Blog
Books
Search Hadith

قرآن کریم کے فضائل، تفسیر اور اسبابِ نزول کی کتاب

1247 Hadiths Found
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر نبی کو اتنے معجزات اور نشانیاں عطا کی گئی ہیں کہ لوگ اس پر ایمان لاتے رہے، جو چیز مجھے عطا کی گئی ہے، وہ وحی ہے، اللہ تعالی نے میری طرف وحی کی ہے، مجھے امید ہے کہ روز قیامت میرے فرمانبرداروں کی تعداد سب سے زیادہ ہو گی۔

Haidth Number: 8323
۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایاـ روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے لئے سفارش کریں گے، روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس کو کھانے پینے اور دوسری خواہشات سے سے روکے رکھا، پس تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، اُدھر قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات کو نہ سونے دیا، پس تو اس کے حق میری سفارش قبول فرما۔ سو ان کی سفارش قبول کر لی جائے گی۔

Haidth Number: 8324
۔ سیدنا عقبہ بن عامر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا اگر قرآن پاک کو چمڑے میں رکھ دیا جائے پھر آگ میں ڈال دیا جائے تو جلے گا نہیں۔

Haidth Number: 8325
۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے بعض قوموں کو رفعتیں عطا کرتے ہیں اور بعض کو ذلیل کر دیتے ہیں۔

Haidth Number: 8326
۔ سیدنا شداد بن اوس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی بھی اپنے بستر پر آتا ہے اور کتاب اللہ میں سے ایک سورت تلاوت کرتا ہے تو اللہ تعالی ایک فرشتے کو اس کی طرف بھیجتا ہے، جو اس کی تکلیف دہ چیزوں سے حفاظت کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے، جب بھی ہو۔

Haidth Number: 8327

۔ (۸۴۰۱)۔ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَوْسٍ الثَّقَفِیِّ، عَنْ جَدِّہٖاَوْسِبْنِحُذَیْفَۃَ قَالَ: کُنْتُ فِی الْوَفْدِ الَّذِیْنَ اَتَوُا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَسْلَمُوا مِنْ ثَقِیفٍ مِنْ بَنِی مَالِکٍ، أَ نْزَلَنَا فِی قُبَّۃٍ لَہُ، فَکَانَ یَخْتَلِفُ إِلَیْنَا بَیْنَ بُیُوتِہِ وَبَیْنَ الْمَسْجِدِ، فَإِذَا صَلَّی الْعِشَائَ الْآخِرَۃَ انْصَرَفَ إِلَیْنَا وَلَا نَبْرَحُ حَتّٰییُحَدِّثَنَا وَیَشْتَکِیَ قُرَیْشًا وَیَشْتَکِیَ أَ ہْلَ مَکَّۃَ ثُمَّ یَقُولُ: ((لَا سَوَائَ کُنَّا بِمَکَّۃَ مُسْتَذَلِّینَ وَمُسْتَضْعَفِینَ، فَلَمَّا خَرَجْنَا إِلَی الْمَدِینَۃِ کَانَتْ سِجَالُ الْحَرْبِ عَلَیْنَا وَلَنَا۔)) فَمَکَثَ عَنَّا لَیْلَۃً لَمْ یَأْتِنَا حَتّٰی طَالَ ذَلِکَ عَلَیْنَا بَعْدَ الْعِشَائِ قَالَ: قُلْنَا: مَا أَ مْکَثَکَ عَنَّا یَا رَسُولَ اللّٰہِ!؟ قَالَ: ((طَرَأَ عَلَیَّ حِزْبٌ مِنْ الْقُرْآنِ، فَأَ رَدْتُ أَ نْ لَا أَ خْرُجَ حَتّٰی أَقْضِیَہُ۔)) قَالَ: فَسَأَ لْنَا أَ صْحَابَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ أَصْبَحْنَا، قَالَ: قُلْنَا: کَیْفَ تُحَزِّبُونَ الْقُرْآنَ؟ قَالُوْا: نُحَزِّبُہُ ثَلَاثَ سُوَرٍ، وَخَمْسَ سُوَرٍ، وَسَبْعَ سُوَرٍ، وَتِسْعَ سُوَرٍ، وَإِحْدٰی عَشْرَۃَ سُورَۃً، وَثَلَاثَ عَشْرَۃَ سُورَۃً، وَحِزْبَ الْمُفَصَّلِ مِنْ قَافْ حَتّٰییُخْتَمَ۔ (مسند احمد: ۱۹۲۳۰)

۔ سیدنا اوس بن حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں اس وفد میں موجود تھا، جو ثقیف میں سے بنو مالک قبیلہ سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور اسلام قبول کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ایک خیمہ میں اتارا، جب آپ اپنے گھرسے مسجد کی طرف آتے جاتے تو ہمارے پاس سے گزرتے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز عشاء سے فارغ ہوتے تو ہمارے پاس تشریف لاتے اور کافی دیر تک ہم سے باتیں کرتے، قریش اور اہل مکہ کی شکایات کا ذکر کرتے اور فرماتے: اب برابری نہیں رہی، وقت تبدیل ہو گیا ہے، مکہ میں ہم رل گئے تھے اور ناتواں تھے اور جب ہمیں مکہ سے مدینہ منورہ کی جانب نکال دیا گیا تو جنگ کا ڈول ہماے خلاف بھیبھرا گیا اور ہارے حق میں بھی بھرا گیا (یعنی مقابلہ برابر رہا)۔ ایک رات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس تشریف نہ لائے، عشاء کے بعد کافی دیر ہو گئی، پھر جب تشریف لائے تو ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کے لئے ہمارے پاس نہ آنے کی کیا وجہ تھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرا قرآن کا حزب (رہ گیا تھا)، بس وہ مجھ پر غالب آگیا اور میں نے بھی ارادہ کیا کہ اس کی تکمیل کے بغیر نہیں نکلوں گا۔ جب صبح ہوئی تو ہم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ سے پوچھا: تم قرآن مجید کے کیسے حصے مقرر کرتے ہو اور اجزاء بناتے ہو؟ انھوں نے کہا: ہم اس طرح قرآن مجید کے حصے مقرر کرتے ہیں: تین سورتیں، پانچ سورتیں، سات سورتیں، نو سورتیں، گیارہ سورتیں، تیرہ سورتیں اور سورۂ قاف سے آخر تک کا مفصل حصہ، اس طرح قرآن مجید کی تکمیل ہو جاتی ہے۔

Haidth Number: 8401
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی ایک سورت کے بارے میں ہمارا اختلاف ہو گیا، کسی نے کہا کہ پینتیس آیتیں ہیں اورکسی نے چھتیس آیتوں کی رائے دی، پس ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس چلے گئے اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سرگوشی کرتے ہوئے پایا، ہم نے کہا: قراء ت کے بارے میں ہمارا اختلاف ہو گیا ہے،یہ سنتے ہی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تم کو یہ حکم دے رہے ہیں کہ اس کتاب کو ایسے پڑھو، جیسے تم کو تعلیم دی گئی ہے۔

Haidth Number: 8412

۔ (۸۴۱۳)۔ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ: کُنْتُ فِی الْمَسْجِدَ فَدَخَلَ رَجُلٌ فَقَرَأَ قِرَائَ ۃً أَنْکَرْتُہَا عَلَیْہِ، ثُمَّ دَخَلَ آخَرُ فَقَرَأَ قِرَائَ ۃً سِوَی قِرَائَۃِ صَاحِبِہِ، فَقُمْنَا جَمِیعًا فَدَخَلْنَا عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنَّ ہٰذَا قَرَأَ قِرَائَۃً أَ نْکَرْتُہَا عَلَیْہِ، ثُمَّ دَخَلَ ہٰذَا فَقَرَأَ قِرَائَۃً غَیْرَ قِرَائَۃِ صَاحِبِہِ، فَقَالَ لَہُمَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِقْرَأَ ا۔)) فَقَرَأَ ا قَالَ: ((أَصَبْتُمَا)) فَلَمَّا قَالَ لَہُمَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الَّذِی قَالَ کَبُرَ عَلَیَّ، وَلَا إِذْ کُنْتُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، فَلَمَّا رَأَ ی الَّذِی غَشِیَنِی ضَرَبَ فِی صَدْرِی، فَفِضْتُ عَرَقًا، وَکَأَ نَّمَا أَ نْظُرُ إِلَی اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فَرَقًا، فَقَالَ: ((یَاأُبَیُّ! إِنَّ رَبِّی تَبَارَکَ وَتَعَالٰی أَ رْسَلَ إِلَیَّ أَ نْ اقْرَأَ الْقُرْآنَ عَلٰی حَرْفٍ، فَرَدَدْتُ إِلَیْہِ أَنْ ہَوِّنْ عَلَی أُمَّتِی، فَأَ رْسَلَ إِلَیَّ أَ نْ اقْرَأَ ہُ عَلٰی حَرْفَیْنِ، فَرَدَدْتُ إِلَیْہِ أَ نْ ہَوِّنْ عَلٰی أُمَّتِی فَأَ رْسَلَ إِلَیَّ أَ نْ اقْرَأْہُ عَلٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ، وَلَکَ بِکُلِّ رَدَّۃٍ مَسْأَ لَۃٌ تَسْأَ لُنِیہَا، قَالَ: ((قُلْتُ: اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِی، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِی، وَأَ خَّرْتُ الثَّالِثَۃَ لِیَوْمٍیَرْغَبُ إِلَیَّ فِیہِ الْخَلْقُ حَتَّی إِبْرَاہِیمَ علیہ السلام ۔)) (مسند احمد: ۲۱۴۹۸)

۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں مسجد میں تھا، ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے ایسی قراء ت کی، جس کا میں نے انکار کیا، اتنے میں ایک اور آدمی داخل ہوا تو اس نے پہلے والے فرد کی قراء ت کے خلاف قراء ت کی، ہم اٹھے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس چلے گئے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس آدمی نے جو قراء ت کی ہے، میں اسے بھی نہیں جانتا، پھر یہ دوسرا داخل ہوا ہے، اس نے اس کے خلاف قراء ت کی ہے، اس کو بھی میں نہیں جانتا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان دونوں سے کہا: پڑھو۔ جب انہوں نے تلاوت کی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم دونوں نے درست پڑھا ہے۔ سیدنا ابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دونوں کو درست قرار دیا تو یہ بات مجھ پر بہت گراں گزری، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دیکھا کہ گرانی مجھ پر غالب آ گئی ہے، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے سینے پر ہاتھ مارا، تو مجھے اتنا پسینہ آیا کہ میں بھیگ گیا اور مجھے ایسا لگا کہ میں ڈر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہاہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے ابی! میرے ربّ تعالیٰ نے میری طرف پیغام بھیجا کہ قرآن مجید کو ایک قراء ت پر پڑھوں، میں نے درخواست کی کہ میری امت پر آسانی کرو، پس اللہ تعالی دو قراء توں پر پڑھنے کا پیغام بھیجا، میں نے پھر گزارش کی کہ میری امت پر آسانی کرو، پس اللہ تعالی نے سات قراء توں پر قرآن کی تلاوت کرنے کا پیغامبھیجا، نیز جتنی دفعہ آپ نے مطالبہ کیا، اتنے مجھ سے سوال کر سکتے ہو، میں نے کہا: اے اللہ! میری امت کو بخش دو، اے اللہ ! میری امت کو بخش دو، تیسری دعا میں نے اس دن کے لئے موخر کر دی ہے جس دن مخلوق میرے پاس آئے گی،یہاں تک کہ ابراہیم علیہ السلام بھی۔

Haidth Number: 8413

۔ (۸۴۱۴)۔ عَنْ أَ بِی قَیْسٍ مَوْلٰی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: سَمِعَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ رَجُلًا یَقْرَأُ آیَۃً مِنْ الْقُرْآنِ، فَقَالَ: مَنْ أَ قْرَأَ کَہَا؟ قَالَ: رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَقَدْ أَ قْرَأَ نِیہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی غَیْرِہٰذَا، فَذَہَبَا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ أَحَدُہُمَا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! آیَۃُ کَذَا وَکَذَا ثُمَّ قَرَأَ ہَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((ہٰکَذَا أُنْزِلَتْ)) فَقَالَ الْآخَرُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَقَرَأَ ہَا عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ: أَ لَیْسَ ہٰکَذَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((ہٰکَذَا أُنْزِلَتْ۔)) فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ ہٰذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلٰی سَبْعَۃِ أَ حْرُفٍ، فَأَ یَّ ذٰلِکَ قَرَأْتُمْ فَقَدْ أَحْسَنْتُمْ، وَلَا تَمَارَوْا فِیہِ فَإِنَّ الْمِرَائَ فِیہِ کُفْرٌ أَ وْ آیَۃُ الْکُفْرِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۹۷۵)

۔ سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ قرآن مجید کی آیت پڑھ رہا تھا،انہوں نے اس سے پوچھا: تجھے کس نے یہ آیت پڑھائی ہے؟ اس نے کہا:نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے، انہوں نے کہا: لیکن مجھے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اور انداز میں پڑھائی ہے، پس وہ دونوں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور ایک نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ آیت اس طرح ہے، پھر اس نے اس کی تلاوت کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ دوسرے نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ آیت اس طرح نازل نہیں ہوئی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس طرح بھی نازل ہوئی ہے۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ قرآن مجید سات قراء توں پر نازل ہوا ہے، اس میں سے جس کے مطابق بھی پڑھو، درست ہے، اس قرآن میں جھگڑا مت کرو، کیونکہ اس میں جھگڑا کرنا کفر یا کفر کی علامت ہے۔

Haidth Number: 8414
۔ سیدنا ابو جہیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ دو آدمیوں کا قرآن مجید کی ایک آیت کے بارے میں اختلاف ہوا، پھر اسی طرح کی روایت ذکر کی۔

Haidth Number: 8415
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قرآن مجید سات قراء توں پر نازل ہوا،قرآن میں جھگڑنا کفر ہے، جو تمہیں علم ہو جائے، اس پر عمل کرو اور جس کا علم نہ سکے، اس کو اس کے جاننے والے کے سپرد کر دو۔

Haidth Number: 8416
۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قرآن حکیم سات قراء ات پر نازل ہوا، اسی لیے عَلِیْمًا حَکِیْمًا کے بجائے غَفُوْرًا رَحِیْمًا پڑھا جا سکتا ہے۔

Haidth Number: 8426

۔ (۸۴۱۷)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَ بِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ: لَقَدْ جَلَسْتُ أَ نَا وَأَ خِی مَجْلِسًا، مَا أُحِبُّ أَ نَّ لِی بِہِ حُمْرَ النَّعَمِ، أَ قْبَلْتُ أَ نَا وَأَ خِی وَإِذَا مَشْیَخَۃٌ مِنْ صَحَابَۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جُلُوسٌ عِنْدَ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِہِ، فَکَرِہْنَا أَ نْ نُفَرِّقَ بَیْنَہُمْ، فَجَلَسْنَا حَجْرَۃً إِذْ ذَکَرُوْا آیَۃً مِنْ الْقُرْآنِ فَتَمَارَوْا فِیہَا حَتَّی ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُہُمْ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مُغْضَبًا قَدْ احْمَرَّ وَجْہُہُ یَرْمِیہِمْ بِالتُّرَابِ، وَیَقُولُ: ((مَہْلًا یَا قَوْمِ! بِہٰذَا أُہْلِکَتِ الْأُمَمُ مِنْ قَبْلِکُمْ بِاخْتِلَافِہِمْ عَلٰی أَ نْبِیَائِہِمْ، وَضَرْبِہِمْ الْکُتُبَ بَعْضَہَا بِبَعْضٍ، إِنَّ الْقُرْآنَ لَمْ یَنْزِلْیُکَذِّبُ بَعْضُہُ بَعْضًا، بَلْ یُصَدِّقُ بَعْضُہُ بَعْضًا، فَمَا عَرَفْتُمْ مِنْہُ فَاعْمَلُوْا بِہِ، وَمَا جَہِلْتُمْ مِنْہُ فَرُدُّوہُ إِلَی عَالِمِہِ۔)) (مسند احمد: ۶۷۰۲)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص علیہ السلام سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میرے اور میرے بھائی کے مابین ایک مجلس ہوئی، اس میں بیٹھنامیرے لئے سرخ اونٹوںسے بھی زیادہ قیمتی ہے، تفصیلیہ ہے کہ میں اور میرا بھائی آئے اور بزرگ صحابہ کی ایک جماعت کو پایا کہ وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے، ہم نے ان میں تفریق ڈالنا مناسب نہ سمجھا اور ایک کونے میں بیٹھ گئے، انہوں نے ایک آیت کا ذکر کیااور پھر اس میں جھگڑنا کرنے لگے، یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہو گئیں، اتنے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس آ گئے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غصہ کی حالت میں تھے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرۂ مبارک سرخ ہو گیا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان صحابہ پر مٹی پھینکی اور فرمایا: لوگو! رک جائو، تم میں سے پہلے والی امتیں اسی اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئی تھیں،انہوں نے اپنے انبیاء پر اختلاف کیا اور کتاب کے بعض حصے کو بعض سے ٹکرایا، بیشک قرآن مجید اس طرح نازل نہیں ہوا کہ اس کا بعض بعض کی تکذیب کر رہا ہو، بلکہ اس کا بعض بعض کی تصدیق کرتا ہے، پس جس حصے کا تمہیں علم ہو جائے، اس پر عمل کرو اور جس حصے کا علم نہ ہو سکے، اس کو اس کے جاننے والے کے سپرد کر دو۔

Haidth Number: 8417
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت پڑھی: {وَکَتَبْنَا عَلَیْہِمْ فِیْہَا اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنُ بِالْعَیْنِ} آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے النَّفْسَ کے آخر پر زبر پڑھی اور الْعَیْنُ کے آخر پر پیش۔

Haidth Number: 8418
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد مبارک میں اپنی بیویوں سے زیادہ باتیں کرنے اور زیادہ کھل کر ہنسنے سے گریز کرتے تھے، اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے بارے میں قرآن مجید نازل ہو جائے، جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات پائی تو تب ہم کھل کر بات کرنے لگے۔

Haidth Number: 8432

۔ (۸۴۷۳)۔ عَنْ أَ بِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ وَہُوَ یُصَلِّی فَقَالَ: ((یَا أُبَیُّ!)) فَالْتَفَتَ فَلَمْ یُجِبْہُ، ثُمَّ صَلّٰی أُبَیٌّ فَخَفَّفَ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَیْکَ، أَ یْ رَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: ((وَعَلَیْکَ۔)) قَالَ: ((مَا مَنَعَکَ أَ یْ أُبَیُّ إِذْ دَعَوْتُکَ أَ نْ تُجِیبَنِی؟۔)) قَالَ: أَ یْ رَسُولَ اللّٰہِ! کُنْتُ فِی الصَّلَاۃِ، قَالَ: ((أَ فَلَسْتَ تَجِدُ فِیمَا أَ وْحَی اللّٰہُ إِلَیَّ أَ نْ {اسْتَجِیبُوا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیکُمْ} قَالَ: قَالَ: بَلٰی أَ یْ رَسُولَ اللّٰہِ! لَا أَ عُودُ، قَالَ: ((أَ تُحِبُّ أَ نْ أُعَلِّمَکَ سُورَۃً، لَمْ تَنْزِلْ فِی التَّوْرَاۃِ، وَلَا فِی الزَّبُورِ، وَلَا فِی الْإِنْجِیلِ، وَلَا فِی الْفُرْقَانِ مِثْلُہَا؟)) قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، أَ یْ رَسُولَ اللّٰہِ! فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنِّی لَأَ رْجُو أَ نْ لَا تَخْرُجَ مِنْ ہٰذَا الْبَابِ حَتّٰی تَعْلَمَہَا۔)) قَالَ: فَأَ خَذَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَدِییُحَدِّثُنِی وَأَ نَا أَتَبَطَّأُ مَخَافَۃَ أَ نْ یَبْلُغَ قَبْلَ أَ نْ یَقْضِیَ الْحَدِیثَ، فَلَمَّا أَ نْ دَنَوْنَا مِنْ الْبَابِ قُلْتُ: أَیْ رَسُولَ اللّٰہِ! مَا السُّورَۃُ الَّتِی وَعَدْتَنِی؟ قَالَ: ((فَکَیْفَ تَقْرَأُ فِی الصَّلَاۃِ؟)) قَالَ: فَقَرَأْتُ عَلَیْہِ أُمَّ الْقُرْآنِ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فِی التَّوْرَاۃِ، وَلَا فِی الْاِنْجِیْلِ، وَلَا فِی الزُّبُوْرِ، وَلَا فِی الْفُرْقَانِ مِثْلَہَا، وَاِنَّہَا لَلسَّبْعُ مِنَ الْمَثَانِیْ۔)) زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ بِلَفْظٍ: ((اِنَّہَا السَّبْعُ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْآنُ الْعَظِیْمُ الَّذِیْ اُعْطِیْتُ۔)) (مسند احمد: ۹۳۳۴)

۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلایا، جبکہ وہ نماز پڑھ رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر بلایا: اے ابی ! انہوں نے توجہ تو کی، لیکن جواب نہ دے سکے، پھر انھوں نے تخفیف کے ساتھ نماز مکمل کی اور بعد میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہا: اے اللہ کے نبی! السلام علیک، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم پر سلامتی ہو، اے ابی! جب میں نے تمہیں بلایا تو آنے میں کیا رکاوٹ تھی؟ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نماز پڑھ رہاتھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم نے یہ وحی نہیں سنی {اسْتَجِیبُوا لِلَّہِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیکُمْ} … اے ایمان لانے والو، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیّک کہو جبکہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے انھوں نے کہا: جی کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم پسند کرو گے کہ میں تمہیں وہ سورت سکھائوں کہ اس جیسی سورت نہ تو تورات میں نازل ہوئی ہے، نہ زبور میں، نہ انجیل اور نہ قرآن مجید میں میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ضرورسکھائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں امید رکھتا ہوں تم اس دروازہ سے باہر نہ جائو گے کہ تم کو وہ سکھلا دوں گا۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے باتیں کرنا شروع کر دیں، میں اس خوف سے آہستہ آستہ چل رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ باتیں ختم ہونے سے پہلے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دروازے پر پہنچ جائیں، پھر جب ہم دروازے کے قریب ہوئے تومیں نے کہہ دیا کہ اے اللہ کے رسول! وہ کونسی سورت ہے، جس کا آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نماز میں کیا پڑھتے ہو؟ میں نے جواباً سورۂ فاتحہ کی تلاوت کی، پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اللہ تعالی نے اس جیسی سورت نہ تورات میں نازل میں کی، نہ انجیل میں، نہ زبور میں اور نہ قرآن مجید میں۔یہی وہ سات دہرائی جانے والی آیات ہیں اور یہی قرآن عظیم ہے۔

Haidth Number: 8473
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ام القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ) کے بارے میں فرمایا: یہی وہ سات آیات ہیں جو بار بار دہرائی جاتی ہیں اور اسی سورت کو قرآن عظیم کہتے ہیں۔

Haidth Number: 8474
۔ (دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سورۂ فاتحہ ام القرآن ہے، ام الکتاب ہے اور بار بار پڑھی جانے والی سات آیات ہیں۔

Haidth Number: 8474
۔ سیدنا ابو سعید بن معلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نماز پڑھ رہا تھا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے پاس سے گزرے اور مجھے بلایا، لیکن میں تو نہ آ سکا، حتیٰ کہ میں نے نماز مکمل کی اور پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے پاس آنے میں کیا رکاوٹ تھی؟ میں نے کہا: جی میں نماز پڑھ رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کہا: کیا اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ {یَا أَ یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوْا اسْتَجِیبُوا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیکُمْ} … اے ایمان لانے والو، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیّک کہو جبکہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن مجید کی سب سے عظیم سورت نہ سکھائوں؟ پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یاد کرایا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ سورۂ فاتحہ ہے،یہی وہ سات آیتیں ہیں اور قرآن عظیم ہے جو میں دیا گیا ہوں۔

Haidth Number: 8475
۔ سیدنا عبداللہ بن جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے عبداللہ بن جابر! کیا میں تمہیں قرآن مجید کی بہترین سورت نہ بتا دوں؟ میں نے کہا: جی کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! ضرور بتائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پڑھو {اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ…}، یہاں تک کہ اس کو پورا کر لو۔

Haidth Number: 8476
۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سورۂ فاتحہ جیسی سورت نہ تورات میںنازل کی اور نہ انجیل میں،یہی بار بار پڑھی جانے والی سات آیات ہیں اور یہ سورت میں (اللہ) اور میرے بندے کے درمیان تقسیم کی گئی ہے اور میرے بندے کے لیے وہی کچھ ہے، جو اس نے سوال کیا۔

Haidth Number: 8477

۔ (۸۴۸۵)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ أَ نَّہُ سَمِعَ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُولُ: ((إِنَّ آدَمَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا أَ ہْبَطَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی إِلَی الْأَ رْضِ قَالَتْ الْمَلَائِکَۃُ: أَ یْ رَبِّ! {أَ تَجْعَلُ فِیہَا مَنْ یُفْسِدُ فِیہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ، وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّی أَ عْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ} قَالُوْا: رَبَّنَا نَحْنُ أَ طْوَعُ لَکَ مِنْ بَنِی آدَمَ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی لِلْمَلَائِکَۃِ: ہَلُمُّوا مَلَکَیْنِ مِنْ الْمَلَائِکَۃِ حَتّٰییُہْبَطَ بِہِمَا إِلَی الْأَرْضِ فَنَنْظُرَ کَیْفَیَعْمَلَانِ، قَالُوا رَبَّنَا: ہَارُوتُ وَمَارُوتُ، فَأُہْبِطَا إِلَی الْأَرْضِ وَمُثِّلَتْ لَہُمَا الزُّہَرَۃُ امْرَأَ ۃً مِنْ أَ حْسَنِ الْبَشَرِ، فَجَائَ تْہُمَا فَسَأَ لَاہَا نَفْسَہَا فَقَالَتْ: لَا، وَاللّٰہِ! حَتّٰی تَکَلَّمَا بِہٰذِہِ الْکَلِمَۃِ مِنْ الْإِشْرَاکِ، فَقَالَا: وَاللّٰہِ! لَا نُشْرِکُ بِاللّٰہِ أَ بَدًا، فَذَہَبَتْ عَنْہُمَا ثُمَّ رَجَعَتْ بِصَبِیٍّ تَحْمِلُہُ، فَسَأَ لَاہَا نَفْسَہَا، فَقَالَتْ: لَا، وَاللّٰہِ! حَتّٰی تَقْتُلَا ہٰذَا الصَّبِیَّ، فَقَالَا: وَاللّٰہِ! لَا نَقْتُلُہُ أَ بَدًا، فَذَہَبَتْ ثُمَّ رَجَعَتْ بِقَدَحِ خَمْرٍ تَحْمِلُہُ، فَسَأَ لَاہَا نَفْسَہَا قَالَتْ: لَا، وَاللّٰہِ! حَتّٰی تَشْرَبَا ہٰذَا الْخَمْرَ، فَشَرِبَا فَسَکِرَا فَوَقَعَا عَلَیْہَا، وَقَتَلَا الصَّبِیَّ، فَلَمَّا أَ فَاقَا، قَالَتِ الْمَرْأَ ۃُ: وَاللّٰہِ! مَا تَرَکْتُمَا شَیْئًا مِمَّا أَ بَیْتُمَاہُ عَلَیَّ إِلَّا قَدْ فَعَلْتُمَا حِینَ سَکِرْتُمَا، فَخُیِّرَا بَیْنَ عَذَابِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، فَاخْتَارَا عَذَابَ الدُّنْیَا۔)) (مسند احمد: ۶۱۷۸)

۔ سیدنا عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو زمین پر اتارا تو فرشتوں نے کہا: اے ہمارے پروردگار! {أَ تَجْعَلُ فِیہَا مَنْ یُفْسِدُ فِیہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ، وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّی أَ عْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ} … کیا تو اس زمین میں اس بشر کو آباد کرنے والا ہے، جو اس میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا، جبکہ ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں اور پاکیزگی بیان کرتے ہیں، اللہ نے کہا:میں و ہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ لیکن فرشتوں نے کہا: ہم آدم کی اولاد کی بہ نسبت تیرے زیادہ مطیع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا: اچھا پھر دو فرشتے لائو تا کہ ہم انہیں زمین پر اتاریں اور دیکھیں کہ وہ کیا عمل کرتے ہیں، انہوں نے کہا: اے ہمارے پروردگار! یہ ہاروت اور ماروت دو فرشتے ہیں، پس انہیں زمین پر اتارا گیا اور ان کے سامنے ایک حسین ترین عورت پیش کی گئی،یہ دونوں اس کے پاس آئے اور اس سے اس کے نفس کا یعنی بدکاری کا مطالبہ کیا، لیکن اس نے کہا: اللہ کی قسم: نہیں، اس وقت تک تم قریب نہیں آ سکتے، جب تک تم اللہ تعالیٰ سے شرک والا کلمہ نہیں کہو گے، انہوں نے کہا: ہم تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کر سکتے۔ سو وہ چلی گئی اور پھر ایک بچہ لے کر دوبارہ آ گئی، انہوں نے پھراس عورت سے بدکاری کا مطالبہ کیا، لیکن اس نے کہا:جب تک تم اس بچے کوقتل نہیں کرتے، میرے قریب نہیں آ سکتے۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم اسے تو قتل نہیں کر سکتے، وہ چلی گئی اور اگلی بار شراب کا پیالہ لے کر آئی، جب انہوں نے پھر اس سے اس کے نفس کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں تمہیں قریب نہیں آنے دوں گی،یہاں تک کہ تم یہ شراب پی لو، جب انہوں نے شراب پی لی تو(نشے میں آ کر)اس عورت سے بدکاری بھی کر لی اور بچے کو قتل بھی کر دیا، جب ان کو ہوش آئی تو اس عورت نے کہا: اللہ کی قسم! ہر جس جس چیز کے انکاری تھی، تم نے نشہ کی حالت میں اس کا ارتکاب کر لیا ہے، (اس جرم کی پاداش میں) انہیں دنیا اور آخرت کے عذاب میں سے ایک کو منتخب کرنے کا کہا گیا، انہوں نے دنیا کا عذاب اختیار کیا۔

Haidth Number: 8485
۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: صرف اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے نیت کی، پس جس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی، سو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہو گی اور جس کی ہجرت دنیا کے لیے ہو گی، وہ اس کو پا لے گا اور جس کی ہجرت کسی عورت کے لیے ہو گی، وہ اس سے شاد ی کر لے گا، (غرضیکہ) مہاجر کی ہجرت اسی چیز کے لیے ہو گی، جس (کی نیت سے) وہ ہجرت کرے گا۔

Haidth Number: 8884
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں کو (قیامت والے دن) ان کی نیتوں کے مطابق اٹھایا جائے گا۔

Haidth Number: 8885
۔ سیدنا معن بن یزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے اپنے باپ اور دادا کے ہمراہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیعت کی، انھوں نے میرے لیے منگنی کا پیغام بھیجا اور میرا نکاح بھی کر دیا۔ میں ان کے پاس جھگڑا لے کر گیا۔ اس کی تفصیلیہ ہے کہ میرے باپ سیدنایزید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کچھ دیناروں کا صدقہ کرنے کے لیے نکلے اور مسجد میں ایک شخص کو دے کر آ گئے (تاکہ وہ ان کی طرف سے صدقہ کردے)، لیکن ہوا یہ ہے کہ میں نے اس سے وہ دینار لے لیے اور لے کر گھر آ گیا، پس انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے تجھے دینے کا ارادہ تو نہیں کیا تھا، پس میں یہ جھگڑا لے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے یزید! تیرے لیے تیری نیت ہے اور اے معن! جو کچھ تو نے لے لیا ہے، وہ تیرے لیے ہے۔

Haidth Number: 8886

۔ (۸۸۸۷)۔ عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کَانَ رَجُلٌ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: کَانَ ابْنُ عَمٍّ لِیْ) مَا اَعْلَمُ مِنَ النَّاسِ مِنْ اِنْسَانٍ مِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ مِمَّنْ یُصَلِّیْ اِلَی الْقِبْلَۃِ اَبْعَدَ بَیْتًا مِنَ الْمَسْجِدِ مِنْہُ، قَالَ: فَکَانَیَحْضُرُ الصَّلَوَاتِ کُلَّھُنَّ مَعَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ لَہٗ: لَوِ اشْتَرَیْتَ حِمَارًا تَرْکَبُہٗفِیْ الرَّمْضَائِ وَالظَّلْمَائِ(زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ : وَیَقِیْکَ مِنْ ھَوَامِّ الْاَرْضِ) قَالَ: وَاللّٰہِ! مَا اُحِبُّ اَنَّ بَیْتِیْیَلْزَقُ بِمَسْجِدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (وَفِیْ رِوَایَۃٍ: فَقَالَ مَا یَسُرُّنِیْ اَنَّ بَیْتِیْ مُطَنَّبٌ بِبَیْتِ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ : فَمَا سَمِعْتُ کَلِمَۃً اَکْرَہَ اِلَیَّ مِنْھَا) قَالَ: فَاَخْبَرْتُ رَسْوُلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَسَاَلَہٗعَنْذٰلِکَفَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! لِکَیْمَایُکْتَبَ اَثَرِیْ وَرُجُوْعِیْ اِلٰی اَھْلِیْ وَ اِقْبَالِیْ اِلَیْہِ قَالَ: ((اَنْطَاکَ اللّٰہُ ذَالِکَ کُلَّہٗ)) وَفِیْ لَفْظٍ: ((اِنَّ لَہٗبِکُلِّخُطْوَۃٍ دَرَجَۃً)) وَفِیْ رِوَایَۃٍ فَقَالَ: ((لَکَ مَا نَوَیْتَ اَوْ قَالَ لَکَ اَجْرُ مَا نَوَیْتَ۔)) (مسند احمد: ۲۱۵۳۳)

۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میرا ایک چچا زاد بھائی تھا، میرا خیال ہے کہ مدینہ منورہ کے تمام مسلمانوں میں اس کا گھر سب سے زیادہ دور تھا، لیکن اس کے باوجود وہ تمام نمازوں میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ حاضر ہوتا تھا، ایک دن میں نے اسے کہا: اگر تم کوئیگدھا خرید لو، تاکہ گرمی اور اندھیرے میں اس پر سوار ہو سکو اور کیڑے مکوڑوں سے بچ سکو، لیکن اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو یہ بھی نہیں چاہتا کہ میرا گھر مسجد ِ نبوی کے ساتھ ملا ہوا ہو، ایک روایت میں ہے: مجھے تو یہ بات بھی خوش نہیں کرتی کہ میرا گھر اللہ کے نبی محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھر کے ساتھ ملا ہوا ہو۔ اس کییہ بات مجھے سب سے زیادہ بری لگی، بہرحال میںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ ساری بات بتلا دی، پس جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! (میں چاہتا ہوں کہ جب میں مسجد کی طرف) آؤں اور پھر اپنے اہل کی طرف واپس جاؤں تو میرے قدموں کے یہ سارے نشانات لکھے جائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تجھے یہ سارا کچھ عطا کر دیا ہے۔ ایک روایت میں ہے: بیشک اس شخص کے لیے ہر قدم کے بدلے درجہ ہے۔ اور ایک روایت میں ہے: تیرے لیے وہی کچھ ہے، جو تونے نیت کی ہے، یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس اجر کی تو نے نیت کی ہے، وہ تیرے لیے ہے۔

Haidth Number: 8887
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سو رہے تھے کہ اچانک نیند میں ہی مسکرانے لگے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیدار ہوئے تو میں نے پوچھا: ا ے اللہ کے رسول! آپ کیوں مسکرائے تھے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ اس بیت اللہ (پر چڑھائی کرنے کا) قصد کریں گے، ان کا ہدف وہ قریشی شخص ہو گا، جو حرم میں پناہ لے چکا ہو گا، یہ لوگ جب بیداء مقام تک پہنچیں گے تو اِن سب کو دھنسا دیا جائے گا، لیکن (قیامت والے دن) ان کے نکلنے کی جگہیں الگ الگ ہوں گی، اللہ تعالیٰ ان کا ان کے نیتوں کے مطابق حشر کرے گا۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰاِن کو ان کی نیتوں کے مطابق اٹھائے گا اور ان کی نکلنے کے مقامات الگ الگ ہوں گے، یہ کیسے ہو گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بات یہ ہے کہ یہ لوگ ایک راستے پر جمع ہو گئے ہوں گے، وگرنہ ان میں بعض بصیرت والے ہوں گے، بعض مسافر ہوں گے اور بعض مجبور ہوں گے، لیکن سب ایک ہلاکت گاہ میں ہلاک ہو جائیں گے اور مختلف مقامات سے نکلیں گے۔

Haidth Number: 8888
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نازل کرتے ہیں، تو اس میں جو افراد بھی ہوں، سب اس عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں، پھر ان کو ان کے اعمال کے مطابق اٹھایا جائے گا۔

Haidth Number: 8889
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کوئی آدمی کسی جسمانی مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ (نیکیاں) لکھنے والے فرشتوں سے کہتے ہیں: میرا بندہ جب تک میری (آزمائش کی) قید میں ہے، تم اس وقت تک اس کے شب و روز کے نیکیوں کے معمولات لکھتے رہو۔

Haidth Number: 8890
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی رات کو کچھ وقت کے لیے قیام کرتا ہو، جب وہ اس قیام سے سو جائے تو اس کے لیے اس کی نماز کا اجر لکھ دیا جاتا ہے اور اس کی نیند (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اس پر صدقہ ہوتی ہے، جو صدقہ اس پر کر دیا جاتا ہے۔

Haidth Number: 8891