Blog
Books
Search Hadith

اللہ تعالیٰ کی معرفت، توحید اوراس کے وجود کے اعتراف کے واجب ہونے کا بیان

1247 Hadiths Found
سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نعمان یعنی عرفہ کے مقام پر حضرت آدمؑ کی پشت (یعنی ان کی اولاد)سے مضبوط عہد لیا، اس کا طریق کار یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی پیٹھ سے وہ ساری اولاد نکالی، جو اس نے پید اکرنی تھی اور ان کو آپؑ کے سامنے چیونٹیوںکی طرح بکھیر دیا اور پھر ان سے آمنے سامنے کلام کرتے ہوئے کہا: کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے۔ یا یوں کہو کہ پہلے پہل یہ شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے، سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا۔

Haidth Number: 1

۔ (۲)۔ عَنْ رُفَیْعٍ أَبِی الْعَالِیَۃِ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ؓ فِی قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَ اِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ ظُہُورِہِمْ ذُرِّیَّاتِہِمْ وَ أَشْہَدَہُمْ عَلَی أَنْفُسِہِمْ …}الآیَۃَ، قَالَ: جَمَعَہُمْ فَجَعَلَہُمْ أَرْوَاحًا، ثُمَّ صَوَّرَہُمْ فَاسْتَنْطَقَہُمْ فَتَکَلَّمُوْا، ثُمَّ أَخَذَ عَلَیْہِمُ الْعَہْدَ وَالْمِیْثَاقَ وَ أَشْہَدَہُمْ عَلَی أَنْفُسِہِمْ،أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ؟ قَالَ: فَاِنِّی أُشْہِدُ عَلَیْکُمُ السَّمَاوَاتِ السَّبْعَ وَالْأَرْضِیْنَ السَّبْعَ،وَ أُشْہِدُ عَلَیْکُمْ أَبَاکُمْ آدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ أَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَمْ نَعْلَمْ بِذَلِکَ، اعْلَمُوْا أَنَّہُ لَا اِلٰہَ غَیْرِی وَلَا رَبَّ غَیْرِیْ فَلَا تُشْرِکُوْا بِیْ شَیْئًا،اِنِّی سَأُرْسِلُ اِلَیْکُمْ رُسُلِیْ یُذَکِّرُوْنَکُمْ عَہْدِیْ وَ مِیْثَاقِیْ وَ أُنْزِلُ عَلَیْکُمْ کُتُبِیْ، قَالُوْا: شَہِدْنَا بِأَنَّکَ رَبُّنَا وَاِلٰہُنَا لَا رَبَّ غَیْرُکَ، فَأَقَرُّوْا بِذٰلِکَ۔ (مسند أحمد: ۲۱۵۵۲)

سیدنا ابی بن کعبؓ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان {وَ اِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ ظُہُورِہِمْ ذُرِّیَّاتِہِمْ وَ أَشْہَدَہُمْ عَلَی أَنْفُسِہِمْ …}کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ان کو روحوں کی شکل میں جمع کیا، پھر ان کی تصویریں بنا کر ان کو بلوایا، پس یہ بولے، پھر ان سے ایک مضبوط عہد لیا اور ان کو ان کے نفسوں پر گواہ بنایا اور کہا: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں، میں سات آسمانوں اور سات زمینوں کو تم پر گواہ بناتا ہوں اور میں تمہارے باپ آدمؑ کو بھی تم پر گواہ بناتا ہوں، تاکہ تم قیامت والے دن یہ نہ کہہ دو کہ ہمیں تو اس چیز کا علم ہی نہیں تھا۔ جان لو کہ میرے علاوہ نہ کوئی معبود ہے اور نہ کوئی ربّ، پس تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، عنقریب میں تمہاری طرف اپنے پیغمبروں کو بھیجوں گا، وہ تمہیں میرے وعدے اور میثاق کو یاد کرائیں گے اور میں تم پر کتابیں بھی نازل کروں گا۔ ان سب نے جواباً کہا: ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا رب اور معبود ہے، تیرے علاوہ ہمارا کوئی ربّ نہیں ہے، پس انھوں نے اس چیز کا اقرار کیا۔

Haidth Number: 2
سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: قیامت کے دن جہنمی آدمی سے کہا جائے گا: اس کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے کہ زمین پر جو چیزیں بھی ہیں، کیا تو (اس عذاب سے بچنے کے لیے) وہ فدیے میں دے دے گا؟ وہ کہے گا: جی ہاں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے تو تجھ سے اس سے آسان چیز کا مطالبہ کیا تھا، میں نے تجھ سے یہ عہد لیا تھا، جبکہ تو آدم ؑ کی پیٹھ میں تھا، کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا، لیکن تو نے انکار کر دیا تھا اور (اسی چیز پر ڈٹ گیا کہ) تو نے میرے ساتھ شرک ہی کرنا ہے۔

Haidth Number: 3

۔ (۴)۔عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ غَنْمٍ وَہُوَ الَّذِی بَعَثَہُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ؓ اِلَی الشَّامِ یُفَقِّہُ النَّاسَ أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ ؓ حَدَّثَہُ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ رَکِبَ یَوْمًا عَلَی حِمَارٍلَہُ یُقَالُ لَہُ یَعْفُورٌ، رَسَنُہُ مِنْ لِیْفٍ، ثُمَّ قَالَ: ((ارْکَبْ یَا مُعَاذُ!))، فَقُلْتُ: سِرْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَقَالَ: ((اِرْکَبْ))، فَرَدِفْتُہُ فَصُرِ عَ الْحِمَارُ بِنَا فَقَامَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَضْحَکُ وَ قُمْتُ أَذْکُرُ مِنْ نَفْسِیْ أَسَفًا، ثُمَّ فَعَلَ ذَالِکَ الثَّانِیَۃَ ثُمَّ الثَّالِثَۃَ وَسَارَ بِنَا فَأَخْلَفَ یَدَہُ فَضَرَبَ ظَہْرِی بِسَوْطٍ مَعَہُ أَوْ عَصًا، ثُمَّ قَالَ: ((یَا مُعَاذُ! ہَلْ تَدْرِی مَا حَقُّ اللّٰہِ عَلَی الْعِبَادِ؟)) فَقُلْتُ: اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ أَ عْلَمُ، قَالَ: ((فَاِنَّ حَقَّ اللّٰہِ عَلَی الْعِبَادِ أَنْ یَعْبُدُوْہُ وَلَا یُشْرِکُوْ بِہِ شَیْئًا۔))، قَالَ: ثُمَّ سَارَ مَا شَائَ اللّٰہُ، ثُمَّ أَخْلَفَ یَدَہُ فَضَرَبَ ظَہْرِی فَقَالَ: ((یَا مُعَاذُ! یَا ابْنَ أُمِّ مُعَاذٍ! ہَلْ تَدْرِی مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ اِذَا ہُمْ فَعَلُوْا ذَالِکَ؟)) قُلْتُ: اَللّٰہُ وَ رَسُوْلُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: ((فَاِنَّ حَقَّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ اِذَا فَعَلُوْا ذَالِکَ أَنْ یُدْخِلَہُمُ الْجَنَّۃَ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۴۲۳)

عبد الرحمن بن غنم، جن کو سیدنا عمرؓ نے لوگوں کو فقہ کی تعلیم دینے کے لیے شام بھیجا تھا، بیان کرتے ہیں کہ سیدنا معاذ بن جبل ؓ نے ان کو بیان کیا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ایک روز اپنے یعفور نامی گدھے پر سوار ہوئے، اس کی رسی کھجور کے پتوں کی تھی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: معاذ! تم بھی سوار ہو جاؤ۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ چلیں (میں پیدل ہی ٹھیک ہوں)، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے پھر فرمایا: تم سوار ہو جاؤ۔ پس میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پیچھے سوار ہو گیا، ہوا یوں کہ گدھا گر پڑا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کھڑے ہو کر مسکرانے لگے اور میں دل ہی دل میں افسوس کرنے لگا، پھر دوسری اور تیسری بار بھی ایسے ہی ہوا، بہرحال آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اپنا ہاتھ مبارک پیچھے کیا اور کوڑے یا چھڑی کے ساتھ میری کمر پر مارا اور فرمایا: معاذ! کیا تو جانتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: پس بیشک اللہ تعالیٰ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ پھر جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ آگے کو چلے، اور پھر اپنا ہاتھ پیچھے کیا اور میری کمر پر مارا اور فرمایا: اے معاذ! اے معاذ کی ماں کے بیٹے! کیا تم یہ جانتے ہو کہ اگر بندے ایسے ہی کریں تو اللہ تعالیٰ پر ان کا کیا حق ہے؟ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: پس بیشک جب بندے ایسے ہی کریں تو ان کا اللہ تعالیٰ پر حق یہ ہے کہ وہ ان کو جنت میں داخل کر دے۔

Haidth Number: 4
سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا معاذ بن جبل ؓ کے پاس آئے اور کہا: ہمیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی کوئی عجیب سی حدیث بیان کرو، انھوں نے کہا: جی ہاں، وہ بات یہ ہے کہ میں گدھے پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پیچھے سوار تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اے معاذبن جبل! میں نے کہا: میں حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، … پھر مذکورہ بالا حدیث کی طرح حدیث ذکر کی…، البتہ اس میں جنت میں داخل کرنے کے بجائے یہ الفاظ ہیں کہ وہ ان کو عذاب نہیں دے گا اور ایک روایت میں یہ زیادتی بھی ہے: آخر میں میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو یہ حدیث بیان کر کے خوشخبری نہ سنا دوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: رہنے دو، تاکہ وہ مزید عمل کرتے رہیں۔

Haidth Number: 5
سیدنا انس بن مالکؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا معاذ بن جبل ؓ کے پاس آئے اور کہا: ہمیں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی کوئی عجیب سی حدیث بیان کرو، انھوں نے کہا: جی ہاں، وہ بات یہ ہے کہ میں گدھے پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پیچھے سوار تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اے معاذبن جبل! میں نے کہا: میں حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، … پھر مذکورہ بالا حدیث کی طرح حدیث ذکر کی…، البتہ اس میں جنت میں داخل کرنے کے بجائے یہ الفاظ ہیں کہ وہ ان کو عذاب نہیں دے گا اور ایک روایت میں یہ زیادتی بھی ہے: آخر میں میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو یہ حدیث بیان کر کے خوشخبری نہ سنا دوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: رہنے دو، تاکہ وہ مزید عمل کرتے رہیں۔

Haidth Number: 6
سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اے ابوہریرہ! کیا تم جانتے ہوں کہ لوگوں کا اللہ تعالیٰ پر اور اللہ تعالیٰ کا لوگوں پر کیا حق ہے؟ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ پر ان کا حق یہ ہو گا کہ وہ ان کو عذاب نہ دے۔

Haidth Number: 7

۔ (۸)۔عَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ عَنْ طُفَیْلِ بْنِ سَخْبَرَۃَ أَخِی عَائِشَۃَ لِأُمِّہَا أَنَّہُ رَاٰی فِیْمَا یَرَی النَّائِمُ، کَأَنَّہُ مَرَّ بِرَہْطِ مِنَ الْیَہُودِ فَقَالَ: مَنْ أَنْتُمْ؟ قَالُوا: نَحْنُ الْیَہُوْدُ، قَالَ: اِنَّکُمْ أَنْتُمْ الْقَوْمُ لَولَا أَنَّکُمْ تَزْعُمُوْنَ أَنَّ عُزَیْرًا ابْنُ اللّٰہِ، فَقَالَ الْیَہُوْدُ: وَ أَنْتُمُ الْقَوُمُ لَولَا أَنَّکُمْ تَقُوْلُونَ مَا شَائَ اللّٰہُ وَ شَائَ مُحَمَّدٌ، ثُمَّ مَرَّ بِرَہْطِ مِنَ النَّصَارٰی فَقَالَ: مَنْ أَنْتُمْ؟ فَقَالُوا: نَحْنُ النَّصَارٰی، فَقَالَ: اِنَّکُمْ أَنْتُمُ الْقَوْمُ لَولَا أَنَّکُمْ تَقُوْلُوْنَ الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ، قَالُوْا: وَ اِنَّکُمْ أَنْتُمُ الْقَوْمُ لَولَا أَنَّکُمْ تَقُوْلُوْنَ مَا شَائَ اللّٰہُ وَ مَا شَائَ مُحَمَّدٌ،فَلَمَّا أَصْبَحَ أَخْبَرَ بِہَا مَنْ أَخْبَرَ، ثُمَّ أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَخْبَرَہُ، فَقَالَ:((ہَلْ أَخْبَرْتَ بِہَا أَحَدًا؟)) قَالَ: نَعَمْ، فَلَمَّا صَلَّوْا خَطَبَہُمْ، فَحَمِدَ اللّٰہَ وَ أَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: ((اِنَّ طُفَیْلاً رَاٰی رُؤْیًا فَأَخْبَرَ بِہَا مَنْ أَخْبَرَ مِنْکُمْ وَ اِنَّکُمْ کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ کَلِمَۃً کَانَ یَمْنَعُنِی الْحَیَائُ مِنْکُمْ أَنْ أَنْہَاکُمْ عَنْہَا۔)) قَالَ: ((لَا تَقُولُوا مَا شَائَ اللّٰہُ وَمَا شَائَ مُحَمَّدٌ۔)) (مسند أحمد: ۲۰۹۷۰)

سیدنا طفیل بن سخبرہؓ، جو کہ سیدہ عائشہؓکا اخیافی بھائی ہے، سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے یہ خواب دیکھا کہ میں یہودیوں کے ایک گروہ کے پاس سے گزرا اور ان سے پوچھا: تم کون لوگ ہو؟ انھوں نے کہا: ہم یہودی ہیں۔ میں نے کہا: اگر تم عزیر کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہ کہتے تو تم بہترین قوم تھے، انھوں نے کہا: تم مسلمان بھی بہترین قوم ہوتے، اگر صرف یہ نہ کہتے کہ (وہی کچھ ہوتا ہے جو) اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌) چاہتا ہے۔ پھر میں عیسائیوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا اور ان سے پوچھا: تم کون لوگ ہو؟ انھوں نے کہا: ہم عیسائی ہیں، میں نے کہا: اگر تم حضرت مسیح ؑکو اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہ کہتے تو تم بہترین لوگ ہوتے، لیکن انھوں نے آگے سے کہا: اگر تم بھی یہ نہ کہتے کہ (وہی کچھ ہوتا ہے) جوا للہ تعالیٰ چاہتا ہے اور محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌) چاہتا ہے تو تم بھی بہترین قوم ہوتے۔ جب صبح ہوئی تو بعض لوگوں کو یہ خواب بیان کرنے کے بعد میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس گیا اور آپ کو ساری بات بتلا دی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے مجھ سے پوچھا: کیا تم نے کسی کو یہ خواب بتلایا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، پھر جب لوگوں نے نماز ادا کر لی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ان سے خطاب کیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: طفیل نے ایک خواب دیکھا ہے اور تم میں سے بعض لوگوں کو بتلا بھی دیا ہے، بات یہ ہے کہ تم لوگ ایک کلمہ کہتے تھے، (میں اسے ناپسند تو کرتا تھا) لیکن تم کو منع کرنے سے شرم و حیا مانع تھی، (اب بات کھل گئی ہے لہٰذا) تم یہ نہ کہا کرو کہ (وہی کچھ ہوتا ہے) جو اللہ چاہتا ہے اور محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌) چاہتا ہے۔

Haidth Number: 8
سیدنا حذیفہ بن یمانؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آیا اور کہا: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں بعض اہل کِتَابُ کو ملا ہوں اور انھوں نے مجھے کہا: تم (مسلمان) بڑے اچھے لوگ ہو، کاش تم یہ نہ کہتے کہ (وہی کچھ ہوتا ہے) جو اللہ چاہتا ہے اور محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌) چاہتا ہے، یہ سن کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: میں بھی تمہاری اس بات کو ناپسند کرتا تھا، آئندہ اس طرح کہا کرو کہ جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور پھر محمد ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌) چاہتا ہے۔

Haidth Number: 9
سیدنا عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے کہا: جو کچھ اللہ چاہے اور آپ چاہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اسے فرمایا: کیا تو نے مجھے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کر دیا ہے، صرف (وہ ہوتا ہے) جو یکتا و یگانہ اللہ چاہتا ہے۔

Haidth Number: 10
سیدنا ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے یہ سوال کیا گیا: کون سا عمل سب سے زیادہ فضلیت والا اور کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کے بعد کون سا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد ، جو کہ افضل اور اشرف عمل ہے۔ اس نے کہا: پھر کون سا، اے اللہ کے رسول!؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: حج مبرور۔

Haidth Number: 51
سیدنا عمر بن خطابؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جو آدمی اس حال میں مرا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو اسے کہا جائے گا: تو جنت کے آٹھ دروازوں میں جس دروازے سے چاہتا ہے، داخل ہو جا۔

Haidth Number: 52

۔ (۵۳)۔حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ حَدَّثَنِیْ أَبِیْ ثَنَا أَ بُو النَّضْرِ ثَنَا عَبْدُالْحَمِیْدِ یَعْنِی بْنَ بِہْرَامَ ثَنَا شَہْرٌ (یَعْنِی بْنَ حَوْشَبٍ) ثَنَا ابْنُ غَنْمٍ عَنْ حَدِیْثِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ (ؓ) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خَرَجَ بِالنَّاسِ قَبْلَ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ،فَلَمَّا أَنْ أَصْبَحَ صَلّٰی بِالنَّاسِ صَلَاۃَ الصُّبْحِ، ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَکِبُوْا، فَلَمَّا أَنْ طَلَعَتِ الشَّمْسُ نَعَسَ النَّاسُ فِی أَثَرِ الدُّلْجَۃِ وَلَزِمَ مُعَاذٌ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتْلُوْ أَثَرَہُ وَ النَّاسُ تَفَرَّقَتْ بِہِمْ رِکَابُہُمْ عَلَی جَوَادِّ الطَّرِیْقِ تَأْکُلُ وَ تَسِیْرُ، فَبَیْنَمَا مُعَاذٌ عَلَی أَثَرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَ نَاقَتُہُ تَأْکُلُ مَرَّۃً وَ تَسِیْرُ أُخْرٰی عَثَرَتْ نَاقَۃُ مُعَاذٍ فَکَبَحَہَا بِالزِّمَامِ فَہَبَّتْ حَتَّی نَفَرَتْ مِنْہَا نَاقَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، ثُمَّ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَشَفَ عَنْہُ قِنَاعَہُ فَالْتَفَتَ فَإِذَا لَیْسَ مِنَ الْجَیْشِ رَجُلٌ أَدْنٰی إِلَیْہِ مِنْ مُعَاذٍ،فَنَادَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((یَا مُعَاذُ!۔)) قَالَ: لَبَّیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ، قَالَ: ((أُدْنُ دُوْنَکَ۔))،فَدَنَا مِنْہُ حَتَّی لَصِقَتْ رَاحِلَتُہُمَا أَحَدَاہُمَا بِالْأُخْرٰی فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَا کُنْتُ أَحْسِبُ النَّاسَ مِنَّا کَمَکَانِہِمْ مِنَ الْبُعْدِ۔))، فَقَالَ مُعَاذٌ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! نَعَسَ النَّاسُ فَتَفَرَّقَتْ بِہِمْ رِکَابُہُمْ تَرْتَعُ وَ تَسِیْرُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَ أَنَا کُنْتُ نَاعِسًا۔))، فَلَمَّا رَأَی مُعَاذٌ بُشْرٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَیْہِ وَ خَلْوَتَہُ لَہُ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ائْذَنْ لِیْ أَسْأَلُکَ عَنْ کَلِمَۃٍ قَدْ أَمْرَضَتْنِیْ وَ أَسْقَمَتْنِیْ وَ أَحْزَنَتْنِیْ، فَقَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((سَلْنِیْ عَمَّا شِئْتَ۔))، فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! حَدِّثْنِیْ بِعَمَلٍ یُدْخِلُنِیَ الْجَنَّۃَ لَا أَسْأَلُکَ عَنْ شَیْئٍ غَیْرِہٖ، قَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((بَخٍ بَخٍ بَخٍ لَقَدْ سَأَلْتَ بِعَظِیْمٍ لَقَدْ سَأَلْتَ بِعَظِیْمٍ۔)) ثَـلَاثًا، ((وَ إِنَّہُ لَیَسِیْرٌ عَلَی مَنْ اَرَادَ اللّٰہُ بِہِ الْخَیْرَ۔)) فَلَمْ یُحَدِّثْہُ بِشَیْئٍ إِلَّا قَالَہُ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ یَعْنِیْ أَعَادَہُ عَلَیْہِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ حِرْصًا لِکَیْمَا یُتْقِنُہُ عَنْہُ فَقَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((تُوْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ وَ تُقِیْمُ الصَّلَاۃَ وَ تَعْبُدُ اللّٰہَ وَحْدَہُ لَا تُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا حَتّٰی تَمُوْتَ وَ أَنْتَ عَلٰی ذٰلِکَ۔)) فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! أَعِدْ لِیْ، فَأَعَادَہَا لَہُ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنْ شِئْتَ حَدَّثْتُکَ یَا مُعَاذُ بَرَأْسِ ہٰذَا الْأَمْرِ وَ ذِرْوَۃِ سَنَامِہِ۔)) فَقَالَ مُعَاذٌ: بَلٰی بِأَبِیْ وَ أُمِّیْ أَنْتَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ فَحَدِّثْنِیْ، فَقَالَ نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّ ہَذَا الْأَمْرَ أَنْ تَشْہَدَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ، وَأَن قِوَامَ ہَذَا الْأَمْرِ إِقَامُ الصَّـلَاۃِ وَ إِیْتَائُ الزَّکَاۃِ، وَأَنَّ ذِرْوَۃَالسَّنَامِ مِنْہُ الْجِہَادُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ، إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یُقِیْمُوا الصَّـلَاۃَ وَ یُؤْتُوا الزَّکَاۃَ وَ یَشْہَدُوْا أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ، فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ فَقَدِ اعْتَصَمُوْا وَ عَصَمُوْا دِمَائَہُمْ وَ أَمْوَالَہُمْ إِلَّا بِحَقِّہَا وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔))،وَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ مَا شَحَبَ وَجْہٌ وَلَا اغْبَرَّتْ قَدَمٌ فِی عَمَلٍ تُبْتَغَی فِیْہِ دَرَجَاتُ الْجَنَّۃِ بَعْدَ الصَّلَاۃِ الْمَفْرُوْضَۃِ کَجِہَادٍ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَلَا ثَقَّلَ مِیْزَانَ عَبْدٍ کَدَابَّۃٍ تَنْفُقُ لَہُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوْ یَحْمِلُ عَلَیْہَا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ۔)) (مسند أحمد: ۲۲۴۷۳)

سیدنا معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ غزوۂ تبوک سے قبل رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ لوگوں کو لے کر نکلے، جب صبح ہوئی تو نمازِ فجر پڑھائی اور لوگ پھر سوار ہوئے اور چل پڑے، جب سورج طلوع ہوا تو رات کو چلتے رہنے کی وجہ سے لوگ اونگھنے لگ گئے، جبکہ سیدنا معاذ ؓ،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌کے ساتھ ہی رہے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پیچھے پیچھے چلتے رہے، جبکہ لوگ سواریوں کو چرانے کے لیے ان کو لے کر بڑے راستوں کی طرف الگ الگ ہو گئے، بہرحال اُدھر سیدنا معاذؓ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پیچھے چل رہے تھے، ان کی اونٹنی چرتی بھی گئی اور چلتی بھی رہی، اچانک وہ پھسل پڑھی، سیدنا معاذؓ نے لگام کھینچی، لیکن وہ دوڑنے لگی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی اونٹنی بھی اس کی وجہ سے بدکنے لگی، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے سر سے کپڑا اٹھایا اور پیچھے متوجہ ہوئے اور دیکھا کہ پورے لشکر میں سے سیدنا معاذ ؓہی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے قریب ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے ان کو آواز دیتے ہوئے فرمایا: اے معاذ! انھوں نے کہا: جی میں حاضر ہوں، اے اللہ کے نبی! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: قریب ہو جا۔ پس وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے اتنے قریب ہو گئے کہ ایک سواری دوسری کے ساتھ مل گئی، پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: میرا یہ خیال تو نہیں تھا کہ لوگ اس قدر ہم سے دور رہ جائیں گے۔ سیدنا معاذ ؓ نے کہا: اے اللہ کے نبی! لوگوں کو اونگھ آنے لگ گئی اور ان کی سواریاں چرنے کے لیے دور دور تک بکھر گئیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: میں بھی اونگھ رہا ہوں۔ بہرحال جب سیدنا معاذؓ نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ ان کے ساتھ خوش ہیں اور ان کے ساتھ خلوت میں ہیں تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ایک ایسی بات پوچھ لینے کی اجازت دیں، جس نے مجھے بیمار اور پریشان کر رکھا ہے۔ اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جو چاہتے ہو، سوال کر لو۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ مجھے ایسا عمل بتا دیں کہ جو مجھے جنت میں داخل کر دے میں آپ سے اس کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے سوال نہیں کرتا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: واہ، واہ، واہ،تم نے بڑے عمل کے بارے میں سوال کر دیا ہے، تم نے تو بڑے عمل کے بارے میں سوال کر دیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے تین دفعہ یہ جملہ دوہرایا اور پھر فرمایا: لیکن یہ عمل اس آدمی کے لیے آسان ہے، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کر لیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے مزید کوئی بات بیان نہ کی، البتہ ان ہی الفاظ کو تین دفعہ دوہرایا تاکہ سیدنا معاذؓاس کو اچھی طرح یاد کر لیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: (وہ عمل یہ ہے کہ) تم اللہ تعالیٰ اورآخرت کے دن پر ایمان لاؤ، نماز قائم کرو، صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ (اور پھر تم اس سلسلے کو جاری رکھو) یہاں تک کہ اسی پر وفات پا جاؤ۔ انھوںنے آگے سے کہا: اے اللہ کے نبی! یہ بات دوبارہ ارشاد فرماؤ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے تین دفعہ دوہرا دی، پھر اللہ کے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اے معاذ! اگر تم چاہتے ہو تو میں اس دین کی اصل اور اس کی کوہان کی چوٹی کی وضاحت کر دیتا ہوں۔ سیدنا معاذ ؓ نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ مجھے بیان کریں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس دین کی اصل یہ ہے کہ تم یہ گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ حضرت محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اس کے بندے اور رسول ہوں، اور اس دین کا سہارا اور ستون یہ ہے کہ نماز قائم کی جائے اور زکوۃ ادا کی جائے اور اس کی کوہان کی چوٹی جہاد فی سبیل اللہ ہے، مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے سے قتال کروں، جب تک اس طرح نہ ہو جائے کہ وہ نماز قائم کریں، زکوۃ ادا کریں اور یہ شہادت دیں کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے، وہ یکتا و یگانہ ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ اس کے بندے اور رسول ہیں، جب لوگ یہ امور سر انجام دیں گے تو وہ خود بھی بچ جائیں گے اور اپنے خونوں اور مالوں کو بھی بچا لیں گے، مگر ان کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہو گا۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے مزید فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! فرضی نماز کے بعد جنت کے درجات کو پانے کیلئے جہاد فی سبیل اللہ ہی ایک ایسا عمل ہے، جس میں چہرے کو متغیر کیا جائے اور قدموں کو خاک آلود کیا جائے او ربندے کے ترازو کو سب سے زیادہ بھاری کرنے والا یہ عمل ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے راستے میں کوئی چوپایہ خرچ کرو یا اللہ کے راستے میں کسی کو سواری دے دو۔

Haidth Number: 53

۔ (۵۴)۔عَنِ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا أَبُوہُرَیْرَۃَؓ إِذْ ذَاکَ وَ نَحْنُ بِالْمَدِیْنَۃِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((تَجِیئُ الْأَعْمَالُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَتَجِیئُ الصَّلَاۃُ فَتَقُوْلُ: یَا رَبِّ! أَنَاالصَّلَاۃُ، فَیَقُوْلُ: إِنَّکِ عَلٰی خَیْرٍ، فَتَجِیئُ الصَّدَقَۃُ فَتَقُوْلُ: یَا رَبِّ! أَنَا الصَّدَقَۃُ،فَیَقُوْلُ: إِنَّکِ عَلٰی خَیْرٍ،ثُمَّ یَجِیئُ الصِّیَامُ فَیَقُوْلُ: أَیْ رَبِّ! أَنَا الصِّیَامُ، فَیَقُوْلُ: إِنَّکَ عَلٰی خَیْرٍ، ثُمَّ یَجِیئُ الْأَعْمَالُ عَلٰی ذٰلِکَ فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّکَ عَلٰی خَیْرٍ، ثُمَّ یَجِیئُ الْإِسْلَامُ فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ! أَنْتَ السَّلَامُ وَ أَنَا الْإِسْلَامُ، فَیَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: إِنَّکَ عَلٰی خَیْرٍ، بِکَ الْیَوُمَ آخُذُ وَ بِکَ أُعْطِیْ، فَقَالَ اللّٰہُ فِی کِتَابِہِ: {وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی الْآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ}۔)) (مسند أحمد: ۸۷۲۷)

حسن بصری کہتے ہیں: ہم مدینہ منورہ میں تھے کہ سیدنا ابوہریرہؓ نے ہمیں بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: قیامت والے دن اعمال آئیں گے، (اس کی تفصیل یہ ہے کہ) نماز آئے گی اور کہے گی: اے میرے ربّ! میں نماز ہوں، اللہ تعالیٰ کہے گا: بیشک تو خیر پر ہے۔ اسی طرح صدقہ آ کر کہے گا: اے میرے ربّ! میں صدقہ ہوں، اللہ تعالیٰ کہے گا: بیشک تو خیر پر ہے۔ پھر روزہ آ کر کہے گا: اے میرے ربّ! میں روزہ ہوں، اللہ تعالیٰ کہے گا: بیشک تو خیر پر ہے۔ پھر دوسرے اعمال آئیں گے اور اللہ تعالیٰ یہی کہتا رہے گا کہ تم خیر پر ہو، پھر اسلام آئے گااور کہے گا: اے میرے ربّ! تو سلام ہے اور میں اسلام ہوں، اللہ تعالیٰ کہے گا: بیشک تو خیر پر ہے اورتیرے ذریعے آج میں مؤاخذہ کروں گا اور تیرے ذریعے عطا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا: {وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی الْآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ}… جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہو گا۔ (سورۂ آل عمران: ۸۵)

Haidth Number: 54
سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ کسی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے یہ سوال کیا: کون سا دین اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: حضرت ابراہیم ؑکی ملت، جو کہ سہولت والی ہے۔

Haidth Number: 104
سیدنا عروہؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کا انتظار کر رہے تھے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے بالوں میں کنگھی کی ہوئی تھی اور وضو یا غسل کی وجہ سے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے نماز پڑھائی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے سوال کرنے لگے کہ اے اللہ کے رسول! کیا اس طرح کرنے میں ہم پر کوئی حرج ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ کا دین آسانی والا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے تین دفعہ یہ جملہ ارشاد فرمایا۔

Haidth Number: 105
سیدنا مقداد بن اسودؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: روئے زمین پر اینٹوں والا گھر بچے گا نہ خیمے والا، مگر اللہ تعالیٰ اس میں کلمۂ اسلام کو داخل کر دیں گے، یہ عزت والے کی عزت کے ساتھ ہو گا یا ذلت والے کی ذلت کے ساتھ ہو گا، اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو اس طرح عزت دے گا کہ ان کو اہل اسلام بنا دے گا اور بعض لوگوں کو اس طرح ذلیل کرے گا کہ وہ بھی (بالآخر) اس کے مطیع ہو جائیں گے۔

Haidth Number: 106
سیدنا تمیم داریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: یہ دین وہاں تک پہنچ جائے گا، جہاں تک دن رات پہنچے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ اینٹوں والے یا خیمے والے کسی گھر کو نہیں چھوڑے گا، مگر عزت والوں کی عزت کے ساتھ اور ذلت والوں کی ذلت کے ساتھ اس میں اس دین کو داخل کر دے گا، عزت اس طرح کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا کرے گا اور ذلت اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کفر کو ذلیل کر دے گا۔ سیدنا تمیم داریؓ کہتے ہیں: میں نے (عزت و ذلت والے اس معاملے کو) اپنے گھر والوں میں دیکھ لیا، ہم میں سے مشرف باسلام ہونے والوں نے خیر، شرف اور عزت کو پا لیا اور ہم میں سے جو لوگ کافر رہے، ذلت و حقارت اور جزیہ ان کا مقدر بنا۔

Haidth Number: 107
سیدنا ابوبکرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ذریعے اس دین کی مدد کرے گا، جن کا دین میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔

Haidth Number: 108
سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ فاجر آدمی کے ذریعے اس دین کی مدد کرتا ہے۔

Haidth Number: 109
سیدنا عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: صرف دو چیزوں میں رشک ہے، ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور پھر اس کو حق کے لیے بھرپور خرچ کرنے کی توفیق بھی دی اور دوسرا وہ آدمی کہ اللہ تعالیٰ نے جس کو حکمت (یعنی علمِ نافع) عطا اور وہ اس کے ذریعے فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔

Haidth Number: 233
سیدنا انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: زمین میں اہل علم کی مثال، آسمان میں ستاروں کی سی ہے، اِن علماء کے ذریعے خشکی اور سمندری اندھیروں میں راہنمائی حاصل کی جاتی ہے، جب یہ ستارے مٹ جائیں گے تو جلدی ہی رہنمائی کرنے والے گمراہ ہو جائیں گے۔

Haidth Number: 234
سیدناابو موسی اشعری ؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ جب اپنے صحابہ میں سے کسی کو کسی کام کے لیے بھیجتے تو فرماتے: (لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے وقت) خوشخبریاں سنانا اور متنفر نہ کر دینا اور آسانیاں پیدا کرنا اور (دین میں) مشکلات پیدا نہ کر دینا۔

Haidth Number: 235

۔ (۲۳۶)وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم: ((اِنَّ مَثَلَ مَا بَعَثَنِیَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِہِ مِنَ الْہُدٰی وَالْعِلْمِ کَمَثَلِ غَیْثٍ أَصَابَ الْأَرْضَ، فَکَانَتْ مِنْہُ طَائِفَۃٌ قَبِلَتْ فَأَنْبَتَتِ الْکَلَاَ وَالْعُشْبَ الْکَثِیْرَ، وَکَانَتْ مِنْہَا أَجَادِبُ أَمْسَکَتِ الْمَائَ فَنَفَعَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِہَا نَاسًا فَشَرِبُوْا فَرَعَوْا وَسَقَوْا وَ زَرَعُوْا وَأَسْقَوْا، وَأَصَابَتْ طَائِفَۃً مِنْہَا أُخْرٰی، اِنَّمَا ہِیَ قِیْعَانٌ لَا تُمْسِکُ مَائً وَلَا تُنْبِتُ کَلََأً، فَذٰلِکَ مَثَلُ مَنْ فَقُہَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَنَفَعَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ بِمَا بَعَثَنِیْ بِہِ وَنَفَعَ بِہِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ یَرْفَعْ بِذٰلِکَ رَأْسًا وَلَمْ یَقْبَلْ ہُدَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ الَّذِیْ أُرْسِلْتُ بِہِ۔)) (مسند أحمد: ۱۹۸۰۲)

رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے جو ہدایت اور علم عطا کر کے بھیجا ہے، اس کی مثال اس بارش کی سی ہے، جو زمین پر نازل ہوئی، زمین کے ایک حصے نے اس کا پانی قبول کیا اور بہت زیادہ گھاس اگائی اور ایک حصہ سخت تھا، اس نے پانی کو روک لیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے کئی لوگوں کو فائدہ پہنچایا، پس انھوں نے پانی پیا، مویشیوں کو پلایا، کھیتی کاشت کی اور اس کو سیراب کیا۔ پھر یہی بارش اس زمین پر بھی برسی، جو چٹیل میدان تھی، وہ نہ پانی کو روک سکی اور نہ گھاس اگا سکی۔ پس اول الذکر اس شخص کی مثال ہے جس نے دین میں فقہ حاصل کی، (یعنی دین کو سمجھا اور اس کا علم حاصل کیا)، اور اللہ تعالیٰ نے مجھے جس چیز کے ساتھ بھیجا ہے، اس کو اس کے ذریعے نفع دیا اور پھر اس کے ذریعے لوگوں کو نفع دیا، سو اس نے خود بھی علم حاصل کیا اور لوگوں کو بھی اس کی تعلیم دی اور مؤخر الذکر اس آدمی کی مثال ہے، جس نے (علم اور ہدایت قبول کرنے کیلئے) سرے سے سر ہی نہیں اٹھایا اور اللہ تعالیٰ کی وہ ہدایت قبول نہیں کی، جس کے ساتھ اس نے مجھے مبعوث کیا۔

Haidth Number: 236
نافع بن عبدالحارث سے مروی ہے کہ وہ سیدنا عمر بن خطابؓ کو عُسفان مقام پر ملے، سیدنا عمر ؓ نے اُس کو اس کے سابقہ ملک کا عامل بنایا ہوا تھا، سیدنا عمر ؓ نے اس سے کہا: تم وادی والوں پر کس کو نائب بنا کر آئے ہو؟ اس نے کہا: جی میں ابن ابزی کو نائب بنا کر آیا ہوں، انھوں نے کہا: ابن ابزی کون ہے؟ اس نے کہا: یہ ہمارا ایک غلام ہے، انھوں نے کہا: تم غلام کو نائب بنا آئے ہو! اس نے کہا: جی وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو پڑھنے والا، فرائض کو جاننے والا اور فیصلہ کرنے والا ہے، سیدنا عمرؓ نے کہا: خبردار! تمہارے نبی ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا تھا: بیشک اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے بہت سے لوگوں کو رفعت عطا کرتا ہے اور اسی کے ذریعے بعضوں کو ذلیل کر دیتا ہے۔

Haidth Number: 237
سیدنا انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ یمن کے لوگ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے پاس آئے اور کہا: ہمارے پاس ایسا آدمی بھیجیں، جو ہمیں دین کی تعلیم دے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے سیدنا ابو عبیدہ بن جراح ؓکا ہاتھ پکڑا اور ان کو ان کے ساتھ بھیجا اور فرمایا: یہ اس امت کا امین ہے۔

Haidth Number: 238
Haidth Number: 239

۔ (۳۲۲)۔عَنْ یَزِیْدَ بْنِ حَیَّانَ التَّیْمِیِّ قَالَ: اِنْطَلَقْتُ أَنَا وَحُصَیْنُ بْنُ سَبْرَۃَ وَعُمَرُ بْنُ مُسْلِمٍ اِلَی زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ (ؓ) فَلَمَّا جَلَسْنَا اِلَیْہِ قَالَ لَہُ حُصَیْنٌ: لقَدْ لَقِیْتَ یَا زَیْدُ خَیْرًا کَثِیْرًا، رَأَیْتَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وسَمِعْتَ حَدِیْثَہَ وَغَزَوْتَ مَعَہُ وَصَلَّیْتَ مَعَہُ، لقَدْ رَأَیْتَ یَا زَیْدُ خَیْرًا کَثِیْرًا، حَدِّثْنَا یَا زَیْدُ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم! فَقَالَ: یَا ابْنَ أَخِیْ! وَاللّٰہِ! لقَدْ کَبُرَتْ سِنِّیْ وَقَدُمَ عَہْدِیْ وَنَسِیْتُ بَعْضَ الَّذِیْ کُنْتُ أَعِیْ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم، فَمَا حَدَّثْتُکُمْ فَاقْبَلُوْا وَمَا لَا فَـلَا تُکَلِّفُوْنِیْہِ، ثُمَّ قَالَ: قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَوْمًا خَطِیْبًا فِیْنَا بِمَائٍ یُدْعٰی خُمًّا، یَعْنِیْ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃِ، فَحَمِدَ اللّٰہَ تَعَالٰی وَأَثْنٰی عَلَیْہِ وَوَعَظَ وَذَکَّرَ،ثُمَّ قَالَ: ((أَمَّا بَعْدُ! أَ لَا أَیُّہَا النَّاسُ! اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، یُوْشِکُ أَنْ یَأْتِیَنِیْ رَسُوْلُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ فَأُجِیْبَ، وَاِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمْ ثَقَلَیْنِ، أَوَّلُہُمَا کِتَابُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ، فِیْہِ الْہُدٰی وَالنُّوْرُ، فَخُذُوْا بِکِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَاسْتَمْسِکُوْا بِہِ۔)) فَحَثَّ عَلَی کِتَابِ اللّٰہِ وَرَغَّبَ فِیْہِ، قَالَ: ((وَأَھْلُ بَیْتِیْ، أُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِیْ أَھْلِ بَیْتِیْ، أُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِیْ أَھْلِ بَیْتِیْ، أُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِیْ أَھْلِ بَیْتِیْ۔)) فَقَالَ لَہُ حُصَیْنٌ: وَمَنْ أَھْلُ بَیْتِہِ یَا زَیْدُ؟ أَلَیْسَ نِسَائُ ہُ مِنْ أَھْلِ بَیْتِہِ؟ قَالَ: اِنَّ نِسَائَ ہُ مِنْ أَھْلِ بَیْتِہِ وَلَکِنَّ أَھْلَ بَیْتِہِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَۃَ بَعْدَہُ، قَالَ: وَمَنْ ہُمْ؟ قَالَ: آلُ عَلِیٍّ وَ آلُ جَعَفَرٍ وَآلُ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَکُلُّ ہٰؤُلَائِ حُرِمَ الصَّدَقَۃَ؟ قَالَ: نَعَمْ۔ (مسند أحمد: ۱۹۴۷۹)

یزید بن حیان تیمی کہتے ہیں: میں، حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم، سیدنا زید بن ارقم ؓ کے پاس گئے، جب ہم ان کے پاس بیٹھ گئے تو حصین نے کہا: اے زید! تم نے بہت زیادہ خیر پائی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کو دیکھا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی احادیث سنی ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ جہاد کیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ نمازیں پڑھی ہیں، زید! بس تم نے بہت زیادہ خیر پائی ہے، زید! تم نے جو احادیث رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ سے سنی ہیں، وہ ہمیں بھی بیان کرو، انھوں نے کہا: اے بھتیجے! میری عمر بڑی ہو گئی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی صحبت کو بھی کافی عرصہ گزر چکا ہے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌کی جو احادیث یاد کی تھیں، ان میں سے بعضوں کو بھول بھی گیا ہوں، اس لیے میں تم کو جو کچھ بیان کر دوں، اس کو قبول کر لو اور جو نہ کر سکوں، اس کی مجھے تکلیف نہ دو۔ پھر انھوں نے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ غدیر خم، جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے، کے مقام پر خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور وعظ و نصیحت کی اور پھر یہ بھی فرمایا: أَمَّا بَعْدُ! خبردار! اے لوگو! میں ایک بشر ہی ہوں، قریب ہے کہ میرے ربّ کا قاصد میرے پاس آ جائے اور میں اس کی بات قبول کر لوں، بات یہ ہے کہ میں تم میں دو بیش قیمت اور نفیس چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، ان میں سے ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اس میں ہدایت اور نور ہے، پس اللہ تعالیٰ کی کتاب کو پکڑ لو اور اس کے ساتھ چمٹ جاؤ۔ پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے اللہ تعالیٰ کی کتاب پر آمادہ کیا اور اس کے بارے میں ترغیب دلائی، اور پھر فرمایا: دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں، میں تم کو اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو یاد دلاتا ہوں، میں تم کو اپنے اہل بیت کے معاملے میں اللہ تعالیٰ یاد کرواتا ہوں، میں تم کو اپنے اہل بیت کے حق میں اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتا ہوں۔ حصین نے کہا: اے زید! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی بیویاں آپ کے اہل بیت میں سے نہیں ہیں؟ انھوں نے کہا: بیشک آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کی بیویاں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے اہل بیت میں سے ہیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے اہل بیت وہ ہیں، جن پر صدقہ حرام ہے۔ حصین نے کہا: وہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے کہا: وہ آلِ علی، آلِ جعفر اور آلِ عباس ہیں۔ اس نے کہا: کیا اِن سب پر صدقہ حرام ہے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔

Haidth Number: 322
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: میں تم میں دو بیش قیمت چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے، اللہ تعالیٰ کی کتاب ایک رسی ہے، جس کو آسمان سے زمین کی طرف لٹکایا گیا ہے اور میری نسل میرے اہل بیت ہیں اور یہ دونوں چیزیں جدا نہیں ہوں گی، یہاں تک کہ دونوں میرے حوض پر آ جائیں گی۔

Haidth Number: 323
سیدنا علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: جبرائیلؑ میرے پاس آئے اور کہا: اے محمد! آپ کی امت آپ کے بعد اختلاف کرنے والی ہے، میں نے کہا: اے جبریل! اس سے نکلنے کی راہ کیا ہو گی؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے ہر سرکش کو تباہ کرے گا، جس نے اس کو تھام لیا وہ نجات پا گیا، جس نے اس کو چھوڑ دیا وہ ہلاک ہو گیا، یہ بات دو دفعہ کہی، اس کی بات صحیح اور قطعی ہے اور مذاق نہیں ہے، اس کو زبانیں نہیں گھڑ سکتیں، اس کے عجائب ختم نہیں ہو سکتے، اس میں تمہارے اندر (کے نزاعات کا) فیصلہ ہے اور جو کچھ تمہارے بعد ہونے والا ہے، اس کی اس میں خبریں ہیں۔

Haidth Number: 324