اَلْجَرْمُ: (ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جَارم ج جِرَام۔ تَمْرٌ جَرِیْمٌ: خشک کھجور۔ جُرَامَۃٌ ردی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں۔ یہ نُفَایَۃٌ کے وزن پر ہے (جوکہ ہر چیز کے ردی حصہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔) اَجْرَمَ: (افعال) جرم والا ہونا۔ جیسے اَثْمَرَ وَاَتْمَرَ وَاَلْبَنَ اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے۔ اس کا مصدر جَرْمٌ ہے، شاعر نے عقاب کے متعلق کہا ہے (1) (۸۸) جَرِیْمَۃُ نَامِص فِیْ رَاْس نِیْق۔ جیساکہ (عقاب) بلند پہاڑ کی چوٹی پر اپنے بچوں کے لیے روزی کماکر ان کو کھلاتا ہے۔ یہاں شاعر کا ’’شاہین کے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کا جرم کہنا‘‘ یا تو اس بنا پر ہے کہ وہ پرندوں کو شکار کرکے لاتا ہے اور یا اس کو ایسا شخص فرض کیا ہے جو اپنی اولاد کی خاطر گناہ کرتا ہے، جیساکہ کسی نے کہا ہے کہ ہر صاحب اولاد خواہ بہائم ہی کیوں نہ ہوں اپنی اولاد کے لیے ضرور ہی جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔ قرآن مجید میں اِجْرَام (افعال) اور جَرْم (ض) دونوں فعل استعمال ہوئے ہیں۔ چنانچہ اجرام کے متعلق فرمایا: (اِنَّ الَّذِیۡنَ اَجۡرَمُوۡا کَانُوۡا مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا یَضۡحَکُوۡنَ ) (۸۳:۲۹) جو گنہگار (یعنی کفار) ہیں وہ (دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے۔ (کُلُوۡا وَ تَمَتَّعُوۡا قَلِیۡلًا اِنَّکُمۡ مُّجۡرِمُوۡنَ ) (۷۷:۴۶) (اے جھٹلانے والو!) تم کسی قدر کھالو اور فائدے اٹھالو تم بیشک گنہگار ہو۔ (اِنَّ الۡمُجۡرِمِیۡنَ فِیۡ ضَلٰلٍ وَّ سُعُرٍ ) (۵۴:۴۷) بیشک گنہگار لوگ گمراہی اور دیوانگی میں (مبتلا) ہیں۔ (اِنَّ الۡمُجۡرِمِیۡنَ فِیۡ عَذَابِ جَہَنَّمَ خٰلِدُوۡنَ ) (۴۳:۷۴) اور جَرَمَ (ض) کے متعلق فرمایا: (لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شِقَاقِیۡۤ اَنۡ یُّصِیۡبَکُمۡ ) (۱۱:۸۹) میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کام نہ کرادے کہ … تم پر واقع ہو۔ یہاں اگر یَجْرِمَنَّکُمْ فتحہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو بَغَیْتُہٗ مَالاً کی طرح ہوگا اور اگر ضمہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو اَبْغَیْتُہٗ مَالاً (یعنی میں نے مال سے اس کی مدد کی) کے مطابق ہوگا۔ (لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا) (۵:۸) اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ اور آیت کریمہ: (فَعَلَیَّ اِجۡرَامِیۡ) (۱۱:۳۵) تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر۔ میں ہوسکتا ہے کہ اِجْرام (بکسرالہمزہ) باب افعال سے مصدر ہو اور اگر اَجْرَام (بفتح الہمزہ) پڑھا جائے تو جَرْمٌ کی جمع ہوگی۔ (2) جور جرم بمعنی قطع سے بطورِ استعارہ کہا جاتا ہے: جَرَمْتُ صُوْفَ الشَّاۃِ: میں نے بھیڑ کی اُون کاٹی۔ تَجَرَّمَ اللَّیْلُ۔ رات ختم ہوگئی۔ اَلْجِرْم: (جسم) اصل میں یہ بمعنی مَجْرُوْم ہے یعنی قطع کیا ہوا۔ جیسے : نِفْضُ وَنِقْضُ بمعنی منفوض و منقوض کے آتا ہے۔ پھر یہ جسم پر بولا جاتا ہے اور فَلَان حَسَنُ الجِرْم کے معنی ہیں کہ خوبصورت ہے، جیساکہ حَسَنُ السَّخَا کا محاورہ ہے اور حَسَنُ الجرم کے معنی حسن صوت بھی آتے ہیں اور اس میں درحقیقت جرم سے محل صوت کی طرف اشارہ ہوتا ہے نہ کہ نفس صوت کی طرف لیکن اس سے آواز کی خوبصورتی بیان کرنا مقصود ہوتا یہ، اس لیے اس کے معنی حسن صوت کردئیے جاتے ہیں، جیساکہ اسی معنی میں طَیِّب الْحَلْقِ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے کہ حلق سے موت مراد لی جاتی ہے نہ کہ بذاتِ خود حلق مراد ہوتا ہے۔ اور آیت کریمہ: (لَاجَرَمَ) (۱۶:۱۰۹) کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لَااَصل میں محذوف پر داخل ہوا ہے، جیساکہ لَآاُقْسِمُ میں لا آتا ہے اور جیساکہ شاعر نے کہا ہے (3) ع (متقارب) (۸۹) لَاوَاَبِیْکُ ابْنَۃُ الْعَامِریِّ۔ اور جَرَمَ فعل ماضی ہے، جس کے معنی اَکَسَبَ وجَنٰی کے ہیں اس کے بعد اَنَّ لَھَمُ النَّارُ (جملہ) موضع مفعول میں ہے اور معنی یہ ہیں کہ اس نے اپنے لیے (دوزخ کی) آگ حاصل کی۔ بعض نے کہا ہے کہ جَرَمَ اور جُرْمٌ کے ایک ہی معنی ہیں لیکن لَا کے ساتھ جَرَمَ آتا ہے، جیساکہ قسم کے ساتھ عَمرو کا لفظ مختص ہے اگرچہ عَمْرٌ وعُمْرٌ کے معنی ایک ہی ہیں اور معنی یہ ہے کہ ان کے لیے آگ کا ہونا کسی کا جُرم نہیں ہوگا بلکہ یہ ان کے عملوں کی سزا ہوگی اور انہوں نے خود ہی اسے اپنے لیے حاصل کیا ہوگا، جیساکہ آیت: (وَ مَنۡ اَسَآءَ فَعَلَیۡہَا) (۴۱:۴۶) اور جو برے کام کرے گا۔ تو ان کا ضرر اسی کو ہوگا۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے۔ اس کی تفسیر میں اور بھی بہت سے اقوال منقول ہیں۔ (4) لیکن ان میں سے اکثر تحقیق کی رو سے صحیح نہیں ہیں اور اسی معنی کے لحاظ سے فرمایا: (فَالَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ مُّنۡکِرَۃٌ وَّ ہُمۡ مُّسۡتَکۡبِرُوۡنَ … لَاجَرَمَ اَنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا یُسِرُّوۡنَ وَ مَا یُعۡلِنُوۡنَ) (۱۶:۲۲،۲۳) تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکتھے، ان کے دل انکار کررہے ہیں اور وہ تکبر کرتے ہیں اور جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں خدا ضرور اس کو جانتا ہے۔ (لَاجَرَمَ اَنَّہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ) (۱۶:۱۰۹) کچھ شک نہیں کہ یہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والے ہوں گے۔
Words | Surah_No | Verse_No |
مُجْرِمِيْنَ | سورة التوبة(9) | 66 |
مُجْرِمِيْنَ | سورة هود(11) | 52 |
مُجْرِمِيْنَ | سورة هود(11) | 116 |
مُجْرِمِيْنَ | سورة الدخان(44) | 37 |
مُجْرِمِيْهَا | سورة الأنعام(6) | 123 |
مُّجْرِمُوْنَ | سورة الدخان(44) | 22 |
مُّجْرِمُوْنَ | سورة المرسلات(77) | 46 |
مُّجْرِمِيْنَ | سورة الجاثية(45) | 31 |
مُّجْـرِمِيْنَ | سورة الذاريات(51) | 32 |
مُّجْرِمِيْنَ | سورة الأعراف(7) | 133 |
مُّجْرِمِيْنَ | سورة يونس(10) | 75 |
مُّجْرِمِيْنَ | سورة الحجر(15) | 58 |
مُّجْرِمِيْنَ | سورة سبأ(34) | 32 |
يَجْرِمَنَّكُمْ | سورة المائدة(5) | 2 |
يَجْرِمَنَّكُمْ | سورة المائدة(5) | 8 |
يَجْرِمَنَّكُمْ | سورة هود(11) | 89 |