اَلْھَلَاکُ: یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا: ۔ (ہَلَکَ عَنِّیۡ سُلۡطٰنِیَہۡ) (۶۹۔۲۹) ہائے!میری سلطنت خاک میں مل گئی۔دوسرے (۲) یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تعبیر پیدا ہوجانا۔جیسا کہ طعام (کھانا) کے خراب ہونے پر ھَلَکَ الطَّعَامُ بولا جاتا ہے۔قرآن پاک میں ہے۔ (وَ یُہۡلِکَ الۡحَرۡثَ وَ النَّسۡلَ) (۲۔۲۰۵) اور کھیتی کو برباد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردے۔ (۲) موت کے معنی میں جیسے فرمایا: ۔ (اِنِ امۡرُؤٌا ہَلَکَ ) (۴۔۱۷۷) اگر کوئی ایسا مرد مرجائے۔اور قرآن پاک نے کفار کے قول کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا: (وَ مَا یُہۡلِکُنَاۤ اِلَّا الدَّہۡرُ) (۴۵۔۲۴) اور ہمیں تو زمانہ ماردیتا ہے۔قرآن پاک میں ہلاکت کا لفظ بری موت کے لئے استعمال ہوا ہے صرف آیت (۲۔۲۵) اور آیت (وَ لَقَدۡ جَآءَکُمۡ یُوۡسُفُ مِنۡ قَبۡلُ بِالۡبَیِّنٰتِ فَمَا زِلۡتُمۡ فِیۡ شَکٍّ مِّمَّا جَآءَکُمۡ بِہٖ ؕ حَتّٰۤی اِذَا ہَلَکَ قُلۡتُمۡ لَنۡ یَّبۡعَثَ اللّٰہُ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ رَسُوۡلًا) (۴۰۔۳۴) اور پہلے یوسف علیہ السلام بھی تمہارے پاس نشانیاں لے کر آئے تھے تو جو وہ لائے تھے اس سے تم ہمیشہ شک ہی میں رہے یہاں تک کہ جب وہ فوت ہوگئے تو تم کہنے لگے کہ خدا اس کے بعد کوئی پیغمبر نہیں بھیجے گا۔میں موت کے معنی مراد ہیں۔چہارم (۴) یہ کہ کسی چیز کا اس دنیا سے کلی طور پر معدوم ہوجانا۔اور یہی معنی فنا کے ہیں جس کی طرف کہ آیت: (کُلُّ شَیۡءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجۡہَہٗ) (۲۸۔۸۸) اسکی ذات (پاک) کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔میں اشارہ پایا جاتا ہے۔ (۵) عذاب،خوف اور فقر پر بھی ہلاکت کا لفظ بولا جاتا ہے۔چنانچہ آیات: ۔ (وَ اِنۡ یُّہۡلِکُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ) (۶۔۲۶) مگر ان باتوں سے اپنے آپ ہی کو ہلاک کرتے ہیں اور اس سے بے خبر ہیں۔ (وَ کَمۡ اَہۡلَکۡنَا قَبۡلَہُمۡ مِّنۡ قَرۡنٍ ) (۱۹۔۷۴) اور ہم نے ان سے پہلے بہت سی امتیں ہلاک کردیں (وَ کَمۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَا ) (۷۔۴) اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کرڈالیں۔ (فَکَاَیِّنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَا) (۲۲۔۴۵) اور بہت سی بستیاں ہیں کہ ہم نے ان کو تباہ کر ڈالا۔ (اَتُہۡلِکُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَہَآءُ مِنَّا) (۷۔۱۵۵) کیا تو اس فعل کی سزا میں جو ہم سے بے عقل لوگوں نے کیا ہے ہمیں ہلاک کردے گا؟میں بھی یہی معنی مراد ہیں۔اور آیت: ۔ (فَہَلۡ یُہۡلَکُ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ) (۴۶۔۳۵) سواب وہی ہلاک ہوں گے۔جونافرمان تھے۔میں ہلاکت سے ہلاکت کبری یعنی عذاب مراد ہے۔جس کے متعلق آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا (۱۵۹) (لَاشَرَّ کَثَرِ بَعْدَہُ النَّارُآ کہ اس شر کے برابر کوئی شر نہیں ہے جس کے بعد دوزخ کا سامنا ہو اور فرمایا: ۔ (ومَا شَہِدۡنَا مَہۡلِکَ اَہۡلِہٖ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوۡنَ ) (۲۷۔۴۹) اور ہم تو اس کے گھر والوں کے موقعہ ہلاکت پر گئے ہی نہیں۔اَلْھُلْکُ کے معنی ہلاک کرنے کے ہیں اور جو چیز مُؤَدِّیْ اِلَی الْھَلَاکِ یعنی موجب ہلاکت ہو اسے تَھْلُکَۃَ کہا جاتا ہے۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے: ۔ (وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ) (۲۔۱۹۵) اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔اور اِمْرَئَ ۃٌ ھَلُوْکٌ کے معنی نازک خرام عورت کے ہیں۔گویا وہ چلتے وقت زمین پر گری پڑتی ہے شاعر نے کہا ہے (1) (الطویل) (۴۵۴) (مَرِیْضَاتُ اَوْبَاتِ التَّھَادِیْ کَاَنَّمَا تَخَافُ عَلٰی اَحْشَائِھَا اَنْ تَقَطَّعَا) وہ عورتوں کے درمیان مریض کی طرح لڑکھڑا کر اس انداز سے چلتی ہے گویا اسے اپنی کمر یا انتٹریوں کے کٹ جانے کا اندیشہ ہے۔اور کنایۃ کے طور پر ھَلَوْکٌ کا بدکار عورت کو کبھی کہتے ہیں کیونکہ وہ مائل ہوکر خراماں خراماں چلتی ہے۔اَلْھَالِکِیُّ اصل میں یہ ھَالِکَۃٌ قبیلہ کے ایک آہنگر کا نام تھا پھر اس مناسبت سے ہر آہنگر کو ھَالِکِیٌّ کہا جانے لگا ہے۔اَلْھُلْکُ: (ایضاً) برباد ہونے والی چیز۔
Words | Surah_No | Verse_No |
مُهْلِكُوْهَا | سورة بنی اسراءیل(17) | 58 |
مُهْلِكُوْٓا | سورة العنكبوت(29) | 31 |
نُهْلِكِ | سورة المرسلات(77) | 16 |
نُّهْلِكَ | سورة بنی اسراءیل(17) | 16 |
هَالِكٌ | سورة القصص(28) | 88 |
هَلَكَ | سورة النساء(4) | 176 |
هَلَكَ | سورة الأنفال(8) | 42 |
هَلَكَ | سورة مومن(40) | 34 |
هَلَكَ | سورة الحاقة(69) | 29 |
وَاَهْلَكْنَا | سورة الأنبياء(21) | 9 |
وَيُهْلِكَ | سورة البقرة(2) | 205 |
يُهْلَكُ | سورة الأنعام(6) | 47 |
يُهْلَكُ | سورة الأحقاف(46) | 35 |
يُهْلِكُنَآ | سورة الجاثية(45) | 24 |
يُهْلِكُوْنَ | سورة التوبة(9) | 42 |
يُّهْلِكَ | سورة الأعراف(7) | 129 |
يُّهْلِكَ | سورة المائدة(5) | 17 |
يُّهْلِكُوْنَ | سورة الأنعام(6) | 26 |