اَلزَّعْمُ: اصل میں ایسی بات نقل کرنے کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ کا احتمال ہو اس لئے قرآن پاک میں یہ لفط ہمیشہ اس موقع پر آیا ہے جہاں کہنے والے کی مذمت مقصود ہے۔ چنانچہ فرمایا: (زَعَمَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا) (۶۴:۷) کفار (یہ) زعم کرتے ہیں۔ (بَلۡ زَعَمۡتُمۡ ) (۱۸:۴۸) مگر تم یہ خیال کرتے ہو۔ (کُنۡتُمۡ تَزۡعُمُوۡنَ ) (۶:۲۲) (جن کو تم شریک خدائی) سمجھتے تھے۔ (زَعَمۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ ) (۱۷:۵۶) (جنہیں تم نے) اﷲ کے سوا (معبود) خیال کیا۔ اور زَعَامَۃٌ کے معنی ذمہ داری اٹھانے اور ریاست (سرداری) کے ہیں اور کفیل (ضامن) اور رئیس کو زَعِمٌ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ ان دونوں کی بات میں جھوٹ کا احتمال ہوسکتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (وَّ اَنَا بِہٖ زَعِیۡمٌ ) (۱۲:۷۲) اور میں اس کا ذمہ دار ہوں۔ (اَیُّہُمۡ بِذٰلِکَ زَعِیۡمٌ) (۶۸:۴۰) ان میں سے کون اس کا ذمہ دار ہے۔ یہاں زَعِیمٌ یا تو زَعامہ بمعنیٰ کَفالۃ سے ہے اور یا زعم بالقول سے ہے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
بِزَعْمِهِمْ | سورة الأنعام(6) | 136 |
بِزَعْمِهِمْ | سورة الأنعام(6) | 138 |
تَزْعُمُوْنَ | سورة الأنعام(6) | 22 |
تَزْعُمُوْنَ | سورة الأنعام(6) | 94 |
تَزْعُمُوْنَ | سورة القصص(28) | 62 |
تَزْعُمُوْنَ | سورة القصص(28) | 74 |
زَعَمَ | سورة التغابن(64) | 7 |
زَعَمْتَ | سورة بنی اسراءیل(17) | 92 |
زَعَمْتُمْ | سورة الأنعام(6) | 94 |
زَعَمْتُمْ | سورة بنی اسراءیل(17) | 56 |
زَعَمْتُمْ | سورة الكهف(18) | 48 |
زَعَمْتُمْ | سورة الكهف(18) | 52 |
زَعَمْتُمْ | سورة سبأ(34) | 22 |
زَعَمْتُمْ | سورة الجمعة(62) | 6 |
زَعِيْمٌ | سورة يوسف(12) | 72 |
زَعِيْمٌ | سورة القلم(68) | 40 |
يَزْعُمُوْنَ | سورة النساء(4) | 60 |