کہا ہے۔(1) (البسیط) (۱۸۴) وَلَا عِمَادَ اِذَا لَمْ تُرْسِ اَوتَادَ اور میخوں کے بغیر ستون نہیں ٹھہرسکتے۔ عام محاورہ ہے: اَلِقَتِ السَّحَابَۃُ مَرَاسِیْھَا کہ بادل نے اپنے لنگر ڈال دئیے یعنی جم کر برسنے لگا جیساکہ اسی معنیٰ میں اَلْقَتْ طُنْبَھَا کہا جاتا ہے اور قرآن پاک میں ہے: (بِسۡمِ اللّٰہِ مَ‍‍جۡرٖىہَا وَ مُرۡسٰىہَا) (۱۱:۱۴) اﷲ کے نام سے اس کا چلنا اورلنگر انداز ہونا ہے۔ تو یہ اَجْرَیتُ وَارْسَیتُ (باب افعال) سے ماخوذ ہے اور مُرسیً کا لفظ مصدر میمی بھی آتا ہے اور صیغۂ ظرف زمان و مکان اور اسم مفعول بھی استعمال ہوتا ہے اور آیت مذکورہ الصدر میں ایک قرأت مَجْرٰھَا وَمَرْسٰھَا بھی ہے۔(2) اور آیت : (یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرۡسٰہَا) (۷:۱۸۷) (اے پیغمبر! لوگ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ کہیں اس کا تھل بیڑا بھی ہے؟ (یعنی کب واقع ہوگی۔ میں مُرْسَاھَا سے اس کے بپا ہونے کا زمانہ مراد ہے۔ عام محاورہ ہے: رَسَوتُ بَیْنَ الْقَومِ: میں نے قوم کے درمیان صلح کو پختہ کردیا۔

Words
Words Surah_No Verse_No
اَرْسٰىهَا سورة النازعات(79) 32
رَوَاسِيَ سورة الرعد(13) 3
رَوَاسِيَ سورة الحجر(15) 19
رَوَاسِيَ سورة النحل(16) 15
رَوَاسِيَ سورة الأنبياء(21) 31
رَوَاسِيَ سورة النمل(27) 61
رَوَاسِيَ سورة لقمان(31) 10
رَوَاسِيَ سورة حم السجدہ(41) 10
رَوَاسِيَ سورة ق(50) 7
رَوَاسِيَ سورة المرسلات(77) 27
رّٰسِيٰتٍ سورة سبأ(34) 13
مُرْسٰـىهَا سورة النازعات(79) 42
مُرْسٰىهَا سورة الأعراف(7) 187
وَمُرْسٰىهَا سورة هود(11) 41