Blog
Books
Search Hadith

اس امر کا بیان کہ غلو کئے بغیر میت کو عمدہ کفن دیا جائے اور سفید کفن زیادہ پسندیدہ ہے

1247 Hadiths Found
سیّدناسمرہ بن جندب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سفید لباس پہنا کرو اور مردوں کو اسی میں کفن دیا کرو۔

Haidth Number: 3113
سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی میت کی نماز جنازہ پڑھے، اس کے لیے ایک قیراط ثواب ہو گا اور جو تدفین سے فراغت تک انتظار کرے، اس کے لیے دو قیراط ثواب ہے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! دو قیراط کیا ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دو بڑے پہاڑوں کے برابر ہیں۔

Haidth Number: 3133
سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی کسی میت کی نماز جنازہ پڑھتا ہے اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہمارے اس قیراط کی طرح؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، وہ قیراط تو احد پہاڑ کے برابر ہے یا اس سے بھی بڑا ہے۔

Haidth Number: 3134
(دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو جنازے کے ساتھ چلا، یہاں تک کہ اس پر نماز پڑھی تو اس کے لیے ایک قیراط ثواب ہے۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے قیراط کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: احد پہاڑ کی طرح ہوتا ہے۔

Haidth Number: 3135

۔ (۳۱۳۶)(۱۴۶) وَعَنْہُ أَیْضًا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّہُ مَرَّ بِأَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ وَہُوَ یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ أَنَّہُ قَالَ: ((مَنْ تَبِعَ جَنَازَۃً فَصَلّٰی عَلَیْہَا فَلَہُ قِیْرَاطٌ،فَإِنْ شَہِدَ دَفْنَہا فَلَہُ قِیْرَاطَانِ، اَلْقِیْرَاطُ أَعْظَمُ مِنْ أُحُدٍ۔)) فَقَالَ لَہُ ابْنُ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: أَبَا ہِرٍّ! اُنْظُرْ مَا تُحَدِّثُ بِہِ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (وَفِی لَفْظٍ: اُنْظُرْ مَا تُحَدِّثُ یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ! فَإِنَّکَ تُکْثِرُ الْحَدِیْثَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) فَقَامَ إِلَیْہِ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ حَتَّی انْطَلَقَ بِہِ إِلٰی عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فَقَالَ لَہَا: یَا أُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ! أَنْشُدُکِ بِاللّٰہِ أَمَا سَمِعْتِ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَنْ تَبِعَ جَنَازَۃً فَصَلّٰی عَلَیْہَا فَلَہُ قِیْرَاطٌ، فَإِنْ شَہِدَ دَفْنَہَا فَلَہُ قِیْرَاطَانِ۔))؟ قَالَتْ: اَللّٰہُمَّ نَعَمْ، فَقَالَ أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: إِنَّہُ لَمْ یَکُنْ یَشْغَلُنِی عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَرْسُ الْوَادِیِّ وَلَا صَفْقٌ بِالْأَسْوَاقِ، إِنِّی إِنَّمَا کُنْتُ أَطْلُبُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَلِمَۃً یُعَلِّمُنِیْہَا وَاُکْلَۃً یُطْعِمُنِیْھَا؟ فَقَالَ لَہُ ابْنُ عُمَرَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: أَنْتَ یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ! کُنْتَ أَلْزَمَنَا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہِ وَصَحْبِہِ وَسَلَّمَ وَأَعْلَمَنَا بِحَدِیْثِہِ۔ (مسند احمد: ۴۴۵۳)

سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ وہ سیّدنا ابرہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس سے گزرے، جبکہ وہ یہ حدیث بیان کر رہے تھے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی میت کے ساتھ جائے اور نماز جنازہ پڑھے اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے اور اگر وہ دفن تک ساتھ رہے تو اسے دو قیراط ثواب ملتا ہے، ایک قیراط احدپہاڑ سے بھی بڑا ہوتاہے۔ یہ حدیث سن کر سیّدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ابوہِر! ذرا خیال کروکہ تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کیا کچھ بیان کر رہے ہو؟ایک روایت میں ہے: انہوں نے کہا: ابوہریرہ! ذرا غور کرو کہ تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کیا بیان کر رہے ہو؟ تم رسول اللہ سے بہت زیادہ احادیث بیان کرتے ہو۔ یہ سن کر سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کو سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس لے گئے اور کہا اے ام المومنین! میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر یہ پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ جو آدمی میت کے ساتھ چلے اور نماز جنازہ پڑھے تو اسے ایک قیراط اور جو آدمی دفن تک ساتھ رہے اسے دو قیراط اجر ملتا ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، میں نے یہ حدیث سنی ہے۔ پھر سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:(اصل بات یہ ہے کہ) نہ کھیتی باڑی مجھے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے مصروف رکھ سکی اور نہ بازاروں میں سودا کرنا، میں تو اس تلاش میں رہتا تھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے کسی کلمے اور فرمان کی تعلیم دے دیں اور کوئی کھانا کھلا دیں۔ یہ سن کر سیّدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے ابوہریرہ! واقعی تم ہم سب سے زیادہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رہتے تھے اور ہم سب سے بڑھ کر احادیث رسول کو جانتے ہیں۔

Haidth Number: 3136
مولائے رسول سیّدنا ثوبان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص میت کے ساتھ جا کر نماز جنازہ پڑھے، اسے ایک قیراط اور جو دفن تک ساتھ رہے، اسے دو قیراط اجر ملتا ہے۔ کسی نے کہا: دو قیراطوں سے کیا مراد ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چھوٹاقیراط احد پہاڑ کے برابر ہوتا ہے۔

Haidth Number: 3137
سیّدنا عبد اللہ بن مغفل ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جوآدمی نماز جنازہ پڑھنے تک میت کے ساتھ رہتا ہے اسے ایک قیراط اجر ملتا ہے اور جو شخص انتظار کرتا ہے، یہاں تک کہ اس کے دفن سے فارغ ہو جاتا ہے تو اس کو دو قیراط ثواب ملتا ہے ۔

Haidth Number: 3138
سیّدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص میت کی چارپائی اٹھانے کے وقت سے اس کے ساتھ رہتاہے اور قبر میں مٹی بھی ڈالتا ہے اور اس وقت تک ساتھ رہتا ہے کہ دفن کے بعد اسے واپسی کی اجازت دے دی جاتی ہے تو وہ اجر کے دو قیراط لے کر واپس ہوتا ہے اور ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہوتا ہے۔

Haidth Number: 3139
سیّدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص اہل میت کے ہاں جائے، پھر نمازجنازہ پڑھنے تک میت کے ساتھ رہے تو اسے ایک قیراط اور جو (دفن تک) اس کے ساتھ رہے، اسے ثواب کے دو قیراط ملیں گے، (ایک قیراط) احد پہاڑ کی مثل ہوتا ہے۔

Haidth Number: 3140
(دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص میت کی نماز جنازہ پڑھتا ہے، پھر اسے رخصت کرنے کے لیے (قبر تک) ساتھ رہتا ہے تو اسے اجر کے دو قیراط ملتے ہیں اور جو نماز پڑھ کر (واپس آ جاتا ہے اور) آخر تک اس کے ساتھ نہیں رہتا، تو اسے ایک قیراط ملتا ہے، ایک قیراط احد پہاڑ جتنا بڑا ہوتا ہے۔

Haidth Number: 3141
سیّدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص میت کے ساتھ جائے (اور اس کے ساتھ ہی رہے) یہاں تک کہ نماز جنازہ اور (تدفین) سے فارغ ہو جائے تو اس کے دو قیراط اجر ہو گا اور جو آدمی اس کے ساتھ جائے، یہاں تک کہ اس پر نماز سے فارغ ہوا جائے، اس کے لیے ایک قیراط اجر ہو گا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی جان ہے! یہ قیراط اس شخص کے ترازو میں احد پہاڑ سے بھی بھاری ہو گا۔

Haidth Number: 3142
سیّدنا جریر بن عبداللہ بَجَلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے آکر اسلام قبول کیا، ایک سفر کے دوران رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسے اسلام کی تعلیم دیتے رہے، چلتے چلتے اس کے اونٹ کا پائوں ایک قسم کے چھوٹے چوہے کے بل پر جا پڑا، جس کہ وجہ سے وہ اونٹ سے گر کر فوت ہو گیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی میت کے پاس آئے اور فرمایاـ: اس نے عمل تو تھوڑا کیا، لیکن ثواب بہت زیادہ پا لیا۔)) حماد راوی نے یہ جملہ تین دفعہ دہرایا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : لحد ہمارے لیے ہے اور شق دوسروں کے لیے ہے۔

Haidth Number: 3250
(دوسری سند) اس میں ہے: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور قبر کے کنارے پر بیٹھ گئے اور فرمایا: بغلی قبر بنائو، شق نہ بناؤ، کیونکہ لحد ہمارے لیے ہے اور شق دوسروں کے لیے۔

Haidth Number: 3251
Haidth Number: 3252
سیّدنا ہشام بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: غزوہ احد والے دن انصاری صحابہ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہم بہت زخمی اور تھکے ہوئے ہیں، (اب ان شہداء کی تدفین کے بارے میں ) آپ ہمیں کیا حکم دیں گے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قبریں کھودو اور ان کو وسیع اور گہرا کرو، اور دو دو اور تین تین آدمی ایک ایک قبر میں دفنا دو۔ انھوں نے کہا: ہم ان میں سے کس کو مقدم کر کے رکھیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جسے زیادہ قرآن یاد ہو۔ ہشام کہتے ہیں: چنانچہ میرے والدعامر کو ایک یا دو آدمیوں سے آگے رکھا گیا۔

Haidth Number: 3253
(دوسری سند) سیّدنا ہشام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میرے والد غزوہ احد والے دن شہید ہو گئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قبریں کھودو، وسیع کرو اور ان کو اچھا بناؤ اور دو دو، تین تین افراد کو ایک ایک قبر میں دفن کرو اور جس کو زیادہ قرآن یاد ہو، اسے آگے کی طرف رکھو۔ میرے باپ تین افراد میں سے تیسرے تھے، چونکہ ان کو قرآن زیادہ یاد تھا، اس لیے ان کو مقدم کر کے رکھا گیا۔

Haidth Number: 3254
ایک انصاری صحابی بیان کرتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک انصاری کے جنازہ میں نکلے، میں چھوٹا لڑکا تھا اور اپنے والد کے ہمراہ گیا تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبر کے گڑھے کے قریب بیٹھ گئے اور قبر بنانے والے سے فرمانے لگے: سر کی طرف سے قبر کو کھلا کرو، پائوں کی طرف وسیع کرو، جنت میں اس میت کے لیے کھجور کے بہت سے خوشے ہیں۔

Haidth Number: 3255
سیّدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم لوگ میرے لیے لحد بنانا اور میرے اوپر اسی طرح کچی اینٹیں رکھ دینا،جس طرح رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کیا گیا تھا۔

Haidth Number: 3256
سیّدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے غلام ہانی کہتے ہیں کہ جب سیّدناعثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ ان کی داڑھی تر ہو جاتی، کسی نے ان سے کہا: آپ جنت اور دوزخ کا ذکر بھی کرتے ہیں، لیکن اس وقت تو اتنا نہیں روتے اور قبر کو دیکھ کر اس قدر روتے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ہے: قبر آخرت کی منازل میں سب سے پہلی منزل ہے، اگر کوئی آدمی اس میں کامیاب ہو جاتا ہے تو بعد والے مراحل اس سے زیادہ آسان ہو جائیں گے، لیکن اگر کوئی شخص اس سے ہی نجات نہ پا سکا تو بعد والے مراحل اس سے مشکل ہوں گے۔ اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے جب بھی (اللہ کے عذاب کے) مناظر دیکھے تو قبر کا منظر سب سے ہولناک پایا۔

Haidth Number: 3297
سیّدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قبر کے فَتَّان (فرشتوں) کا ذکر کیا، سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:اے اللہ کے رسول! کیا وہاں ہماری عقلیں لوٹا دی جائیں گی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، بالکل آج کی طرح۔ تو سیّدناعمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس کے منہ میں پتھر۔

Haidth Number: 3298
سیّدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر آدمی پر (قبر میں) میں صبح و شام اس کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے، اگر وہ جنتی ہو تو اہلِ جنت کا اور اگر وہ جہنمی ہے تو اہل جہنم کا، اور اس سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قیامت کے روز جب تجھے اٹھایا جائے گا تو یہ تیرا ٹھکانہ ہوگا۔

Haidth Number: 3299

۔ (۳۳۰۰) عَنْ أَبِی سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: شَہِدْتُّ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَنَازَۃً فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((یَاأَیُّہَا النَّاسُ! إِنَّ ہٰذِہِ الأُمَّۃَ تُبْتَلٰی ِفی قُبُوْرِہَا، فَإِذَا الإِْنْسَانُ دُفِنَ فَتَفَّرَقَ عَنْہُ أَصْحَابُہُ، جَائَ ہُ مَلَکٌ، فِی یَدِہِ مِطْرَاقٌ فَأَقْعَدَہُ قَالَ: مَا تَقُوْلُ فِی ہٰذَا الرَّجُلِ؟ فَإِنْ کَانَ مُؤْمِنًا قَالَ: أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدً عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ، فَیَقُوْلُ: صَدَقْتَ، ثُمَّ یُفْتَحُ لَہُ بَابٌ إِلٰی النَّارِ فَیَقُوْلُ: ہٰذَا کَانَ مَنْزِلُکَ لَوْ کَفَرْتَ بِرَبِّکَ، فَاَمَّا إِذْ آمَنْتَ فَہٰذَا مَنْزِلُکَ، فَیُفْتَحُ لَہُ بَابٌ إِلٰی الْجَنَّۃِ فَیُرِیْدُ أَنْ یَنْہَضَ إِلَیْہِ ، فَیَقُوْلُ لَہُ: اُسْکُنْ وَیُفْسَحُ لَہُ فِی قَبْرِہِ (وَإِنْ کَانَ کَافِرً أَوْ مُنَافِقًا) یَقُوْلُ لَہُ: مَا تَقُوْلُ فیِ ہٰذَا الرَّجُلِ؟ فَیَقُوْلُ: لَا أَدْرِی، سَمِعْتُ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ شَیْئًا فَیَقُوْلُ: لَا دَرَیْتَ وَلَا تَلَیْتَ وَلَا اہْتَدَیْتَ، ثُمَّ یُفْتَحُ بَابٌ إِلٰی جَنَّۃٍ فَیَقُوْلُ: ہٰذَا مَنْزِلُکَ لَوْ آمَنْتَ بِرَبِّکَ، فَأَمَّا إِذَا کَفَرْتَ بِہِ فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ أَبْدَلَکَ بِہِ ہٰذَا وَیُفْتَحُ لَہُ بَابٌ إِلٰی النَّارِ ، ثُمَّ یَقْمَعُہُ قَمْعَۃً بِالْمِطْرَاقِ یَسْمَعُہَا خَلْقُ اللّٰہِ کُلُّہُمْ غَیْرَ الثَّقَلَیْنِ۔)) فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا أَحَدٌ یَقُوْمُ عَلَیْہِ مَلَکٌ فِی یَدِہِ مِطْرَاقٌ إِلَّاہُبِلَ عِنْدَ ذَالِکَ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : {یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ۔} (مسند احمد: ۱۱۰۱۳)

سیّدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ ایک جنازہ میں شریک تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگو! اس امت کو قبروں میں آزمایا جاتا ہے، جب انسان کو دفن کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے جدا ہوتے ہیں تو اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک گرز ہوتا ہے، وہ اس میت کو بٹھا کر پوچھتا ہے: تم اس آدمی (یعنی محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم )کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ اگر وہ مومن ہو تووہ کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ یہ سن کر فرشتہ اس سے کہتا ہے: تم نے سچ کہا۔ پھر اس میت کے لیے جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور فرشتہ اسے کہتا ہے: اگر تم نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا ہوتا تو تمہارا یہ ٹھکانہ ہوتا، مگر اب تم مومن ہو، اس لیے تمہارا ٹھکانہ یہ ہے، اتنے میں اس کے لیے جنت کی طرف سے دروازہ کھول دیاجاتا ہے اور جب وہ میت ادھر کو اٹھنے کا ارادہ کرتا ہے تو فرشتہ اس سے کہتا ہے: (اِدھر ہی) سکون اختیار کرو، پھر اس کے لیے اس کی قبر کو وسیع کر دیا جاتا ہے۔ اور اگر میت کافر یا منافق ہو تو فرشتہ اس سے پوچھتا ہے: تو اس ہستی (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ وہ کہتا ہے:میں تو کچھ نہیں جانتا، البتہ لوگوں کو کچھ کہتے ہوئے سنتا تھا، فرشتہ کہتا ہے: تو نے نہ سمجھا، نہ پڑھا اور نہ ہی ہدایت پائی۔اس کے بعد اس کے لیے جنت کی طرف سے دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور وہ فرشتہ اس سے کہتا ہے: اگر تو اپنے رب پر ایمان لاتاتو تیرا ٹھکانا یہ ہوتا، مگر تو نے چونکہ اپنے رب کے ساتھ کفر کیا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے اس کے متبادل ایک اور ٹھکانا تیار کیا ہے، اتنے میں اس کے لیے جہنم کی طرف سے دروازہ کھول دیا جاتا ہے، پھر وہ فرشتہ اس کو گرز کی ایک زبردست ضرب لگاتا ہے، جس کی آواز کو جن و انس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق سنتی ہے۔ یہ حدیث سن کر کچھ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! جب فرشتہ ہاتھ میں گرز لے کر کسی آدمی کے ساتھ کھڑا ہو گا تو وہ تو حواس باختہ ہو جائے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جوابا یہ آیت پڑھی: : {یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ۔} (سورۂ ابراہیم: ۲۷) یعنی: اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو کلمۂ توحید پر ثابت قدم رکھتا ہے۔

Haidth Number: 3300

۔ (۳۳۰۱) عَنْ أَنَس بْنِ مَالِکَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِی قَبْرِہِ وَتَوَلّٰی عَنْہُ أَصْحَابُہٗ حَتّٰی إِنَّہُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِہِمْ أَتَاہُ مَلَکَانِ فَیُقْعِدَانِہِ فَیَقُوْلَانِ لَہُ: مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِی ہٰذَا الرَّجُلِ، لِمُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَیَقُوْلُ: أَشْہَدُ أَنَّہُ عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ، فَیُقَالُ: اُنْظُرْ إِلٰی مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ، قَدْ أَبْدَلَکَ اللّٰہُ بِہِ مَقْعَدًا فِی الْجَنَّۃِ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : فَیَرَاہُمَا جَمِیْعًا قَالَ رَوْحٌ فِی حَدِیْثِہِ: قَالَ قَتَادَۃُ: فَذَکَرَ لَنَا أَنَّہُ یُفْسَحُ لَہُ فِی قَبْرِہِ سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا، وَیُمْلَأُ عَلَیْہِ خَضِرًا إِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلٰی حَدِیْثِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ: قَالَ: وَأَمَّا االْکَافِرُ أَوِ الْمُنَافِقُ فَیَقُالُ لَہُ: مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِی ہٰذَا الرَّجُلِ؟ فَیَقُوْلُ: لَا أَدْرِی، کُنْتُ أَقُوْلُ مَا یَقُوْلُ النَّاسُ، فَیُقَالُ لَہُ: لَا دَرَیْتَ وَلَا تَلَیْتَ، ثُمَّ یُضْرَبُ بِمِطْرَاقٍ مِنْ حَدِیْدٍ ضَرْبَۃً بَیْنَ أُذُنَیْہِ فَیَصِیْحُ صَیْحَۃً فَیَسْمَعُہَا مَنْ یَلِیْہِ غَیْرَ الثَّقَلَیْنِ، وَقَالَ بَعْضُہُمْ: یُضَیَّقُ عَلَیْہِ قَبْرُہُ حَتّٰی تَخْتَلِفَ أَضْلَاعُہُ۔)) (مسند احمد: ۱۲۲۹۶)

سیّدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب انسان کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور لوگ (اس کی تدفین کے بعد) واپس جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے، پھر اس کے پاس دو فرشتے آجاتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بارے میں پوچھتے ہیں: تو اس آدمی کے بارے میں کیا کہے گا؟ مومن میت کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اس سے کہا جاتا ہے: تو جہنم میں اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھ، اللہ نے تمہارے لیے اس کے عوض جنت میں ٹھکانا تیار کر دیا ہے، وہ اپنے دونوں ٹھکانوں کی طرف دیکھتا ہے اور قیامت کے دن تک اس کی قبرستر ہاتھ تک فراخ کر دی جاتی ہے اور اس کو تروتازہ نعمتوں سے بھر دیا جاتا ہے۔ رہا مسئلہ کافر یا منافق کہا تو اس سے بھی یہی سوال کیا جاتا ہے کہ تو اس ہستی (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے بارے میں کیا کہے گا؟ وہ کہتا ہے: میں تو نہیں جانتا، لوگ جو کچھ کہتے تھے، میں بھی کہہ دیتا تھا، (لیکن اب میرے علم کوئی چیز نہیں ہے)۔ اس سے کہا جاتا ہے: تو نے نہ سمجھا اور نہ پڑھا، پھر اس کے کانوں کے درمیان لوہے کے گرز کی ایک ایسی ضرب لگائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ ایسا چلّاتا ہے کہ جن وانس کے علاوہ قریب والی مخلوق اس کی چیخ و پکار کو سنتی ہے اوراس قبر کو اس قدر تنگ کر دیا جاتا ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں۔

Haidth Number: 3301

۔ (۳۳۰۲) عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: جَائَ ْت یَہُوِدَّیۃٌ فَاسْتَطْعَمَتْ عَلٰی بَاَبیِ، فَقَالَتْ: أَطْعِمُوْنِیْ أَعَاذَکُمْ اللّٰہُ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَالِ وَمِنْ فِتْنَۃِ عَذَابِ الْقَبْرِ، قَالَتْ: فَلَمْ أَزَلْ أَحْبِسُہَا حَتّٰی جَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا تَقُوْلُ ہٰذِہِ الْیَہُوْدِیَّۃُ؟ قَالَ: ((وَمَا تَقُوْلُ؟)) قُلْتُ: تَقُوْلُ: أَعَاذَکُمُ اللّٰہُ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ وَمِنْ فِتْنَۃِ عَذَابِ الْقَبْرِ۔ قَالَتْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَفَعَ یَدَیْہِ مَدًّا یَسْتَعِیْذُ بِاللّٰہِ مِنْ فِتْنَۃِ عَذَابِ النَّارِ، ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا فِتْنَۃُ الدَّجَّالِ فَإِنَّہُ لَمْ یَکُنْ نَبِیٌّ إِلَّا قَدْ حَذَّرَ أُمَّتَہُ وَسَأُحَذِّرُکُمُوْہُ تَحْذِیْرًا لَمْ یُحَذِّرْہُ نَبِیٌّ أُمَّتَہٗ إِنَّہُ أَعْوَرُ وَاللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لَیْسَ بِأَعْوَرَ، مَکْتُوْبٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ کَافِرٌ یَقْرَؤُہُ کُلُّ مُؤْمِنٍ۔ فَأَمَّا فِتْنَۃُ الْقَبْرِ فَبِیْ تُفْتَنُوْنَ وَعَنِِّیْ تُسْأَلُوْنَ، فَإِذَا کَانَ الرَّجُلُ الصَّالِحُ أُجْلِسَ فِی قَبْرِہِ غَیْرَ فَزِعٍ وَلَامَشْعُوْفٍ، ثُمَّ یُقَالُ لَہٗ: فِیْمَ کُنْتَ؟ فَیَقُوْلُ: فِی الإِسْلَامِ، فَیُقَالُ: مَا ہٰذَا الرَّجُلُ الَّذِیْ کَانَ فِیْکُمْ؟ فَیَقُوْلُ: مَحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جَائَ نَا بِالْبَیِّنَاتِ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَصَدَّقْنَاہُ، فَیُفْرَجُ لَہُ فُرْجَۃٌ قِبَلَ النَّارِ فَیَنَظُرُ إِلَیْہَا یَحْطِمُ بَعْضُہَا بَعْضًا، فَیُقَالُ لَہُ: اُنْظُرْ إِلٰی مَا وَقَاکَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ ثُمَّ یُفْرَجُ لَہُ فُرْجَۃٌ إِلٰی الْجَنَّۃِ، فَیَنْظُرُ إِلٰی زَہْرَتِہَا وَمَا فِیْہَا فَیُقَالُ لَہُ: ہٰذَا مَقْعَدُکَ مِنْہَا، وَیُقَالُ: عَلیَ الْیَقِیْنِ کُنْتَ وَعَلَیْہِ مِتَّ وَعَلَیْہِ تُبْعَثُ إِنْ شَائَ اللّٰہُ۔ وَإِنْ کَانَ الرَّجُلُ سَوْئً اُجْلِسَ فِی قَبْرِہِ فَزِعًا مَشْعُوْفًا، فَیُقَالَ لَہُ: فِیْمَ کُنْتَ؟ فَیَقُوْلُ: لَا أَدْرِی، فَیُقَالُ: مَا ہٰذَا الرَّجُلُ الَّذِی کَانَ فِیْکُمْ؟ فَیَقُوْلُ: سَمِعْتُ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ قَوْلًا فَقُلْتُ کَمَا قَالُوْا، فَیُفْرَجُ لَہُ فُرْجَۃٌ قِبَلَ الْجَنَّۃِ فَیَنْظُرُ إِلٰی زَہْرَتِہَا وَمَا فِیْہَا، فَیُقَالُ لَہُ: اُنْظُرْ إِلٰی مَاصَرَفَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَنْکَ، ثُمَّ یُفْرَجُ لَہُ فُرْجَۃٌ قِبَلَ النَّارِ فَیَنْظُرُ إِلَیْہَا یَحْطِمُ بَعْضُہَا بَعْضًا وَیُقَالُ: ھٰذَا مَقْعَدُکَ مِنْہَا، کُنْتَ عَلَی الشَّکِّ وَعَلَیْہِ مِتَّ، وَعَلَیْہِ تُبْعَثُ إِنْ شَائَ اللّٰہُ ثُمَّ یُعَذَّبُ۔)) (مسند احمد: ۲۵۶۰۲)

سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میرے دروازے پر ایک یہودی عورت کھانا مانگنے کے لیے آئی اور اس نے کہا: اللہ تمہیں فتنۂ دجال اور عذابِ قبر سے محفوظ رکھے، مجھے کھانا دو۔ میں نے اسے کافی دیر تک روکے رکھا، یہاں تک کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لے آئے،میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ یہودی عورت کیا کہتی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا کہتی ہے؟ میں نے کہا: یہ کہتی ہے کہ اللہ تمہیں دجال کے فتنہ سے اور قبر کے عذاب سے محفوظ رکھے۔ یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھڑے ہو گئے، اپنے ہاتھوں کو پھیلایا اور اللہ سے دجال کے فتنہ اور قبر کے عذاب سے پناہ مانگنے لگے۔ پھر فرمایا: دجال کا فتنہ تو ایسا فتنہ ہے کہ ہر نبی نے اپنی امت کو اس سے خبردار کیا ۔ میں بھی تمہیں اس سے ایسا خبردار کرتا ہوں کہ کسی نبی نے اپنی امت کو ویسا خبردار نہیں کیا، (سنو کہ) وہ کانا ہوگا، جبکہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے اور اس کی آنکھوں کے درمیان کافر کا لفظ لکھا ہواگا، ہر مومن اسے پڑھ لے گا۔رہا مسئلہ فتنۂ قبر کا تو اس میں تو میرے بارے میں بھی تمہیں آزمایا جائے گا اور میرے متعلق تم سے سوال کیا جائے گا۔ جب مرنے والا آدمی نیک ہوتا ہے تو اسے قبر میں اس حال میں بٹھایا جاتا ہے کہ اس پر گھبراہٹ اور پریشانی کے کوئی آثار نہیں ہوتے۔ اس سے پوچھا جاتا ہے: تم کس دین پر تھے؟ وہ کہتا ہے: اسلام پر تھا۔ پھر اس سے پوچھا جاتا ہے: تمہارے درمیان جس ہستی کو مبعوث کیا گیا، وہ کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے: وہ اللہ کے رسول محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہیں، وہ اللہ کی طرف سے ہمارے پاس واضح دلائل لے کر تشریف لائے تھے اور ہم نے ان کی تصدیق کی۔ اس کے بعد اس کے لیے جہنم کی طرف ایک سوراخ کھول دیا جاتا ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ جہنم کا بعض حصہ بعض کو کھا رہا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے: اس چیز کی طرف دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے جس سے تمہیں بچا لیا ہے، اُدھر دیکھو، پھر اس کے لیے جنت کی طرف ایک سوراخ کھول دیا جاتا ہے، وہ جنت کی رونق و بہار اور اس میں موجود دوسری نعمتوں کو دیکھتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے: اس جنت میں یہ ٹھکانہ تیرا ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ تم دنیا میں یقین پر جیئے، اسی پر فوت ہوئے اور اسی پر ان شاء اللہ اٹھائے جاؤ گے۔اور اگر وہ میت براہو تو اسے جب قبر میں بٹھایا جاتا ہے تو وہ گھبرایا ہوا اور بہت زیادہ خوفزدہ ہوتا ہے۔اس سے پوچھا جاتا ہے: تو دنیا میں کس دین پر تھا؟ وہ جواب دیتا ہے: میں کچھ نہیں جانتا۔اس سے کہا جاتا ہے: جس ہستی کو تمہارے درمیان مبعوث کیا گیا، وہ کون ہے؟ وہ کہتا ہے: میں نے لوگوں کو جو کہتے ہوئے سنا، میں نے بھی وہی کچھ کہہ دیا تھا، (اب تو مجھے کسی چیز کا علم نہیں ہے)۔ اس کے بعد اس کے لیے جنت کی طرف ایک شگاف کھول دیا جاتا ہے، وہ اس کی رونقوں اور اس کی نعمتوں کو دیکھتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے: اس چیز کی طرف دیکھ جو اللہ تعالیٰ نے تجھ سے پھیر لی ہے، اتنے میں جہنم کی طرف سے ایک سوراخ کھول دیا جاتا ہے، وہ اس کی طرف دیکھتا ہے کہ اس کا بعض بعض کو کھا رہا ہوتا ہے، پھر اسے کہا جاتا ہے: جہنم میں تیرا ٹھکانہ یہ ہے، دراصل بات یہ ہے کہ تو شک پر تھا، اسی پر مرا اور اسی پر تجھے ان شاء اللہ اٹھایا جائے گا، پھر اسے عذاب دیا جاتا ہے۔

Haidth Number: 3302

۔ (۳۳۰۳) عَنْ أَبِی الزُّبَیْرِ أَنَّہُ سَأَلَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما عَنْ فَتَّانِیْ الْقَبْرِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((إِنَّ ہٰذِہِ الْأُمَّۃَ تُبْتَلٰی فِی قُبُوْرِہَا، فَإِذَا أُدْخِلَ الْمُؤْمِنُ قَبْرَہُ وَتَوَلّٰی عَنْہُ أَصْحَابُہٗ جَائَ مَلَکٌ شَدِیْدُ الْاِنْتِہَارِ فَیَقُوْلُ لَہُ: مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِی ہٰذَا الرَّجُلِ؟ فَیَقُوْلُ الْمُؤْمِنُ: إِنَّہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَعَبْدُہُ، فَیَقُوْلُ لَہُ الْمَلَکُ: اُنْظُرْ إِلٰی مَقْعَدِکَ الَّذِیْ کَانَ فِی النَّارِ، قَدْ أَنْجَاکَ اللّٰہُ مِنْہُ وَأَبْدَلَکَ بِمَقْعَدِکَ الَّذِی تَرٰی مِنَ النَّارِ مَقْعَدَکَ الَّذِیْ تَرٰی مِنَ الْجَنَّۃِ، فَیَرَاہُمَا کِلَاہُمَا، فَیَقُوْلُ الْمُؤْمِنُ: دَعُوْنِی، أُبَشِّرُ أَہْلِیْ، فَیُقَالُ لَہُ: اُسْکُنْ، وَأَمَّا الْمُنَافِقُ فَیُقْعَدُ إِذَا تَوَلّٰی عَنْہُ أَہْلُہٗ، فَیُقَالُ لَہُ: مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِی ہٰذَا الرَّجُلُ؟ فَیُقْوُلُ: لَا أَدْرِی، أَقُوْلُ مَا یَقُوْلُ النَّاسُ، فَیُقَالُ لَہُ: لَا دَرَیْتَ، ہٰذَا مَقْعَدُکَ الَّذِی کَانَ لَکَ مِنَ الْجَنَّۃِ، قَدْ أُبْدِلْتَ مَکَانَہُ مَقْعَدَکَ مِنَ النَّارِ۔)) قَالَ جَابِرٌ: فَسَمِعْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((یُبْعَثُ کُلُّ عَبْدٍ فِی الْقَبْرِ عَلٰی مَا مَاتَ، الْمُؤْمِنُ عَلٰی إِیْمَانِہِ، وَالْمُنَافِقُ عَلٰی نِفَاقِہِ۔)) (مسند احمد: ۱۴۷۷۹)

ابوزبیر کہتے ہیں: میں نے سیّدناجابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے قبر میں فتنے میں ڈالنے والے فرشتوں کے متعلق دریافت کیا،انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس کے بارے میں یہ فرماتے ہوئے سنا: لوگوں کو ان کی قبروں میں آزمایا جاتا ہے، جب مومن کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے اور لوگ اسے دفنا کر واپس آتے ہیں تو ایک انتہائی بارعب فرشتہ اس کے پاس آجاتا ہے اور کہتا ہے: تم اس شخصیت (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ مومن جواب دیتا ہے: وہ اللہ کے رسول اور بندے ہیں۔ فرشتہ اس سے کہتا ہے: تم جہنم میں اپنے اس ٹھکانے کو دیکھو کہ جس سے اللہ نے تمہیں نجات دلائی ہے اور اپنے اس ٹھکانے کی طرف دیکھ، جو اللہ تعالیٰ نے جہنم والی اس منزل کے متبادل تجھے عطا کیا ہے، پھر وہ دونوں ٹھکانوں کو دیکھتا ہے اور کہتا ہے: مجھے چھوڑو ذرا، میں اپنے اہل خانہ کو خوشخبری سناتا ہوں، لیکن اس سے کہا جاتا ہے: ٹھہر جا۔ رہا مسئلہ منافق کا تو جب لوگ اسے دفنا کر واپس ہوتے ہیں تو اسے بٹھا کر اس سے پوچھا جاتا ہے: تم اس ہستی (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ وہ کہتا ہے:میں نہیں جانتا،بس میں بھی وہی کہہ دیتا تھا، جو دوسرے لوگ کہا کرتے تھے، پس اس سے کہا جاتا ہے: تو نے سمجھا نہیں، تیرا جنت میں یہ مقام تھا، لیکن اب اس کے عوض تیرے لیے جہنم میں یہ ٹھکانا ہے۔ سیّدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا تھا کہ ہر آدمی جس عقیدے پر فوت ہوتا ہے، اس کو اسی عقیدے پر اٹھایا جاتا ہے، یعنی مومن کو ایمان پر اور منافق کو نفاق پر۔

Haidth Number: 3303

۔ (۳۳۰۴) عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنَکَدِرِ قَالَ: کَانَتْ أَسْمَائُ بِنْتُ أَبِی بَکْرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما تُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: قَالَ: ((إِذَا دَخَلَ الإِنْسَانُ قَبْرَہُ، فَإِنْ کَانَ مُؤْمِنًا أَحَفَّ بِہِ عَمَلُہُ، الصَّلَاۃُ وَالصِّیَامُ، قَالَ فَیَأْتِیْہِ الْمَلَکُ مِنْ نَحْوِ الصَّلَاۃِ فَتُرُّدُہ وَمِنْ نَحْوِ الصِّیَامِ فَیَرُدُّہُ، قَالَ فَیُنَادِیْہِ اِجْلِسْ، قَالَ فَیَجْلِسُ فَیَقُوْلُ لَہُ: مَا ذَا تَقُوْلُ فِی ہٰذَا الرَّجُلِ یَعْنِی النَّبِیَّ؟ قَالَ: مَنْ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَنَا أَشْہَدُ أَنَّہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: یَقُوْلُ: وَمَا یُدْرِیْکَ؟ أَدْرَکْتَہُ؟ قَالَ: أَشْہَدُ أَنَّہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ، قَالَ: یَقُوْلُ: عَلٰی ذَالِکَ عِشْتَ وَعَلَیْہِ مِتَّ وَعَلَیْہِ تُبْعَثُ، قَالَ وَإِنْ کَانَ فَاجِرًا أَوْ کَافِرًا قَالَ جَائَ الْمَلَکَ وَلَیْسَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ شَیْئٌ یَرُدُّہُ، قَالَ: فَأَجْلَسَہُ، قَالَ: یَقُوْلُ: اِجْلِسْ، مَا ذَا تَقُوْلُ فِی ہٰذَا الرَّجُلِ؟ قَالَ: اَیُّ رَجُلٍ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ،قَالَ: یَقُوْلُ: وَاللّٰہِ! مَاأَدْرِی سَمِعْتُ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ شَیْئًا فَقُلْتُہُ، قَالَ: فَیَقُوْلُ لَہُ الْمَلَکُ: عَلٰی ذَالِکَ عِشْتَ وَعَلَیْہِ مِتَّ وَعَلَیْہِ تُبْعَثُ، قَالَ وَتُسَلَّطُ عَلَیْہِ دَابَّۃٌ فِی قَبْرِہِ مَعَہَا سَوْطٌ ثَمَرَتُہُ جَمْرَۃٌ مِثْلَ غَرْبِ الْبَعِیْرِ، تَضْرِبُہُ مَاشَائَ اللّٰہُ، صَمَّائُ لَا تَسْمَعُ صَوْتَہُ فَتَرْحَمَہُ۔)) (مسند احمد: ۲۷۵۱۶)

سیدہ اسماء بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب انسان قبر میں داخل ہوتا ہے، تو اگر وہ مومن ہو تو اس کے نیک اعمال نماز اور روزہ وغیرہ اسے گھیر لیتے ہیں، جب فرشتہ اس کی طرف نماز والی جانب سے آتا ہے تو نماز اسے روک لیتی ہے اور جب روزہ والی جانب سے آتا ہے تو روزہ اسے روک دیتا ہے، اس لیے فرشتہ دور سے ہی آواز دے دیتا ہے: بیٹھ جا، وہ اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے،فرشتہ پوچھتا ہے: تم اس آدمی یعنی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بارے میں کیا کہتے ہو؟وہ آگے سے پوچھتا ہے: وہ کون سا آدمی؟ فرشتہ کہتا ہے: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ وہ کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ فرشتہ کہتا ہے: تمہیں اس کا علم کیسے ہوا؟ کیا تم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا تھا؟ وہ کہتا ہے:میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ فرشتہ کہتا ہے: تم نے اسی عقیدہ پر زندگی گزاری، اسی پر تمہیں موت آئی اور تمہیں اسی پراٹھایا جائے گا۔ اگر فوت شدہ آدمی کافر یا فاجر ہو تو اس کے پاس فرشتہ آتا ہے اور (عمل کی صورت میں) اس کے پاس فرشتے کو روکنے والی کوئی چیز نہیں ہوتی، سو وہ اسے بٹھا کر پوچھتا ہے: تو اس آدمی کے بارے کیا کہتا ہے؟ وہ کہتا ہے: کونسا آدمی؟ فرشتہ کہتا ہے: محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ وہ کہتا ہے: اللہ کی قسم! میں تو کچھ نہیں جانتا، ہاں میں لوگوں کو جو بات کہتے ہوئے سنتا تھا، میں بھی وہی کہہ دیتا تھا۔ فرشتہ اس سے کہتا ہے: اسی پر تیری زندگی گزری، اسی پر تجھے موت آئی اور اسی پر تجھے اٹھایا جائے گا۔اس کے بعد اس کی قبر میں اس پر ایک جاندار مسلط کر دیا جاتا ہے، اس کے پاس ایک کوڑا ہوتا ہے، جس کی (ضرب) کا نتیجہ اونٹ کے بڑے ڈول کی طرح کا انگارہ ہوتا ہے،جب تک اللہ کو منظور ہو گا وہ اسے مارتا رہے گا، وہ جاندار بہرا ہوگا،تاکہ اس کی آواز سن کر اس پر رحم نہ کر دے۔

Haidth Number: 3304
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قبروں کی زیارت ، (چند مخصوص) برتنوں اور تین دنوں کے بعد تک قربانی کے گوشت کوبچا رکھنے سے منع فرمایا تھا۔ لیکن بعد میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، اب تم ان کی زیارت کیا کرو، کیونکہ یہ تمہیں آخرت یاد دلائے گی، نیز میں نے تمہیں کچھ برتنوں سے منع کیاتھا، اب تم ان میں بھی پی سکتے ہو، لیکن ہر نشہ دینے والی چیز سے بچو اور میں نے تمہیں تین دن کے بعد تک قربانی کے گوشت کوبچا رکھنے سے منع کیا تھا، اب تم جب تک چاہو اسے رکھ سکتے ہو۔

Haidth Number: 3343
Haidth Number: 3344
سیدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اسی طرح کی حدیث بیان کی ہے۔ البتہ اس میں یہ الفاظ ہیں: میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا، لیکن اب اگر تم قبرستان کی زیارت کرو توکوئی فحش بات نہ کیا کرو۔

Haidth Number: 3345
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تو تھا، لیکن پھرمجھے خیال آیا ان کی زیارت سے دلوں میں رقت پیدا ہوتی ہے، آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور آخرت یاد آتی ہے، لہٰذاتم قبروں کی زیارت کیا کرو، لیکن کوئی فحش کام نہ کیا کرو۔

Haidth Number: 3346