Blog
Books
Search Hadith

قیدیوں کے حق میں احسان کرنے، ان سے فدیہ لینے اور ان سے متعلقہ دوسرے احکام کے ابواب ہوازن کے وفود پر ان کے قیدیوں کے معاملے میں احسان کرنے کا باب

41 Hadiths Found

۔ (۵۰۸۵)۔ عَنْ عَمِّہِ، قَالَ: وَزَعَمَ عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ أَنَّ مَرْوَانَ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَۃَ أَخْبَرَاہُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَامَ حِینَ جَائَ ہُ وَفْدُ ہَوَازِنَ مُسْلِمِینَ، فَسَأَلُوْا أَنْ یَرُدَّ إِلَیْہِمْ أَمْوَالَہُمْ وَسَبْیَہُمْ، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَعِی مَنْ تَرَوْنَ وَأَحَبُّ الْحَدِیثِ إِلَیَّ أَصْدَقُہُ فَاخْتَارُوْا إِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ، إِمَّا السَّبْیَ وَإِمَّا الْمَالَ، وَقَدْ کُنْتُ اسْتَأْنَیْتُ بِکُمْ۔)) وَکَانَ أَنْظَرَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِضْعَ عَشَرَۃَ لَیْلَۃً حِینَ قَفَلَ مِنَ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَیْرُ رَادٍّ إِلَیْہِمْ إِلَّا إِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ قَالُوْا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْیَنَا، فَقَامَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْمُسْلِمِینَ، فَأَثْنٰی عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ، ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ إِخْوَانَکُمْ قَدْ جَائُ وْا تَائِبِین،َ وَإِنِّی قَدْ رَأَیْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَیْہِمْ سَبْیَہُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ یُطَیِّبَ ذٰلِکَ فَلْیَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ یَکُونَ عَلٰی حَظِّہِ حَتّٰی نُعْطِیَہُ إِیَّاہُ مِنْ أَوَّلِ مَا یُفِیء ُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْنَا فَلْیَفْعَلْ۔)) فَقَالَ النَّاسُ: قَدْ طَیَّبْنَا ذٰلِکَ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقَالَ لَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّا لَا نَدْرِی مَنْ أَذِنَ مِنْکُمْ فِی ذٰلِکَ مِمَّنْ لَمْ یَأْذَنْ، فَارْجِعُوْا حَتّٰی یَرْفَعَ إِلَیْنَا عُرَفَاؤُکُمْ أَمْرَکُمْ۔)) فَجَمَعَ النَّاسُ فَکَلَّمَہُمْ عُرَفَاؤُہُمْ ثُمَّ رَجَعُوْا إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرُوہُ أَنَّہُمْ قَدْ طَیَّبُوا وَأَذِنُوا، ہٰذَا الَّذِی بَلَغَنِی عَنْ سَبْیِ ہَوَازِنَََََ۔ (مسند أحمد: ۲۹۱۲۱)۱۹۱۲۱

۔ عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ مروان اور سیدنا مسور بن مخرمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان کو بیان کیا کہ جب ہوازن کا وفد مطیع ہوکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے مال اور قیدی ان کو لوٹا دیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا: میرے ساتھ جو لوگ ہیں، تم ان کو دیکھ رہے ہو، (یہ غنیمت ان کا حق ہے)، اور میرے نزدیک سب سے پسندیدہ بات سچی ہے، لہذا تم دو چیزوں میں ایک کو پسند کر لو اور وہ اس طرح کہ قیدی لے لو یا مال، میں نے تمہاری وجہ سے ہی تقسیم کرنے میں تاخیر کی۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے طائف سے لوٹنے کے بعد پندرہ سولہ دنوں تک ان کا انتظار کیا تھا، جب ان کے لیے واضح ہوا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ایک چیز ہی دینی ہے تو انھوں نے کہا: جی ہم اپنے قیدیوں کو ترجیح دے گے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسلمانوں میں کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، جو اس کے شایانِ شان تھی اور پھر فرمایا: أَمَّـا بَعْـدُ! یہ تمہارے بھائی نادم ہو کر تمہارے پاس آئے ہیں اور میں نے مناسب سمجھا کہ ان کے قیدی ان کو واپس کر دیئے جائیں، جو آدمی اپنی خوشی سے ایسا کرنا چاہتا ہے، وہ میرے فیصلے کو قبول کر لے اور جو آدمی اپنا حصہ لینا چاہے تو ہم اس کے عوض اس کو اس مال میں سے دے دیں گے، جو اللہ تعالیٰ سب سے پہلے ہم کو عطا کرے گا، ایسا شخص بھی اپنے فیصلے کا اظہار کر دے۔ لوگوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خاطر اسی فیصلے کو خوشی سے قبول کیا ہے، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہمیں علم نہیں ہو رہا ہے کہ تم میں کون اجازت دے رہا ہے اور کون نہیں دے رہا، لہذا تم لوٹ جاؤ اور تمہارے سردار تمہاری رضامندی کے بارے میں ہمیں بتائیں۔ پس انھوں نے لوگوں کو جمع کیا، ہر ایک قبیلے سے اس کے سردار نے بات کی اور پھر انھوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کو بتلایا کہ لوگ واقعی اپنی خوشی سے آپ کے فیصلے کو قبول کر رہے ہیں اور اجازت دے رہے ہیں، یہ وہ بات ہے، جو ہوازن کے قیدیوں کے بارے میں مجھے معلوم ہوئی ہے۔

Haidth Number: 5085
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ہوازن کے قیدیوں میں سے ایک لونڈی دی اور انھوں نے وہ مجھے عطا کر دی، میں نے اس کو بنو جمح والے اپنے ماموؤں کی طرف بھیجا، تاکہ وہ اس کو تیار کریں اور میں اِدھر طواف کر لوں، پھر میں ان کے پاس چلا جاؤں گا، جبکہ میں لوٹ کر اس سے جماع کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، لیکن جب میں فارغ ہو کر مسجد سے نکلا اور ہوازن کے لوگوں کو دوڑتے ہوئے دیکھا تو میں نے کہا: تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ انھوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمارے بیٹے اور عورتیں ہمیں واپس کر دیئے ہیں، میں نے کہا: تو پھر تمہاری ایک خاتون بنو جمح قبیلے میں ہے، جاؤ اور اس کو بھی لے لو، پس وہ گئے اور اس خاتون کو بھی اپنے ساتھ لے لیا۔

Haidth Number: 5086
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو تجارت دست بدست ہو،اس میں کوئی سود نہیں ہوتا۔ یعنی سود صرف ادھار میںہوتا ہے، ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سود ادھار میں ہوتا ہے۔

Haidth Number: 5981
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو تجارت دست بدست ہو،اس میں کوئی سود نہیں ہوتا۔ یعنی سود صرف ادھار میںہوتا ہے، ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سود ادھار میں ہوتا ہے۔

Haidth Number: 5982
Haidth Number: 5983
۔ یحییٰ بن قیس مازنی کہتے ہیں: میں نے امام عطاء سے سوال کیا کہ جب دینار کے بدلے دینار اور درہم کے بدلے درہم کی تجارت کی جا رہی ہو تو ان میں کمی بیشی ہو سکتی ہے؟ انھوں نے کہا: سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تو اس کو حلال قرار دیتے تھے، سیدنا ابن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: سیدناابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ وہ امور بیان کرتے ہیں،جو انھوں نے خود رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے نہیں سنے، پس جب یہ بات اُن تک پہنچی تو انھوں نے کہا: واقعی میں نے خود یہ حدیث رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے نہیں سنی، البتہ سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ سود نہیں ہے، مگر ادھار میں۔

Haidth Number: 5984
۔ ابو صالح کہتے ہیں: جب میں نے ابو سعید کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ سونے کے بدلے میں سونا برابر برابر ہونا چاہیے تو میں سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ملا اور ان سے کہا: تم جو کچھ کہتے ہو، اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے، آیا تم نے یہ چیز قرآن مجید میںپائی ہے یا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنی ہے؟ انھوں نے کہا: یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ جس کو میں نے کتاب اللہ میں پایا ہو یا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا ہو، مجھے تو سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے خبرد ی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ سود تو ادھار میں ہے۔

Haidth Number: 5985
۔ ذکوان کہتے ہیں: سیدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف بھیجا اور کہا:ان سے بیع صرف کے بارے میںپوچھنا کہ آیا تم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ایسی حدیث سنی ہے جو ہم نہیں سن پائے یا تم نے اللہ تعالی کی کتاب میں کوئی ایسی چیز پڑھی ہے، جو ہم نہیں پڑھ سکے؟ انہوں نے جواباً کہا: میں ایسی کوئی حدیث بیان نہیں کرتا، بات یہ ہے کہ سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی سود نہیں ہے، مگر ادھار میں۔

Haidth Number: 5986
۔ سلیمان بن علی ربعی کہتے ہیں: ابو جوز ا ء نے ہمیں کئی بار بیان کیاہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بیع صرف کے بارے میں سوال کیا، انہوں نے کہا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ایک کے بدلے دو ہوں یا زیادہ ہوں یا کم ہوں، جب میں اگلی بار حج کے لیے گیا تو یہ بزرگ ابھی تک زندہ تھے، میں ان کے پاس آیا اور بیع صرف کے بارے میں دوبارہ سوال کیا، انھوں نے کہا: وزن میں برابر ہونا چاہیے، میں نے کہا: آپ نے مجھے یہ فتوی دیا تھا کہ ایک کے بدلے دو بھی ہو سکتے ہیں، میں اس وقت سے یہی فتوی دیتا رہا ہوں؟ انھوں نے کہا: یہ میری رائے تھی، اب سیدنا ابوسعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مجھے بیان کیاہے (کہ یہ سود ہے)، اس لیے میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اس حدیث کی وجہ سے اپنی رائے چھوڑ دی ہے۔

Haidth Number: 5987
۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے ہم نے بنو اوطاس قبیلہ کی خواتین لونڈیوں کے طور پرحاصل کیں، جبکہ ان کے خاوند موجود تھے (یعنی وہ پہلے شادی شدہ تھیں اور ان کے خاوند زندہ تھے)، اس لیے ہم نے ان سے جماع کو ناپسند کیا، کیونکہ ان کے خاوند موجود ہیں، پھر جب ہم نے اس بارے میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا تو یہ آیت نازل ہوئی: {وَالْمُحْصَنَاتُ مِنْ النِّسَائِ إِلَّا مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ}… اور خاوند والی عورتیں (بھی حرام کی گئی ہیں) مگر وہ (لونڈیاں) جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہوں۔ تو ملک یمین کی وجہ سے ہم نے ان سے صحبت کی۔

Haidth Number: 8552
۔ مجاہد کہتے ہیں کہ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! مرد جہاد کرتے ہیں اور ہم عورتیں جہاد میں شرکت نہیں کرتیں اور ہماری وراثت کا حصہ بھی مردوں سے آدھا ہے؟ تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: {وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖبَعْضَکُمْعَلٰی بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَـسَبُوْا وَلِلنِّسَاء ِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَـسَبْنَ وَسْـَـلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖاِنَّاللّٰہَکَانَبِکُلِّشَیْء ٍ عَلِـیْمًا}… اور اس چیز کی تمنا نہ کرو جس میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، مردوں کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہے، جو انھوں نے محنت سے کمایا اور عورتوں کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہے، جو انھوں نے محنت سے کمایا اور اللہ سے اس کے فضل میں سے حصہ مانگو۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔

Haidth Number: 8553
۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر سورۂ نساء تلاوت کی، جب میں اس آیت پر پہنچا: {فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰؤُلَائِ شَہِیْدًا} … وہ کیفیت کیسی ہو گی، جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور تجھے ان سب پرگواہ لائیں گے۔ اس سے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

Haidth Number: 8554

۔ (۱۰۶۱۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِیْ قَوْلِہِ تَعَالَی: {وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ} قَالَ: تَشَاوَرَتْ قُرَیْشٌ لَیْلَۃً بِمَکَّۃَ فَقَالَ بَعْضُھُمْ: اِذَا أَصْبَحَ فَأَثْبِتُوْہُ بِالْوَثَاقِ یُرِیْدُوْنَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَقَالَ بَعْضُھُمْ: بَلِ اقْتُلُوْہُ، وَقَالَ بَعْضُھُمْ: بَلْ أَخْرِجُوْہُ، فَأَطْلَعَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِیَّہُ عَلٰی ذٰلِکَ فَبَاتَ عَلِیٌّ عَلٰی فِرَاشِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تِلْکَ اللَّیْلَۃَ، وَخَرَجَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَتّٰی لَحِقَ بِالْغَارِ، وَبَاتَ الْمُشْرِکُوْنَیَحْرُسُوْنَ عَلِیًّایَحْسِبُوْنَہُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا أَصْبَحُوْا ثَارُوْا اِلَیْہِ فَلَمَّا رَأَوْا عَلِیًّا رَدَّ اللّٰہُ مَکْرَھُمْ، فَقَالُوْا: أَیْنَ صَاحِبُکَ ھٰذَا؟ قَالَ: لَا أَدْرِیْ، فَاقْتَصُّوْا اَثَرَہُ، فَلَمَّا بَلَغُوْا الْجَبَلَ خَلَطَ عَلَیْھِمْ، فَصََعَدُوْا فِی الْجَبَلِ فَمَرُّوْا بِالْغَارِ فَرَأَوْا عَلَی بَابِہٖنَسْجَالْعَنْکَبُوْتِ،فَقَالُوْا: لَوْدَخَلَھَاھُنَالَمْیَکُنْ نَسْجُ الْعَنْکَبُوْتِ عَلٰی بَابِہٖفَمَکَثَفِیْہِ ثَلَاثَ لَیَالٍ۔ (مسند احمد: ۳۲۵۱)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے اس آیت {وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ}کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: قریشیوں نے مکہ میں ایک رات کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بارے میں آپس میں مشورہ کیا، کسی نے کہا: جب صبح ہو تو اس (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کو بیڑیوں سے باندھ دو، کسی نے کہا: نہیں، بلکہ اس کو قتل کردو، کسی نے کہا: بلکہ اس کو نکال دو، اُدھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ان باتوں پر مطلع کر دیا، پس سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے بستر پر وہ رات گزاری اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وہاں سے نکل کر غارِ ثور میں پناہ گزیں ہوگئے، مشرکوں نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر پہرہ دیتے ہوئے رات گزاری، ان کا خیال تھا کہ وہ نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر پہرہ دے رہے ہیں، جب صبح ہوئی تو وہ ٹوٹ پڑے، لیکن انھوں نے دیکھا کہ یہ تو علی ہیں، اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کا مکر ردّ کر دیا، انھوں نے کہا: علی! تیرا ساتھی کہاں ہے؟ انھوں نے کہا: میں تو نہیں جانتا، پس وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے قدموں کے نشانات کی تلاش میں چل پڑے، جب اُس پہاڑ تک پہنچے تو معاملہ ان پر مشتبہ ہوگیا، پس یہ پہاڑ پر چڑھے اور غارِ ثور کے پاس سے گزرے، لیکن جب انھوں نے اس کے دروازے پر مکڑی کا جالہ دیکھا تو انھوں نے کہا: اگر وہ (محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) اس غار میں داخل ہوا ہوتا تو مکڑی کا یہ جالہ تو نہ ہوتا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اسی غار میں تین دنوں تک ٹھہرے رہے۔

Haidth Number: 10610

۔ (۱۰۶۱۱)۔ عَنْہٗاَیْضًا قَالَ: لَبِسَ عَلِیٌّ ثَوْبَ النَّبِیِّ ثُمَّّ نَامَ مَکَانَہُ، قَالَ: وَکَانَ الْمُشْرِکُوْنَ یَرْمُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَجَائَ أَبُوْ بَکْرٍ وَعَلِیٌّ نَائِمٌ، قَالَ: وَأَبُوْ بَکْرٍ یَحْسَبُ أَنَّہُ نَبِیُّ اللّٰہِ، قَالَ: فَقَالَ: یَانَبِیَّ اللّٰہِ! قَالَ لَہُ عَلِیٌّ: اِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدِ انْطَلَقَ نَحْوَ بِئْرِ مَیْمُوْنٍ فَأَدْرِکْہُ، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُوْ بَکْرٍ فَدَخَلَ مَعَہُ الْغَارَ، قَالَ: وَجَعَلَ عَلِیٌّیُرْمٰی بِالْحِجَارَۃِ کَمَا کَانَ یُرْمٰی نَبِیُّ اللّٰہِ وَھُوَ یَتَضَوَّرُ، قَدْ لَفَّ رَأْسَہُ فِی الثَّوْبِ لَا یَخْرُجُہُ حَتّٰی أَصْبَحَ ثُمَّّ کَشَفَ عَنْ رَأْسِہِ فَقَالُوْا: اِنَّکَ لَلَئِیْمٌ، کَانَ صَاحِبُکَ نَرْمِیْہِ فَـلَا یَتَضَوَّرُ وَأَنْتَ تَتَضَوَّرُ وَقَدِ اسْتَنْکَرْنَا ذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۳۰۶۱)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کپڑے پہنے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی جگہ پر سو گئے، مشرک لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پتھر مارا کرتے تھے، اُدھر سے جب سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سوئے ہوئے تھے، جبکہ ان کا خیال تھا کہ وہ اللہ کے نبی ہیں، اس لیے انھوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آگے سے کہا: نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو بئر میمون کی طرف نکل گئے ہیں، تم ان کو جا ملو، پس سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اُدھر چل پڑے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ غار میں داخل ہو گئے۔ جیسے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پتھر مارے جاتے تھے، اسی طرح سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو پتھر مارے جانے لگے، لیکن وہ تکلیف سے تڑپ اٹھتے تھے اور انھوں نے اپنے سر پر کپڑا لپیٹا ہوا تھا، انھوں نے سر کو باہر نہ نکالا یہاں تک کہ صبح ہو گئی، پھر جب انھوں نے سر سے کپڑا اتارا تو مشرکوں نے کہا: بیشک تو گھٹیا درجے کا ہے، جب ہم تیرے ساتھی کو مارتے تھے تو وہ نہیں تڑپتے تھے اور تو تڑپ اٹھتا تھا، ہم پہلے سے اس چیز کا انکار کر چکے ہیں (یعنی ہمیں پتہ چل گیا تھا کہ یہ سونے والا آدمی محمد نہیں ہے)۔

Haidth Number: 10611
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مکہ مکرمہ میں تھے، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ہجرت کا حکم دیا گیا اور یہ آیت آپ پر اتاری گئی: اور دعا کریں کہ اے میرے پروردگار! مجھے جہاں لے جا اچھی طرح لے جا اور جہاں سے نکال اچھی طرح نکال اور میرے لیے اپنے پاس سے غلبہ اور امداد مقرر فرما۔ (سورۂ بنو اسرائیل: ۸۰)

Haidth Number: 10612

۔ (۱۰۷۸۴)۔ عَنْ أَبِیْ عَیَّاشٍ الزُّرَقِی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِعُسْفَانَ فَاسْتَقْبَلَنَا الْمُشْرِکُوْنَ عَلَیْہٖمْ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیْدِ وَہُمْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ فَصَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الظُّہْرَ فَقَالُوْا: قَدْ کَانُوْا عَلٰی حَالٍ لَوْ أَصَبْنَا غِرَّتَہُمْ، قَالُوْا: تَأْتِیْ عَلَیْہِمُ الْآنَ صَلَاۃٌ ہِیَ أَحَبُّ إِلَیْہِمْ مِنْ أَبْنَائِہِمْ وَأَنْفُسِہِمْ، ثُمَّ قَالَ: فَنَزَلَ جِبْرَئِیْلَ عَلَیْہِ السَّلَامِ بِہٰذِہِ الْآیَاتِ بَیْنَ الظَّہْرِ وَالْعَصْرِ {وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَأَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلَاۃَ …} قَالَ: فَحَضَرَتْ فَأَمَرَہُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأخَذُوْا السَّلَاحَ، قَالَ: فَصَفَفْنَا خَلْفَہُ صَفَّیْنِ، قَالَ: ثُمَّ رَکَعَ فَرَکَعْنَا جَمِیْعًا، ثُمَّ رَفَعَ فَرَفَعْنَا جَمِیْعًا، ثُمَّ سَجَدَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالصَّفِّ الَّذِیْیَلِیْہِ وَالآخَرُوْنَ قِیَامٌیحرُسُوْنَھُمْ فَلَمَّا سَجَدُو وَقَامُوْا جَلَسَ اْلآخَرُوْنَ فَسَجَدُوْا فِی مَکَانِھِمْ ثُمَّ تَقَدَّمَ ھٰؤُلَائِ إِلٰی مَصَافِّ ھٰؤُلَائِ وَجَائَ ھٰؤُلَائِ إِلٰی مَصَافِّ ھٰؤُلَائِ، قَالَ: ثُمَّ رَکَعَ فَرَکَعُوا جَمِیْعًا، ثُمَّ رَفَعَ فَرَفَعُوْا جَمِیْعًا، ثُمَّ سَجَدَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَالصَّفُّ الَّذِییَلِیْہِ، وَالآخَرُوْنََ قِیَامٌیَحْرُسُوْنَھُمْ، فَلَمَّا جَلَسَ جَلَسَ الآخَرُوْنَ فَسَجَدُوْ فَسَلَّمَ عَلَیْھِمْ ثُمَّ انْصَرَفَ، قَالَ: فَصَلَّاھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہِ وَسَلَّمَ مَرَّتَیْنِ، مَرَّۃً بِعُسْفَانَ، وَمَرَّۃً بَأَرْضِ بَنِی سُلَیْم۔ (مسند احمد: ۱۶۶۹۶)

سیّدنا ابو عیاش زرقی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ عسفان کے مقام پر تھے، مشرکین ہمارے مدمقابل آ گئے، ان کی قیادت خالد بن ولید کر رہے تھے، وہ لوگ ہمارے اور قبلہ کے درمیان تھے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی، وہ لوگ آپس میں کہنے لگے:یہ مسلمان نماز میں مشغول تھے، کاش کہ ہم ان کی غفلت سے فائدہ اٹھا لیتے۔ پھر انھوں نے کہا: ابھی کچھ دیر بعد ان کی ایک اور نماز کاوقت ہونے والا ہے، وہ ان کو اپنی جانوں اور اولادوں سے بھی زیادہ عزیز ہے۔اسی وقت ظہر اور عصر کے درمیان جبریل علیہ السلام یہ آیات لے کر نازل ہوئے: {وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَأَقَمْتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ فَلْتَقُمْ طَائِفَۃٌ مِّنْہُمْ مَّعَکَ وَلْیَأْخُذُوْا اَسْلِحَتَہُمْ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَائِکُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَۃٌ أُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ} … جب تم ان میں ہو اور ان کے لیے نماز کھڑی کرو تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لیے کھڑی ہو، پھر جب یہ سجدہ کر چکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آ جائیں اور وہ دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وہ آ جائے اور تیرے ساتھ نماز ادا کرے۔ (النسائ: ۱۰۲)جب عصر کاوقت ہوا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے حکم دیا کہ صحابہ کرام اسلحہ لے کر کھڑے ہوں، ہم نے آپ کے پیچھے دو صفیں بنا لیں، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رکوع کیا تو ہم سب نے رکوع کیا اور جب آپ رکوع سے اٹھے تو ہم بھی اٹھ گئے۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سجدہ کیا تو صرف آپ کے پیچھے والی پہلی صف والوں نے سجدہ کیا اور دوسری صف والے کھڑے ہو کر پہرہ دیتے رہے۔ جب وہ لوگ سجدے کرکے کھڑے ہوئے تو دوسری صف والوں نے بیٹھ کر اپنی اپنی جگہ سجدہ کیا، پھر (دوسری رکعت کے شروع میں) اگلی صف والے پیچھے اور پچھلی صف والے آگے آگئے۔ پھر اسی طرح سب نمازیوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ رکوع کیا اور رکوع سے سر اٹھایا، پھر جب آپ نے سجدہ کیا تو پہلی صف والوں نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا اور دوسری صف والے کھڑے ہو کر پہرہ دیتے رہے، جب آپ اور پہلی صف والے لوگ سجدہ کرکے بیٹھ گئے تو دوسری صف والوں نے بیٹھ کر سجدہ کر لیا (اور سب تشہد میں بیٹھ گئے، پھر) سب نے مل کر سلام پھیر ا اور نماز سے فارغ ہوئے۔رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس انداز میں دو دفعہ نماز پڑھائی، ایک دفعہ عسفان میں اور دوسری دفعہ بنو سلیم کے علاقہ میں۔

Haidth Number: 10784

۔ (۱۰۷۸۵)۔ عَنْ أَبِی ہُرَْیرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌َٔنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نَزَلَ بَیْنَ ضَجْنَانَ وَعُسْفَانَ فَقَالَ الْمُشْرِکُوْنَ: إِنَّ لَہُمْ صَلَاۃً ہِیَ أَحَبُّ إِلَیْہِمْ مِنْ آبَائِہِمْ وَاَبْنَائِہِمْ وَہِیَ الْعََصْرِ، فَأَجْمِعُوْا أَمْرَکُمْ فَمِیْلُوْا عَلَیْہِمْ مَیْلَۃً وَاحِدَۃً، وَأِنَّ جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَمَرَہُ أَنْ یَقْسِمَ أَصْحَابَہٗشَطْرَیْنِ فَیُصَلِّیَ بِبَعْضِہِمْ، وَتَقُوْمُ الطَّائِفَۃُ اْلأُخْرٰی وَرَائَ ہُمْ، وَلْیَأْخُذُوا حِذْرَہُمْ وَأَسْلِحَتَہُمْ، ثُمَّ تَأْتِیْ الأُخْرٰی فَیُصَلُّوْنَ مَعَہُ وَیَأْخُذُ ہٰؤُلَائِ حِذْرَہُمْ وَأَسْلِحَتَہُمْ لِتَکُوْنَ لَہُمْ رَکْعَۃٌ رَکْعَۃٌ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَلِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَکْعَتَانِ۔ (مسند احمد: ۱۰۷۷۵)

سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ضجنان اور عسفان کے درمیان پڑاؤ ڈالا۔ مشرکین نے کہا:مسلمانوں کو عصر کی نماز اپنے آباء و اجداد اور اولادسے بھی بڑھ کر محبوب ہے۔ تیاری مکمل کر لو، ان پر یکدم حملہ کرناہے۔ اُدھر جبریل علیہ السلام نے آ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو حکم دیا کہ آپ اپنے صحابہ کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیں، ایک گروہ کو نماز پڑھائیں اوردوسرا گروہ ان کے پیچھے اپنی بچاؤ کی چیزیں اور اسلحہ پکڑ کر کھڑا ہو جائے، پھر وہ دوسرا گروہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نماز پڑھے اور یہ گروہ اپنی بچاؤ کی چیزیں اور اسلحہ پکڑ لے، اس طرح لوگوں کی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ ایک ایک رکعت ہو جائے گی اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی دو رکعتیں ہو جائیں گی۔

Haidth Number: 10785
سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ خندق کے دن جب حالات سنگین ہو گئے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی ہے جو جا کر بنو قریظہ کی خبر لے کر آئے۔ یہ سن کر سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ گئے اور ان کے احوال معلوم کرکے آئے، جب پھر معاملہ سخت ہوا، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسی طرح تین مرتبہ فرمایاکہ کون ہے جو بنو قریظہ کے احوال معلوم کرکے آئے۔ ہر بار سیدنا زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اٹھ کر گئے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیرہے۔

Haidth Number: 11699
سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: زبیر میرا پھوپھی زاد اور میری امت میں سے میرا حواری ہے۔

Haidth Number: 11700
زربن جیش سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میںحاضر تھا کہ ابن جرموز نے ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: سیدہ صفیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بیٹےیعنی سیدنا زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت دے دو۔ اس کے بعد سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر نبی کا ایک حواری ہوتاہے اور میرا حواری زبیر ہے۔ امام سفیان نے کہا: حواری سے مراد مدگار ہے۔

Haidth Number: 11701
زر بن جیش سے روایت ہے کہ ابن جرموز نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں آنے کی اجازت طلب کی، انھوں نے دریافت کیا: کون ہے ؟ لوگوںنے بتلایا کہ ابن جرموز آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اسے آنے دو، زبیر کا قاتل ضرور بالضرور جہنم رسید ہوگا۔ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کہتے سنا، پھر سابق حدیث کی طرح کی حدیث بیان کی۔

Haidth Number: 11702
سیدنا زبیر بن عوام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے،انہوںنے اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا: میرے پیارے بیٹے ! اللہ کی قسم! رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے مخاطب ہوتے ہوئے اپنے والدین کا ذکر کرکے فرمایا کرتے تھے: تجھ پر میرے والدین قربان ہوں۔

Haidth Number: 11703
سیدہ اسمائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے غلام عبد اللہ سے مروی ہے کہ اس نے سیدہ اسماء بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: میرے پاس زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی دو آستینیں ہیں، جو ریشم کی بنی ہوئی وہ ان کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عنایت کی تھیں، وہ انہیں پہن کر دشمن کے مقابلے کو نکلا کرتے تھے۔

Haidth Number: 11704
ہشام بن عروہ اپنے والد سے اور وہ مروان سے بیان کرتے ہیں،میں نہیں سمجھتا کہ وہ ہمارے نزدیک قابل تہمت ہو، ا س نے کہا کہ (۳۱) سن ہجری جو کہ سنۃ الرعاف یعنی نکسیر کا سال کہلاتا ہے، اس سال سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو نکسیر آئی اور ان کو اس قدر نکسیر آنے لگی کہ وہ حج کے لیے بھی نہ جا سکے اور انہیں موت کا اندیشہ لاحق ہوا تو انہوںنے اپنے بعد وصیت بھی کر دی، ایک قریشی آدمی ان کی خدمت میں گیا تو اس نے پوچھا: کیا آپ کے بعد کسی کو خلیفہ نام زد کر دیا گیا ہے؟ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دریافت کیا: کیا لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں، انھوں نے پوچھا: وہ کون ہے یعنی خلیفہ کسے نامزد کیا گیاہے ؟ وہ خاموش رہا ، پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے بھی پہلے آدمی والی بات کی اور انہوںنے اسے بھی وہی جواب دیا۔ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: کیا لوگ زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خلیفہ بنائے جانے کا ذکر کرتے ہیں۔ اس نے کہا: جی ہاں۔ انھوں نے کہا: اس ذات کیقسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میرے علم کے مطابق وہ سب سے افضل ہیں اور ررسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔

Haidth Number: 11705

۔ (۱۲۲۲۸)۔ عَنْ جُوَیْرِیَۃَ بْنِ قُدَامَۃَ، قَالَ: حَجَجْتُ فَأَتَیْتُ الْمَدِینَۃَ الْعَامَ الَّذِی أُصِیبَ فِیہِ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَالَ: فَخَطَبَ فَقَالَ: إِنِّی رَأَیْتُ کَأَنَّ دِیکًا أَحْمَرَ نَقَرَنِی نَقْرَۃً أَوْ نَقْرَتَیْنِ، شُعْبَۃُ الشَّاکُّ، فَکَانَ مِنْ أَمْرِہِ أَنَّہُ طُعِنَ فَأُذِنَ لِلنَّاسِ عَلَیْہِ، فَکَانَ أَوَّلَ مَنْ دَخَلَ عَلَیْہِ أَصْحَابُ النَّبِیِّ صَلَّیاللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَہْلُ الْمَدِینَۃِ، ثُمَّ أَہْلُ الشَّامِ، ثُمَّ أُذِنَ لِأَہْلِ الْعِرَاقِ فَدَخَلْتُ فِیمَنْ دَخَلَ، قَالَ: فَکَانَ کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْہِ قَوْمٌ أَثْنَوْا عَلَیْہِ وَبَکَوْا، قَالَ: فَلَمَّا دَخَلْنَا عَلَیْہِ،قَالَ: وَقَدْ عَصَبَ بَطْنَہُ بِعِمَامَۃٍ سَوْدَائَ، وَالدَّمُ یَسِیلُ، قَالَ: فَقُلْنَا: أَوْصِنَا، قَالَ: وَمَا سَأَلَہُ الْوَصِیَّۃَ أَحَدٌ غَیْرُنَا، فَقَالَ: عَلَیْکُمْ بِکِتَابِ اللّٰہِ، فَإِنَّکُمْ لَنْ تَضِلُّوا مَا اتَّبَعْتُمُوہُ، فَقُلْنَا: أَوْصِنَا، فَقَالَ: أُوصِیکُمْ بِالْمُہَاجِرِینَ، فَإِنَّ النَّاسَ سَیَکْثُرُونَ وَیَقِلُّونَ، وَأُوصِیکُمْ بِالْأَنْصَارِ فَإِنَّہُمْ شِعْبُ الْإِسْلَامِ الَّذِی لَجِئَ إِلَیْہِ، وَأُوصِیکُمْ بِالْأَعْرَابِ فَإِنَّہُمْ أَصْلُکُمْ وَمَادَّتُکُمْ، وَأُوصِیکُمْ بِأَہْلِ ذِمَّتِکُمْ فَإِنَّہُمْ عَہْدُ نَبِیِّکُمْ، وَرِزْقُ عِیَالِکُمْ، قُومُوْا عَنِّی، قَالَ: فَمَا زَادَنَا عَلٰی ہَؤُلَائِ الْکَلِمَاتِ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ: قَالَ شُعْبَۃُ: ثُمَّ سَأَلْتُہُ بَعْدَ ذٰلِکَ، فَقَالَ فِی الْأَعْرَابِ: وَأُوصِیکُمْ بِالْأَعْرَابِ، فَإِنَّہُمْ إِخْوَانُکُمْ وَعَدُوُّ عَدُوِّکُمْ۔ (مسند احمد: ۳۶۲)

جو یریہ بن قدامہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جس سال سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا، اس سال میں نے حج کیا اور پھر میںمدینہ منورہ آیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لوگوں سے خطاب کیا اور کہا: میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا ایک سرخ مرغ نے مجھے ایک دو ٹھونگیں ماری ہیں۔ ، پھر ہوا یوں کہ واقعی ان پر قاتلانہ حملہ ہو گیا، جب لوگوں کو ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت دی گئی تو سب سے پہلے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اصحاب ان کے پاس گئے، ان کے بعد باقی اہل مدینہ، ان کے بعد اہل شام اور ان کے بعد اہل عراق، میں بھی ان لوگوں میں موجود تھا، جب لو گ ان کے پاس جاتے تو ان کی تعریف کرتے اور رونے لگ جاتے، جب ہم گئے تو ان کے پیٹ کو ایک سیاہ پگڑی کے ساتھ باندھا گیا تھا اور خون بہہ رہا تھا۔ ہم نے کہا: آپ ہمیں وصیت فرمائیں، ہمارے گروہ کے سوا کسی نے وصیت کرنے کی درخواست نہیں کی تھی، ہماری درخواست سن کر انہوں نے کہا: تم اللہ کی کتاب کو لازم پکڑو، تم جب تک اس کی پیروی کرتے رہوگے، اس وقت تک گمراہ نہیں ہوگے۔ ہم نے کہا: آپ ہمیں مزید وصیت کریں، انھوں نے کہا: میں تمہیں مہاجرین کے بارے میں وصیت کرتاہوں، لوگوں کی تعداد بڑھ رہی اور مہاجرین کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے اور میں تمہیں انصار کے بارے میں بھی وصیت کرتا ہوں، یہ وہ گھاٹی ہیں، جس میں اسلام نے آکر پناہ لی،میں تمہیں بادیہ نشینوں کے متعلق بھی وصیت کرتاہوں، کیونکہ وہ مسلمانوں کی اصل او ربنیادی جوہر ہیں اور میں تمہیں ذمی لوگوں کے بارے میں بھی وصیت کرتا ہوں،تمہارے نبی نے ان کو امان دی ہے اور یہ لوگ تمہارے اہل وعیال کی روزی کا ذریعہ بھی ہیں، اب تم میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔ سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے زیادہ ہم سے باتیں نہیں کیں۔ شعبہ کہتے ہیں:اس کے بعد ایک بار میں نے ان سے سوال کیا تو انھوں نے بدوؤں کے بارے میں کہا: میں تمہیں بادیہ نشینوں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں، کیونکہ یہ تمہارے بھائی ہیں اورتمہارے دشمنوں کے دشمن ہیں۔

Haidth Number: 12228

۔ (۱۲۲۲۹)۔ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْیَرِیِّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ بِالْبَصْرَۃِ، قَالَ: أَنَا أَوَّلُ مَنْ أَتٰی عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حِینَ طُعِنَ، فَقَالَ: احْفَظْ عَنِّی ثَلَاثًا، فَإِنِّی أَخَافُ أَنْ لَا یُدْرِکَنِیالنَّاسُ، أَمَّا أَنَا فَلَمْ أَقْضِ فِی الْکَلَالَۃِ قَضَائً، وَلَمْ أَسْتَخْلِفْ عَلَی النَّاسِ خَلِیفَۃً، وَکُلُّ مَمْلُوکٍ لَہُ عَتِیقٌ، فَقَالَ لَہُ النَّاسُ: اسْتَخْلِفْ، فَقَالَ: أَیَّ ذٰلِکَ أَفْعَلُ فَقَدْ فَعَلَہُ مَنْ ہُوَ خَیْرٌ مِنِّی، إِنْ أَدَعْ إِلَی النَّاسِ أَمْرَہُمْ، فَقَدْ تَرَکَہُ نَبِیُّ اللّٰہِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃ وَالسَّلَامُ، وَإِنْ أَسْتَخْلِفْ فَقَدْ اسْتَخْلَفَ مَنْ ہُوَ خَیْرٌ مِنِّی أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَقُلْتُ لَہُ: أَبْشِرْ بِالْجَنَّۃِ، صَاحَبْتَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَطَلْتَ صُحْبَتَہُ وَوُلِّیتَ أَمْرَ الْمُؤْمِنِینَ، فَقَوِیتَ وَأَدَّیْتَ الْأَمَانَۃَ، فَقَالَ: أَمَّا تَبْشِیرُکَ إِیَّایَ بِالْجَنَّۃِ، فَوَاللّٰہِ! لَوْ أَنَّ لِی قَالَ عَفَّانُ: فَلَا، وَاللّٰہِ الَّذِی لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ، لَوْ أَنَّ لِی الدُّنْیَا بِمَا فِیہَا لَافْتَدَیْتُ بِہِ مِنْ ہَوْلِ مَا أَمَامِی قَبْلَ أَنْ أَعْلَمَ الْخَبَرَ، وَأَمَّا قَوْلُکَ فِی أَمْرِ الْمُؤْمِنِینَ فَوَاللّٰہِ، لَوَدِدْتُ أَنَّ ذٰلِکَ کَفَافًا لَا لِیوَلَا عَلَیَّ، وَأَمَّا مَا ذَکَرْتَ مِنْ صُحْبَۃِ نَبِیِّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذٰلِکَ۔ (مسند احمد: ۳۲۲)

سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو میں سب سے پہلے ان کے پاس گیا اور انہوں نے مجھ سے کہا: تم میری تین باتیں یادرکھنا، مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ مجھے نہ مل سکیں گے، ایک یہ کہ میں نے کلالہ کی بابت کوئی حتمی فیصلہ نہیںکیا۔ دوسری یہ کہ میںنے کسی کو لوگوں پر خلیفہ نامزد نہیں کیا اور تیسری یہ کہ تمام غلام جو میری ملکیت میں ہیں، وہ سب آزاد ہیں۔پھر لوگوں نے ان سے کہا: آپ کسی کو خلیفہ نامزد کردیں۔ انہوں نے کہا: میں دو امور میں سے جو بھی کروں، وہی کام مجھ سے افضل ہستی کر چکی ہے، اگر میں خلافت کے معاملے کو لوگوں کے سپرد کر جاؤں تو اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی ایسے ہی کیا تھا،اور اگر میں کسی کو خلیفہ نامزد کر جاؤں تو مجھ سے پہلے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یہ کام کر چکے ہیں، جبکہ وہ مجھ سے بہتر ہیں۔میں نے ان سے کہا: آپ کو جنت کی بشارت ہو، آپ کو طویل عرصہ تک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مصاحبت کا شرف حاصل رہا، آپ کو امیر المومنین کا منصب سونپا گیا تو آپ نے قوت کا مظاہرہ کیااور امانت کا خوب حق ادا کیا۔ یہ سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: جہاں تک تمہارا مجھے جنت کی بشارت دینے کا تعلق ہے، تو اللہ کی قسم ہے کہ مجھے آخرت کا اس قدرڈر ہے کہ اس بارے حتمی خبر جاننے سے قبل اگر میرے پاس دنیا بھر کی دولت بھی ہوتو میں اس ڈر سے بچنے کی خاطر ساری دولت بطور فدیہ دے دوں، اہل ایمان پر خلافت و امارت کے بارے میں جو کچھ تم نے کہا ہے، میں تو یہ پسند کرتاہوں کہ اگر حساب برابر سرابر ہو جائے، یعنی نہ مجھے کچھ ملے اور نہ مجھ پہ کوئی جرم لگایا جائے تو اس چیز کو میں اپنے حق میں کافی سمجھوں گا، البتہ تم نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صحبت جو ذکر کیا ہے، وہ شرف باعث ِ اعزاز ہے۔

Haidth Number: 12229
سیدنا عبد اللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: میں نے لوگوں کو کچھ باتیں کرتے ہوئے سنا ہے تو میں نے عزم کیا کہ ان باتوں کاآپ سے ذکر کروں، لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کر رہے، یہ سن کر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کچھ دیر کے لیے سر جھکا لیا اور پھر سر اٹھا کر کہا: بے شک اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت کرے گا،اگر میں کسی کو خلیفہ نامزد نہ کروں تو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بھی کسی کو نامزد نہیں گیا تھا اوراگر میں کسی کو خلیفہ نامزد کردوں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہو گا، کیونکہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نامزد کیا تھا۔ یہ سن کر سیدنا ابن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جب انہوں نے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، اِن دو ہستیوں کا ذکر کیا تو میںجان گیا کہ وہ کسی کو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے برابر نہیں کریں گے اور کسی کو خلیفہ نامزد نہیں کریں گے۔

Haidth Number: 12230

۔ (۱۲۲۳۱)۔ عَنْ أَبِی رَافِعٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، کَانَ مُسْتَنِدًا إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعِنْدَہُ ابْنُ عُمَرَ وَسَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا، فَقَالَ: اعْلَمُوا أَنِّی لَمْ أَقُلْ فِی الْکَلَالَۃِ شَیْئًا، وَلَمْ أَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِی أَحَدًا، وَأَنَّہُ مَنْ أَدْرَکَ وَفَاتِی مِنْ سَبْیِ الْعَرَبِ فَہُوَ حُرٌّ مِنْ مَالِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ، فَقَالَ سَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ: أَمَا إِنَّکَ لَوْ أَشَرْتَ بِرَجُلٍ مِنْ الْمُسْلِمِینَ لَأْتَمَنَکَ النَّاسُ، وَقَدْ فَعَلَ ذٰلِکَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأْتَمَنَہُ النَّاسُ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: قَدْ رَأَیْتُ مِنْ أَصْحَابِی حِرْصًا سَیِّئًا، وَإِنِّی جَاعِلٌ ہٰذَا الْأَمْرَ إِلٰی ہَؤُلَائِ النَّفَرِ السِّتَّۃِ، الَّذِینَ مَاتَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ عَنْہُمْ رَاضٍ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: لَوْ أَدْرَکَنِی أَحَدُ رَجُلَیْنِ ثُمَّ جَعَلْتُ ہٰذَا الْأَمْرَ إِلَیْہِ لَوَثِقْتُ بِہِ، سَالِمٌ مَوْلٰی اَبِیْ حُذَیْفَۃَ وَاَبُوْ عُبَیْدَۃَ ابْنُ الْجَرَّاحِ۔ (مسند احمد: ۱۲۹)

ابو رافع سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا عبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما کے سہارے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، سیدنا ابن عمر اور سیدنا سعید بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بھی ان کے ہاں موجود تھے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یا درکھو کہ میں نے کلالہ کی بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا اور میں نے اپنے بعد کسی کو خلیفہ کے طور پر نامزد نہیں کیا اور میری وفات کے وقت جتنے عرب غلام میری ملکیت میں ہوں، وہ سب اللہ تعالیٰ کے مال سے آزاد ہوں گے۔ سیدنا سعید بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: اگر آپ خلافت کے بارے میں کسی مسلمان کا اشارہ کر دیں تو لوگ اس بارے میں آپ کو امین خیال کریں گے، جیسا کہ سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایسا کرگئے تھے اور لوگوں نے ان کو امین سمجھا تھا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں نے اپنے ساتھیوں میں خلافت کی شدید حرص دیکھی ہے، پس میں اس امر کو ایسے چھ اشخاص کے سپرد کر رہا ہوں کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات کے وقت جن سے خوش تھے، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگرمجھے ان دو افراد میں کوئی ایک پا لیتا تو میں یہ معاملہ اس کے سپرد کر کے اس پر اعتماد کرتا، ایک سالم مولی ابی حذیفہ اور دوسرا ابو عبیدہ بن الجراح۔1

Haidth Number: 12231
عمر بن عبدالرحمن بن حارث سے روایت ہے کہ ابو بصرہ غفاری کی طور سے واپسی پرسیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملاقات ہوگئی، انہوں نے کہا: کہاں سے آرہے ہو؟ انھوں نے کہا: طور سے، میں وہاں نماز ادا کرنے گیا تھا، سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اگر تم روانگی سے قبل مجھ سے ملتے تو تم وہاں نہ جاتے، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: پالانوں کو نہ کسا جائے، یعنی سفر کا خصوصی اہتمام نہ کیا جائے، مگر تین مساجد کی طرف، مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔

Haidth Number: 12699
سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ کسی بھی جگہ کی طرف بطور خاص سفر نہ کیا جائے۔

Haidth Number: 12700