Blog
Books
Search Hadith

یوسف علیہ السلام کا ذکر

283 Hadiths Found
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کریم بن کریم بن کریم بن کریمیوسف بن یعقوب بن اسحاق بن خلیل الرحمن ابراہیمR ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر میں جیل میں اتنا عرصہ ٹھہرتا، جتنا کہ یوسف علیہ السلام ٹھہرے تھے اور پھر میرے پاس بلانے والا آتا تو میں فوراً اس کی بات قبول کرتا، جب کہ قاصد یوسف علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے کہا: تو لوٹ جا اپنے آقا کی طرف اور اس سے ان عورتوں کے بارے میں پوچھ، جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے، بیشک میرا ربّ ان کے مکر کو جاننے والا ہے۔

Haidth Number: 10355
Haidth Number: 10356

۔ (۱۰۴۱۸)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَلْاَنْبِیَائُ اِخْوَۃٌ لِعَلَّاتٍ، اُمَّھَاتُھُمْ شَتّٰی وَدِیْنُھُمْ وَاحِدٌ، وَاَنَا اَوْلَی النَّاسِ بِِعَیْسَی بْنِ مَرْیَمَ لِاَنَّہُ لَمْ یَکُنْ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُ نَبِیٌّ، وَاِنَّہُ نَازِلٌ فَاِذَا رَاَیْتُمُوْہُ فَاعْرِفُوْہُ رَجُلًا مَرْبُوْعًا اِلَی الْحُمْرَۃِ وَ الْبَیَاضِ عَلَیْہِ ثَوْبَانِ مُمَصَّرَانِ کَاَنَّ رَاْسَہُ یَقْطُرُ وَ اِنْ لَمْ یُصِبْہُ بَلَلٌ، فَیَدُقُّ الصَّلِیْبَ، وَ یَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ، وَ یَضَعُ الْجِزْیَۃَ،وَیَدْعُوْ النَّاسَ اِلَی الْاِسْلَامِ، فَیُھْلِکُ اللّٰہُ فِیْ زَمَنِہِ الْمِلَلَ کُلَّھَا اِلَّا الْاِسْلَامَ، وَ یُھْلِکُ اللّٰہُ فِیْ زَمَانِہِ الْمَسِیْحَ الدَّجَّالَ، وَ تَقَعُ الْاَمَنَۃُ عَلَی الْاَرْضِ حَتّٰی تَرْتَعَ الْاَسْوَدُ مَعَ الْاِبِلِ، وَ النِّمَارُ مَعَ الْبَقَرِ، وَ الذِّئَابُ مَعَ الْغَنَمِ، وَ یَلْعَبَ الصِّبْیَانُ بِالْحَیَّاتِ لَا تَضُرُّھُمْ، فَیَمْکُثُ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ثُمَّ یُتَوَفّٰی وَ یُصَلِّی عَلَیْہِ الْمُسْلِمُوْنَ (زَادَ فِیْ رِوَایَۃٍ) وَ یُدَفِّنُوْنَہُ۔)) (مسند احمد: ۹۲۵۹)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انبیائے کرام علاتی بھائی ہیں، ان کی مائیں مختلف ہیں اور ان کا دین ایک ہے، میں دنیا و آخرت میں عیسی بن مریم علیہ السلام کا سب سے زیادہ قریبی ہوں، میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے، بیشک وہ نازل ہونے والے ہیں، پس ان کو پہچان لینا، وہ معتدل قد کے آدمی ہیں، ان کا رنگ سرخی سفیدی مائل ہے، ان پر ہلکی زردی کے دو کپڑے ہوں گے، ایسے محسوس ہو گا جیسے ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہو، حالانکہ نمی (پانی) لگا نہیں ہو گا، (یعنی وہ انتہائی نظیف اور چمک دار رنگ کے نظر آ رہے ہوں گے) ، پس وہ صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کر دیں گے، جزیہ ختم کر دیں گے اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں گے، پس اللہ تعالیٰ ان کے اُس عہد میں اسلام کے علاوہ تمام مذاہب کو ختم کر دے گا، اللہ تعالیٰ ان کے ہی زمانے میں مسیح دجال کو ہلاک کرے گا، زمین پر اتنا امن و امان واقع ہو گا کہ سانپ اونٹوں کے ساتھ، چیتے گائیوں کے ساتھ اور بھیڑیئے بکریوں کے ساتھ چریں گے، بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے اور وہ ان کو نقصان نہیں دیں گے، عیسی علیہ السلام زمین میں چالیس سال قیام کریںگے، پھر وہ فوت ہو جائیںگے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ ادا کر کے ان کو دفن کریں گے۔

Haidth Number: 10418
۔ (دوسری سند) نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قریب ہے کہ عیسی بن مریم علیہ السلام منصف فیصل بن کر تمہارے اندر نازل ہوں، وہ صلیت کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کر دیں گے، جزیہ ختم کر دیں گے اور مال اس قدر پھیل جائے گا کہ کوئی بھی اس کو قبول نہیں کرے گا۔ کتب ِ احادیث میں عیسی علیہ السلام کے نزول، نزول کے وقت اوران کے عہد کی خصوصیات کی کافی تفصیل بیان کی گئی ہے۔

Haidth Number: 10419
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عیسی بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب کو مٹا دیں گے، نماز کو باجماعت ادا کیا جائے گا، لوگوں کو اس قدر مال دیں گے کہ کوئی بھی کسی سے قبول نہ کرے گا، وہ خراج کو ختم کر دیں گے اور عیسی علیہ السلام روحاء پر اتریں گے اور وہاں سے حج یا عمرہ یا دونوں ادا کریں گے۔ پھر سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ آیات تلاوت کیں: اور نہیں ہے اہل کتا ب میں سے کوئی بھی، مگر وہ اس کی موت سے قبل اس پر ایمان لائے گا۔ اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔

Haidth Number: 10420
۔ (دوسری سند) سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کی جان ہے! ابن مریم ضرور روحاء کے راستے سے تلبیہ پکاریں گے، وہ حج یا عمرہ یا دونوںکی ادائیگی کے لیے آرہے ہوں گے۔

Haidth Number: 10421
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے منبر پر فرمایا: عربوں کا کہا ہوا سب سے سچا شعر یہ ہے: أَلَا کُلُّ شَیْئٍ مَا خَلَا اللّٰہَ بَاطِلُ (خبردار! اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز باطل ہے) اور قریب تھا کہ امیہ بن ابی صلت مسلمان ہو جاتا۔

Haidth Number: 10450
۔ سیدنا شرید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ امیہ بن ابی صلت کے شعر پڑھے، پس میں نے سو قافیے پڑھ دیئے، میں جب بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اس کا کوئی کلام سناتا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے: اور سناؤ، اور سناؤ۔ یہاں تک کہ جب میں سو قافیوں سے فارغ ہو گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قریب تھا کہ امیہ مسلمان ہو جاتا۔

Haidth Number: 10451

۔ (۱۰۵۱۴)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ الزِّنَادِ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ رَبِیْعَۃَ بْنِ عَبَّادٍ الدِّیَلِیِّ وَکَانَ جَاھِلِیًّا أَسْلَمَ فَقَالَ: رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَصُرَ عَیْنِیْ بِسُوْقِ ذِی الْمَجَازِ یَقُوْلُ: ((أَیُّھَا النَّاسُ قُوْلُوْا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تُفْلِحُوْا۔)) وَیَدْخُلُ فِیْ فِجَاجِھَا وَالنَّاسُ مُتَقَصِّفُوْنَ عَلَیْہِ، فَمَا رَأَیْتُ أَحَدًا یَقُوْلُ شَیْئًا وَھُوَ لَایَسْکُتُ،یَقُوْلُ: ((أَیُّھَا النَّاسُ! قُوْلُوْا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تُفْلِحُوْا۔)) اِلَّا أَنَّ وَرَائَہ رَجُلًا أَحْوَلَ وَضِیئَ الْوَجْہِ ذَا غَدِیْرَتَیْنِیَقُوْلُ: أَنَّہُ صَابِیئٌ کَاذِبٌ، فَقُلْتُ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالُوْا: مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ وَھُوَ یَذْکُرُ النَّبُوَّۃَ، قُلْتُ: مَنْ ھٰذَا الَّذِیْیُکَذِّبُہُ؟ قَالُوْا: عَمُّہُ اَبُوْ لَھَبٍ، قُلْتُ: اِنَّکَ کُنْتَ یَوْمَئِذٍ صَغِیْرًا؟ قَالَ: لَا، وَاللّٰہِ! اِنِّیْیَوْمَئِذٍ لَأَعْقِلُ۔ (مسند احمد: ۱۶۱۱۹)

۔ سیدنا ربیعہ بن عباد دیلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، ان کا تعلق دورِ جاہلیت سے تھا، پھر یہ مسلمان ہو گئے تھے، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا، میری آنکھ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ذو مجاز کے بازار میں دیکھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرما تے تھے: اے لوگو! لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہہ دو، کامیاب ہو جاؤ گے۔پھر آپ اس بازار کی گلیوں میں داخل ہو جاتے، جبکہ لوگوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ہجوم کیا ہوا تھا، میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ کچھ کہہ رہا ہو، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش نہیں ہو رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کہتے جا رہے تھے: اے لوگو! لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہہ دو، کامیاب ہو جاؤ گے۔ البتہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے پیچھے ایک آدمی تھا، وہ بھینگی آنکھ والا، خوبصورت چہرے والا اور دو چٹیوں والا تھا، وہ یہ کہہ رہا تھا: یہ بے دین اور جھوٹا شخص ہے، میں نے کہا: یہ آدمی کون ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ محمد بن عبد اللہ ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) ہیں اور یہ نبوت کا اعلان کر رہے ہیں، میں نے کہا: یہ ان کو جھٹلانے والا کون ہے؟ میں نے کہا: یہ ان کا چچا ابو لہب ہے، میں نے کہا: تو ان دنوں کم سن تھا؟ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! بیشک میں اس دن عقل والا تھا۔

Haidth Number: 10514

۔ (۱۰۵۱۵)۔ (عَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: اِنِّیْ لَمَعَ أَبِیْ رَجُلٌ شَابٌّ اَنْظُرُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتْبَعُ الْقَبَائِلَ، وَوَرَائَہُ رَجُلٌ أَحْوَلُ وَضِیْیئٌ ذُوْجُمَّۃٍ،یَقِفُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَی الْقَبِیْلَۃِ وَیَقُوْلُ: ((یَا بَنِیْ فُلَانٍ! اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ آمُرُکُمْ أَنْ تَعْبُدُوْا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖشَیْئًا وَأَنْ تُصَدِّقُوْنِیْ حَتّٰی أُنْفِذَ عَنِ اللّٰہِ مَا بَعَثَنِیْ بِہٖ۔)) فَاِذَافَرَغَرَسُوْلُاللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنْ مَقَالَتِہِ قَالَ الْآخَرُ مِنْ خَلْفِہِ: یَا بَنِیْ فُلَانٍ! اِنَّ ھٰذَا یُرِیْدُکُمْ أَنْ تَسْلُخُوْا اللَّاتَ وَالْعُزّٰی وَحُلَفَائَ کُمْ مِنَ الْحَیِّ بَنِیْ مَالِکِ بْنِ اُقَیْشِ اِلٰی مَا جَائَ بِہٖمِنَالْبِدْعَۃِ وَالضَّلَالَۃِ فَـلَا تَسْمَعُوْا لَہُ وَلَا تَتِّبِعُوْہُ، فَقُلْتُ لِأَبِیْ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالَ: عَمُّہُ أَبُوْ لَھَبٍ۔ (مسند احمد: ۱۶۱۲۱)

۔ (دوسری سند) سیدنا ربیعہ بن عباد دیلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نوجوان آدمی تھا اور اپنے باپ کے ساتھ چلتے ہوئے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھ رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبیلوں کے پاس جاتے، جبکہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے بھینگی آنکھ والا خوبصورت آدمی تھا، اس کی مونڈھوں تک لٹکی ہوئی زلفیں تھیں، اللہ کے رسول ہر قبیلہ کے پاس رک کر فرماتے: اے بنی فلاں! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، میں تم کو حکم دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور میری تصدیق کرو تاکہ میں اللہ تعالیٰ کا وہ پیغام پہنچا دوں، جس کے ساتھ اس نے مجھے مبعوث کیا ہے۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی بات سے فارغ ہوتے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے والا بندہ یہ کہنا شروع کر دیتا: اے بنو فلاں! اس شخص کا ارادہ یہ ہے کہ تم لات و عزی اور اپنے حلیفوں بنو مالک بن اُقیش کو چھوڑ کر اس بدعت و ضلالت کو اپنا لو، جو یہ لے کر آیا ہے، لہٰذا نہ اس کی بات سنو اور نہ اس کی پیروی کرو، میں نے اپنے باپ سے کہا: یہ شخص کون ہے؟ انھوں نے کہا: یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چچا ابو لہب ہے۔

Haidth Number: 10515
۔ (تیسری سند) سیدنا ربیعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا، آپ مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے مِنٰی میں لوگوں کے پاس ان کی رہائش گاہوں میں جاتے اور کہتے: اے لوگو! ……۔ پھر سابقہ روایت ذکر کی۔

Haidth Number: 10516
۔ (چوتھی سند) سیدنا ربیعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے ابو لہب کو عکاظ میں دیکھا، جبکہ وہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پیچھا کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا: اے لوگو! یہ شخص خود بھی گمراہ ہو گیا ہے اور تم کو بھی اپنے آباء کے معبودوں سے گمراہ کرنا چاہتا ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس سے آگے کو بھاگ جاتے، لیکن وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے پہنچ جاتا، ہم لڑکے بھی اس کے ساتھ ساتھ چلتے، گویا کہ میں اب بھی ابو لہب کی طرف دیکھا رہا ہوں، وہ بھینگی آنکھ اور دو چٹیوں والا تھا اور لوگوں سے سب سے زیادہ سفید رنگ والا اور سب سے زیادہ خوبصورت تھا۔

Haidth Number: 10517
سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بدر کی طرف روانہ ہونے لگے تو باہر تشریف لائے اور لوگوں سے مشورہ کیا، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک مشورہ دیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مشورہ طلب کیا، اس بار سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک رائے دی، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے، اتنے میں ایک انصاری کھڑا ہوا اور اس نے کہا: انصاریو! حضور ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تم سے مخاطب ہیں، پس انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! ہم اس طرح نہیں ہوں گے، جیسا کہ بنو اسرائیل نے موسی علیہ السلام سے کہا تھا: تو جا اور تیرا ربّ جائے اور تم دونوں جا کر لڑو، ہم تو یہیں بیٹھنے والے ہیں۔ اللہ کی قسم ہے، اے اللہ کے رسول! اگر آپ اونٹوں کے جگروں پر مارتے ہوئے سفر کرتے جائیں،یہاں تک کہ برک الغماد تک پہنچ جائیں تو ہم آپ کے ساتھ ہی رہیں گے۔

Haidth Number: 10693
سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے ابی! اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے سامنے فلاں سورت کی تلاوت کروں۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا اللہ کے ہاں میرا نام لیا گیاہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ عبداللہ بن ابزیٰ نے سیدنا ابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے ابو منذر! کیایہ بات سن کر آپ کو خوشی ہوئی تھی؟ انھوں نے کہا: خوشی کیوں نہ ہوتی، جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے:{قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذٰلِکَ فَلْتَفْرَحُوْا ہُوَ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُوْنَ} … اے نبی! آپ ان لوگوں سے کہہ دیں کہ تم اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوش رہو، یہ لوگ جو دنیوی مال و اسباب جمع کرتے ہیں،یہ اس سے بہتر ہے۔ (چونکہ قرآن کریم کی قرأت متواترہ فَلْیَفْرَحُوْا ہے)، امام احمد کے شیخ مؤمل سے مروی ہے کہ میں نے اپنے شیخ سفیان سے دریافت کیا، کیایہ قرأت فَلْتَفْرَحُوْا حدیث میں ہے؟ انہوںنے کہا: جی ہاں۔

Haidth Number: 11616
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: جو بیماریاں ہمیں لاحق ہوتی ہیں، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ گناہوں کا کفارہ بننے والی ہیں۔ میرے باپ نے کہا:اگرچہ وہ بیماری معمولی ہو؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: اگرچہ وہ کانٹا ہو یا اس سے بڑی کوئی چیز۔ یہ سن کر میرے باپ نے اپنے حق میں یہ بد دعا کر دی کہ اس کی موت تک بخار اس سے جدا نہ ہو، لیکن وہ بخار اس کو حج، عمرے، جہاد فی سبیل اللہ اور باجماعت فرضی نماز سے مشغول نہ کر دے، پس اس کے بعد جس انسان نے میرے باپ کو چھوا، بخار کی حرارت پائی،یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئے۔

Haidth Number: 11617
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے فرمایا: اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے سامنے سورۂ بینہ کی تلاوت کروں۔ سیدنا ابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے دریافت کیا: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کے سامنے میرا نام لیاہے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ یہ سن کر سیدنا ابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ رو پڑے۔

Haidth Number: 11618
سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے امیر المومنین! میں نے قرآن کریم براہ راست اس ہستی سے سنا اور سیکھا ہے جنہوںنے جبریل علیہ السلام سے حاصل کیا، جبکہ وہ تروتازہ تھا۔

Haidth Number: 11619
سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور بھول کر ایک آیت ترک کر گئے، بعد میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: تم میں سے کسی کو قرأت میں میری غلطی کا احساس ہوا ہے؟ سیدنا ابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! مجھے پتہ چل گیا تھا، آپ فلاں آیت چھوڑ گئے ہیں۔ رسو ل اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مجھے پتہ تھا کہ اگر کسی کا اس کا ادراک ہو گا تو وہ تم ہی ہو گے۔

Haidth Number: 11620
سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے دریافت کیا: اللہ کی کتاب میںکونسی آیت سب سے زیادہ عظمت کی حامل ہے؟ انہوں نے جواباً عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ لیکن جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بار بار یہی سوال کیا، تو سیدنا ابی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: وہ آیت الکرسی ہے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابو المنذر! تمہیںیہ علم مبارک ہو، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس آیت کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہیں اور یہ اللہ کے عرش کے پائے کے قریب اللہ تعالیٰ کی تقدیس اور پاکی بیان کرتی ہے۔

Haidth Number: 11621
Haidth Number: 12125

۔ (۱۲۱۲۶)۔ حَدَّثَنَا یَزِیدُ وَمُحَمَّدُ بْنُ یَزِیدَ قَالَا: حَدَّثَنَا الْعَوَّامُ، قَالَ مُحَمَّدٌ: عَنِ الْقَاسِمِ، وَقَالَیَزِیدُ فِی حَدِیثِہِ: حَدَّثَنِی الْقَاسِمُ بْنُ عَوْفٍ الشَّیْبَانِیُّ، عَنْ رَجُلٍ، قَالَ: کُنَّا قَدْ حَمَلْنَا لِأَبِی ذَرٍّ شَیْئًا نُرِیدُ أَنْ نُعْطِیَہُ إِیَّاہُ، فَأَتَیْنَا الرَّبَذَۃَ، فَسَأَلْنَا عَنْہُ، فَلَمْ نَجِدْہُ، قِیلَ: اسْتَأْذَنَ فِی الْحَجِّ، فَأُذِنَ لَہُ، فَأَتَیْنَاہُ بِالْبَلْدَۃِ وَہِیَ مِنًی، فَبَیْنَا نَحْنُ عِنْدَہُ إِذْ قِیلَ لَہُ: إِنَّ عُثْمَانَ صَلّٰی أَرْبَعًا، فَاشْتَدَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَبِی ذَرٍّ، وَقَالَ قَوْلًا شَدِیدًا، وَقَالَ: صَلَّیْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، وَصَلَّیْتُ مَعَ أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ، ثُمَّ قَامَ أَبُو ذَرٍّ فَصَلّٰی أَرْبَعًا، فَقِیلَ لَہُ: عِبْتَ عَلَی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ شَیْئًا، ثُمَّ صَنَعْتَ، قَالَ: الْخِلَافُ أَشَدُّ، إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا فَقَالَ: ((إِنَّہُ کَائِنٌ بَعْدِی سُلْطَانٌ، فَلَا تُذِلُّوہُ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ یُذِلَّہُ، فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَۃَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِہِ، وَلَیْسَ بِمَقْبُولٍ مِنْہُ تَوْبَۃٌ حَتّٰییَسُدَّ ثُلْمَتَہُ الَّتِی ثَلَمَ، وَلَیْسَ بِفَاعِلٍ۔)) ثُمَّ یَعُودُ فَیَکُونُ فِیمَنْیُعِزُّہُ، أَمَرَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا یَغْلِبُونَا عَلٰی ثَلَاثٍ، أَنْ نَأْمُرَ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَنْہٰی عَنِ الْمُنْکَرِ، وَنُعَلِّمَ النَّاسَ السُّنَنَ۔ (مسند احمد: ۲۱۷۹۲)

قاسم بن عوف شیبانی، ایک آدمی سے بیان کرتے ہیں، اس نے کہا:ہم ابوذر کو کوئی چیز بطور ہدیہ دینا چاہتے تھے، ہم وہ اٹھا کر لے گئے اور ربذہ مقام میں پہنچے، جب ہم نے ان کے متعلق دریافت کیا تو بتلایا گیا کہ انہوں نے حج کے لیے جانے کی اجازت مانگی تھی اور انہیںمل گئی تھی، پھر ہم منیٰ میں ان سے ملے، ہم ان کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ان کو بتایا گیا کہ سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مِنی میں چاررکعت پڑھی ہے، یہ بات ابوذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر بہت گراں گزری اور انہوں نے سخت باتیں کہہ دیں اور پھر کہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ یہاں نماز پڑھی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو رکعتیں پڑھی تھیں، میں نے سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہمراہ یہاں مِنی میں نماز پڑھی ہے (انھوں نے بھی دو رکعتیں پڑھائی ہیں)، اس کے بعد سیدنا ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اٹھ کر چار رکعات پڑھیں۔ کسی نے ان سے کہا کہ تم نے جس با ت کو امیر المومنین کے لیے معیوب سمجھا ہے، اس پر خود عمل کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا: اختلاف کرنا بہت برا ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرے بعد ایک بادشاہ آئے گا، تم اسے رسوانہ کرنا، جس نے اسے رسواکرنے کا ارادہ کیا، اس نے اسلام کی رسی کو اپنی گردن سے اتار پھینکا، اور اس کی توبہ اس وقت تک قبول نہ ہوگی، جب تک اس کی ڈالی ہوئی دراڑ ختم نہ ہو گی، مگر وہ ایسا نہ کرسکے گا۔ یعنی اپنی ڈالی ہوئی دراڈ کو پر نہ کر سکے گا۔ اس کے بعد وہ اس بادشاہ کی عزت کرے گا۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ یہ حکمران تین باتوں میں ہم پر غالب نہ آجائیں یعنی وہ ہمیں ان تین کاموں سے روک نہ سکیں، بلکہ ہم یہ کام برابر کرتے رہیں۔ امر بالمعروف، نہی عن المنکر او رلوگوں کو سنتوں کی تعلیم دینا۔

Haidth Number: 12126

۔ (۱۲۱۲۷)۔ وَعَنْ سَعِیدِ بْنِ جُمْہَانَ قَالَ: لَقِیتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أَبِی أَوْفٰی، وَہُوَ مَحْجُوبُ الْبَصَرِ، فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ، قَالَ لِی: مَنْ أَنْتَ؟ فَقُلْتُ: أَنَا سَعِیدُ بْنُ جُمْہَانَ، قَالَ: فَمَا فَعَلَ وَالِدُکَ؟ قَالَ: قُلْتُ: قَتَلَتْہُ الْأَزَارِقَۃُ، قَالَ: لَعَنَ اللّٰہُ الْأَزَارِقَۃَ، لَعَنَ اللّٰہُ الْأَزَارِقَۃَ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَنَّہُمْ کِلَابُ النَّارِ، قَالَ: قُلْتُ: الْأَزَارِقَۃُ وَحْدَہُمْ أَمْ الْخَوَارِجُ کُلُّہَا؟ قَالَ: بَلَی الْخَوَارِجُ کُلُّہَا، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنَّ السُّلْطَانَ یَظْلِمُ النَّاسَ، وَیَفْعَلُبِہِمْ، قَالَ: فَتَنَاوَلَ یَدِی فَغَمَزَہَا بِیَدِہِ غَمْزَۃً شَدِیدَۃً ثُمَّ قَالَ: وَیْحَکَیَا ابْنَ جُمْہَانَ! عَلَیْکَ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ، عَلَیْکَ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ، إِنْ کَانَ السُّلْطَانُ یَسْمَعُ مِنْکَ، فَأْتِہِ فِی بَیْتِہِ فَأَخْبِرْہُ بِمَا تَعْلَمُ، فَإِنْ قَبِلَ مِنْکَ، وَإِلَّا فَدَعْہُ فَإِنَّکَ لَسْتَ بِأَعْلَمَ مِنْہُ۔)) (مسند احمد: ۱۹۶۳۵)

سعید بن جمہان سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ نابینا ہوچکے تھے، میں نے سلام کہا، انہوں نے مجھ سے پوچھا، تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں سعید بن جمہان ہوں، انہو ںنے کہا: تمہارے والد کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا؟ میں نے کہا: ازارقہ نے اسے قتل کر ڈالا۔ انھوں نے کہا: اللہ، ازارقہ پر لعنت کرے، اللہ ازارقہ پر لعنت کرے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے بیان فرمایا تھا کہ یہ لوگ جہنم کے کتے ہیں۔ میں نے پوچھا: صرف ازارقہ یا سارے خوارج؟ انہو ںنے کہا: سارے خوارج۔ میں نے کہا: بادشاہ لوگوں پر ظلم ڈھاتا ہے اور کچھ اچھے کام بھی کرتا ہے، (اس کے بارے میں کیا کہنا یا کرنا چاہیے)؟ انہو ں نے میرا ہاتھ پکڑ کر زور سے دبایا اور پھر کہا: اے ابن جمہان! تم پر افسوس، تم سوا داعظم یعنی بڑے لشکر کے ساتھ رہنا، اگر بادشاہ تمہاری بات سنتا ہو تو اس کے گھر میں اس کے پاس جا کر جو کچھ تم جانتے ہو، اس بتلا دینا، اگر وہ آپ کی بات مان لے تو بہتر، ورنہ رہنے دینا، کیونکہ تم اس سے زیادہ نہیں جانتے۔

Haidth Number: 12127

۔ (۱۲۱۲۸)۔ وعن شُرَیْحِ بْنِ عُبَیْدٍ الْحَضْرَمِیِّ وَغَیْرِہِ قَالَ: جَلَدَ عِیَاضُ بْنُ غَنْمٍ صَاحِبَ دَارٍ حِینَ فُتِحَتْ، فَأَغْلَظَ لَہُ ہِشَامُ بْنُ حَکِیمٍ الْقَوْلَ حَتّٰی غَضِبَ عِیَاضٌ، ثُمَّ مَکَثَ لَیَالِیَ فَأَتَاہُ ہِشَامُ بْنُ حَکِیمٍ، فَاعْتَذَرَ إِلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ ہِشَامٌ لِعِیَاضٍ: أَلَمْ تَسْمَعِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ عَذَابًا أَشَدَّہُمْ عَذَابًا فِی الدُّنْیَا لِلنَّاسِ۔)) فَقَالَ عِیَاضُ بْنُ غَنْمٍ: یَا ہِشَامُ بْنَ حَکِیمٍ! قَدْ سَمِعْنَا مَا سَمِعْتَ، وَرَأَیْنَا مَا رَأَیْتَ، أَوَلَمْ تَسْمَعْ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((مَنْ أَرَادَ أَنْ یَنْصَحَ لِسُلْطَانٍ بِأَمْرٍ فَلَا یُبْدِلَہُ عَلَانِیَۃً، وَلٰکِنْ لِیَأْخُذْ بِیَدِہِ فَیَخْلُوَ بِہِ، فَإِنْ قَبِلَ مِنْہُ فَذَاکَ، وَإِلَّا کَانَ قَدْ أَدَّی الَّذِی عَلَیْہِ لَہُ۔)) وَإِنَّکَ یَا ہِشَامُ! لَأَنْتَ الْجَرِیئُ إِذْ تَجْتَرِئُ عَلٰی سُلْطَانِ اللّٰہِ، فَہَلَّا خَشِیتَ أَنْ یَقْتُلَکَ السُّلْطَانُ، فَتَکُونَ قَتِیلَ سُلْطَانِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی۔ (مسند احمد: ۱۵۴۰۸)

شریح بن عبید حضرمی وغیرہ سے مروی ہے کہ ایک علاقہ فتح ہوا اور سیدنا عیاض بن غنم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک گھر کے مالک کی پٹائی کردی، سیدنا ہشام بن حکیم بن حزام نے ان کو سخت قسم کی باتیں کہہ دیں، عیاض ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ناراض ہوگئے، کچھ دنوں کے بعد سیدنا ہشام بن حکیم نے آکر معذرت کی، پھر سیدنا ہشام نے عیاض ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا:کیا تم نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو دیا جائے گا، جو دنیا میں لوگوں کو سخت عذاب دیتے ہیں۔ سیدناعیاض بن غنم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: ہشام! جو کچھ تم نے سنا، وہ ہم بھی سن چکے ہیںاور جو کچھ تم نے دیکھا، وہ ہم بھی دیکھ چکے ہیں۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی بادشاہ کے ساتھ خیر خواہی کرنے کا ارادہ کرے، وہ لوگوں کے سامنے کچھ نہ کہے، بلکہ اس کا ہاتھ پکڑ کر خلوت میں لے جائے، اگر وہ حکمران اس کی بات کو قبول کر لے تو بہتر، ورنہ اس آدمی نے اپنا فریضہ ادا کر دیا۔ اے ہشام! تم بڑے جرأت مند ہو،کیونکہ تم نے تو اللہ کے سلطان پر جرأت کی ہے، کیا تمہیں اس بات سے ڈر نہیں لگتا کہ اللہ تعالیٰ کا بادشاہ تم کو قتل کر دے اور اس طرح تم اللہ کے بادشاہ کے مقتول بن جاؤ۔

Haidth Number: 12128

۔ (۱۲۵۵۶)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبَسَۃَ السُّلَمِیِّ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْرِضُیَوْمًا خَیْلًا وَعِنْدَہُ عُیَیْنَۃُ بْنُ حِصْنِ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِیُّ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((أَنَا أَفْرَسُ بِالْخَیْلِ مِنْکَ۔)) فَقَالَ عُیَیْنَۃُ: وَأَنَا أَفْرَسُ بِالرِّجَالِ مِنْکَ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((وَکَیْفَ ذَاکَ؟)) قَالَ: خَیْرُ الرِّجَالِ رِجَالٌ یَحْمِلُونَ سُیُوفَہُمْ عَلٰی عَوَاتِقِہِمْ، جَاعِلِینَ رِمَاحَہُمْ عَلٰی مَنَاسِجِ خُیُولِہِمْ، لَابِسُو الْبُرُودِ مِنْ أَہْلِ نَجْدٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ((کَذَبْتَ، بَلْ خَیْرُ الرِّجَالِ رِجَالُ أَہْلِ الْیَمَنِ، وَالْإِیمَانُیَمَانٍ إِلٰی لَخْمٍ وَجُذَامَ وَعَامِلَۃَ، وَمَأْکُولُ حِمْیَرَ خَیْرٌ مِنْ آکِلِہَا، وَحَضْرَمَوْتُ خَیْرٌ مِنْ بَنِی الْحَارِثِ، وَقَبِیلَۃٌ خَیْرٌ مِنْ قَبِیلَۃٍ وَقَبِیلَۃٌ شَرٌّ مِنْ قَبِیلَۃٍ، وَاللّٰہِ! مَا أُبَالِی أَنْ یَہْلِکَ الْحَارِثَانِ کِلَاہُمَا لَعَنَ اللّٰہُ الْمُلُوکَ الْأَرْبَعَۃَ جَمَدَائَ وَمِخْوَسَائَ وَمِشْرَخَائَ وَأَبْضَعَۃَ وَأُخْتَہُمْ الْعَمَرَّدَۃَ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((أَمَرَنِی رَبِّی عَزَّوَجَلَّ أَنْ أَلْعَنَ قُرَیْشًا مَرَّتَیْنِ فَلَعَنْتُہُمْ، وَأَمَرَنِی أَنْ أُصَلِّیَ عَلَیْہِمْ فَصَلَّیْتُ عَلَیْہِمْ مَرَّتَیْنِ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((عُصَیَّۃُ عَصَتِ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ غَیْرَ قَیْسٍ وَجَعْدَۃَ وَعُصَیَّۃَ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((لَأَسْلَمُ وَغِفَارُ وَمُزَیْنَۃُ وَأَخْلَاطُہُمْ مِنْ جُہَیْنَۃَ خَیْرٌ مِنْ بَنِی أَسَدٍ وَتَمِیمٍ وَغَطَفَانَ وَہَوَازِنَ عِنْدَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔)) ثُمَّ قَالَ: ((شَرُّ قَبِیلَتَیْنِ فِی الْعَرَبِ نَجْرَانُ وَبَنُو تَغْلِبَ، وَأَکْثَرُ الْقَبَائِلِ فِی الْجَنَّۃِ مَذْحِجٌ وَمَأْکُولٌ۔)) قَالَ: قَالَ أَبُو الْمُغِیرَۃِ: قَالَ صَفْوَانُ: حِمْیَرَ حِمْیَرَ خَیْرٌ مِنْ آکِلِہَا، قَالَ: مَنْ مَضَی خَیْرٌ مِمَّنْ بَقِیَ۔ (مسند احمد: ۱۹۶۷۵)

سیدنا عمرو بن عبسہ سلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھوڑوں کا معائنہ فرما رہے تھے، عیینہ بن حصن بن بدر فزاری بھی آپ کے پاس موجود تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عیینہ سے فرمایا: میں گھوڑوں کے بارے میں تم سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھتا ہوں۔ عیینہ نے کہا: اور میں لوگوں کے بارے میں آپ سے زیادہ بصیرت رکھتا ہوں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے فرمایا: وہ کیسے؟ اس نے کہا: لوگوں میں سب سے اچھے اور افضل لوگ وہ ہیں، جو اپنی تلواریں اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوں اور اپنے نیزے اپنے گھوڑوں کی گردنوں پر رکھتے ہوں اور نجد کی بنی ہوئی چادریں زیب تن کرتے ہوں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے غلط کہا، صحیح یہ ہے کہ لوگو ں میں سب سے اچھے اہل یمن ہیں، قابل قدر ایمان یمنی یعنی اہل یمن کا ایمان ہے، آپ کا اشارہ لخـم، جذام اورعاملہ نامی قبائل کی طرف تھا اور قبیلہ حمیر کی ماکول نامی شاخ کے گزشتہ لوگ موجود لوگوں میں سے بہتر ہیں اور قبیلہ حضرموت، بنوحارث سے بہتر ہے اور ایسا ہوتا ہے کہ ایک قبیلہ دوسرے سے بہتر یا ایک قبیلہ دوسرے سے بدترہو، اللہ کی قسم! مجھے اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں کہ حارث کے دونوں قبیلے ہلاک ہوجائیں، اللہ تعالیٰ نے چار بادشاہوں جمدائ،1 منحوسائ، مشرفاء اور بضعہ پر اور ان سے ملتی جلتی عمر دۃ پر لعنت کرے۔ اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے رب نے مجھے حکم دیا کہ میں قریش پر دو مرتبہ لعنت کروں، پس میں نے ان پر لعنت کی اور ربّ تعالیٰ نے مجھے ان کے لیے دعائے رحمت کرنے کا حکم دیا تو میں نے ان کے حق میں دو مرتبہ رحمت کی دعا کی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ہے، البتہ ان میں سے قیس، جعدہ اور عصیہ2 کے قبائل معصیت سے محفوظ رہے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ کے دیگر قبائل اللہ تعالیٰ کے ہاں بنو اسد، تمیم، غطفان، ہوازن سے بہتر ہوں گے، عرب میں سے بنو نجران اور بنو تغلب کے قبیلے بد ترین ہیں اور جنت میں مذحج اور بنو ما کول کے افراد باقی قبائل کی نسبت زیادہ ہوں گے۔

Haidth Number: 12556

۔ (۱۲۵۵۷)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ آخَرَ) بَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعْرِضُ خَیْلًا وَعِنْدَہُ عُیَیْنَۃُ بْنُ حِصْنِ بْنِ حُذَیْفَۃَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِیُّ فَقَالَ لِعُیَیْنَۃَ: ((أَنَا أَبْصَرُ بِالْخَیْلِ مِنْکَ)) فَقَالَ عُیَیْنَۃُ: وَأَنَا أَبْصَرُ بِالرِّجَالِ مِنْکَ، قَالَ: ((فَکَیْفَ ذَاکَ؟)) قَالَ: خِیَارُ الرِّجَالِ الَّذِینَیَضَعُونَ أَسْیَافَہُمْ عَلٰی عَوَاتِقِہِمْ، وَیَعْرِضُونَ رِمَاحَہُمْ عَلٰی مَنَاسِجِ خُیُولِہِمْ مِنْ أَہْلِ نَجْدٍ، قَالَ: ((کَذَبْتَ خِیَارُ الرِّجَالِ رِجَالُ أَہْلِ الْیَمَنِ، وَالْإِیمَانُیَمَانٍ وَأَنَا یَمَانٍ، وَأَکْثَرُ الْقَبَائِلِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِی الْجَنَّۃِ مَذْحِجٌ، وحَضْرَمَوْتُ خَیْرٌ مِنْ بَنِی الْحَارِثِ، وَمَا أُبَالِی أَنْ یَہْلِکَ الْحَیَّانِ کِلَاہُمَا فَلَا قِیلَ وَلَا مُلْکَ إِلَّا لِلَّہِ عَزَّ وَجَلَّ، لَعَنَ اللّٰہُ الْمُلُوکَ الْأَرْبَعَۃَ جَمَدَائَ وَمِشْرَخَائَ وَمِخْوَسَائَ وَأَبْضَعَۃَ وَأُخْتَہُمْ الْعَمَرَّدَۃَ۔)) (مسند احمد: ۱۹۶۷۹)

۔ (دوسری سند) سیدناعمرو بن عبسہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھوڑوں کا معائنہ فرما رہے تھے اور عیینہ بن حصن بن حذیفہ بن بد رفزاری بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عیینہ سے فرمایا: میں گھوڑوں ے بارے میں تم سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھتا ہوں۔ آگے سے عیینہ نے کہا: اور میں لوگوں کے بارے میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے زیادہ سمجھ بوجھ رکھتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ کیسے؟ اس نے کہا: بہترین لوگ وہ اہل نجد ہیں، جو اپنی تلواریں اپنے کاندھوں پر یعنی نسخوں میں الفاظ کے ضبط میں فرق ہے۔ جس کی تفصیل مسند احمد کے محقق نسخے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ @ بعض نسخوں میں عصیۃ کی جگہ عصمۃ ہے جو سیاق کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہے۔ (عبداللہ رفیق) رکھتے ہیں اور اپنے نیزے گھوڑوں کی گردنوں پر رکھتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرمایا: تم نے غلط کہا، بہترین لوگ یمن کے ہیں اور بہترین ایما ن بھی اہل یمن کا ایمان ہے، میں بھی اصلاً یمنی ہی ہوں اور قیامت والے دن جنت میں تمام قبائل کی نسبت بنو مذ حج کے افراد زیادہ ہوں گے اور قبیلہ حضر موت، قبیلہ بنو حارث سے بہتر ہے اور مجھے ایک بات کی قطعاً پرواہ نہیں ہے کہ دونوں قبیلے ہلاک ہوجائیں، حکمرانی اور بادشاہت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ جمدائ، شرحائ، مخوساء اور ابضعہ چاروں بادشاہوں اور ان کی بہن عمردۃ پر لعنت کرے۔

Haidth Number: 12557
سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ میرے صحابہ میں سے ایک آدمی کو اس طرح تلاش کیا جائے گا، جیسے گم شدہ چیز کو تلاش کیا جاتا ہے، لیکن وہ آدمی ملے گا نہیں۔

Haidth Number: 12904
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک کہ اللہ تعالیٰ اہل زمین میں اپنی شرط پوری نہیں کر لے گا،پھر صرف ایسے ناکارہ لوگ باقی رہ جائیں گے ،جن کو نہ نیکی کی معرفت ہو گی اور نہ وہ برائی کو برا سمجھیں گے۔

Haidth Number: 12905
سیدنا علباء سلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت صرف انتہائی رذیل اور گھٹیا لوگوں پر قائم ہوگی۔

Haidth Number: 12906
سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے،نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی، جب تک تم اپنے امام کو قتل نہیں کر وگے اور اپنی تلواریں نہیں نکال لو گے اور تم میں سے بد ترین لوگ تمہارے حکمران نہیں بن جائیں گے۔

Haidth Number: 12907
سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک اس طرح نہ ہو جائے کہ درندے انسانوں سے کلام کریں، انسان کی لاٹھی کا سرا اور جوتے کا تسمہ اس سے ہم کلام ہو اور انسان کی ران اسے وہ کچھ بتلائے جو اس کے بعد اس کے اہل خانہ نے کیا ہو۔

Haidth Number: 12908