Blog
Books
Search Hadith

زمین کو غصب کرنے یا اس کو چوری کرنے والے کا بیان، اگرچہ وہ ایک بالشت یا ایک ہاتھ کے برابر ہو

1110 Hadiths Found

۔ (۶۲۰۰)۔ عَنِ الْاَشْعَتِ بْنِ قَیْسٍ أَنَّ رَجُلًا مِنْ کِنْدَۃَ وَرَجُلًا مِنْ حَضْرَمَوْتَ اِخْتَصَمَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ أَرْضٍ بِالْیَمَنِ فَقَالَ الْحَضْرَمِیُّ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَرْضِیْ اِغْتَصَبَہَا ھٰذَا وَأَبُوْہُ، فَقَالَ الْکِنْدِیُّ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَرْضِیْ وَرِثْتُہَا مِنْ اَبِیْ، فَقَالَ الْحَضْرَمِیُّ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اسْتَحْلِفْہُ أَنَّہُ مَا یَعْلَمُ اَنَّھَا أَرْضِیْ وَأَرْضُ وَالِدِیْ وَالَّذِیْ اِغْتَصَبَہَا أَبُوْہُ، فَتَہَیَّأَ الْکِنْدِیُّ لِلْیَمِیْنِ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((إِنَّہُ لَا یَقْتَطِعُ عَبْدٌ أَوْ رَجُلٌ بِیَمِیْنِہِ مَالًا اِلَّا لَقِیَ اللّٰہَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَھُوَ أَجْذَمُ۔)) فَقَالَ الْکِنْدِیُّ: ھِیَ أَرْضُہُ وَأَرْضُ وَالِدِہِ۔ (مسند احمد: ۲۲۱۹۲)

۔ سیدنا اشعث بن قیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ کندہ کے ایک شخص اور حضرموت کے ایک آدمی کے مابینیمن میں واقع ایک زمین کے معاملے میں جھگڑا ہو گیا، حضرمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ زمین میری ہے، اس نے اور اس کے باپ نے اس پر ناجائز قبضہ کر لیاہے، کندہ کے باشندے نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ زمین میری ہے، مجھے اپنے باپ کے ورثے میںملیہے، حضرمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس سے یہ قسم لے لیں کہ اسے معلوم نہیں ہے کہ یہ میری اور میرے والد کی زمین ہے اور غصب کرنے والا اس کا باپ ہے۔اُدھر کندی قسم اٹھانے کے لئے تیارہو گیا، لیکن جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص جھوٹی قسم کے ذریعے کس کا مال ہتھیا لے گا تو روز قیامت جب اس کی ملاقات اللہ تعالیٰ سے ہوگی تو اس کا ہاتھ کٹا ہوا ہو گا۔ یہ فرمان سن کر کندی نے کہا: یہ زمین اس کی اور اس کے باپ کی ہے۔

Haidth Number: 6200
۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن ، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس آئے اور وہ زمین کے معاملے میں کسی سے جھگڑ رہے تھے، سیدہ نے کہا: اے ابو سلمہ! زمین کے معاملے میں احتیاط برتنا، کیونکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص ایک بالشت کے بقدر نا حق زمین ہتھیا لیتا ہے، اس کو سات زمینوں سے طوق پہنایا جائے گا۔

Haidth Number: 6201
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر ساجھی چیز میں شفعہ ہے، وہ گھر ہو یا باغ، ایک شریک کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ایسی چیز کو فروخت کر دے، یہاں تک کہ وہ اپنے شریک کو اس سے آگاہ کرے، اگر وہ شریک کو بتلائے بغیر فروخت کر دیتا ہے تو وہی اس کا زیادہ حقدار ہو گا، یہاں تک کہ وہ اس کو خبر دے دے۔

Haidth Number: 6223
۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے زمینوں اور گھروں میں شرکاء کے درمیان حق شفعہ کا فیصلہ دیا ہے۔

Haidth Number: 6224
۔ سیدنا سمرہ بن جناب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: گھر کا ہمسایہ دوسروں کی بہ نسبت گھر خریدنے کا زیادہ حقدار ہے۔

Haidth Number: 6225
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہمسایہ اپنے ہمسائے کے شفعہ (فروخت کیے جانے والے حصہ) کازیادہ حقدار ہے، اگر وہ غائب ہو تو اس کا انتظار کیا جائے گا، لیکنیہ زیادہ حق اس وقت ہو گا، جب ان کا راستہ ایک ہو گا۔

Haidth Number: 6226
۔ سیدنا شرید بن سوید ثقفی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: گھر کا پڑوسی دوسروں کے بہ نسبت اس گھر کا زیادہ حق رکھتا ہے۔

Haidth Number: 6227
۔ سیدنا علی اور عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پڑوس کے حق کی بنا پر فیصلہ کیا ہے۔

Haidth Number: 6228
۔ سیدنا شرید بن سوید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: اے اللہ کے رسول! ایک زمین ہے، اس میں نہ تو کسی کی شراکت ہے اور نہ کسی کا کوئی حصہ ہے، البتہ صرف ہمسائی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پڑوسی قریب ہونے کی وجہ سے زیادہ حق رکھتا ہے، وہ چیز جو بھی ہو۔

Haidth Number: 6229
Haidth Number: 6230

۔ (۶۲۳۶)۔ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ کُہَیْلٍ قَالَ: سَمِعْتُ سُوَیْدَ بْنَ غَفْلَۃَ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ زَیْدِ بْنِ صُوْحَانَ وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِیْعَۃَ فَوَجَدْتُ سَوْطًا فَاَخَذْتُہُ فَقَالَا لِیْ: اطْرَحْہُ، فقُلْتُ: لَا وَلٰکِنْ اُعَرِّفُہُ فَإِنْ وَجَدْتُّ مَنْیَعْرِفُہُ وَاِلَّا اسْتَمْتَعْتُ بِہٖفَأَبَیَا عَلَیَّ وَأَبَیْتُ عَلَیْہِمَا، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ غَزَاتِنَا حَجَجْتُ فَأَتَیْتُ الْمَدِیْنَۃَ فَلَقِیْتُ اُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ فَذَکَرْتُ لَہُ قَوْلَھُمَا وَقَوْلِیْ لَھُمَا، فَقَالَ: وَجَدْتُّ صُرَّۃً فِیْہَا مِائَۃُ دِیْنَارٍ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَذَکَرْتُ لَہُ ذٰلِکَ، فَقَالَ: ((عَرِّفْہَا حَوْلًا۔)) فَلَمْ اَجِدْ مَنْ یَعْرِفُہَا فَقَالَ: ((عَرِّفْہَا حَوْلًا۔)) ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔ وَلَا أَدْرِیْ قَالَ لَہُ ذٰلِکَ فِیْ سَنَۃٍ أَوْ فِیْ ثَلَاثِ سِنِیْنَ، فَقَالَ لَہُ فِیْ الرَّابِعَۃِ: ((اِعْرِفْ عَدَدَھَا وَوِکَائَھَا فَاِنْ وَجَدْتَّ مَنْ یَعْرِفُہَا وَاِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِہَا۔)) وَھٰذَا لَفْظُ حَدِیْثِیَحْیَ بْنِ سَعِیْدٍ وَزَادَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ فِیْ حَدِیْثِہِ قَالَ: فَلَقِیْتُہُ بَعْدَ ذٰلِکَ بِمَکَّۃَ فَقَالَ: لَا أَدْرِیْ ثَلَاثَۃَ أَحْوَالٍ أَوْ حَوْلًا وَاحِدًا۔ (مسند احمد: ۲۱۴۸۶)

۔ سویدین بن غفلہ کہتے ہیں: میں نے زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کی معیت میں غزوہ کیا، میں نے راستے میں ایک کوڑا پایا اور اس کو اٹھا لیا، لیکن انہوں نے مجھے کہا: یہ کوڑا پھینک دے، میں نے کہا: میں اسے نہیں پھینکوں گا، بلکہ اس کا اعلان کروں گا، اگر اس کو پہچان لینے والے مالک کو پا لیا تو اسے دے دوں گا،وگرنہ خود استعمال کر لوں گا، ان دونوں نے یہ بات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور میں نے بھی ان سے اتفاق نہ کیا، جب ہم غزوہ سے واپس آئے اورمیں حج کے لئے گیا تو میں مدینہ منورہ گیا اور سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے ملا اور ان کو اُن دونوں کی اور اپنی بات بتلائی، انھوں نے آگے سے کہا: عہد ِ نبوی کی بات ہے، مجھے سو دیناروں پر مشتمل ایک تھیلی ملی تھی، جب میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گیا اور اس کے بارے میں ذکر کیا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک سال تک اس کا اعلان کرو۔ میں نے ایسا ہی کیا، لیکن ایسا کوئی شخص نہ ملا جو اس تھیلی کو پہچانتا ہو، اس لیے میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلایا کہ کوئی ایسا نہیں ملا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مزید ایک سال اعلان کرو۔ تین دفعہ ایسے ہی ہوا، راوی کہتا ہے: میں نہیں جانتا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو ایک سال میں (اعلان کرنے کا) کہا تھا یا تین برسوں میں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چوتھی مرتبہ مجھے فرمایا: ان دیناروں کی تعداد اور اس تھیلی کے تسمے کو ذہن نشین کرلے اور اگر اس بعد اس کو پہچاننے والے کو پا لے تو اسے دے دینا، وگرنہ اس سے خود فائدہ اٹھا لینا۔ یہ الفاظ یحییٰ بن سعید کی حدیث کے ہیں، محمد بن جعفر نے اپنی بیان کردہ حدیث میں کہاہے کہ سیدنا شعبہ کہتے ہیں میں اس کے بعد سلمہ بن کہیل کو مکہ میں ملا اوران سے پوچھا تو انھوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں کہ تین سال مراد ہیںیا ایک سال میں تین دفعہ اعلان کرنا مراد ہے۔

Haidth Number: 6236
۔ (دوسری سند) حماد بن سلمہ سے مروی ہے کہ سلمہ بن کہیل نے اپنی روایت کو اس طرح بیان کیا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’دو یا تین سال تک اس کا اعلان کرو۔ پھر فرمایا: وگرنہ اس چیز کی تعداد،تھیلی اور تسمے کو ذہن نشین کر لو اور اس سے فائدہ اٹھائو، اگر بعد میں اس کامالک آگیا اور اس کی تعداد اورتسمے کو پہنچان لیا تو اس کو دے دینا۔

Haidth Number: 6237
۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: عہد ِ نبوی میں میں نے سو دینار اٹھا لیے (جوکہ کسی کے گم ہوئے تھے) اوررسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آ گیا،آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک سال تک اعلان کرو۔ میں نے ایک سال تک اعلان کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آ کر عرض کی کہ میں نے ایک سال اس کا اعلان کر دیا ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مزید ایک سال اعلان کرو۔ پس میں نے مزید ایک سال اعلان کیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آ کر کہا کہ میں نے مزید ایک سال تک اعلان کر دیا ہے، اس بار آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب تم ان کی تعداد شمار کر لو اور اس کا تسمہ پہچان لو اور ان سے فائدہ حاصل کرو۔

Haidth Number: 6238
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر مجھے گوشت کی دستی (پنڈلی سے اوپر والا حصہ) تحفہ میں دیا جائے تو میں اس کو قبول کروں گا، اور اگر مجھے پنڈلی کے پتلے حصے کی طرف دعوت دی جائے تو میں اس کو قبول کروں گا۔

Haidth Number: 6258
۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک خرگوش بھاگا اور لوگ اس کے پیچھے دوڑے، میں اس کی طرف پہلا سبقت لے جانے والا آدمی تھا، پس میں نے اس کو پکڑ لیا اور اس کو لے کر سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آیا، انھوں نے حکم دیا، پس اس کو ذبح کیا گیا، پھر میں نے اس کو بھونا، پھر انھوں نے اس کا نصف پچھلا حصہ پکڑا اور کہا: یہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لے جاؤ، پس میں وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لے کر آیا اور کہا: بیشک سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے خرگوش کا یہ پچھلا حصہ آپ کی طرف بھیجا ہے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے قبول کیا۔

Haidth Number: 6259
۔ (دوسری سند) سیدنا انس کہتے ہیں: ہم نے مر الظہران کے مقام پر ایک خرگوش کو بھگایا، لڑکے اس کو پکڑنے کے لیے دوڑے، لیکن وہ تھک گئے اور میں نے اس کو پکڑ لیا اور سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس لے کر آیا، انھوں نے اس کو ذبح کیا اور اس کا سرین مجھے دے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف بھیجا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو قبول کیا۔

Haidth Number: 6260
۔ صحابی رسول سیدنا عبد اللہ بن بسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میری بہن مجھے ہدیہ دے کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بھیجتی تھے، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کو قبول کر لیتے تھے۔

Haidth Number: 6261
۔ سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہدیہ قبول کرلیتے تھے اور صدقہ قبول نہیں کرتے تھے۔

Haidth Number: 6262
۔ سیدنا سلمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی اسی طرح کی حدیث ِ نبوی بیان کی ہے۔

Haidth Number: 6263
۔ سیدنا عبدا للہ بن بسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بھی اسی طرح کی حدیث ِ نبوی بیان کی ہے۔

Haidth Number: 6264
۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس گوشت لایا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا گیا کہ یہ تو بریرہ پر صدقہ کیا گیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔

Haidth Number: 6265
۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ ایک خاتون نے بکری کی ایک ٹانگ ان کو تحفے میں دی،یہ ٹانگ اس خاتون پر صدقہ کی گئی تھی، پس نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو حکم دیا کہ وہ اس کو قبول کر لیں۔

Haidth Number: 6266
۔ سیدہ ام عطیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صدقہ کی ایک بکری ان کی طرف بھیجی اور انھوں نے اس میں سے کچھ حصہ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی طرف بھیج دیا، جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: کھانے کی کوئی چیز ہے؟ تو انھوں نے کہا: جی نہیں، البتہ نسیبہ (یعنی ام عطیہ) نے اس بکری کا ایک حصہ بھیجا ہے، جو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو دی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک وہ اپنے محل تک پہنچ چکی ہے۔

Haidth Number: 6267
۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گھر کے علاوہ کہیں اور سے کھانا لایا جاتا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے بارے میں سوال کرتے، پس اگر کہا جاتا کہ یہ ہدیہ ہے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کھا لیتے، اور اگر کہا جاتا ہے کہ صدقہ ہے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے: تم لوگ کھا لو۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خود نہ کھاتے۔

Haidth Number: 6268
Haidth Number: 6269

۔ (۶۲۷۰)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا قَالَتْ: أَہْدَتْ أُمُّ سُنْبُلَۃَ إِلٰی رَسُولِ اللَّہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَبَنًا، فَلَمْ تَجِدْہُ، فَقَالَتْ لَہَا: إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَدْ نَہٰی أَنْ یُؤْکَلَ طَعَامُ الْأَعْرَابِ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَبُو بَکْرٍ فَقَالَ: ((مَا ہَذَا مَعَکِ یَا أُمَّ سُنْبُلَۃَ۔)) قَالَتْ: لَبَنًا أَہْدَیْتُ لَکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ! قَالَ: ((اُسْکُبِی أُمَّ سُنْبُلَۃَ!)) فَسَکَبَتْ فَقَالَ: ((نَاوِلِی أَبَا بَکْرٍ۔)) فَفَعَلَتْ، فَقَالَ: ((اُسْکُبِی أُمَّ سُنْبُلَۃَ!)) فَسَکَبَتْ فَنَاوَلَتْ رَسُولَ اللَّہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَشَرِبَ، قَالَتْ عَائِشَۃُ وَرَسُولُ اللَّہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَشْرَبُ مِنْ لَبَنٍ وَأَبْرَدَہَا عَلَی الْکَبِدِ یَا رَسُولَ اللَّہِ! کُنْتُ حُدِّثْتُ أَنَّکَ قَدْ نَہَیْتَ عَنْ طَعَامِ الْأَعْرَابِ؟ فَقَالَ: ((یَا عَائِشَۃُ! إِنَّہُمْ لَیْسُوا بِالْأَعْرَابِ، ہُمْ أَہْلُ بَادِیَتِنَا وَنَحْنُ أَہْلُ حَاضِرَتِہِمْ وَإِذَا دُعُوا أَجَابُوا فَلَیْسُوا بِالْأَعْرَابِ۔)) (مسند احمد: ۲۵۵۲۴)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ ام سنبلہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے دودھ کا تحفہ لے کر آئیں، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گھر پر نہ پایا، سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان سے کہا: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تو ہمیں بدّو لوگوں کا کھانا کھانے سے منع فرمایا ہے، اتنے میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی تشریف لے آئے اور سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ام سنبلہ! یہ تیرے پاس کیا ہے ؟ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! دودھ ہے، آپ کے لیے بطورِ تحفہ لائی ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ام سنبلہ! اس کو پیالے میں ڈالو۔ انھوں نے اس کو پیالے میں ڈالا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابوبکر کو پکڑاؤ۔ انھوں نے ایسے ہی کیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ام سنبلہ! اور ڈالو۔ انھوں نے اور ڈالا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پکڑایا، پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نوش فرمایا، جب سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دودھ پی رہے ہیں اور وہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے کلیجے کو کتنا ہی ٹھنڈا کر رہا ہے تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے تو یہ بات بیان کی گئی تھی کہ آپ نے بدوؤں کے کھانے سے منع فرمایا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: عائشہ! یہ لوگ بدّو نہیںہیں،یہ ہمارے شہر کے متصل بیرونی علاقے سے ہیں اور ہم ان کے شہر سے ہیں، جب ان لوگوں کو (آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور مسلمانوں کے امور کے لیے) بلایا جاتا ہے تو یہ جواب دیتے ہیں ، یہ بدّو نہیں ہیں۔

Haidth Number: 6270
۔ سیدہ جویریہ بنت حارث ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک دن میرے پاس تشریف لائے اورفرمایا: کیا کوئی کھانا ہے؟ میں نے کہا: جی کچھ نہیں ہے، البتہ (گوشت والی) وہ ہڈی ہے، جو ہماری لونڈی پر صدقہ کی گئی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لاؤ، میرے قریب کرو، صدقہ اپنے محل تک پہنچ چکا ہے۔

Haidth Number: 6271

۔ (۶۳۱۷)۔ عَنْ ثُمَامَۃَ بْنِ حَزْنِ نِ الْقُشَیْرِیِّ قَالَ: شَھِدْتُّ الدَّارَ یَوْمَ عُثْمَانَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فَطَلَعَ عَلَیْہِمْ اِطْلَاعَۃً فَقَالَ: ادْعُوْا لِیْ صَاحِبَیْکُمُ اللَّذَیْنِ اَلَّبَاکُمْ عَلَیَّّ فَدُعِیَا لَہُ، فقَالَ: نَشَدْتُّکُمَا اللّٰہَ أَتَعْلَمَانِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ ضَاقَ الْمَسْجِدُ بِأَھْلِہِ فَقَالَ: ((مَنْ یَشْتَرِیْ ھٰذِہِ الْبُقْعَۃَ مِنْ خَالِصِ مَالِہِ فَیَکُوْنُ فِیْہَا کَالْمُسْلِمِیْنَ وَلَہُ خَیْرٌ مِنْہَا فِیْ الْجَنَّۃِ۔)) فَاشْتَرَیْتُہَا مِنْ خَالِصِ مَالِیْ فَجَعَلْتُہَا بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنِ وَأَنْتُمْ تَمْنَعُوْنِیْ أَنْ أُصَلِّیَ فِیْہَا رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُکُمُ اللّٰہَ أَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا قَدِمَ الْمَدِیْنَۃَ لَمْ یَکُنْ فِیْہَا بِئْرٌ یُسْتَعْذَبُ مِنْہُ اِلَّا رُوْمَۃَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ یَشْتَرِیْہَا مِنْ خَالِصِ مَالِہِ فَیَکُوْنُ دَلْوُہُ فِیْہَا کَدُلِیِّ الْمُسْلِمِیْنَ وَلَہُ خَیْرٌ مِنْہَا فِیْ الْجَنَّۃِ؟)) فَاشْتَرَیْتُہَا مِنْ خَالِصِ مَالِیْ فَأَنْتُمْ تَمْنَعُوْنِیْ اَنْ أَشْرَبَ مِنْہَا، ثُمَّ قَالَ: ھَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنِّیْ صَاحِبُ جَیْشِ الْعُسْرَۃِ؟ قَالُوْا: اَللّٰہُمَّ نَعَمْ۔ (مسند احمد: ۵۵۵)

۔ ثمامہ بن حزن قشیری کہتے ہیں: جس دن سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو آزمائش میں مبتلا کیا گیا، میں اس دن موجود تھا، وہ محاصرہ کرنے والوں پر جھانکے اور کہا: میرے پاس ان دو آدمیوں کو بلا کر لائو، جنہوں نے تمہیں میرے خلاف ابھارا ہے، (ان کی مراد محمد بن ابی بکر اور محمد بن ابی حذیفہ تھی،) چنانچہ انہیں بلایا گیا، سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تومسجد میں نمازیوں کی گنجائش نہ رہی۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کون ہے جو اپنے خالص مال میں سے یہ زمین خریدے گا اور پھر وہ عام مسلمانوں کی طرح رہے گا، تو اس کے لیے اس کے عوض لیکن اس سے بہتر گھر جنت میں ہو گا۔ پس میں نے وہ جگہ اپنے خالص مال سے خریدی اور اس کو مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا، لیکن آج تم مجھے اس میں دورکعت نمازپڑھنے سے روک رہے ہو۔پھر سیدنا عثمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس میں بئر رومہ کے سوا میٹھے پانی والا کوئی کنواں نہیں تھا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو آدمی اپنے خالص مال سے یہ کنواں خریدے گا اور پھر اس میں دوسروں مسلمانوں کے ڈولوں کی طرح ڈول ڈالے گا، تو اس کے لیے اس سے بہتر چیز جنت میں ہوگی۔ پھر کہا: کیا تم جانتے ہو تنگی والے لشکر یعنی غزوئہ تبوک کو تیار کرنے والا میں ہی تھا؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔

Haidth Number: 6317

۔ (۶۳۲۴)۔ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ: کُنْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ فَمَرِضْتُ مَرَضًا أَشْفَیْتُ عَلٰی الْمَوْتِ فَعَادَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، فَقُلْتُ: یَارَسُوْل اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ! إِنَّ لِیْ مَالًا کَثِیْرًا وَلَیْسَیَرِثُنِیْ اِلَّا ابْنَۃٌ لِیْ، أَفَأُوْصِیْ بِثُلُثَیْ مَالِیْ؟ قَالَ: ((لَا۔)) قُلْتُ: بِشَطْرِ مَالِیْ؟ قَالَ: ((لَا۔)) قُلْتُ: بِثُلُثِ مَالِیْ؟ قَالَ: ((اَلثُّلُثُ وَالثُّلُثُ کَثِیْرٌ، إِنَّکَ یَا سَعْدُ! أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَکَ أَغْنِیَائَ خَیْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ تَدَعَہُمْ عَالَۃًیَتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ، إِنَّکَ یَا سَعْدُ! لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَۃً تَبْتَغِیْ بِہَا وَجْہَ اللّٰہِ تَعَالٰی اِلَّا أُجِرْتَ عَلَیْہَا، حَتَّی اللُّقْمَۃَ تَجْعَلُہَا فِیْ فِیْ اِمْرَأَتِکَ۔)) قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِیْ؟ قَالَ: ((إِنَّکَ لَنْ تَتَخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلًا تَبْتَغِیْ بِہٖوَجْہَاللّٰہِتَعَالٰی اِلَّا ازْدَدْتَّ بِہٖدَرَجَۃً وَرِفْعَۃً، وَلَعَلَّ تُخَلَّفُ حَتّٰییَنْفَعَ اللّٰہُ بِکَ أَقْوَامًا وَیَضُرَّ بِکَ آخَرِیْنَ، اَللّٰہُمَّ اَمْضِ لِأَصْحَابِیْ ہِجْرَتَہُمْ وَلَا تَرُدَّھُمْ عَلٰی أَعْقَابِہِمْ۔)) لٰکِنَّ الْبَائِسَ سَعْدُ بْنُ خَوْلَۃَ رَثٰی لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکَانَ مَاتَ بِمَکَّۃَ۔ (مسند احمد: ۱۵۲۴)

۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، ہوا یوں کہ میں بیمار ہو گیا اور ایسے لگا کہ موت قریب آ گئی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میری تیمار داری کرنے کے لیے تشریف لائے، میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں بہت زیادہ مال والا ہوں اور صرف میری ایک بیٹی میری وارث بننے والی ہے، تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت نہ کردوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: نصف مال کی وصیت کر دوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: ایک تہائی مال کی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں، تیسرے کی ٹھیک ہے اور یہ بھی زیادہ ہے، اے سعد! اگر تو اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تو انہیں ایسی فقیری کی حالت میں چھوڑے کہ وہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے پھریں، اے سعد! اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر جو بھی خرچ کرو گے، اس کا اجر پاؤ گے، حتیٰ کہ وہ لقمہ جو تم اپنی بیوی کو کھلاتے ہو، اس میں بھی اجر پاؤ گے۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں (اس بیماری کی وجہ سے) اپنے ساتھیوں کے بعد مکہ میں رہ جاؤں گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تو باقی رہ بھی جائے اور اللہ تعالی کی رضامندیتلاش کرنے کے لیے جو عمل بھی کرے گا تو اس کے ذریعے تیرے درجے بلند ہوں گے، ممکن ہے کہ تو زندہ رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تیرے ذریعے بعض لوگوں کو فائدہ پہنچائے اور بعض کو نقصان۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ! میرے صحابہ کی ہجرت مکمل فرما دے اور ان کو ان کی ایڑیوں کے بل نہ لوٹا، لیکن بیچارہ سعد بن خولہ۔ دراصل آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ پر اس لیے ترس آتا تھا کہ وہ مکہ میں فوت ہو گئے تھے۔

Haidth Number: 6324
۔ ابو عبد الرحمن سلمی سے مروی ہے کہ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مال کے تیسرے حصے سے وصیت کا طریقہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے جاری فرمایا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تیمار داری کے لئے میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: تو نے وصیت کی ہے؟ میں نے عرض کی: جی کی ہے اورسارا مال فقیروں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے مقرر کر دیا ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس طرح نہ کر۔ میں نے کہا: میرے سارے وارث مال دار ہیں، تو پھر دو تہائی مال کی کر دوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: نصف مال کی کر دوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: ایک تہائی مال کی وصیت کر دوں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہاں، ایک تہائی کی کر سکتے ہیں، لیکنیہ بھی زیادہ ہے۔

Haidth Number: 6325