Blog
Books
Search Hadith

نیت کے بارے میں باب

1247 Hadiths Found
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: فرشتے کہتے ہیں: اے میرے ربّ! تیرا فلاں بندہ برائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جب کہ وہ زیادہ جاننے والا ہوتا ہے، پس وہ کہتا ہے: انتظار کرو، اگر وہ اس برائی کا ارتکاب کر تو تم اس کے لیے ایک برائی لکھ لو اور اگر وہ اس کو ترک کر دے تو اس وجہ سے تم اس کے لیے ایک نیکی لکھ دو، اس نے صرف میری وجہ سے اسے ترک کیا ہے۔

Haidth Number: 8892

۔ (۸۹۰۵)۔ حَدَّثَنَا ھُشَیْمٌ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَمُغِیْرَۃَ الضَّبِّیِّ عَنْ مُجَاھِدٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِوبْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: زَوَّجَنِیْ اَبِیْ امْرَاَۃً مِّنْ قُرَیْشٍ، فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَیَّ جَعَلْتُ لَا اَنْحَاشُ لَھَا عَمَّا بِیْ مِنَ الْقُوَّۃِ عَلَی الْعِبَادَۃِ مِنَ الصَّوْمِ وَالصَّلاۃِ، فَجَائَ عَمْرُوبْنُ الْعَاصِ اِلٰی کَنَّتِہِ حَتّٰی دَخَلَ عَلَیْھَا، فَقَالَ لَھَا: کَیْفَ وَجَدْتِّ بَعْلَکِ؟ قَالَتْ: خَیْرُ الرِّجَالِ، اَوْ کَخَیْرِ الْبُعُوْلَۃِ، مِنْ رَجُلٍ، لَمْ یُفَتِّشْ لَنَا کَنَفًا، وَلَمْ یَعْرِفْ لَنَا فِرَاشًا، فَاَقْبَلَ عَلَیَّ، فَعَذَمَنِیْ، وَعَضَّنِیْ بِلِسَانِہٖ،فَقَالَ: اَنْکَحْتُکَامْرَاَۃً مِّنْ قُرَیْشٍ ذَاتَ حَسَبٍ فَعَضَلْتَھَا، وَفَعَلْتَ وَفَعَلْتَ! ثُمَّ انْطَلَقَ اِلَّی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَشَکَانِیْ، فَاَرْسَلَ اِلَیَّ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاَتَیْتُہُ، فَقَالَ لِیْ: ((اَتَصُوْمُ النَّھَارَ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((وَتَقُوْمُ اللَّیْلَ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((لٰکِنِّیْ اَصُوْمُ وَاُفْطِرُ، وَاُصَلِّیْ وَاَنَامُ، وَاَمَسُّ النِّسَائَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ۔)) قَالَ: ((اقْرَاِ الْقُرْآنَ فِیْ کُلِّ شَہْرٍ۔)) قُلْتُ: اِنِّیْ اَجِدُنِیْ اَقْوٰی مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ: ((فَاقْرَاْہُ فِیْ کُلِّ عَشَرَۃِ اَیَّامٍ۔)) قُلْتُ: اِنِّیْ اَجِدُنِیْ اَقْوٰی مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ اَحَدُھُمَا اِمَّا حُصِیْنٌ وَاِمَّا مُغِیْرَۃُ، قَالَ: ((فَاقْرَاْہُ فِیْ کُلِّ ثَلاثٍ۔)) وَفِیْ رِوَایَۃٍ قَالَ: ((فَاقْرَاْہُ فِیْ کُلِّ سَبْعٍ لَا تُزِیْدَنَّ عَلٰی ذٰلِکَ۔)) قَالَ: ثُمَّ قَالَ: (( صُمْ فِیْ کُلِّ شَھْرٍ ثَلاثَۃَ اَیَّامٍ۔)) قُلْتُ: اِنِّیْ اَقْوٰی مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ: فَلَمْ یَزَلْیَرْفَعُنِیْ، حَتّٰی قَالَ: ((صُمْ یَوْمًا وَاَفْطِرْ یَوْمًا فَاِنَّہُ اَفْضَلُ الصِّیَامِ، وَھُوَ صِیَامُ اَخِیْ دَاوُدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ۔)) قَالَ: حُصَیْنٌ فِیْ حَدِیْثِہِ ثُمَّ قَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (( فَاِنَّ لِکُلِّ عَابِدٍ شِرَّۃً، وَلِکُلِّ شِرَّۃٍ فَتْرَۃٌ، فَاِمَّا اِلٰی سُنَّۃٍ، وَاِمَّا اِلٰی بِدْعَۃٍ، فَمَنْ کَانَتْ فَتْرَتُہُ اِلٰی سُنَّۃٍ فَقَدِ اھْتَدٰی، وَمَنْ کَانَتْ فَتْرَتُہُ اِلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ فَقَدْ ھَلَکَ۔)) قَالَ مُجَاھِدٌ: فَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو، حَیْثُ قَدْ ضَعُفَ وَکَبِرَ، یَصُوْمُ الْاَیَّامَ کَذٰلِکَ،یَصِلُ بَعْضَھَا اِلٰی بَعْضٍ، لِیَتَقَوّٰی بِذٰلِکَ، ثُمَّ یُفْطِرُ بَعْدَ تِلْکَ الْاَیَّامِ، قَالَ: وَکَانَ یَقْرُاُ فِیْ کِلِّ حِزْبٍ کَذٰلِکَ، یَزِیْدُ اَحْیَانًا، وَیَنْقُصُ اَحْیَانًا، غَیْرَ اَنَّہٗیُوفِی الْعَدَدَ، اِمَّا فِیْ سَبْعٍ، وَاِمَّا فِیْ ثَلاثٍ، قَالَ: ثُمَّ کَانَ یَقُوْلُ بَعْدَ ذٰلِکَ: لَاَنْ اَکُوْنَ قَبِلْتُ رُخْصَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا عُدِلَ بِہٖ (اَوْعَدَلَ)،لٰکِنِّیْ فَارَقْتُہُ عَلٰی اَمْرٍ اَکْرَہُ اَنْ اُخَالِفَہُ اِلیٰ غَیْرِہِ۔ (مسند احمد: ۶۴۷۷)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: میرے باپ نے ایک قریشی عورت سے میری شادی کر دی، جب میں اس پر داخل ہوا تو میں نے اس کا کوئی اہتمام نہ کیا اور نہ اس کو وقت دیا، کیونکہ مجھے روزے اور نماز کی صورت میں عبادت کرنے کی بڑی قوت دی گئی تھی، جب سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی بہو کے پاس آئے اور اس سے پوچھا: تو نے اپنے خاوند کو کیسا پایا ہے؟ اس نے کہا: وہ بہترین آدمی ہے، یا وہ بہترین خاوند ہے، اس نے نہ میرا پہلو تلاش کیا اور نہ میرے بچھونے کو پہچانا (یعنی وہ عبادت میں مصروف رہنے کی وجہ سے اپنی بیوی کے قریب تک نہیں گیا )۔ یہ کچھ سن کر میرا باپ میری طرف متوجہ ہوا اور میری خوب ملامت کی اور مجھے برا بھلا کہا اور کہا: میں نے حسب و نسب والی قریشی خاتون سے تیری شادی کی ہے اور تو اس سے الگ تھلگ ہو گیا اور تو نے ایسے ایسے کیا ہے، پھر وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف چلے گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے میرا شکوہ کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلایا اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو دن کو روزہ رکھتا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور رات کو قیام کرتا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لیکن میں تو روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور حق زوجیت بھی ادا کرتا ہوں، جس نے میری سنت سے بے رغبتی اختیار کی، وہ مجھ سے نہیں ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو ایک ماہ میں قرآن مجید کی تلاوت مکمل کیا کر۔ میںنے کہا: میں اپنے آپ کو اس سے زیادہ قوی پاتاہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر دس دنوں میں مکمل کر لیا کرو۔ میں نے کہا: جی میں اپنے آپ کو اس سے زیادہ قوت والا سمجھتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تین دنوں میں ختم کر لیا کرو۔ ایک روایت میں ہے: تو سات دنوں میں تلاوت مکمل کر لیا کر اور ہر گز اس سے زیادہ تلاوت نہ کر۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر ماہ میں تین روزے رکھا کر۔ میں نے کہا: جی میں اس سے زیادہ طاقتور ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے آگے بڑھاتے گئے، یہاں تک کہ فرمایا: ایک دن روزہ رکھ لیا کر اور ایک دن افطار کر لیا کر، یہ افضل روزے ہیں اور یہ میرے بھائی داود علیہ السلام کے روزے ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر عبادت گزار میں حرص اور رغبت پیدا ہوتی ہے، پھر ہر رغبت کے بعد آخر سستی اور کمی ہو تی ہے، اس کا انجام سنت کی طرف ہوتا ہے یا بدعت کی طرف، پس جس کا انجام سنت کی طرف ہوتا ہے، وہ ہدایت پا جائے گا، اور جس کا انجام کسی اور شکل میں ہو گا، وہ ہلاک ہو جائے گا۔ امام مجاہد کہتے ہیں: جب سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کمزور اور بوڑھے ہو گئے تو وہ اسی مقدار کے مطابق روزے رکھتے تھے، بسا اوقات چند روزے لگاتار رکھ لیتے، پھر اتنے ہی دن لگاتار افطار کر لیتے، اس سے ان کا مقصد قوت حاصل کرنا ہوتا تھا، اسی طرح کا معاملہ اپنے حزب میں کرتے تھے، کسی رات کو زیادہ حصہ تلاوت کر لیتے اور کسی رات کو کم کر لیتے، البتہ ان کی مقدار وہی ہوتی تھی،یا تو سات دنوں میں قرآن مجید مکمل کر لیتے،یا تین دنوں میں۔ اور سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بعد میں کہا کرتے تھے: اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رخصت قبول کر لی ہوتی تو وہ مجھے دنیا کی ہر اس چیز سے محبوب ہوتی، جس کا بھی اس سے موازنہ کیا جاتا، لیکن میں عمل کی جس روٹین پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جدا ہوا تھا، اب میں ناپسند کرتا ہوں کہ اس کی مخالفت کروں۔

Haidth Number: 8905
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میانہ روی اختیار کرو اور راہِ صواب پر چلتے رہو، پس بیشک صورتحال یہ ہے کہ تم میں سے کسی کو اس کا عمل نجات نہیں دلائے گا۔ صحابہ نے کہا: اور نہ آپ کو اے اللہ کے رسول!؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور نہ مجھے، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے۔

Haidth Number: 8906
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے صحابہ میں سے ایسے لوگوں کا ذکر کیا گیا، جو بڑی سختی سے عبادت کرنے میں گڑ چکے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اسلام کا چسکہ، شدت اور حرص ہے اور ہر چسکے کی حرص اور اس میں افراط ہوتا ہے، لیکن ہر افراط کے بعد سستی اور تھماؤ بھی ہوتا ہے، پس جس کا تھماؤ کتاب و سنت کی طرف ہوا اس نے سیدھے راستے کا قصد کیا اور جس کی سستی اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کی طرف ہوئی تو وہ ہلاک ہونے والا ہو گا۔

Haidth Number: 8907
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اتنے عمل کی تکلیف اٹھاؤ، جس کی تم کو طاقت ہے، پس بیشک بہترین عمل وہ ہے، جس پر ہمیشگی اختیار کی جائے، اگرچہ وہ تھوڑا ہو۔

Haidth Number: 8908
۔ ابو صالح کہتے ہیں؛ سیدہ عائشہ اور سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سب سے زیادہ پسند تھا، انھوں نے کہا: جس پر ہمیشگی کی جائے، اگرچہ وہ کم ہو۔

Haidth Number: 8909
۔ (دوسری سند) اسود کہتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے کہا: مجھے ایسا عمل بیان کرو، جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں سب سے زیادہ محبوب ہو، انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سب سے پسندیدہ وہ عمل تھا، جس پر آدمی ہمیشگی کرے، اگرچہ اس کی مقدار کم ہو۔

Haidth Number: 8910
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں:جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میری پاس تشریف لائے تو اس وقت میرے پاس فلاں خاتون بیٹھی ہوئی تھی، میں نے اس کی نماز کا ذکر کیا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رہنے دو، تم اپنے اوپر اتنا عمل لازم کرو، جس کی تم طاقت رکھتے ہے، اللہ کی قسم ہے، اللہ تعالیٰ اس وقت نہیں اکتاتا، جب تک تم نہ اکتا جاؤ، بیشک اللہ تعالیٰ کو سب سے پسند یدہ دین وہ ہے، جس پر آدمی ہمیشگی اختیار کرے۔

Haidth Number: 8911
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب سیدہ حولاء بنت تُویت، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے گزریں، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلایا گیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ خاتون رات کو بہت زیادہ نماز پڑھتی ہے اور جب اس پر نیند غالب آنے لگتی ہے تو یہ اپنے آپ کو ایک رسیکے ساتھ باندھ کر لٹکتی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو چاہیے کہ جب تک اس کو طاقت ہو، یہ نماز پڑھے، لیکن جب اونگھنے لگے تو سو جائے۔

Haidth Number: 8912
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد میں داخل ہوئے، جبکہ وہاں دو ستونوں کے درمیان ایک رسی لٹک رہی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: اس کی کیا وجہ ہے؟ صحابہ نے کہا: یہ سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی ہے، جب وہ سست پڑتی ہے تو اس کے ساتھ لٹکتی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو کھول دو، چاہیےیہ کہ آدمی پھرتی اور مستعدی کی حالت میں نماز پڑھے، جب وہ سست پڑ جائے تو قیام ترک کر دے۔ ایک روایت میںہے: اس کو چاہیے کہ جب تک اس کو سمجھ آ رہی ہو، نماز پڑھے اور جب وہ (نیند کی وجہ) مغلوب ہو جائے تو سو جائے۔

Haidth Number: 8913
۔ سیدنا عبد الرحمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو ستونوں کے درمیان لٹکی ہوئی رسی دیکھی اور پوچھا: یہ کس کی ہے؟ صحابہ نے کہا: یہ سیدہ حمنہ بنت جحش کی ہے، جب وہ (نماز پڑھتے پڑھتے) عاجز آ جاتی ہے تو اس کے ساتھ لٹکتی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو چاہیے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق نماز پڑھے، پس جب وہ عاجز آ جائے تو (نماز ترک کر کے) بیٹھ جائے۔

Haidth Number: 8914
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اتنے عمل کا اہتمام کرو، جس کی تم طاقت رکھتے ہو، پس بیشک اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا، حتیٰ کہ تم نہیں اکتا جائو گے۔ سیدہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سب سے زیادہ وہ نماز پسند تھی کہ جس کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دوام کے ساتھ ادا کرتے تھے۔ ابو سلمہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ لوگ جو اپنی نمازوں پر ہمیشگی کرتے ہیں۔

Haidth Number: 8915
۔ سیدنا حکم بن حزن کافی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے لوگو! بیشک تم کو جن جن امور کا حکم دیا گیا ہے، تم سب کی ہر گز طاقت نہیں رکھ سکتے، البتہ راہِ صواب پر چلتے رہو اور خوشخبری حاصل کرو۔

Haidth Number: 8916
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صحابہ کو عمل کا حکم دیتے تو اتنا حکم فرماتے، جس کی وہ طاقت رکھتے، لیکن جب وہ کہتے کہ اے اللہ کے رسول! بیشک ہم توآپ کی طرح نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے تو اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے ہیں،یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غصے ہو جاتے،یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرۂ مبارک میں غصے کے آثار نظر آنے لگتے تھے۔

Haidth Number: 8917
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشکیہ دین مضبوط ہے، تم اس میں نرمی کے ساتھ داخل ہو جائو۔

Haidth Number: 8918
۔ سیدنا ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک بدو سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک تمہارا بہترین دین وہ ہے جو آسانی والا ہو، بیشک تمہارا بہترین دین وہ ہے جو سہولت پر مشتمل ہو۔

Haidth Number: 8919
۔ سیدنا محجن بن ادرع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے مسجد میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی ایک بیوی کے حجرے کی طرف تشریف لے گئے اور میرے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور فرمایا: بیشک تمہارا بہترین دین وہ ہے جو آسانی والا ہو، بیشک تمہارا بہترین دین وہ ہے جو سہولت پر مشتمل ہو، بیشک تمہارا خیر والا دین وہ ہے، جس میں زیادہ آسانی ہو۔

Haidth Number: 8920

۔ (۸۹۲۱)۔ عَنْ بُرَیْدَۃَ الْاَسْلَمِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: خَرَجْتُیَوْمًا لِحَاجَۃٍ فَاِذَا اَنَا بِالنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَمْشِیْ بَیْنَیَدَیَّ، فَاَخَذَ بِیَدِیْ، فَانْطَلَقْنَا نَمْشِیْ جَمِیْعًا فَاِذَا نَحْنُ بَیْنَ اَیْدِیْنَا بِرَجُلٍ یُصَلِّییُکْثِرُ الرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَتُرَاہُ یُرَائِیْ؟ )) فَقُلْتُ: اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ، فَتَرَکَ یَدِیْ مِنْ یَدِِہِ، ثُمَّ جَمَعَ بَیْنَیَدَیْہِ فَجَعَلَ یُصَوِّبُھُمَا وَیَرْفَعُھُمَا وَیَقُوْلُ: ((عَلَیْکُمْ ھَدْیًا قَاصِدًا ، عَلَیْکُمْ ھَدْیًا قَاصِدًا، عَلَیْکُمْ ھَدْیًا قَاصِدًا، فَاِنَّہُ مَنْ یُشَادَّ ھٰذَا الدِّیْنَیَغْلِبْہُ (وَفِیْ لَفْظٍ) فَاَرَسَلَ یَدِیْ ثُمَّ طَبَقَ بَیْنَ کَفَّیْہِ فَجَمَعَھُمَا وَجَعَلَ یَرْفَعُھُمَا بِحَیَالِ مَنْکَبَیْہِیَضْعُھُمَا وَیَقُوْلُ: ((عَلَیْکُمْ ھَدْیًا قَاصِدًا ثَلاثَ مَرَّاتٍ فَاِنَّہُ مَنْیُّشَادَّ الدِّیْنَیَغْلِبْہُ۔)) (مسند احمد: ۲۳۳۵۱)

۔ سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں ایک دن کسی ضرورت کے لیے نکلا، اچانک نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے میری ملاقات ہو گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے سامنے چل رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، پھر ہم دونوں اکٹھے چلنے لگے، اچانک ہم نے اپنے سامنے ایسا آدمی دیکھا جو بہت زیادہ رکوع و سجود کر رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا اس کے بارے میں تیرایہ خیال ہے کہ وہ ریاکاری کر رہا ہے؟ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور اپنے دونوں ہاتھ جمع کر کے اوپر نیچے کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ میانہ روی والا طریقہ لازم پکڑو، اعتدال والے انداز کا اہتمام کرو، میانہ روی اختیار کرو، کیونکہ جو دین میں تکلف کرنے کی کوشش کرتا ہے، دین اس پر غالب آ جاتا ہے۔ ایک روایت میں ہے: پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور اپنی دونوں ہتھیلیوں میں تطبیق دے کر ان کو اکٹھا کیا اور پھر ان کو کندھوں کے برابر تک اٹھانے اور پھر نیچے کرنے لگے اور فرمانے لگا: میانہ روی والے طریقے کو لازمی پکڑو، تین دفعہ فرمایا، کیونکہ جو آدمی زور آمائی کرے گا، دین اس پر غالب آ جائے گا۔

Haidth Number: 8921
۔ مجاہد کہتے ہیں: میں اور یحییٰ بن جعدہ ایک انصاری صحابی کے پاس گئے، انھوں نے کہا: ایک دفعہ یوں ہوا کہ صحابہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بنی عبد المطلب کی ایک لونڈی کا اس طرح ذکر کیا کہ وہ رات کو قیام کرتی ہے اور دن کو روزہ رکھتی ہے، یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لیکن میں تو سوتا بھی ہوں اور نماز بھی پڑھتا ہوں اور روزہ بھی رکھتا ہوں اورچھوڑ بھی دیتا ہوں، پس جس نے میری پیروی کی، وہ مجھ سے ہے اور جس نے میری سنت سے منہ پھیر لیا، وہ مجھ سے نہیں ہے، ہر عمل کی حرص، شدت اور افراط تو ہوتی ہے، لیکن پھر سکون اور تھماؤ بھی ہوتا ہے، پس جس کا تھماؤ بدعت کی طرف لے جائے گا، وہ گمراہ ہو جائے گا اور جس کا ٹھہرائو سنت کی طرف لے جائے گا، وہ ہدایت پا جائے گا۔

Haidth Number: 8922
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: کچھ لوگ بڑی سخت عبادت کیا کرتے تھے، لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو منع کیا اور فرمایا: اللہ کی قسم! بیشک تم میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ جاننے اور اس سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں، تم اتنے عمل کا اہتمام کرو، جتنے کی طاقت رکھتے ہو، پس بیشک اللہ تعالیٰ نہیں اکتائے گا، حتیٰ کہ تم اکتا جاؤ گے۔

Haidth Number: 8923
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: راہِ صواب پر چلو، میانہ روی اختیار کرو اور آسانی پیدا کرو، پس کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ کا عمل بھی نہیں کرے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور میں بھی ایسے ہی ہوں، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ڈھانپ دے اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے، جس پر ہمیشگی کی جائے، اگرچہ وہ کم ہو۔

Haidth Number: 8924

۔ (۸۹۲۵)۔ وَعَنْہَا اَیْضًا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، قَالَتْ: دَخَلَتْ عَلَیَّ خُوَیْلَۃُ بِنْتُ حَکِیْمِ بْنِ اُمَیَّۃَ بْنِ حَارِثَۃَ بْنِ الْاَوْقَصِ السُّلَمِیِّۃُ، وَکَانَتْ عِنْدَ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُوْنٍ، قَالَتْ: فَرَاٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَذَاذَۃَ ھَیْئَتِھَا، فَقَالَ لِیْ: ((یَا عَائِشَۃُ! مَا اَبَذَّ ھَیْئَۃَ خُوَیْلَۃَ؟)) قَالَتْ: فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اِمْرَاَۃٌ لا زَوْجَ لَھَا، یَصُوْمُ النَّھَارَ وَیَقُوْمُ اللَّیْلَ، فَہِیَ کَمَنْ لَا زَوْجَ لَھَا، فَتَرَکَتْ نَفْسَھَا وَاَضَاعَتْھَا، قَالَتْ: فَبَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلٰی عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُوْنٍ، فَجَائَ ہُ فَقَالَ: ((یَاعُثْمَانُ، اَرَغْبَۃً عَنْ سُنَّتِیْ؟)) قَالَ: فَقَالَ: لا، وَاللّٰہِ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! وَلٰکِنْ سُنَّتَکَ اَطْلُبُ، قَالَ: ((فَاِنِّیْ اَنَامُ وَاُصَلِّیْ، وَاَصُوْمُ وَاُفْطِرُ، وَاَنْکِحُ النِّسَائَ، فَاتَّقِ اللّٰہَ یَاعُثْمَانُ! فَاِنَّ لِاَھْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا، فَصُمْ وَاَفْطِرْ، وَصَلِّ وَنَمْ۔)) (مسند احمد: ۲۶۸۳۹)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: سیدہ خویلہ بنت حکیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا میرے پاس آئیں، وہ سیدنا عثمان بن مظعون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی بیوی تھیں، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کی پراگندہ حالت دیکھی تو فرمایا: عائشہ! کس چیز نے خویلہ کی حالت کو اتنا بگاڑ دیا ہے؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس عورت کا کوئی خاوند نہیں، اس بات کی تفصیلیہ ہے کہ اس کا خاوند دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو نماز پڑھتا ہے اور (اپنی بیوی کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا) تو یہ ایسی ہی ہو گئی کہ ا س کا کوئی خاوند ہی نہیں ہے، اس لیے اس نے اپنے نفس کو چھوڑ دیا ہے اور اس کو ضائع کر دیا ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عثمان بن مظعون ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلایا، پس جب وہ آئے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عثمان! کیا میری سنت سے اعراض کر رہے ہو؟ انھوں نے کہا: جی نہیں، اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول! بلکہ میں آپ کی سنت کا ہی طلبگار ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پس بیشک میں سوتا بھی ہوں اور نماز بھی پڑھتا ہوں، روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں۔ اے عثمان! اللہ تعالیٰ سے ڈر جا، پس بیشک تجھ پر تیرے اہل کا بھی حق ہے، اس لیے روزہ بھی رکھ اور افطار بھی کر اور نماز بھی پڑھ اور سویا بھی کر۔

Haidth Number: 8925
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: خبردار! غلو کرنے والے ہلاک ہو گئے ہیں۔ تین بار فرمایا۔

Haidth Number: 8926
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام کا ایک گروہ آیا، ان میں سے کسی نے کہا: میں شادی نہیں کروں گا، کسی نے کہا: میں نماز پڑھوں گا اور سوؤں گا نہیں، کسی نے کہا: میں روزے رکھوں گا اور افطار نہیں کروں گا۔ جب یہ بات رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو معلوم ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے، جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، میں تو روزے بھی رکھتا ہوں اور چھوڑ بھی دیتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں، پس جس نے میری سنت سے اعراض کیا، وہ مجھ سے نہیں ہے۔

Haidth Number: 8927
۔ سیدنا ابو درداء سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو منبر پر یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا: {وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ۔}… اور جو آدمی اپنے ربّ کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، اس کے لیے دو باغات ہیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! اگرچہ وہ زنا بھی کرے اور چوری بھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دوسری دفعہ فرما دیا کہ اور جو آدمی اپنے ربّ کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔ میں نے بھی دوسری دفعہ کہہ دیا: اے اللہ کے رسول! اگرچہ وہ زنا اور چوریبھی کرے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تیسری دفعہ وہی آیت پڑھتے ہوئے فرمایا: اور جو آدمی اپنے ربّ کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، اس کے لیے دو باغات ہیں۔ اُدھر میں نے بھی تیسری دفعہ وہی سوال کر دیا کہ اے اللہ کے رسول! اگرچہ وہ زنا بھی کرے اور چوری بھی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں اور اگرچہ ابو درداء کا ناک خاک آلود ہو جائے۔

Haidth Number: 8937
۔ سید مقداد بن اسود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک حدیث سننے کے بعد اب اس وقت تک کسی شخص کے بارے میں خیریا شرّ کا فیصلہ نہیں کرتا، جب تک یہ نہ دیکھ لوں کہ کس عمل پر اس کی زندگی کا اختتام ہو رہا ہے، کسی نے کہا: کون سی حدیث تو نے سنی ہے؟ میںنے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ابن آدم کا دل اس ہنڈیا سے بھی زیادہ الٹ پلٹ ہونے والا ہے، جو ساری کی ساری ابل رہی ہو۔

Haidth Number: 8938
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کثرت سے یہ دعا کیا کرتے تھے: … یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ! ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ۔(اے دلوں کو الٹ پلٹ کر دینے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جمائے رکھنا)۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے صحابہ اور اہل و عیال نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ کو ہمارے بارے میں کوئی ڈر ہے، جبکہ ہم آپ پر اور آپ کی لائی ہو شریعت پر ایمان لائے ہیں؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک تمام دل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں، وہ ان کو الٹ پلٹ کر دیتا ہے۔

Haidth Number: 8939

۔ (۸۹۴۰)۔ عَنْ حَکِیْمِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ، عَنْ اَبِیْہِ، ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ رَجُلًا کَانَ فِیْمَنْ قَبْلَکُمْ رَغَسَہُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی مَالًا وَوَلَدًا، حَتّٰی ذَھَبَ عَصْرُہُ وَجَائَ عَصْرٌ فَلَمَّا حَضَرَتْہُ الْوَفَاۃُقَالَ: اَیْ بَنِیَّ! اَیَّ اَبٍّ کُنْتُ لَکُمْ؟ قَالُوْا: خَیْرَ اَبٍّ، قَالَ: اَنْتُمْ مُطِیْعِیَّ؟ قَالُوْا: نَعَمْ، قَالَ: انْظُرُوْا اِذَا اَنَا مِتُّ اَنْ تُحَرِّقُوْنِیْ حَتّٰی تَدَعُوْنِیْ فَحْمًا، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَفَعَلُوْا وَاللّٰہِ! ذٰلِکَ)) ثُمَّ اھْرُسُوْنِیْ بِالْمِہْرَاسِ یُوْمِئُی بِیَدِہِ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَفَعَلُوْا وَاللّٰہِ! ذٰلِکَ)) ثُمَّ اذْرُوْنِیْ فِی الْبَحْرِ فِیْیَوْمِ رِیْحٍ لَعَلِّیْ اَضِلُّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی۔)) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَفَعَلُوْا وَاللّٰہِ! ذٰلِکَ)) فَاِذَا ھُوَ فِیْ قَبْضَۃِ اللّٰہِ تَبَارَکَ تَعَالٰی، فَقَالَ: یَا ابْنَ آدَمَ! مَاحَمَلَکَ عَلٰی مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ: اَیْ رَبِّ مَخَافَتُکَ، قَالَ: فَتَلافَاہُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی بِھَا۔)) (مسند احمد: ۲۰۲۶۱)

۔ سیدنا معاویہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے ایک آدمی کے مال و دولت میں بڑی برکت عطا کی تھی،یہاں تک کہ اس کا زمانہ گزر گیا اور نیا زمانہ آنے لگا، پس جب اس کی وفات کا وقت قریب ہوا تو اس نے کہا: تم نے مجھے کیسا باپ پایا؟انھوں نے کہا: بہترین باپ، اس نے کہا: کیا تم میری اطاعت کرو گے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، اس نے کہا: دیکھو، جب میں مر جاؤں تو تم نے مجھے اتنا جلانا ہے کہ میں کوئلے بن جاؤں۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! انھوں نے ایسے ہی کیا۔ پھر اس نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: پھر مجھے ہاون دستے سے کوٹ دینا۔ انھوں نے ایسے ہی کیا، پھر مجھے (یعنی میری راکھ کو) ہوا والے دن سمندر میں اڑا دینا، ہو سکتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے چھپ جاؤں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پس اللہ کی قسم! انھوں نے ایسے ہی کیا،لیکن اچانک اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے قبضے میں کر کے پوچھا: اے آدم کے بیٹے! تجھے یہ کاروائی کرنے پر کس نے آمادہ کیا تھا؟ اس نے کہا: اے میرے ربّ! تیرا ڈر تھا، پس اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کی کوتاہی کو معاف کر دیا۔

Haidth Number: 8940
۔ سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسی قسم کی حدیث ِ نبوی بیان کی ہے ، البتہ اس میں ہے: پس اللہ تعالیٰ نے اس کو جمع کر لیا اور کہا: تو نے ایسے کیوں کیا تھا؟ اس نے کہا: تیرے ڈر کی وجہ سے، پس اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔ عقبہ بن عمرو نے کہا: میں نے سنا ہے کہ وہ کفن چور تھا۔

Haidth Number: 8941
۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے توحید کے علاوہ کوئی نیک عمل نہیں کیا تھا، جب اس کی وفات کا وقت ہوا تو اس نے اپنے اہل خانہ سے کہا: جب میں مر جاؤں تو مجھے پکڑ کر جلا دینا اور کوئلہ بنا دینا، پھر پیس دینا اور ہوا والے دن سمندر میں اڑا دینا، انھوں نے ایسے ہی کیا، لیکن اچانک وہ اللہ تعالیٰ کے قبضے میں آگیا، اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا: تجھے کسی چیز نے اس کاروائی پر آمادہ کیا؟ اس نے کہا: تیرے ڈر نے، پس اللہ تعالیٰ نے اس کو معاف کر دیا۔

Haidth Number: 8942