Blog
Books
Search Quran
Lughaat

اَلْبَوَائُ کے اصل معنی کسی جگہ کے اجزا کا مساوی (اور سازگار موافق) ہونے کے ہیں۔ یہ نَبْوَۃٌ کی ضد ہے جس کے معنی اجزاء کی ناہمواری (ناسازگاری) کے ہیں۔ لہٰذا مَکَانٌ بَوَائٌ اس مقام کو کہتے ہیں۔ جو اس جگہ پر اترنے والے کے سازگار اور موافق ہو۔ بَوَّأْتُ لَہٗ مَکَانًا: میں نے اس کے لیے جگہ کو ہموار اور درست کیا اور تَبوَّأْتُ اس کا مطاوع ہے، جس کے معنی کسی جگہ ٹھہرنے کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰی وَ اَخِیۡہِ اَنۡ تَبَوَّاٰ لِقَوۡمِکُمَا بِمِصۡرَ بُیُوۡتًا ) (۱۰:۸۷) اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام اور اس کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنے لوگوں کے لیے مصر میں گھر بناؤ۔ (وَ لَقَدۡ بَوَّاۡنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ مُبَوَّاَ صِدۡقٍ ) (۱۰:۹۳) اور ہم نے بنی اسرائیل کے رہنے کو عمدہ جگہ دی۔ (تُبَوِّیُٔ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ مَقَاعِدَ لِلۡقِتَالِ) (۳:۱۲۱) ایمان والوں کو لڑائی کے لیے مورچوں پر (موقع بہ موقع) متعین کرنے لگے۔ (یَتَبَوَّاُ مِنۡہَا حَیۡثُ یَشَآءُ ) (۱۲:۵۶) وہ اس ملک میں جہاں چاہتے تھے، رہتے تھے۔ ایک روایت میں ہے(1) (۴۵) اِنَّہٗ کَانَ عَلَیْہِ السَّلَامُ یَتَبَوَّأ لِبَوْلِہٖ کَمَا یَتَبَوَّأُ لِمَنْزِلِہٖ۔ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پیشاب کرنے کے لیے ہموار اور مناسب جگہ تلاش کرتے، جیسے کوئی شخص اقامت کے لیے جگہ تلاش کرتا ہے۔ بَوَّأْتُ الرُّمْحَ: میں نے مناسب جگہ پر نیزہ مارا۔ ایک حدیث میں ہے: (2) مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ۔ جو عمداً مجھ پر جھوٹ لگائے اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ الراعی نے اونٹوں کی صفت میں کہا ہے۔ (3) (۷۱) لَھَا اَمْرُھَا حَتّٰی اِذَا مَا تَبوَّأَتْ، بِاَخْفَافِھَا مَأوًی تَبَوَّأَ مَضْجَعًا۔ یعنی چرواہا اونٹ چھوڑ دیتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ چرنے کے لیے جگہ ہموار پالیتے ہیں تو وہ اپنی آرام گاہ پر آکر سوجاتا ہے۔ اور تَبَوَّأ فُلَانٌ (کنایہ) کے معنی نکاح کرنے کے ہیں جیساکہ بَنٰی بِاَھْلِہٖ وغیرہ اس معنی میں استعمال ہوتا ہے اور بَوَائٌ کا لفظ مصاہرت یا قصاص میں برابر ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ محاورہ ہے: فُلَانٌ بَوَائٌ لِفُلَانِ۔ وہ فلاں کا ہمسر ہے یعنی رشتۂ مصاہرت میں اس کا کفو ہے یا قصاص میں اس کے مساوی ہے۔ اور آیت کریمہ: (فَقَدۡ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہ) (۸:۱۶) کے معنی یہ ہیں کہ وہ ایسی جگہ پر اترا کہ اس کے ساتھ اﷲ کا غضب یعنی عقوبت ہے۔ تو یہاں بِغَضَبٍ موضع حال میں ہے، جیسے خَرَجَ بِسَیْفِہٖ میں ہے اور مُرَّ بِزَیْدٍ کی طرح مفعول نہیں ہے۔ اور بِغَضَبٍ پر باء لاکر تنبیہ کی ہے کہ موافق جگہ میں ہونے کے باوجود وہ غضب الٰہی میں گرفتار ہے تو ناموافق جگہ میں باالْاَولٰی اس پر غضب ہوگا۔ لہٰذا یہ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ کی مثل ہے اور آیت کریمہ: (اِنِّیۡۤ اُرِیۡدُ اَنۡ تَبُوۡٓاَ بِاِثۡمِیۡ وَ اِثۡمِکَ ) (۵:۲۹) میں تبوئِ بِاِثْمِیْ کے معنی یہ ہیں کہ تو اس حالت کے ساتھ ہمیشہ رہے۔ شاعر نے کہا ہے(4) (طویل) (۷۲) اَنْکَرْتُ بَاظِلَھا وَبؤتُ بِحَقِّھَا۔ میں نے اس کے باطل کا انکار کیا اور اس کے حق پر اقرار کیا۔ جن لوگوں نے اس کے معنی اقررتَ بحقھا (یعنی اس کے حق کا اقرار کیا) کیے یہں تو یہ تفسیر مقتضی لفظ کے مطابق نہیں ہے۔ اَلْبَائَ ۃٌ کنایہ ازجماع خلف الاحمر سے منقول ہے کہ حَیَّاکَ اﷲُ وَبَیَّاکَ اﷲُ میں بَیَّاک اصل میں بَوَّئَ کَ منزلاً ہے، جیساکہ اٰتَیْتُہٗ الغَدَایَا وَالعشایا میں ہے۔ یعنی عشایا کی مناسبت سے غدایَا کہا جاتا ہے۔

Words
Words Surah_No Verse_No
بَاۗءَ سورة آل عمران(3) 162
بَاۗءَ سورة الأنفال(8) 16
بَوَّاْنَا سورة يونس(10) 93
بَوَّاْنَا سورة الحج(22) 26
تَبَوَّؤُ سورة الحشر(59) 9
تَبَوَّاٰ سورة يونس(10) 87
تَبُوْۗاَ سورة المائدة(5) 29
تُبَوِّئُ سورة آل عمران(3) 121
فَبَاۗءُوْ سورة البقرة(2) 90
لَنُبَوِّئَنَّهُمْ سورة النحل(16) 41
لَنُبَوِّئَنَّهُمْ سورة العنكبوت(29) 58
مُبَوَّاَ سورة يونس(10) 93
نَـتَبَوَّاُ سورة الزمر(39) 74
وَبَاۗءُوْ سورة البقرة(2) 61
وَبَاۗءُوْ سورة آل عمران(3) 112
وَّبَوَّاَكُمْ سورة الأعراف(7) 74
يَتَبَوَّاُ سورة يوسف(12) 56