Blog
Books
Search Hadith

مکہ مکرمہ سے ہجرت کر جانے والا آدمی مناسکِ حج کی ادائیگی کے بعد کتنا عرصہ وہاں قیام کرسکتا ہے؟

36 Hadiths Found
۔ سائب بن یزید سے روایت ہے وہ علاء بن خضرمی سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مکہ سے ہجرت کرکے جانے والا آدمی مناسک حج کی ادائیگی کے بعد مکہ میں تین دن قیام کرسکتا ہے۔

Haidth Number: 4579
۔ سیدنا عوف بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس مالِ فئے آتا تھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو اسی دن اس طرح تقسیم کر دیا کرتے تھے کہ شادی شدہ کو دو حصے اور کنوارے کو ایک حصہ دیتے تھے، ، پس ایک دن ہمیں بلایا گیا اور مجھے سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے پہلے بلایا جاتا تھا، پس مجھے بلایا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دو حصے دیئے، کیونکہ میں اہل و عیال والا تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلایا اور ان کو ایک حصہ دیا، سونے کی چین کا ایک ٹکرا بچ گیا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو اپنی لاٹھی کے سرے سے اٹھاتے، لیکن وہ گر جاتا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو اٹھایا، جبکہ اس وقت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ فرما رہے تھے: اس وقت تمہارا کیا بنے گا، جس دن تمہارے لیے یہ سونا بہت زیادہ ہو جائے گا۔

Haidth Number: 5063
۔ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بنو نضیر کے مال وہ تھے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بطورِ مالِ فے دیئے تھے، مسلمانوں نے اس مال کو حاصل کرنے کے لیے گھوڑوں اور سواریوں کو نہیں دوڑایا تھا، پس یہ مال خالص رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے تھا (اور اپنی مرضی کے مطابق اس میں تصرف کر سکتے تھے)، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے اہل و عیال کے لیے ایک سال کا دانہ پانی رکھ لیتے اور اس سے جو بچ جاتا، اس کو اللہ کی راہ میں تیاری کرتے ہوئے گھوڑوں اور اسلحہ پر خرچ کر دیتے۔

Haidth Number: 5064
۔ مالک بن اوس بن حدثان سے مروی ہے کہ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تین امور پر قسمیں اٹھاتے اور کہتے تھے: اللہ کی قسم! کوئی ایک کسی دوسرے سے اس مالِ فے کا زیادہ مستحق نہیں ہے اور میں بھی کسی سے زیادہ اس کا حق نہیں رکھتا، اللہ کی قسم ہے، ہر مسلمان کا اس مال میں حصہ ہے، ما سوائے غلام کے، ہاں کتاب اللہ کی تفصیل اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی تقسیم کے مطابق ہمارے مرتبے مختلف ہے، مثلا: ایک آدمی اور اس کا اسلام میں آزمایا جانا ہے، ایک آدمی اور اس کا اسلام کی طرف سبقت کرنا ہے، ایک آدمی اور اس کا غنی ہونا ہے اور ایک آدمی اور اس کی حاجتمندی ہے، اللہ کی قسم ہے، اگر میں زندہ رہا تو صنعاء کے پہاڑ میں بکریاں چرانے والے تک اس کا حصہ پہنچ جائے گا، جبکہ وہ اسی جگہ پر بکریاں چرا رہا ہو گا۔

Haidth Number: 5065

۔ (۵۰۶۶)۔ عَنْ نَاشِرَۃَ بْنِ سُمَیٍّ الْیَزَنِیِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ یَقُولُ فِی یَوْمِ الْجَابِیَۃِ وَہُوَ یَخْطُبُ النَّاسَ: إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَنِی خَازِنًا لِہٰذَا الْمَالِ وَقَاسِمَہُ لَہُ، ثُمَّ قَالَ: بَلِ اللّٰہُ یَقْسِمُہُ وَأَنَا بَادِئٌ بِأَہْلِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، ثُمَّ أَشْرَفِہِمْ فَفَرَضَ لِأَزْوَاجِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَشْرَۃَ آلَافٍ إِلَّا جُوَیْرِیَۃَ وَصَفِیَّۃَ ومَیْمُونَۃَ، فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ یَعْدِلُ بَیْنَنَا، فَعَدَلَ بَیْنَہُنَّ عُمَرُ ثُمَّ قَالَ: إِنِّی بَادِئٌ بِأَصْحَابِی الْمُہَاجِرِینَ الْأَوَّلِینَ، فَإِنَّا أُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا ظُلْمًا وَعُدْوَانًا، ثُمَّ أَشْرَفِہِمْ فَفَرَضَ لِأَصْحَابِ بَدْرٍ مِنْہُمْ خَمْسَۃَ آلَافٍ، وَلِمَنْ کَانَ شَہِدَ بَدْرًا مِنْ الْأَنْصَارِ أَرْبَعَۃَ آلَافٍ، وَلِمَنْ شَہِدَ أُحُدًا ثَلَاثَۃَ آلَافٍ، قَالَ: وَمَنْ أَسْرَعَ فِی الْہِجْرَۃِ أَسْرَعَ بِہِ الْعَطَائُ، وَمَنْ أَبْطَأَ فِی الْہِجْرَۃِ أَبْطَأَ بِہِ الْعَطَائُ، فَلَا یَلُومَنَّ رَجُلٌ إِلَّا مُنَاخَ رَاحِلَتِہِ۔ (مسند أحمد: ۱۶۰۰۰)

۔ ناشرہ بن سمی یزنی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جابیہ والے دن لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مال کا خازن اور اس کو تقسیم کرنے والا بنایا ہے، بلکہ یوں سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ ہی تقسیم کرنے والا ہے اور میں اب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آل سے اور پھر ان کے بعد شرف والے لوگوں سے شروع کرنے والا ہوں، پھر انھو ںنے امہات المؤمنین کو دس ہزار درہم دیئے، ما سوائے سیدہ جویریہ، سیدہ صفیہ اور سیدہ میمونہF کے، لیکن جب سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو ہمارے ما بین برابری کرتے تھے تو انھوں نے ان کو برابر برابر مال دے دیا، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس کے بعد میں اپنے پہلے پہل ہجرت کرنے والے صحابہ سے شروع کرتا ہوں، کیونکہ ظلم و زیادتی سے ہمیں ہمارے گھروں سے نکال دیا گیا تھا، پھر ان کے بعد زیادہ شرف والے صحابہ کو مد نظر رکھا اور بدر والے مہاجرین کے پانچ پانچ ہزار اور انصار کے لیے چار چار ہزار درہم مقرر کیے، اور احد میں شریک ہونے والوں کو تین تین ہزار درہم دیئے۔ پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جس نے ہجرت میںجلدی کی، اس کے عطیہ میں جلدی کی جائے گی اور جس نے ہجرت میں تاخیر کی، اس کے عطیہ میں بھی تاخیر ہو گی، پس کوئی آدمی ملامت نہ کرے، مگر اپنی اونٹنی کی بیٹھنے والی جگہ پر، (یعنی اگر کسی آدمی کو تاخیر سے ہجرت کرنے کی بنا پر تھوڑا حصہ مل رہا ہے تو وہ اپنے پیچھے رہ جانے کی مذمت کرے)۔

Haidth Number: 5066

۔ (۵۰۶۷)۔ عن جَابِر بن عبد اللہ یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَوْ جَائَ مَالُ الْبَحْرَیْنِ لَقَدْ أَعْطَیْتُکَ ہٰکَذَا وَہٰکَذَا وَہٰکَذَا۔)) قَالَ: فَلَمَّا جَائَ مَالُ الْبَحْرَیْنِ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ أَبُو بَکْرٍ: مَنْ کَانَ لَہُ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَیْنٌ أَوْ عِدَۃٌ فَلْیَأْتِنِی، قَالَ: فَجِئْتُ، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَوْ قَدْ جَائَ مَالُ الْبَحْرَیْنِ لَأَعْطَیْتُکَ ہٰکَذَا وَہٰکَذَا ثَلَاثًا۔)) قَالَ: فَخُذْ، قَالَ: فَأَخَذْتُ، قَالَ بَعْضُ مَنْ سَمِعَہُ: فَوَجَدْتُہَا خَمْسَ مِائَۃٍ فَأَخَذْتُ، ثُمَّ أَتَیْتُہُ فَلَمْ یُعْطِنِی، ثُمَّ أَتَیْتُہُ فَلَمْ یُعْطِنِی، ثُمَّ أَتَیْتُہُ الثَّالِثَۃَ فَلَمْ یُعْطِنِی، فَقُلْتُ: إِمَّا أَنْ تُعْطِیَنِی، وَإِمَّا أَنْ تَبْخَلَ عَنِّی، قَالَ: أَقُلْتَ تَبْخَلُ عَنِّی وَأَیُّ دَائٍ أَدْوَأُ مِنَ الْبُخْلِ، مَا سَأَلْتَنِی مَرَّۃً إِلَّا وَقَدْ أَرَدْتُ أَنْ أُعْطِیَکَ۔ (مسند أحمد: ۱۴۳۵۲)

۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر بحرین کا مال آیا تو میں تجھے اتنا اتنا اور دوں گا۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے بعد بحرین کا مال آیا تو سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جس آدمی کا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر قرض ہو یا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کسی سے وعدہ کیا ہو تو وہ میرے پاس آ جائے، پس میں ان کے پاس آیا اور کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا تھا کہ اگر بحرین کا مال آیا تو میں تجھے اتنا اتنا دوں گا۔ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تو لے لے، پس میں نے لے لیا اور اس حصے کو پانچ سو درہم پایا، پھر جب میں ان کے پاس آیا تو انھو ںنے مجھے کچھ نہ دیا، پھر آیا تو کچھ نہ دیا، پھر جب تیسری بار آیا اور انھوں نے کچھ نہ دیا تو میں نے کہا: آپ یا تو مجھے دیں یا پھر بخل کرتے ہوئے مجھے منع کر دیں، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا تو کہتا ہے کہ میں بخل کرتا ہوں، بھلا بخل سے بڑی بیماری کون سی ہو سکتی ہے، جب بھی تو نے مجھ سے سوال کیا تو میں نے تجھے دینے کا ارادہ کیا تھا، (لیکن دوسرے لوگوں کو زیادہ ضرورت مند پا کر ان کو دے دیا۔)

Haidth Number: 5067
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس ایک چھوٹا سا مشکیزہ لایا گیا، اس میں موتی تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو آزاد خاتون اور لونڈی میں تقسیم کیا، سیدہ کہتی ہیں: میرے باپ بھی آزاد اور غلام کے لیے تقسیم کرے تھے۔ یزید بن ہارون راوی کے الفاظ یہ ہیں: آزاد خاتون اور لونڈی کے درمیان برابر برابر تقسیم کرتے تھے۔

Haidth Number: 5068
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب خریدار اور فروخت کنندہ کا آپس میں اختلاف ہو جائے اور ان کے پاس (اپنے دعوی کی) دلیل بھی نہ ہو، جبکہ سامان ابھی تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہو، تو سامان کے مالک کی بات پر اعتماد کیا جائے گا یا پھردونوں سودا واپس کر دیں گے۔

Haidth Number: 5949
۔ عبدالملک بن عبید کہتے ہیں: میں ابوعبیدہ بن عبداللہ بن مسعود کے پاس موجودتھا، ان کے پاس دوآدمی آئے، انھوںنے آپس میں کچھ سامان کا سودا کیا تھا، لیکن خریدار کہتا تھا کہ اس نے اتنے میں سامان خریدا ہے، اور بیچنے والا کہتا تھا کہ اس نے تو اتنے میں فروخت کیا ہے، ابوعبیدہ نے کہا: سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس اسی قسم کا مسئلہ لایا گیا تھا، انھوں نے کہا: میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں اسی طرح کا مسئلہ پیش کیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فروخت کرنے والے کوحکم دیا کہ وہ اپنے دعوی پر قسم اٹھائے، پھر خریدار کو اختیار دے دیا کہ اگر وہ چاہتا ہے تو اتنے میں لے لے اور اگر چاہتا ہے تو سرے سے سودا ہی ترک کر دے۔

Haidth Number: 5950
۔ (دوسری سند) عبداللہ بن امام احمد کہتے ہیں: میں نے اپنے والدمحترم پر یہ سند پڑھی: خرید و فروخت کرنے والوں کے بارے مجھے ہشام بن یوسف سے خبر دی گئی ہے، یہ ابن جریج کی حدیث ہے، وہ اسماعیل بن امیہ سے اور وہ عبدالملک بن عبیدسے بیان کرتے ہیں، لیکن میرے باپ امام احمد نے کہا: حجاج اعور نے کہا: عبدالملک بن عبیدہ نے کہا: ہمیں ہشیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا: ہمیں ابن ابی لیلیٰ نے قاسم بن عبدالرحمن سے بیان کیا اور انہوں نے سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیان کیا، اس میں عَنْ اَبِیْہِ کے الفاظ نہیں ہیں۔

Haidth Number: 5951
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب خرید و فروخت کرنے والے دو آدمیوں کا آپس میں اختلاف ہو جائے تو وہ بات قابل اعتماد ہو گی، جو فروخت کرنے والا کہے گا اور خرید ار کو یہ اختیار مل جائے گا کہ (وہ سودے کو برقرار رکھنا چاہتا ہے یا فسخ کرنا چاہتا ہے)۔

Haidth Number: 5952
۔ قاسم کہتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا اشعث بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے درمیان اختلاف ہو گیا، اول الذکر نے کہا: یہ دس کا ہے، لیکن مؤخر الذکر نے کہا:یہ بیس کا ہے، سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میرے اور اپنے درمیان کسی آدمی کو مقر ر کرو (تاکہ وہ فیصلہ کر دے)۔ سیدنا اشعث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں آپ کو ہی مقرر کرتا ہوں، یہ سن کر سیدنا ابن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تو پھر میں وہی فیصلہ کروں گا، جو رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کیاہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب لین دین کرنے والے دو آدمیوں میں اختلاف ہو جائے، جبکہ کسی کے پاس شہادت بھی نہ ہو تو فروخت کرنے والے کی بات پر اعتماد کیا جائے گا یا پھر دونوں بیع کو فنح کر دیں گے۔

Haidth Number: 5953
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب احد میں تمہارے بھائی شہید ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روحیں سبز پرندں میں ڈال دیں، وہ جنت کی نہروں پر جاتے ہیں، جنت کے پھل کھاتے ہیں اور عرش الٰہی کے سائے میں سونے کی قندیلوں میں جگہ پکڑ تے ہیں، جب انہوں نے کھانے پینے کییہ عمدگی اور اپنے ٹھکانے کی خوبصورتی دیکھی تو انھوں نے کہا: کاش ہمارے دنیا والے بھائیوں کو معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالی نے ہمارے ساتھ کس قدر اچھا سلوک کیا ہے، تاکہ وہ جہاد سے بے رغبتی نہ کریں اور جنگ سے روگردانی نہ کریں، اللہ تعالی نے فرمایا :میں تمہارا یہ پیغام تمہاری طرف سے تمہارے بھائیوں تک پہنچاتا ہوں، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَاء ٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ۔}… اور تو ان لوگوں کو جو اللہ کے راستے میں قتل کر دیے گئے، ہرگز مردہ گمان نہ کر، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق دیے جاتے ہیں۔

Haidth Number: 8548

۔ (۱۰۵۹۹)۔ عَنْ مَحْمُوْدِ بْنِ لَبِیْدٍ أَخِی بَنِیْ عَبْدِ الْأَشْھَلِ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ أَبُوْ الْجُلَیْسِ أَنَسُ بْنُ رَافِعٍ مَکَّۃَ وَمَعَہُ فِتْیَۃٌ مِنْ بَنِی عَبْدِ الْأَشْھَلِ فِیْھِمْ اِیَاسُ بْنُ مُعَاذٍ یَلْتَمِسُوْنَ الْحِلْفَ مِنْ قُرَیْشٍ عَلٰی قَوْمِھِمْ مِنَ الْخَزْرَجِ، سَمِعَ بِھِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَتَاھُمْ فَجَلَسَ اِلَیْھِمْ، فَقَالَ لَھُمْ: ((ھَلْ لَکُمْ اِلٰی خَیْرٍ مِمَّاجِئْتُمْ لَہُ؟)) قَالُوْا: وَمَا ذَاکَ؟ قَالَ: ((أَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ بَعَثَنِیْ اِلَی الْعِبَادِ، اَدْعُوھُمْ اِلٰی أَنْ یَعْبُدُوْا اللّٰہَ لَایُشْرِکُوْا بِہٖشَیْئًا، وَأَنْزَلَ عَلَیَّ کِتَابًا۔)) ثُمَّّ ذَکَرَ الْاِسْلَامَ وَتَلَا عَلَیْھِمُ الْقُرْآنَ، فَقَالَ اِیَاسُ بْنُ مُعَاذٍ وَکَانَ غُلَامًا حَدَثًا: أَیْ قَوْمِ! ھٰذَا وَاللّٰہِ! خَیْرٌ مِمَّا جِئْتُمْ لَہُ، قَالَ: فَأَخَذَ أَبُوْ جُلَیْسٍ أَنَسُ بْنُ رَافِعٍ حَفْنَۃً مِنَ الْبَطْحَائَ فَضَرَبَ بِھَا فِیْ وَجْہِ اِیَاسِ بْنِ مُعَاذٍ، وَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْھُمْ وَانْصَرَفُوْا اِلَی الْمَدِیْنَۃِ فَکَانَتْ وَقْعَۃُ بُعَاثٍ بَیْنَ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ، قَالَ: ثُمَّّ لَمْ یَلْبَثْ اِیَاسُ بْنُ مُعَاذٍ اَنْ ھَلَکَ، قَالَ مَحْمُوْدٌ بْنُ لَبِیْدٍ: فَأَخْبَرَنِیْ مَنْ حَضَرَہُ مِنْ قَوْمِیْ عِنْدَ مَوْتِہِ اَنَّھُمْ لَمْ یَزَالُوْایَسْمَعُوْنَہُیُھَلِّلُ اللّٰہَ وَیُکَبِّرُہُ وَیَحْمَدُہُ وَیُسَبِّحُہُ حَتّٰی مَاتَ فَمَا کَانُوْا یَشُکُّوْنَ اَنْ قَدْ مَاتَ مُسْلِمًا، لَقَدْ کَانَ اسْتَشْعَرَ الْاِسْلَامَ فِیْ ذٰلِکَ الْمَجْلِسِ حِیْنَ سَمِعَ مِنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَا سَمِعَ۔ (مسند احمد: ۲۴۰۱۸)

۔ بنو عبد الاشہل کے بھائی سیدنا محمود بن لبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ابو جلیس انس بن رافع مکہ مکرمہ میں آیا، اس کے ساتھ سیدنا ایاس بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے، وہ اپنی قوم خزرج کی مخالفت میں قریش کو اپنا حلیف بنانا چاہتے تھے، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ان کا پتہ چلا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس آ کر بیٹھے اور ان سے فرمایا: جس مقصد کے لیے تم آئے ہو، کیا تم کو اس سے بہتر چیز کی رغبت ہے؟ انھوں نے کہا: وہ کون سی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں، اس نے مجھے بندوں کی طرف بھیجا ہے ، میں لوگوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس نے مجھ پر کتاب بھی نازل کی ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے سامنے اسلام کا ذکر کیا اور قرآن مجید کی تلاوت بھی کی۔ یہ سن کر نو عمر لڑکے ایاس بن معاذ نے کہا: اے میری قوم! جس مقصد کے لیے تم آئے ہو، اللہ کی قسم ہے، یہ چیز اس سے بہتر ہے، یہ تبصرہ سن کر ابو جلیس انس نے وادیٔ بطحاء سے ایک چلو بھرا اور ایاس بن معاذ کے چہرے پر دے مارا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے پاس سے کھڑے ہو گئے اور وہ لوگ مدینہ کو واپس چلے گئے، جب اوس اور خزرج میں بعاث کی لڑائی واقع ہوئی تو سیدنا ایاس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جلد ہی اس میں فوت ہو گئے۔ سیدنا محمود بن لبید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میری قوم کے جو لوگ ایاس کی موت کے وقت اس کے پاس موجود تھے، انھوں نے مجھے بتلایا کہ وہ ایاسکو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور سُبْحَانَ اللّٰہِ کہتے ہوئے سنتے رہے، یہاں تک کہ وہ وفات پا گئے، ان لوگوں کو یقین تھا کہ وہ اسلام کی حالت میں فوت ہوئے ہیں، انھوں نے مکہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مجلس سے ہی اسلام کو سمجھ لیاتھا۔

Haidth Number: 10599
۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: اللہ تعالیٰ نے واقعۂ بعاث کے دن کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آمد سے پہلے بنا دیا تھا، اس لیے جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو ان کی جماعت تتر بتر ہو چکی تھے، اس کے سردار قتل ہو چکے تھے اور انھوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لیے نرمی برتی اور اسلام میں داخل ہو گئے۔

Haidth Number: 10600
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم (عرفات کے) موقف میں اپنے آپ کو لوگوں پر پیش کرتے اور فرماتے: کیا کوئی ایسا آدمی ہے، جو مجھے اپنی قوم کے پاس لے جائے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کا کلام لوگوں تک پہنچا سکوں، کیونکہ قریش نے مجھے ایسا کرنے سے روک دیا ہے؟ ہمدان سے ایک آدمی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے پوچھا: تو کس قبیلے سے ہے؟ اس نے کہا: جی میں ہمدان سے ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تیری قوم کے پاس طاقت و عزت ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، لیکن پھر وہ آدمی ڈر گیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی قوم اس کو حقیر قرار دے، پس وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: میں اپنی قوم کے پاس جا رہا ہوں، ان کو یہ تفصیل بتاؤں گا اور پھر اگلے سال آپ کے پاس آؤں گا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ پس وہ چلا گیا اور پھر رجب میں انصاریوں کا وفد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گیا تھا۔

Haidth Number: 10601

۔ (۱۰۷۷۱)۔ حَدَّثَنَا یَزِیدُ قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ عَلْقَمَۃَ بْنِ وَقَّاصٍ قَالَ: أَخْبَرَتْنِی عَائِشَۃُ قَالَتْ: خَرَجْتُ یَوْمَ الْخَنْدَقِ أَقْفُو آثَارَ النَّاسِ، قَالَتْ: فَسَمِعْتُ وَئِیدَ الْأَرْضِ وَرَائِییَعْنِی حِسَّ الْأَرْضِ، قَالَتْ: فَالْتَفَتُّ فَإِذَا أَنَا بِسَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ وَمَعَہُ ابْنُ أَخِیہِ الْحَارِثُ بْنُ أَوْسٍ یَحْمِلُ مِجَنَّہُ، قَالَتْ: فَجَلَسْتُ إِلَی الْأَرْضِ فَمَرَّ سَعْدٌ وَعَلَیْہِ دِرْعٌ مِنْ حَدِیدٍ، قَدْ خَرَجَتْ مِنْہَا أَطْرَافُہُ فَأَنَا أَتَخَوَّفُ عَلٰی أَطْرَافِ سَعْدٍ، قَالَتْ: وَکَانَ سَعْدٌ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ وَأَطْوَلِہِمْ، قَالَتْ: فَمَرَّ وَہُوَ یَرْتَجِزُ وَیَقُولُ: لَیْتَ قَلِیلًایُدْرِکُ الْہَیْجَاء جَمَلْ،مَا أَحْسَنَ الْمَوْتَ إِذَا حَانَ الْأَجَلْ، قَالَتْ: فَقُمْتُ فَاقْتَحَمْتُ حَدِیقَۃً، فَإِذَا فِیہَا نَفَرٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، وَإِذَا فِیہِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَفِیہِمْ رَجُلٌ عَلَیْہِ سَبْغَۃٌ لَہُ یَعْنِی مِغْفَرًا، فَقَالَ عُمَرُ، مَا جَائَ بِکِ لَعَمْرِی وَاللّٰہِ! إِنَّکِ لَجَرِیئَۃٌ، وَمَا یُؤْمِنُکِ أَنْ یَکُونَ بَلَائٌ أَوْ یَکُونَ تَحَوُّزٌ، قَالَتْ، فَمَا زَالَ یَلُومُنِی حَتّٰی تَمَنَّیْتُ أَنَّ الْأَرْضَ انْشَقَّتْ لِی سَاعَتَئِذٍ فَدَخَلْتُ فِیہَا، قَالَتْ: فَرَفَعَ الرَّجُلُ السَّبْغَۃَ عَنْ وَجْہِہِ فَإِذَا طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ، فَقَالَ، یَا عُمَرُ! وَیْحَکَ إِنَّکَ قَدْ أَکْثَرْتَ مُنْذُ الْیَوْمَ وَأَیْنَ التَّحَوُّزُ أَوْ الْفِرَارُ إِلَّا إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَتْ: وَیَرْمِی سَعْدًا رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ مِنْ قُرَیْشٍ،یُقَالُ لَہُ: ابْنُ الْعَرِقَۃِ بِسَہْمٍ لَہُ، فَقَالَ لَہُ: خُذْہَا وَأَنَا ابْنُ الْعَرَقَۃِ، فَأَصَابَ أَکْحَلَہُ فَقَطَعَہُ، فَدَعَا اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ سَعْدٌ فَقَالَ: اللَّہُمَّ لَا تُمِتْنِی حَتّٰی تُقِرَّ عَیْنِی مِنْ قُرَیْظَۃَ، قَالَتْ، وَکَانُوا حُلَفَائَہُ وَمَوَالِیَہُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، قَالَتْ: فَرَقَیَٔ کَلْمُہُ وَبَعَثَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الرِّیحَ عَلَی الْمُشْرِکِینَ، فَکَفَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُؤْمِنِینَ الْقِتَالَ، وَکَانَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ قَوِیًّا عَزِیزًا، فَلَحِقَ أَبُو سُفْیَانَ وَمَنْ مَعَہُ بِتِہَامَۃَ، وَلَحِقَ عُیَیْنَۃُ بْنُ بَدْرٍ وَمَنْ مَعَہُ بِنَجْدٍ، وَرَجَعَتْ بَنُو قُرَیْظَۃَ فَتَحَصَّنُوا فِی صَیَاصِیہِمْ، وَرَجَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَی الْمَدِینَۃِ، فَوَضَعَ السِّلَاحَ وَأَمَرَ بِقُبَّۃٍ مِنْ أَدَمٍ، فَضُرِبَتْ عَلٰی سَعْدٍ فِی الْمَسْجِدِ، قَالَتْ: فَجَائَ ہُ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَام، وَإِنَّ عَلٰی ثَنَایَاہُ لَنَقْعَ الْغُبَارِ، فَقَالَ: أَقَدْ وَضَعْتَ السِّلَاحَ؟ وَاللّٰہِ! مَا وَضَعَتِ الْمَلَائِکَۃُ بَعْدُ السِّلَاحَ، اخْرُجْ إِلٰی بَنِی قُرَیْظَۃَ فَقَاتِلْہُمْ، قَالَتْ: فَلَبِسَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَأْمَتَہُ، وَأَذَّنَ فِی النَّاسِ بِالرَّحِیلِ أَنْ یَخْرُجُوا، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَمَرَّ عَلٰی بَنِی غَنْمٍ، وَہُمْ جِیرَانُ الْمَسْجِدِ حَوْلَہُ، فَقَالَ: ((مَنْ مَرَّ بِکُمْ؟)) فَقَالُوا: مَرَّ بِنَا دِحْیَۃُ الْکَلْبِیُّ، وَکَانَ دِحْیَۃُ الْکَلْبِیُّ تُشْبِہُ لِحْیَتُہُ وَسِنُّہُ وَوَجْہُہُ جِبْرِیلَ عَلَیْہِ السَّلَام، فَقَالَتْ: فَأَتَاہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَحَاصَرَہُمْ خَمْسًا وَعِشْرِینَ لَیْلَۃً، فَلَمَّا اشْتَدَّ حَصْرُہُمْ وَاشْتَدَّ الْبَلَائُ، قِیلَ لَہُمْ، انْزِلُوا عَلٰی حُکْمِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاسْتَشَارُوا أَبَا لُبَابَۃَ بْنَ عَبْدِ الْمُنْذِرِ، فَأَشَارَ إِلَیْہِمْ أَنَّہُ الذَّبْحُ، قَالُوا: نَنْزِلُ عَلٰی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((انْزِلُوا عَلٰی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ۔)) فَنَزَلُوا، وَبَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلٰی سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَأُتِیَ بِہِ عَلٰی حِمَارٍ، عَلَیْہِ إِکَافٌ مِنْ لِیفٍ قَدْ حُمِلَ عَلَیْہِ، وَحَفَّ بِہِ قَوْمُہُ، فَقَالُوا: یَا أَبَا عَمْرٍو! حُلَفَاؤُکَ وَمَوَالِیکَ وَأَہْلُ النِّکَایَۃِ، وَمَنْ قَدْ عَلِمْتَ، قَالَتْ: وَأَنَّی لَا یُرْجِعُ إِلَیْہِمْ شَیْئًا وَلَا یَلْتَفِتُ إِلَیْہِمْ، حَتّٰی إِذَا دَنَا مِنْ دُورِہِمْ الْتَفَتَ إِلٰی قَوْمِہِ، فَقَالَ: قَدْ آنَ لِی أَنْ لَا أُبَالِیَ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو سَعِیدٍ: فَلَمَّا طَلَعَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((قُومُوا إِلٰی سَیِّدِکُمْ۔)) فَأَنْزَلُوہُ، فَقَالَ عُمَرُ: سَیِّدُنَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: أَنْزِلُوہُ فَأَنْزَلُوہُ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((احْکُمْ فِیہِمْ۔)) قَالَ سَعْدٌ: فَإِنِّی أَحْکُمُ فِیہِمْ أَنْ تُقْتَلَ مُقَاتِلَتُہُمْ، وَتُسْبٰی ذَرَارِیُّہُمْ، وَتُقْسَمَ أَمْوَالُہُمْ، وَقَالَ یَزِیدُ بِبَغْدَادَ: وَیُقْسَمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَقَدْ حَکَمْتَ فِیہِمْ بِحُکْمِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَحُکْمِ رَسُولِہِ۔)) قَالَتْ: ثُمَّ دَعَا سَعْدٌ: قَالَ: اللَّہُمَّ إِنْ کُنْتَ أَبْقَیْتَ عَلٰی نَبِیِّکَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ حَرْبِ قُرَیْشٍ شَیْئًا فَأَبْقِنِی لَہَا، وَإِنْ کُنْتَ قَطَعْتَ الْحَرْبَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُمْ فَاقْبِضْنِی إِلَیْکَ، قَالَتْ: فَانْفَجَرَ کَلْمُہُ، وَکَانَ قَدْ بَرِئَ حَتّٰی مَا یُرٰی مِنْہُ إِلَّا مِثْلُ الْخُرْصِ، وَرَجَعَ إِلٰی قُبَّتِہِ الَّتِی ضَرَبَ عَلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَحَضَرَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ، قَالَتْ: فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ، إِنِّی لَأَعْرِفُ بُکَائَ عُمَرَ مِنْ بُکَائِ أَبِی بَکْرٍ، وَأَنَا فِی حُجْرَتِی، وَکَانُوا کَمَا قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ} قَالَ عَلْقَمَۃُ: قُلْتُ: أَیْ أُمَّہْ! فَکَیْفَ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَصْنَعُ؟ قَالَتْ: کَانَتْ عَیْنُہُ لَا تَدْمَعُ عَلٰی أَحَدٍ وَلٰکِنَّہُ کَانَ إِذَا وَجِدَ فَإِنَّمَا ہُوَ آخِذٌ بِلِحْیَتِہِ۔ (مسند احمد: ۲۵۶۱۰)

یزید نے ہمیں بتلایا کہ ہمیں محمد بن عمر و نے اپنے والد سے اور انہوں نے اسے اس کے دادا علقمہ بن وقاص سے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بیان کیا کہ میں خندق والے دن لوگوں کے نقوش پا پر چلتی ہوئی روانہ ہوئی۔ مجھے اپنے پیچھے زمین پر کسیکے چلنے کی آہٹ سنائی دی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ سیدنا سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے اور ان کے ہمراہ ان کے برادر زادے سیدنا حارث بن اوس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ڈھال اُٹھائے ہوئے تھے۔ اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں:انہیں دیکھ کر میں زمین پر بیٹھ گئی۔ سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ قریب سے گزرے تو میں نے دیکھا کہ انہوں نے لوہے کی ایک زرہ زیب تن کی ہوئی تھی۔ ان کے بازو اور ٹانگیں زرہ سے باہر تھیں مجھے سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ان اعضاء کے متعلق خدشہ ہوا کہ کہیں دشمن ان پر حملہ نہ کر دے۔ سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سب لوگوں سے طویل القامت تھے۔ وہ قریب سے گزرے تو یہ رجز پڑھتے جا رہے تھے: لَیتَ قَلیلًایُدْرِکُ الہَیْجَائَ جَمَلٌمَا اَحْسَنَ الموتَ اِذَا حَانَ الْاَجَلْ۔ …1 (کاش کہ اونٹ لڑائی میں اپنی قوت وبہادری کے کچھ جوہر دکھا ئے موت کتنی اچھی ہے جس کا وقت آجائے وہ تو آنی ہی ہے۔)اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں: ان کے گزر جانے کے بعد میں اُٹھ کر ایک باغ میں چلی گئی۔ وہاں کچھ مسلمان موجود تھے، انہی میں عمربن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے۔ وہاں ایک آدمی تھا جس کے سر پر خود یعنی لوہے کی ٹوپی تھی ! شعر کے الفاظ کی تحقیق اور مفہوم کی وضاحت کے لیے دیکھیں مسند احمد محقق۔ ج: ۴۲، ص: ۲۷۔ ساتھ ہی اس نے لوہے کا حفاظتی سامان باندھا ہوا تھا جس سے گردن اور زرہ کے سامنے والے حصہ کو محفوظ کیا ہوا تھا۔مجھے دیکھ کر عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہنے لگے آپ کیوں آئی ہیں؟ مجھے اپنی زندگی کی قسم! اللہ کی قسم! آپ بڑی دلیر ہیں۔ کیا آپ اس بات سے نہیں ڈریں کہ کوئی پریشانی آسکتیہےیا شدید لڑائی ہو سکتی ہے یا دشمن گرفتار کر سکتا ہے؟ سیّدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں کہ وہ برابر مجھے سرزنش کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے تمنا کی کا کاش اسی وقت میرے لیے زمین پھٹ جائے اور میں اس میں چلی جاؤں۔ اس مسلح آدمی نے اپنے چہرے سے اوزار ہٹائے تو دیکھا کہ وہ طلحہ بن عبیداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تھے، وہ بولے عمر! بڑے افسوس کی بات ہے۔ آپ نے آج بہت زیادتی کر ڈالی۔ کہاں ہے لڑائی اور اللہ تعالیٰ کے سوا فرار کس کی طرف ہو سکتا ہے؟ سیّدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں۔ وہ یہ بات کر ہی رہے تھے کہ ایک مشرک قریشی نے جس کا نام ابن العرقۃ تھا، نشانہ لے کر ان پر تیرچلا دیا۔ اور ساتھ ہی کہا میں ابن عرقہ ہوں، لے میری طرف سے یہ تیر،وہ تیر ان کے بازو کے اکحل نامی رگ پر آکر لگا۔ اور اسے کاٹ ڈالا۔ حضرت سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اسی وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور کہا یا اللہ تو مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک تو بنو قریظہ کے بارے میں میری آنکھوں کو ٹھندا نہ کر دے۔ سیّدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں کہ بنو قریظہ جاہلیت کے دور میںیعنی قبل از اسلام ان کے حلیف اور ساتھی تھے، سیدہ اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ ان کے زخم سے خون بہنے لگا، اللہ تعالیٰ نے مشرکین پر تیز آندھی بھیج دی اور اس نے لڑائی میں اہل ایمان کیکفایت کی، اللہ تعالیٰ بڑا ہی صاحب قوت اور سب پر غالب ہے۔ ابو سفیان اور اس کے ساتھی تہامہ کی طرف چلے گئے اور عیینہ بن بدر اور اس کے ساتھی نجد کی طرف چلے گئے اور بنو قریظہ واپس آکر اپنے قلعوں میں بند ہو گئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ کی طرف واپس آئے، ہتھیار اُٹھا کر رکھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے لیے مسجد میں چمڑے کا ایک خیمہ نصب کرنے کا حکم صادر فرمایا، اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں کہ اسی دوران جبریل علیہ السلام نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے ان کے دانتوں پر ابھی غبار کے آثار تھے۔ انہوں نے کہا ( اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہتھیار اتار کر رکھ دئیے؟ اللہ کی قسم! فرشتوں نے تو ابھی تک ہتھیار نہیں اتارے۔ آپ بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوں اور ان سے قتال کریں۔ اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہتھیار سجا لئے اور لوگوں کو (بنو قریظہ کی طرف) روانگی کا حکم دیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم روانہ ہوئے تو آپ بنو غنم کے پاس سے گزرے، وہ لوگ مسجد کے پڑوسی تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت فرمایا: ابھی تمہارے پاس سے کون گزر کر گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس سے دحیہ کلبی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گزر کر گئے ہیں، دحیہ کلبی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی داڑھی، دانت اور چہرہ جبریل علیہ السلام سے مشابہت رکھتا تھا۔ اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بنو قریظہ کی طرف تشریف لے گئے اور پچیس(۲۵) راتوں تک ان کا محاصرہ کیا۔ جب ان کا محاصرہ سخت اور ان کی مصیبت بھی فزوں ہوئی تو ان سے کہا گیا کہ تم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فیصلہ پر راضی ہو جاؤ۔انہوں نے ابو لبابہ بن عبدالمندر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مشاورت کی تو انہوں نے اشارے سے ان کو بتلا دیا کہ وہ تو تمہیں ذبح، قتل، کریں گے بنو قریظہ نے کہا کہ ہم سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے فیصلہ پر راضی ہیں۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تم انہی کے فیصلہ کو تسلیم کر لو۔ انہوں نے بھی اس پر رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پیغامبھیج کر بلوایا۔ ان کو لایا گیا تو وہ گدھے پر سوار تھے جس پر کھجور کے پتوں کی بنی ہوئی کاٹھی تھی۔ انہیں گدھے پر سوار کیا گیا تھا اور ان کی قوم کے لوگ ان کے اردگرد تھے انہوں نے کہا اے بو عمرو ! وہ آپ کے حلیف اور دوست ہیں اور وہ بدعہدی بھی کر چکے ہیں ان کا مطلبیہ تھا کہ ذرا سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔ ان کے سارے احوال سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ وہ ان کی باتیں خاموشی سے سنتے آئے اور ان کی کسی بات کا انہیں جواب نہ دیا۔ اور نہ ہی ان کی طرف انہوں نے دیکھا۔ جب وہ بنو قریظہ کے گھروں کے قریب پہنچے تو اپنی قوم کی طرف رخ کر کے کہا اب مجھ پر ایسا موقعہ آیا ہے کہ میں اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہ کروں۔ابو سعید ( راوی) کہتے ہیں کہ سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے پہنچے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اپنے سیّدیعنی سردار کی طرف اُٹھ کر جاؤ اور پکڑ کر انہیں گدھے سے اتار و،یہ سن کر عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہنے لگے کہ ہمارا سیّد ( مالک، آقا) تو اللہ ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انہیں اتارو، انہیں اتارو۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا تم ان کی بابت فیصلہ کرو۔ سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا میں ان کے متعلق یہ فیصلہ دیتا ہوں کہ ان میں سے جن لوگوں نے مسلمانوں سے قتال کیا انہیں قتل کر دیا جائے۔ اور ان کی اولادوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کے اموال بطور مالِ غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کر دئیے جائیں۔ ان کا فیصلہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تم نے ان کے متعلق ایسا فیصلہ دیا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے فیصلہ اور منشا کے عین مطابق ہے۔ اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں پھر سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دعا کییا اللہ ! اگر تیرے نبی اور قریش کے درمیان کوئی لڑائی ہونی باقی ہے تو مجھے اس لڑائی میں شرکت کے لیے زندہ رکھ اور اگر تیرے نبی اور قریش کے درمیان کوئی لڑائی ہونے والی نہیں تو مجھے اپنی طرف اُٹھا لے۔ ان کا زخم پھٹ گیا۔ حالانکہ وہ تقریباً ٹھیک ہو چکا تھا اور اس میں سے صرف ایک بالی، کان کے زیور کے بقدر زخمی باقی تھا۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنے اس خیمہ کی طرف لوٹ آئے جو ان کے لیے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نصب کرایا تھا۔ اُمّ المؤمنین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیّدنا ابوبکر اور سیّدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے ہاں گئے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں اپنے کمرے میں ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دونوں کے رونے کی آوازوں کو الگ الگ شناخت کر رہی تھی۔ ان صحابہ کی آپس میں محبت ایسی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ {رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ} کہ یہ صحابہ آپس میں ایک دوسرے کے لیے از حد شفیق ومہربان ہیں۔ علقمہ کہتے ہیں میں نے دریافت کیا اماں جان! ایسے مواقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کس طرح کیا کرتے تھے؟ فرمایا ان کی آنکھیں کسی کی وفات پر آنسو نہیں بہاتی تھیں۔ لیکن جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غمگین ہوتے تو اپنی داڑھی مبارک کو ہاتھ میں پکڑ لیتے تھے۔

Haidth Number: 10771

۔ (۱۰۷۷۲)۔ عَنْ جَابِرٍ أَنَّہُ قَالَ: رُمِیَیَوْمَ الْأَحْزَابِ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَطَعُوا أَکْحَلَہُ، فَحَسَمَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالنَّارِ، فَانْتَفَخَتْ یَدُہُ فَحَسَمَہُ، فَانْتَفَخَتْ یَدُہُ فَحَسَمَہُ أُخْرٰی، فَانْتَفَخَتْ یَدُہُ فَنَزَفَہُ، فَلَمَّا رَأٰی ذٰلِکَ قَالَ: اللّٰہُمَّ لَا تُخْرِجْ نَفْسِی حَتّٰی تُقِرَّ عَیْنِی مِنْ بَنِی قُرَیْظَۃَ، فَاسْتَمْسَکَ عِرْقُہُ فَمَا قَطَرَ قَطْرَۃً حَتّٰی نَزَلُوا عَلٰی حُکْمِ سَعْدٍ فَأُرْسِلَ إِلَیْہِ، فَحَکَمَ أَنْ تُقْتَلَ رِجَالُہُمْ وَیُسْتَحْیَا نِسَاؤُہُمْ وَذَرَارِیُّہُمْ لِیَسْتَعِینَ بِہِمُ الْمُسْلِمُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَصَبْتَ حُکْمَ اللّٰہِ فِیہِمْ۔)) وَکَانُوا أَرْبَعَ مِائَۃٍ، فَلَمَّا فُرِغَ مِنْ قَتْلِہِمْ انْفَتَقَ عِرْقُہُ فَمَاتَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌۔ (مسند احمد: ۱۴۸۳۲)

سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:غزوۂ احزاب کے موقع پر سیدنا سعد بن معاذ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ایک تیر لگا اور دشمن نے ان کے بازو کی اکحل رگ کاٹ ڈالی، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خون روکنے کے لیے اسے آگ سے داغ دیا، لیکن اس سے ان کا بازو پھول گیا، اسے دوبارہ داغا تو وہ دوبارہ پھول گیا۔ اسے تیسری دفعہ داغا تو تب بھی وہ پھول گیا اور اس سے بہت زیادہ خون بہنے لگا۔ سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ کیفیت دیکھی تو دعا کی: یا اللہ مجھے اس وقت تک موت نہ آئے، جب تک کہ بنو قریظہ کے بارے میں میری آنکھیں ٹھنڈی نہ ہو جائیں، چنانچہ ان کی رگ کا خون بہنا بند ہو گیا اور اس سے اس وقت تک کوئی قطرۂ خون نہ نکلا، جب تک کہ وہ لوگ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے فیصلہ پر راضی نہ ہو گئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کی طرف پیغام بھیج کر انہیں بلوایا تو انہوں نے فیصلہ دیا کہ ان کے مردوں کو قتل کر دیا جائے اور بچوں اور عورتوں کو زندہ رہنے دیا جائے تاکہ ان کے ذریعے مسلمان مدد حاصل کریں تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ان کے بارے میں تم نے اللہ کی پسند کا فیصلہ کیا ہے۔ بنو قریظہ کی تعداد چار سو تھی، جب ان کے قتل سے فارغ ہوئے تو سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی رگ پھوٹ پڑی اور اس کے نتیجہ میں ان کی موت واقع ہوئی۔

Haidth Number: 10772

۔ (۱۰۷۷۳)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ الْخَنْدَقِ، کُنْتُ أَنَا وَعُمَرُ بْنُ أَبِی سَلَمَۃَ فِی الْأُطُمِ الَّذِی فِیہِ نِسَائُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أُطُمِ حَسَّانَ، فَکَانَ یَرْفَعُنِی وَأَرْفَعُہُ، فَإِذَا رَفَعَنِی عَرَفْتُ أَبِی حِینَیَمُرُّ إِلٰی بَنِی قُرَیْظَۃَ، وَکَانَ یُقَاتِلُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمَ الْخَنْدَقِ، فَقَالَ: مَنْ یَأْتِیبَنِی قُرَیْظَۃَ فَیُقَاتِلَہُمْ، فَقُلْتُ لَہُ حِینَ رَجَعَ: یَا أَبَتِ تَاللّٰہِ! إِنْ کُنْتُ لَأَعْرِفُکَ حِینَ تَمُرُّ ذَاہِبًا إِلٰی بَنِی قُرَیْظَۃَ، فَقَالَ: یَا بُنَیَّ أَمَا وَاللّٰہِ! إِنْ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَیَجْمَعُ لِی أَبَوَیْہِ جَمِیعًایُفَدِّینِی بِہِمَا، یَقُولُ: ((فِدَاکَ أَبِی وَأُمِّیِِ۔))۔ (مسند احمد: ۱۴۰۹)

سیدنا عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: غزوۂ خندق کے موقع پر میں اور سیدنا عمر بن ابی سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ حسان کے قلعوں میں سے اس قلعہ میں تھے، جہاں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ازواج مطہرات تھیں، وہ مجھے اور میں انہیں اوپر اُٹھاتا اور ہم باہر کے مناظر دیکھتے، جب اس نے مجھے اٹھایا تو میں نے اپنے والد کو پہچان لیا، وہ بنو قریظہ کی طرف جا رہے تھے اور وہ خندق والے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کون ہے جو بنی قریظہ کی طرف جا کر ان سے قتال کرے؟ جب وہ واپس آئے تو میں نے عرض کیا: ابا جان اللہ کی قسم! جب آپ بنو قریظہ کی طرف جا رہے تھے تو میں آپ کو پہچان چکا تھا۔ انھوں نے کہا: بیٹا! اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے داد اور دعا دیتے ہوئے یوں فرما رہے تھے کہ میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہو ں۔

Haidth Number: 10773
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ غزوۂ خندق کے دن معاملہ سنگین ہو گیا اوررسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ہے: کوئی ایسا آدمی ہے، جو بنو قریظہ کی خبر لے کر آئے؟ سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گئے اور ان کی خبریں لے کر آئے، پھر جب معاملہ سنگین ہوا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پھر اسی طرح فرمایا، چنانچہ تین مرتبہ ایسے ہی ہوا، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر نبی کا ایک خاص آدمی ہوتا ہے اور زبیر میرا خاص آدمی ہے۔

Haidth Number: 10774

۔ (۱۱۶۹۲)۔ حَدَّثَنَا شُعَیْبٌ عَنِ الزُّہْرِیِّ، حَدَّثَنِی عُمَارَۃُ بْنُ خُزَیْمَۃَ الْأَنْصَارِیُّ، أَنَّ عَمَّہُ حَدَّثَہُ وَہُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابْتَاعَ فَرَسًا مِنْ أَعْرَابِیٍّ فَاسْتَتْبَعَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِیَقْضِیَہُ ثَمَنَ فَرَسِہِ، فَأَسْرَعَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَشْیَ وَأَبْطَأَ الْأَعْرَابِیُّ، فَطَفِقَ رِجَالٌ یَعْتَرِضُونَ الْأَعْرَابِیَّ، فَیُسَاوِمُونَ بِالْفَرَسِ لَا یَشْعُرُونَ أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابْتَاعَہُ حَتّٰی زَادَ بَعْضُہُمُ الْأَعْرَابِیَّ فِی السَّوْمِ عَلٰی ثَمَنِ الْفَرَسِ الَّذِی ابْتَاعَہُ بِہِ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَنَادَی الْأَعْرَابِیُّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: إِنْ کُنْتَ مُبْتَاعَا ہٰذَا الْفَرَسَ فَابْتَعْہُ وَإِلَّا بِعْتُہُ، فَقَامَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حِینَ سَمِعَ نِدَائَ الْأَعْرَابِیِّ، فَقَالَ: ((أَوَلَیْسَ قَدِ ابْتَعْتُہُ مِنْکَ؟)) قَالَ الْأَعْرَابِیُّ: لَا، وَاللّٰہِ مَا بِعْتُکَ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((بَلٰی قَدِ ابْتَعْتُہُ مِنْکَ۔)) فَطَفِقَ النَّاسُ یَلُوذُونَ بِالنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالْأَعْرَابِیِّ وَہُمَا یَتَرَاجَعَانِ، فَطَفِقَ الْأَعْرَابِیُّ یَقُولُ: ہَلُمَّ شَہِیدًا یَشْہَدُ أَنِّی بَایَعْتُکَ، فَمَنْ جَائَ مِنْ الْمُسْلِمِینَ قَالَ لِلْأَعْرَابِیِّ: وَیْلَکَ، النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمْ یَکُنْ لِیَقُولَ إِلَّا حَقًّا، حَتَّی جَائَ خُزَیْمَۃُ فَاسْتَمَعَ لِمُرَاجَعَۃِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمُرَاجَعَۃِ الْأَعْرَابِیِّ فَطَفِقَ الْأَعْرَابِیُّ یَقُولُ: ہَلُمَّ شَہِیدًا یَشْہَدُ أَنِّی بَایَعْتُکَ، قَالَ خُزَیْمَۃُ: أَنَا أَشْہَدُ أَنَّکَ قَدْ بَایَعْتَہُ، فَأَقْبَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی خُزَیْمَۃَ، فَقَالَ: ((بِمَ تَشْہَدُ؟)) فَقَالَ: بِتَصْدِیقِکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ!، فَجَعَلَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَہَادَۃَ خُزَیْمَۃَ شَہَادَۃَ رَجُلَیْنِ۔ (مسند احمد: ۲۲۲۲۸)

عمارہ بن خزیمہ انصاری سے مروی ہے کہ ان کے چچا جو کہ صحابی تھے، نے ان کو بیان کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک بدّو سے ایک گھوڑا خریدا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے فرمایا: میرے ساتھ آکر گھوڑے کی قیمت وصول کر لو۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تیز رفتار تھے اور بدّو کی رفتار سست تھی، سو یہ بدّو پیچھے رہ گیا اور کچھ لوگ اعرابی کے پاس آئے اور اس کے ساتھ گھوڑے کا سودا کرنے لگے۔ انہیںیہ علم نہیں تھا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے گھوڑے کا سودا طے کر لیا ہے۔ یہاں تک کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے جس قیمت میں گھوڑا خریدا تھا۔ ایک آدمی نے گھوڑے کی قیمت اس سے زیادہ لگا دی، اعرابی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پکار کر کہا: آپ یہ گھوڑا خریدنا چاہتے ہیں تو خرید لیں ورنہ میں کسی اور کے ہاتھ بیچ رہا ہوں۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اعرابی کی آواز سنی تو رک گئے اور فرمایا: کیایہ گھوڑا میں تم سے خرید نہیں چکا ہوں؟ اس نے کہا:اللہ کی قسم نہیں، میں نے تو آپ کے ہاتھ اسے بیچا ہی نہیں۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں، میں تو اسے تم سے خرید چکا ہوں۔ لوگ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور اعرابی کے اردا گرد اکٹھے ہوگئے اور وہ ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے کہ اس اعرابی نے کہا: اگر آپ سچے ہیں تو کوئی گواہ پیش کریں، جو گواہی دے کہ میں نے یہ گھوڑا آپ کے ہاتھ فروخت کیا ہے۔ اتنے میں ایک مسلمان نے آگے بڑھ کر اعرابی سے کہا: تجھ پر افسوس ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیشہ سچ ہی کہتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے۔ یہاں تک کہ سیدنا خزیمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آگئے اور انہوں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اور اعرابی کی باتیں سنیں، اعرابی کہہ رہا تھا کہ کوئی گواہ پیش کرو جو گواہی دے کہ میں نے یہ گھوڑا آپ کے ہاتھ فروخت کیا ہے۔ سیدنا خزیمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بولے: میں گواہی دیتا ہوں کہ تم نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ یہ گھوڑا فروخت کر دیا ہے۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا خزیمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: تم یہ گواہی کس بنیاد پردے رہے ہو؟ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ کی تصدیق کی بنیاد پر کہا، آپ ہمیشہ سچ ہی بولتے ہیں۔تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا خزیمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اکیلے کی گواہی کو دو گواہوں کے برابر قرار دیا۔

Haidth Number: 11692
عمارہ بن خزیمہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ سیدناخزیمہ بن ثابت انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے خواب میں دیکھا کہ انہوںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشانی پرسجدہ کیا۔ پھر جب انہوںنے اپنا یہ خواب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کیا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے سامنے لیٹ گئے اور فرمایا: تم اپنا خواب اس طرح پورا کر لو۔ چنانچہ انہوںنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی پیشانی پر سجدہ کیا۔

Haidth Number: 11693
سیدنا زید بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب قرآن کریم کے مصاحف لکھے جا رہے تھے تو میں نے ایک آیت گم پائی، میں خود اس آیت کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا کرتا تھا، وہ مجھے کسی کے ہاں سے لکھی ہوئی نہیں مل رہی تھی، آخر کار وہ مجھے سیدنا خزیمہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں سے لکھی ہوئی ملی، وہ آیتیہ تھی:{مِنَ الْمُؤمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَاعَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَنْ قَضٰی نَحْبَہٗوَمِنْھُمْمَّنْیَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا۔} … اہل ایمان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ کے ساتھ کئے ہوئے اپنے عہدو پیمان کو خوب پورا کیا اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو اپنے مقصد اور منزل کو پاگئے اور بعض حصول منزل کے منتظر ہیں اور انہوںنے اپنے کئے ہوئے عہد میں تبدیلی بالکل نہیں کی۔ (سورۂ احزاب: ۲۳) سیدنا خزیمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ذوالشھادتین یعنی دو گواہیوں والے کہلاتے تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان اکیلے کی گواہی کو دو گواہیوں کے برابر قرار دیا تھا۔ زہری کہتے ہیں کہ وہ صفین کے موقعہ پر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی معیت میں قتل ہوئے۔

Haidth Number: 11694
عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب شام کے لیے روانہ ہوئے، جب ’ ’ سرغ مقام تک پہنچے تو ان کو اطلا ع ملی کہ شام میں (طاعون کی) وبا پھیل چکی ہے۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوف ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو بتلایا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تم سنو کہ کسی علاقہ میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے تو وہاں نہ جاؤ اور جب تم کسی علاقے میں موجود ہو اور وہاں یہ وبا پھیل جائے تو اس سے ڈر کر وہاں سے نہ نکلو۔ یہ حدیث سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور سرغ مقام سے واپس لوٹ گئے۔

Haidth Number: 12223
Haidth Number: 12683
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں مسجد تعمیر کرنے کا حکم فرمایا، ہم ایک ایک اینٹ اٹھا کر لا رہے تھے، جبکہ سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ دو دو اینٹیں اٹھا کر لا رہے تھے، اس وجہ سے ان کا سر غبار آلود ہوگیا، سیدنا ابو سعید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے نہیں سنا، البتہ میرے ساتھیوں نے مجھے بتلایا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سر سے مٹی جھاڑ رہے تھے اور ساتھ ساتھ فرما رہے تھے: سمیہ کے بیٹے! اللہ تجھ پر رحم کرے، ایک باغی گروہ تجھے قتل کر ے گا۔

Haidth Number: 12684
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام f مسجد ِ نبوی کی تعمیر کے سلسلہ میں اینٹیں اٹھا اٹھا کر لا رہے تھے اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی ان کے ہمراہ تھے، میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے آیا تو دیکھا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک بڑی اینٹ اپنے پیٹ پرلگا کر اٹھائے آرہے تھے، میں نے سمجھا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے اس کاا ٹھانا مشکل ہور ہاہے، اس لیے میں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ یہ مجھے دے دیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو ہریرہ! تم اور اٹھا لاؤ، اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔

Haidth Number: 12685
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک سورج مغرب کی طرف سے طلوع نہ ہوجائے اور جب یہ مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا اور لوگ اسے دیکھ لیں گے تو سب لوگ ایمان لے آئیں گے، مگر یہ ایسا وقت ہوگا کہ کسی ایسے شخص کو اس کا ایما ن لانا فائدہ نہیں دے گا، جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا ہو گا یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی اچھا عمل نہیں کیا ہو گا۔

Haidth Number: 13029
سیدناابن سعدی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تک دشمن سے لڑائی جاری رہے گی، اس وقت تک ہجرت منقطع نہیں ہو سکتی۔ اور سیدنامعاویہ، سیدنا عبدالرحمن بن عوف اور سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص نے بیان کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہجرت کی دو قسمیں ہیں، ایک یہ کہ تم برائیوں کو ترک کر دو۔ اور دوسری یہ کہ تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرو، جب تک اللہ تعالیٰ کے ہاں توبہ قبول ہوتی رہے گی، تب تک ہجرت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوگا اور تو یہ اس وقت تک قبول ہوتی رہے گی، جب تک مغرب کی طرف سے سورج طلوع نہیں ہو جاتا اور جب سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوجائے گا، تب ہر دل میں (کفر یا ایمان اور عمل کی صورت میں) جو کچھ ہو گا، اس پر مہر لگا دی جائے گی اور اس وقت لوگوں کو عمل سے بے نیاز کر دیا جائے گا۔

Haidth Number: 13030
سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے سورج کے مغرب کی طرف سے طلوع ہونے سے پہلے پہلے توبہ کر لی، اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرے گا۔

Haidth Number: 13031